یادِ رفتگاں

میری جنّت، میری ماں

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

ماں ! اپنے تن سے نئے وجود کو جنم دینے والی ہستی۔عسر یسر تنگی اور آسائش میں اولاد کو اپنے پروں تلے سمیٹنے والا وجود۔

وہ معتبر رشتہ جسے احکم الحاکمین نے ہمیشہ قول کریم سے مخاطب کرنے کا حکم عام دیا ، اور اصدق الصادقین نے اُسے اولاد کے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق قرار دیا ۔ ماں !اولاد کا دکھ درد بانٹنے والی ، اور ان کی خوشیوں کو دوبالا کرنے والی ہستی،سچی اور بے لوث دعائوں کا خزانہ ، جس کے نقش پا جنت کی منزل آسان کرتے ہیں۔

اتوار 20؍جنوری2019ء کی صبح فون کی گھنٹی بجی، سلام دعا کے بعد اہلیہ اور بچوں کافرداً فرداً حال پوچھا ،بچوں کی پڑھائی کا پوچھا۔ پھر گویا ہوئیں:‘‘پاکستان کب آنا ہے ،ایک بار آکر مجھے جیتے جی دیکھ لو ’’۔اُن کے یہ الفاظ ہوا کے دوش پہ میری سماعتوں سے ٹکرا کر بکھرے نہیں ، بلکہ اِس طرح زندگی کا حصہ بنے کہ ہر پل ان کی گونج سنائی دیتی ہے ، کیونکہ صرف چھ دن کے بعد وہ ہجر زدہ ماں بستر علالت پہ تھی اور یکم فروری کو رہگزائے بقا ہوئی،اور یادوں کا ایک خزانہ میرے حوالے کر گئی۔

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

خاندانی حالات

ہمارے خاندان میں احمدیت میرے پردادامحترم شیخ محمد سلطان صاحب کے ذریعہ آئی۔ جنہوںنے خدا تعالیٰ کے فضل سے 1897ء میں عین عالم شباب میں 24سال کی عمر میں مسیح محمدیؐ کی جماعت میں شامل ہونے کا اعزازپایا ، اور ضلع لودھراں کے سب سے پہلے احمدی اور صحابی ہونے کا دائمی شرف حاصل کیا۔ان کے حالات زندگی ہفت روزہ بدر قادیان،روزنامہ الفضل پاکستان او ر ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل لندن جیسے موقر جماعتی اخبارات میں شائع شدہ ہیں۔

ان کے بڑے بھا ئی محترم شیخ محمد رمضان صاحب نے 1902ء میں صحابی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

دونوں بھائیوں نے جو بعد میں سمدھی بھی بنے ، دینی اور دنیاوی لحاظ سے بھر پور زندگی گزاری ،مگر جب آفتاب زیست لب بام آیا تو گردش ایام بھی ساتھ لایا، لاکھوں کا مشترکہ کاروبار حوادث زمانہ کے باعث دنوں میں ختم ہو گیا ،اور یسر کی جگہ عسر اور آسائش کی جگہ تنگی نے آگھیرا۔ مگر یہ بزرگان راضی با رضا رہتے ہوئے جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔

ترقّی اور تنزل کو یاں کے کچھ عرصہ

مثالِ ماہ زیادہ نہیں مہینے سے

ابتدائی حالات

میری والدہ محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ مورخہ17؍ستمبر 1944ء کو پیدا ہوئیں ۔آپ کے والد کا نام شیخ اشفاق احمد صاحب تھا،جو میرے دادا محترم شیخ مشتاق احمد صاحب کے برادر اصغر اور حضرت شیخ محمد سلطان صاحب کے بیٹے تھے۔

اُن ایام میں دونوں بھائی حالات سے لڑنے اور اپنے بچوں کے لیے قوت لایموت کے حصول میں مصروف تھے۔ میری والدہ چار بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پہ تھیں،اُن کی پیدائش دنیا پور میں ہوئی مگر کچھ عرصہ بعد میرے نانا جان حصول روزگار کے لیے اِس قصبہ سے کچھ دور ایک گائوں میں منتقل ہو گئے جو ‘‘کرم والی پل’’کے نام سے معروف ہے۔ میری والدہ کا بچپن بہت سادگی سے گزرا ۔ گھر کا ماحول دینی تھا ، کیونکہ ننھیال اور ددھیال امام الزمان کی صحبت سے فیض یافتہ تھے۔ میری نانی جان محترمہ مریم بی بی صاحب صوم و صلوٰۃ کی پابند اور کثرت سے کلام پاک کی تلاوت کرنے والی خاتون تھیں ، اور میری ماں کو یہ دولت ورثہ میں ملی ۔آپ نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی ۔ سلائی کڑھائی اور گھر داری کے امور میں مہارت حاصل کی ۔اور ماں باپ کی بھر پور خدمت اور چھوٹے بھائی بہن کی دیکھ بھال کرتے ہوئے اس گھر سے رخصت ہوئیں ۔

ازدواجی زندگی

مورخہ 29؍اگست 1964ء کو آپ کی شادی ہوئی، اور1968ء میں مولا کریم نے آپ کو پہلی بیٹی سے نوازا، پھر پانچ بیٹے اور ایک بیٹی عطا ہوئی۔

خاکسار کے دا دا جان محترم شیخ مشتاق احمد صاحب جنوری 1960ء، اور دادی جان بتول بی بی صاحبہ دسمبر 1961ء میں اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ چھےبچے سوگوار تھے، اور آمد کاکوئی مستقل ذریعہ نہ تھا ۔ والد محترم شیخ مظفر احمد صاحب نے جو اِن بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے انتہائی نا مساعد حالات میں اپنے خاندان کو سنبھالا، اور 1964ء میں شادی کے بعد والدہ صاحبہ نے اُن کابھر پور ساتھ دیا ،اور محدود آمدنی میں سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے ایک بڑے کنبے کی پرورش کی اور اپنے دیوروں اور نندوں کی شادیاں کیں جس کا سلسلہ 1982ء میں ختم ہوا۔
اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے دیوروں کے بچوں کی بھی پوری توجہ کے ساتھ پرورش اور دیکھ بھال کی، زچگی میں اپنی نندوں کا بھر پور خیال رکھا ۔ہمیشہ دوسرے کے آرام کو اپنے آرام پر ترجیح دی۔شادی کے بعد آپ نے تادم آخر ایک مثالی بیوی کی حیثیت سے اپنے خاوند کی اطاعت اور دیکھ بھال کی۔ اور ساری زندگی اپنی استطاعت سے بڑھ کر خاوند کی ضرورت اور آرام کا خیال رکھا۔گذشتہ کئی سال سے والدصاحب مختلف عوارض کی وجہ سے صاحب فراش ہیں، آپ نے اپنے بڑھاپے اور کمزوریوں کے باوجود ان کی بھر پور خدمت کی۔

دور ابتلا

1974ء کا پر آشوب سال پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کے لیے بہت کڑا وقت تھا۔ ہمارے شہر میں بھی مخالفت عروج پر تھی۔مورخہ 31؍مئی بروز جمعہ اور یکم جون 1974ء بروز ہفتہ مذہبی غنڈہ گردوں نے شہر میں جلوس نکالا، احمدی گھروں کا محاصرہ کیا ۔املاک کو جلایا اور افراد جماعت کو زدوکوب کیا۔شہر کے مختلف حصوں میں آباد احمدی اپنے اپنے گھروں میں محصور تھے،اور کوئی پُرسان حال نہ تھا۔ہفتے کا دن ان مظلوموں پر بہت بھاری تھا۔ سینکڑوں افراد مغلظات بکتے،تیل کے کنستر ہمراہ لیے احمدیوں کو لوٹنے اور زندہ جلانے کے ارادے سے گھروں کے باہر موجود تھے ۔

والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیںکہ گھر میں خواتین زیادہ تھیں، اور ہمیں مالوں سے زیادہ اپنی عزتوں کی فکر تھی۔کوئی ہتھیار پاس نہ تھا، سوائے دعا کےاور خوف کے اس مہیب سائے میں ہم نے دعائوں کے سہارے اپنا وقت گزارا ۔

اُس دن مذہبی درندوں نے والد صاحب کی دکان سمیت کئی احمدیوں کی دکانیں مع سامان اور دیگر املاک جلا کر اپنے غیض کو ٹھنڈا کیا ، لیکن مولاکریم نے سب کے گھروں اور عزتوں کو محفوظ رکھا۔بعد میں غیر از جماعت خواتین افسوس کے لیے آتیں، تو والدہ صاحبہ کہتیں افسوس کیسا، مال کا کیا ہے رہے نہ رہے اصل دولت ایمان کی ہے جوسلامت ہے۔

اولاد کی تربیت

اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی ۔نمازاور مختلف دعائیں خود بچوں کو سکھائیں۔میرے والد محترم نے صاحب اولاد ہونے سے پہلے یہ عہد کیا تھا کہ اپنے بچوں کو قرآن مجید حفظ کروائیں گے ،اور جماعت کے لیے وقف کریں گے،والدہ محترمہ نے ان کے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بھر پور قربانی کی۔ اس مقصد کے لیے اکتوبر 1976ء میںہم شہر سے دور ‘‘موضع نائچ’’ نامی ایک گائوں میں منتقل ہوئے ،جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم تھا۔ کئی سال تک والدہ محترمہ نے انتہائی نامساعد حالات میں گزارا کر کے اپنی بڑی بیٹی اور خاکسار کو قرآن مجید حفظ کروایا۔ ہمارے اساتذہ کی بہت جذبے کے ساتھ خدمت کی۔اس گائوں میں آپ نے خود بیسیوں غیر احمدی بچوں کو قرآن مجید ناظرہ پڑھانے کی توفیق پائی۔پھر بچوں کو دنیاوی تعلیم دلوانے کے لیے بھر پور کوشش کی۔ روزانہ صبح وقت پر سب کو ناشتہ کرواکے سکول کے لیے تیار کرتیں۔ بچوں کو سچائی اور فرمانبرداری کا درس دینا ، اور نمازوں کی طرف توجہ دلانا ان کا شیوہ تھا۔بڑی بیٹی کی شادی مربی سلسلہ سے کی اور دو بیٹوں کو وقف کیا ، اور اس چیز کو ہمیشہ فخر سے بیان کیا ، اور کہا کرتی تھیں شاید خدا اِسی کے صدقے میری بخشش کر دے۔پھر اپنے بچوں کے بعد اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی دینی تربیت کے لیے پوری لگن اور محنت سے توجہ کی۔ خاکسار اگست 1990ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوا۔ اور دوران تعلیم اکثر مہینے کے آخری ہفتے کی رخصت پر گھر جاتا رہا ۔اور عام طور پر آدھی رات کے وقت گھر پہنچتا، لیکن ہمیشہ وقت کی پروا کیے بغیر کھانا تیار کر کے دیتیں۔بعد ازاں میدان عمل میں آنے ،اور پھر بیرون ملک تقرری کی وجہ سے خاکسار ان کی خدمت سے محروم رہا ، لیکن میرے چھوٹے بھائی عزیزم قمر احمد اُس کی اہلیہ اور بچوں نے والدین کی بھر پور خدمت کی توفیق پائی،اور جنت کمائی۔میرے بھائی کے بچوں نے مقدور بھر دادی کی قربت اور پیار کو سمیٹا،آپ نے بھی ان بچوں کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ وفات سے کچھ گھنٹے قبل بھی قمر احمد سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فریج میں کافی دودھ پڑا ہے ۔ اپنے بچوں کے لیے لے جائو۔دادی کی جدائی ان بچوں پربھی بہت گراں گزری۔

ذاتی زندگی

امی جان بے شمار خوبیوں کی مالک تھیں۔ انتہائی منکسر المزاج، عبادت گزار، ملنسار ،صابر شاکر ،غریب پرور، سادہ، دعا گو، درگزراور پیار کرنے والا وجود تھیں ۔ اہل محلہ سے ہمیشہ اچھے تعلقات رکھے۔اور ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔

تبلیغ کا بہت شوق تھا ، اور ملنے جلنے والی خواتین کو باقاعدگی سے پیغام حق پہنچایا کرتی تھیں۔
کچھ عرصہ گھریلو اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے لیے کپڑوں کی سلائی کا کام بھی کیا۔ مگر پھر والد صاحب کی خواہش پر اس کام کو ترک کر دیا۔صدقہ و خیرات ان کا وصف تھا۔ دنیا وی لحاظ سے کم علم ہونے کے باوجود بیسیوں محاورے اور ضرب الامثال یاد تھیں ، اور ان کا بر موقع استعمال ان کی خوبی تھی، علمی مذاق رکھنے والی تھیںاور جماعتی اخبار و رسائل کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتی تھیں۔کفایت شعاری ان کا خاص وصف تھا جس پر آپ ہمیشہ کار بند رہیں۔

ان کے لبوں پر ہمیشہ سب کے لیے دعا ہی رہی۔ایک دعا ان کے منہ سے بار بار سنی :‘‘شالا بخت اقبال بلند ہووی’’۔

صبح خیزی ان کی زندگی کا لازمہ تھا ، تہجد خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے والی ،اور پنج وقتہ نمازیں نہایت التزام کے ساتھ پڑھنے والی تھیں۔ فجر کے بعد بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت ان کا خاصہ تھا ۔عزیزم ولید احمد مربی سلسلہ درجہ ثالثہ میں قرآن مجید کا ترجمہ مکمل کرنے کے بعد چھٹیوں میں گھر آیا تو ایک دن امی جان نے ان سے قرآن مجید کی متعدد آیا ت کا لفظی اور بامحاورہ ترجمہ پوچھا، جو بفضل خدا انہوں نے ٹھیک ٹھیک بتایا۔ اس نے حیرت سے پوچھا کہ آپ نے یہ سب کیسے یاد کیا تو کہنے لگیں کہ میں گذشتہ کئی سال سے قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پڑھتی ہوں اور اسی طرح یاد کر لیا ہے۔ امی جان بہت خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتیں ۔ 2013ء میں ہم چھٹیاں گزارنے پاکستان گئے تو میرے بیٹے نے اپنی دادی جان سے کہا: ‘‘دادی جان فجر پر میری آنکھ آپ کی تلاوت کی آواز سے کھلتی ہے ، مجھے بہت پیارا لگتاہے ۔ آپ کی تلاوت کی آواز میری یادداشت میں محفوظ رہے گی’’آخری سالوں میں دن کے اوقات کا اکثر حصہ قرآن مجید کی تلاوت میںگزارا۔ گذشتہ کئی سالوں سے رمضان المبارک کے ایام میں قرآن مجید کے پانچ پانچ دَور مکمل کرنے کی توفیق پائی۔آخری عمر تک بڑی باقاعدگی کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنے کی تو فیق پائی۔روزانہ کثرت سے درود شریف اور قرآنی دعائو ں کو پڑھنا ان کی عادت مستمرہ تھی۔خدا تعالیٰ کے فضل سے قرب و جوار کے بیسیوں احمدی اور غیر احمدی بچوں بچیوں کو قرآن مجید ناظرہ پڑھانے کی سعادت حاصل کی ۔

میری امی دعائوں کا ایسا خزانہ تھیں جس کا ذکر اپنوں اور غیروں نے بر ملا کیا ہے ۔ بات کرتے کرتے ایک فقرے میں بیسیوں بار خدا کے فضلوں کا ذکر کرتیں ، کہا کرتی تھیں کہ میرے خدا کے اتنے فضل و احسان ہیں کہ ان کاشمار نہیں کر سکتی۔

عائلی زندگی

بیٹوں کی شادیوں کے بعدامی جان نے اپنی بہوئوں کو بھرپور عزت دی ، اور بیٹیوں کی طرح ان کا خیال رکھا۔ لیکن آپ نے اپنے روزمرہ امور خانہ داری کو تا دم آخر جاری رکھا ۔ انہوں نے خود اپنی ذات ، اپنا آرام سب کچھ والد صاحب کے لیے وقف کیا ہواتھا۔ ایک بار میری اہلیہ نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ اِس عمر میں آپ اتنی فکر کرتی ہیں ۔ اب تو گھر میں ماشاءاللہ آپ کی بہوئیں آگئی ہیں ۔ اب آپ فکر نہ کیا کریں ہم کرلیں گے۔ مگر امی جان نے جواب دیا :‘‘یہ میری ماں کی نصیحت ہے کہ خاوند کے آرام اور خوارک کا خیال بیوی کا فرض ہے،اور میںیہ فرض احسن رنگ میںپورا کرنا چاہتی ہوں تاکہ اپنی ماں اور خدا کے سامنے سرخرو ہوں۔’’

خلافت سے ناطہ

خلافت سے انتہائی عقیدت و احترام کا تعلق تھا،نظام جماعت کا احترام ،خلافت احمدیہ سے وفاکا جذبہ دوسرے ہر رشتے پر بالا رہا ۔درثمین اور کلام محمود کی کئی نظمیں از بر تھیں ،اور اکثر چلتے پھرتے ترنم سے پڑھا کرتی تھیں ۔ اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کو مختلف نظمیں یاد کروائیں۔ ‘‘رہے گا خلافت کا فیضان جاری’’ اپنی پوتیوں کے ساتھ مل کر بہت عقیدت کے ساتھ پڑھا کرتی تھیں۔
شیخ محمد سلطان صاحب نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں ایک نظم لکھی، جو سفر سندھ کے دوران لودھراں سٹیشن پرسینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ان کی نذر کی گئی۔ یہ نظم خاکسارنے پہلی دفعہ ان کے منہ سے سنی۔میرے دادا (امی جان کے تایا)شیخ مشتاق احمد صاحب نے وفات سے قبل اولاد کو احمدیت اور نظام خلافت سے مضبوطی سے جڑے رہنے کی تحریری وصیت کی۔ اس کا اکثر تذکرہ کیا کرتی تھیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی آخری علالت کے وقت جب جماعت کو صدقات کی تحریک کی گئی تو آپ نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا۔اور خلیفہ وقت کے لیے بھر پور دعائوں کی توفیق پائی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کی خبر سن کر بہت خوش تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے غیب سے مدد کرکے جماعت کو بڑے ابتلا سے بچا لیا ہے۔خلافت جوبلی والی دعائیں باقاعدگی کے ساتھ آخری ایام تک ورد زبان رہیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کا خطبہ جمعہ بڑی توجہ سے سنتیں۔ مختلف مواقع پر حضور انور نے جو دعائیں پڑھنے کی تحریک فرمائی ان کو بڑی باقاعدگی اور کثرت کے ساتھ پڑھنا ان کا دستور رہا۔اپنی اولاد کو دعائیہ خطوط لکھنے کی طرف بار بار توجہ دلاتیں۔ مرکزی مہمانوں ، مربیان اورچندہ جات کی وصولی کے لیے آنے والے انسپکٹران کی بھر پور جذبے کے ساتھ خدمت کرنا ان کا خاصہ تھا ۔میری امی جان ہماری سرینام واپسی کے بعد جب بھی فون پہ بات کرتیں تو بہت دعائیں دیتیں ، اپنی اداسی کا ذکر کرتیں ، اور ساتھ ہی کہتیں میرا بیٹا دین کی خدمت کی وجہ سے مجھ سے دور ہے ۔ہمیشہ کہتیں حضور کو میرے لیے دعا کی درخواست کیا کریں۔

تنظیمی خدمات

قریباً1985ء میں ملتان کی جماعتی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے لجنہ اماء اللہ دنیا پور کو از سر نو فعّال کیا گیا،اور والدہ صاحبہ کو مال کا شعبہ ملا، اور آپ نے گھر گھر جا کر ممبرات سے چندہ کی وصولی کا کام شروع کیا۔ بعد ازاں آپ کو صدر لجنہ اور سیکر ٹری تربیت کے عہدوں پر بھی کام کرنے کی توفیق ملی۔لجنہ کے اجلاسات اور دیگر پروگرامز میں باقاعدگی سے شریک ہوتی رہیں ،اور ہمیشہ احسن رنگ میں دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتی رہیں۔

نظامِ وصیت میں شمولیت

خدا تعالیٰ کے فضل سے 3؍ مارچ 2004ء کو نظام وصیت میں شامل ہوئیں ،اور اُن کاوصیت نمبر 35850تھا۔ حق مہر، زیور اور وراثت میں ملنے والے ترکہ پر خود حصہ جائیدا د اداکیا، اور حصہ آمد بھی بڑی فکر کے ساتھ بروقت ادا کرتی رہیں۔ اور بوقت وفات ان کے ذمہ کوئی بقایا نہ تھا۔

روز مرہ زندگی

خدا تعالیٰ کے فضل سے والدہ صاحبہ نے انتہائی فعّال، بامقصد اور بھر پور زندگی گزاری۔ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہمیشہ قائم رہی۔1989ء میں بعض پیچیدگیوں کی وجہ سے بیمار ہوئیں ، اور تقریباً ایک ماہ بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں زیر علاج رہیں۔خدا تعالیٰ نے اس مشکل سے نجات دی اور پھر آپ اپنے معمولات کی طرف لو ٹ آئیں۔

جنوری 2011ء کے پہلے عشرے میں فشار خون انتہائی بلند ہونے کی وجہ سے شدید علیل ہو گئیں، لیکن بروقت طبی امداد ملنے کی وجہ سے بفضل خدا طبیعت بہتر ہو گئی ، اور دو دن ہسپتال گزارنے کے بعد گھر واپس آگئیں ۔مگر اس عارضے کی وجہ سے ان کا دایاں بازو سن ہو گیا ۔ اور یہ تکلیف آخر تک قائم رہی۔لیکن شب و روز کے معمولات میں تبدیلی نہ آئی ۔ امور خانہ داری نمٹانے کا سلسلہ مستقل بنیاد پر جاری و ساری رہا۔ستمبر 2013ء میں انہیں چیک اپ کے لیے ملتان لے جایا گیا۔ خاکسار اورعزیزم ولید احمد ہمراہ تھے۔ ڈاکٹر نے (MRI Scan)کروانے کی ہدایت کی۔سکین شروع کرنے سے پہلے مشین آپریٹر نے کہا بی بی آرام سے لیٹنا ،ہلنا جلنا نہیں۔ سکین کا سلسلہ تقریباً 45منٹ تک جاری رہا۔ اس دوران امی جان نے ایک دفعہ بھی معمولی سی حرکت بھی نہیں کی ۔اور مکمل سکون کے ساتھ لیٹی رہیں۔ ہم دونوں اُن کی قوت برداشت پر حیران تھے۔مشین سے باہر آتے ہی امی جان نے کہا کہ میں نے سارا وقت درود شریف پڑھتے ہوئے گزارا ہے۔مشین آپریٹر نے باہر آکر کہا کہ بی بی نے کمال کر دیا ہے۔ بہت کم مریض ایسے دیکھے ہیں جو اتنے سکون کے ساتھ اس ٹیسٹ کو مکمل کروائیں ۔ اس سکین کا رزلٹ ملاحظہ کے لیے لاہور بھجوایا گیا ، اور ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کے درمیان خلا پیدا ہو رہا ہے۔ اس تکلیف کو آپ نے کئی سال بڑے استقلال کے ساتھ برداشت کیا۔

آنے والے کل کی تیاری

خاکسار کی والدہ مجسّم دعا،عسر اور یُسر میں راضی با رضا رہنے والا وجود تھیں۔ کئی سال پہلے سے اپنا کفن خودتیار کر کے تمام حصوں پر الگ الگ نام لکھ کر رکھا ہوا تھا۔ہاتھوں پر چڑھانے کے لیے دستانہ نما تھیلیاں بھی سی کر ساتھ رکھی ہوئی تھیں۔ اور گھر والوں کو اکثر یہ بتایا کرتی تھیںکہ فلاں جگہ پرمیرا کفن پڑا ہوا ہے۔ آخری علالت سے چند دن قبل خود پیٹی کھول کر گھر والوں کو دکھایا کہ یہ پیکٹ ہے۔تجہیز وتکفین کے اخراجات کے لیے آپ نے اس پیکٹ میں چالیس ہزار روپے نقد بھی رکھے ہو ئے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے والد صاحب کو ازراہ شفقت دستار مبارک عطا فرمائی تھی۔اس کا ایک حصہ بھی ان کے کفن میں شامل تھا۔اس طرح انہوں نے اپنی زندگی میں مغفرت خدا وندی پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی اگلی منزل کی مکمل تیاری کی ہوئی تھی۔

آخری علالت

مورخہ26؍جنوری کو سحری کے وقت بیماری کا آغاز ہوا،اور نقاہت کی وجہ سے زمین پر گر گئیں، لیکن حواس قائم تھے۔ چھوٹابھائی عزیزم فخر احمد فجر کی نماز کے لیے تیاری کر رہا تھا جب امی جان نے اسے آواز دے کر بلایا۔بیٹے نے جاکر انہیں زمین سے اٹھایا۔ دن کے وقت ڈاکٹر کو چیک کروایا ،اس نے ادویات دیں۔ستائیس کا دن اور رات کافی بے چینی میں گزرا۔مگر نمازوں کی ادائیگی اور تلاوت قرآن مجید کا جذبہ قائم رہا۔28؍جنوری کو نشتر ہسپتال ملتان لے جاکر ایمر جنسی وارڈ میں چیک کروایا گیا، اور مختلف ٹیسٹ کروانے کے بعد ڈاکٹر نے برین ہیمریج کا بتایا اور داخل کر لیا۔
حواس پوری طرح بحال تھے۔تکلیف کی انتہا اور درد کی شدت میں بھی صبر و استقلال میں کوئی کمی نہ آئی اور شکر کے جذبات سے لبریز ‘‘الحمد للّٰہ علیٰ کُلِّ حال’’کا ورد جاری رہا۔ڈاکٹرز کی ٹیم ہو یا طلبائے نشتر کالج کا وفد جس کسی نے حال پوچھا یہی جواب دیا، الحمد للہ،اللہ کا شکر ہے۔آخری علالت میں زبان پر یہی ورد رہا :‘‘نماز کا وقت ہو گیا ہے مجھے وضو کروادو۔تلاوت کرنی ہے قرآن مجید اور عینک پکڑا دو۔’’مورخہ 31؍جنوری کو ڈاکٹروں کی ایک ٹیم معائنہ کے لیے آئی ، نشتر میڈیکل کالج کے چند طلباء بھی ان کے ہمراہ تھے۔فخر احمد امی جان کے پاس موجود تھا۔ انہوں نے امی جان کی یادداشت اور ذہنی کیفیت جانچنے کے لیے چند سوالات کیے۔ تاریخ پیدا ئش ، شادی کب ہوئی،اور اس سے ملتے جلتے سوالات ۔ فخر احمد نے کہا ٹھہریں ۔ پھر امی جان کوکہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ سے سورۃ یٰس سننا چاہتے ہیں۔ امی جان نے اسی طرح غنودگی کی حالت میں پوری سورۃ یٰس سنائی۔اس دوران تمام لوگ ادب سے ہاتھ باندھے کھڑے رہے پھر معائنہ کے لیے آنے والے ان افراد کا یہ حال تھا کہ !

عرض کرنے کو نہ تھا کچھ لبِ اظہار کے پاس

مورخہ 29؍اور 30؍جنوری کی درمیانی شب ہارٹ اٹیک بھی ہوا، جس کا پتہ اگلے دن مختلف ٹیسٹوں کے بعد چلا۔

دوران علالت چھوٹی بہوسے کہا یہ اردگرد کے لوگ مجھے بڑی عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں ،کہ یہ کون عورت ہے جس کی خدمت پر اتنے لوگ کمر بستہ ہیں۔پھر کہنے لگیں، اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔اللہ کا فضل ہے کہ میرے بچے میری دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب بخار ہو گیا۔ نقاہت اور بے چینی بڑھ گئی۔ جمعۃ المبارک یکم فروری کی صبح آٹھ بجے ڈیوٹی ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور امی جان سے حال پوچھا، حسب دستور جواب دیا :‘‘الحمد للہ’’یہ آخری الفاظ تھے جو آپ کے منہ سے سنے گئے۔ کچھ منٹ بعد سانس اکھڑنے لگا اور انتہائی سکون کی حالت میںصبح آٹھ بجکر چالیس منٹ پر داعی اجل کو لبیک کہا، اور خالق حقیقی کے حضو ر حاضر ہو گئیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔گیارہ بجے کے قریب ان کا جسد خاکی گھر پہنچا۔تمام عزیز و اقارب ان کی وفات کی خبر سن کر بلا تفریق کھنچے چلے آئے۔ میرے ایک پھو پھو زاد بھائی نے ان کی وفات پر کہا کہ میرے ماں باپ کو فوت ہوئے مدت ہوئی، لیکن اصل میں مَیں آج یتیم ہوا ہوں۔اسی طرح کے جذبات کا اظہار ان کے دیوروں کے بچوں نے کر کے ان کی عظمت کی گواہی دی۔

نماز جمعہ و عصر کے بعد ان کے سب سے چھوٹے بیٹے عزیزم ولید احمد مربی سلسلہ ضلع بہاولنگر نے گھر کے صحن میں نماز جنازہ پڑھائی، جس میں دور و نزدیک کی جماعتوں کے افراد کثیر تعداد میں شامل ہوئے۔

پھر میت کو تدفین کے لیے ربوہ لے جایا گیا ، اورمورخہ 2؍فروری 2019ء کو دن گیارہ بجے دفاتر صدر انجمن کے احاطہ میں محترم سید خالد شاہ صاحب نا ظر اعلیٰ و امیر مقامی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے، اور بہشتی مقبرہ میں آسودہ خاک ہوگئیں۔ قبر تیار ہونے کے بعد محترم سالک احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے دعا کروائی۔

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

گذشتہ پانچ سالوں میں جب بھی ان سے بات ہوئی،ہمیشہ اس بات کو دہرایا کہ دعا کرو اللہ مجھے کسی کا محتاج نہ کرے۔ والد صاحب سے اکثر کہا کرتی تھیں، اللہ مجھے آپ کے کندھوں پہ لے جائے۔مولا کریم نے اُن کی دونوں خواہشوں کو پورا کر دیا۔اور وہ اپنی زندگی اپنے قدموں پر گزار کر راہی مُلکِ عدم ہوئیں۔

مرحومہ نے پانچ بیٹے، لئیق احمدمشتاق، قمر احمدمشتاق،محمد فخر احمد، ثمر احمد ، محمد ولید احمد، دو بیٹیاں منورہ مبارکہ، عصمت سلطانہ ،پانچ پوتے، چھ پوتیاں ، چار نواسے اور چار نواسیاں یاد گار چھوڑیں ہیں۔

امامِ ہمام کی شفقت

خاکسارکا دل شکر اور حمد کے جذبات سے لبریز ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے مورخہ15؍فروری 2019ء کو خطبہ جمعہ کے آخر پر والدہ محترمہ کا ذکر خیر فرمایا ،اور ان کے او صاف بیان کر کے ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔حضور انور نے فرمایا:

‘‘نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھائوں گا جو مکرمہ صدیقہ بیگم صاحبہ دنیا پور پاکستان کا ہے۔یہ لئیق احمد مشتاق مبلغ انچارج سرینام جنوبی امریکہ کی والدہ تھیںاور شیخ مظفر احمد صاحب کی اہلیہ تھیں ۔ یکم فروری کو 74سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ انَّا للّٰہ وانَّا الیہ راجعون۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا محترم شیخ محمد سلطان صاحب کے ذریعہ آئی تھی جنہوں نے 1897ء میں 24سال کی عمر میں بیعت کی توفیق پائی تھی۔ مرحومہ کی شادی 29 اگست 64ءمیں ہوئی۔ ساری زندگی ایک مثالی بیوی کی حیثیت سے گزاری ۔ محدود آمدنی میں سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے نہ صرف اپنے بڑے کنبے کی پرورش کی بلکہ اپنے دیوروں اور نندوں کی شادیاں بھی کروائیں ۔ ہمیشہ اپنے آرام پر دوسروں کے آرام کو ترجیح دیتی تھیں ۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ دعا گو تھیں ۔ منکسر المزاج تھیں۔ ملنسار تھیں۔سادہ مزاج تھیں۔غریب پرور اور نیک اور مخلص خاتون تھیں ۔ باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتی تھیں اور کئی احمدی اور غیر احمدی بچیوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کی بھی تو فیق پائی۔ قرآن کریم سے بڑی محبت تھی ۔ اپنی ایک بیٹی اور دو بیٹوں کو بھی اپنے خرچ پر حافظ بلا کے قرآن کریم حفظ کروایا۔

دنیا پور میں صد ر لجنہ کے علاوہ سیکر ٹری مال اور اشاعت کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ خلافت سے انتہائی عقیدت کا تعلق تھا ۔ مرحومہ موصیہ تھیں ۔ انہوں نے میاں اور دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ ان کے دو بیٹے واقف زندگی ہیںجن میں سے ایک جیسا کہ میں نے ذکر کیا لئیق احمد مشتاق صاحب جنوبی امریکہ میں بطور مبلغ انچارج سرینام خدمت کی توفیق پا رہے ہیں ۔ والدہ کی وفات کے وقت یہ پاکستان بھی نہیں جا سکے تھے۔ ان کے دوسرے بیٹے محمد ولید احمد مربی سلسلہ ہیں وہ بھی پاکستان میں ہیں ۔ وہاں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں ۔ ایک داماد مظفر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ ہیں جو پا کستان میں ہی ربوہ میں اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے درجات بلند کرے ۔ ان کے بچوں کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔ ان کے حق میں ان کی دعائیں قبول فرمائے۔’’

(الفضل انٹر نیشنل 8؍مارچ 2019ء صفحہ 9)

امی جان پر خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کا اظہار اس طرح بھی ہوا کہ دنیا پوراور ربوہ میں حاضر جنازہ پڑھا گیا۔بہاولنگر شہر، 166اور 141مراد ضلع بہاولنگر کی جماعتوں نے بھی آپ کی نماز جنازہ غائب ادا کی۔

ہمارے خاندان کی پہلی خاتون ہیں جنہیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ خلیفۃ المسیح نے اُن کی نماز جنازہ پڑھا کر جماعت کی تاریخ میں ان کا ذکر خیر امر کر دیا۔اور اس سعادت کی برکت سے دنیا بھر کی کئی مساجد میں ان کا نماز جنازہ غائب ادا کیا گیا۔

وہ غفور الرحیم خالق جو اپنی مخلوق کو یہ مژدہ جانفزا سناتا ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہو اس مولا کریم کے در پر التجا ہے کہ ان سے مغفرت و بخشش کا سلوک فرمائے، کمزوریوں، عیبوں اور خامیوں سے پردہ پوشی فرمائے۔وہ رئووف رحیم نبی جو یہ امید افزاخبر سناکر گیا کہ میری امت کے ستر ہزار لوگ بے حساب بخشے جائیں گے،اللہ کرے اُس کی شفاعت کے حق داروں میں ایک میری ماں بھی ہو،اور اُسے آقا دوجہاں کے پیاروں کے قدموں میں جگہ ملے،وہ لاریب کتاب جس کی مرحومہ نے بوقت فجر اور دن کے اوقات میں کثرت سے تلاوت کی ،وہ اس کے حق میں گواہی دے۔ اللہ کرے کہ اولاد اور اہل و عیال کے حق میں اُن کی دعائیں قبول ہوتی رہیں، اور تمام پسماندگان کو اُن کی نیکیوں کو زندہ اور جاری رکھنے کی توفیق عطا ہوتی رہے۔آمین

اے خدا بَر تُربتِ اُو ابرِ رحمت ببار

داخلش کُن از کمال فضل در بیت النعیم

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button