متفرق مضامین

مکہ کی قدامت اور ’دِلمون‘ کی بستی

(اظہر کرمانی۔ استاذ جامعہ احمدیہ ربوہ)

کلیدی الفاظ: آثار قدیمہ، مکہ، دلمون، حویلہ

مکہ کی بستی کے متعلق قرآن کریم میں ام القریٰ کے الفاظ آتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ۔

(آل عمران:97)

کہ یقینا ًپہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدہ) کے لیے بنایا گیا وہ ہے جو بکّہ میں ہے۔(وہ)مبارک اور باعث ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لیے ۔

اس دعویٰ کے مطابق پہلا معبد مکہ میں ہے۔ قرآن کریم اورعرب کے علاقہ میں واقع آثارعاد، حجاز میں موجود دیگر آثار اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ علاقہ پہلے کسی زمانہ میں آباد تھااور یہی علاقہ ام القریٰ کہلا سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قوم عاد کو جو کہ عرب میں آباد تھی اپنی نعماء یاد دلاتے ہوئے سورہ ٔ شعراء میں فرماتاہےکہ اس خدا سے ڈرو جس نے تمہیں بیٹوں ،چوپایوں ،باغات اور چشموں سے نوازا تھا ۔

حضر ت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ قیامت تب تک نہیں آئے گی

حَتّٰی تَعُوْدَ اَرْضُ الَعَرَبِ مُرُوْجًاوَ اَنْھَارًا

یہاں تک کے عرب دوبارہ اپنی پہلی سی حالت سرسبزہ زاروں اور نہروں کی صورت میں واپس نہ آجائے۔

(المسند للإمام أحمدجلد 19صفحہ 433)

اسی طرح کے الفاظ مسند احمد ،نسائی اور درالمنثور (الدرالمنثورفيالتفسيربالمأثور -جلد 13صفحہ 373) میں بھی مروی ہیں۔یعنی

لَنْ تَقُومَ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَعُوْد جَزِیْرَۃُ الْعَرَبِ کَمَا کَانَتْ جَنَّاتٍ وَ اَنْھَارًا(مسند احمد)

مکہ حجاز کا صدر مقام ہے ۔ اس کے چاروں طرف پہاڑوں نے قدرتی دیواریں کھینچ دی ہیں ۔

مشرقی عرب اور میسوپتامیہ کے علاقے میں کچھ دہائیاں قبل ہونے والی کھدائیوں میں بارہاایک شہر کا ذکر آیا ہےاس شہر کو گلگمیشکی داستان والی تختیوں میں سمیری تہذیب کا منبع کہا گیا ہے۔

The epic of Gilgamesh XI translated by Andrew George published by penguin classics

اسی علاقہ کو مصری تہذیب کے بانیوں کی جنم بھومی قرار دیا گیا ہے۔دلمون کو بطور جنت کے پیش کیا گیاہے ۔یہ شہر اپنے دَورکا مقد س شہر مانا جاتا تھا اور ایک نوعیت کا تجارتی مرکز سمجھاجاتا تھا حتی کے دلمون(Dilmun or Telmun) کے عروج کے وقت کا یہاں تک اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے تجارتی تعلقات وادی سندھ کی تہذیب سے بھی تھے۔اسی طرح دلمون کا ذکر اکادین کی تختیوں میں بھی ملا ہے

R.W. Ehrich, Chronologies in Old World Archaeology, 3rd Edition, I-II, Chicago, 1992, I, pages 67-68; see also D.T. Potts, Dilmun, New Studies in the Archaeology and Early History of Bahrain, (BBVO2), Berlin, 1983, quoted by K.A. Kitchen, Documentation For Ancient Arabia, Part I, page 145

چنانچہ مختلف تختیوں میں ذکر ہے کہ مختلف شہراینکی دیوتا کو دلمون جا کر نیاز دیا کرتے تھے۔ دلمون مقدس جگہ ہے یہ جملہ ان تمام تختیوں میں باربار لکھا گیا ہے۔ سمیری لوگ یہ (نیاز)اس مقدس جگہ کو بطور اس کے حصہ کے دیتے تھے۔دلمون پاکیزہ جگہ ہے۔دلمون مقد س اور صاف شفاف ہے۔

Expendition spring 1964 The Indus civilization and Dilmun the Sumarian Paradise by Samuel Noah Kramer p: 44-52

یہاں کھجور کےدرخت تھے جو بہت پھل دار تھےاور بہت سے پھل دار درخت جن سے خوراک حاصل کی جاتی تھی۔کھیت اور باغات کا حامل، اور دریا کے کنارے پے آبادشہر ،معجزانہ طور پے یہاں پانی کی رسائی ہوئی۔

The tangible Evidences for earliest Dilmun p: 218-219 Journal of Cuneiform Studies, Vol. 33 1981

دلمون کے بارے میں اندازہ ہےکہ یہ ایک واضح شاہراہ پرواقع تھا۔

دلمون شہر کے بارہ میں سمیری یہ مانتے تھے کہ اینکی دیوتاکے ذریعہ الہامی طور پر پانی مہیاکیا گیا۔جس کے ذریعہ Ninhursagنے مختلف مقدس پودے لگائےاور اس علاقہ کو بہت ہی معزز لوگوں نے اپنا مسکن بنایا ہے جن میں اینکی دیوتابھی شامل ہے۔معروف آرکیالوجسٹ Faganنے اس کا ذکرکرتے ہوئے یہ نشانیاں بتائی ہیں کہ یہ

٭…ایک جنت نظیر باغ ہے

٭…خالص اور روشن ہے

٭…زندوں کی ایک سرزمین

٭…بیماری اور موت کا کوئی وجود نہیں

٭…سرزمین مشرق میں آباد تھی

٭…یہاں ہمیشگی کی زندگی پانے والے لوگ رہتےتھے

٭…Enkiنے اوتو یعنی سورج دیوتا کو حکم دیاکہ زمین کی گہرائیوں سے تازہ پانی لے کر اسے بھر دے۔

٭…جس کی وجہ سے یہ گہرسرسبز باغ بن گئی

٭…اس میں مرغن چراگاہیں اور پھلوں سے لدے درخت تھے۔

٭…اسی جگہ Enki دیوتا نے قیمتی اور ممنوعہ پھل کھایااور وہ بیمار پڑگیا۔

Fagan, Brian searching for eden taken time Dedectives, Simon and Schuster 1996: pages 147-165

یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ مکہ کا بھی ایک نام قادس رہاہےجو ہوسکتا ہے اس کے شروع سے ہی مقدس سمجھے جانے کی وجہ سے ہو۔ (مرأۃ الحرمین جلد اول صفحہ 262)

اس وقت اس شہر کے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ یہ کو ن سا علاقہ ہوگا اکثر محققین آثارقدیمہ اسے بحرین کا علاقہ خیال کرنے لگے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس علاقہ سے نسبتاً کثر ت سے ایسی تختیاں ملی ہیں جن میں دلمون کا ذکر ہے ۔

قابل غوربات یہ ہے کہ یہ تمام تر تختیاں جن تک اب رسائی ممکن ہوسکی ہیں ان سب میں ایک دلمون نامی شہر کاذکرجہاں سمیری قوم ایک وقت میں رہاکرتی تھی جبکہ یہ لوگ دلمونی لوگ بحرین کے علاقہ میں آبادہونے کی بجائے حجاز کے علاقہ میں آبادہوئےجیساکہ Theresa Howardنے اپنے ایک مضمون میں بھی لکھا ہے کہ دلمون دریا کے کنارے آباد تھا

Howard-Carter, T. (1981). The Tangible Evidence for the Earliest Dilmun. Journal of Cuneiform Studies,33(3/4),210-223.doi:10.2307/135990 https://www.jstor.org/stable/1359898?seq=1#page_scan_tab_contents

ایپک آف گلگمیشکے مطابق بھی یہ علاقہ ایسی جگہ واقعہ تھا جہاں دریا تھے۔

Epic of Gigamesh XI 195-205 translated by Andrew George published by penguin classics

دریائے الباز یادریائے کویت : ڈاکٹر فاروق الباز جو کہ بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ NASAکے سائنٹسٹ بھی ہیں نے پہلی دفعہ سیٹلائٹ ایمیجری اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ اس دریا کو دریافت کیا ۔یہ دریا حجاز کے علاقہ ہائےعرب کو سیراب کرتاہوا کویت میں سے ہوتاہوا خلیج فارس کے قریب گرتاتھا ۔

Expendition spring 1964 The Indus civilization and Dilmun the Sumarian Paradise by Samuel Noah Kramer p: 44-52

اسی دریاکاذکر بائبل میں موجودہے۔بائبل بتاتی ہےکہ یہ دریا حویلہ کے علاقہ کو سیراب کرتاتھا۔ (پیدائش باب2آیات 10تا12) بائبل کی بتائی ہوئی تمام تر نشانیاں حجاز کے علاقہ میں پوری ہوتی ہیں اور بائبل کےمطابق بھی حویلہ وہی علاقہ ہے جہاں حضرت اسماعیل ؑکی اولاد آبادتھی یعنی ارض حجاز۔

(پیدائش باب 25آیت 18)

پس مندرجہ بالا عام شواہد سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حجاز کا علاقہ شروع سے ہی اپنی تقدیس کی وجہ سے مشہور تھا۔

سرزمین خدا

مصر ی کتبات میں ایک پانطر نامی جگہ کا ذکر ہے جس کا مطلب سرزمین خدا ہے۔اور اس جگہ کی خاص بات بھی یہی ہے کہ یہ مقدس ہونے کی وجہ سے مشہور تھی ۔مکر م عبدالقادر صاحب نے’’حجاز(سرزمین خدا)ہے‘‘کے عنوان سے ایک مضمون میں ان کتبات کا قدرے اختصار سے ذکر کیا ہے (روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ 20؍مارچ 1966ء صفحہ4)جس کا خلاصہ احباب گرامی کی خدمت میں پیش ہے۔لکھتے ہیں کہ
حتی نے بھی اس بات کاذکر کیا ہےکہ 3500 ق م سامی لوگوں نے جو کے عرب میں آباد تھے حامی لوگوں سے مل کر مصری تہذیب کی بنیاد رکھی تھی۔

لکھا ہے کہ قریباًساڑھے 4ہزار سال قبل سے یہ نام مصری کتبات میں ملتا آرہاہے۔ان کتبات میں پانطر کو روحانیت کا مرکز، الہیات کا مبدا، سب دیوتااسی مقدس سرزمین سے آئےخ، وشنما پودوں خوشبودار مصالحوں اور ہر قسم کی نعماء کا گہوارہ کہا گیاہے ۔

Ancient Record of Egypt by Breasted Vol:1 tablet 133, Vol:2 Tablet 253,257,264,265,285,288

ایک مورخ بڑگش کا ذکر بھی کیا گیاہے جس نے لکھاہے کہ سرزمین خدا مقدس سرزمین سے مرادملک عرب کا مغربی ساحلی علاقہ ہے یعنی حجاز (تاریخ مصراز بڑگش صفحہ 117)

Kites/Tombs

جدہ اورحجاز کےعلاقہ میں پروفیسر David Kennedyنے جن کا تعلق یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا سے ہے گوگل ارتھ کی مدد سے1240 مربع کلومیٹر رقبہ کو سکین کیااور 1977آرکیالوجی کی سائٹس کےعلاوہ 1082 TombsیاKites دریافت کی ہیں ۔جن کو گوگل ارتھ کے ایک یوزر KenGrok نے چھوٹے آئیiکے نشان سے گوگل ارتھ کا مستقل حصہ بنا دیاہےجسے کوئی بھی یوزرگوگل ارتھ ایپ کے ذریعہ بآسانی دیکھ سکتا ہے۔

ان کائٹس کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی کے یہ اصل میں کیاہیں ۔سعودی گورنمنٹ نے بھی مختلف آرکیالوجسٹ کو اس معمہ کو حل کرنے کے لیےمدعو کیاہے لیکن ابھی تک وہ اس کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ البتہ غالب امکان یہی ہے کہ یہ کسی خاص چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لیے مسافروں کی مدد کی خاطر بنائے گئے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کیونکہ ان کائٹس یا ٹومبز کی صورت آنسو یاپانی کے قطرہ کی مانند ہے۔جبکہ اگر یہ ٹومبز ہی ہیں تو یہ ایک قوی دلیل اس بات پر ہوسکتی ہے کہ یہاں اس علاقہ میں اپنے سرسبزی کے دورمیں کثرت سے لوگ رہاکرتے تھے جن کے لیے یہ معبد تعمیر کیے گئے اور یہ تمام معبد کسی ایک چیز کی طرف اشارہ کرتے محسوس ہوتےہیں۔

ان میں سے جوKites پانی کے قطروں کی مانند ہیں ان کے بارے میں یہ بھی کہاجاسکتا ہےکہ یہ عرب میں قریب ہی موجود والکینک پہاڑوں سےگرنے والے لاوے کی وجہ سے ہوں گے۔لیکن یہ کہنا درست نہیں ہوگا کیونکہ ان کائٹس کو غور سے دیکھنے سے اور گوگل ارتھ کے ذریعہ ملنے والی ایک قریبی تصویر سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ڈراپس چھوٹے چھوٹے پتھروں کو اکٹھا کرکے ایک ترتیب سے رکھے ہوئے ہیں ۔اور ان سب کا عرب اورحجازکے مختلف حصہ میں پایا جانا یہ بتاتاہے کہ کسی خاص سوچ اور سکیم کے تحت ہی یہاں بنائے گئے ہیں۔جس سے یہاں کے رہنے والوں کی تہذیب و تمدن کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔

یہاں ان سب ممکنات کو دیکھتے ہوئے یہ بات زیادہ قرین قیاس لگتی ہے کہ یہاں کوئی باقاعدہ تہذیب آباد ہو اور یہاں جگہ جگہ مختلف بستیاں ہوں ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ قوم سبا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ان کا ملک بہت بڑا تھا اور ان کے ملک سے فلسطین تک بستیاں ہی بستیاں چلی آتی تھیں لیکن اس ملک کے رہنے والوں نےخدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر اد انہ کیا اور انہوں نے کہا

رَبَّنَا بٰعِدۡ بَیۡنَ اَسۡفَارِنَا وَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ وَ مَزَّقۡنٰہُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ

یعنی اے ہمارے رب ہمارے سفروں کو لمبا کر دے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا پس ہم نے ان کا نام مٹادیااور ان کو قدیم زمانے کے افسانے بنا دیا اور انہیں تباہ کر کے ذرہ ذرہ کردیا۔گویاسباقوم کی ناشکری کے باعث ان پر تباہی آگئی اور ان کا ساراملک تباہ ہو کر ویران ہوگیا۔قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق اس واقعہ سے بھی ہوتی ہےکہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک بہت بڑے لشکر کو لے کر یمن آئے اور وہ بآسانی وہاں پہنچ گئے اور ان کو کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ لیکن جب آنحضرت ﷺ کی پیدائش سے قبل ابرہہ نے یمن کے لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیاتو واپسی پر اس کا لشکر راستہ کھو جانے کی وجہ سے بالکل تباہ ہوگیا‘‘

(سیر روحانی تقریر روحانی عالم کے کتب خانے صفحہ 43تقریر فرمودہ مورخہ 28؍دسمبر 1958ء بر موقع جلسہ سالانہ منعقدہ ربوہ)

الغرض ضرورت اس بات کی ہے کہ حجاز کے علاقہ میں آثاریاتی کھدائیاں کی جائیں جس سے یہ تاریخ جو ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے اس کو حل کیا جاسکے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button