کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

نعمائے بہشت کی حقیقت

اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

…یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو لکھا ہے کہ بہشت میں دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی تو اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہاں گایوں کا ایک گلہ ہو گا اور بہت سارے گوالے ہوں گے جو دودھ دوہ دوہ کر ایک نہر میں ڈالتے رہیں گے یا بہت سے چھتے شہد کی مکھیوں کے ہوں گے اور پھر ان کا شہد جمع کر کے نہروں میں گرایا جاوے گا۔ یہ مطلب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو مجھ پر ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ بات نہ ہو گی۔ اگر یہی خربوزہ اور تربوز یا انار ہوں گے تو پھر یہ بات ہی کیا ہوئی؟ کافر بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے یہاں اس دنیا میں کھا لیے۔ تم نے آگے جا کر کھائے۔ اس کی حقیقت جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھولی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ(البقرۃ:26)یعنی جو لوگ ایمان لاتے اور اچھے عمل بجا لاتے ہیں وہ ان باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو باغ کے ساتھ مشابہت دی جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اس آیت میں بہشت کی حقیقت اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے۔ گویا جو رشتہ نہروں کو باغ کے ساتھ ہے وہی تعلق اور رشتہ اعمال کا ایمان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جس طرح پر کوئی باغ یا درخت بغیر پانی کے سر سبز نہیں رہ سکتا اسی طرح پر کوئی ایمان بغیر اعمال صالحہ کے زندہ اور قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر ایمان ہو اور اعمال صالحہ نہ ہوں تو ایمان ہیچ ہے اور اگر اعمال ہوں اور ایمان نہ ہو تو وہ اعمال ریاکاری ہیں۔ پس قرآن شریف نے جو بہشت پیش کیا ہے اس کی حقیقت اور فلاسفی یہی ہے کہ وہ اس دنیا کے ایمان اور اعمال کا ایک ظلّ ہے اور ہر شخص کی بہشت اس کے اپنے اعمال اور ایمان سے شروع ہوتی ہے اور اس دنیا میں ہی اس کی لذّت محسوس ہونے لگتی ہے اور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باغ اور نہریں نظر آتی ہیں۔ لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھُلے طور پر محسوس ہوں گے اور ان کا ایک خارجی وجود نظر آجائے گا۔ قرآن شریف سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی آب پاشی اعمال صالحہ سے ہوتی ہے بغیر اس کے وہ خشک ہو جاتا ہے۔ پس یہاں دو باتیں بیان کی ہیں ایک یہ کہ وہ بہشت باغ ہے۔ دوسرا ان درختوں کی نہروں سے آب پاشی ہوتی ہے۔ قرآن شریف کو پڑھو اور اوّل سے آخر تک اس پر غور کرو تب اس کا مزہ آئے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ ہم مجاز اور استعارہ ہر گز پیش نہیں کرتے بلکہ یہ حقیقت الامر ہے وہ خدا تعالیٰ جس نے عدم سے انسان کو بنایاہے اور جو خلق جدید پر قادر ہے وہ یقیناً انسان کے ایمان کو اشجار سے متمثل کر دے گا اور اعمال کو انہار سے متمثل کرے گا اور واقعی طور پر دکھاوے گا یعنی اُن کا وجود فی الخارج بھی نظر آئے گا۔

اس کی مختصر سی مثال یوں بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے انسان خواب میں عمدہ اور شیریں پھل کھاتا ہے اور ٹھنڈے اور خوشگوار پانی پیتا ہے اور فی الواقعہ وہ پھل اور آب سرد ہوتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن میں کوئی دوسرا امر نہیں ہوتا۔ پھلوں کو کھا کر سیری ہوتی اور پانی پی کرفی الواقعہ پیاس دُور ہوتی ہے۔ لیکن جب اُٹھتا ہے تو نہ اُن پھلوں کا کوئی وجود ہوتا ہے اور نہ اس پانی کا۔ اسی طرح پر جیسے اس حالت میں اللہ تعالیٰ ان اشیاء کا ایک وجود پیدا کر دیتا ہے عالم آخرت میں بھی ایمان اور اعمال صالحہ کو اس صورت میں متمثل کر دیا جائے گا۔ اسی لیے فرمایا ہے ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا (البقرۃ:26)۔اس کے اگر یہ معنے کریں کہ وہ جنتی جب ان پھلوں اور میووں کو کھائیں گے تو یہ کہیں گے کہ یہ وہ پھل اور خربوزے یا تربوز یا انار ہیں جو ہم نے دنیا میں کھائے تھے تو یہ ٹھیک نہیں کیونکہ اس طرح پر تو وہ لذّت بخش چیز نہیں ہو سکتے اور نعماء جنت کی حقارت ہے۔ اگر کوئی شخص مثلاً کشمیر میں جاوے اور وہاں کی ناشپاتیاں کھا کر کہے کہ یہ تو وہی ناشپاتیاں ہیں جو پنجاب میں کھائی تھیں تو صریح ان ناشپاتیوں کی حقارت ہے۔ پس اگر بہشت کی نعماء کی بھی یہی مثال ہے تو یہ خوشی نہیں بلکہ اُن سے بیزاری ہے۔ اس لیے اس کا یہ مفہوم اور مطلب نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بہشتی لوگ جو اس دنیا میں بڑے عابد اور زاہد تھے جب وہ اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کے متمثلات سے لطف اُٹھائیں گے تو اُن کو وہ ایمانی لذت آ جائے گی اور ان مجاہدات اور اعمال صالحہ کا مزا آ جائے گا جو اس عالم میں انہوں نے کیے تھے اس لیے وہ کہیں گے ۔ ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۔

غرض جس قدر قرآن شریف کو کوئی تدبّر اور غور سے پڑھے گا اسی قدر وہ اس حقیقت کو سمجھ لے گا کہ ان لذّات کا تمثیلی رنگ میں فائدہ اُٹھائے گا۔ محبت الٰہی کی لذات ہیں۔ لذّت کا لفظ جو مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے وہ جسمانی لذّت کے مفہوم سے ہزاروں درجہ زیادہ روحانی لذت میں رکھتا ہے۔ اگر اس کی محبت کی لذت میں غیر معمولی سیری اور سیرابی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے محب جسمانی لذّات کو ترک کیوں کریں یہاں تک کہ بعض اس قسم کے بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نے سلطنت تک کو چھوڑ دیا۔ چنانچہ ابراہیم ادھم نے سلطنت چھوڑ دی۔ اور انبیاء علیہم السلام نے ہزاروں لاکھوں مصائب کو برداشت کیا۔ اگر وہ لذت اور ذوق اس محبت الٰہی کی تہ میں نہ تھا جو انہیں کشاں کشاں لیے جاتا تھا تو پھر کیا بات تھی کہ اس قدر مصائب کو انہوں نے خوشی کے ساتھ اُٹھا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ اس درجہ میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اس لیے آپؐ کی زندگی کا نمونہ بھی سب سے افضل و اعلیٰ ہے۔ کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں اور عزتیں پیش کیں۔ مال و دولت، سلطنت، عورتیں۔ اور کہا کہ آپ ہمارے بتوں کی مذمت نہ کریں اور یہ توحید کا مذہب پیش نہ کریں۔ اس خیال کو جانے دیں۔ وہ دنیادار تھے۔ ان کی نظر دنیا کی فانی اور بے حقیقت لذّتوں سے پَرے نہ جا سکتی تھیں۔ انہوں نے سمجھا کہ یہ تبلیغ انہیں اغراض کے لیے ہو گی مگر آپؐ نے ان کی ان ساری پیش کردہ باتوں کو ردّ کر دیا۔اور کہا کہ اگر میرے دائیں بائیں آفتاب اور ماہتاب بھی لا کر رکھ دو تب بھی میں اس کو نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر اس کے بالمقابل انہوں نے آپ کو وہ تکالیف پہنچائیں جن کا نمونہ کسی دوسرے شخص کی تکالیف میں نظر نہیں آتا۔ لیکن آپ نے ان تکالیف کو بڑی لذت اور سرور سے منظور کیا مگر اس راہ کو نہ چھوڑا۔ اب اگر کوئی لذت اور ذوق نہ تھا تو پھر کیا وجہ تھی جو ان مصائب اور مشکلات کو برداشت کیا؟ وہ وہی لذّت تھی جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں ملتی ہے اور جس کی مثال اور نمونہ کوئی پیش نہیں کیا جا سکتا۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 57تا60۔ ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button