رپورٹ دورہ حضور انور

مسجد مبارک، ویز بادن جرمنی کا افتتاح اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا بصیرت افروز خطاب

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ فرانس و جرمنی 2019ء

………………………………

13؍اکتوبر2019ءبروزاتوار

……………………………

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےصبح 6بجکر30منٹ پر مسجد مہدی میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نما ز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔ آج کے پروگرام کے مطابق یہاں سٹراس برگ سے فرینکفرٹ جرمنی کے لیے روانگی تھی۔

ساڑھے گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے ہال میں تشریف لائے جہاں خدام الاحمدیہ کے اُس گروپ نے جو فرانس کے دورہ کے دوران مسلسل سیکیورٹی کی ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں اپنے پیارے آقا کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کی سعادت پائی۔

بعد ازاں حضور انور نے مسجد کے بیرونی احاطہ میں سیب کا پودا لگایا۔ سیب کا پودا لگاتے ہوئے حضور انور نے یہاں کے مبلغ سلسلہ منصور احمد صاحب کو مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ پہلے سال جتنے پھل لگیں گے مجھے اتنی بیعتیں چاہیئں۔

بعد ازاں حضور انور احباب کے درمیان تشریف لے آئے جو صبح سے ہی اپنے پیارے آقا کو الوداع کہنے کے لیے مسجد کے بیرونی احا طہ میں جمع تھے۔

حضور انور نے اجتماعی دعا کروائی اور اپنا ہاتھ بلند کر کے سب کو السلام علیکم کہا اور قافلہ یہاں سے جرمنی کے لیےروانہ ہوا۔

یہاں سے بیت السبوح کا فاصلہ 240 کلومیٹر ہے۔

قریباً 25 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد فرانس اور جرمنی کے بارڈر کے ایریا میں ایک پارکنگ میں کچھ دیر کے لیے رُکے۔ جہاں جرمنی سے حضور انور کے استقبال کے لیے آنے والے وفد نے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔ جرمنی سے امیر جماعت جرمنی مکرم عبداللہ واگس ہاؤزرصاحب ،مکرم صداقت احمد صاحب مبلغ انچارج جرمنی، مکرم الیاس مجوکہ صاحب نیشنل جنرل سیکرٹری اور مکرم کمال احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی اپنے خدام کی سیکیورٹی ٹیم کے ساتھ حضور انور کے استقبال کے لیے آئے تھے۔
اس موقع پر سٹراس برگ فرانس سے اس جگہ تک چھوڑنے کے لیے ساتھ آنے والے وفد کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت شرف مصافحہ سے نوازا۔

سٹراس برگ فرانس سے اس جگہ تک مکرم امیر صاحب فرانس اشفاق ربانی صاحب، نائب امیر اسلم دُوبری صاحب، نصیر احمد شاہد صاحب مبلغ انچارج، جنرل سیکرٹری فہیم احمد نیاز صاحب اور صدر خدام الاحمدیہ فرانس جمیل الرحمٰن صاحب اپنی خدام کی سیکیورٹی ٹیم کے ساتھ آئے تھے۔

بعد ازاں آگےسفر جاری رہا۔ قریباً 180 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد آگے موٹروےایک ایکسیڈنٹ کی وجہ سے مکمل طورپربندکردی گئی تھی۔جس کے باعث 45منٹ تک موٹروے پر ہی رُکنا پڑا۔ موٹر وے کھلنے پر آگے سفر جاری رہا۔ مجموعی طور پر 240 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد دوپہر 3 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا جماعت جرمنی کے مرکز بیت السبوح فرینکفرٹ میں ورود مسعود ہوا۔

بیت السبوح میں تشریف آوری کے بعد جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کار سے باہر تشریف لائے تو فرینکفرٹ شہر اور اس کے اِرد گرد کی جماعتوں اور جرمنی بھر کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے احباب جماعت مردو خواتین اور بچوں اور بچیوں نے بڑے والہانہ اور پُرجوش انداز میں اپنے پیارےآقا کا استقبال کیا۔فرط عقیدت اور محبت سے ہر طرف ہاتھ بلند تھے اور اَھْلًاوَّ سَھْلًاوَّ مَرْحَبًا کی صدائیں ہر طرف بلند ہورہی تھیں۔

ایک طرف احباب بڑے پُر جوش انداز میں اپنے آقا کو خوش آمدید کہہ رہے تھے تو دوسری طرف خواتین اپنے ہاتھ بلند کرتے ہوئے اپنے پیارے آقا کے دیدار سے فیضیاب ہو رہی تھیں اور بچے، بچیاں مختلف گروپس کی صورت میں خیر مقدمی گیت اور دعائیہ نظمیں پڑھ رہے تھے۔ہر طرف خوشی و مسرت کا سماں تھا۔
مکرم خواجہ مبشر احمد لوکل امیر فرینکفرٹ، مکرم امتیاز احمد شاہین صاحب مبلغ فرینکفرٹ نے حضور انور کو خوش آمدید کہتے ہوئے شرف مصافحہ حاصل کیا۔

اپنے پیارے آقا کا استقبال کرنے والے یہ احباب فرینکفرٹ شہر کے مختلف حلقوں اور جماعتوں کے علاوہGieben, Hanau, Friedberg, Mannheim, Heidel burg, Mainz, Wiesbadenاور Hamburg سے بھی آئے تھے۔

بعض احباب اور فیملیز بڑے لمبے سفر طے کر کے پہنچے تھے۔ خصوصاً ہمبرگ سے آنے والے 550کلومیٹرکا لمبا سفر طے کر کے پہنچے تھے۔

حضور انور کا استقبال کرنے والو ں کی تعداد 2ہزار 4 صد 15 تھی۔

3 بج کر 25 منٹ پر حضور انور نےتشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

حضور انور کے استقبال کے لیے جرمنی کی مختلف جماعتوں سے جو احباب مرد و خواتین پہنچے تھے ان سبھی نے اپنے پیارے آقا کی اقتدا میں نماز ظہر و عصر ادا کرنے کی سعادت پائی۔

پچھلے پہر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دفتری ڈاک، رپورٹس اور خطوط ملاحظہ فرمائے اور ہدایات سے نوازا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ کے دوران مرکز لندن کے دفاتر سے اسی طرح مرکز قادیان اور ربوہ سےاور دوسرے مختلف ممالک سے باقاعدہ ڈاک، رپورٹس اور خطوط موصول ہوتے ہیں۔ بذریعہ Faxاور بذریعہ ای میل بڑی تعداد میں ڈاک موصول ہوتی ہے۔ پھر جس ملک کا دورہ ہوتا ہے وہاں کے احباب جماعت مرد و خواتین اور بچوں کی طرف سے ملنے والے سینکڑوں، ہزاروں خطوط اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ یہ سبھی ڈاک حضور انوراپنے سفر کے دوران ساتھ کے ساتھ ملاحظہ فرماتے ہیں اور اپنے دستِ مبارک سے ان خطوط، رپورٹس پر ہدایات سے نوازتے ہیں۔

آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا قیام بیت السبوح میں ہی تھا۔ بیت السبوح کے مختلف حصّوں کو رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا اور اس سینٹر کی مختلف عمارات پر چراغاں بھی کیاگیا تھا۔ رات کو بجلی کے رنگ برنگے قمقمے بڑا خوبصورت نظارہ پیش کرتےہیں اور یہ سارا علاقہ روشنیوں سے روشن رہتا ہے۔

………………………………………………

14؍اکتوبر2019ءبروزسوموار

………………………………………………

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح 6بجکر 50 منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
پروگرام کے مطابق سوا گیارہ بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج صبح کے اس سیشن میں 38 فیملیز کے 249؍افراد اور دو احباب نے انفرادی طور پر اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔

ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی مختلف 25جماعتوں سے آئی تھیں اور بعض فیملیز بڑے دور کے علاقوں سے سفر کرکے پہنچی تھیں۔جماعتDortmundسے آنے والی فیملیز دو صد کلومیٹر کا سفر طے کرکے پہنچی تھیں۔علاوہ ازیں پاکستان سے آئے ہوئے ایک دوست اور ملک لائبیریا سے آئی ہوئی ایک فیملی نے بھی شرف ملاقات پایا۔

ان سب لوگوں نے پیارے آقا کےساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطافرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطافرمائے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بج کر تیس منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

مسجد مبارک کی افتتاحی تقریب

آج پروگرام کے مطابق ویزبادن (Wiesbaden) شہر میں ‘‘مسجد مبارک’’ کے افتتاح کی تقریب تھی۔ چاربج کر چالیس منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور ویزبادن کے لیے روانگی ہوئی۔

فرانکفرٹ سے ویزبادن شہر کا فاصلہ 46کلومیٹر ہے۔ قریباً 55 منٹ کے سفر کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ‘‘مسجد مبارک’’میں ورود مسعود ہوا۔

مقامی جماعت کے افراد مردوخواتین، بچے بچیاں، جوان بوڑھے گزشتہ کئی دنوں سے اپنے پیارے آقا کی بابرکت آمد پر تیاریوں میں مصروف تھے۔ ان کے لیے آج کا دن کسی عید سے کم نہیں تھا۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک قدم ان کی سرزمین پر پڑ رہے تھے۔ ہر کوئی بے حد خوش تھا اور اپنے پیارے آقا کی آمد کا منتظر تھا۔ جونہی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سےباہر تشریف لائے تو احباب جماعت نے بڑے پُرجوش انداز میں اپنے آقا کا استقبال کیا۔ بچوں اور بچیوں کے گروپس نے خیرمقدمی گیت پیش کیے۔ ہر چھوٹا بڑا اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ مرد احباب نعرے بلند کر رہے تھے۔ خواتین اپنے آقا کے دیدار سے فیضیاب ہورہی تھیں۔

لوکل امیر جماعت مکرم میاں عمر عزیز صاحب نے حضورِانور کو خوش آمدید کہتے ہوئے شرف مصافحہ حاصل کیا۔ ایک سیاست دان کونسلر Christoph Manjuraصاحب جو میئر کے نمائندہ کے طور پر آئے تھے۔ انہوں نے میئر کی طرف سے حضورِانور کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔ حضورِانور کی خدمت میں عزیزم دانیال بلال اور حضرت بیگم صاحبہ مدّظلہاالعالی کی خدمت میں عزیزہ انیقہ احمد نے پھول پیش کیے۔

بعد ازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی۔
اس کے بعد حضورِانور نے مسجد کے ہال میں تشریف لا کر نمازِظہروعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔

بعد ازاں حضورِانور نے جماعت کے اس نئے سینٹر کا معائنہ فرمایا۔

مسجد کا یہ پلاٹ سال 2013ء میں خریدا گیا تھا۔ اس پلاٹ کا کل رقبہ2970مربع میٹر ہے۔ مسجد کا کلcoverdحصّہ 1300مربع میٹر ہے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 4؍جون 2014ء کو اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس مسجد میں آٹھ میٹر چوڑا گنبد اور 12میٹر اونچا مینار ہے۔ اس مسجد کی تعمیر پر 2.2ملین یورو خرچ ہوئے ہیں۔ اس مسجد میں سات سو پچاس نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں۔

اس مسجد میں نماز کے لیے دو ہال، ایک ملٹی پرپز ہال، پانچ دفاتر، لائبریری، کچن، سٹور اور ایک مربی ہاؤس بھی ہے۔ اس مسجد میں ایک بڑا ٹیرس بھی ہے۔

مسجد، مشن ہاؤس اور دفاتر وغیرہ کے معائنہ کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ازراہِ شفقت کچھ دیر کے لیے یہاں کے مبلغ سلسلہ فرہاد احمد صاحب کے گھر تشریف لے گئے۔

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ کے ہال میں تشریف لے گئے۔ جہاں خواتین نے شرف زیارت کی سعادت پائی اور لجنہ اور بچیوں کے گروپس نے دعائیہ نظمیں اور خیرمقدمی ترانے پیش کیے۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قریباً 25 منٹ تک لجنہ ہال میں موجود رہے اور بچیاں مسلسل نظمیں اور ترانے پڑھتی رہیں جس کی تیاری انہوں نے کئی ہفتے پہلے سے شروع کی ہوئی تھی۔

حضورِ انور نے ازراہِ شفقت تمام بچیوں کو جن کی تعداد تین صد کے لگ بھگ تھی، چاکلیٹ عطا فرمائے۔
بعد ازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کے بیرونی احاطہ میں بادام کا ایک پودا لگایا۔
بعد ازاں میئر کے نمائندہ کونسلرChristoph Manjuraنے بھی ایک پودا لگایا۔ اس دوران بچے ایک قطار میں کھڑے ہو چکے تھے۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہِ شفقت بچوں کو بھی چاکلیٹ عطافرمائیں۔

مسجد کے افتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب کا انعقاد ویزبادن کے ایک مشہور ہال Kurhaus میں کیا گیا تھا۔ یہ عمارت 1810ء میں تعمیر کی گئی تھی۔پھر 1905ء میں اس کو بعض تبدیلیوں کے ساتھ نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ بعدازاں 1987ء میں اس میں نئے حصّوں کا اضافہ کیا گیا اور اس میں کئی تبدیلیوں کے ساتھ نئے سرے سے تعمیر کا کام کیا گیا ہے۔ یہ عمارت ویزبادن شہر میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور دنیا کے بڑے بڑے لیڈر اور حکمران یہاں ہونے والی تقاریب میں شامل ہوتے ہیں۔

آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں کی تعداد 370تھی۔ جن میں

٭…Gert Uwe-Mende۔لارڈمیئرویزبادن
٭…Frank-Tilo Becher۔ممبر صوبائی اسمبلی
٭…Dr.Georg Manten۔منسٹری آف ایجوکیشن اینڈ آرٹس
٭…Ferdinand Georgan۔سابق جج
٭…Christoph Manjura۔(ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ انٹیگریشن، ایجوکیش اینڈ Living)
٭…Jeanine Rudolph۔ہیڈآف امیگریشن آفس ویزبادن
٭…Herr Phil Aspinal Coventry (Anglican Priest)
٭…Herr.Prof.Dr. Markus Ferrariڈائریکٹرانٹرنل میڈیسن HSK
٭…Herr.Dimitri Muntanion فیڈرل کریمینل پولیس آفس
٭…Waldemar Regner۔پولیس اکیڈمی Hessen
٭…Michael David ۔ڈسٹرکٹ چیف پولیس آفیسر
٭…Vaneesa Krieger۔ممبر آف ہوم منسٹری

شامل تھے ۔ اس کے علاوہ پروفیسرز، ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ ،وکلاء ،مختلف حکومتی دفاتر میں کام کرنے والے حکام، پولیس کے افسران اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔
پروگرام کے مطابق حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ساڑھے چھے بجے مسجد مبارک سے اس تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے۔ پولیس نے مختلف سڑکیں بلاک کرکے راستہ کلیئر کیا اور قافلے کو Escort بھی کیا۔ چھے بج کر پچاس منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی Kurhausمیں تشریف آوری ہوئی۔ ہال کے باہر بیرونی دروازہ پر لارڈمیئر Gert Uwe Mendeنے حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہا اور اپنے ساتھ ہال کے اندر لے آئے۔

حضورِانور کی آمد سے قبل تمام مہمان اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم دانیال داؤد صاحب نے کی۔بعدازاں اس کا جرمن ترجمہ نوشیروان خان صاحب نے پیش کیا۔

٭…بعدازاں سب سے پہلے مکرم نیشنل امیر صاحب جرمنی عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا اور مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ویزبادن شہر اور جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے کہا:
شہر ویزبادن صوبہ Hessenکا دارالحکومت ہے اور اس کی تاریخ بہت پرانی معلوم ہوتی ہے۔ اس شہر کا نام پہلی بار Wiesbadenکے نام سے 830ء میں مشہور ہوا۔ اس شہر کی آبادی دو لاکھ 80 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ یہ شہر خاص طور پر پانی کے چشموں کے حوالے سے مشہور ہے۔ اسی طرح اس شہر میں بہت سے مختلف شعبوں کی یونیورسٹیاں قائم ہیں اور اس وجہ سے یہاں بہت زیادہ طلباء مقیم ہیں۔

جماعت احمدیہ کا تعارف کرواتے ہوئے امیر صاحب نے بتایا کہ یہاں احمدیوں کی تعداد1100کے قریب ہے۔ 1992ء میں یہاں باقاعدہ جماعت قائم ہوئی۔ ویزبادن میں اب تک جماعت کُل 13 Charity Walks منعقد کرچکی ہے جس میں بھرپور تعداد میں شہری شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت یہاں نئے سال کے موقعے پر وقارعمل بھی کرتی ہے اور دیگر خدمت خلق کے پروگراموں میں شرکت کرتی ہے۔

آخر پر امیر صاحب نے سب مہمانوں کا اس تقریب میں شمولیت پر شکریہ ادا کیا۔

٭…اس کے بعد Mr. Christoph Manjura صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوف سٹی کونسل کے ممبر ہیں اور ان کا تعلق SPDکی پارٹی سے ہے۔ کونسل میں ان کی ذمہ داری میں integration کے تمام معاملات شامل ہیں۔

موصوف نے اپنی گزارشات میں سب سےپہلے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور پھر تمام حاضرین کو خوش آمدید کہا اور سلام پیش کیا۔ ساتھ اس بات کی خوشی کا بھی اظہار کیا کہ اتنی کثیر تعداد میں احباب و خواتین حاضر ہوئے ہیں جن میں مختلف طبقے کے لوگ شامل ہیں جیسا کہ پولیس کے لوگ اور مختلف پولیٹیشنز اور ویزبادن کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔

موصوف نے پرانے نماز سنٹر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو ایک چھوٹے سے کمرے میں آپ لوگوں کو اپنی عبادت اور دیگر پروگرامز منعقد کرنے پڑتے تھے لیکن اب ایک نہایت عمدہ عمارت مہیا ہے۔ اس بات کی آپ سب کو مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں۔

Manjuraصاحب نے مزید کہا کہ مجھے تو یہ آج کا دن بہرحال کبھی بھی نہیں بھولے گا اور ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ مجھے آج مسجد مبارک کے افتتاح کے موقعے پر اپنی زندگی میں پہلی بار ایک پودا لگانے کا موقع ملا ہے۔

مزید یہ کہا کہ مجھے اِس وقت سنگ بنیاد کا دن بھی یاد آ رہا تھا کہ اس دن خوب بارش ہورہی تھی لیکن جونہی خلیفۃالمسیح آئے اور اپنی گاڑی سے اُترے تو ساتھ ہی بارش رُک گئی اور دھوپ نکل آئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ احمدیہ مسلم جماعت تو ہمیشہ سے ہی نمایاں طور پر شہر سے تعاون کرتی ہے۔ آپ لوگ Charity Walk منعقد کرتے ہیں، نئے سال کےموقعے پر وقارعمل کرکے شہر کی خوبصورتی قائم رکھنے میں پیش پیش ہیں۔اس لیےبھی یہ ضروری تھا کہ آپ لوگ اس شہر کے سنٹر میں ہی مسجد بنائیں اور نہ کہ کہیں کنارے پر جہاں کسی کو مسجد کا پتہ ہی نہ لگے۔ چنانچہ شہر کے اندر ہی یہ مسجد بنی ہے۔
آخر پر انہوں نے جماعت کو مسجد کے مکمل ہونے پر پھر مبارک باد پیش کی اور کہا کہ آپ لوگوں کو اس مسجد سے ہمیشہ خوشی پہنچے۔

٭ بعدازاں Frank-Tilo Becher صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوف کا تعلق SPD پارٹی سے ہے اور یہ Wiesbadenکی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔

انہوں نے سب سے پہلے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہا اور یہ بھی کہا کہ ان کے لیے یہ ایک بہت ہی بڑا اعزاز ہے کہ آج حضورانور کےساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھنے کا موقع مل رہا ہے۔
موصوف نے کہا کہ وہ ایک عیسائی ہیں اور یہ ان کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس گھر یعنی نئی مسجد کا محافظ ہو اور اسے بابرکت کرے۔ آمین۔

پھر موصوف نے کہا کہ ایک جماعت جو ہوتی ہے اس کے لیے لازماً اکٹھے ہونے کی جگہ بھی چاہیے ہوتی ہے۔ اس طرح سے وہ زندہ اور صحیح رنگ میں قائم رہ سکتی ہے۔ آج کا دن خاص طور پر جماعت کے ممبران کے لیے خوشی کا دن ہے کیونکہ اب آپ لوگوں کو موقع ملے گا کہ کھل کر اپنے تمام کام سرانجام دے سکیں۔

آخر پر انہوں نے کہا کہ اگر اب ہمیں ایسی جماعت ملی ہے جو مہمان نوازی میں اتنی عمدہ ہے، تو اب شہر Wiesbaden کے مقیم لوگوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں اور دلچسپی ظاہر کریں۔ مسجد ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں آپ لوگ آپس میں inter-religious dialogueکریں۔ اس لیے اب آپ لوگ ان کی مسجد میں جائیں اور رابطہ قائم کریں۔

٭…اس کے بعد لارڈ میئر Gert Uwe Mende صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔

میئر نے سب سے پہلے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہا اور مسجد کے مبارک اور بابرکت ہونے کے لیے دعا کی۔

میئر نے کہا کہ جماعت احمدیہ ہمارے شہر کا حصہ ہے۔ اس موقع پر مَیں آپ لوگوں کو سب سے پہلے مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کی مسجد مکمل ہوگئی اور آج اس کا افتتاح بھی ہوگیا۔

پھر میئر صاحب نے کہا کہ یہ مسجد وہ جگہ ہوسکتی ہے جہاںWiesbadenکے شہری اکٹھے ہوں اور ادھر inter-religious dialogue زیادہ سے زیادہ ہو۔

میئر صاحب نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ چونکہ مسجد میرے گھر کے قریب ہے تو مَیں جب صبح کے وقت ادھر سے گزرا تو مجھے واضح ہوگیا کہ یہ دن آپ سب کے لیے ایک معمولی دن نہیں بلکہ نہایت اہمیت کا حامل دن ہے۔

موصوف نے کہا کہ ہمارے لیے یہ بات نہایت ہی ضروری ہے کہ ہم مل جل کر رہیں۔ یقینا ًبہت سے ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے مسجد اندر سے کبھی بھی نہیں دیکھی ہوگی۔ تو اب ہمارے پاس ایک مسجد موجود ہے جسے ہمیں دیکھنا بھی چاہیے اور احمدیوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیے۔

پھر میئر صاحب نے مسجد کے ہمسایوں کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے سارے تعمیری کام کے دوران تعاون کیا۔ اسی طرح احمدیہ جماعت نے بھی پہلے دن سے سب کے ساتھ اچھے طور پر رابطہ رکھا۔ اب مسجد کے بننے کے بعد بھی یہ بات ضروری ہے کہ آپ لوگ سب آپس میں امن اور محبت سے مل کر رہیں۔

٭ بعدازاں سات بج کر 25 منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔

خطاب حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے تشہد ،تعوذ اور تسمیہ کے بعد فرمایا:

تمام معزز مہمان!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ تعالیٰ آپ سب کو ہمیشہ سلامتی سے اور امن سے رکھے۔ آج جماعت احمدیہ اس ہال میں اس فنکشن کا انعقاد اس لیےکر رہی ہے کہ اس شہر میں ان کو ایک مسجدبنانے کی توفیق عطا ہوئی ہے۔ اور یہ خالصتاًجماعت احمدیہ کے لیے تو ایک مذہبی فنکشن ہے اور خوشی کا باعث ہے لیکن مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ اس شہر کے لوگ بھی بڑے کھلے دل و دماغ کےہیں اور انہوں نے جماعت احمدیہ مسلمہ کے اس مذہبی فنکشن میں جو ان کی مسجد، عبادت گاہ کی تعمیر مکمل ہونے کا فنکشن تھا اور اس کا افتتاح تھااس میں شامل ہونے کے لیے نا صرف حامی بھری بلکہ شامل بھی ہوئے اور آج مجھے بہت سارے چہرے، آپ کی جو اکثریت نظر آ رہی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ لوگ اس شہر کے رہنے والے لوگ بڑے کھلے اور روشن دماغ کے لوگ ہیں۔

مسجد کے نام سے بعض دفعہ لوگوں میں تحفظات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ گو کہ اس شہر میں مختلف قسم کے لوگ آباد ہیں ، مختلف مسلمان فرقے بھی آباد ہیں اس کے باوجودجومسلمانوںکی طرف سے تحفظات ہیں وہ غیر مسلم دنیا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:

مسجد بنانے کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ ایک ایسی جگہ میسر آجائے جہاں ہم عبادت کرسکیں۔ ایک خدا کی اپنی مذہبی تعلیم کے مطابق عبادت کرسکیں۔ بعض لوگ مغربی دنیا میں ، غیر مسلم دنیا میں سمجھتے ہیں کہ مسجد میں شاید غلط قسم کی منصوبہ بندی بھی ہو سکتی ہے، بعض شدت پسند بھی آسکتے ہیں لیکن قرآنِ کریم نے مسجد کا جو مقصد بتایا ہےوہ یہ ہے کہ ایک خدا کی عبادت کے لیے جمع ہوں اور پھر یہ بھی بتایا کہ تمہاری عبادت بھی ایسی ہونی چاہیے جوخدا تعالیٰ کے حق کے ساتھ ساتھ بندوں کے حق بھی ادا کرنے والی ہو۔ اس لیے قرآنِ کریم نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ ان لوگوں کی نمازیں ان لوگوں پرالٹا دی جاتی ہیں، ان کو واپس کر دی جاتی ہیں یا ان کے لیے نقصان کا اور ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں جو یتیموں کا خیال نہیں رکھتے ،مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے، غریبوں کا خیال نہیں رکھتے اور انسانی قدروں کا کسی بھی لحاظ سے خیال نہ رکھنے والے ہوں۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:

پس ایک بات یہ واضح ہونی چاہیےکہ ایک حقیقی مسلمان جب مسجد کا نام لیتا ہے تو وہ ایک ایسی عمار ت کا نام لیتا ہے جس میں جا کر وہ ایک خدا کی عبادت کرےاور جہاں اپنے لیے دعا کرے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے وہاں دنیا کے لیے بھی دعا کرے کہ دنیا میں بھی اور ماحول میں بھی امن و سلامتی پیدا ہو۔ اسی لیے ہمارے بانی جماعت احمدیہ جن کو ہم مسیحِ موعود علیہ السلام مانتے ہیںانہوں نے فرمایاکہ اگر کسی علاقہ میں اسلام کا تعارف کروانا ہے تو مسجد بناؤ۔ اب اسلام کا تعارف اگر کسی بُری شہرت کی وجہ سے ہوتا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اگر اسلام کا تعارف یہ ہوتا ہے کہ اس مسجد میں لوگ دہشت گردی کے منصوبے بنا رہے ہیں تو اس کا تو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے۔ تعارف تو تب ہی ہوسکتا ہے اور تعارف کی بات تو انسان تبھی کرتا ہے جب اس کی خوبیاں بیان کی جائیں۔ اسی لیے جب مسجد بنتی ہے تو لوگ مزید دیکھتے ہیں کہ یہ مسلمان کیسے لوگ ہیں۔ اور حقیقی مسلمان کی جومسجد ہے وہ لوگوںکو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس مسجد میں آنے والے جو لوگ ہیں وہ دوسروں کا خیال بھی رکھنے والے ہیں۔ یہ لوگ صرف عبادت کرنے کے لیے نہیں آئے بلکہ آپس میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے بھی ہیں۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:

قرآن کریم میں ہمسائے کے حق ادا کرنے کا حکم ہے اور ہمسایوں کی تعریف یہ کی گئی کہ تمہارے ساتھ رہنے والے ہمسائے جو گھروں کے ساتھ رہنے والے ہیں تمہارے ساتھ سفر کرنے والے تمہارےwork colleague اورسب وہ لوگ جن سے تمہارا واسطہ پڑتا ہے وہ تمہارے ہمسائے کے حدود میں ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھیں تو یہاں کہا جاتا ہے کہ 1000سے اوپر احمد ی ر ہتے ہیں تو تقریباً پوراشہرہی احمدیوں کا ہمسایہ بن گیا۔ اور ان کاحق اداکرنا ہے اور ان کا حق ادا کرنے کا معیار کیا ہے؟ بانیٔ اسلام حضرت محمد رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا کہ ہمسائے کاحق اداکرنے کا معیار یہ ہے کہ مجھے خداتعالیٰ نے ہمسائے کاحق اداکرنے کی بار بار اتنی تاکید کی ہے کہ مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید وراثت میں بھی ہمسائے کاحصہ رکھ دیا جائے۔ یہ ہے ہمسائے کا حق، جس طرح آپ اپنے قریبی رشتہ دار کا،خونی رشتہ دار کا ،جو آپ کی وراثت میں حصہ دار ہے اس کاحق اداکرتے ہیں اسی طرح اپنے ہمسائے کا حق ادا کرنا ہے۔ تو یہ وہ بات ہے جو ایک حقیقی مسلمان کو اپنے مذہب کی تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے اور اپنی عبادت کے لیے مسجد میں جاتے ہوئے سوچنی چاہیے اوراس پر عمل کر ناچاہیے۔

یہاں ہمارے نیشنل امیر صاحب نے ذکر کیا کہ اس شہر میں چشمے بھی ہیں، پانی بھی ہے، پانی کی فراوانی بھی ہے شاید آپ کو اور ویسے بھی ان ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں ہر وقت جب بھی اپنے گھروں میں اپنےپانی کی ٹوٹی کھولتے ہیں نلکہ کھولتے ہیں تو پانی بہناشروع ہو جاتا ہے تو آپ کو احساس نہیں ہوتا کہ جن ملکوں میں پانی کی قلت ہے توان کا کیاحال ہے۔ افریقہ میں بہت سے ایسے علاقے ہیں بلکہ تقریباً 80 فیصد ایسے علاقے ہیں جو remote areas میں ہیں جہاں پانی کی سہولت نہیں اور 6سے 7 یا 10سے 12 سال کی عمر کے بچے چھوٹی بالٹیاں یابڑی بالٹیاں اپنے سروں پر اٹھا کے 2سے3کلو میٹر تک جاتے ہیں اور پانی لے کر آتے ہیں۔ اور سارادن اسی کام میں مصروف رہتے ہیں اور اس کی وجہ سے تعلیم سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

امیر صاحب نے اس شہر کی یہ خصوصیت بھی بتائی کہ تعلیمی ترقی بھی بہت ہوتی ہے۔ اب وہ لوگ جو ناصرف پانی سے محروم ہیں بلکہ کئی کئی کلومیٹر چل کر ایک ایسے تالاب سے پانی لینے جاتے ہیں جہاں گندا پانی ہے۔ اس تالاب کے پانی میں جانور بھی پانی پی رہے ہیں اسی سے یہ بچے بھی پانی لے کر آتے ہیں اور گھروں میں وہ استعمال ہوتا ہے۔ اور پھراتنادور سفر کرنے کی وجہ سے، غربت کی وجہ سےتعلیم بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ ان ملکوں میں جماعت احمدیہ جہاں مسجدیں بناتی ہے، جہاں جماعت قائم ہے وہاں تعلیم کے لیے سکول بھی بناتی ہے اور پانی کے لیے ہینڈ پمپ اور سولر پمپ بھی لگارہی ہے اور جب وه سولر پمپ یا ہینڈ پمپ چلتے ہیں اور ان میں سے صاف پانی زمین سے نکلتا ہے تو میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اس وقت جو وہاں بچوں اور لوگوں کے چہروں پر خوشی ہوتی ہے اور جو اس کا اظہار ہوتا ہے وہ اسی طرح ہی ہے کہ جس طرح یورپ میں کسی کی کئی ملین لاٹری نکل آئے تو اس پرخوشی کا اظہار کرے۔

تو یہ چیزیں ہیں جو جماعت احمد یہ جہاں جہاں مسجد بناتی ہے وہاں اس قسم کی مدد بھی مہیاکر رہی ہے۔ ہمارے سینکڑوں سکول ہیں، ہسپتال ہیں اور پانی کے پروجیکٹس ہیں، model village کے پروجیکٹس ہیں جہاں ہم یہ خدمت کرتے ہیں اور یہ صرف احمدیوں کے لیے نہیں بلکہ یہ جو خدمت خلق کے کام ہیں، اس میں ہمارے کلینکس میں آنے والے مریض اور سکولوں میں پڑھنے والے 80 فیصد وہ لوگ ہیں جو غیرمسلم ہیں۔ عیسائی ہیں یا پیگن ہیں یا کسی دوسرے مذہب کے ہیں۔ توہم بلاامتیاز یہ خدمت کرتے ہیں۔ وہاں کے مقامی احمدی ہیں وہ مسجد میں بھی آتے ہیں اور اس وجہ سے پھر لوگوں کو توجہ بھی پیدا ہوتی ہے لیکن ہمارا مقصد خالص ہو کر خدمت کرنا ہے اور خدمت خلق کے جو کام یہاں ہورہے ہیں اس کاہمارے بعض معزز مہمان نے اپنی تقریر میں ذکر بھی کیا کہ charity کے کام ہم کرتے ہیں یا خدمت خلق کے کام ہم کرتے ہیں تو یہ کام جو ہم کر رہے ہیں، غریب دنیا میں بہت بڑھ کر ہم کر رہے ہیں۔ یہ جماعت احمدیہ کا ایک خاصہ ہے کہ ہم نے جہاں بھی رہنا ہے خدمت خلق کے کام کرنے ہیں اور مجھے امید ہے کہ اس مسجد کے بننے کے بعد جوسال کے شروع میں یا مختلف وقتوں میں جو charity کے یا خدمت خلق کے کام اس جماعت کے لوگوں نے یہاں کیے، اب اس مسجد کے بننے کے بعد پہلے سے بڑھ کر کریں گے اور لوگوں کو یہ بتائیں گے کہ حقیقی اسلام یہ ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ کرو وہاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی طرف بھی توجہ کرو۔
حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:قرآن کریم کی جو پہلی سورۃہےاس میں پہلی ہد ایت یہ دی کہ الله تعالیٰ کی تعریف کروجوتمام جہانوں کا رب ہے، ہر ایک کو پالنے والا ہے، وہ یہودیوں کا بھی رب ہے، وہ عیسائیوں کو بھی پالنے والا ہے، ہند وکو پالنے والا ہے اور مسلمان کو پالنے والا ہےاور یہی وجہ ہے کہ بانیٔ اسلام حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ انسانی قدروں کو سامنے رکھا۔ اسی لیے قرآن کریم نے بھی آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام شدت پسند ہے اور شدت پسندی کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن شدت پسندی کی تعلیم اسلام نے کبھی بھی نہیں دی۔ اگر ہم تاریخ دیکھیں اور انصاف سے اسلام کی تاریخ دیکھیں تو بانیٔ اسلام حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے شروع کے 13 سال جو مکہ کے تھے انتہائی tortureاور persecution کے سال تھے۔ لیکن آپؐ نے اس کا جواب نہیں دیا۔ پھر ان ظلموں کی وجہ سے، ان ظلموں کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے آپؐ اور آپؐ کے صحابہ وہاں سے ہجرت کر گئے اور جب مدینہ گئے تو وہاں بھی مکہ کے کافروں نے ان کو امن اور سکون سے رہنے نہیں دیا اور حملہ کیا۔ اور اس وقت قرآن کریم میں جنگ کرنے کا یا سختی سے جواب دینے کا جو پہلا حکم ہے وہ اس وقت ہوا جب مدینہ ہجرت کر کے گئے اور یہ حکم قرآن کریم کی 22ویں سورہ میں موجود ہے کہ اب ان ظالم لوگوں کا جواب دینا ضروری ہے کیونکہ اگر ان کا اب جواب نہیں دیا تو یہ لوگ صرف مسلمانوں کو ختم نہیں کرناچاہتے، قرآن کریم میں بڑا واضح لکھا ہوا ہے کہ یہ لوگ مذہب کے خلاف ہیں اور ان کے حملوں کی وجہ سے نہ کوئیsynagogue محفوظ رہے گا،نہ کوئی چرچ محفوظ رہے گا،نہ کوئی temple محفوظ رہے گا اور نہ کوئی مسجدمحفوظ رہے گی۔ گویا کہ اس ایک حکم میں قرآن کریم نےیہ نہیں فرمایا کہ اپنی مسجدوں کی حفاظت کر ویا اپنے دین کی حفاظت کرو بلکہ یہ فرمایا کہ یہ دین کے دشمن ہیں جو کسی بھی مذہب کو پھر زندہ نہیں رہنے دیں گے، اس لیے ان کا جواب دیناضروری ہے اور پھر مسلمانوں نے اس کا جواب دیا اور کیونکہ خدا تعالیٰ کی مد دان کے ساتھ تھی اس لیے باوجود اس کے کہ بڑی well equiped بڑے سازوسامان کے ساتھ جو فوج مکہ سے آئی تھی تو ان کے مقابلہ پر تقریباً تیسرا حصہ جو مسلمانوں کا تھا اور ان کے پاس کوئی ہتھیار بھی نہیں تھے انہوں نے جنگ کی اور پھر جیت بھی گئے۔ اور یہ پہلی جنگ مسلمانوں کی ہوئی اور یہ اس جنگ کا background تھا۔ اور یہ حکم تھا قرآن کریم کا کہ کیوں مسلمانوں کو اب اجازت دے رہا ہے۔ لیکن اس میں بھی دیکھیں کہ بانیٔ اسلام نے جونرمی کا سلوک ان لوگوں سے کیا ان میں سے جو لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے جب جنگ کے بعد وہ قیدی بنائے گئے تو ا ٓپؐ نے کہا کہ کیونکہ تعلیم بھی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو حاصل کرنی چاہیے اس لیے جو کافرقیدی، جو دشمن قیدی پڑھنا لکھناجانتے ہیں اگر وہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں تو ان کو قید سے آزاد کر دیں گے۔ اس حد تک آپ نے نرمی کا سلوک کیا ان لوگوں سے بھی جو آپ کی جان کے دشمن تھے صرف اس لیے کہ انسانی قدریں قائم ہوں تا کہ علم سے لوگ آراستہ ہوں تا کہ علم پھر پھیلے اور لوگوں کی جہالت دور ہو۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بانی ٔاسلام حضرت محمد رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے جب مکہ میں تھے تو وہاں کے جو بڑے بڑے سردار تھے آپؐ بھی ایک اعلیٰ خاندان کے تھے انہوں نے ایک کمیٹی قائم کی جو غریبوں کی مدد کرنے کے لیے تھی۔ لیکن اس کے بعد جب آپؐ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو کافروں کے جو بڑے سردار تھے وہ آپؐ کے خلاف ہو گئے۔ لیکن غریبوں کی مدد کا آپ کو اس قدر احساس تھا کہ مدینہ آ کے بھی جب غریبوں کی مدد کا کوئی ذکر ہوا کہ charity کے کام کس طرح ہمیں organize کرنے چاہئیں، کس طرح ہمیں غریبوں کے بہتری کے کام کرنے چاہئیں، تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ لوگ جن کے ساتھ میں نے ایک معاہدہ کیا تھا اور ہم نے ایک کمیٹی بنائی تھی اور ہم غریبوں کی مدد کیاکرتے تھے وہ لوگ باوجود اس کے کہ میرے مخالف ہیں اور باوجود اس کے کہ مجھے نبوت کا مقام الله تعالیٰ نے دیا ہے، باوجود اس کے کہ ایک بڑی تعدادمسلمانوں کی میرے ماننے والی ہے اور مدینہ میں اس حکومت کا سربراہ ہوں لیکن اگر وہ مجھے بلائیں تو آج بھی میں انسانیت کی خدمت کے لیے ان لوگوں میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوں، ایک ممبر کی حیثیت سے نہ کہ عہدیدار کی حیثیت سے۔ یہ آپؐ کا مقام تھا پھر آپؐ کی نرمی کایہ حال تھا، کس طرح آپؐ نے لوگوں کی اس علاقہ میں integration کے لیے بھی کام کیاintegration کی باتیں یہاں بہت ہوتی ہیں۔ integration تواصل میں تب پیدا ہوتی ہے جب دوسروں کے جذبات کا بھی خیال رکھا جائے۔ ایک جگہ آپؐ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک بچے کا جنازہ گزرا۔ حضرت محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو گئے آپؐ کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا یہ تو ایک یہودی بچے کا جنازہ ہے، آپؐ اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے ہیں تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا یہ یہودی بچہ انسان نہیں تھا۔ اس لیے میں کھڑا ہوا ہوں کہ ہمیں انسانی قدروں کو سمجھنا چاہیے اور انسانی قدروں کو جب ہم سمجھیں گے تب ہم دنیامیں صحیح پیار اور محبت پھیلا سکتے ہیں معاشرے میں بھی پیار و محبت پھیلا سکتے ہیں اور امن اورصلح اور آشتی کی فضا قائم رکھ سکتے ہیں۔ پس یہ وہ جذبات تھے۔

integrationکی باتیں تو بہت ہوتی ہیں اور بڑی اچھی چیز ہے۔ میں بھی یہی کہا کر تاہوں کہ integration کیا چیز ہے؟ میرے لیے integration یہ ہے کہ اب یہاں جواحمدی آئے ہیں اکثریت ان کی مہاجر ہے جو مختلف ملکوں سے اور خاص طور پر پاکستان سے ہجرت کر کے آئے ہوئے ہیں۔ تو integration یہ ہے کہ وہ اس شہر کی بہتری کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کریں یہاں تعلیم حاصل کر کے اس ملک کی خدمت کریں۔ یہاں معاشرے میں لوگوں کی خدمت کریں اور ان کی بہتری کے لیے کام کریں۔ گورنمنٹ پر بوجھ بننے کی بجائے کونسل پر بوجھ بننے کی بجائے یہ کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ ہم ان کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔ اور اسی لیے جماعت احمدیہ اسی بات کی اپنے ماننے والوں کو اپنے جماعت کے ممبران کو تلقین کرتی ہے کہ تم لوگ یہ کوشش کرو کہ زیادہ سے زیادہ پڑھ لکھ کر اس ملک کی خدمت کرو جہاں تم کو ذاتی فائدہ ہو گا۔ وہاں اس ملک کو بھی فائدہ ہو گا۔ اس لیے ہم encourage کرتے ہیں کہ سائنس کے میدان میں اور دوسرے مختلف مضامین کے میدان میں ہمارے جو طالب علم ہیں لڑکیاں بھی اور لڑکے بھی وہ آگے بڑھیں تا کہ ملک کی خدمت کرسکیں، اس معاشرہ میں اور اس ملک میں جس میں وہ آگئے۔ یہ اس ملک کا بڑا احسان ہے کہ اس نے انہیں ادھر جگہ دی اور وہاں جہاں آزادی سے اپنے ملک میں یہ عبادت نہیں کر سکتے تھے یہاں عبادت کرنے کی آزادی دی۔ تو اس احسان کابدلہ تب ہی اتر سکتا ہے کہ جب ہم اس ملک کے لیے پوری دیانتداری سے اپنی صلاحیتوں کے ساتھ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ دینے کی کوشش کریں اور ملک کی خدمت کریں اوریہی حقیقی integration ہے۔ جب تک یہ ہماری سوچ رہے گی مجھے امید ہے کہ ان شاء الله تعالیٰ جماعت احمدیہ کی نیک نامی بھی رہے گی اور آپ لوگ بھی یہ محسوس کریں گے کہ جماعت احمدیہ کی مسجد جو ہے کسی فتنہ اور فساد کی جگہ نہیں بلکہ اس مسجد کے بننے کے بعد یہ احمدی خدمت کے جذبے کے لحاظ سے مزید بہترہوئے ہیں۔

حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:مجھے پتا لگا ہے کہ ہمارے lord mayorصاحب اسی علاقہ میں رہتے ہیں جہاں مسجد ہے اور انہوں نے بڑی تعریف بھی کی کہ احمدی بڑے integrateبھی ہوتے ہیں دوسرےان کے integration کونسل کے جو نمائندے آئے ہوئے تھے انہوں نے بھی یہ بتایا تو اب میں احمدیوں کو بھی کہتا ہوں کہ پہلے سے بڑھ کر اس مسجد کے بننے کے بعد اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس شہر کے لوگوں کی خدمت کریں اور اس ملک کے لوگوں کی خدمت کریں اور یہ ثابت کریں کہ ہم لوگ امن کی فضا میں رہنا چاہتے ہیں۔ مذہب ہر ایک کے دل کا معاملہ ہے قرآن کریم نے بڑا واضح طور پر فرمادیا ہے جو دوسری سورت ہے اس میں بڑا واضح لکھاہوا ہے کہ مذہب کے بارہ میں کوئی جبر نہیں ہر ایک کی مرضی ہے کہ جو چاہے وہ مذہب اختیار کرے۔ اس لیے مسلمان کے دل میں یہ خیال تو آناہی نہیں چاہیے کہ وہ کسی کو زبردستی مسلمان بنائے یا کسی غیرمسلم کے لیے اس کے دل میں جذبات نہ ہوں۔ اصل چیز انسانی قدریں ہیں۔ انسانی قدروں کی ہم حفاظت کر لیں گے تو پھر معاشرے کا امن بھی قائم رہے گا اور یہی اس زمانہ کی ضرورت ہے قطع نظر اس کے کہ میرا مذہب کیا ہے اور آپ کامذہب کیا ہے۔ زید کامذ ہب کیا ہے اوربکر کامذ ہب کیا ہے۔ ہم لوگوں کو یہ چیز دیکھنی چاہیے کہ ہم لوگ انسان ہیں اور جیسا کے میں نے شروع میں کہا کہ خداتعالیٰ نے ہمیں پہلی سورت میں ہی قرآن کریم میں یہ بتادیاکہ وہ رب العالمین ہے کہ وہ یہودیوں کا بھی خدا ہے وہ عیسائیوں کا بھی ہے اور ہندوؤں کا بھی ہے اور مسلمانوں کابھی ہے اور ہر ایک سے رحم کا سلوک کرنے والا ہے۔ بلکہ جو مذہب کو نہیں مانتے، جو خدا کو نہیں مانتے وہ ان کا بھی خدا ہے، ان کو بھی مہیا کر رہا ہے۔ اور باقی جومذہب پر عمل نہیں کر نایا خدا کو نہیں ماننا ہے یا مذہبی تعلیمات پرعمل نہیں کرنا ہے یاخداکے مقابلہ پر کسی کو کھڑا کر نا ہے اس کی سزااگر ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اگلے جہان میں یعنی جواگلی زندگی ہے اس میں ہے نہ کہ اس زندگی میں ہے۔ اور اس جہاں میں الله تعالیٰ نے ہمیں یہی حکم دیا ہے تم ہر ایک سے شفقت اور پیار اور محبت کا سلوک کرو۔ بلکہ قرآن کریم میں یہاں تک لکھاہوا ہے کہ مذہب کے بارہ میں امن قائم رکھنے کے لیے اور محبت اور پیار کی فضا قائم رکھنے کے لیے تم لوگ کسی کے بتوں کو بھی برا نہ کہو۔ کیونکہ اس کے مقابلہ میں پھر وہ تمہارے خدا کو برا کہیں گے پھر آپس میں گالم گلوچ کا ایک سلسلہ چل پڑے گااور پھر اس سے پیار اور محبت اور امن کی فضا قائم نہیں رہ سکے گی۔ اس لیے قرآن کریم کی تعلیم کو اگر دیکھیں تو وہاں تو ہر جگہ یہی نظر آئے گا کہ جتنی نرمی کی تعلیم ہے اس پر ہمیں عمل کر نا چا ہئے اور یہی ہماری جماعت احمدیہ کی تعلیم ہے اور یہی وہ تعلیم ہے جسے ہم دنیامیں اسلام کے حوالہ سے پھیلاتے ہیں اور یہی تعلیم ہے جس پر ہم عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جیسا کے میں نے کہاکہ میں امید رکھتا ہوں کہ ہمارے یہاں کے رہنے والے احمدی پہلے سے بڑھ کر اس مسجد کی تعمیر کے بعد اس تعلیم پر عمل کرنےکی کوشش کریں گے اور اس علاقہ میں اس شہر میں اسلام کی جو پیار اور محبت کی تعلیم ہے اور ان کے اپنے دوستوں سے جو رویے ہیں وہ پہلے سے بڑھ کر پیار اورمحبت کو پھیلانے والے ہوں گے میں دعا بھی کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو یہ توفیق بھی عطا فرمائے ۔ شکریہ۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب سات بج کر پچپن منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

اس کے بعد مہمانوں نے حضورِانور ایدہ اللہ کی معیت میں کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد بعض مہمانوں نے باری باری حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے پاس آکر ملاقات کی سعادت پائی۔ حضورِانور سے شرف مصافحہ حاصل کیا۔ حضورِانور ہر مہمان سے گفتگو فرماتے۔ مہمانوں نے تصاویر بھی بنوائیں۔

اس تقریب کے اختتام پر جب حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ سٹیج کی سیڑھیوں سے نیچے تشریف لارہے تھے تو آگے ایک جرمن خاتون اپنی بچی کے ساتھ ہاتھ میں کیمرہ لیے ہوئے کھڑی تھی۔ وہ اپنی بچی کی حضورِانور کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتی تھی۔ حضورِانور نے ازراہِ شفقت بچی کو اپنے پاس بلایا اور کندھے پر ہاتھ رکھا۔ خاتون نے اس کی تصویر بنائی جس پر وہ بے حد خوش تھی۔ حضورِانور نے ازراہِ شفقت اس خاتون کو بھی تصویر بنوانے کا شرف بخشا چنانچہ ماں بیٹی نے بھی تصویر بنوائی۔

آج کی اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں نے ہال کے اندر اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے، بعضوں نے کھڑے ہوکر اور بعضوں نے سٹیج کے سامنے آکر بڑی کثرت سے حضورِانور کی تصاویر بنائیں۔ جدھر بھی نظر پڑتی تھی کوئی نہ کوئی حضورِانور کی تصویر لے رہا ہوتا تھا۔

اس تقریب کے اختتام پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے چھوٹے ہال میں تشریف لے آئے جہاں مجلس عاملہ جماعت ویزبادن نے حضورِانور کے ساتھ ایک گروپ فوٹو بنوائی۔

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کانفرنس ہال میں تشریف لے آئے۔ جہاں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے نمائندے موجود تھے اور حضورِانور کی آمد کے منتظر تھے۔ آٹھ بج کر چالیس منٹ پر پریس کانفرنس کا آغاز ہوا۔

(باقی آئندہ……)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button