حضرت مصلح موعود ؓ

تقدیر الٰہی (قسط 10)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

بعض حالات میں کیوں اسباب استعمال کرائے جاتے ہیں؟

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض حالات میں بندہ سے کیوں اسباب استعمال کرائے جاتے ہیں؟ بلا اسباب کیوں کام نہیں ہوجاتے؟ اس کے لیے یاد رکھنا چاہیے کہ اول اگر ہمیشہ بلا اسباب کام لیا جاوے تو ایمان بالغیب جو حصول انعام اور ثواب کے لیے ضروری ہے باطل ہو جائے۔ علاوہ ازیں چونکہ بندہ کا عمل بھی خدا کے رحم کو جذب کرتا ہے اس لیے تقدیر بھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ رحمت کے جذب کرنے کے لیے خدا تعالیٰ اسباب بھی استعمال کراتا ہے۔ اسباب تقدیر کے راستہ میں نہ روک ہوسکتے ہیں اور نہ ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی کمزوری اور بےبسی جاذب رحمت ہو جاتی ہے۔

دوم۔ اسباب سے کام لینے کا اس لیے بھی حکم ہے کہ بندہ پر اس کی سعی کی کمزوری ظاہر ہو۔ اگر بلااسباب کام ہو جائے تو بہت دفعہ انسان یہ خیال کر لے کہ اگر میں اس کام کو کرتا تو نہ معلوم کس طرح کرتا جب وہ ساتھ ساتھ سعی کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا جاتا ہے کہ اس کی سعی کمزور ہے اور اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل کیا کام کر رہا ہے۔ پس سعی انسان کے ایمان کو مضبوط کرتی ہے۔ اور انسان ساتھ کے ساتھ دیکھتا جاتا ہے کہ اگر میرے ذمہ ہی یہ کام ہوتا تو میری کوشش اور سعی بس اس حد تک ہی پہنچ سکتی تھی اور آخر مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا۔ بصورت دیگر اسے تقدیر ایک اتفاق نظر آتی اور سستی مزید برآں پیدا ہوتی۔

اس استعمال سامان کے متعلق میں ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ رسول کریم ﷺ کے متعلق یہ تقدیر نازل ہوچکی تھی کہ آپؐ کامیاب ہوں گے اور آپؐ کے دشمن ناکام۔ اگر بلا کسی باعث کے اپنے اپنے گھروں میں لوگ بیمار پڑ کر مر جاتے تو سب لوگ کہتے کہ یہ اتفاق تھا لوگ مرا ہی کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس تقدیر کو اسباب کے ذریعہ ظاہر کر کے اپنی قدرت کا خاص ثبوت دیا۔

جنگ بدر کا ایک واقعہ اس امر کو خوب روشن کر دیتا ہے۔ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ اس دن میرا دل چاہتا تھا کہ آج دشمنوں کے مقابلہ میں خوب دادِ مردانگی دوں۔ (کیونکہ یہ پہلی جنگ تھی جس میں کفار اور مسلمانوں کا جم کر مقابلہ ہونے والا تھا۔ اور جس میں ایک طرف مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل اور دوسری طرف خدا اور رسولؐ موجود تھے اور مسلمانوں کو کفار کے مظالم ایک ایک کر کے یاد آرہے تھے) اور چونکہ لڑائی میں جس سپاہی کے دائیں بائیں بھی طاقتور آدمی ہوں وہی خوب لڑسکتا ہے۔ میں نے بھی اپنے دائیں بائیں دیکھا لیکن میرے افسوس کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ میری دونوں جانب چودہ چودہ سال کے دو انصار لڑکے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ آج میں نے کیا لڑنا ہے۔ یہ وسوسہ ابھی میرے دل میں پیدا ہی ہوا تھا کہ ان میں سے ایک نے مجھے کہنی ماری اور میرے کان میں آہستہ سے کہا تاکہ دوسرا نہ سن لے کہ چچا! ابوجہل کون سا ہے؟ دل چاہتا ہے کہ اس کو قتل کر دوں کیونکہ سنا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو سخت دکھ دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس کی یہ بات سن کر میں تو حیران رہ گیا کیونکہ یہ خیال میرے دل میں بھی نہ آیا تھا۔ لیکن ابھی میں نے اس کی پوری بات نہ سنی تھی کہ دوسرے نے میرے دوسرے پہلو میں کہنی ماری اور آہستہ سے تاکہ دوسرا نہ سن لے اس نے بھی یہی دریافت کیا کہ چچا! ابوجہل کون سا ہے؟ جس نے سنا ہے رسول کریم ﷺ پر بڑے بڑے ظلم کیے ہوئے ہیں۔ اس پر میری حیرت اور بھی بڑھ گئی۔ لیکن میری حیرت کی اس وقت کوئی حد نہ رہی جب میرے ابوجہل کی طرح اشارہ کرتے ہی باوجود اس کے کہ اس کے اردگرد بڑے بڑے بہادر سپاہی کھڑے تھے وہ دونوں لڑکے شکروں کی طرح جھپٹ کر اس پر حملہ آور ہوئے (بخاری کتاب المغازی باب فضل من شھد بدراً) اور چاروں طرف کی تلوار کے وار بچاتے ہوئے اس تک پہنچ ہی گئے اور اس کو زخمی کر کے گرا دیا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کی ہلاکت کے لیے جنگ کرانا اور مسلمانوں کا ان کے مقابلہ پر جانا ایک سبب تھا۔ مگر خود اس تدبیر کی کمزوری ہی اس تقدیر کی عظمت پر دلالت تھی جو خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے جاری کی تھی۔ مگر یہ تدبیر نہ ہوتی تو اس تقدیر کی شان بھی اس طرح ظاہر نہ ہوتی اور صحابہؓ کو اپنی کمزوری اور اللہ تعالیٰ کے جلال کا ایسا پتہ نہ لگتا جو اَب لگا۔ درحقیقت اپنی تلواروں میں ہی انہوں نے خدا تعالیٰ کی چمکتی ہوئی تلوار کو دیکھا اور ان اسباب میں ہی اپنی بے اسبابی کا علم حاصل کیا۔ تیرہ چودہ سال کے لڑکے کس طرح ابوجہل کو مارسکتے تھے مگر انہوں نے مارا۔ یہی حال ان دوسرے لوگوں کا تھا جو اس جنگ میں قتل کیے گئے۔ یہی وجہ تھی کہ خدا تعالیٰ اس جنگ کے متعلق فرماتا ہے۔

فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ(الانفال:18)

کہ تم نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ ہم نے کیا ہے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہے۔ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی(الانفال:18)جب تُو نے ان کفار پر پتھر پھینکے تھے۔ یہ پھینکنا تیری طرف سے نہ تھا بلکہ ہماری طرف سے تھا۔ بے شک کنکر تو رسول اللہ ﷺ نے پھینکے تھے مگر چونکہ آندھی خدا کی طرف سے چلائی گئی تھی اور اسی نے دشمن کو جنگ کے ناقابل کر دیا تھا اس لیے خدا تعالیٰ ہی کی طرف اس فعل کو منسوب کیا گیا۔ پس تقدیر کے ظہور میں بعض اوقات بےاسبابی کے اظہار کے لیے اسباب رکھے جاتے ہیں۔

سوئم انسان کو محنت اور کوشش کا پھل دینے کے لیے تقدیر کے ساتھ اسباب کے استعمال کا بھی حکم دیا جاتا ہے۔ مثلاً صحابہ کرامؓ کو جنگوں کا ثواب ملا اگر یونہی فتح ہو جاتی تو کہاں ملتا۔ وہ تقدیر محتاج نہ تھی صحابہؓ کی تلوار کی مگر صحابہؓ محتاج تھے تقدیر کے ساتھ عمل کرنے کے تاکہ ثواب سے محروم نہ رہ جائیں۔ یہ تین موٹی موٹی وجوہ ہیں تقدیر کے ساتھ اسباب کے استعمال کرنے کی۔

اب سوال ہوسکتا ہے کہ پھر بعض اوقات تقدیر میں اسباب سے منع کیوں کیا جاتا ہے؟

اس کے لیے یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی خدا تعالیٰ مومن کو بغیر اسباب کے تقدیر کا اظہار کر کے اپنا جلال دکھانا چاہتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس کی قدرت کے مقابلہ میں سب اسباب ہیچ ہیں اور خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

کیا تقدیر ٹل سکتی ہے؟

اب میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں کہ کیا تقدیر ٹل سکتی ہے؟ اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ ہاں ٹل سکتی ہے۔ تقدیر کے معنی فیصلے کے ہیں اور جو فیصلہ دے سکتا ہے وہ اسے بدل بھی سکتا ہے۔ اور فیصلہ کر کے اس کو بدل نہ سکنا کمزوری کی علامت ہے جو خدا تعالیٰ میں نہیں پائی جاسکتی۔

تقدیر کس طرح ٹل سکتی ہے؟

اب میں بتاتا ہوں کہ تقدیر کس طرح ٹل سکتی ہے۔ اول تقدیر عام طبعی ٹل سکتی ہے تقدیر عام طبعی سے۔ مثلاً تقدیر عام طبعی یہ ہے کہ آگ لگے تو کپڑا جل جائے۔ اب اگر کسی کپڑے کو آگ لگائی جائے اور وہ جلنے لگے تو کہا جاوے گا کہ اس پر تقدیر عام طبعی جاری ہوگئی ہے مگر اس وقت کے متعلق ایک اور تقدیر بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر آگ پر پانی ڈال دیا جائے تو وہ اسے بجھا دیتا ہے۔ پس جب پانی آگ پر ڈالا جائے گا تو وہ بجھ جائے گی اور اس طرح ایک تقدیر عام طبعی دوسری تقدیر عام طبعی کو ٹلا دے گی۔ پس تقدیر عام ٹل سکتی ہے اور وہ اس طرح کہ اس کے مقابل میں ایک دوسری تقدیر کو جاری کر دیا جائے اور اس طرح اسے مٹا دیا جائے۔ اگر کوئی کہے کہ جو مثال دی گئی ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تدبیر نے تقدیر کو ٹلا دیا نہ کہ تقدیر نے تقدیر کو۔ کیونکہ پانی کو انسان ڈالتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر پانی انسان نے ڈالا ہے تو آگ بھی تو بسا اوقات انسان خود ہی دانستہ یا نادانستہ لگاتا ہے۔ پس جس طرح پہلے فعل کو تقدیر کہا جاتا ہے دوسرے فعل کو بھی تقدیر کہا جاوے گا۔ دوسرے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے انسان کا فعل تو تقدیر ہوتا ہی نہیں (سوائے ان صورتوں کے جو بیان ہوئیں) ہماری مراد آگ لگنے سے بھی اور اس کے بجھنے سے بھی انسانی فعل کی طرف اشارہ کرنا نہیں بلکہ جلنے اور بجھنے کی قابلیت سے ہے۔ پس صحیح یہی ہے کہ ایک تقدیر نے دوسری تقدیر کو بدل دیا۔ ورنہ خدا تعالیٰ اگر آگ میں جلانے کی خاصیت نہ رکھتا تو کون کسی چیز کو جلاسکتا اور اگر وہ پانی میں بجھانے کا مادہ نہ رکھتا تو کون اس کے ذریعہ سے آگ کو بجھا سکتا۔

اسی طرح مثلاً اگر ایک شخص زیادہ مرچیں کھا لیتا ہے جو اس کی انتڑیوں کو چیرتی جاتی ہیں اور ان میں خراش پیدا کر دیتی ہیں تو وہ کہتا ہے یہ تقدیر ہے۔ اس کے مقابلہ میں وہ ایک تقدیر سے کام لیتا ہے یعنی گھی یا کوئی اور چکنائی یا لعاب اسپغول کھا لیتا ہے جس سے خراش دور ہو جاتی ہے اور یہ پہلی تقدیر کو مٹا دیتی ہے۔

اس سے بڑی مثال حضرت عمرؓ کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے۔ اس وقت اسلامی لشکر میں طاعون پڑی اور ابوعبیدہؓ بن الجراح جو لشکر کے سردار تھے ان کا خیال تھا کہ وبائیں تقدیر الٰہی کے طور پر آتی ہیں۔ پس وہ پرہیز وغیرہ کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ حضرت عمرؓ جب اس لشکر کی طرف گئے اور مہاجرین و انصار کے مشورہ سے واپس لوٹنے کی تجویز کی تو اس پر حضرت ابو عبیدہؓ نے کہا۔ اَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللّٰهِ؟ یعنی اے عمر!کیا آپ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگ کر جاتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا۔ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللّٰهِ اِلٰى قَدَرِ اللّٰهِ (بخاری کتاب الطب باب مایذکر فی الطاعون) یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی قدر سے بھاگ کر اسی کی قدر کی طرف جاتے ہیں۔ اور یہ بات وہی تھی جو مسلمانوں کو ایک مسنون دعا میں سکھائی گئی ہے۔ اور جس کے متعلق ہر ایک مسلمان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اسے سونے سے قبل دعا کے طور پر پڑھا کرے اور اس کے بعد کوئی کلام نہ کیا کرے۔ اس دعا میں آتا ہے۔

لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجٰی مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ۔

(بخاری کتاب الدعوات باب اذا بات طاھراً)

یعنی اے خدا! تیرے غضب سے بچنے کی اور اس سے پناہ پانے کی سوائے تیری درگاہ کے اور کوئی جگہ نہیں۔

ایک تقدیر کے مقابلہ میں دوسری تقدیر کے استعمال کرنے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کا ایک ہاتھ خالی ہو اور دوسرے میں روٹی ہو۔کوئی شخص خالی ہاتھ کو چھوڑ کر دوسرے کی طرف جائے اور کوئی اسے کہے کہ کیا تم اس ہاتھ سے بھاگتے ہو؟ وہ یہی جواب دے گا کہ میں اس سے نہیں بھاگتا بلکہ اس کے دوسرے ہاتھ کی طرف متوجہ ہوا ہوں۔

(2)جس طرح تقدیر عام طبعی کو تقدیر عام طبعی سے ٹلایا جاتا ہے۔ اسی طرح اسے تقدیر خاصی طبعی سے بھی ٹلایا جاسکتا ہے۔ اگر کسی شخص کے خلاف دنیاوی اسباب جمع ہو رہے ہوں اور وہ ان کا مقابلہ نہ کرسکتا ہو تو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کا جاذب ہو کر اس کی خاص تقدیر کے ذریعہ سے اس کو ٹلا سکتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ ہے۔ تقدیر عام یہ ہے کہ آگ جلائے مگر حضرت ابراہیمؑ کے لیے خاص تقدیر جاری ہوئی کہ آگ ان کو نہ جلاسکے۔ اور وہ آگ کے ضرر سے محفوظ رہے۔ اسی طرح تقدیر عام یہ ہے کہ انسان قتل ہونے کی قابلیت رکھتا ہے لیکن رسول کریم ﷺ کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ۔ (المائدۃ:68) اور اب آپ کو دنیا قتل نہیں کرسکتی تھی کیونکہ تقدیر عام کو تقدیر خاص نے بدل دیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ بھی ہوا۔

(3)جس طرح تقدیر عام طبعی، تقدیر عام طبعی اور تقدیر خاص طبعی سے ٹل جاتی ہے۔ اسی طرح تقدیر خاص، تقدیر خاص سے ٹل جاتی ہے۔ یہ اس طرح ہوتا ہے کہ کبھی ایک شخص کے لیے اس کے بعض حالات کے مطابق ایک خاص حکم دیا جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے اندر تبدیلی کر لیتا ہے تو پھر اس حکم کو بھی بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص اللہ تعالیٰ کے دین کے راستہ میں خاص طور پر روک بن جاتا ہے اور لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے کہ اسے موت دی جائے لیکن بسا اوقات وہ شخص اس حکم کے اجرا سے پہلے تائب ہو جاتا ہے یا کسی قدر اصلاح کر لیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی پہلے حکم کی منسوخی کا حکم مل جاتا ہے۔

………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button