رپورٹ دورہ حضور انور

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ویزبادن میں میڈیا کے نمائندوں کی پریس کانفرنس

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء

………………………………………………

14؍اکتوبر2019ءبروزسوموار (حصہ دوم آخر)

………………………………………………

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کانفرنس ہال میں تشریف لے آئے۔ جہاں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے نمائندے موجود تھے اور حضورِانور کی آمد کے منتظر تھے۔ آٹھ بج کر چالیس منٹ پر پریس کانفرنس کا آغاز ہوا۔

پریس کانفرنس ویز بادن

٭…ایک صحافی نے سوال کیا کہ یہ آپ کا ویزبادن کا دوسرا دورہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم آپ نے اس شہر کی کتنی سیر کی ہے، لیکن آپ کو یہ شہر کیسا لگا ہے؟

اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایاکہ میں نے اتنی سیر تو نہیں کی لیکن مسجد سے آتے ہوئے کافی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ بہت بڑا اور خوبصورت شہر ہے۔ مجھے یہ اچھا لگاہے۔
٭…ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ خوف اور بدامنی کے خلاف بات کرتے آئے ہیں۔ لوگوں کے لیے آپ کا پیغام کیا ہے؟

اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ لوگوں کو تو میں پیغا م دے چکا ہوں۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ لوگوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تحفظات ہیں اور اس کی وجہ بعض مسلمان گروہوں کے غلط اقدامات ہیں۔ لیکن اسلامی تعلیم بہت پرامن ہے اور یہ معصوم لوگوں پر اس قسم کے مظالم کے خلاف ہے۔ اسلام ہمیں قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم ایک پرامن جماعت ہیں اور اسلام کی حقیقی تعلیمات پر کاربند ہیں۔ تو میرا پیغام یہی ہے کہ اس شہر، قصبہ یا علاقہ کے لوگوں کو بالکل گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں احمدی مسلمانوں کے حوالہ سے کوئی تحفظات نہیں ہونے چاہئیں۔ ہم ایک پرامن جماعت ہیں اور ہم اس لیے پرامن ہیں کہ ہم حقیقی اسلامی تعلیم پر عمل کرتے ہیں۔

٭…ایک نمائندہ نےسوال کیا کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی تقریر خاص طور پر جرمن لوگوں کے لیے تھی کیونکہ اس ملک میں بہت سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتہ ایک شخص نے یہودی معبد پر حملہ کی کوشش کی تھی۔ کیا آپ نے اپنی تقریر میں خاص طور پر جرمن لوگوں کو مدِ نظر رکھا ہے؟

اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں نے تقریر کے لیے کوئی خاص تیاری نہیں کی تھی۔ میں نے تو صرف اسلام کی پرامن تعلیم بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ صرف یہاں ہی نہیں بلکہ تمام غیر مسلم دنیا میں عوام الناس میں یہی تاثر ہے کہ مسلمان مظالم کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہی ہیں جو جہاد کے نام پر ظلم و بربریت اور قتل و غارت کررہے ہیں۔ جہاں بھی میں گیا ہوں میں نے یہی بات دیکھی ہے۔ تو یہ خاص طور پر جرمن افراد کو سامنے رکھتے ہوئے بات نہیں کی، جہاں بھی میں جاتا ہوں وہاں اسلام کی پرامن تعلیم کے بارے میں لوگوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں تو تقریر کے لیے تیار بھی نہیں تھا۔ جب میں کھڑا ہوا تو مسجد کے مقاصد بیان کرنے لگا اور پھر ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی جو لوگوں کے ذہنوں میں مسلمانوں سے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی باقاعدہ تیار کی ہوئی تقریر نہ تھی اور نہ ہی یہ میرے ذہن میں تھا کہ میں جرمن لوگوں کو کوئی مخصوص پیغام دوں۔ میں نے تو سادہ الفاظ میں اسلام کی پرامن تعلیم بیان کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ ہمارا ایمان اور ہمارے عمل کیا ہیں۔

٭…ایک دوسرے نمائندہ نے سوال کیا کہ میں نہیں جانتا کہ آپ سیاسی صورت حال پر کوئی بات کرنا چاہیں گے کہ نہیں۔ لیکن گذشتہ ہفتہ ترکی نے سیریا کے کچھ حصوں پر حملہ کیا ہے۔ آپ اس حوالہ سے کیا کہیں گے؟

اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ کردوں اور ترکی حکومت کے درمیان حالیہ کشیدگی میری نظر میں ایک ظالمانہ اقدام ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ اس کی وجہ کوئی سیاسی ہے یا پھر ترک لوگوں کے دلوں میں کرد لوگوں کی دشمنی ہے، لیکن یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ معصوم شخص کو قتل کرنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کےمترادف ہے۔ اس لیے میں تو اسے پسند نہیں کرتا۔ کردوں اور ترکوں کے درمیان جو بھی تنازعات ہیں، یہ بیٹھ کر، بات چیت کرکے، میٹنگز کرکے حل کیے جاسکتے ہیں۔ جہاں ترکوں نے اب فضائی اور زمینی حملے کیے ہیں، اسلام تو اس کی کسی صورت اجازت نہیں دیتا۔

ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے انٹیگریشن کے حوالہ سے بات کی ہے۔ آپ کی نظر میں انٹیگریشن کیا ہے اور اس حوالہ سے احمدیہ جماعت کا مشن کیا ہے؟

اس پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا کہ لوگوں نے اس ملک کی طرف ہجرت کی ہے اور جرمن لوگوں نے اور جرمن حکومت نے انہیں یہاں آنے کی اجازت دی ہے، یہاں رہنے اور زندگی بسر کرنے کی اجازت دی ہے، ان کو اپنے معاشرہ کا حصہ بنایا ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ تو اب جرمن نیشنلٹی لے چکے ہیں۔ اب جبکہ وہ اس ملک کے نیشنل ہیں تو انہیں ایسے ہی رہنا چاہیے جیسا کہ کسی ملک کا وفادار شہری ہوتا ہے۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے کہ ملک سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اب حقیقی مسلمان ہونے کے ناطے اور جرمن نیشنل ہونے کے ناطے ان کا فرض ہے کہ یہ اپنے معاشرے اور اپنی قوم کی بہتری اور فلاح و ترقی کے لیے کام کریں۔ میری نظر میں حقیقی انٹیگریشن یہی ہے۔ انٹیگریشن کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب کلبوں میں جائیں اور یہ کہ اگر کلبوں میں نہ جائیں اور شراب وغیرہ نہ پئیں اس وقت تک انٹیگریشن نہیں ہوتی یا اگر خواتین حجاب لے رہی ہیں تو اس سے انٹیگریشن متاثر ہوگی۔ اگر آپ ملک اور قوم سے وفادار ہیں تو آپ مکمل طور پر انٹیگریٹ کرچکے ہیں۔

یہ پریس کانفرنس قریباً نو بجے اختتام کو پہنچی۔

بعد ازاں یہاں سے واپس بیت السبوح فرنکفرٹ کے لیے روانگی ہوئی۔ ساڑھے نو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیت السبوح تشریف آوری ہوئی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گا ہ پر تشریف لے گئے۔

مہمانوں کے تاثرات

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب نے مہمانوں پر گہرےاثرات چھوڑے بہت سے مہمانوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔مہمانوں کے تأثرات پیش ہیں۔

٭…ڈاکٹر ہارٹ مَن صاحب ( Dr.Hartmann) اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لوگ جتنے بھی کھلے ذہن کا دعویٰ کریں مگر پھر بھی ان کے ذہنوں میں تحفظات موجود ہوتے ہیں اور امام جماعت احمدیہ کی گفتگو تو تحفظات دور کرنے والی تھی مگر ان کی شخصیت کا اثر کچھ ایساعاجز اور ہمدرد انسان کا تھا کہ مجھے لگ رہاتھا کہ ان سے کوئی بھی سوال پوچھا جاسکتا ہے اور ایسے شخص سے بات کرنے کے بعد دل میں کوئی تحفظات اور فاصلے نہیں رہتے۔

٭…میڈیا نمائندگان میں سےSat -1 جو ایک بڑا TVچینل ہے اس کے نمائندہ مسٹر گیرٹ ( Mr. Gerrit) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اول تو مجھے اتنے بڑے پیمانے پر تقریب کے انعقاد پر حیرت ہے اور اس پر جس بھائی چارے باہمی محبت اور حسن انتظام سے آپ کے افراد اس کے انعقاد کے لیے کام کررہے ہیں، وہ میرے لیے بالکل ناقابل یقین ہے، مگر مجھے یقین کرنا پڑے گا کیونکہ میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔

٭…ویز بادن ہسپتال کی ڈاکٹر فیراری (Dr.Ferrari) صاحبہ کہتی ہیں کہ میں آج کی تقریب میں شمولیت اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہوں اور امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے مجھے جو تعلیم اور پیغام ملا ہے اس کو میں اپنے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی اولاد کے لیے بھی ضروری خیال کرتی ہوں۔ مذہب و ملت سے بالا تر ہو کر انسانی دکھوں میں ہمدردی کرنا اور مٹتی ہوئی انسانی قدروں کا قیام ہی اس وقت بین الا قوامی محبت اور یگانگت کے لیے لازمی امر ہیں اور اس تقریر نے ہر پہلو سے اس ضرورت کو اُجاگر کیا ہے۔

٭…سٹی پولیس کے ایک نمائندے نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی جماعت کی پرامن اور بنی نوع انسان سے محبت کرنے کی عام شہرت سے تو میں واقف تھا اور شہر کی عوام بھی جانتی ہے مگر آج اس مسجد کے بننے کے بعد اس تعلیم کو ایک وجودمل گیا ہے جسے لوگ مسجد کی شکل میں آتے جاتے دیکھ بھی لیا کریں گے۔ اور اس طرح آپ کی جماعت کی امن اور محبت کی تعلیم کا جسمانی اور مادی اظہار بھی شہر میں مسجد کی صورت میں مشاہدہ کیا جا سکے گا۔ امام جماعت احمدیہ نے جس محبت اور بھائی چارے کا پیغام اپنی تقریر میں دیا ہے مسجد اسی پیغام امن و آشتی کی عملی صورت ہےاور خوشی کی بات ہے کہ آپ نے اس کی افتتاحی تقریب میں ہر طبقے کو مدعو کیا ہے۔

٭…مائینز شہر سے ایک چرچ کے نمائندے مسٹراینگن برگر(Mr. Angenberger)صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امام جماعت احمدیہ نے ہمسائے کے حقوق کے حوالے سے جو اسلامی تعلیم تفصیل کے ساتھ پیش کی ہے یہ میرے لیے بالکل نئی اور دلچسپ تھی اور مذہبی شخصیات سے اس حد تک ہمسائے کے حق کی تا کید میں نے پہلی بار سنی ہے۔

٭…ایک سیاسی جماعتSPDکے نمائندے نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امام جماعت احمدیہ نے اسلام کی پر امن تعلیم اور بنی نوع انسان کے سماجی حقوق پر اتنی تاکید کو اپنی تقریر کا موضوع بنا کر ہمارے لیے اسلام اور مسلمانوں کو پر امن سمجھنا آسان کر دیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ اس سے معاشرے میں باہمی محبت اور بھائی چارے کی فضا کو مزید فروغ ملے گا۔

٭…ایک خاتون صحافی مس ورنر (Miss Werner) کہتی ہیں کہ مجھے افتتاح سے پہلے سنگ بنیاد کی تقریب میں بھی امام جماعت احمدیہ اور ان کی بیگم صاحبہ سے ملاقات کا موقع ملا تھا۔ دونوں محبت کا پیغام عام کرنے والے وجود ہیں۔ اگر لوگ ایسی تعلیم پر عمل کرنا شروع کر دیں تو معاشرہ امن و آشتی کا عملی نمونہ بن سکتا ہے۔

٭…اسی شہر سے شامل ہونے والی ایک خاتون مس میری(Miss Mari)نے کہا کہ امام جماعت احمدیہ شہریوں کے حقوق اور ہمدردی کے بارے میں دلی جذبات سے بھر پوربات کرتے ہیں اور ان کی تقریر سے ان کی ذات میں ہمدردی اور محبت کا اندازہ ہوتا ہے جو ان کو ہر انسان سے ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہوں۔ مجھے ان کی بلا امتیاز مذہب و ملت ہمدردی اور محبت بنی نوع انسان کی تعلیم بہت پسند آئی ہے۔

٭…انٹیگریشن کمشنر مسٹر کرسٹوف مانجورا(Mr . Christoph Manjura) نے یاد دلایا کہ سنگ بنیاد کی تقریب والے دن بھی بارش ہو رہی تھی مگر امام جماعت احمدیہ کی تشریف آوری کے ساتھ ہی مطلع صاف ہو گیا اور سورج نکل آیا اور تقریب کے انتظامات میں سہولت رہی اور آج بھی دن بھر سورج نکلا رہا اور کل سے پھر بارش کی پیش گوئی ہے۔

٭…اسی طرح مسٹر ہانس پیٹر (Mr.Hans Peter) بھی انٹیگریشن کے شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امام جماعت احمدیہ کی اس تقریر کی ہر طبقے میں اشاعت ہونی چاہیے کہ لوگ جان سکیں کہ صرف زبانی دعوے کچھ اہمیت نہیں رکھتے جب تک عملی رنگ میں انسانی قدروں کی پاسداری کر کے نہ دکھائی جائے۔ مجھے جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمدیہ اپنے قول و فعل میں مطابقت کی وجہ سے بہت عزیز اور قابل احترام لگتے ہیں۔ اور میں چاہتاہوں کہ معاشرے کے دیگر طبقات بھی انسانی قدروں کے احترام میں اسی نقطہ نظر کو فروغ دیں۔

٭…ایک مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی حلقوں سے اگر ایسی تعلیم ملے جس کا اظہار آج امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے ہوا ہے تو معاشرے میں انسانی قدروں کا احترام قائم ہو سکتا ہے۔ چرچ کو بھی ایسانقطہ نظر عام کرنا ہو گا۔ ابھی چرچ بہت سے سوالوں سے آنکھیں چراتا ہے جب کہ امام جماعت احمدیہ نے ہر ممکنہ سوال اور اعتراض کو لے کر کئی زاویوں سے اس کے جوابات دیے اور بے خوف وضاحت کے ساتھ اسلام کے نقطۂ نظر کی وضاحت کی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کی ہر وضاحت اور تشریح انسانی معاشرے کو امن، صلح اور محبت کی طرف لے جانے والی ہے۔

٭…ڈا کٹر اسامہ ابو حسن کہتے ہیں کہ آپ کے خلیفہ نے اصل اسلامی تعلیم اور حقیقی اسلام کا دل نشیں چہرہ دکھا کر اسلام کے بارے میں غلط فہمی دور کرنے کے علاوہ عامۃ الناس کے دلوں سے اسلام کا خوف اور ڈر اُتار دیا ہے۔

٭…ایک مہمان محترمہ عائشہ صاحبہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں نے اسلام کی تصویر اور طرح سے دیکھی ہے مگر آج کی تقریب نے مجھے اور طرح سے اسلام کا تعارف کروایا ہے۔ جو اتنادلکش ہے کہ میری خواہش ہے کہ میں آئندہ بھی ایسی تقاریب میں شامل ہو سکوں۔

٭…محترمہ ہائیک براڈر (Heik Brader) صاحبہ کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے خدا کو ساری دنیا کارب بتایا۔ رب العالمین جیسا تعارف رکھنے والے وسیع تر تصور خدامیں مجھے بہت دلچسپی نظر آئی۔ اور حیرت انگیز بات یہ ہےکہ خدا ایک اور واحد ہوتے ہوئے بھی سب مذاہب اور سارے انسانوں اور قوموں کا خدا ہے اور سب کو بلاامتیاز پالتا ہے۔

٭…ایک لاء فرم سے آئے ہوئے وکیل(Joachim Macholdt) کہتے ہیں جماعت احمدیہ کی سوچ کی وسعت پر میں اور میرا دفتر یکساں حیرت رکھتے ہیں اور آج امام جماعت احمدیہ نے ہمسائے کے حقوق بیان کرتے ہوئے ہمسائے کی تعریف میں جو وسعت بیان کی ہے اور شہر کا شہر اس وسعت میں سما گیا ہے، یہ بات ہماری پہلی حیرت پر ایک اور حیران کن اضافہ ہے۔ اس طرح اہل شہر کے لیے جماعت احمدیہ کی ہمدردی اور خبر گیری کا دائرہ اور وسیع ہو گیا ہے۔

٭…محترمہ مائیکے ہینیگ سن (Maike Henningsen) صاحبہ جو ایک NGOکی سربراہ ہیں کہتی ہیں کہ میں یہاں کی مہمان نوازی سے نہایت متاثر ہوئی ہوں اور خلیفہ کے الفاظ نے واضح کیا کہ آپ ساری دنیا کے لیے نیک تمنائیں رکھتے ہیں اور تمام مذاہب سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ خلیفہ کی تقریر کے تمام نکات قابل تعریف ہیں اور بہت ہی دلچسپ تھے۔

٭…ڈینیس میر س (Dennis Merz) صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے تمام مقررین کو سنا مگر جب امام جماعت احمدیہ مائیکروفون کے سامنے کھڑے ہوئے تو ایک اور قسم کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ کی آواز اور آپ کا لہجہ سب سے منفرد تھا جس کا میں خود پر ایک روحانی اثر محسوس کر رہاتھا اور بڑے غور سے آپ کا خطاب سنا۔ جو پیغام آپ نے ہمیں دیا وہ صرف اسلام کے بارہ میں نہیں تھا بلکہ ساری دنیا کے لیے ایک بہت اہم تعلیم تھی۔

٭…ایک خاتون محترمہ نین(Nan) صاحبہ نے کہا کہ آپ کے خلیفہ نے خدمت خلق کے حوالہ سے جتنی وضاحت اور زور دےکر بات کی ہے وہ میرے لیے حیران کن ہے کیونکہ ایسا ممکن نہیں اگر کہنے والا خود ہمدردیٔ خلق کے گہرے جذبات نہ رکھتاہو۔

٭…کیتھولک چرچ کے ایک پادری نے کہا کہ میں نے آج تک اتنی اچھی تقریر نہیں سنی۔ تمام نکتہ ہائے نظر جو امام جماعت احمدیہ نے بیان کیے ہیں، میں ان سے کامل اتفاق رکھتا ہوں ۔ دوسروں سے محبت کرنا اور خدا کے حقوق ادا کر نایہ سب باتیں میری تعلیم میں بھی ہیں۔ اسی طرح میں نے آج تک اسلام کے خدا پر اتنا گہرا اور بسیط تبصرہ نہیں سنا جو خدا کی وحد انیت کے کامل دعوے کے ساتھ اسی خدائے واحد کو دنیا کے تمام مذاہب، ممالک اور انسانی معاشروں کا پالنے والا خدا قرار دیتا ہے اور اپنی خبر گیری اور خیر پہنچانے کے لیے اہل زمین میں اپنے بیگانے اور مذہب وملت کا امتیاز روا نہیں رکھتا۔

کاش! دنیا کے تمام لیڈر اس طرح کی تقاریر کرتے تو آج دنیا میں امن قائم ہوتا۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ وہ جماعت احمدیہ سے رابطہ میں رہنا چاہتا ہے اور مسجد کو ضرور دیکھنے آئے گا۔

٭…ایک خاتون باؤور( Bauer) صاحبہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کا ہال میں ورود اپنے ساتھ ایک انسپائریشن لےکر آیا۔ میرے لیے یہ ایک بہت بڑے اعزاز کا باعث ہے کہ میں ایک ایسی بابرکت محفل میں شامل ہوسکی۔ بعض تحفظات و غلط فہمیاں جو میرے ذہن میں تھیں وہ امام جماعت احمدیہ نے اپنے واضح مؤقف اور اسلامی تعلیم کی حقیقی تشریح و تفصیل سے دور فرمادیں۔ اب میرے لیے بہت کچھ واضح ہو چکا ہے جو طمانیت آپ کے وجود سے ظاہر ہورہی تھی اس کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں کیونکہ اس کا تعلق محسوسات سے ہے۔

٭…ایک جرمن خاتون نے اپنا تأثر بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے خلیفہ کی شخصیت سے یہ بات نظر آتی ہے کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں اس پر آپ عمل بھی کرتے ہیں۔ اس سے ان کا وجود میرے لیے سند کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔

جرمنی کے بہت سے سیاست دان جیسے زے ہوفر (Seehofer) (موجودہ وزیر داخلہ ) اور ان جیسے دیگر لوگوں کو چاہیے کہ وہ آپ کے خلیفہ کے ارشادات سے استفاده کریں۔ آپ کی تقریر بہت مؤثر اور حالات حاضرہ کی ضرورت تھی۔ میں آپ کی دعوت کی دلی مشکور ہوں۔

٭…Stroheصاحب جو کہ جماعت احمدیہ کے بہت گہرے دوست ہیں اور کچھ عرصہ فوج میں بطور پادری کے خدمت کرتے رہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ پہلی بات جس کا میں ذکر کر نا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ حضور اقدس کا وجود عاجزی سے بھرا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ میں اس بات سے حیران ہوں۔ آپ کے خطاب کا انداز اور موضوع بالکل واضح تھا یعنی مجھے یہ لگا کہ یہ تقریر بہت اچھی تحقیق پر مبنی ہے اور ہمارے معاشرے کا بہترین تجزیہ ہے اور بڑے اعلیٰ رنگ میں بیان ہوا ہے۔ خاص طور پر 2 باتیں اس خطاب میں واضح کی گئیں، پہلی بات اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنا اور دوسری بات انسانوں کے حقوق ادا کرنا۔ ہماری دنیا کے لیے فی الحال یہی سب سے بڑا کام ہے۔

٭…ڈاکٹر Rashid Delbastehصاحب جو شہر ویز بادن کے کونسل کے ممبر ہیں بیان کرتے ہیں کہ انہیں آج اس تقریب میں شامل ہو کر بہت اچھا محسوس ہوا۔ میں خود بھی مسلمان ہوں لیکن آپ لوگوں کی جماعت مجھے بہت پسند ہے کیونکہ آپ لوگ صرف آپس میں ہی نہیں ایک دوسرے سے امن اور پیار سے پیش آتے بلکہ مہمانوں سے بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔

موصوف حضور انور کے بارہ میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ میرے نزدیک ایک خاص شخصیت ہیں۔ بہت آسانی سے انسان ان کے بارہ میں کہہ سکتا ہے کہ وہ حقیقت میں خلیفۂ وقت ہیں۔ مجھے پہلے مسجد میں انہیں دیکھنے کا موقع ملا اور اب ادھر بھی میں نے انہیں قریب سے دیکھا تو بہت خوشی ہوئی اور یہی مجھے واضح ہوا کہ حقیقت میںیہ ایک خلیفہ ہی ہیں۔

٭…Susanne Kleinschmidtصاحبہ جو ٹیچر ہیں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آج کی تقریب نہایت دلچسپ تھی کیونکہ مجھے خاص طور پر جماعت احمدیہ کا تعارف ہوا۔ اس بات نے مجھ پر بہت گہرا اثر چھوڑا جو خلیفۂ وقت نے اتنا واضح کیا کہ اسلام ایک امن والامذ ہب ہے۔ خلیفہ صاحب کاخطاب بہت ہی متاثر کن تھا۔ جو بات مجھے اس خطاب میں سب سے اچھی لگی وہ یہ تھی کہ ہم سب انسانوں کا خالق ایک ہی ہے اور ہم سب ایک ہی خدا پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ بات ہم سب کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔

٭…Uta Brehmصاحبہ جو Die Grüne پارٹی ویزبادن کی صد رہیں کہتی ہیں کہ سب سے زیادہ آج مجھے آپ کے خلیفۃ المسیح کا خطاب پسند آیا کیو نکہ وہ بہت ہی متاثر کن تھا۔ خاص طور پر مجھے یہ بات حیرت انگیز لگی کہ وہ مذ ہبی سر براہ ہو کر صرف مذہبی امور پر نہیں بات کر رہے تھے بلکہ اتنا وسیع خطاب تھا۔ انہوں نےsocio-political موضوعات پر خطاب کیا جو ہر ایک کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔
٭…ایک خاتون نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ بات نہایت ہی پسند آئی کہ his holinessنے اپنے خطاب میں وہ باتیں کھل کر بتادیں جن کی وجہ سے آج کل اسلامی دنیا میں مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ بہت ہی اچھے طریق میں his holinessنے وا ضح کر دیا کہ اصل میں تو اسلام نے امن پھیلانا ہے۔ جو آج اسلام کی تعلیم بتائی گئی، یہ تو پوری دنیامیں پھیلانی چاہیے یعنی یہ کہ اصل میں رواداری بھی اسلام میں پائی جاتی ہے اور اس طرح سے امن قائم کیا جاسکتا ہے۔

٭…Michael Davidصاحب جو ویزبادن شہر کے deputy councillor ہیں کہتے ہیں کہ آج کی تقریب نہایت ہی کامیاب رہی ہے۔ خاص طور پر جو امام جماعت نے خطاب میں بیان کیا کہ تمام مذاہب کے لوگوں کو اور تمام انسانوں کو آپس میں امن سے مل جل کر رہنا چاہیے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو آج کل کے زمانہ میں نہایت خاص اہمیت رکھتی ہے۔

٭…Conny Kuippel صاحبہ جن کا تعلق Die Grüne پارٹی سے ہے اور جو شہر ویزبان کے پارلیمنٹ میں شعبہ integrationمیں کام کرتی ہیں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ مجھے خلیفہ کا خطاب نہایت حوصلہ افزا محسوس ہوا اور میرے دل کو اس سے مسرت ہوئی۔ ایک بات خلیفہ کی جو میرے لیے بھی نہایت اہم ہے اور مجھےکبھی بھولے گی نہیں وہ یہ تھی کہ تمام احمدیوں کو اپنے ماحول کے لیے مفید وجود بننا چاہیے ۔ اس بات پر صرف احمدیوں کو ہی نہیں بلکہ سب کوعمل کر نا چاہیے۔ اگر تمام مسلمان فرقے آپ احمدیوں کی طرح open minded ہوتے تو ہمارا آپس میں مل جل کر رہنا بہت آسان ہو جاتا۔

٭…Mario Bohrmann صاحب ایک صحافی ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے his holiness کا خطاب پسند آیا۔ انہوں نے تمام تعصبات جو آج کل کی دنیا میں اسلام کے بارہ میں پھیلے ہوئے ہیں جیسا کہ جہاد اُن کو دور کیا۔ خلیفہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو دل موہ لینے والی ہے۔ مجھے ابھی پریس کانفرنس میں بھی 2 سوال کرنے کا موقع ملا۔ یہی محسوس ہوا کہ آپ نہایت ہی پیار کرنے والے ہیں اور ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی بھی نظر آتی ہے۔

٭…Uwe Widera صاحب ایک سکول میں استاد ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے ادھر پہلی بار جماعت احمدیہ کا تعارف ہوا۔ ساری تقریب کا انتظام بہت اچھا تھا، خاص طور پر خلیفہ کا خطاب دلچسپ لگا۔ مجھے یہ بات بہت اہم لگی جو خلیفہ نے بیان کی ہے کہ رواداری پر زور دیا جائے اور دوسرے مذاہب کے لو گوں اور اسی طرح تمام انسانوں کے ساتھ پیار سے پیش آیا جائے۔ یہ آج کل کے معاشرہ میں بہت ہی کم ہو گیا ہے اور دوسرے مذاہب اس بات کو بھولتے چلے جارہے ہیں۔ لیکن آپ لوگ اس کو اہمیت دیتے ہیں۔ اب میں نے آپ لوگوں کی مسجد میں بھی ضرور جانا ہے اور میرے سارے جو سوالات پیداہورہے ہیں ان کو حل کروانا ہے۔

موصوف نے مزید حضور انور کے خطاب کے بارہ میں کہا کہ his holiness کا خطاب تو بہت ہی اچھا تھا اور یہ تمام دنیا کے ہر معاشرہ کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ جو خلیفہ نے باتیں بیان کی ہیں یہ آج کل دوسرے مذاہب والے بھولتے جارہے ہیں۔ اور اگر دنیا ان باتوں پر عمل کرناشروع کردے تودنیامیں جنگیں بالکل ختم ہوجائیں۔

٭…Heike Ebelصاحبہ دیزبادن کے سکول میں پڑھاتی ہیں اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ مجھے ایک بات جو بہت نمایاں دیکھنے کو ملی وہ یہ ہے کہ ادھر صرف امن اور پیار و محبت کی باتیں ہی نہیں کی جاتی بلکہ اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ آپ لوگ integration کو سمجھے ہیں اور اس کا اچھا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ خلیفہ مجھے حقیقت میں مقدس (holy) لگتے ہیں اور ایک حقیقی مذ ہبی لیڈر محسوس ہوتے ہیں۔ میرے اندر خلیفہ صاحب نے ایک تبدیلی پیدا کی ہے جو کہ ان کی خاص پاکیزگی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ان کے دل سے ایک نور نکلتا ہوا محسوس ہو تا ہے جو ہر ایک کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے والا ہے۔ خلیفہ ایک حقیقی روحانی شخصیت محسوس ہوتے ہیں اور میں انہیں بطور مقدس شخص تسلیم کر سکتی ہوں۔

٭…ایک خاتون بیان کرتی ہے کہ میں جماعت کو 10 سال سے جانتی ہوں اور ہمیشہ سے ہی آپ لوگ بہت پیار کرنے والے نظر آئے ہیں۔ خلیفہ کو لیکن پہلی بار دیکھنے کا موقع ملا اور یہ واضح ہوا کہ اگر ہر ایک انسان ایسی سوچ رکھنے والا ہو جائے تو دنیا میں امن قائم ہو جائے گا۔

٭…کیتھولک چرچ کا ایک ممبر بیان کرتا ہے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی بھی کسی مذہبی سربراہ کو اس بات پر اتنازور دیتے نہیں سنا کہ ہمسائے کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یہ پیار اور محبت والی تعلیم پیش کی گئی۔

٭…Klaus Bartelصاحب نے اپنے خیالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ امن قائم کرنے کے لیے سب سے اہم بات جو خلیفہ نے بھی بیان کی یہی ہے کہ قدروں کو مد نظر رکھا جانا چاہیے۔ مجھے اس بات کا علم تو تھا کہ اسلام میں مختلف فرق ہوتے ہیں۔ لیکن اس جماعت کا بہر حال نہیں پتہ تھاجواتنی امن پسند ہو۔

٭…Muktariصاحب جو کہ ویزبادن کی پولیس میں کام کرتے ہیں نے کہا کہ آج کا پروگرام یہ واضح کر رہا تھا کہ مسلمان اپنی ایک اور تصویر بھی دکھانا چاہتے ہیں کہ اسلام حقیقت میں ایک امن پسند مذہب ہے۔ خلیفہ نے یہ جوذ کر کیا کہ افریقہ میں بھی آپ لوگ مختلف projectsکرواتے ہیں مجھے بہت ہی اچھا لگا۔
٭…Mehmet Yilmaz صاحب بیان کرتے ہیں کہ خلیفہ کا یہ پیغام کہ آپس میں ہمسایوں کو تو خاص طور پر پیار اور محبت سے اکٹھارہنا چاہیے بہت ہی ضروری ہے۔ خلیفہ کو میں پہلے سے بھی جانتا ہوں کیونکہ پہلے بھی ان کی کتب میں نے پڑھی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ دوسرے مسلمان لیڈرز بھی اسی طرح امن پھیلائیں جس طرح خلیفہ امن کا پیغام پھیلا رہےہیں۔

٭…ایک evangelical theology professor کہتے ہیں کہ خلیفہ کا خطاب میرے لیے تو بہت ہی حیرت انگیز تھا۔ مجھے ایک ایسے اسلام کے نمائندہ کو جان کر بہت ہی خوشی ہوئی جو اتنا پیار اور محبت کی تعلیم کو پھیلا رہا ہے اور جس نے یہ بات بھی واضح کر دی کہ انسانیت سے پیار و محبت سے پیش آنا بھی عبادت ہے۔

٭…Gabriela Stochhalter Eiche صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آج کی تقریب مجھے بہت پسند آئی۔ خلیفہ کاخطاب نہایت دل گداز تھا۔ خاص طور پر جو پہلو آج کے معاشره میں ضروری ہیں ان کو خلیفہ نے واضح طور پر بیان کیا یعنی یہ کہ امن قائم کیا جائے، آپس میں محبت سے رہا جائے، ہمسایوں سے اچھا سلوک کیا جائے، غر یبوں کی مدد کی جائے جیسے افریقہ میں کنویں بنائے جاتے ہیں وغیرہ۔ خلیفہ مجھے تو ایک نہایت ہی امن پسند اور پیارو محبت والی شخصیت محسوس ہوئے۔
٭…Thomas Schwarzeصاحب جوایک سکول کے پرنسپل ہیں کہتے ہیں کہ آج کی تقریب ا یک حیرت انگیز تقریب ہے۔ ہر ایک ادھر اتنے پیار سے پیش آرہا ہے اور ہماری مہمان نوازی کر رہا ہے۔ مجھے تصور ہی نہیں تھا کہ آج کے دن مجھے ایک his holiness جیسی مقدس شخصیت کو دیکھنے کا موقع ملے گا۔ خلیفہ تو ایک ایسی شخصیت محسوس ہوتے ہیں جو بالکل جانتے ہیں کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں۔ ان کی بات کرنے کا انداز ہی اس طرح کا ہے کہ وہ بہت سے لوگوں کے دلوں پر اثر کر سکتے ہیں۔

٭…Gisine Wernerصاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آج مسجد کے افتتاح کی تقریب جو منعقد کی گئی ہے بہت اچھی تھی۔ خلیفہ بہت ہی پیار کرنے والے لگتے ہیں اور جو بات کرتے ہیں اس کا ہر ایک لفظ درست ہے اور اس پر یقین کرناچاہیے۔

٭…Wolfgang Nickel صاحب شہر و یزبادن کے پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ وہ اپنےتاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے آپ کے مختلف پروگرامز میں شامل ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ سنگ بنیاد کے موقع پر بھی میں شامل تھا۔ میں خلیفہ کو بہت غور سے دیکھتارہا ہوں اور ان کا خطاب بھی میں نے سنا۔ حیران کن بات ہے کہ کتنے سکون سے اور objective طریق سے وہ اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ جو باتیں انہوں نے کی ہیں اس سے زائد میں تو بہر حال نہیں کچھ کر سکتا۔

٭…ایک مسلمان خاتون بیان کرتی ہے کہ خلیفہ کے الفاظ بہت متاثر کن تھے۔ دنیا کے آج کے حالات اگر دیکھے جائیں تو ان کے الفاظ بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ مذہب کے ذریعہ سے آج ا من دوبارہ قائم کیا جاسکتا ہے۔

………………………………………………………………………

‘‘مسجد مبارک’’ویزبادن کے افتتاح کی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے کوریج دی۔ تین ٹی وی چینلز، سات اخبارات اور پانچ آن لائن میڈیا نےبھی خبر دی۔

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی اس کوریج کے ذریعہ 79لاکھ، 59ہزار 970 افراد تک پیغام پہنچا۔
Wiesbadener Tagblatt نے خبر دیتے ہوئے لکھا:

‘‘خلیفہ مرزا مسرور احمد نے کہا کہ ان کو اس بات کی خوشی ہے کہ شہر نے ان کا کھلے دل کے ساتھ استقبال کیا ہے۔ اکثر مساجد کے بارہ میں تعصبات اور خوف پائے جاتے ہیں۔ حالانکہ اگر مساجد میں انتہا پسندی پھیلائی جائے تواس کی وجہ اسلام نہیں۔ انسانی اقدار کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ قرآن کریم میں ہمسائے کے بہت حقوق بیان کیے گئے ہیں۔’’

‘‘Sat 1 Regional ’’ٹی وی چینل نے دو منٹ 8سیکنڈ کی خبر دی۔ جس میں ویزبادن پریس کانفرنس سے حضورِانور کا یہ اقتباس بھی پیش کیا۔

‘‘اس شہر کے باسیوں کو اپنے دل میں کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم ایک بہت پُرامن جماعت ہیں۔ اِس لیے کہ ہم اسلام کی حقیقی تعلیمات کے پیروکار ہیں۔’’

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button