کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

نعمائے بہشت کی حقیقت(حصہ سوم)

اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

یہ بالکل سچ ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی عظمت پر ایمان ہو گا۔ اسی قدر اللہ تعالیٰ سے محبت اور خوف ہو گا ورنہ غفلت کے ایام میں جرائم پر دلیر ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کی عظمت اور جبروت کا رُعب اور خوف ہی دو ایسی چیزیں ہیں جن سے گناہ جل جاتے ہیں اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جن اشیاء سے ڈرتا ہے، پرہیز کرتا ہے۔مثلاً جانتا ہے کہ آگ جلا دیتی ہے اس لیے آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یا مثلاً اگر یہ علم ہو کہ فلاں جگہ سانپ ہے تو اس راستہ سے نہیں گزرے گا۔ اسی طرح اگر اس کو یہ یقین ہو جاوے کہ گناہ کا زہر اس کو ہلاک کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت سے ڈرے اور اس کو یقین ہو کہ وہ گناہ کو ناپسند کرتا ہے اور گناہ پر سخت سزا دیتا ہے تو اس کو گناہ پر دلیری اور جرأت نہ ہو۔ زمین پر پھر اس طرح سے چلتا ہے جیسے مردہ چلتا ہے۔ اس کی روح ہر وقت خدا تعالیٰ کے پاس ہوتی ہے۔

یہ امور ہیں جو ہم اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی ہی اشاعت ہمارا مقصود ہے۔ مَیں یقیناً جانتا ہوں اور کھول کر کہتا ہوں کہ انہیں امور کی پابندی سے مسلمان مسلمان ہوں گے اور اسلام دوسرے ادیان پر غالب آئے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ مسیح کی موت یا مسیح موعود ہونے کے امور کوہماری راہ میں نہ ڈال دیتا تو ہمیں کچھ بھی ضرورت نہ تھی کہ عیسیٰ کہلاتے مگر مَیں کیا کر سکتا ہوں۔ جب خود اس نے مجھے اس نام سے پکارا اور اس کی اشاعت اور اعلان پر مجھے حکم دیا۔ میں خوب جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لیے مجھے عیسیٰ کہلانے کی کچھ بھی حاجت نہ تھی اور منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے اس کی کچھ بھی حاجت نہیں اور نہ قرآن شریف میں یہ لکھا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی چاہا اور اس لیے چاہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عزّت اور عظمت کا اظہار ہو اور ایک عاجز انسان جس کو غلطی سے خدا بنا لیا گیا ہے اس کی حقیقت دنیا پر کُھل جاوے۔

میں یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ ہم نیکی کے ثمرات کو محدود نہیں کرتے اور نہ خدا تعالیٰ کے فضل اور فیوض کی حدبندی کرتے ہیں کہ وہ اب ختم ہو گئے ہیں اور کسی دوسرے کو نہیں مل سکتے۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بات کی کمی نہیں ہے اور کوئی شخص بھی جو مجاہدہ کرے اور اس راہ پر جو اس نے بتائی ہے چلے محروم نہیں رہ سکتا۔ ہاں یہ بالکل سچ ہے کہ جو کچھ ملے گا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سچّی اور کامل اطاعت اور اتباع پر ملے گا۔ اگر یہ مان لیا جاوے کہ بس اب خدا تعالیٰ کے برکات کا دروازہ بند ہے تو اللہ تعالیٰ کو یا تو بخیل ماننا پڑے گا اور یا یہ کہنا پڑے گا کہ خاتمہ ہو گیا۔ مگر سبحان ربّی۔وہ اس قسم کے نقصوں سے پاک ہے۔ جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ کے حضور آتا ہے وہ خالی نہیں جاتا۔ پاکیزہ قلب ہونے کی ضرورت ہے ورنہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الّٰذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ(الفاتحۃ:7-6) کی تعلیم اور تاکید بے فائدہ ہو جاتی ہے۔ اگر وہ انعام و اکرام اب کسی کو ملنے ہی نہیں ہیں تو پھر پانچ وقت اس دعا کے مانگنے کی کیا حاجت ہے؟ یہ بڑی غلطی ہے جو مسلمانوں میں پھیل گئی ہے۔ حالانکہ یہی تو اسلام کا حُسن اور خوبی تھی کہ اس کے برکات اور فیوض اور اس کی پاک تعلیم کے ثمرات تازہ بتازہ بہت مل سکتے ہیں۔ تمام صوفیوں اور اکابران امت کا یہی مذہب ہے بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ کامل متبع ہوتا ہی نہیں۔ جب تک بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کمالات کو اپنے اندر نہ رکھتا ہو اور حقیقت میں یہ بات صحیح بھی ہے۔ کیونکہ کامل اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے لازم ہے کہ اس کے ثمرات اپنے اندر پیدا کرے۔ جب ایک شخص کامل اطاعت کرتا ہے اور گویا اطاعتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میں محو اور فنا ہو کرگم ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے ایک شیشہ سامنے رکھا ہوا ہو اور تمام و کمال عکس اس میں پڑے۔

میں کبھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور برکات اور ان تاثیرات کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کامل اتباع سے ملتی ہیں محدود نہیں کر سکتا بلکہ ایسا خیال کرنا کفر سمجھتا ہوں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ بہشت میں ایک مقام ہے جو مجھے ہی ملے گا۔ ایک صحابی یہ سُن کر رو پڑا۔ آپ نے جو پوچھا کہ تو کیوں رو پڑا؟ تو اس نے کہا یا رسول اللہ مجھے آپؐ کے ساتھ محبت ہے۔ جب آپؐ اس مقام میں ہوں گے تو میں کہاں ہوں گا؟ آپؐ نے فرمایا کہ تو میرے ساتھ ہو گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپؐ نے اس کے وجود کو اپنے اندر لے لیا۔

غرض یہ یقیناً یاد رکھو کہ کامل اتباع کے ثمرات ضائع نہیں ہو سکتے۔ یہ تصوّف کا مسئلہ ہے اگر ظلّی مرتبہ نہ ہوتا تو اولیاء امت تو مر جاتے۔ یہی کامل اتباع اور بروزی اور ظلّی مرتبہ ہی تو تھا جس سے بایزیدؒ محمد کہلایا اور اس کہنے پر ستر مرتبہ کُفر کا فتویٰ ان کے خلاف دیا گیا۔ اور انہیں شہر بدر کیا گیا۔

(ملفوظات جلد 8صفحہ 62تا65۔ ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button