سیرت صحابہ کرام ؓ

انگلستان کا سفر کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہؓ (قسط 4۔ آخر)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنھا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی لخت جگر حضرت نواب سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ (ولادت: 25؍جون 1904ء۔ وفات: 6؍مئی 1987ء)بھی انگلستان آنے والے صحابہ میں شامل ہیں، آپ 25؍جولائی 1962ء کو کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز لندن پہنچیں۔آپ تقریباً تین ماہ انگلستان میں قیام پذیر رہیں، اس دوران آپ نے ہالینڈ ، جرمنی، ڈنمارک اور سوئٹزرلینڈ (جہاں آپ نے Zurich میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا)کا بھی دورہ کیا۔ لنڈن میں آپ کا قیام محترم عبدالعزیز دین صاحب ابن حضرت عزیز الدین زرگر صاحب رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا۔ آپ 28؍اکتوبر کو لندن سے روانہ ہوکر اگلے دن بخیریت کراچی پہنچ گئیں۔

حضرت سید انعام اللہ شاہ صاحب ؓ

حضرت سید انعام اللہ شاہ صاحب ولد سید حسن شاہ صاحب سیالکوٹ کے مشہور سادات خاندان (حضرت حکیم میر حسام الدین صاحبؓ اور شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب) کے چشم و چراغ تھے۔ حضرت سید میر حامد شاہ صاحبؓ آپ کے پھوپھا تھے۔ حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ کے قریبی دوست تھے، حضرت چوہدری صاحبؓ نے اپنی کتاب ‘‘تحدیث نعمت’’ میں آپ کے تعارف میں ایک نوٹ لکھا ہے جس میں لکھتے ہیں:

‘‘….طبیعت میں ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ نہایت متواضع تھے اور دوست نوازی کو جزوِ ایمان سمجھتے تھے۔ کبر اور رعونت کے شدید دشمن تھے۔ غم اور پریشانی کو پاس پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ سفر اور حضر میں بشاشت کے ضامن تھے۔’’

(تحدیث نعمت صفحہ 152)

تحدیث نعمت کتاب میں ہی آپ کے انگلستان جانے کا ذکر موجود ہے۔ حضرت مولانا عبدالرحیم دردؔ صاحبؓ لندن میں عیدالاضحی منانے کی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں:

‘‘میری رپورٹ نامکمل ہوگی اگر میں سید انعام اللہ شاہ صاحب سیالکوٹی کا شکریہ نہ ادا کروں، کھانے کا انتظام ان کے سپرد تھا جسے انھوں نے نہایت جانفشانی سے سر انجام دیا۔’’

(الفضل 4؍اگست 1925ء صفحہ 2کالم 1)

آپ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے فدائیانہ اخلاص رکھتے تھے۔ خلافت ثانیہ کے آغاز پر حضورؓ کی خدمت میں نیازنامہ بھیجتے ہوئے آپ نے لکھا:

‘‘حضور والا میں کس طرح یقین دلاؤں کہ میرے دل میں کس قدر عزت اور محبت ہے۔ اور کس قدر نفرت ہے اُن لوگوں سے اور میں کتنا دشمن ہوں اُن کا جو حضرت مرزا صاحب کو نبی نہیں مانتے۔ حضور والا میں کیونکر یقین دلاؤں کہ میں ایسی سازشوں سے نفرت رکھتا ہوں جن میں خلافت کی مخالفت ہو۔ حضور اپنی دعاؤں میں مجھے ضرور یاد فرمایا کریں، میری ذات پر آج کل مصائب کا بہت ہجوم ہے، خدا مجھے اُن سے رہائی بخشے، آمین۔ حضور کا گنہگار غلام ۔ انعام۔ سیالکوٹ’’

(الفضل 7؍جولائی 1914ء صفحہ 7کالم 3)

آپ نے لاہور سے ایک اخبار ‘‘دور جدید’’بھی نکالا، اپنے اسی اخبار کے سلسلے میں حیدرآباددکن گئے تھے کہ وہاں غذائی زہریت کا شکار ہوگئے اور اسی بیماری میں مورخہ 31؍مئی 1935ء کو بعمر 48سال وفات پاگئے، امانتا ًوہیں دفن ہوئے لیکن بعد ازاں حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ کی کوششوں سے بوجہ موصی (وصیت نمبر 1688) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ (اخبار فاروق قادیان 7؍جون 1935ء صفحہ 1و اخبار الفضل 6؍جون 1935ء صفحہ 4کالم 3) حضرت چودھری سر ظفر اللہ خان صاحب لکھتے ہیں:

‘‘اُن کی یاد آج تک دل کو گرماتی ہے اور بفضل اللہ ان کے لیے دعائے مغفرت میں کبھی ناغہ یا کوتاہی نہیں ہوئی۔’’

(تحدیث نعمت صفحہ 375)

حضرت صوفی عبدالقدیر نیاز صاحب

آپ مشہور صحابی حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ کے چھوٹے فرزند تھے، آپ کے والد صاحب فرماتے ہیں:‘‘عبدالقدیر میرا لڑکا ….اس کا عقیقہ میں نے خود قادیان آکر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام سے کرایا۔’’آپ اگست 1928ء میں بطور مبلغ انگلستان بھجوائے گئے جہاں تین سال کام کرنے کے بعد واپس قادیان تشریف لائے۔ اخبار الفضل لکھتا ہے:‘‘صوفی عبدالقدیر صاحب بی اے جو اگست 1928ء میں بطور مبلغ لنڈن تشریف لے گئے تھے، تین سال کے بعد 16؍اگست 7بجے صبح کی گاڑی سے بخیریت قادیان پہنچ گئے۔’’ (الفضل 18؍اگست 1931ء صفحہ 1)آپ کو جاپان کے پہلے مشنری، رسالہ ریویو آف ریلیجنز کا ایڈیٹر اور بہت سی انگریزی کتب کے تراجم کرنے کی توفیق ملی۔ آپ نے 30؍اکتوبر 1978ء کو بعمر 79 سال وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 2220) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔

حضرت میر عبدالسلام صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت میر عبدالسلام صاحب رضی اللہ عنہ سیالکوٹ کے معروف صحابی حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے پوتے اور حضرت سید محمود شاہ صاحب رضی اللہ عنہ (بیعت : 27؍مارچ 1891ء) یکے از 313صحابہ کے بیٹے تھے۔ آپ کا نکاح حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے قادیان میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت سید ہ فضیلت بیگم صاحبہ کے ساتھ پڑھا۔ (بدر 18؍مئی 1905ء صفحہ 6 کالم 3،2)حضرت میر عبدالسلام صاحب رضی اللہ عنہ صحابی بھی تھے اور بطور امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ بھی خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کی صاحبزادی محترمہ تنویر الاسلام صاحبہ محترم صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیاہی گئیں۔ آپ 1930ء کی دہائی میں انگلستان پہنچے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ 1936ء میں جب خلافت احمدیہ کے خلاف فتنہ اٹھا تو جماعت احمدیہ لنڈن نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے اظہار عقیدت اور خلافت سے وابستگی کے لیے ایک جلسہ کیا جس میں حضرت میر عبدالسلام صاحبؓ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘خلافت فی حد ذاتہٖ اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم الشان فضل اور اس کی ایک بڑی نعمت ہے اور حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا وجود ہمیں اس قدر محبوب ہے کہ ہم آپ کے خلاف کسی آواز کو خواہ وہ کس قدر دھیمی ہو فراموش نہیں کر سکتے….’’(الفضل 22؍اگست 1937ء صفحہ 2)حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کی بطور امام مسجد فضل لنڈن رپورٹوں میں آپ کی مساعی کا بھی ذکر ملتا ہے، ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:‘‘ایام زیر رپورٹ میں متعدد مرتبہ میر عبدالسلام صاحب اور خاکسار نے ہائڈ پارک میں تقریریں کیں نیز دوسرے لیکچراروں پر سوالات کیے ……’’

(الفضل 17؍اکتوبر 1940ء صفحہ 5 کالم 1)

مکرم بشیر احمد رفیق صاحب سابق امام مسجد فضل لنڈن آپ کے متعلق لکھتے ہیں:‘‘حضرت میر عبدالسلام صاحبؓ …. اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے اور ہندوستان کی ٹیم میں بطور باؤلر کے شامل تھے۔ بعد میں آپؓ مستقلًا لندن مقیم ہوگئے۔ آپؓ کو انگریزی زبان پر زبردست عبور حاصل تھا۔ بہت عالم فاضل شخصیت تھے۔ اتوار کو ہائیڈ پارک کارنر میں اسلام و احمدیت پر تقاریر کیا کرتے تھے …..حضرت میر صاحبؓ مجھ پر بہت شفقت فرماتے تھے …..علم کا سمندر تھے۔ مَیں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا اور بہت فائدہ اٹھایا۔ حضرت میر صاحبؓ کی وفات لندن میں واقع ہوئی اور بروک وڈ میں اُن کی تدفین ہوئی۔ ’’

(چند خوشگوار یادیں صفحہ 130۔ بار دوم جنوری 2015ء)

حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ

سلسلہ احمدیہ کے معروف بزرگ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ یکم مئی 1901ء کو حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی رضی اللہ عنہ یکے از 313کبار صحابہ کے ہاں سیکھوانی ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں اپنے والدین اور اقرباء کے ہمراہ قادیان آنے اور حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت کرنے کا موقع پایا، آپ کو حضرت اقدسؑ سے شرف مصافحہ بھی حاصل ہے۔ آپ یکم فروری 1936ء کو تبلیغ اسلام کے لیے انگلستان روانہ ہوئے اور حضرت مولانا درد صاحبؓ کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1938ء میں اُن کی واپسی پر آپ مشن کے انچارج مقرر ہوئے اور1946ء تک خدمات بجا لاتے رہے۔ اسی عرصے میں دوسری جنگ عظیم بھی ہوئی جس کی وجہ سے انگلستان میں بڑے مشکل حالات کے باوجود آپ نے اپنا کام جاری رکھا۔ انگلستان میں آپ کی مساعی کے ساتھ جماعت میں خدمات کے حوالے سے بھی لمبی تفصیلات ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اُن کی بہترین جزا عطا فرمائے۔ آپ نے 13؍اکتوبر 1966ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔

حضرت شیخ منظور علی شاکر صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت شیخ منظور علی شاکر صاحبؓ 1306 ہجری (1888ء یا 1889ء )میں پیدا ہوئے ، آپ حضرت ڈاکٹر فیض علی صابر صاحبؓ (بیعت: 1900ء ۔ وفات: جنوری 1955ء)کے سب سے چھوٹے بھائی تھےجنھوں نے آپ کو اور آپ سے بڑے بھائی حضرت اقبال علی غنی صاحب کو حضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہی قادیان سکول میں داخل کر ا دیا تھا۔ (الحکم 28؍ستمبر 1934ء صفحہ 10 کالم1)اس طرح آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت اور صحبت کا شرف حاصل تھا۔ قادیان سے میٹرک پاس کرکے پھر پولیس کی ٹریننگ لی اور صوبہ اتر پردیش میں بطور سب انسپکٹر متعین ہوئے جہاں سے 1935ء یا 1936ء میں ریٹائر ڈہوئے جس کے بعد چند ماہ قادیان میں رہے اور پھر ولایت کی سیر کو نکل گئے اور انگلستان سمیت یورپ کی سیر کر کے واپس قادیان آگئے۔ چند ماہ قیام کے بعد دوبارہ سیر اور تجارت کی غرض سے امریکہ جانے کی نیت سے اسلامی ممالک کی سیر کرتے ہوئے پھر لنڈن پہنچے، لنڈن میں ایک دکان کھول لی جو اچھی چل پڑی لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد مورخہ 18؍اکتوبر 1938ء بعمر 51سال آپ نےنمونیہ سے لندن میں اپنے کرایہ کے مکان میں وفات پائی۔ 22؍اکتوبر کو آپ کا جنازہ مسجد فضل لندن کے احاطہ میں پڑھا گیا، بعد ازاں آپ کی تدفین Brookwood قبرستان میں ہوئی۔ (الفضل 27؍اکتوبر 1938ء صفحہ 6) (الفضل 28؍اکتوبر 1938ء صفحہ 2)(الفضل 10؍نومبر 1938ء صفحہ 10) حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ آپ کے متعلق لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:‘‘…..شاکر صاحب میرے اور حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ہم عمر تھے، اس لیے بچپن میں ہمارے ساتھ اکٹھے اٹھتے بیٹھتے اور کھیلتے تھے …..’’

(الفضل 27؍اکتوبر 1938ء صفحہ 6)

حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ

ادرحمہ ضلع سرگودھا سے تعلق رکھنے والے حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ (ولادت: 1875ء۔ بیعت: 1897ء۔ وفات: 1947ء) ولد حضرت مولوی نظام الدین صاحبؓ صف اول کے عظیم مجاہدوں میں سے تھے۔ بطور ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان، ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز، ناظر اعلیٰ وغیرہ جیسےاہم عہدوں پر خدمات کے علاوہ ساری عمر قلمی جہاد بھی کرتے رہے۔ آپ کی عظیم الشان خدمات میں سے ایک قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ بھی ہےجس کی ذمہ داری حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کے سپرد فرمائی اور اس اہم کام کی تکمیل کے لیے آپ حضور انورؓ کے ارشاد پر لندن تشریف لے گئے، مورخہ 26؍ فروری 1936ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کئی ہزار مرد، عورتوں اور بچوں کی معیت میں آپ کو قادیان ریلوے سٹیشن پر روانہ فرمایا۔ لندن میں ترجمۃ القرآن کے کام کے علاوہ بعض دیگر دینی خدمات میں بھی مصروف رہے مثلًا مسجد فضل کے مضافاتی پارک Clapham Common میں تقریباً تین گھنٹے تبلیغ کی۔(الفضل 25؍نومبر 1936ء صفحہ 7)آپ 26؍اکتوبر 1938ء کو حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ کی معیت میں لندن کے وکٹوریہ سٹیشن سے ہندوستان کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سے ایک دن قبل آپ دونوں کے اعزاز میں ایک الوداعی پارٹی دی گئی۔ (الفضل 12؍نومبر 1938ء صفحہ 2) اس سفر میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثالثؒ)، صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بھی شامل ہوگئے اور مورخہ 9؍نومبر کو یہ قافلہ قادیان پہنچا۔

حضرت میجر ڈاکٹر شاہ نواز صاحب

حضرت میجر ڈاکٹر شاہ نواز صاحب مورخہ 29؍ دسمبر 1899ء کو سیالکوٹ کے مخلص صحابی حضرت چوہدری مولا بخش بھٹی صاحب رضی اللہ عنہ کے ہاں پیداہوئے۔ آپ بیان کرتے تھے کہ سات سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنا اچھی طرح یاد ہے۔ کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم پائی ۔ بر صغیر کے علاوہ مشرقی افریقہ میں بھی ایک لمبا عرصہ طبی خدمات سر انجام دیں۔ 1960ء میں آپ جماعت احمدیہ کے پہلے میڈیکل مشنری کے طور پر سیرالیون بھجوائے گئے۔ 1962ء میں آپ پہلی مرتبہ انگلستان تشریف لائے جس کے بعد زندگی کے آخری 15 سال کا عرصہ زیادہ تر یہیں گزارا۔ آپ 17؍ نومبر 1977ء کو جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے لندن سے پاکستان پہنچے لیکن دوسرے ہی دن یعنی 18؍نومبر کو کراچی میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔

(الفضل 10؍اگست 1992ء صفحہ 4)

حضرت ڈاکٹر میجر سراج الحق خان صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت ڈاکٹر سراج الحق خان صاحبؓ ولد منشی دین محمد صاحب فیض اللہ چک ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے، آپ 1896ء میں پیدا ہوئے۔ 1903ء میں تعلیم الاسلام سکول قادیان کی تیسری کلاس میں داخل ہوئے۔میڈیکل کی تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے کچھ عرصہ مشرقی افریقہ کے ملک Nyasaland (موجودہ Malawi) میں بھی ملازمت کی۔ (الفضل 28؍جولائی 1931ء صفحہ 2) ریٹائرمنٹ کے بعد کوئٹہ میں مقیم ہوگئے۔ آپ 1965ء میں علاج کے لیے لنڈن تشریف لے گئے۔ 14؍دسمبر 1972ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ صحابہ میں دفن ہوئے۔

(کراچی تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 1019)

حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ

آپ حضرت مولوی محمد موسیٰ صاحبؓ آف سنور کے فرزند تھے۔ 1898ء میں حضرت اقدسؑ کی دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ نہایت ہی مخلص اور دعاگو وجود تھے۔ 1967ء میں آپ نے دوسری مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی، جس کے بعد لندن تشریف لے گئے، آپ کے لندن میں قیام کے دوران ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ بھی اپنے پہلے سفر یورپ پر لندن تشریف لائے، آپ استقبال کرنے والوں میں شامل تھے ۔ آپ لندن میں تقریباً چھ ماہ قیام مقیم رہے اس دوران فضلِ عمر فاؤنڈیشن کے سابقہ وعدہ جات میں کئی ہزار کا اضافہ کرایا۔(تاریخ احمدیت جلد 24 صفحہ 692)آپ کے بیٹے مکرم داؤد احمد گلزار صاحب (وفات: 4؍جولائی 1987ء) انگلستان میں ہی مقیم تھے اور فعال ممبر تھے۔

حضرت اللہ دتہ صاحبؓ

حضرت اللہ دتہ صاحب ولد میاں کرم الٰہی صاحب قوم گنائی آف جھیورانوالی ضلع گجرات قریباً 1896ء میں پیدا ہوئے اور 1907ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ آپ اپنی ملازمت کے سلسلے میں Kilindini Harbour کینیا (ایسٹ افریقہ) چلے گئے۔ (الفضل 5؍مارچ 1939ء صفحہ 7) بعد ازاں آپ انگلستان آگئے (سال معلوم نہیں) جہاں 24؍جون 1978ء کو بعمر82 سال لندن میں وفات پائی، آپ موصی تھے (وصیت نمبر 5338) میت ربوہ لائی گئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔

حضرت چوہدری بشیر احمد صاحب کاہلوں

حضرت چوہدری بشیر احمد کاہلوں صاحب ولد حضرت چوہدری غلام احمد صاحب کاہلوں کی اصل سکونت چہور کاہلواں تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ تھی۔ آپ 1898ء میں پیدا ہوئے اور بچپن میں اپنی دادی صاحبہ کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں ٹھہرنے کا موقع پایا۔ آپ نے بی اے کے بعد ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا اور وکالت کی پریکٹس کرتے رہے۔ 1931ء میں جج مقرر ہوئے۔تقسیم ملک کے بعد کراچی آگئے جہاں بطور نائب امیر خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کے بیٹے مکرم چوہدری انور احمد کاہلوں صاحب جماعت احمدیہ برطانیہ کے امیر رہے۔ آپ کی بیٹی محترمہ امۃ القیوم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپ جون، جولائی 1983ء میں برطانیہ تشریف لے گئے تھے، آپ کی کمزوری صحت کی وجہ سے امۃ القیوم صاحبہ ساتھ ہی گئیں تھیں۔ آپ نے 16؍نومبر 1985ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔

حضرت مولوی محمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ (سبز پگڑی والے)

حضرت مولوی محمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ 1893ء میں پیدا ہوئے۔ حضرت میاں محمد بخش صاحبؓ (وفات: 5؍مارچ 1932ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان)آف بٹالہ کے بیٹے تھے۔ والدین کے قادیان آ جانے کی وجہ سے آپ کو حضرت اقدسؑ کی پاکیزہ صحبت سے مستفیض ہونے کا بہت موقع ملا۔ 1923ء میں شدھی تحریک کے زمانہ میں زندگی وقف کی اور پھر ساری زندگی نہایت محنت اور دعاؤں سے اس عہد کو نبھایا، مختلف جگہوں پر متعین رہے اور آپ کی تبلیغ کی نتیجے میں بہت سی سعید روحوں کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے عہد خلافت میں حضورؒ کے ارشاد پر بہت سے اہم تاریخی مواقع میں شامل ہوئے جن میں صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر جلسہ سالانہ انگلستان 1989ء بھی ہے۔ 11؍اگست 1989ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جلسہ سالانہ کے افتتاحی خطاب کے آخر پر فرمایا:

‘‘اب میں ایک شخص کا تعارف آپ سے کروانا چاہتا ہوں جو آسمانی بادشاہ کے نمائندہ کے طور پر یہاں آیا ہے، میں خلیفۂ وقت کی بات نہیں کر رہا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی کی بات کر رہا ہوں۔ مجھے چند دن پہلے یہ خیال آیا کہ ….. یہ صد سالہ جشن تشکر کیسا جشن تشکر ہوگا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی صحابی شریک نہ ہو چنانچہ میں نے فوری طور پر ربوہ کہلا کے بھجوایا کہ جس طرح بھی ہو سکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو چند گنتی کے صحابہ زندہ ہیں ان میں سے کسی کو یہاں بھجوایا جائے۔ مولوی محمد حسین صاحب صحابی اپنی صحت کی کمزوری کی وجہ سے اس سےپہلے انکار کر چکے تھے مگر جب میرا پیغام سنا تو بڑے شوق سے انھوں نے لبیک کہی ….. یہ معزز مہمان آج ہمارے درمیان ہے۔ میں آخر پر ان کا تعارف کرواتا ہوں اور ان سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے ساتھ کی کرسی پر آکر تشریف رکھیں۔’’

چنانچہ حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ کو سٹیج پر لایا گیا ، حضور نے آپ سے مصافحہ اور معانقہ فرمایا اور اپنے ساتھ کرسی پر بٹھا لیا ۔

حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ نے 19؍ جون 1994ء کو وفات پائی۔

انگلستان آنے والے صحابہ کے متعلق سر دست اتنی ہی معلومات مل سکی ہیں۔ امرتسر کے مشہور صحابی حضرت ڈاکٹر قاضی کرم الٰہی صاحب رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے محترم جناب ڈاکٹر قاضی محمد بشیر صاحب امرتسر(ولادت: 1893ء۔ وفات: دسمبر 1980ء) اور محترم قاضی محمد اسلم صاحب (پیدائش 1900ء۔ وفات: 16؍دسمبر 1981ء)دونوں انگلستان سے تعلیم یافتہ تھے۔ 1905ء میں جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سفر دہلی سے واپسی پر امرتسر تشریف لے گئے تو حضرت قاضی کرم الٰہی صاحب اپنے سب بچوں کو لے کر سٹیشن پر چلے گئے اور بچوں کو نمبروار حضرت اقدسؑ کے آگے کرتے جاتے، حضورؑ پیار سے تھپکی دیتے اور مصافحہ کا شرف عطا فرماتے۔

(ملخص از کتاب ‘‘کرم الٰہی’’مصنفہ ڈاکٹر منور احمد صاحب صفحہ 212-208۔ اشاعت اکتوبر 1996ء)

خلافت اولیٰ میں بعض اور نام بھی انگلستان میں بسنے والے احمدی احباب میں ملتے ہیں مثلًا ملک عبدالرحمٰن صاحب، محمد اکبر صاحب (خطبات نور صفحہ 603) اور عبداللہ خان صاحب اور عبدالعزیز سیالکوٹی صاحب (الفضل 7؍جولائی 1914ء صفحہ 8 کالم 2)لیکن ان کے متعلق معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ صحابی تھے یا نہیں اور نہ ہی ان کی مزید تفصیلات مل سکی ہیں سوائے مؤخر الذکر عبدالعزیز سیالکوٹی صاحب کے۔ آپ کا پورا نام الحاج ماسٹر عبدالعزیز اسماعیل صاحب سیالکوٹی ہے ۔ آپ قریباً 1896ء میں پیدا ہوئے، 1911ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں داخل ہوئے، ولایت جانے کا شوق تھا لہٰذا تھوڑے ہی عرصہ بعد انگلستان جا پہنچے۔ آپ احمدیت کے شیدائی تھے۔ امریکہ، چین، جاپان اور مصر کی بھی سیر کی، حج کی سعادت بھی حاصل کی، قریباً چار مربتہ انگلستان گئے۔باوجود مغربی ممالک میں قریباً بیس بائیس سال گزارنے کے بہت سادہ زندگی گزارتے تھے اور ہر قسم کی نمائش سے محترز رہتے تھے۔ 13؍نومبر 1948ء کو سیالکوٹ میں وفات پائی۔ (الفضل 19؍دسمبر و 29؍دسمبر 1948ء)

اسی طرح 1921ء میں ایک احمدی دوست چوہدری مولا بخش صاحب کے انگلستان پہنچنے کا ذکر ملتا ہے، حضرت نیر صاحبؓ لکھتے ہیں:

‘‘اخویم چوہدری مولا بخش صاحب سابق سٹیشن ماسٹر بغداد معہ اہل و عیال بخیریت لنڈن پہنچ گئے ہیں۔ آپ کی تشریف آوری کا مدعا تبلیغ اسلام کے علاوہ تعلیم ہے۔ آپ کی اہلیہ ایرانی ہیں جو ایک اعلیٰ درجہ کی تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ چوہدری صاحب موصوف کو سلسلہ عالیہ کی بہتری کا درد اور تبلیغ حق کا جوش ہے، اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرے۔’’(الفضل 24؍جنوری 1921ء صفحہ 2 کالم 2)حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ بھی اپنی ایک رپورٹ میں ‘‘ایک ناصر دین’’کے تحت ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

‘‘ان دنوں میں جو احمدی دوست ہندوستان سے تشریف لائے ہیں ان میں چودھری مولا بخش صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آپ یہاں کے مشن کے لیے ہر طرح سے مفید ثابت ہو رہے ہیں، اپنے مال، وقت اور رسوخ سے ہر طرح سے ہماری مدد کر رہے ہیں اور یہاں کے احمدیوں سے چندہ کی وصولی کا کام آپ کے سپرد کیا گیا ہے۔’’(الفضل 10؍مارچ 1921ء صفحہ 8 کالم2) فی الحال ان صحابہ ٔ کرام کے بارے میں اتنی ہی معلومات مل سکی ہیں۔واللہ اعلم بالصواب

اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَھُمْ وَ ارْحَمْھُم وَ ارْفَعْ دَرَجَاتِھِمْ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ ماشا اللہ ۔ محترم غلام مصباح صاحب نے بہت عمدہ ، تحقیقی اور معلوماتی مضمون قلمبند کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ الفضل کو ایسے بے شمار قلمی خدمت کرنے والے مددگار عطا فرماتا رہے۔ آمین۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button