خطبہ جمعہ

’’اللہ تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا بلکہ بڑھا کر لوٹاتا ہے‘‘

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08؍نومبر2019ء بمطابق 08؍نبوّت1398 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن (سرے) یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنْفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللّٰهِ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (البقرہ:273)

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ انہیں راہ پر لانا تیرے ذمہ نہیں ہے۔ ہاں اللہ جسے چاہتا ہے راہ پر لے آتا ہے اور جو اچھا مال بھی تم خدا کی راہ میں خرچ کرو اور حقیقت یہ ہے کہ تم ایسا خرچ صرف اللہ کی توجہ چاہنے کے لیے کیا کرتے ہو سو اس کا نفع بھی تمہاری اپنی جانوں ہی کو ہو گا اور جو اچھا مال بھی تم خرچ کرو وہ تمہیں پورا پورا واپس کر دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

یہ آیت جیسا کہ اس سے واضح ہے اللہ تعالیٰ نے (اس میں) یہ واضح فرما دیا کہ ہدایت دینا، صحیح راستے کی طرف لے کر جانا یا اس کو اس راستے پر ڈال دینا جو صحیح سمت جاتا ہے، جو اصل منزل کی طرف جاتا ہے اور پھر اس راستے پر، اس ہدایت اور رہ نمائی پر قائم رکھنا اور منزل تک پہنچانا اور راستہ بھٹکنے سے بچانا اور انجام بخیر کرنا اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر ہی منحصر ہے اور اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے۔ ہم کسی کو نیکیوں کا راستہ دکھا تو سکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ضرور اس راستے پر ڈال بھی دیں اور پھر اس پر قائم بھی رکھیں۔ پس یہ کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیا ہے اور جو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، اس راستے پر چلنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور دعا بھی کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے منزل تک بھی پہنچتا ہے۔ پس اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہدایت کے بعد اس ہدایت کے راستے پر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق چلنے کی کوشش بھی کرتے رہیں اور اس سے دعا بھی کرتے رہیں اور اس سے دعا کرتے ہوئے، اس پر قائم رہتے ہوئے اس کے فضل کو بھی مانگتے رہیں تا کہ انجام بخیر ہو اور کبھی ہماری کمزوری ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے سے بھٹکا نہ دے۔

پھر دوسری بات جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمائی وہ یہ ہے کہ تم اچھے مال میں سے جو بھی خرچ کرو وہ تمہارے اپنے فائدے کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنْفُسِكُمْ اور جو بھی اچھا مال تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اس کا فائدہ تمہیں ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ادھار نہیں رکھتا بلکہ بڑھا کر لوٹاتا ہے اس طرح جس طرح ایک کسان کھیت میں بیج ڈالتا ہے تو کوئی جاہل، کم عقل کہہ سکتا ہے کہ یہ اس نے کیا کیا کہ سارا بیج زمین میں پھینک کے ضائع کر دیا لیکن عقل مند جانتا ہے کہ یہ دانے جو زمین میں پھینکے گئے ہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں کروڑوں دانے بھی بن کر نکل سکتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ فصل آفت کا شکار ہو جائے اور اسے کچھ نہ ملے۔ پس اللہ تعالیٰ کی راہ میں نیک نیتی سے خرچ کیا ہوا اور پاک مال میں سے جو خرچ کیا جاتا ہے وہ ہزاروں گنا بڑھ کر بھی مل سکتا ہے اور ملتا ہے۔ احمدی اپنے تجربات لکھتے رہتے ہیں، اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ کس طرح ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑھا کر عطا کیا۔ کچھ کمزور ایمان والے بھی ہوتے ہیں، نئے آنے والے بھی ہوتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں اور تجربہ کرتے ہیں کہ دیکھیں کہاں تک یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑھا کر دیتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے ان کو نوازتا بھی ہے لیکن اکثریت ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ کی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ اور جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ کی توجہ چاہنے کے لیے خرچ کرتے ہو۔ وہ دین کی ضروریات کے لیے خرچ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی توجہ چاہنے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توجہ چاہنے کے لیے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیںا ور یقینا ًاللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی حالتوں کو جانتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے خرچ کرتے ہیں اور پھر ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول کرتے ہوئے انہیں واپس لَوٹاتا ہے اور پھر یہ بات انہیں مزید ایمان میں بڑھاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ادھار نہیں رکھتا۔ تم میری توجہ چاہنے کے لیے اپنے پاک مال میں سے میرے دین کے لیے اور میرے کہنے پر خرچ کرتے ہو تو میں بھی تمہیں لوٹاؤںگا۔ شرط یہ ہے کہ مال پاک ہو۔ پس ان ممالک میں، ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے بعض خاص طور پر اس بات کا خیال رکھیں کہ پاک مال کمائیں۔ زیادہ کمانے کے لیے حکومت کے اداروں کو دھوکا نہ دیں کہ اپنی کمائی بھی کر رہے ہوں اور حکومت سے غلط بیانی کر کے وظیفہ بھی لے رہے ہوں۔ ایسے لوگ حکومت سے ناجائز رقم بھی لیتے ہیں۔ اپنے ٹیکس جو حکومت کا حق اور شہری کا فرض ہے وہ بھی ادا نہیں کرتے۔ دوسرے لوگوں کا حق بھی مارتے ہیں اور وہی رقم جو دوسرے ذریعہ سے ملک کی ترقی میں خرچ ہو سکتی ہے اس میں بھی روک بنتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غلط بیانی کر کے جھوٹ کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں اور یہ تمام چیزیں غلط ہیں، گناہ ہیں اور پاک مال سے دُور لے جانے والی ہیں۔
پھر پاک مال میں دوسرے ذرائع سے غلط طور پر کمایا ہوا مال بھی نہیں ہے۔ جن کاموں کی اللہ تعالیٰ نے مناہی کی ہے، ان کاموں کے کرنے سے کمایا ہوا مال بھی پاک مال نہیں ہوتا۔ تو بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں پاک مال کی قربانی کو جو میری توجہ حاصل کرنے کے لیے کی جائے نہ صرف قبول کرتا ہوں بلکہ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ تمہیں پورا پورا لوٹاتا ہوں۔ مختلف ذریعوں سے لوٹاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کبھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ یہ انسان ہی ہے جو مختلف حرکتیں کر کے، غلط حرکتیں کر کے اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کر کے اپنے اوپر ظلم کرتا ہے اور نقصان اٹھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی اس بات کا تجربہ اور ادراک رکھنے والے ہزاروں اور لاکھوں احمدی ہیں۔ ان میں سے چند ایک کی کچھ مثالیں میں آج پیش کروں گا۔ یہ قربانیوں کے نظارے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت سے دیکھ رہے ہیں، واقعات پڑھتے ہیں اور آج بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔ یہ کوئی پرانی باتیں نہیں ہیں کہ باوجود نامساعد حالات کےاحمدی کیسی کیسی قربانیاں اللہ تعالیٰ کی توجہ چاہنے کے لیے، اس کی رضا چاہنے کے لیے کرتے ہیں۔ آج خطبے میں تحریکِ جدید کے نئے سال کا اعلان بھی ہونا ہے اس لیے اس حوالے سے میں کچھ واقعات پیش کروں گا۔

سیرالیون سے لونسور (Lunsar) ریجن کے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک نومبائع کمارا صاحب ہیں ان کو تحریکِ جدید کا تعارف اور چندوں کی برکات کے بارے میں جب بتایا گیا تو اس نومبائع نے چندہ عام کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ تحریکِ جدید کا چندہ بھی ادا کر دیا۔ ان کے پاس تھوڑی سی رقم بچی جس سے وہ (غریب آدمی تھے) مہینے کے لیے چاول خرید سکتے تھے لیکن انہوں نے یہ رقم بھی تحریکِ جدید کے چندے میں دے دی۔ کہتے ہیں کہ چند دن کے بعد ہی وہ صاحب پھر آئے اور بتایا کہ جس دن میں نے تحریکِ جدید کا چندہ ادا کیا تھا اس سے اگلے دن کمپنی نے کہا کہ ہم نے تمہارا ڈیپارٹمنٹ تبدیل کر دیا ہے اور نئے ڈیپارٹمنٹ میں تنخواہ بھی دوگنی ہو گئی ہے اور دوسرے benifits بھی بہت زیادہ ہیں ۔ چندے کی وجہ سے برکات ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے تو کہتے ہیں کہ جن برکات کا میں نے ذکر سنا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے ان برکات کی جھلک دکھا دی اور پھر کہتے ہیں کہ آئندہ میں ہر ماہ چندہ عام کے ساتھ تحریکِ جدید کا چندہ بھی دیا کروں گا۔

پھر سیرالیون کے ریجن پورٹ لوکو (Port Loko) کے مبلغ کہتے ہیں۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ یہ دیکھیں کہ غربت کے باوجود جو قربانیاں کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں کس طرح نوازتا ہے اور پھر یہ بات ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے۔ کہتے ہیں واقعہ یوں ہے کہ ایک گاؤں سانڈا مبلن تورو (Sanda Mablonotor) ہے۔ اس میں محمد صاحب ایک احمدی ہیں۔ انہوں نے تحریکِ جدید کے وعدے میں جو رقم لکھوائی ہوئی تھی اسے ادا نہیں کر سکے۔ جب سال کا آخر آیا تو کہنے لگے کہ میرے پاس سوائے چند کپ چاولوں کے کچھ بھی نہیں تھا۔ تھوڑے سے چاول تھے۔ کلو ڈیڑھ کلو چاول ہوں گے۔ انہوں نے چاول فروخت کیے اور اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے اگلے دن میرے ایک دور کے رشتہ دار نے ایک بوری چاول اور کچھ رقم بطور تحفہ مجھے بھجوائی اور کہتے ہیں میرا بڑا ایمان مضبوط ہوا کہ میں نے تو چند کپ اللہ کی راہ میں دیے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں مجھے سو کلو بھی دے دیے اور کچھ رقم بھی دے دی۔

پھر گنی بساؤ کے مبلغ لکھتے ہیں، اس میں بھی غریبوں کی قربانی کا معیار ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کا ایمان کس طرح تازہ کرتا ہے۔ کبوڈو جماعت کے ممبر دیالو صاحب ہیں۔ انہیں جب چندہ تحریکِ جدید کی اہمیت کا بتایا گیا تو اسی وقت انہوں نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب میں ہزار سیفاکی جو رقم تھی وہ تحریکِ جدید میں ادا کر دی اور کہنے لگے کہ اس رقم سے میں اپنے بچوں کے لیے کھانے کی چیزیں لینے کے لیے بازار جا رہا تھا اور چندہ دینے کے بعد دوبارہ گھر گئے۔ گھر میں اب پیسے تو تھے نہیں۔ مچھلی پکڑتے تھے تو انہوں نے فشنگ کا سامان لیا اور فشنگ کے لیے چلے گئے تا کہ بچوں کے کھانے کے لیے کچھ سامان کر سکیں۔ نیٹ سے فشنگ کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے فشنگ کے لیے نیٹ پھینکا تو ایک گھنٹے کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے 73کلو مچھلی سے میرا نیٹ بھر دیا اور دوسرے مچھیرے جو ساتھ تھے انہوں نے بھی دیکھا اور کہا کہ تم بڑے خوش قسمت ہو کہ ایک گھنٹے کے اندر تمہیں اتنی مچھلی مل گئی ہے کہ ساری رات میں ہمیں اتنی مچھلی نہیں ملتی۔ تو کہتے ہیں اُس وقت میں نے یہی سوچا اور بتایا کہ یہ تحریکِ جدید کے چندے کی برکت ہے جو ابھی ایک گھنٹہ پہلے میں نے ادا کیا تھا اور جتنی رقم تھی سب کچھ دے دیا تھا۔ اس پہ وہ پھر دوبارہ مشن ہاؤس آئے کیونکہ آمد زیادہ ہو چکی تھی اور پھر دوبارہ انہوں نے چندہ دیا۔ غریب ہیں تو ان کے دل بھی بڑے کھلے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب نوازتا ہے تو دل بند نہیں ہو جاتے، ہاتھ بند نہیں ہو جاتے بلکہ پھر بھی وہ ادا کرتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ اور نوازے۔

پھر کانگو سے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ریجن بندوندو کی جماعت کے مقامی معلم نے افراد جماعت کو تحریکِ جدید کے حوالے سے تحریک کی اور میں نے جماعتوں کو یہ کہا ہوا ہے کہ کوشش کریں کہ شامل ہونے والوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ بڑھائیں۔ تو میری یہ بات جب انہیں بتائی اس وقت گاؤں والوںکے پاس چندے دینے کے لیے کوئی رقم نہیں تھی۔ غریب لوگ تھے۔ چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اس پر مقامی لوگوں نے کہا کہ چندہ تو دینا ہے۔ وہ جنگل میں گئے، لکڑی کاٹی، پھر اس کا کوئلہ بنایا ۔ وہاں پر گاؤں میں تو کوئی خریدار نہیں تھا ۔کانگو میں دریا بہت ہیں اور پانی کے ذریعے اکثر سفر ہوتا ہے ۔ تو اس کوئلے کی بوریاں لے کر کشتی کا ایک مشکل سفر کیا اور پھر ایک شہر میں لے کے آئے اور پھر اسے فروخت کیا اور اس فروخت سے ان کو چھیانوے ہزار فرانک جو ملے وہ اجتماعی طور پر گاؤں والوں نے تحریکِ جدید میں ادا کر دیے۔ پس عجیب قسم کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں جن کے بارے میں آپ نے اپنی زندگی میں بھی فرمایا کہ نمونے دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح یہ لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔
(ماخوذ از ضمیمہ رسالہ انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد11 صفحہ 313۔ حاشیہ)

تحریکِ جدید کے آغاز میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ غریب لوگوں کی قربانی کے جو معیار بیان فرماتے تھے کہ کسی کے پاس انڈے ہیں تو وہ عورت انڈے لے آئی، کسی کے پاس تھوڑے سے پیسے ہیں تو وہ لے آیا، وہ آج بھی ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی توجہ لینے کے لیے لوگ لِوَجْہِ اللّٰہِ خرچ کرتے ہیں۔ گنی بساؤ کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کے ایک دور دراز علاقے کبوکرے (Cabucare) کی ایک احمدی خاتون ہیں۔ پچاس سال ان کی عمر ہے۔ کافی غریب ہیں۔ کوئی بھی ذریعہ آمد ان کے پاس نہیں۔ اور کہتے ہیں کچھ عرصہ پہلے لوگوں کوتحریکِ جدید کے چندے کی تلقین کی گئی۔ انہوں نے نیت کی کہ اَور تو کچھ میرے پاس ہے نہیں۔ ایک چھوٹی مرغی ہے اس کو پال کے بڑا کروں گی اور اس کو بیچ کے اپنا چندہ تحریکِ جدید ادا کروں گی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہاں مرغیوں میں وبا پھیلی اور ان کی مرغی بھی ایک دن بیمار ہو گئی۔ رشتہ داروں نے، گھر والوں نے کہا کہ اس مرغی نے مر جانا ہے۔ اس کو ذبح کر لو۔ انہوں نے کہا نہیں۔ اس کو میں نے ذبح نہیں کرنا۔ انہوں نے دعا کی کہ یا اللہ! میرے پاس تو اَور کچھ ہے نہیں سوائے اس مرغی کے۔ تُو ہی ہے مدد کر اور اس کو بچا لے۔ کہتی ہیں اگلے دن اٹھی تو وہ مرغی صحت مند تھی۔ بڑی ہوئی اور انہوں نے جا کے وہ بیس دنوں کے بعد پھر معلم کو دے دی کہ میری یہ مرغی چندہ ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں نشان نظر نہیں آتے اگر دیکھنے ہوں، اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق ہو اور نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ نشان بھی دکھاتا ہے اور یہ چھوٹے چھوٹے نشان ہی ہیں جو ان لوگوں کے ازدیادِ ایمان کا باعث بنتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس طرح بھی ان لوگوں کے ایمان کو بڑھاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے سلوک کی ایک اَور مثال یہ ہے: تنزانیہ مارا (Mara) ریجن کے معلم کہتے ہیں کہ ایک مخلص احمدی نوجوان راشد حسین صاحب کی راشن وغیرہ کی چھوٹی سی دکان ہے۔ وعدے کے مطابق انہوں نے اپنا مکمل چندہ تحریکِ جدید ادا کر دیا تھا اور جب سال کے اختتام پر معلم نے مزید تحریک کی کہ جو دینا چاہیں وہ دے سکتے ہیں تو وہ تو اس زمرے میں نہیں آتے تھے کیونکہ ان دنوں میں ان کی مالی حالت تنگ تھی اور دکان پر صرف ایک ایسا سامان رہ گیا تھا جس کے جلدی بک جانے کی بھی کوئی امید نظر نہیں آتی تھی۔ بہرحال کہتے ہیں کہ میرے پاس صرف تین ہزار شلنگ تھے جو انہوں نے دے دیے اور اسی شام کو وہ دوبارہ معلم کے پاس آئے۔ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ عجیب واقعہ پیش آیا کہ باوجود اس کے کہ میرے پاس اس رقم کے علاوہ اَور کچھ نہیں تھا جو میں نے چندے میں دے دی تھی اور سامان بھی میری دکان پہ ایسا موجود تھا کہ بڑی فکر تھی کہ اس سامان کو تو لوگ خریدیں گے نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے چندے کی برکت سے میری غیر معمولی طریق پر ایک عجیب مدد فرمائی کہ دوپہر میں ہی میرے پاس ایک گاہک آیا جس نے سامان خریدا اور وہ سارا سامان جس کو میں سمجھتا تھا کہ فوری بِک نہیں سکتا وہ خریدا اور تیئس ہزار شلنگ سامان کے بیچنے کے بعد میرے پاس جمع ہو گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے تو یہی ہے کہ چندے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے یہ سب رزق عطا فرمایا۔

پھر سنٹرل افریقہ کے شہر بانگی کے ایک صاحب آرجانا صاحب ہیں۔ ان کا بھی واقعہ ہے۔ اس میں دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ ایمان مضبوط کرنے کے لیے کس کس طرح نوازتا ہے۔ یہ نَو احمدی ہیں اور کہتے ہیں کہ احمدیت قبول کیے مجھے آٹھ مہینے ہوئے تھے اور اس آٹھ مہینے میں میرے اندر بڑی تبدیلی پیدا ہوئی۔ ایم۔ٹی۔اے بھی مستقل دیکھتا تھا اور ایم۔ٹی۔اے پر خطبہ جمعہ بھی میں سنتا تھا ۔کہتے ہیں میں نے جب آپ کا خطبہ سنا اور میرا معمول تھا کہ میں خطبہ سنا کرتا تھا ۔کہتے ہیں ایک دن میں نے جب خطبے میں یہ الفاظ سنے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا غریب نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت ڈالتا ہے ۔ اس وقت تحریکِ جدید کی وصولی کے بارے میں مبلغ بھی تحریک کر رہے تھے تو میں نے کہا میں بھی دیکھتا ہوں۔ میری جیب میں اس وقت صرف پانچ سو فرانک تھے۔ بہت تھوڑی رقم تھی۔ میں نے وہ دے دیے اور فکر میرا یہ تھا کہ رات کو کیا کھاؤں گا۔ پھر کہتے ہیں مجھے خلیفة المسیح کی یہ بات یاد آ گئی کہ خدا بڑھا کر دیتا ہے۔ تو میں نے تو وہ پانچ سو فرانک دے دیے تھے ۔یہ نومبائع تھے۔ ایمان میں کمزوری بھی تھی۔ مطلب ہے کہ اس طرح کامل ایمان ابھی نہیں ہوا تھا لیکن بہرحال تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ نیت نیک تھی۔ کہتے ہیں کہ میں اس وقت تین چار گھنٹے کے لیے اس امید پر مشن ہاؤس میں رُک گیا کہ اب دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کیسا نظارہ دکھاتا ہے تو اسی دوران ایک رشتے دار کا ٹیلی فون آیا کہ میرے پاس ہیرے ہیں جو میںنے تمہارے شہر میں آ کر فروخت کرنے ہیں اور میری یہاں واقفیت نہیں ہے تو میں چاہتا ہوں کہ تم میری مدد کرو۔ چنانچہ کہتے ہیں وہ وہاں پہنچے تو میں ان کو لے کر ایک ہیرے کے بیوپاری کے پاس گیا۔ وہاں ہیروں کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔ اور ہیرے فروخت کرنے کے بعد وہ جو میرے دوست تھے یا عزیز تھے جو ہیرے لے کر آئے تھے انہوں نے جب ہیرے فروخت کیے تو کہتے ہیں اس کے بعد انہوں نے مجھے ستائیس ہزار فرانک تحفے کے طور پر دیے اور صرف یہی نہیں بلکہ کہتے ہیں خریدنے والے نے بھی دس ہزار فرانک تحفةً دیے۔ کہتے ہیں اس دن مجھے پتا لگا کہ میں نے ابھی پانچ سو فرانک دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے چند گھنٹوں میں ہی سینتیس ہزار فرانک سے نواز دیا اور کہتے ہیں اس سے میرے ایمان میں بڑی ترقی ہوئی۔

یو۔کے سے ایک خاتون ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے بھی کس طرح سلوک فرمایا کہ ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ کہتی ہیں کہ میں تحریکِ جدید کا چندہ ادا کر چکی تھی۔ پھر مقامی صدر صاحبہ کی طرف سے ایک پیغام موصول ہوا کہ ہمیں اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہے۔ اس وقت میں نے سوچا کہ مزید چندہ نہیں ادا کر سکتی کیونکہ میرے پاس جو پیسے ہیں وہ کہیں اَور استعمال کرنے ہیں۔ پھر کہتی ہیں کہ بہرحال میں نے آخر میں مزید چندہ دینے کا فیصلہ کر لیا اور جو رقم میرے پاس پڑی ہوئی تھی وہ ساری چندے میں ادا کر دی۔ اگلے دن میں نے اپنا بنک اکاؤنٹ دیکھا تو حیران رہ گئی کہ جتنی رقم میں نے چندے میں ادا کی تھی اس سے چار گنا میرے کام کی طرف سے اکاؤنٹ میں ڈالی گئی تھی جس کی مجھے قطعاً کوئی امید نہیں تھی۔ افریقہ میں ہی نہیں یہاں یورپ میں بھی جو لوگ نیک نیتی سے کرتے ہیں، ان کو بھی اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے اَور مثالیں بھی ہیں۔

پھر برکینا فاسو کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ کولو میں ایک صاحب ساواڈو صاحب ہیں۔ تحریکِ جدید کے چندے میں ہر ماہ سو فرانک دیا کرتے تھے۔ انہیں ایک دفعہ کسی نے تحفے میں تین بکرے دیے جس میں سے ایک انہوں نے تحریکِ جدید میں دے دیا اور دو اپنے پاس رکھ لیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بکروں میں اتنی برکت ڈالی ہے کہ وہ اب کئی جانوروں کے مالک ہیں اور اب انہوں نے سو کے بجائے ہزار فرانک مہینےکا دینا شروع کر دیا ہے۔

پھر اخلاص اور وفا اور قربانی کا جو جذبہ ہے اس کی ایک اَور مثال یہ ہے۔ بینن کے ریجن لوکوسا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ لوکوسا کے اکثر علاقوں میں سیلاب آیا ہوا تھا اور جانے کے سب راستے بند تھے۔ کچھ جماعتوں سے تو بذریعہ فون رابطہ ہو گیا تھا لیکن بارڈر ایریا ہونے کی وجہ سے اکثر جماعتوں سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ لوکل مشنری نے تجویز دی کہ پولیس والوں کے پاس موٹر بوٹ ہے۔ اگر ہم ان سے بات کریں تو ہو سکتا ہے کہ ان علاقوں تک ہم جا سکیں اور لوگوں کا پتا کر سکیں کہ ان کے کیا حال ہیں ؟ کہتے ہیں کہ پولیس سے بات کی تو پولیس والوں نے اس شرط پر ہمیں لے جانے پہ حامی بھر لی کہ ہم پٹرول ڈلوا دیں۔ بہرحال موٹر بوٹ پر ہم وہاں پہنچے تو وہاں کے جو صدر جماعت ہیں جب ان سے ہم ملے تو وہ صدر جماعت رو پڑے۔ کہتے ہیں ہمیں پتا تھا کہ ان کا کافی نقصان ہوا ہے ۔فصلیں بھی تباہ ہو گئی ہیں ۔گھر کا ایک کمرہ بھی ان کا گِر گیا تھا۔ اور کہتے ہیں میں نے انہیں تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا ،نقصان پورا ہو جائے گا تو اس پر وہ کہنے لگے کہ میں اس وجہ سے نہیں رو رہا کہ میرا نقصان ہوا ہے بلکہ سیلاب کے آنے سے قبل میں نے ا پنا چندہ جمع کر کے رکھا ہوا تھا اور انتظار میں تھا کہ معلم کب آئے تو میں چندہ دوں لیکن پھر سیلاب کی وجہ سے تمام راستے بند ہو گئے اور مجھے اس کی بڑی فکر تھی ۔ میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ! میرا چندہ مرکز میں پہنچانے کا اب کوئی وسیلہ نہیں ہے اور دن بھی تھوڑے رہ گئے ہیں ،کوئی ذریعہ بنا دے تو آج جب آپ لوگ یہ دیکھنے کے لیے آئے ہیں کہ ہم کس حال میں ہیں نہ یہ کہ چندہ لینے آئے تھے تو اس وجہ سے میں بے اختیار رو پڑا کہ اللہ تعالیٰ نے کتنی جلدی میری دعا قبول کر لی اور میں اپنے اس فرض کو پورا کرنے کے قابل ہوا۔ اپنے نقصان کی کوئی فکر نہیں۔ فکر ہے تو یہ کہ میں نے جو کام اللہ کی خاطر کرنے کا وعدہ کیا ہے جو قربانی میں نے خدا تعالیٰ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے دینی تھی اس کی ادائیگی وقت پہ ہو جائے۔

انڈیا سے ابراہیم صاحب انسپکٹر تحریکِ جدید کرناٹک صوبہ کے لکھتے ہیں اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے سلوک کی ایک اور مثال ہے۔ گلبرگہ کے ایک خادم ہیں ۔ان کو بنگلور کی ایک کمپنی میں بیس ہزار روپے ماہانہ پر ایک ملازمت ملی تھی۔ کہتے ہیں انہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان فرمودہ معیاری قربانی کے حوالے سے نصف تنخواہ پیش کرنے کی تحریک کی گئی (ماخوذ از خطبات محمود جلد 28 صفحہ 173۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 9مئی 1947ء) تو باوجود اس کے کہ ان کے گھر کے مالی حالات ٹھیک نہیں تھے پھر بھی انہوں نے دس ہزار روپے کا وعدہ پیش کر دیا ان کے رشتہ دار کہنے لگے کہ ابھی تمہیں نئی ملازمت ملی ہے۔ اتنا وعدہ تمہیں نہیں کرنا چاہیے۔ ایک مہینے کی تنخواہ کا نصف وعدہ نہیں کرنا چاہیے، مشکل پیش آئے گی تو موصوف نے کہا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ فرمایا ہے کہ جب تک انسان پوری کوشش نہیں کرتا خدا تعالیٰ کے فرشتے اس میں زور اور طاقت پیدا نہیں کرتے (ماخوذ از خطبات محمود جلد 32 صفحہ 136۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 7ستمبر 1951ء)تو اس وجہ سے بہرحال میں نے تو یہ دینا ہے۔ کہتے ہیں اس بات کو ابھی چند دن گزرے تھے کہ انہیں ایک دوسری کمپنی میں ملازمت مل گئی جہاں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مبلغ ایک لاکھ ستائیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ پا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بھی چندے کی برکت سے ہواہے۔

پھر انڈیا کے صوبہ کیرالہ کے انسپکٹر تحریکِ جدید ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ یہاں کیرولائی کے ہمارے ایک مخلص احمدی ہیں۔ تحریکِ جدید کی مالی قربانی پیش کرنے والوں میں بڑی ممتاز حیثیت کے حامل ہیں اور ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ موصوف کا فرنیچر کا کاروبار ہے اور وکیل المال کے دورے کے دوران انہوں نے دعا کی غرض سے اپنی فیکٹریز دکھائیں بلکہ اس امر کا ذکر کیا کہ ان دنوں کاروباری حالات اچھے نہیں ہیں اور دعا کے لیے خاص طور پر کہا تو وہاں دعا کروائی۔ بہرحال اس کے باوجود موصوف نے اپنا جو اس سال کا چندہ تھا وہ پندرہ لاکھ کا وعدہ لکھوایا لیکن دوران سال وعدے کے مقابل پر صرف دو لاکھ ادا ہو سکے۔ وقت کم تھا تو بڑے پریشان تھے۔ بڑے مضطرب تھے۔ اسی فکر میں تھے کہ کس طرح یہ چندہ ادا ہو گا اور مجھے بھی وہ خط لکھتے رہے۔ مالی سال کے آخری دن یہی خط لکھا کہ مالی سال کے آخری دن ہیں دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وعدہ پورا کرنے کی توفیق دے۔ کہتے ہیں ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ ایک خطیر رقم ان کے اکاؤنٹ میں آئی جس سے انہوں نے نہ صرف اپنے پیش کردہ وعدہ کی ادائیگی کی بلکہ ایک بڑی رقم زائد بھی ادا کر دی اور کاروباری سلسلے میں جو ان کو رقم درکار تھی اس کی ضرورت بھی اس سے پوری ہو گئی۔

پھر بینن کے ریجن ناتی ٹنگو (Natitingou) کے معلم لکھتے ہیں کہ کتم پوتی (Katampoti) جماعت کے ایک دوست ہیں۔ جب ان کو کہا گیا تو بغیر کسی توقف کے انہوں نے تین ہزار فرانک سیفا نکال کر پیش کر دیا۔ معلم کہتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑا حیران ہو کے پوچھا کیونکہ بڑی تاکید کے باوجود بھی انہوں نے کبھی آج تک پانچ سو سیفا سے زیادہ نہیں دیا تھا کہ تم نے اتنا بڑھا کس طرح دیا ؟ وجہ کیا ہے؟ تو کہنے لگے کہ میں چندے میں سستی بہت کرتا ہوں۔ تو مَیں نے دیکھا ہے پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں اور فصل بھی اچھی نہیں ہوتی اور آخری بار جب میں نے چندہ دیا تھا تو یہ سوچ کر دیا تھا کہ دیکھتا ہوں اس کی برکت سے کس طرح مستفیض ہوتا ہوں۔ چنانچہ میں نے تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ چندے کی برکات سے خدا تعالیٰ واقعی پوشیدہ طور پر امداد فرماتا ہے۔ ہماری ضروریات پوری فرماتا ہے۔ فصل میں برکت عطا فرماتا ہے اور اس لیے میں نے جب خود تجربہ کر لیا ہے تو آپ کے کہنے سے پہلے ہی میں نے خود ہی اپنا چندہ پانچ گنا بڑھا کر بلکہ چھے گنا بڑھا کر دے دیا ہے۔

کینیڈا میں وان جماعت کے بچوں کی ایک مثال ہے۔ وہاں کے صدر کہتے ہیں کہ اکتوبر میں ہم جماعت کے تحریکِ جدید کے وعدوں کو مکمل کرنے کے لیے کام کر رہے تھے تو بچوں کو بھی اور گھر کے بچوں کو بھی تلقین کی۔ انہوں نے بھی اپنے جیب خرچ میں سے اپنے وعدے سے زیادہ چندہ ادا کیا۔ ایک بیٹی جس نے ابھی انجنیئرنگ مکمل کی ہے اس کے پاس کچھ رقم تھی اس نے وہ ساری رقم چندے میں ادا کردی۔ اور پہلے وہ انٹرویو دے رہی تھی ملازمت کے لیے کامیابی نہیں ہو رہی تھی، جس دن یہ چندہ ادا کیا اس سے اگلے روز ہی ایک جاب کے لیے انٹرویو ہوا تھا۔ واپس آئی تو بڑی خوش تھی کہ اس کے ساتھ انٹرویو کے دوران بھی کوئی غیبی طاقت تھی اور بڑا آسانی سے سب کچھ ہو گیا اور جس کمپنی میں انٹرویو دینے گئی تھی وہاں اَور بھی کافی لوگوں نے انٹرویو دیا تھا وہ کہہ رہی تھی کہ انٹرویو تو بہت اچھا ہوا ہے لیکن نتیجہ سال کے آخر میں پتا لگے گا لیکن دو دن بعد ہی اس بیٹی کو کال آ گئی کہ تمہیں سلیکٹ کر لیا گیا ہے اور فروری 2020ء سے کام شروع کرنا ہو گا۔ پھر اگلے دن کال آئی کہ باقی لوگ فروری میں شروع کریں گے لیکن تم اسی سال نومبر سے شروع کر سکتی ہو۔ اس سے اس بچی کے بھی ایمان کو تقویت پہنچی۔ ایمان میں اضافہ ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھا۔

اب ہر ملک میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو قربانی کے بعد اپنے فضلوں کے نظارے دکھاتا ہے۔ماسکو کے مبلغ لکھتے ہیں، ایک دوست زائر صاحب ہیں۔ازبکستان کے شہر بخارا سے ان کا تعلق ہے۔ لمبا عرصہ سے ماسکو میں کام کرنے کے لیے آتے ہیں۔ کچھ عرصے کے لیے یہاں کام کرتے ہیں۔ پھر جو رقم جمع ہوتی ہے اس کے ساتھ ازبکستان واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کی اہلیہ نے بیعت کرنے میں پہلے کچھ تامل سے کام لیا تھا لیکن پھر مطالعہ کیا، دعا کی اور اس کے بعد بیعت کی توفیق پائی۔ کچھ عرصہ قبل انہیں چندہ تحریکِ جدید کی طرف توجہ دلائی گئی۔ ان کی اہلیہ کے حوالے سے بھی کہا کہ تحریکِ جدید اور وقف جدید میں حصہ لیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ آج کل ازبکستان میں ٹیکسی چلا رہے ہیں اور ان کی اہلیہ سلائی کا کام کرتی ہیں۔ دونوں میاں بیوی نے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ اپنی آمد کے تین حصے کرتے ہیں جس میں سے ایک بچوں کے لیے، ایک حصہ گھر کے لیے اور ایک بصورت چندہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کے لیے مختص کر رکھا ہے۔ اس طرح دونوں میاں بیوی پرسکون اور مطمئن ہیں اور گھریلو زندگی بھی خوش حال گزر رہی ہے۔ زائر صاحب کہتے ہیں کہ جب سے انہوں نے چندہ جات میں حصہ لینا شروع کیا ہے اللہ تعالیٰ نے خاص برکت عطا فرمائی ہے اور ان کی آمد میں اتنی برکت پڑی ہے کہ پچھلے سالوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔

پھر رشیا سے ہی مبلغ انچارج لکھتے ہیں۔ ماسکو کے رسلان صاحب ہیں شیف کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے گھر بنانے کے لیے ایک بہت بڑی رقم قرض کے طور پر حاصل کی اور بڑی عرصے سے دوگنا کام کر کے قرض اتارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک دن ان کا فون آیا کہ مَیں اب فوری طور پر آپ کو چندہ بھیجنا چاہتا ہوں۔ دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ جس جگہ وہ پہلے کام کرتے تھے وہاں ان کی جو مزدوری تھی، اجرت تھی اس میں سے ان کی ایک بڑی رقم مالک کے پاس پھنسی ہوئی تھی اور اس حوالے سے دعا کے لیے بھی انہوں نے لکھا تھا تو اللہ تعالیٰ نے وہ ڈوبی ہوئی رقم محض اپنے فضل سے واپس دلوائی ہے۔ کہتے ہیں اس پر میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میں جتنی جلدی ہو سکے چندہ ادا کروں اور پھر اسی وقت انہوں نے چندے کے لیے اپنے حالات کے اعتبار سے ایک بڑی رقم مربی صاحب کو بھجوا دی۔

جرمنی کی جماعت سے ایک بچی ہے وہ لکھتی ہیں کہ میں دو ماہ سے حاملہ تھی۔ اب ان کا بچہ پیدا بھی ہوگیا اور دو سال کا بھی ہو گیا اور کہتی ہیں جب میں حاملہ تھی اس وقت میں نے دعا کی، بہت دعا کی اور میں نے وعدہ کیا کہ ہر ماہ تحریکِ جدید میں سو یورو دوں گی۔ باقی سات ماہ اللہ تعالیٰ نے خیریت سے گزار دیے۔ کوئی پیچیدگیاں تھیں وہ دور ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بیٹے سے نوازا اور کہتی ہیں اب بھی میں اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ ہر ماہ تحریکِ جدید میں چندہ ادا کر کے پورا کر رہی ہوں۔

دنیا کے اس حصے میں جو مادیت میں ڈوبا ہوا ہے اور خدا سے دوری پیدا ہو رہی ہے یہاں اللہ تعالیٰ احمدیوں کو اپنے فضلوں سے نواز کر جہاں اپنے وجود کا پتا دیتا ہے وہاں احمدیت کی حقیقت اور سچائی بھی ان پر ظاہر ہو رہی ہے۔

لٹویا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ لٹویا کے ایک احمدی وَحیدوف صاحب ہیں ان کا تعلق بھی ازبکستان کے صوبہ بخارا سے ہے۔ چند سال قبل ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا ان کا بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ان کے اہلِ خانہ سے نیک سلوک کو دیکھ کر گذشتہ برس ان کی اہلیہ بھی بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے فون پر چندے کی ادائیگی کے حوالے سے بتایا۔ کہتے ہیں چھ ماہ ازبکستان میں کام کرتا ہوں اور چھ ماہ رشیا جا کر کام کرتا ہوں۔ اس سال بخارا شہر میں ایک فلیٹ خریدا تھا جس کے لیے مجھے اپنی گاڑی فروخت کرنا پڑی۔ کہتے ہیں جب میں کام کرنے رشیا گیا تو میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ سے ایک سودا کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے اس نیت سے چندہ دینا شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے چندے کی برکت سے گاڑی خریدنے کی توفیق عطا فرمائے۔ چندہ ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرے کام میں اتنی برکت دی کہ میرے پاس گھریلو ضروریات کے علاوہ گاڑی خریدنے کے لیے بھی ایک مناسب رقم جمع ہو گئی۔ چنانچہ میں نے بخارا واپس آ کر اپنی گاڑی خرید لی اور اس پہلی گاڑی سے بھی اچھی خریدی ہے جو فلیٹ خریدنے کے لیے مجھے فروخت کرنی پڑی تھی اور کہتے ہیں کہ یہ صرف چندے کی برکت کا نتیجہ ہے ورنہ اتنی بڑی رقم جمع کرنا میرے لیے ناممکن تھا اور ،کچھ عرصہ پہلے اس نے بیعت کی تھی۔ کہتے ہیں میرے ایمان میں بھی اضافہ کیا۔

گنی بساؤ کے مبلغ کہتے ہیں کہ ایک صاحب ہیں اور جو باوجود پیدائشی احمدی ہونے کے اور باوجود بار بار کی تلقین کے تحریکِ جدید میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ انہوں نے بلاکس بنانے کا کاروبار شروع کیا اور سیمنٹ کی چالیس بوریوں سے انہوں نے بلاکس بنائے۔ رات کو بارش ہوئی، سارے بلاکس خراب ہو گئے اور مکمل نقصان ہو گیا۔ کہتے ہیں رات کو بڑا پریشانی کے عالم میں سویا تو خواب میں مَیں نے دیکھا کہ میرے مرحوم والد آئے ہیں تو ان کو کہتے ہیں کیا تم نے اپنے چندہ جات ادا کر دیے ہیں؟ یہ کہنے کے بعد وہ چلے گئے۔ چنانچہ ادریس صاحب کہتے ہیں کہ صبح اٹھتے ہی میں مشن ہاؤس آیا اور وہاں مشنری کو کہنے لگے کہ آپ نے چندہ تحریکِ جدید کی تلقین کی تھی۔ میرے پاس ابھی صرف دوہزار فرانک ہیں جو میں ابھی ادا کرنا چاہتا ہوں اور چندہ ادا کرنے کے بعد اگلے ہی دن اللہ تعالیٰ نے ان کا جو نقصان ہوا تھا اُسے اس طرح پورا کیا کہ ان کو نیا contract مل گیا جو آٹھ لاکھ سیفے کا تھا اور ان کے قرضے بھی اتر گئے اور اللہ کے فضل سے انہوں نے اب وصیت بھی کر لی ہےاوران کے ایمان میں بھی اضافہ ہو ا۔

مایوٹ آئی لینڈ کے ایک دوست علی محمد صاحب ہیں۔ ان کے پاس کوئی مستقل کام نہیں تھا لیکن کہتے ہیں جب سے میں نے تحریکِ جدید کا چندہ ادا کیا ہے مجھے کام ڈھونڈنے میں کوئی دقت نہیں رہی۔ ایک کام ختم ہوتا ہے دوسرا مل جاتا ہے اور چندے کی ادائیگی کے بعد اب تک مسلسل کام مل رہا ہے۔ یہ نئی جماعت ہے جو چند سال ہوئے قائم ہوئی ہے لیکن ایمان اور اخلاص میں بڑی بڑھنے والی جماعت ہے۔

پھر امیر صاحب انڈونیشیا لکھتے ہیں کہ ایک جماعت پگنٹان (Pagentan) میں ایک احمدی اوریانو (Waryono) صاحب ہیں جو اکیلے رہتے ہیں ان کی بیوی فوت ہو چکی ہے۔ انہوں نے چندہ دینے کے لیے کیسے کیسے طریقے اختیار کیے ہوئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ بڑا اخلاص و وفا ان لوگوں میں ہے۔ کہتے ہیں کھیتی باڑی کرتے ہیں، غریب آدمی ہیں۔ بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ بیوی ہے نہیں ۔تبلیغ تربیت کے کام میں اکثر مبلغ کا ساتھ دیتے ہیں۔ چھوٹا سا ایک کھیت ان کے پاس ہے اور کسانوں کی آمد تو چند مہینوں بعد ہی ہوتی ہے، ہر تین یا چار مہینے کے بعد آمد ہوتی ہے لیکن اس کھیت کی جو آمد ہے وہ چندہ باقاعدگی سے ہر مہینے ادا کرتے ہیں۔ ایک دفعہ مبلغ نے انہیں پوچھا کہ آپ کی فصل تو تین چار مہینے کے بعد ہوتی ہے لیکن چندہ آپ باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں تو اس پر انہوں نے بتایا کہ میں نے بھی باقاعدگی سے چندہ دینے کا ایک طریقہ اختیار کیا ہوا ہے ۔میں نے اپنے کھیت کا ایک حصہ مختص کر کے اس پر صرف کیلے کے درخت لگائے ہوئے ہیں اور اس طریقے سے لگائے ہوئے ہیں کہ ایک درخت لگانے کے کچھ عرصے بعد دوسرا لگایا یعنی کچھ حصہ لگانے کے بعد کچھ دوسرا حصہ لگایا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد تیسرا حصہ لگایا۔ کیلے کے جو درخت ہیں وہ کیونکہ سارا سال ہی پھل دیتے ہیں تو وہ اس طرح ہر مہینے پھل دیتے رہتے ہیں اور میں ہر مہینے پھل کاٹ کے بازار فروخت کرتا ہوں اور اس سے جو رقم ملتی ہے وہ ساری چندے میں ادا کردیتا ہوں۔
پھر انڈونیشیا کے امیر صاحب ہی لکھتے ہیں کہ ایک جماعت پاسرپنگارایاں (Pasir Pangaraian) کے ایک نومبائع ہیں ۔کچھ عرصہ قبل انہوں نے بیعت کی تھی۔ بیوی کی طرف سے شدید مخالفت ہے لیکن موصوف ثابت قدم ہیں۔ جب تحریکِ جدید کے نئے سال کا آغاز ہوا تو ہمارے مبلغ نے ان کو تحریکِ جدید کے مالی جہاد میں شامل ہونے کی تحریک کی۔ اس پر موصوف نے پانچ لاکھ انڈونیشین روپیہ ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ انڈونیشین روپے کی ویلیو (value)بہت تھوڑی ہے لیکن بہرحال ان کے لیے تو بہت زیادہ رقم تھی۔ ایک آنریری ٹیچر ہیں جس کی تنخواہ بہت کم ہوتی ہے۔ ہمارے مبلغ نے ان سے دوبارہ پوچھا کہ اتنی رقم آپ نے لکھوا دی ہے، ادا کر سکیں گے؟ کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں۔ اس پر انہوں نے بڑے یقین سے کہا کہ یہی میرا وعدہ ہے۔ چنانچہ رمضان کے مہینے میں جب ان کو سو فیصد ادائیگی کی تلقین کی گئی تو یہ ان دنوں کی بات ہے کہ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ ایک دن ان کے کسی رشتہ دار نے ان کو تحفةً ایک لفافے میں کچھ رقم دی تو انہوں نے اس لفافے کو کھولا نہیں بلکہ فوراً صدر جماعت کے گھر آ کر کہا کہ اس لفافے میں جو کچھ بھی ہو میں تحریکِ جدید کے لیے دیتا ہوں۔ صدر جماعت نے جب اس لفافہ کو کھولا تو دیکھا کہ اس میں عین پانچ لاکھ انڈونیشین روپے کی رقم تھی جو انہوں نے اسی وقت اپنے وعدے کے مطابق ادا کر دی۔

پھر بچوں میں اخلاص اور قربانی کی اہمیت کا جو احساس ہے یہ انقلاب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں نظر آتا ہے جو آپؑ نے پیدا فرمایا۔ گھانا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے جماعت میں مالی قربانی خصوصاً تحریکِ جدید کے بارے میں خطبہ دیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں بچوں کو بھی قربانی کی عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ اپنے ہاتھ سے چندہ دیں۔ اس پر اگلے جمعہ کو نماز جمعہ پر ایک طفل جس کی عمر تقریباً نو دس سال ہو گی کچھ رقم لے کر آیا اور تحریکِ جدید کی مدّ میں پیش کر دی اور پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں نے والدین سے چندے کے لیے رقم مانگی جو کسی وجہ سے مجھے مل نہیں سکی، نہیں ہوگی والدین کے پاس۔ کہتے ہیں میں نے اس پر ایک دوکان پر مزدوری کرنی شروع کر دی اور جو رقم حاصل کی وہ چندے میں دے رہا ہوں۔

پھر سیرالیون کی ایک مثال ہے۔ وہاں کینما کے لوکل معلم بشیرو صاحب لکھتے ہیں کہ ایک جماعت سیرابو (Serabu) میں جب احباب جماعت کو چندہ تحریکِ جدید کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی گئی تو اسی دوران ایک بچہ نو یا دس سال کی عمر کا ہو گا اور میں نے دیکھا کہ وہ سر پر آگ جلانے والی کچھ لکڑیوں کا گٹھا لے کر آیا اور اس نے معلم صاحب سے کہا کہ یہ لکڑیاں آپ مجھ سے خرید لیں اور جتنے پیسے ہوں وہ چندے میں ڈال لیں۔ معلم صاحب نے وہ لکڑیاں اس بچے سے خرید لیں اور چندے کی رسید کاٹ دی۔ بعد میں وہ لکڑیاں بھی واپس کر دیں کہ تمہارا چندہ آ گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے مال اور ایمان میں بہت برکت عطا فرمائے۔اس طرح قربانی کا تصور یہاں کے بچوں میں نہیں ہو گا کہ محنت کر کے، مزدوری کر کے یا جنگل جا کے لکڑیاں کاٹ کر پھر چندہ ادا کریں۔ یہاں حالات اچھے ہیں۔ بے شک یہاں بھی بڑی اچھی مثالیں ہیں۔ بعض بچے ایسے ہیں جنہوں نے اپنے جیب خرچ کی پوری رقم دے دی۔ کوئی خاص چیز خریدنی تھی اس کے لیے رقم جمع کی تھی تو وہ قربانی کر دی۔ بہرحال اپنے اپنے ماحول میں ہر جگہ اخلاص و وفا کی مثالیں ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس اخلاص و وفا کو بڑھاتا چلا جائے۔

اب میں کچھ کوائف پیش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو قربانیوں کی جو توفیق عطا فرمائی ہے اور جس طرح یہ قربانیاں کرتے ہیں یہ سوائے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت خاص شامل حال ہو تو اس کے بغیر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا۔ دلوںکو اللہ تعالیٰ ہی بدلتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی دنیا کے مختلف ممالک میںرہنے والے احمدیوں کے، بڑوں کے بھی، بچوں کے بھی، دل میں ڈالتا ہے۔ اور اگر کوئی عقل رکھنے والا ہو تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہی وہ بات ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی دلیل ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ اس وقت میں بعض کوائف پیش کروں گا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریکِ جدید کا پچاسی واں سال 31؍اکتوبر کو ختم ہوا اور چھیاسی واں سال شروع ہو گیاہے اور اس سال تحریکِ جدید کے مالی نظام میں 13اعشاریہ 6 ملین پاؤنڈ زکی قربانی کی توفیق ملی اور یہ وصولی گذشتہ سال کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے آٹھ لاکھ دو ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ اس سال پاکستان میں تو کرنسی کی ویلیو بہت کم ہو گئی تھی۔ سیاسی حالات خراب، معاشی حالات خراب، بہت برے ان کے حالات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔پاکستان کے لیے دعا کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ وہاں کے احمدیوں پر بھی فضل فرمائے۔ تو وہ جو پوزیشن ہوتی ہے وہ تو قائم نہیں رہی۔ پہلی پوزیشن اب اس سال مکمل طور پر جرمنی کی ہے اور اس طرح جرمنی اوّل ہے۔ پھر دوسرے نمبر پر پاکستان ہے۔ پھر برطانیہ ہے اور کیونکہ پہلے میں پاکستان کو نکال دیا کرتا تھا ۔پہلا نام اس کا ہوتا تھا اور پاکستان کے علاوہ باہر کے باقی ملکوں کی تفصیل دیتا تھا اس لیے پاکستان کے علاوہ باوجود اس کے کہ اس کا دوسرا نمبر ہے دس ملکوں کی تفصیل اب بھی بیان کروں گا۔ جرمنی پہلا اور باہر کے ملکوں میں پھر پاکستان کے بعد دوسرا برطانیہ پھر امریکہ پھر کینیڈا پھر بھارت پھر مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ پھر انڈونیشیا پھر آسٹریلیا پھر گھانا اور پھر دوبارہ مڈل ایسٹ کا ہی ملک ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود حالات خراب ہونے کے پاکستان میں بھی اور مجموعی طور پر دنیا میں ہر جگہ معاشی حالات کیونکہ خراب ہوئے ہیں، مقامی کرنسی میں اضافہ ہوا ہے تو پہلے تین اضافے والے جو ملک ہیں ان ملکوں میں کسی ایک مڈل ایسٹ کے ملک کے علاوہ وہاں تو (اضافہ) ہے ہی پھر نمبر دو پہ بھارت ہے جہاں اضافہ ہوا ہے انہوں نے جو اضافہ کیا ہے وہ فی کس نہیں فی صد نسبت کے حساب سے ہے۔ پھر کینیڈا ہے۔ پھر جرمنی ہے۔ پھر برطانیہ۔ پھر گھانا پھر پاکستان، انڈونیشیا، امریکہ، آسٹریلیا۔

فی کس ادائیگی کے لحاظ سے بھی پہلے تین ملک یہ ہیں۔ سوئٹزرلینڈ نمبر ایک۔ پھر امریکہ ۔پھر سنگا پور اور چوتھے نمبر پہ برطانیہ اور پانچویں پہ سویڈن اس کے بعد اَور ممالک ہیں۔

افریقی ممالک میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے نمایاں جماعتیں جو ہیں ان میں پہلے نمبر پر گھانا ہے۔ پھر نائیجیریا ہے۔ پھر برکینا فاسو۔ پھر تنزانیہ ۔پھر گیمبیا ۔پھر بینن۔

گذشتہ چند سالوں سے شاملین کی طرف توجہ دی جا رہی تھی ۔ مَیں نے کہا تھا شامل ہونے والوںکی تعداد بڑھائیں اور اس غرض سے جماعتوں کو رقم سے زیادہ افراد کو شامل کرنے کے لیے ٹارگٹ دیے جارہے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک اس سال کی شامل ہونے والوں کی جو تعداد ہے وہ اٹھارہ لاکھ ستائیس ہزار سے اوپر ہے اور ایک لاکھ بارہ ہزار چندے کے نظام میں نئے شامل ہوئے ہیں۔ شاملین میں گذشتہ سال کی نسبت اضافہ کرنے والے قابل ذکر افریقن ممالک میں نائیجر، سیرالیون، نائیجیریا اور کیمرون، پھر بینن، پھر سینیگال، پھر گنی بساؤ، آئیوری کوسٹ، تنزانیہ اور گنی کناکری ہیں اور بڑی جماعتوں میں بنگلہ دیش، کینیڈا، ملائیشیا، بھارت، انڈونیشیا، جرمنی، برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا ہیں۔

دفتر اول کے کھاتے جو ہیں مرکزی ریکارڈ کے مطابق پانچ ہزار نو سو ستائیس ہیں۔ چھتیس افراد اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو ابھی حیات ہیں وہ اپنے چندے خود ادا کر رہے ہیں۔ باقیوں کے، فوت شدگان کے کھاتے ان کے ورثاء نے اور مخلصین جماعت نے جاری کیے ہوئے ہیں۔

جرمنی کیونکہ اول ہے اس کی پہلی دس جماعتیں جو ہیں ان میں روئڈر مارک(Rödermark)، نوئس (Neuss)، پنے برگ (Pinneberg)، مہدی آباد(Mehdi-Abad)، نیدا (Nieda)، اوسنا بروک (Osnabruck)، کیل(Kiel) اور فلؤرز ہائم (Flörsheim) اور وائن گارٹن (Weingarten) اور کولون (Köln) شامل ہیں اور ان میں جو پہلی دس لوکل امارتیں ہیں ان میں ہیمبرگ(Hamburg)، نمبر ایک ہے۔ پھر فرینکفرٹ(Frankfurt) ،پھر گروس گیراؤ(Gross Gerau)، پھر مؤرفیلڈن (Mörfelden)، ڈِیٹسن باخ(Dietzenbach)،ویزبادن (Wiesbaden)اور ریڈ شٹڈ (Riedstadt)، ڈام شٹڈ (Darmstadt) اور مَن ہائم (Mannheim)، روسلز ہائم (Rüsselsheim)۔

پاکستان میں تحریکِ جدید کی قربانی میں وصولی کے لحاظ سے اول لاہور۔ پھر دوئم ربوہ۔ پھر سوئم کراچی اور ضلعی سطح پر جو دس ضلعے ہیں اس میں اسلام آباد نمبر ایک، پھر سیالکوٹ، پھر فیصل آباد ۔پھر گوجرانوالہ۔ پھر عمر کوٹ ۔پھر حیدرآباد ۔پھر میر پور خاص۔ پھر قصور، ٹوبہ ٹیک سنگھ، میر پور آزاد کشمیر اور وصولی کے اعتبار سے زیادہ قربانی کرنے والی پاکستان کی شہری جماعتوں میں امارت ڈیفنس لاہور ، امارت ٹاؤن شپ لاہور، امارت کینٹ راولپنڈی، امارت شہر راولپنڈی پھر ملتان پھر امارت عزیزآباد کراچی، امارت دہلی گیٹ لاہور۔ پھر کوئٹہ ۔پھر پشاور ۔پھر بہاول نگر ہیں۔

پاکستان کی جو چھوٹی جماعتیں ہیں ان میں پانچ یہ ہیں:واہ کینٹ، صابن دستی، کھوکھر غربی، چک نوپنیار اور چونڈہ۔

برطانیہ کے پہلے پانچ ریجن جو ہیں (ان میں) پہلے بیت الفتوح ریجن ہے۔ پھر مسجد فضل ریجن ہے، پھر مڈلینڈز ریجن، بیت الاحسان ریجن اور اسلام آباد ریجن۔ مجموعی ادائیگی کے لحاظ سے برطانیہ کی دس بڑی جماعتیں مسجد فضل نمبر ایک پہ۔ پھر ووسٹر پارک۔ پھر اسلام آباد ۔پھر آلڈر شاٹ، پٹنی، نیو مولڈن، جلنگھم، برمنگھم ویسٹ، گلاسگو اور سکنتھارپ۔ چھوٹی جماعتیں جو ہیں ان میں سوانزی نمبر ایک پہ۔ پھر سپین ویلی، کیتھلے، نارتھ ویلز، اور نارتھ ہیمپٹن۔

امریکہ کی جو جماعتیں ہیں ان میں وصولی کے لحاظ سے نمبر ایک سلور سپرنگز۔ پھر لاس اینجلیس، پھر سیلیکون ویلی، سیاٹل، سینٹرل ورجینیا، ڈٹرائٹ، شکاگو، اوش کوش، ہیوسٹن، جارجیا، ساؤتھ ورجینیا۔
کینیڈا کی وصولی کے لحاظ سے لوکل امارتیں وان نمبر ایک، پھر کیلگری، پیس ولیج، وینکوور، مسس ساگا، سسکاٹون۔ چھوٹی جماعتیں جو ہیں ان پانچ میں ایڈمنٹن ویسٹ نمبر ایک پہ، پھر درہم ۔پھر بریڈ فورڈ۔ پھر ہیملٹن ۔پھر آٹواہ ویسٹ۔

انڈیا کی قربانی کے لحاظ سے پہلی دس جماعتیں جو ہیں وہ ہیں کرولائی نمبر ایک، پھر قادیان، پھر پتھ پریم، پھر حیدر آباد ، کوئمبٹور، پینگاڑی، بینگلور، کالی کٹ، کولکتہ،یادگیر۔

پہلے دس صوبے جو ہیں وہ یہ ہیں نمبر ایک کیرالہ، پھر کرناٹک، تامل ناڈو، تیلنگانہ، جموں کشمیر، اوڑیسہ، پنجاب، بنگال، دہلی اور اترپردیش۔ کشمیر کے بھی حالات سیاسی بھی اور معاشی لحاظ سے بھی بڑے خراب ہیں ۔یہاں بھی بڑی قربانی ہے جماعتوں کی۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے آسٹریلیا کی دس جماعتیں یہ ہیں نمبر ایک پہ کاسل ہل، پھر ملبرن بیروِک، ملبرن لانگ وارِن، پھر ACTکینبرا، مارسڈن پارک، پھر ایڈیلائڈ ساؤتھ، پھر پین رتھ، ماؤنٹ ڈروئٹ، پیراماٹا، پھر ایڈیلائڈ ویسٹ۔

اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 29؍نومبر2019ءصفحہ 5تا9)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button