ادبیات

اسلام اور آنحضرت ﷺ سے عشق

(حافظ نعمان احمد خان ۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

درّثمین اردوکی بارہویں نظم

اس رفیع الشان نعتیہ نظم کےتخلیقی حسن اور فکری محاسن کی طرف بڑھنے سے پیشتر مناسب معلوم ہوتاہے کہ‘نعت’کے معنی،تعریف اور اس صنف سے متعلق کچھ جان لیا جائے۔

عربی زبان کےمادّے ن۔ع۔ت کے لغت میں معنی اچھی اور قابلِ تعریف صفات کے کسی شخص میں پائےجانے اور ان صفات کے بیان کرنے کےہیں۔نَعْتَ الرَّجُلُ کا مطلب ہے کہ ‘‘اس آدمی میں اخلاق اور مزاج کی بہترین عادات پائی جاتی ہیں۔’’اسی طرح کسی شخص کو دیگر لوگوں سے ممتاز بیان کرنےکےلیے کہا جاتا ہے ھُوَ نُعْتَہٌ یعنی ‘‘وہ خوبئ عادات میں بہترین ہے۔’’

یوں تو عربی زبان میں مدح و توصیف کے ذیل میں کئی مصادر موجود ہیں جیسے حمد،ثنا،مدح و غیرہ۔ لیکن اصطلاح میں حمد خدائے تعالیٰ کی تعریف اور نعت رسول اللہﷺ کی توصیف کے لیے مخصوص ہوچکی ہے۔
نعت دراصل مذہبی شاعری کی اصطلاح ہے۔ ایسی نظم جس میں حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ بابرکات ،مقام و مرتبہ، اوصافِ حمیدہ ،اخلاقِ حسنہ، سیرتِ طیبہ اور آپؐ کے زندگی بخش پیغام کو عشق و محبت اور عقیدت سے بیان کیاجائے اصطلاحِ ادب میں ‘نعت’ کہلاتی ہے۔ ’پروفیسر انور جمال کہتے ہیں:

‘‘نعت موضوع کے اعتبار سے صنفِ شاعری ہے اور اس کا موضوع سرورِ کائنات کی مدح ہے۔نعت قصیدے ہی کی ایک صورت ہے۔’’

(ادبی اصطلاحات،پروفیسر انورجمال،نیشنل بُک فاؤنڈیشن،اسلام آباد،طبع سوم 2016،صفحہ 174)

روایتی نعت گوئی میں موضوع کے اعتبار سے ‘‘نعتِ جلی’’اور ‘‘نعتِ خفی’’دو اقسام مروّج ہیں۔ ایسی نعت جس میں حضورِ اکرمﷺ کی مدح میں آپؐ کے جملہ اوصافِ حمیدہ،پاکیزہ کردار،امانت و دیانت،شجاعت،قناعت وغیرہ کا بیان ہو یا جس میں آپؐ کےحلیےبُشرے،قد و قامت اور نشست و برخاست جیسی صفات کاذکر ہو وہ خالص نعت ‘‘نعتِ جلی’’کہلاتی ہے۔ جبکہ ‘‘نعتِ خفی’’میں شاعر درج بالا اوصافِ حمیدہ کے بیان کے ساتھ اپنےوارفتہ جذبات اور شوقِ زیارت کو بھی شاملِ نعت کرلیتا ہے۔

آنحضورﷺ کی مدحت وتوصیف میں شعرا ابتدائے اسلام سے ہی مصروف ہیں ۔ اس سلسلے میں اسلوب کی کوئی خاص پابندی نہیں لیکن شاعری کے ناقدین نے یہ اصول وضع کر رکھا ہے کہ شان دار موضوع کےلیے شان دار طرزِ ادا ضروری ہے۔مدحتِ رسولﷺ جیسے بلند ترین موضوع کے لیےمضامین اور انتخابِ الفاظ کے اعتبار سے محترم صاحب زادہ مرزا حنیف احمد صاحب نے آدابِ نعت کےدو بنیادی عناصر اور شرائط بیان فرمائی ہیں۔

اوّل: نعت کے مضامین میں رسولِ اکرمؐ کی عظمت اور شان اور ان سے محبت کے اظہار میں ایسا اعتدال ہوکہ کسی صورت میں ان میں شرک کا شائبہ نہ ہواور مافوق الفطرت صفات کو بیان نہ کیا جائے۔

دوم: الفاظ کے انتخاب میں ایسا وقار اور تہذیب جو حضرت رسالت مآب کے روحانی منصب کو سزاوار ہے۔

(ادب المسیح از محترم صاحب زادہ مرزا حنیف احمد صاحب، صفحہ 248)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا نعتیہ کلام عظمت و شکوہِ خیال، بلند تر ادبی محاسن اور لطیف و ارفع موضوعات کے لحاظ سے تمام نعتیہ کلاموں کا امام ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ آپؑ جیسے مقامِ عشقِ نبیﷺ تک کسی اور کا گزر ممکن ہی کہاں ہے۔ زیرِ نظر نعتیہ نظم میں بھی شائستہ و برجستہ طرزِ ادا میں اعلیٰ و نفیس تراکیب و بندشوں کو اس خوبی سے استعمال فرمایا گیا ہے کہ یہ نظم جادو اثر بن گئی ہے۔ کوئی بھی انصاف پسند صاحبِ بصیرت اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ رفعتِ موضوع کے ساتھ صنعت،لہجہ،طرز اور الفاظ کے موزوں و مؤثر انتخاب نے اس نعتیہ کلام کو جاوداں بنادیا ہے۔ ابتدائی اشعار میں فکر کے دوڑانے اور خود صاحبِ تجربہ ہونےکابیان قاری کے لاشعور کومتاثر کرتاہے۔ دعوتِ فکر اور تبلیغِ اسلام کے لیے ‘دعوتوں کا تیر ’اور ‘مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے’ جیسے برجستہ محاورےاور استعارے استعمال فرمائے ہیں۔‘دینِ محمد’کے بعد اگلے ہی شعر میں ‘باغِ محمد’ کی ترکیب عجیب جاذبیت پیدا کر تی ہے۔فیضِ محمدیﷺ کے لیے‘نوروں’کا لفظ اور غافلوں کی حالت کے بیان میں ‘غفلت کے لحاف’جیسی تشبیہات اس نظم کے جمالی پہلوؤں کی عمدہ مثال ہیں۔ اس نظم کے خالص نعتیہ اشعار حضورؑ کی ذات کے آنحضورﷺ کے نور سے منور ہونے کا مضمون بیان کرتے ہیں۔ یہ لطیف مضمون حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مقامِ نبوت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو آنحضورﷺ کے ہی فیضِ روحانی کا کرشمہ ہے۔ یوں نعتِ رسولﷺ کا یہ پہلو حضورؑ سے پہلے تشنہ تھا جسے آپؑ نے بیان فرمایا۔

جب سے یہ نور ملا نورِ پیمبر سے ہمیں
ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے
مصطفیٰ ؐپر تیرا بےحد ہو سلام اور رحمت
اس سے یہ نُور لیا بارِ خدایا ہم نے
ربط ہے جانِ محمدؐ سےمری جاں کو مدام
دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے

فنّی خصائص کے اعتبار سے اس نعت کا درج ذیل شعر ملاحظہ فرمائیں۔

تیرا مےخانہ جو اک مرجع عالم دیکھا
خُم کا خُم منہ سے بصد حرص لگایا ہم نے

مَے خانے کے ادارے کےساتھ استعارے کا مربوط تخیّلاتی جہان ،ابلاغ اور جمالیات کے جملہ عناصر میں قابلِ رشک اعتدال لیے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ ‘‘کسی شئے کے لوازمات اور خصوصیات کو کسی دوسری شئے سے منسوب کرنے کا نام ہی استعارہ ہے۔’’

نظم کے آخر میں ایک خوب صورت شعر آیتِ کریمہ ‘‘کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ’’ کی بہترین تلمیح ہیں۔

ہم ہوئے خیرِ امم تجھ سے ہی اے خیرِ رسل
تیرے بڑھنے سےقدم آگے بڑھایا ہم نے
درج ذیل دو مصرعے دیکھیے۔
‘‘اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے’’

اور

‘‘شورِ محشرترے کُوچہ میں مچایا ہم نے’’

ان دونوں مصرعوں میں علمِ صرف کا قاعدہ ‘امالہ’لاگو ہوگا۔ یعنی لفظ‘سینہ’اور ‘کُوچہ’دونوں کے بعد کیوں کے ‘میں’ (حرفِ جار)آرہا ہے اس لیے ‘سینہ’ اور‘کُوچہ’دونوں الفاظ کے آخر میں آنے والی ہائے ہوّز(ہ)کو یائے مجہول (ے) سے بدل دیا جائے گا۔ گویا درست ادائیگی کچھ یوں ہوگی کہ

اپنے سینے میں یہ اک شہر بسایا ہم نے

اور

شورِ محشر ترے کُوچے میں مچایا ہم نے

بعض الفاظ کا درست تلفّظ پیش ہے:

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button