سیرت النبی ﷺ

رسول اللہ ﷺ کا افاضۂ کمالاتِ روحانیہ

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)
[حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دور خلافت میں ایک علمی مجلس ‘مجلس ارشاد’ کے نام سے قائم فرمائی تھی جس میں مختلف علمائے کرام مقررہ علمی موضوعات پر مقالہ جات پیش کیا کرتے تھے۔ جبکہ خود حضرت خلیفۃ المسیح رحمہ اللہ تعالیٰ اجلاس کی صدارت فرمایا کرتے تھے۔ بعض اوقات حضور کی ہدایت پر اجلاس کی صدارت دیگر علمائے سلسلہ بھی فرماتے۔ اسی قسم کے ایک اجلاس میں جو مسجد مبارک ربوہ میں منعقد ہوا اس عاجز کو درج ذیل مضمون پیش کرنے کی توفیق ملی۔فالحمد للہ علی ذالک۔]

اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات تمام فیوض وبرکات کاسرچشمہ ہے۔ وہ تمام صفاتِ حسنہ سے متّصف اور ہر خیرو برکت کا مبدء ہے ۔ دنیا کا ذرّہ ذرّہ اور وقت کا ایک ایک لمحہ اس کی بے پناہ اور کبھی نہ ختم ہو نے والی عنایات پر زندہ گواہ ہے۔ سنّت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ خداتعالیٰ اپنے ان افضال وبرکات اور فیوض وانعامات کو مختلف ذرائع سے دنیا میں ظاہر کرتا ہے۔ان بے شمار وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ انبیائے کرام کی بعثت کا سلسلہ ہے۔ انبیائے کرام اس زمرۂ ابرار کے سرخیل ہو تے ہیں جو ایک طرف تو ہستی با ری تعالیٰ کے شاہد رؤیت ہو تے ہیں اور دوسری طرف دنیا کے لیے ان کا وجو د خدا نما ہو تا ہے۔یہ روحانی کمال اپنے اپنے درجہ اور مرتبہ کے مطابق ہر نبی کو حا صل ہو تا ہے۔چنانچہ اس میدان میں سب سے افضل، سب سے کامل اور سب سے بلند مرتبہ سید نا ومولانا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عطا ہوا کیونکہ آپ انبیاءؑ کے سرتاج اور تمام مقدسوں اور مطہروں کا فخر ہیں ۔آپؐ اس کائنات عالم کی علّتِ غائی ہیں کیونکہ آپ ہی کی برکت سے حیطۂ کون ومکان کو خلعت تکوین سے نواز ا گیا۔

زمان ومکان کی قید سے بالا تر رسالت

آپؐ کا وجود دنیا جہان کے لیے رحمت اور نجات کا پیغام ہے اور آپؐ کی رسالت کا دائرہ زمان ومکان کی قید سے بالا تر ہے۔ دوسری طرف آپؐ اللہ تعالیٰ کی مقدس بارگاہ میں ایک ایسے بلند مرتبہ پر فا ئز ہیں کہ جس کا کامل ادراک اور بیان انسانی استعداد سے باہر ہے۔سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوںکہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر)یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔’’

( حقیقہ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22صفحہ118 )

خالق و مخلوق کے درمیان واسطہ اور شفیع

آنحضرت ﷺ کے افاضۂ کمال روحانیت کی عظمت اور وسعت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خدا اور بنی نوع انسان کے درمیان واسطہ اور شفیع ہیں۔ دَنَا فَتَدَلّٰی۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنٰی (النجم:10-9)میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ محبت وقربِ الٰہی سے فیضیاب ہونے کے بعد بنی نوع انسان کو اس الٰہی فیضان سے مشرف کرنے کے لیے نیچے آئے اور اپنے افاضۂ کمال روحانی میں وہ مقام حا صل کیا کہ اتصال واتحادِ تام کے دنیوی پیمانوں سے بہت بالا ایک ایسے منصب پر فا ئز ہو گئے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

ختم نبوّت ۔ مستجمع جمیع کمالاتِ انبیاء اور فیضان رساں نبوّت

اس علوِّ مرتبت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو خاتم النبیّین قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ کی ذات میں دو قسم کے کمالات اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہیں ۔

ایک طرف تو آپؐ کل انبیا ء کے متفرق کمالا ت کے جامع ہیں، وہ کمالات جو انبیائےکرام میں متفرق طور پر محدود شکل میں پائے جا تے تھے وہ آنحضرت ﷺ میں یکجائی طور پر اور کامل صورت میں نظر آتے ہیں ۔

اور دوسرا عظیم الشان کمال یہ ہے کہ آپؐ صرف خود ہی عظیم اور کامل نہیں بلکہ اپنی فیض رسانی میں وہ تا ثیر قدسی رکھتے ہیں کہ آپؐ کے دم سے قیامت تک عظیم ترین روحانی کمالات کا حصول ممکن ہوگیا ہے ۔یہ دو طرفہ عظمت اور شوکت ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ایک ایسا منفرد اعزاز ہے جس میں کوئی دوسرا نبی بھی آپؐ کا شریک نہیں ۔

آنحضرت ﷺ کی شانِ ختم نبوت کا یہ دوسرا پہلو یعنی افاضۂ کمالات روحانیہ اپنے اندر بہت عظمت، شوکت اور وسعت رکھتا ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں آپؐ کی جسمانی ابوّت کی نفی فرمائی ہے اس کے سا تھ ہی ذہن میں پیدا ہونے والے ہر نقص کے خیال کی نفی کرتے ہوئے آپؐ کے خاتم النبیّین ہونے کا اعلان کر دیا ہے جس میں یہ اشارہ پا یا جا تاہے کہ گو آپؐ امّت کے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن آپؐ کا روحانی فیضان قیامت تک جاری رہے گا اور ہر دور میں ایسے عاشقانِ رسول اور محبانِ محمد ﷺ پیدا ہوتے رہیں گے جو اس مقدس نبی کے دامن فیض سے وابستہ ہو کر روحانی زندگی پا تے رہیں گے اس طرح کوئی زمانہ بھی آپؐ کے فیضان سے محروم نہ رہے گا۔ جسمانی اولاد تو ختم ہو سکتی تھی لیکن محمدیؐ چشمہ سے آبِ حیات پینے والے یہ غلامانِ محمدؐ کبھی ختم نہ ہوں گے بلکہ ہر دور میں اس بزرگ نبی اور ہادیٔ بر حق ﷺ کی دائمی حیات اور لا زوال فیض رسانی کا اعلان کرتے رہیں گے ۔

قرآن مجید میں ایک اَور جگہ پر اللہ تعالی نے آپؐ کو سراج منیر قرار دیا ہے ۔اس میں بھی یہ لطیف اشارہ ہے کہ جس طرح ایک چراغ سے ہزاروں چراغ روشن ہو سکتے ہیں اور اس کی اپنی روشنی میں کچھ کمی واقع نہیں ہو تی اسی طرح نبوت محمدیہ کا یہ چراغ قیامت تک اپنے روحانی فیو ض و برکات سے مردہ دلوں کو حیات نَو عطا کرتا رہے گا اور اس بزرگ نبی ﷺ کے چراغِ نبوت سے فیضیاب ہو کر غلامان محمدؐ ہر روحانی کمال کو حاصل کرتے رہیں گے۔ شرط صرف یہ ہے کہ طالبِ فیض نبی اکرم ﷺ کی امّت میں شامل ہو، آپؐ کی غلامی کا جؤا اپنی گردن پر رکھے اور اطاعت واتباع نبویؐ میں اپنا سب کچھ قربان کر دے ۔

سبحان اللہ۔ کیا عجیب منظر ہے اور آپؐ کے خاتم النبیّین ہونے اور آپؐ کے افاضۂ کمالِ روحانی کو کس احسن پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے ۔فرمایا کہ جس طرح ایک بجھے ہوئے چراغ کو روشن کرنے کے لیے روشن چراغ کے آگے جھکانا پڑتا ہے اکتساب فیض کی یہی صورت یہاں پر ہو گی۔ نبی اکرم ﷺؒ کو سر اج منیر قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ہمارا یہ برگزیدہ رسول ایک روشن چراغ ہے جو نہ صرف خود روشن ہے بلکہ دوسروں کو روشنی عطا کرنے کی کامل استعداد بھی اس میں موجود ہے پس اگر تم اپنے دل کی کِشت ویران کو پھر سے زندہ کرنا چاہتے ہو اور اپنے نہاں خانۂ دل کے تاریک گوشوں کو روحانیت کی کرنوں سے منوّر کر نا چاہتے ہو تو آؤ اس چراغِ محمدی ﷺ کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دو،اس دَر کے غلام بن جائو اور اطاعت و اتباعِ نبوی کا لبادہ اوڑھ کر اپنا سر نیاز اُس کے آستانہ پر جھکادو ، تمہارے دل کا بجھاہو ا چراغ بھی محمدی چراغ کے نور کی برکت سے روشن ہو جائے گا اور تم بھی وہی روشنی اور نور اپنی استعداد کے مطابق حاصل کر لوگے جو اس روشن چراغ میں موجود ہے ۔ لیکن یاد رکھو کہ اس عطائے خسرو انہ سے محمدیؐ چراغِ نبوت کی اپنی روشنی میں کچھ فرق نہ آئے گا خواہ اس سے ہزاروں چراغ روشن کر لیے جائیں۔

حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا :

‘‘آپ ﷺ کا نام چراغ رکھنے میں ایک…باریک حکمت یہ ہے کہ ایک چراغ سے ہزاروںلاکھوں چراغ روشن ہو سکتے ہیں اور اس میں کو ئی نقص بھی نہیں آتا۔ چاند سورج میں یہ بات نہیں ۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی اور اطاعت کرنے سے ہزاروں لاکھوں انسان اس مرتبہ پرپہنچیں گے ۔ اور آپ ﷺ کا فیض خاص نہیں بلکہ عام اور جاری ہے۔’’(الحکم 14؍جولائی 1908ء)

انبیائے گزشتہ کی تصدیق

آنحضرت ﷺ کے فیضان کا یہ بحرِذخّار تخلیقِ کائنات کے وقت سے موجزن ہے ۔ ہر دور نے نبی اکرم ﷺ کا فیضان پایا اور ہر زمانہ کے انسانوں نے اس باغ محمدیؐ کے شیریں پھل کھائے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ سے قبل دنیا میں مبعوث ہونے والے انبیاء اس فیضان سے اس رنگ میں مستفیض ہوئے کہ نبی اکرم ﷺ نے گزشتہ تمام انبیاء کی صداقت پر مہر ِتصدیق ثبت فرمائی اور ان کے منجانب اللہ ہونے کا ببانگِ دہل اعلان کیا۔ گویا آپؐ ہی کی برکت سے گزشتہ انبیاء کی نبوّت ثابت ہوئی۔ یعنی وہ نبوّت کے بلند روحانی منصب کے حقیقی وارث یقین کیے گئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:
‘‘ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح ابن مریم اور ملاکی اور یحییٰ اور زکریا وغیرہ وغیرہ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرب اور وجیہ اور خداتعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اُس نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔’’

(اتمام الحجّۃ۔روحانی خزائن جلد8صفحہ308)

روحانیت سے بے بہرہ قوم ‘خدانما’بنتی ہے

پھر نبی اکرم ﷺ کے اپنے زمانہ میں افاضۂ کمالاتِ روحانیہ کا ظہور اس رنگ میں بھی ہوا کہ عرب کے وہ باشندے جو دین ودنیا سے ناواقف اور تہذیب و تمدّن سے ناآشنا تھے ، روحانیت سے بے بہرہ اورقربِ الٰہی کی لذت سے محروم تھے، ہاں وہی باشندے جو خاک کے ذرّوں سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے ، یہی خا ک کے ذرّے آفتابِ نبوّتِ محمدؐیہ سے فیضاب ہو کر اور چراغِ مصطفوی ؐکی نورانی کرنوں سے منوّر ہو کر ہمدوشِ ثریا ہو گئے ۔ جاہل، عالم بن گئے۔روحانیت سے بے بہرہ کمال روحانیت کے علمبردار بن گئے اور قرب الٰہی کی لذت سے نا آشنا لو گ خدا نما بن گئے۔ یہ عظیم الشان روحانی انقلاب ہے مگر آنحضرت ﷺ کے افاضۂ کمالِ روحانی کا ایک ادنیٰ کرشمہ۔ صحابہ کرام کیا تھے اور محمدیؐ فیضان کی بر کت سے کیا ہوگئے ۔سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں سنیے ۔فرمایا :

‘‘وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے او رآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہؤا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا ۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیںجنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ ’’

(برکات الدعا۔روحانی خزائن جلد 6صفحہ11,10)

آپؐ کے اس احیائے روحانی کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پرفرمایا کہ

‘‘ایک قوم جو نجاست پر بیٹھی ہوئی تھی اُن کو نجاست سے اُٹھا کر گلزار میں پہنچا دیا اور وہ جو روحانی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے تھے اُن کے آگے روحانی اعلیٰ درجہ کی غذائیں اور شیریں شربت رکھ دئے۔ اُن کو وحشیانہ حالت سے انسان بنایا۔پھر معمولی انسان سے مہذب انسان بنایا پھر مہذب انسان سے کامل انسان بنایا اور اس قدر اُن کے لیے نشان ظاہر کیے کہ اُن کو خدا دکھلا دیا اور اُن میں ایسی تبدیلی پیدا کر دی کہ اُنہوں نے فرشتوں سے ہاتھ جا ملائے۔ یہ تاثیر کسی اور نبی سے اپنی اُمّت کی نسبت ظہور میں نہ آئی کیونکہ اُن کے صحبت یاب ناقص رہے ۔ ’’

( حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22صفحہ 118)

پھر آپ ؑ اپنے عربی منظوم کلام میں فرما تے ہیں :

صَادَفْتَھُمْ قَوْمًا کَرَوْثٍ ذِلَّۃً

فَجَعَلْتَھُمْ کَسَبِیْکَۃِ الْعِقْیَانٖ

اَحْیَیْتَ اَمْوَاتَ الْقُرُوْنِ بِجَلْوَۃٍ

مَاذَا یُمَاثِلُکَ بِھٰذَا الشَّانٖ

یعنی آنحضرت ﷺ کا وجو د با جود اپنی لا زوال تاثیراتِ قدسیہ کے اعتبار سے دنیا کے روایتی پارس پتھر سے لا کھوں درجہ بڑھ کر ہے ۔ کیونکہ اس پاک نبیؐ کے دامن سے وابستہ ہو کر گوبر کی ما نند ذلیل اور بے حقیقت قوم نہ صرف سونے کی طرح چمک دار بن گئی بلکہ صدیوں کے مردے اس مسیحا نفس کے دم کی برکت سے زندہ ہو گئے۔ یہ عظیم الشان انقلاب نبی اکرم ﷺ کے افاضۂ کمالاتِ روحانی اور آپؐ کی تا ثیراتِ قدسیہ کا ایک درخشندہ ثبوت ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ

‘‘ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلۂ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی ؐ اور زندہ نبی ؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی ؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مرسلوں کا سرتاج، جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔ جس کے زیر سایہ دس 10دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی۔’’

(سراج منیر۔ روحانی خزائن جلد 12صفحہ82)

قیامت تک جاری و ساری کمالاتِ روحانیہ

نبی اکرم ﷺ کا افاضۂ کمالا تِ روحانیہ آپ کی جسمانی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ قیامت تک ممتد ہے۔ وقت کا کوئی لمحہ اور کائنات کا کوئی گو شہ ایسا نہیں جہاں آپ کی روحانیت کا دائمی فیض جلوہ گر نہ ہو۔ اس دائمی فیض کی منا سبت سے آپ ہمیشہ کے لیے زندہ اور آپ کا نورِ نبوّت تاقیامت جاری وسا ری ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما تے ہیں :

‘‘اور کسی کے لیے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ ٔتشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا۔’’

(کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ14)

کمالاتِ روحانیہ کے حصول کی بنیادی شرط

اللہ تعالیٰ نے اس افاضۂ روحانی اور تشریعی کی یہ صورت قائم کی ہے کہ اب قیامت تک ہر روحانی کمال حاصل کرنے کے لیے نبوّت محمدؐیہ کی پیروی اور اطاعت لازمی قرار دی گئی ہے ۔جو شخص بھی آپؐ کی پیروی کرے گا اور آپؐ کے عشق میں خود کو فنا کر دے گا ۔وہ بر کا تِ محمدؐی کا وارث بن جائے گا یہ آنحضرتؐ کے جا ودانی فیضان کا کمال ہے کہ وہ زمان و مکان کی حدود سے بے نیاز ہرجگہ اور ہر وقت جلوہ فگن ہے ۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا ہے :

‘‘ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے سیّد و مولیٰ (اس پر ہزارہا سلام)اپنے افاضہ کے رُو سے تمام انبیاء سے سبقت لے گئے ہیں۔ کیونکہ گذشتہ نبیوں کا افاضہ ایک حد تک آکر ختم ہوگیا اور اب وہ قومیں اور وہ مذہب مُردے ہیں۔ کوئی اُن میں زندگی نہیں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رُوحانی فیضان قیامت تک جاری ہے۔ ’’

( چشمہ مسیحی۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ389)

اللہ تعالیٰ کی محبت کا حا صل ہو جا نا ایک عظیم الشان روحانی انعام اور کمال ہے ۔ہرانسان اس محبت کا بھوکا اور دیدارِ الٰہی کا طلب گا ر ہے ۔

آنحضرت ﷺ کے افاضۂ کمال روحانی کا یہ پہلو کسی قدر دل آویز ہے کہ محبت الٰہی کی نعمت حاصل کرنے کی بنیادی شرط اللہ تعالیٰ نے یہ مقر ر کی ہے کہ ایسا شخص آنحضرت ﷺ کا خادم اور غلام ہو۔فرمایا :

قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ

(آل عمران:32)

پس جو اس دروازے سے داخل ہو گا وہ منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا کیونکہ اب اس وسیلہ کے سوا گوہرِ مقصود تک پہنچنے کی اور کوئی راہ نہیں ؎

وَاللّٰہِ اِنَّ مُحَمَّدًا کَرَدَافَۃٍ

وَ بِہِ الْوُصُوْلُ بِسُدَّۃِ السُّلْطَانٖ

یعنی بخدا!بے شک محمد ﷺ (خدا کے)نائب کے طور پر ہیں اور آپؐ ہی کے ذریعہ دربار شاہی میں رسائی ہوسکتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس برکت کا ذکر کرتے ہوئے فرما تے ہیں :

‘‘اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اِس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے۔چنانچہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔’’

( حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد 22 صفحہ67)

نیز فرما یا :

‘‘سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیّت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اُس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے۔’’

(براہین احمدیہ حصہ چہارم ۔روحانی خزائن جلد 1۔حاشیہ در حاشیہ نمبر3صفحہ598،597)

آنحضرت ﷺکی اتباع سے خدا کا محبوب اور اس در کی غلامی سے دنیا کا مخدوم بن جا نا اس حقیقت پر دال ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک طرف با رگاہِ احدیت میں بلند ترین مقام پر فا ئز ہیں اور دوسری طرف اپنے افا ضہ کی رو سے محبت الٰہی کا سر چشمہ ہیں ۔گویا آپؐ محبت الٰہی کے پہلے اور حقیقی مورد ہیں اور باقی سب مقربانِ الٰہی اس آستانۂ محمدیؐ کے محتاج اور دریوزہ گرہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما تے ہیں :

‘‘جو شخص حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل طور پرمتابعت کرتا ہے۔ اُس کا مرتبہ خدا کے نزدیک اس کے تمام ہم عصروں سے برتر و اعلیٰ ہے۔ پس حقیقی اور کلی طور پر تمام فضیلتیں حضرت خاتم الانبیاء کو جنابِ احدیت کی طرف سے ثابت ہیں اور دوسرے تمام لوگ اُس کی متابعت اور اس کی محبت کے طفیل سے متابعت ومحبت علیٰ قدر مراتب پاتے ہیں۔ فَمَا اَعْظَمَ شَانَ کَمَالِہٖ اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَآلِہٖ۔’’

(براہین احمدیہ حصہ چہارم ۔روحانی خزائن جلد 1۔حاشیہ در حاشیہ نمبر3صفحہ623،622)

آنحضرت ﷺ کے افاضۂ کمالات روحانیہ کا ایک اور درخشندہ پہلو یہ ہے کہ جہاں ایک طرف آپ ﷺ کے فیضان کا دامن تمام زمانوں پر پھیلا ہوا ہے اسی طرح دنیا کی کوئی روحانی نعمت اور برکت ایسی نہیں جو آپ ﷺ کی اتباع سے حاصل نہ ہوتی ہو ۔ روحانیت کے چار عظیم الشان مراتب ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے یعنی ،نبوّت ،صدّیقیت ، شہادت اور صالحیت ۔ یہ چاروں مراتب آنحضرت ﷺ کی اطاعت اور اتّباع سے حاصل ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں ۔ نبوّتِ محمدیہ ﷺ کا یہ کس قدر عظیم کمال ہے کہ اس کی برکت سے روحانیت کے سب درجات کاحصول ممکن ہو گیا ہے، یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت اور پیروی اور آپ ﷺ کی غلامی کے طفیل آپ ﷺ کی اُمت کے افر اد روحانیت کے بلند ترین مقام یعنی نبوّت کے مرتبہ کو حاصل کر لیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَأُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا(النساء :70)

کیا ہی عظیم الشان مقام ہے اور کس قدر دل ربا فیضانِ نبوّت ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روحا نیت کے چاروں مراتب حاصل ہو سکتے ہیں لیکن صرف اُس کو جو اللہ تعالیٰ کی اور ہمارے اس رسول یعنی محمد ﷺ کی اطاعت میں فنائیت کا مقام حاصل کرنے والا ہو گا۔ گویا روحانیت کا ہر مرتبہ اور کمال آنحضرت ﷺ کی اتباع سے مل سکتا ہے اور روحانیت کا ہر فیضان آپ ﷺ کی غلامی سے وابستہ ہے۔ آنحضرت ﷺ سے قبل کسی نبی کو یہ مقام ِافاضۂ کمال حاصل نہ ہواکہ اُس کی پیروی سے اس کا متبع نبی بن سکتا ۔ یہ مقام صرف اور صرف ہمارے آقا خاتم النبیّینﷺ کو عطا کیاگیا کہ آپ ﷺ کا سچا متبع اور پیر وکار صدیقیت ، شہادت اور صالحیت ہی نہیں بلکہ نبوّت کے مقام پر بھی سرفراز ہو سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘اللہ جلّ شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحبِ خاتَم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ ٔکمال کے لیے مُہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اِسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیّین ٹھہرا یعنی آپؐ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجۂ روحانی، نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔’’

(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد22۔حاشیہ صفحہ100 )

افاضۂ کمالِ روحانی کا یہ پہلو بہت ہی ایمان افروز ہے کہ ایک طرف تو روحانیت کے سب کمالات محمدیؐ نبوت کے تابع ہیں اور اس نبوّت تامہ کی اتباع کاملہ ہی سے روحانیت کا ہر کمال حاصل ہو سکتا ہے اور دوسر ی طرف اس نبوّت محمدیہ ﷺ سے جدا ہو کر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔اس ایک دروازہ کے علاوہ سب دروازے بند اورحصول فیض کے سب وسائل مسدود نظر آتے ہیں ۔اس تقابل سے ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ذات فیوض وبرکات کا آفتاب اور سر چشمہ ہے جو اس در کاغلام نہیں اور اپنے آپ کو محمدؐی فیضان کا محتاج یقین نہیں کرتا وہ ادنیٰ سے ادنیٰ خیر سے بھی تا ابد محروم رہے گا ۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرما تے ہیں :

‘‘میرا یہی مذہب ہے کہ جس قدر فیوض اور برکا ت کوئی شخص حاصل کر سکتا ہے اور جس قدر تَقَرُّب اِلَی للّٰہ پا سکتا ہے وہ صرف اور صرف آنحضرت ﷺ کی سچی اطاعت اور کامل محبت سے پا سکتا ہے ورنہ نہیں۔آپؐ کے سوا اَب کوئی راہ نیکی کی نہیں ۔’’

(الحکم17؍ستمبر 1906ء)

پھر فرمایا:

‘‘ہم پرجو اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں یہ سب رسول اکرمؐ کے فیض سے ہی ہیں۔ آنحضرتؐ سے الگ ہو کر ہم سچ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں اور خا ک بھی نہیں …کوئی ہزار تپسّیاکرے، جپ کرے، ریاضت شاقہ اور مشقتوں سے مشتِ استخواں ہی کیوں نہ رہ جائے مگر ہرگز کوئی سچا روحانی فیض بجز آنحضرت ؐ کی پیروی اور اتبا ع کے کبھی میسر آسکتا ہی نہیں اور ممکن ہی نہیں ۔’’

(الحکم 18؍مئی 1908ء)

نیز فرمایا:

‘‘ہمار ااِس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتاچہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجز اقتدا اُس امام الرسل کے حاصل ہو سکیں۔ کوئی مرتبہ شر ف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔’’

( ازالہ اوہام حصہ اول۔روحانی خزائن جلد3صفحہ170)

پھر ایک اَور موقعہ پر آپؑ فرما تے ہیں :

‘‘میرا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضر ت ﷺ کے بعد یہ دعوٰی کرے کہ میں مستقل طور پر بلا استفاضہ آنحضرتؐ کے ما مور ہوں اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہوں تو وہ مردود اور مخذول ہے۔ خدا تعالیٰ کی ابدی مہر لگ چکی ہے اس بات پر کہ کوئی شخص وصول الی اللہ کے دروازہ سے آ نہیں سکتا بجز اتباع آنحضرت ﷺ کے ۔’’

(الحکم 21؍ مئی 1902ء)

پھر اسی سلسلہ میں آپؑ کس شان سے فرما تے ہیں :

‘‘وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذُرّیّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کُنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ِازلی ہے۔’’

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22صفحہ 119)

نیز فرمایا :

‘‘آپ کے اتباع کو چھوڑ کر خواہ کوئی سا ری عمر ٹکریں ما رتا رہے گو ہر ِمقصود اس کے ہاتھ میں نہیں آسکتا۔’’

(الحکم24؍اکتوبر 1904ء)

فیضِ آفتابِ محمدیؐ سےماہتابِ محمدیؐ کا روشن ہونا

آنحضرت ﷺ کے افاضۂ کمالِ روحانی کا سراجِ منیر ہر زمانہ کو اپنی نورانی شعاعوں سے منوّر کرتا رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے مقدس زمانہ کے بعد محمدی ؐ فیض کی برکت سے آسمانِ روحانیت پرہزاروں ستا رے چمکے جنہوں نے اپنے اپنے وقت پر رشدو ہدایت کا فریضہ سر انجام دیا اور بالآخر ہمارے اس زمانہ میں شانِ محمدی ؐکا ایک نہایت حسین جلوہ دنیا نے دیکھا جب کہ محمد ی ؐآفتاب کے نور سے منوّر ہو کر ماہتاب محمدیؐ جلوہ گرہوا۔ قادیان کی گمنام بستی میں ایک عاشقِ محمد ﷺ نے فدائیت اور فنائیت کا ایسا کامل نمونہ دکھایا کہ خدا ئے ذوالعرش نے اتباع نبوتِ محمدی ؐکی بر کت سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبوت کے بلند روحانی مقام پر سرفراز فر ما دیا ۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام ِنبوت پر سرفراز کیا جانا اس بات پر شاہد ِنا طق ہے کہ آنحضرت ﷺ کے فیوض وبرکات کا سلسلہ آج بھی جا ری ہے کیونکہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ مقام اور مرتبہ آنحضرت ﷺ کی اتباع اور عشق کی بر کت سے نصیب ہوا نہ کسی اَور وجہ سے۔ آپؑ خود فرما تے ہیں :

‘‘اللہ تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضۂ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لیے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپؐ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔’’

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22۔حاشیہ صفحہ 154)

اسی ضمن میں آپؑ فرما تے ہیں :

‘‘میں اُس خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کا نام لے کر جھوٹ بولنا سخت بد ذاتی ہے کہ خدا نے مجھے میرے بزرگ واجب الاطاعت سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی دائمی زندگی اور پورے جلال اور کمال کا یہ ثبوت دیا ہے کہ میں نے اُس کی پیروی سے اور اُس کی محبت سے آسمانی نشانوں کو اپنے اوپر اُترتے ہوئے اور دل کو یقین کے نور سے پُر ہوتے ہوئے پایا اور اس قدر نشان غیبی دیکھے کہ اُن کھلے کھلے نوروں کے ذریعہ سے میں نے اپنے خدا کو دیکھ لیا ہے۔’’

(تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد 15۔صفحہ140)

نیز فرمایا :

‘‘میرے لیے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر مَیں اپنے سیّد و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا اُس پیروی سے پایا اور مَیں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پَیروی اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصّہ پا سکتا ہے۔’’

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22۔صفحہ64، 65)

نیز فرمایا :

‘‘یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروی سے حاصل ہوا۔ اگر مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرفِ مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا۔’’

(تجلیات الٰہیہ۔ روحانی خزائن جلد20۔صفحہ411,412)

اس سا رے بیان سے واضح ہے کہ اللہ تعالی نے آنحضرتؐ کو مقامِ خا تَم النبیّین پر سرفراز فرما کر ایسا عظیم الشان افاضۂ کمال روحانی عطا فرمایا ہے جو ہر پہلو سے بے مثال اور ہر جہت سے شاندار ہے ۔اس افاضۂ کمال روحانی کی برکت سے روحانیت کا ہر کمال حاصل ہوتا ہے اور جو اس راہ سے نہیں آتا وہ محروم ازلی ہے ۔پھر آنحضرت ﷺکا یہ افاضہ کمال روحانی تا قیامت جاری ہے اور ہر دور میں آپؐ کی نبوت تا مہ کے افا ضۂ کاملہ کے مظہر ظاہر ہو تے رہیں گے جو آپؐ کی جاودانی حیات اور برکات کے زندہ گواہ ہوں گے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نبوّتِ محمدؐیہ کی برکت سے، نبوّت کا عظیم ترین روحانی کمال حاصل کر کے اس دعویٰ کا عملی ثبوت پیش فرمایا ۔آپ ؑ نے صاحب ِکو ثر سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں فنا ہو کر باغ محمدیؐ کے شیریں ثمر کھائے اور آئندہ کے لیے فیضان نور محمدیؐ کے ہر طالبِ صادق کو یہ نسخۂ کیمیا بتلا دیا کہ
‘‘اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت ﷺ کے فیض کو حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام بن جاؤ ۔’’

( البدر 24اپریل 1902ء)

اللّٰھمّ صلّ علٰی محمّدٍ وعلٰی اٰل محمّدٍ

وبارک وسلّم انّک حمیدٌ مجیدٌ

(ماہنامہ الفرقان۔ جنوری 1970ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button