حضرت مصلح موعود ؓ

تقدیر الٰہی (قسط 3)

اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

اس خیال کی تردید کہ ہر ایک فعل خدا ہی کراتا ہے

وہ جو یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ انسان کرتا ہے وہ خدا ہی کراتا ہے اس میں انسان کا کچھ دخل نہیں ہوتا وہ اپنی تائید میں سورۃ الصافات کی یہ آیت پیش کرتے ہیں:

وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ(الصّٰفّٰت:97)

کہ اللہ نے تم کو پیدا بھی کیا ہے اور تمہارے عمل کو بھی پیدا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں جب ہمیں بھی خدا نے پیدا کیا اور ہمارے عمل کو بھی خدا نے پیدا کیا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو کچھ کر رہا ہے خدا ہی کر رہاہے۔ پھر کون ہے جو کہے کہ میں کچھ کرتا ہوں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس آیت نے اس مسئلہ کو ان کے خیال کے مطابق صاف طور پر حل کر دیا ہے۔ لیکن درحقیقت انہوں نے وہی غلطی کھائی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے آیت کا ایک ٹکڑا لے لیا ہے اور دوسرے کو ساتھ نہیں ملایا۔ اسی آیت سے پہلے آیت یہ ہے۔

قَالَ اَتَعۡبُدُوۡنَ مَا تَنۡحِتُوۡنَ(الصّٰفّٰت:96)

عربی قاعدے کے لحاظ سے ما کبھی فعل پر آکر اس کے معنی مصدر کے کر دیتا ہے اور کبھی وہ موصولہ ہوتا ہے جس کا ترجمہ اردو میں ‘‘جو’’یا ‘‘وہ جو’’کرتے ہیں جو لوگ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنکے معنی یہ کرتے ہیں کہ اللہ نے تم کو بھی پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو بھی۔ وہ اس جگہ مصدر کے معنی لیتے ہیں۔ لیکن پہلی آیت سے ظاہر ہے کہ یہاں مصدر کے معنی نہیں کیونکہ پہلی آیت یہ ہے کہ قَالَ اَتَعۡبُدُوۡنَ مَا تَنۡحِتُوۡنَ کو ملا کر پڑھا جائے اور اس کے یہ معنی کیے جائیں کہ ‘‘حالانکہ اللہ نے تم کو بھی پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو بھی۔’’ تو اس آیت کے معنی ہی کچھ نہیں بنتے۔ اور دوسری آیت پہلی کو ردّکر دیتی ہے۔ کیونکہ پہلی آیت میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ تم کیوں اس چیز کو پوجتے ہو جسے خود خراد کر بناتے ہو۔ اور دوسری میں یہ بتایا گیا ہے کہ تم کو بھی اور تمہارے اعمال کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے۔ اور یہ عبارت نہ صرف بے جوڑ ہے بلکہ الٹ ہے کیونکہ جب خدا نے ہی ان کے عمل پیدا کیے ہیں تو ان سے کیوں پوچھا جاتا ہے کہ تم بتوں کو کیوں پوجتے ہو؟

پس یہ معنی اس آیت کے ہو ہی نہیں سکتے۔ بلکہ ان دونوں آیتوں کے یہ معنی ہیں کہ کیا تم لوگ اس چیز کی پوجا کرتے ہو جس کو خود اپنے ہاتھ سے خرادتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تم کو بھی پیدا کیا ہے اور اس چیز کو بھی پیدا کیا ہے جسے تم بناتے ہو یعنی بتوں کو۔ اور ‘‘ما’’ اپنے مابعد فعل کے ساتھ جس طرح پہلی آیت میں مفعول کے معنوں میں ہے اسی طرح دوسری آیت میں بھی اور ماعملکم کے معنی معمولکم کے ہیں۔ یعنی جو چیز تم بناتے ہو۔

غرض اس آیت کے معنی ہی غلط کیے جاتے ہیں اور خود اس آیت سے پہلی آیت اس کے معنوں کو حل کر دیتی ہے۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں انسان کے اعمال کی پیدائش کا کہیں ذکر نہیں۔

دوسری آیت کا صحیح مطلب: اس آیت کے سوا یہ لوگ کچھ اور آیات بھی پیش کرتے ہیں جن میں سے ایک دو موٹی موٹی آیتوں کا ذکر میں اس وقت کر دیتا ہوں۔ ایک یہ آیت پیش کی جاتی ہے۔

قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰٮنَا ۚ وَعَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۔ (التوبہ:51)

کہ ہمیں نہیں پہنچے گا کچھ بھی مگر وہی جو اللہ نے لکھ چھوڑا ہے اللہ تعالیٰ ہی ہمارا مولیٰ ہے اور اسی پر توکل کرتے ہیں مومن۔

وہ کہتے ہیں کہ جب خدا کہتا ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو پہلے اس کے لیے لکھ چھوڑا گیا ہے۔ اب کھانا دانہ، کپڑا لتا، روپیہ پیسہ جس قدر خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ اتنا اتنا فلاں کو ملے اس سے زیادہ یا کم نہیں ہوسکتا۔ یا یہ کہ فلاں فلاں کو فلاں طریق سے قتل کرے۔ فلاں فلاں جگہ فلاں کے ہاتھ سے پھانسی پائے۔ تو پھر انسان کا کیا اختیار؟ حالانکہ بات بالکل اَور ہے۔ اس جگہ کفّار کے ساتھ جنگ کا ذکر خدا تعالیٰ فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ جب مسلمانوں کو جنگ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو منافق لوگ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا بندوبست پہلے سے کر رکھا تھا اس لیے ہم اس تکلیف سے بچ گئے۔ مسلمان بیوقوف ہیں کہ اپنے سے طاقتور اور زبردست لوگوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ نادان تم ہو اور اندھے تم ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ مسلمان ہار جائیں گے اور کفار ان پر غلبہ پا لیں گے۔ لیکن یہ نہیں ہوگا۔ کیوں؟ اس لیے کہ خدا نے اپنی سنّت مقررہ کے ماتحت کہ اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے مقدر کر چھوڑا ہے کہ مسلمان جیت جائیں گے۔

پس یہاں ہر ایک عمل خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت سرزَد ہونے کا ذکر نہیں بلکہ صرف اس امر کے مقدر ہونے کا ذکر ہے کہ مومن کفار پر غلبہ پائیں گے اور جیت جائیں گے۔ نہ یہ کہ ڈاکہ مارنا، چوری کرنا، ٹھگی کرنا، جھوٹ بولنا خدا نے لکھ دیا ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ۔ (المجادلۃ:22)

میں نے مقدّر کر دیا ہے کہ مَیں اور میرے رسول اپنے دشمنوں پر غالب رہیں۔

پس اس آیت میں کَتَبَ سے مراد انسانی اعمال نہیں بلکہ رسول اور مومنوں کی فتح مراد ہے۔

تیسری آیت کا صحیح مطلب:پھر ایک آیت یہ پیش کرتے ہیں۔

وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّایَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ۔ (الاعراف:180)

فرمایا: ہم نے پیدا کر چھوڑے جہنم کے لیے جنوں اور انسانوں میں سے بہت لوگ اور ان کی شناخت کی علامت یہ ہے کہ ان کے دل ہیں مگر سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ اور غافل۔

اس آیت کو لے کر کہتے ہیں کہ دیکھو خدا کہتا ہے کہ میں نے جہنم کے لیے بہت سے جن و انس پیدا کیے ہیں۔ پس جب خدا نے بہت سے لوگوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ تو پھر کون ہے جو ان لوگوں کو جنہیں جہنم کے لیے پیدا کیا گیا ہے برے کام کرنے سے روک سکے۔ ضرور ہے کہ وہ ایسے اعمال کریں جو انہیں دوزخ میں لے جائیں۔ لیکن اس آیت کے بھی جو معنی کیے جاتے ہیں وہ غلط ہیں۔ عربی زبان میں لام کا حرف کبھی سبب بتانے کے لیے آتا ہے اور کبھی نتیجہ بتانے کے لیے۔ جسے اصطلاح میں ‘‘لام العاقبۃ’’ کہتے ہیں۔ اس جگہ لجھنم کا جو لام ہے وہ اسی غرض سے ہے اور اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم نے جن و انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ ان کو جہنم میں داخل کریں کیونکہ یہ معنی دوسری آیات کے خلاف ہیں جیسا کہ فرمایا ہے۔

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ۔ (الذاریات:57)

میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اور عبد کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ۔ (الفجر:31)

جو عبد ہوتا ہے اس کا مقام جنت ہے۔

پس ان آیات کی موجودگی میں وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کے یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے کہ بہت سے لوگوں کو جہنم کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ انسان کو تو صرف خدا کا عبد بننے اور جنت کا مستحق ہونے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اور جب یہ معنی درست نہیں تو پھر اور معنی کرنے پڑیں گے اور وہ یہی ہیں کہ یہاں لام ‘‘لام العاقبۃ’’ہے اور اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا مگر بجائے جنتی بننے کے دوزخ کے مستحق ہوگئے۔ چنانچہ لام ان معنوں میں عربی زبان میں بکثرت مستعمل ہے اور خود قرآن کریم میں بھی دوسری جگہ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ عربوں کے کلام میں اس کی ایک مثال یہ شعر ہے

اَمْوَالُنَا لِذَوی المِیْرَاثِ نَجْمَعُھَا

وَدورُنا لِخرابِ الدَّھرِ نَبْنِیْھَا

یعنی ہم مال اس لیے جمع کرتے ہیں تا وارث اس کو لے جاویں۔ اور گھر اس لیے بناتے ہیں کہ زمانہ ان کو خراب کر دے۔

اب ظاہر ہے کہ مالوں کو جمع کرنے اور گھروں کے بنانے کی یہ غرض نہیں ہوتی۔ ہاں نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ پس شاعر کی یہی مراد ہے کہ لوگ مال جمع کرتے ہیں اور رشتہ دار اس کو لے جاتے ہیں اور گھر بناتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زمانہ ان گھروں کو خراب کر دیتا ہے۔

قرآن کریم میں ایک نہایت واضح مثال سورہ قصص میں آتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے۔

فَالۡتَقَطَہٗۤ اٰلُ فِرۡعَوۡنَ لِیَکُوۡنَ لَہُمۡ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا۔ (القصص:9)

یعنی حضرت موسیٰ ؑکو جب ان کی والدہ نے دریا میں رکھ دیا تو ان کو فرعون کے لوگوں نے اس لیے اٹھا لیا کہ وہ بڑا ہو کر ان کا دشمن بنے اور ان کے لیے باعث غم ہو۔

لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ آل فرعون کی موسیٰؑ کے اٹھانے میں یہ نیت نہیں ہوسکتی تھی۔ بلکہ جیسا کہ اگلی آیت ہی میں ہے ان کی یہ نیت نہیں تھی بلکہ اس کے خلاف تھی۔ چنانچہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرعون کی بیوی نے فرعون سے کہا کہ

عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ۔ (القصص:10)

یعنی قریب ہے کہ یہ بچہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں۔ لیکن وہ جانتے نہ تھے کہ وہ بڑا ہوکر ان کی تباہی کا موجب ہوگا۔

پس آیت کے یہی معنی ہیں کہ فرعون کے لوگوں نے اس کو اٹھا لیا لیکن آخر وہ بچہ ان کا دشمن ہوا اور ان کے لیے باعث غم ہوا اور یہی معنی اس جگہ وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ میں لام کے ہیں۔

پس اس آیت سے بھی یہ استدلال کرنا کہ خدا تعالیٰ جبراً بعض لوگوں کو دوزخی بناتا ہے اور بعض کو جنتی درست نہیں ہے۔

چوتھی آیت کا صحیح مطلب: اسی طرح یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ

وَ قَالَ مُوۡسٰی رَبَّنَاۤ اِنَّکَ اٰتَیۡتَ فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَاَہٗ زِیۡنَۃً وَّ اَمۡوَالًا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۙ رَبَّنَا لِیُضِلُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِکَ ۚ
(یونس:89)

موسیٰؑ نے کہا کہ اے خدا!تُو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس لیے دولت دی تھی تاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں۔

لیکن اس آیت کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ان کو لوگوں کے گمراہ کرنے کے لیے دولت دی گئی تھی بلکہ جیسا کہ پہلی آیت کے متعلق میں بتا آیا ہوں یہاں بھی لام عاقبۃ کا ہے اور مطلب یہ ہے کہ

اے خدا! تو نے اس غرض سے ان کو دولت نہ دی تھی کہ لوگوں کو گمراہ کریں لیکن یہ ایسا ہی کرتے ہیں۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ
    الفضل انٹرنیشنل ماشاءاللہ بہت ترقی کر چکا ہے۔اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنے بے شمارفضلوں سے اس اخبار کو ترقیات فرماتاچلا جائے۔آپ کے مضامین کا انتخاب بہت عمدہ ہے۔ ویب سائٹ بھی ماشاء اللہ بہت اچھی بنی ہے۔ میں توکوشش کرکے سارےمضامین پڑھتا ہوں اور جو مضمون اچھا لگتا ہے اس کا پرنٹ لے کر دوبارہ پڑھتا ہوں۔ آپ کا نیٹ ورک بھی بہت زبردست ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ کی رپورٹ ساتھ کے ساتھ شائع ہوتی رہی ہیں۔
    سر آج میں تقدیر الہٰہی قسط نمبر3 پڑھ رہا تھا اس میں مجھے آیات پڑھنے وقت دقت ہوئی۔ فونٹ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اگر یہ ہو کہ اگر فونٹ نورِ ہدیٰ یا پھر فونٹ خطِ منظور جو کہ ہمارے قاعدہ یسرنا القرآن کا فونٹ ہے لگ جایا کرے تو عربی پڑھنے میں آسانی ہو جائے گی۔امید ہے کہ میری تجویز پر غور کیا جائےگا۔ جزاکم اللہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button