تعارف کتابمتفرق مضامین

تذکرۂ علمائے ہندوستان

(ڈاکٹر سلطان احمد مبشر۔ ربوہ)

اُردو ادب میں علماء،ادبا ءاور شعراء کے تذکرے بہت کم لکھے گئے ہیں۔ میر تقی میرکے‘‘نکات الشعراء’’،سید فتح علی حسینی کے ‘‘تذکرہ ریختہ گویاں’’مولوی رحمٰن علی کے ‘‘تذکرہ علمائے ہند’’کا شما ر اسی قبیل میں کیا جاتاہے۔

اب تک کئی ایسے تذکرے مخطوطے کی شکل میں موجود ہیں جن کی تحقیق نہیں ہوسکی ہے جس کی وجہ سے علم و ادب کے یہ بیش قیمت سرمائے نگاہوں سے اوجھل ہیں۔مشاہیر کے ایسے ہی نادر تذکروں میں سے ایک نایاب قلمی نسخہ‘‘مظہر العلماء فی تراجم العلماء و الکملا ء’’ہے جو ایک سو پچیس سالوں سے محققین کی نگاہوں سے پوشیدہ رہا۔ یہ ایک نہایت قابل قدر کام ہے اور اردو زبان میں بر صغیر کے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ایک ہزار مشاہیر،علماء، مشائخ اور ادباء کا ایک مستند قلمی تذکرہ ہے۔

مشاہیر کے اس قدیم اور مستند تذکر ہ کی بازیافت جناب ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب کو بدایوں(صوبہ اتر پردیش۔ہندوستان) کی دو سوسالہ قدیم خانقاہ قادریہ سے ہوئی۔

مخطوطہ کا تعارف

اس مخطوطہ کے مصنف مولانا سید محمد حسین بدایونی ہیں۔ مصنف نے اپنے عہد کے دستور کے مطابق اس تذکرے کا عربی نام‘‘مظہرالعلماء فی تراجم العلماء و الکملاء’’رکھا تھا۔ تذکرے کے نام کا ابتدائی حصہ‘‘مظہر العلماء’’تاریخی ہے جس سے اس کی تکمیل تصنیف کا سن برآمد ہوتا ہے۔مولانا سید محمد حسین بدایونی نے اس مخطوطہ کو لکھنے کا آغاز یکم رمضان 1315ھ(24؍جنوری1897ء)کوکیااور12؍ربیع الاوّل 1317ھ (21؍جولائی 1899ء)کو مکمل کر لیا۔تاہم 1917ء تک اس تذکرے میں اضافے ہوتے رہے۔

‘‘مظہر العلماء’’کا پیش نظر نسخہ بڑی تقطیع میں تین سو چوبیس صفحات پر چھےسو ستر علماء ، مشائخ اور ادبا ء کے ذکر و احوال پر مشتمل ہے۔نیز ‘‘بطور تکملہ’’تین سو تریسٹھ علماء و ادباء کے نام اور ان کی جائے سکونت کا اندراج ہے جب کہ تکملہ میں بعض ناموں کے ساتھ ان کے چند سطری کوائف بھی لکھے گئے ہیں۔اس طرح اس تذکرہ میں کل ایک ہزار چالیس شخصیات کاذکر اور ان کے اجمالی اور تفصیلی احوال شامل ہیں۔
مصنف نے اس تذکرہ میں جن مشاہیر کے احوال اور علمی، ادبی اور دینی کمالات کا ذکر کیا ان میں سے بہت سی شخصیات کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان سے ملاقات کی۔ اس میں بعض ایسی شخصیات کے تذکرے بھی شامل ہیں جو کچھ عرصہ قبل ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ان کے احوال ان کے عزیز و اقارب کے ذریعہ حاصل کیے گئے۔ اس لحاظ سے اس کتاب کی ثقاہت ،استنادی حیثیت ،اہمیت اور خصوصیت بڑھ جاتی ہے۔ اس تذکرے میں ہر مسلک و مشرب کے مشاہیر فاضلین کے احوال درج کیے گئے ہیں جو اس کی وسعت و جامعیت کی بڑی دلیل ہے۔

وجہ تالیف

جناب مولانا سید محمد حسین بدایونی اس تذکرہ کی وجۂ تالیف کے بارہ میں خود تحریر کرتے ہیں:
‘‘تیر ھویں اور چودھویں صدی اور بالخصوص تیر ھویں صدی کے علماء کی تاریخ جمع کرنے میں خاص طور پر طبیعت جو مائل ہوئی اس کی وجہ کیاہے؟آپ جانتے ہیں کہ ہر شخص کو اپنے ملک، اپنے شہر،اپنے وطن،اپنے مسکن،اپنی قوم سے خاص محبت ہونا خاصۂ بشری سے ہے۔پس قوم کی ہی محبت کا یہ اثر ہے جو خاص علمائے اسلام کے حالات صحیح صحیح،تحقیقی ، بلا رو رعایت،بے تعصب ،پاک اور خاص ہوکر لکھ رہاہوں۔ کتاب ہٰذا میں بیشتر علمائے ہند اور بعض علمائے بلداء الشہداء یعنی بدایوں شریف کا ذکر خیر ہے۔سب کچھ سہی لیکن وطن کی اور مسکن کی محبت کو کیا کروں اور کس طرح نبا ہوں؟

…جب میں وطن اور مسکن کی محبت کو اس سلسلے میں پورا نہ کر سکا تو یکا یک قدرتی طور پر یہ خیال پیدا ہوا کہ بجائے وطنی اور مسکنی کے ،جس صدی میں مَیں پیدا ہوا ہوں،اس کی خدمت کرنا اور اس کے حقوق بجا لانے کی ضروریات ہیں اور وہ بھی ہمارے حق میں ایک بڑے مربی اور سرپرست سے کم نہیں، جس کی برکت سے ہم عالم وجود میں آئے،تعلیم و تربیت پائی، یہ دن نصیب ہوا جوحضرات ناظرین و الاتمکین کی خدمت میں یہ ہدیہ بیش بہا پیش کر سکا۔پس ایسے حقوق سے سبکدوش ہونے کے واسطے اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ سمجھ میں نہیں آیا کہ بارہویں،تیرہویں اور چودھویںتاریخ [صدی]کے علماء ادباء اور اولیائے کا ملین کی تاریخ لکھوں۔’’

(مظہر العلماء صفحہ 9 بحوالہ‘‘تذکرئہ علمائے ہندوستان’’صفحہ 69)

تعارف مصنف مخطوطہ

اس قلمی مخطوطہ کے مصنف مولانا سید محمد حسین صاحب ہیں۔جن کا تعلق بدایوں جیسے علم وفن اور شعر و سخن کے مر کزسے ہے۔مولانا اپنے عہدکے عالم دین،علم نجوم و فلکیات کے ماہر،تاریخ گو اور درجنوں کتابوں کے مصنف تھے۔بدایوں کے نواح میںایک چھوٹاسا قصبہ سید پور ہے جو سادات کی بستی بھی کہلاتی ہے ۔یہی قصبہ مولانا کا مولد و مسکن رہا۔آپ حسینی سید تھے اور آپ کے والد کا نام سید بخشش علی تھا۔مولانا 29؍ ذی الحجہ 1268ھ28؍جون1862ء کو پیدا ہوئے۔تعلیم سے فراغت کے بعد آپ درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔اس کے علاوہ آپ کا دوسرا مشغلہ تصنیف و تالیف تھا۔آپ نے مختلف موضوعات پر اردو اور فارسی میں درجنوں رسائل اور کتا بیں لکھیں ۔مولانا محمد حسین کے عہد میں مسلمانوں سے آریہ سماجیوں کے مناظرے اور مذہبی مباحثے عروج پر تھے۔مولانا کی تصانیف سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ خود بھی تحریک دفاع اسلام میں خاصے متحرک تھے۔ آپ کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں۔

آرین ایشور، آریہ کرم، ریاض الانوار، ارمغان احباء، حقیقت الارکان(5 حصّے)، تائید التوحید، مظہر الاسلام، مسلی المصّلی، قصیدۃ الانوار فی اسماء سید الابرار۔ حامل التواریخ، صیانۃ الاحکام ۔

مولانا کا وصال 1918ءکو ہوا۔

‘‘تذکرۂ علمائے ہندوستان’’

جناب خوشتر نورانی صاحب نے مذکورہ بالا مخطوطہ کی استنادی حیثیت کے باعث اپنے مقالہ کے لیے‘‘مظہر العلماء’’کا انتخاب کیا۔آپ کی ریسرچ کا موضوع‘‘اٹھارویں اور انیسویں صدی کے مشاہیر: مظہر العلماء فی تراجم العلماء و الکملائ :تدوین و تحشیہ’’ قرار پایا۔

فاضل تحقیق نگار نے کمال دقّت کے ساتھ اس بوسیدہ اور کرم خوردہ مخطوطہ پر پوری تحقیق کی اور معاصر اور مستند تذکروں سے اس کے متن کی تصحیح اور تدوین کی اور اس کی افادیت کو عام کرنے کے لیے علمی حواشی بھی تحریر کیے۔ جس پر فاضل محقق مبارک باد کے مستحق ہیں۔اس مقصد کے لیے آپ نے ہندوستان اور پاکستان کی لائبریریوں سے استفادہ کیا جن میں سینٹرل لائبریری دہلی، حکیم محمد سعید سینٹرل لائبریری، جامعہ ہمدردنئی دہلی، خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری(پٹنہ بہار)، مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ، علامہ شبلی نعمانی لائبریری ندوۃ العلماء لکھنؤ، پنجاب پبلک لائبریری لاہور، سنٹرل لائبریری پنجاب یونیورسٹی لاہور، انجمن ترقی اردو کراچی بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سی ویب سائٹس کی مدد بھی حاصل کی۔

اپنی قدامت ، جامعیت اور ثقاہت کی وجہ سے ‘‘مظہر العلماء’’کے متن کی حیثیت ‘‘ریفرنس’’کی ہے۔اس پرمکمل تحقیق کے بعد جناب خوشتر نورانی صاحب شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی سے ڈاکٹر یٹ (پی۔ایچ۔ڈی)کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

اس علمی تذکرے کی اہمیت کے پیش نظر مقالہ میں جزوی ترمیم و تبدیلی کے ساتھ اسے ہندو پاک میں طبع کیا گیا تا اہل علم اس نادر قلمی تذکرے سے استفادہ کر سکیں۔جناب ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب نے مذکورہ بالا نام کے ساتھ کتاب کا عرفی نام‘‘تذکرئہ علمائے ہندوستان’’رکھا ہے کیونکہ موجودہ دور میں عربی نام کی تفہیم اور ادائیگی آسان نہیں تھی۔

تحقیق سے مزین اس کتا ب کو پاکستان میں دارالنعمان غزنی سٹریٹ، اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کے نو سو چوالیس (944)صفحات ہیں۔

کتاب کے مشمولات اس طرح پر ہیں۔

انتساب ،عکس مخطوطہ، ملاحظات اور پیش لفظ کے بعد
پہلا باب :تعارف مصنف مخطوطہ
دوسرا باب :تعارف مخطوطہ
تیسرا باب :متن مخطوطہ
چوتھا باب :تکملہ ۔ تکملہ کی بعض مشاہیر شخصیات کی فہرست
پا نچواں باب :حواشی و تعلیقات
چھٹا باب :وضاحتی اشاریہ اور کتابیات پر مشتمل ہے

اس تذکرہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام،حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ،حضرت مولانا عبد الماجد صاحب بھاگل پوریؓ، حضرت ڈاکٹرخلیفہ رشید الدین صاحب ؓاور حضرت مولوی فیروز الدین صاحب ڈسکویؓ جیسے احمدی مشاہیر کا ذکر بھی شامل ہے۔

علاوہ ازیں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب، حضرت سید احمد صاحب بریلوی، حضرت شاہ اسماعیل دہلوی صاحب ، جناب سر سید احمد خاں صاحب، احمد رضا خاں صاحب بریلوی، مولوی اشرف علی تھانوی صاحب ، امداد اللہ مہاجر مکی صاحب، مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی، علامہ شبلی نعمانی ،مولوی صدیق حسن قنوجی صاحب،مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی،مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی،خواجہ حسن نظامی صاحب،مرزا حیرت دہلوی صاحب،مولوی عبداللہ چکڑالوی صاحب اور مولوی گل علی شاہ صاحب(استاد حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوٰۃ و السلام)وغیرہ کے احوال بھی موجود ہیں۔

‘‘تذکرۂ علمائے ہندوستان’’میں احمدی مشاہیر کا ذکر

ذیل میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ کے بارہ میں فاضل مصنف کی تحریرات اور ان پر ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب کے حواشی درج کیے جاتے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں جناب مولوی محمد حسین صاحب بدایونی ‘‘مظہر العلماء’’میں لکھتے ہیں:

‘‘مرز ا غلام احمد قادیانی (1835ء۔۔۔1908ء)

مرزا غلام احمد قادیانی ابن غلام مرتضیٰ (ضلع گورداس پور)،آپ نامی گرامی،شہرہ آفاق،فرقہ مرزائی احمدی کے بانی [اور]امام مہدی و مسیح موعود کے مدعی،بحالت بروزی ہوئے۔آریہ اور عیسائی وغیرہ ،مخالفین اسلام سے مباحثے و مناظرے رہے۔ان کے خلیفہ مولوی حکیم نورالدین(جموں)ہوئے۔‘‘البدر’’اور‘‘الحکم’’اخبارجاری ہوئے۔پنڈت دیانند سر سوتی، لیکھ رام (آریائی)اور عبداللہ آتھم(عیسائی)سے تحریری وتقریری مذہبی مکالمے و مباحثے رہے۔علمائے اہل اسلام سے خلاف عقائد پر گفتگورہی، آخر پر نزول وحی کے مدعی ہوئے۔ابتدائی حالت میں اہل اسلام[ان کے]موافق رہے،جب[ان سے]خلافِ احکامِ شرعی امور سرزد ہوئے،مخالف ہو گئے۔ان کے مقابلے پر ان کے شاگرد اور مرید مولوی چراغ دین (ساکن جموں)بھی مدعی،رسالت کے ہوئے۔اپنی کتاب ‘‘براہین احمدیہ’’کے جواب لکھنے والے کو دس ہزار روپے انعام کا اقرار کیا۔شحنۂ حق،سرمہ چشم آریہ اور بہت کتابیں و رسالے چھپے ہیں۔حضرت مولانا سید شاہ مہر علی(زیب آرائے مسند سجادہ،گولڑہ،ضلع راولپنڈی )سے چھیڑ چھاڑ رہتی ہے۔مولوی بشیر الدین محمود احمد آپ کے صا حبزادے ہیں۔مرزا صاحب نے بتا ریخ22؍ شہر صفر المظفر ،یوم پنج شنبہ، وقت ساڑھے دس بجے دن،1326ھ مطابق 26؍مئی 1908ء میں وفات پائی۔’’(صفحہ۔ 286)

اس پرجناب ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب نے درج ذیل حاشیہ تحریر کیا ہے:

‘‘(1)مرزا غلام احمد ابن غلام مرتضیٰ ابن عطا محمد برلاس 13؍ فروری 1935ءکو پیدا ہوئے۔اور اپنے گائوں قادیان میں ہی تعلیم پائی،اس کے بعد کچھ عرصہ سیالکوٹ میں عدالت میں کام کیا۔اس زمانے میں عیسائی مبلغین اور آریہ سماجی اسلام پر نظریاتی حملے کر رہے تھے اور ان کے رد میں اسلام کے نمائندہ علما ءبرسر پیکار تھے۔مرزا صاحب نے بھی اس میدان میں قدم رکھا اور عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کے مشہور مذہبی رہنمائوں سے مباحثے کیے اور ان کو مقابلے کی دعوت دی،اور اس موضوع پر مختلف رسائل اور کتابیں لکھیں۔آگے چل کر مرزا صاحب نے دعویٰ کیا کہ وہ مسیح موعود ،مہدی آخر الزماں ہیں اور نبی ہیں،نیز اعلان کیا کہ انہیں بیعت لے کر ایک جماعت بنانے کا حکم ملاہے، اس طرح 23؍مارچ1889ءکو لدھیانہ (پنجاب )میں بیعت لے کر‘‘جماعت احمدیہ’’کی بنیاد رکھی۔مرزا صاحب کے مذکورہ دعوے کے پیش نظر جمہور علمائے اسلام نے اس گروہ کو کافر قرار دیا ہے۔

تفصیل کے لیے دیکھیں :

سیرت المہدی:مرزا بشیر احمد
سیف چشتیائی:پیر سید مہر علی شاہ گولڑ وی
قاموس المشاہیر:جلد :دوم،ص:102
نزھۃ الخواطر(عربی):جلد:8،ص:1317تا1319

(2)عیسائی مبلغین اور آریہ سماجیوں کی جانب سے قرآن کریم اور حضور ﷺ کے منصب رسالت پر اعتراضات کے جواب میں مرزا غلام احمد قادیانی نے ‘‘براہین احمدیہ’’لکھی، جس کا پہلا اور دوسرا حصہ1880ء میں،تیسراحصہ 1882ء میں،چوتھاحصہ 1884ء میں اور پانچواں حصہ 1905ء میں شائع ہوا۔’’(تذکرہ علمائے ہندوستان ،صفحہ 688)

حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب ؓ خلیفۃ المسیح الاوّل

سیدنا حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا محمد حسین بدایونی نے لکھا:

‘‘مولانا نورالدین قادیانی [1841ء۔۔۔۔1914ء]

حکیم خلیفہ نورالدین مرزائی(ساکن جموں)،آپ شاگرد اور مرید و خلیفہ مرزا غلام احمد قادیانی کے ہیں،گویا مرزا صاحب کے خاص دست راست ہیں۔ تصدیق براہین احمدیہ بر تکذیب براہین احمدیہ (دو جلدوں میں)،فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب (درردّعیسوی )،بیاض نورالدین بجواب ترک اسلام(عبدالغفور دھرم پال مرتد کے رد میں)کتابیں ہیں۔’’(صفحہ394)

جناب ڈاکٹرخوشتر نورانی صاحب نے اس پر جو حاشیہ لکھا وہ یہ ہے:

‘‘مولانا حکیم نورالدین ابن حافظ غلام رسول مرزا غلام احمد قادیانی کی ‘‘جماعت احمدیہ ’’کے پہلے خلیفہ تھے۔ مولانا کی پیدائش جنوری 1841ءکو بھیرہ ،ضلع سر گودھا(پنجاب)میں ہوئی۔ ابتدائی عربی و فارسی کی تعلیم اپنے بھائی اور منشی محمد قاسم کشمیری سے لاہور میں پائی،17؍ برس کی عمر میں راول پنڈی کے ایک اسکول میں داخل کیے گئے، جہاں سے 21؍ سال کی عمر میں پڑھ کر پنڈ داد ن خان کے ایک اسکول میں ہیڈ ماسٹر کی ملازمت مل گئی۔ کچھ برسوں کے بعد مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہوا تو رام پور، مراد آباد، لکھنؤ اور بھوپال کا سفر کیا،جہاں مولانا ارشاد حسین مجددی رام پوری ،مولانا عزیز اللہ افغانی ،مولانا عبدالعلی اور ملا حسن سے درسیات کی تکمیل کی۔ لکھنؤ میں ہی حکیم علی حسین سے علم طب پڑھا اور بھوپال میں طب میں مہارت حاصل کی۔1865ء میں مکہ مکرمہ چلے گئے اور وہاں مولانا رحمت اللہ کیر انوی اور مولانا حسن خزرجی سے علم حدیث پڑھا،مولانا شاہ عبدالغنی مجددی دہلوی سے بھی حدیث پڑھی اور انہی سے بیعت بھی ہوگئے۔اعلیٰ تعلیم سے فراغت کے بعدہندوستان لوٹے، کچھ عرصہ دیوبند میں رہ کر مولانا قاسم نانوتوی سے بھی استفادہ کیا، اس کے بعد 1871ء میں اپنے وطن بھیرہ آگئے اور ایک مدرسہ قائم کیا، نیز مطب بھی کھول لیا، جن کی وجہ سے مولانا کی شہرت ہوگئی ۔

1876ء میں کشمیر کے راجا رنبیر سنگھ نے مولانا کو شاہی طبیب مقرر کر دیا ،یہ اس منصب پر1892ء تک رہے، اس دوران مولانا کا سر سید سے رابطہ ہوا اور اسی عہد میں مولانا نے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتاب ‘‘براہین احمدیہ’’پڑھی،متاثر ہوئے اور مرزا صاحب سے ملنے قادیان پہنچے،بیعت کی درخواست کی،مگر انہوں نے منع کر دیا۔مگر جب 1889ء؍میں مرزا صاحب نے ‘‘جماعت احمدیہ’’کی بنیاد رکھی اور بیعت کا سلسلہ شروع کیا تو سب سے پہلے مولانا نورالدین کو بلا کر بیعت کیا،اس کے بعد مولانا کشمیر سے قادیان آگئے اور پوری زندگی اسی جماعت اور مشن کی اشاعت میں گزاری۔ مرزا صاحب کی اس دنیا سے رخصتی کے بعد 27؍مئی کو مولانا نورالدین کو متفقہ طور پر پہلا خلیفہ منتخب کیا گیا۔ان ہی میں سے کچھ لوگوں نے اس نظام سے اختلاف کر کے‘‘لاہوری جماعت’’کے نام سے ایک الگ جماعت بنا لی اور جماعت احمدیہ سے الگ ہوگئے۔مولانا کے عہد میں اس فرقے نے کافی ترقی کی،نئے اخبارات کا اجراہوا،تصانیف کا شعبہ قائم ہوااور درجنوں تصانیف لکھی گئیں ، بڑے پیمانے پر لائبریری قائم کی گئی اور انگریزی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہوا،نیز لندن میں بھی پہلا احمدیہ مشن قائم ہوا۔مولانا نے 13؍مارچ1914ءکو قادیان ،ضلع گورداس پور(پنجاب)میں اس دارفانی سے کوچ کیا۔

تفصیلی احوال کے لیے ملاحظہ ہو:

مرقاۃالیقین فی حیاۃ نورالدین: اکبر شاہ نجیب آبادی’’

(تذکرہ علمائے ہندوستان، صفحہ 821تا822)

حضرت مولانا عبدالماجد بھاگلپوریؓ

حضرت مولانا عبدالماجد صاحب نے مڈل سکول پورینی(ضلع بھا گلپور )سے 1875ء میں مڈل ورنیکلر کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ اسکالر شپ حاصل کیا۔درس نظا میہ میں عربی تعلیم کی تکمیل حضر ت مولانا عبدالحٔی صاحب لکھنوی سے کی۔بعد ازاں 1903ء میں علامہ شبلی نعمانی کے ذریعہ (جو مولانا صاحب کے زمانہ طالب علمی کے دوست تھے )علی گڑھ کالج میں بعہدہ ڈین (DEAN OF FACULITY)مقرر ہوئے۔1904ء میں بھاگلپور کالج کے پروفیسر مقرر ہوئے اور 1938ء میں ریٹائر ہوکر اپنے وطن مالوف موضع پورینی میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کی خبر آپ کو مولوی حسن علی صاحب بھا گلپوری محمڈن مشنری سے ملی تھی۔داخل احمدیت ہونے کے بعد آپ کو مولوی محمد علی کانپوری ثم مونگیری سے سخت مقابلہ کرنا پڑا۔آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا۔آپ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔جن میں ‘‘مرۃ العر بیہ’’،‘‘القواعد ’’اور ‘‘القائے ربانی’’ خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔مؤ خر الذکر کتاب مولوی محمد علی صاحب کی کتاب ‘‘فیصلہ آسمانی ’’کے جواب میں ہے اور ایک بیش قیمت تصنیف اور قابل قدر چیز ہے۔

حضرت مولوی صاحب کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ کی دختر نیک اختر سارہ بیگم صاحبہ کو اپریل 1935ء میں اپنی زوجیت کا شرف بخشا۔

جناب مولوی محمد حسین صاحب بدایونی ‘‘مظہر العلماء’’میں حضرت مولانا کی نسبت تحریر کرتے ہیں:

‘‘مولانا عبدالماجد بھاگل پوری [وفات ۔۔۔۔1946ء]

مولوی عبدالماجد بھاگل پوری،آپ بھاگل پور[بہار]کے مشہور علماء میں سے ہیں۔آپ کو مولانا عبدالحئی لکھنوی سے شرف تلمذ حاصل ہے، واعظ خوش بیان اور شغل تدریس میں مصروف ہیں۔’’(صفحہ 261)
ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب تحقیق کے بعد مندرجہ ذیل حاشیہ ضبط تحریر میں لائے۔

‘‘مولانا عبدالماجد ابن عبدالواحد بھاگل پوری کی پیدائش و پر ورش بھاگل پور(بہار)میں ہوئی۔اپنے زمانے کے علما ءاور اساتذہ سے پڑھ کر مولانا ابو الحسنات عبدا لحی فرنگی محلی کی درس گاہ میں پہنچے اور ان مختلف علوم و فنون کی تحصیل کی۔فراغت کے بعد کلکتہ میں اقامت گزیں ہوئے اور وہاں درس و تدریس اور وعظ وتذکیر میں مصروف رہے،اس کے بعد محسن الملک نواب مہدی علی خاں(ف:1907ء)نے وعظ و تذکیر کے لیے مدرستہ العلوم (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)بلایا،وہاںایک سال خدمت انجام دے کر وطن لوٹ گئے اور ایک انگریزی اسکول میں تدریس سے منسلک ہوگئے۔ مولانا نے قادیانی مذہب اختیار کر لیا تھا اور اسی کی تبلیغ بھی کرتے تھے،غالباً اسی لیے قا دیان،ضلع گورداس پور(پنجاب)چلے گئے،جو قادیانیوں کا مرکز ہے اور وہیں1365ھ؍1946ء میں فوت ہوکر مدفون ہوئے۔

دیکھیں:

تذکرئہ علمائے بہار: ص:163
تذکرئہ علمائے حال: ص:54
نزھتہ الخواطر(عربی): جلد:8،ص:1302۔’’

(صفحہ 658)

حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ

حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ 1866ء میں لاہور میں پیدا ہوئے اور یکم جولائی 1926ءکو اپنے معبود حقیقی سے جاملے۔

حضرت خلیفہ رشیدالدین صاحب میڈ یکل کالج میں تعلیم پاتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م نے اپنے دعویٰ کا اعلان کیا۔ڈاکٹر صاحب نے معاً اٰمَنَّا وَ صَدَّقنَاکہا۔آپ کا نام نامی تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست میں درج ہے۔آپ اس روحانی تعلق میں اس قدر ترقی کر گئے کہ اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قربان کردیا۔

یہ آپ کے اخلاص ہی کا ثمرہ تھا کہ سب سے اوّل حضور علیہ السلام نے آپ سے رشتہ داری کا تعلق پیدا کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی شادی آپ کی صاحبزادی سے کی۔حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثالثؒ)اور حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ (والدہ ماجدہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز)انہی صاحبزادی کے بطن سے ہیں۔

آپ کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں:

‘‘وہ ایک پرانے صحابی،اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خاص حواریوں میں سے تھے۔سلسلہ کی انہوں نے اس قدر خدمت کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آخر انہیں ایک خط لکھا کہ اس قدر مالی خدمت کے بعد اب آپ کو مزید خدمت سے آزاد کیا جاتا ہے مگر وہ استطاعت سے بڑھ کر ہمیشہ مالی خدمت کرتے رہے۔صاحب ِالہام و کشف تھے اور سلسلہ کی خدمت کا جوش رکھتے تھے۔’’

(انوارالعلوم ،جلد14۔صفحہ 446)

‘‘مظہر العلماء ’’میں حضرت ڈاکٹر صاحب کا ذکر آپ کے والد جناب قاضی حمید الدین صاحب کے تذکرہ میںاس طرح کیا گیا ہے۔

‘‘قاضی خلیفہ حاجی حمیدالدین صاحب لاہوری،لاہور کے عہدئہ قضاء پر متمکن رہے۔پنجاب کے اکثر بلاد و امصار میں بالواسطہ و بلا واسطہ آپ کے تلامذہ پائے جاتے ہیں۔انجمن حمایت اسلام لاہور کے میر مجلس ،پنجاب یونیورسٹی کے فیلو،شہر کے قاضی ،وجیہ، بارعب،شاندار [شخصیت کے مالک تھے]۔

آپ کے چار صاحبزادے بھی ماشاء اللہ مثل اپنے پدر عالی قدر کے ہیں…خلیفہ رشیدالدین جو چکروتہ کے ڈاکٹر ہیں…صاحبزادگان نے اپنے والد کی یاد گاری میں اعلیٰ پیمانے پر ایک مدرسہ صرف دینیات میں ،بمقام شہر لاہور بتاریخ 20 شہر جمادی الدولی،روز یک شنبہ ،1315ھ مطابق 17؍اکتوبر 1897ء کو قائم کیا۔جملہ اخراجات اپنے ہی تعلق رکھے ہیں۔’’

(صفحہ،150)

……………………………………………………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button