متفرق مضامین

خوش گوار عائلی زندگی

(سیّدہ شمیم۔ جرمنی)

حقوق دو قسم کے ہیں: ایک حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ‘‘پس اب موقع ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو درست کرلو اور اس کے فرائض کی بجا آوری میں کمی نہ کرو ۔خلق اللہ سے کبھی بھی خیانت، ظلم ،بد خلقی ،تُرش روئی ، ایذادہی سے پیش نہ آئو۔ کسی کی حق تلفی نہ کرو کیونکہ ان چیزوں کے بدلے بھی خدا تعالیٰ مواخذہ کرے گا ۔جس طرح خدا تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی۔اس کی عظمت ۔توحید اور جلال کے خلاف کرنے اور اس سے شرک کرناگناہ ہیں اسی طرح اس کی خلق سے ظلم کرنا۔ اُن کی حق تلفیاں نہ کرو۔زبان یا ہاتھ سے دُکھ یا کسی کا قسم کی گالی گلوچ دینا بھی گناہ ہیں ۔پس تم دونوں طرح کے گناہوں سے پاک بنو اور نیکی کو بدی سے خلط ملط نہ کرو ۔’’

( ملفوظات جلد سوم صفحہ 177؍ایڈیشن2003ء)

فرمایا ‘‘…میں اپنی تعلیم کوقریباً اُنیس برس سے شائع کر رہا ہوں …اس تعلیم کا خلاصہ یہی ہے کہ خدا کو و ا حد لا شریک سمجھو اور خدا کے بندوں سے ہمدردی اختیار کرو ۔اور نیک چلن اورنیک خیال انسان بن جاؤ ۔ایسے ہو جائو کہ کوئی فساد اور شرارت تمہارے دل کے نزدیک نہ آسکے ۔جھوٹ مت بولو۔ افتر اء مت کرو اور زبان سے ہاتھ سے کسی کو ایذاء مت دو ۔اور ہر ایک قسم کے گناہ سے بچتے رہو۔اور نفسانی جذبات سے اپنے تئیں روکے رکھو ۔کوشش کرو کہ تاتم پاک دل اور بے شرہو جائو …تمام انسانوں کی ہمدردی تمہارا اصول ہو ۔اوراپنے ہاتھوںاور اپنی زبانوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک منصوبہ اور فساد انگیز طریقوںاور خیانتوں سے بچائو ۔خدا سے ڈرو۔ اورپاک دلی سے اُس کی پرستش کرو ۔اورظلم اور تعدی اور غبن اور رشوت اور حق تلفی اور بے جا طرفداری سے باز رہو ۔ اور بد صحبت سے پرہیز کرو ۔اور آنکھوں کو بدنگاہوں سے بچائو اور کانوں کو غیبت سُننے سے محفوظ رکھو اور کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو بدی اور نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو۔اورہر ایک کے لیے سچے ناصح بنو…’’

(روحانی خزائن جلد14کشف الغطاء صفحہ188،187ایڈیشن 2008ء)

حقوق العباد پر کیوں اتنا زور دیا گیا ہے ؟

قرآن کی تعلیم کے مطابق ہر وہ شخص جو خدا کا حق ادا نہیں کر تا وہ اس کے بندوں کے بھی حق ادا نہیں کر سکتا۔ اس مضمون کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے پیش فرمایاہے :…‘‘اللہ تعالیٰ کی محبت ہی ہے جس کے نتیجہ میں اس کی مخلوق کا سچا احترام دل میں پیدا ہو سکتا ہے ۔مخلوق جس قدر اعلیٰ درجہ کی ہوگی اسی قدر وہ خالق کے قریب تر ہوگی اور اس کا تعلق اپنے خالق سے مضبوط تر ہوگا۔انسان ایک عظیم تر اور اعلیٰ تر مقصد کے ساتھ دوسرے انسانوں کا احترام کرنا شروع کر دیتا ہے …خلاصۃً یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہی ہے جو اس کی مخلوق کی محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے …’’

(‘‘اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل’’صفحہ 313)

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان سے محبت و ہمدردی کیوں کی جاوے ؟ اس کا جواب سیّدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کی حدیث سے ملتا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں :

اَلخَلْقُ عَیَالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ اَلخَلْقِ اِلَی اللّٰہِِ مَنْ اَحسَنَ اِلٰی عِیَالِہِ۔

(مشکوٰۃ کتاب الآداب باب الرحمت والشفقۃ اعلیٰ الخلق)یعنی ساری مخلوق اللہ کا عیال (خاندان) ہے ۔پس مخلوق میں سب سے پیارا وہ ہے جو اللہ کی عیال سے سب سے اچھا سلوک کرے۔ ’’

پس جس طرح اللہ رب العالمین ہے ۔اسی رنگ میں تمام عالم کی بلاتمیز رنگ ونسل ۔عقیدہ و مذہب ۔ربوبیت کرو۔رحمان بنو ۔رحیم بنو ۔ستار بنو اور لوگوں کے عیب تلاش کرنے کی بجائے عیب پوشی کرو ۔غرض تمام صفات اللہ کے مظہر بنو۔یہی نیکی ہے گویا نیکی ایک مثبت عمل ہے۔ بدی وہ فعل ہے جو خدا کی صفات سے دور لے جائے۔ کسی بدی کو معمولی نہ سمجھا جائے و رنہ انسان مزید بدیوں کی طرف کھنچا چلاجاتا اور پھر خدا سے تعلق ٹوٹنے سے انسانوں سے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہی حال نیکیوں کا ہے ان سے انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے پیدا ہوتا ہے اور وہ حقوق العباد پورے زور سے اداکرنے کی طاقت پکڑتا جا تا اور اس کا وجود انسانوں کے لیے رحمت بن کر ڈھلنا شروع ہو جاتا ہے ۔جو شخص انسانوں کے حقوق ادا نہ کرتے ہوئے نیکی کا دعویٰ کرتا ہے یا اپنے آپ کو نیک سمجھتا ہے وہ جھوٹا ہے۔

فرائض کی ادائیگی

بعض لوگ فرائض ادا کر کے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دوسروں پر احسان کیا ہے ۔مثلاً اولاد والدین کے چند حقوق ادا کرکے سمجھتی ہیں کہ ہم نے ان پر احسان کیا ہےیا والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرکے خیال کرتے ہیں کہ ہم نے ان پر احسان کیا ۔خاوند اپنی بیوی کے حقوق ادا کرکے یا بیوی اپنے خاوند کے حقوق ادا کررہی ہے کہ میں نے اس پر احسان کیا۔حالانکہ فرمایا گیا ہے کہ یعنی تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے نگرانی کے متعلق پوچھا جائے گا ۔ گویا وہ تمام ذمہ داریاں، وہ تمام فرائض ہیں جو ہم سب اپنے اپنے دائرہ میں ادا کرتے ہیں کسی پر احسان نہیں کرتے بلکہ یہ ہمارا اپنے اوپر احسان ہوتا ہے ۔ کیونکہ دراصل اس طریق سے ہم اپنے حقوق ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً جب والدین اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت دیں گے ۔تو کل اولاد بھی ان سے حسن سلوک کرے گی۔ اگر خاوند بیوی کے حقوق ادا کر ے گا تووہ بھی اس گھر کے بچوں کی دیکھ بھال کرے گی ۔بیوی اپنے خاوند کے حقوق ادا کرے گی تو جواب میں خاوند بھی اُس سے حسن سلوک کرے گا ۔اگر ہم اپنے فرائض ادا کرنے پر رضامند نہیں تو پھر اُس کے حقوق بھی ملنے والے نہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے میاں بیوی کو زوج( جوڑا ) کے لفظ سے یاد کیا ہے۔جو حقوق و فرائض سے جُدا نہیں ہوسکتے۔ اگر ان میں کسی کا کوئی حق ہے تو وہ دوسرے فریق کا فرض ۔ پس ہر ایک اپنے ساتھی کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے ۔اُس کے اپنے حقوق خود بخود پیروی کریں گے ۔

فکر انگیز نصیحت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میاں بیوی کو ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میں سے دوسرے میں عیب نظرآتا ہے یا اس کی کوئی اور ادا نا پسند ہے تو کئی باتیں پسند بھی ہونگی جو اچھی بھی لگیں گی ۔تو وہ پسندیدہ باتیں جو ہیں ان کو مد نظر رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرتے ہوئے موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔آپس میں صلح صفائی کی فضا پیدا کرنا چاہیے۔تو یہ میاں بیوی دونوں کو نصیحت ہے کہ اگر دونوں ہی اگر اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھیں تو چھوٹی چھوٹی جو ہر وقت گھروں میں لڑائیاں، چخ چخ ہوتی رہتی ہیں وہ نہ ہوں اور بچے بھی برباد نہ ہوں۔ذرا ذرا سی بات پر معاملات بعض دفعہ اس قدر تکلیف دہ صور ت اختیار کر جاتے ہیں کہ انسان سوچ کر پریشان ہوجاتا ہے کہ ایسے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں کہ جو کہنے کو تو انسان ہیں مگر جانوروں سے بھی بد تر ۔’’

(مسلم کتاب الرضاعت باب الوصیۃ با لنساء)(خطبہ جمعہ فرمودہ2جولائی 2004ءمطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 16 جولائی2004ء صفحہ 6)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:‘‘…جتنی معاشرتی خرابیاں ہمارے اندر پائی جاتی ہیں۔ہماری جماعت کے مقام ا ور مرتبہ کے لحاظ سے ہرگزقابل برداشت نہیں ہیں۔ کسی قیمت پر بھی ہم ان کو ساتھ لے کر آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ مستقبل کی نسلوں کو تباہ کرنے کے بیج بو دیے گئے ہیں ان خرابیوں میں آئندہ نسلوں کو اپنے ہاتھوں سے ضائع کرنے اور قتل کرنے کے سامان پیدا کردیے ہیں۔’’

(خطبات طاہر جلد 5خطبہ جمعہ14۔فروری 1986ء صفحہ 154)

نکاح کی غرض وغایت

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ‘‘اسلام میں جو نکاح کا مسئلہ رکھا ہے یہ بھی تدبیروں میں سے ایک تدبیر ہے جو (اخلاقی) ہلاکت اور تباہی سے بچاتی ہے اور انسان کو سچا دوست اور مخلص مدد گار مہیّا کردیتی ہے۔چنانچہ قرآن شریف میں بیوی کے متعلق آتا ہے کہ لِتَسْکُنُوْ ااِلَیْھَا۔یعنی انسان کو جو مصائب اور تکالیف آتی ہیں اور جن کی وجہ سے قریب ہوتاہے کہ وہ ہمت ہار دے اس وقت بیوی اس کی مدد گار اور آرام کا باعث ہوتی ہے اور اس کی ہمت بڑھانے والی ہوتی ہے۔ اسی حکمت کے ماتحت خدا تعالیٰ نے نکاح کو رکھا ہے اور اس کے لیے ایسی خواہشیں اور جذبات اور طاقتیں انسان کے اندر رکھ دی گئی ہیں کہ یہ مجبور ہے کہ کوئی ایسا ساتھی پیدا ہو ۔ …اسلام نے شادی کے متعلق ایسے قواعد بتا دیے ہیں کہ اس پر کار بند ہونے سے انسان کو سچا دوست اور مددگار مل جاتا ہے ۔’’

(خطبات محمودجلد3صفحہ15)

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے لوگو!اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک ( ہی )جان سے پیدا کیا اور (اس کی جنس) سے( ہی) اس کا جوڑا پیدا کیا ۔(النساء:4)یہ دونوں مل کر ایک وحدت بنتے ہیں ان میں اکیلا کوئی بھی مکمل نہیں۔ اس وحدت کی مثال اس بادام جیسی ہے جس کے اندر دو مغز ہوتے ہیں کہ دونوں اکٹھے ہوں تو دیدہ زیب اور خوبصور ت نظر آتے ہیں ۔وہ علیحدہ تو ہو سکتے ہیں مگر بد صورت نظر آئیں گے ۔

انسانی زندگی کے تقاضے ایسے ہیں کہ مرد اور عورت اکیلے رہ کر پورے نہیں کر سکتے ۔پھر ان کے دوسرے رشتے ہیں ۔ان سے بھی تنہا ذمہ داریاں ادا نہیں ہو سکتیں ۔بیوی کا اپنا اہم حسین کردار ہے جو صحیح خطوط پر قائم کیا جائے اور قائم رکھا جائے تو یہ زندگی جنت بن جاتی ہے ۔اس میں خلل واقع ہو جائے یا غیر متوازن ہو جائے تو زندگی جہنم بن جائے گی ۔

قرآن کریم میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے ۔لباس پردہ پوشی کرتا ہے ۔ننگ ڈھانپتا ہے ، موسم کے اثرات سے بچاتا ہے اور زینت بخشتا ہے ۔انسانی زندگی مختلف قسم کے دبائو کاشکار رہتی ہے۔حالات کی تلخی ، ناہمواری،ہم و غم اور ہزار بلائیںگھیرے رکھتی ہیں ۔بیوی کو اچھا ساتھی بننا چاہیے اور خاوند سے مل کر حالات کا مقابلہ کرے ،ماحول میں تلخیاں پیدا نہ ہونے دے ۔میاں بیوی کے رشتہ داران کی خانگی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں بیوی اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔روایتی ساس بہو اور نند بھاوج کے جھگڑوں کو جنم نہیں لینا چاہیے کیونکہ میاں بیوی میں اختلاف کی صورت میں جو نتیجہ نکلتا ہے وہ بھی کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ شیطان جتنا میاں بیوی کے بگاڑ میں خوش ہوتا ہے ،اتنا کسی اور چیز سے خوش نہیں ہوتا ۔

بیوی سے حسنِ سلوک

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم بھی ہمیں سبق دیتی ہے کہ اپنی بیویوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں ۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘حضرت امّ المومنین پر جب کبھی بیما ری کا حملہ ہوتا تو آپؑ ہر طرح آپ کی ہمدردی اور خدمت کرنا ضروری سمجھتے اور اپنے عمل سے آپ نے یہ تعلیم ہم سب کودی کہ بیویوں کے کیا حقوق ہوتے ہیں ؟ جس طرح سے وہ ہماری خدمت کرتی ہے عند الضرورت وہ مستحق ہے کہ ہم اسی قسم کا سلوک کریں ۔چنانچہ آپ علیہ السلام علاج اور توجہ الی اللہ میں مصروف رہتے بلکہ بعض اوقات حضرت امّ المومنین کو دباتے بھی تاکہ اُن کو تسلی اور سکون ملے ۔’’

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی جلد دوم صفحہ 285تا 286)

آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نا مرد ہے جو عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے ۔’’

(ملفوظات جلد 2صفحہ 387۔ ایڈیشن 2003ء)

ایک موقع پر فرمایا ‘‘فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں اور فرمایاہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد عورت سے جنگ کریں۔ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتمامِ نعمت ہے ۔اس کا شکریہ ہے کہ عورتوں سےلطف اور نرمی کا برتائو کریں۔’’

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑحصہ سوم از حضرت یعقوب علی عرفانی صفحہ 384)

عورتوں کی اصلاح کا طریق

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا‘‘مرد اگر پارسا طبع نہ ہو تو عورت کب صالحہ ہو سکتی ہے ۔ہاں اگر مرد خود صالح بنے تو عورت بھی صالحہ بن سکتی ہے۔قول سے عورت کو نصیحت نہ دینی چاہیے بلکہ فعل سے اگر نصیحت دی جاوے تواس کا اثر ہوتا ہے۔ عورت تو درکنار اور بھی کون ہے جو صرف قول سے کسی کی مانتا ہے ۔اگر مرد کوئی کجی یا خامی اپنے اندر رکھے گا تو عورت ہر وقت کی اس پر گواہ ہے …غرضیکہ مرد کا اثر عورت پر ضرور پڑتا ہے ۔ اور وہ خود ہی اُسے خبیث ا و رطیّب بناتا ہے …یہ مردوں کا ظلم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان کا نقص پکڑیں۔اُن کو چاہیے کہ عورتوں کو ہرگز ایسا موقعہ نہ دیں کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ تو فلاں بدی کرتا ہے بلکہ عورت ٹکریں مار مار کر تھک جاوے اور کسی بدی کا پتہ اُسے مل ہی نہ سکے تو اس وقت اس کو دینداری کا خیال ہوتا ہے اور وہ دین کو سمجھتی ہے۔’’

(البدر جلد 29 مورخہ20۔مارچ1903ء ملفوظات جلد سوم صفحہ۔156۔ 157ایڈیشن 2003)

فرمایا ‘‘جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے…ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔’’

(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ 19)

شرائط بیعت کا مطالعہ کریں تو اس میں ایک شرط کو آپ ؑ نے بہت واضح طور پر تحریر فرمایا ہے۔
‘‘عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہ دیگا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔’’

خلق اللہ میں سب سے زیادہ میاں بیوی کے حقوق ہیں انہیں ایک دوسرے کو نفسانی جوش میں مغلوب ہو کر کسی نوع کی تکلیف نہیں دینی چاہیے ،اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button