حضرت مصلح موعود ؓ

تقدیر الٰہی (قسط 2)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

پس مسئلہ تقدیر کے متعلق ہمیں نہایت احتیاط سے کام لینا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ شریعت نے جب اس مسئلہ میں جھگڑنے سے منع کیا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اور جب اس پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ تا ایسا نہ ہو کہ بے احتیاطی کے نتیجہ میں ہلاکت اور تباہی کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ مسئلہ درحقیقت ایک دنیوی پل صراط ہے کہ اگر اس پر قدم نہ رکھے تو جنت سے محروم رہ جاتا ہے اور اگر رکھے تو ڈر ہے کہ کٹ کر دوزخ کے تہ خانے میں نہ جا پڑے۔مگر یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح پل صراط پر قدم رکھے بغیر تو کوئی انسان جنت میں جا ہی نہیں سکتا اور اس پر چلنے میں دونوں امکان ہیں گر جائے یا بچ جاوے۔ اسی طرح مسئلہ تقدیر کا حال ہے اس کو نہ سمجھے تو ایمان بالکل جاتا رہتا ہے اور اس پر بحث کرے تو دونوں باتیں ہیں خواہ صحیح سمجھ کر قرب الیٰ اللہ حاصل کرے خواہ غلط سمجھ کر تباہ وبرباد ہو جاوے۔

اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی بات تھی تو رسول کریم ﷺ نے یہ کیوں فرمایا کہ اس مسئلہ پر بحث نہ کرو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپؐ کا مطلب یہ نہ تھا کہ مطلق بحث نہ کرو۔ بلکہ یہ کہ عقلی ڈھکو سلوں سے کام نہ لو اس مسئلہ کو ہمیشہ شریعت کی روشنی میں دیکھو اور اگر آپؐ کا یہ مطلب نہ ہوتا تو ہم خود رسول کریم ﷺ کو اس مسئلہ کے متعلق مختلف اوقات میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے نہ پاتے۔ آپؐ کا خود اس مسئلہ کی تشریح کرنا اور اس پر جو اعتراض وارد ہوتے ہیں ان کا جواب دینا پھر قرآن کریم کا اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کرنا بتاتا ہے کہ جس بات سے منع کیا گیا ہے وہ اس مسئلہ کی تحقیق نہیں بلکہ اس مسئلہ کو شریعت کی مدد کے بغیر حل کرنا ہے۔ اور یہ بات واقع میں ایسی خطرناک ہے کہ اس کا نتیجہ دہریت، بے دینی اور اباحت کے سوا اَور کچھ نہیں نکل سکتا۔ قدر کا مسئلہ خدا تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا ہے۔ پس اگر کوئی اس مسئلہ کو حل کرسکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ خدا اور اس کے رسولؐ کے سوا کسی کی طاقت اور مجال نہیں کہ اس مسئلہ کی حقیقت بیان کرسکے۔ عقل اس میدان میں ایسی ہی بے بس ہے جیسے ایک چھ ماہ یا سال کا بچہ ایک خطرناک جنگل میں۔ اس کو اس جنگل سے اگر کوئی چیز نکال سکتی ہے تو وہ شریعت کی رہبری ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ مسئلہ عقل میں آہی نہیں سکتا بلکہ میرا یہ منشاء ہے کہ عقل بلا شریعت کی رہبری کے اس مسئلہ کو نہیں سمجھ سکتی۔ اللہ تعالیٰ کے بتانے پر اس کی ہدایت سے عقل اس مسئلہ کو خوب سمجھ سکتی ہے اور اگر عقل انسانی اس کو تب بھی سمجھ نہ سکتی تو اس پر ایمان لانے کا حکم بھی نہ ملتا۔

جن لوگوں نے اس مسئلہ کو عقل کے ذریعہ حل کرنا چاہا ہے وہ بڑی بڑی خطرناک گمراہیوں کا شکار ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کا باعث ہوئے ہیں۔

مسئلہ تقدیر کے نہ سمجھنے کا نتیجہ

چنانچہ ہندوؤں میں تناسخ کا مسئلہ تقدیر ہی کے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور عیسائیوں میں کفارہ کا مسئلہ اسی کے نہ جاننے کی وجہ سے بنایا گیا۔ اول تو رحم کا انکار کیا گیا اس کے نتیجہ میں کفارہ کا مسئلہ پیدا ہوا اور کفارہ کے نتیجہ میں ابنیت اور شریعت کو لعنت قرار دینے کے مسائل پیدا ہوئے اور پھر لازمی طور پر اباحت کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اسی طرح قدر ہی کے مسئلہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یورپ کے موجودہ سائنس دانوں میں دہریت آئی۔ پھر اسی کے نہ سمجھنے سے یہودیوں میں نجات خاص کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔

پس یہ مسئلہ بہت اہم ہے اور اس کو نہ سمجھ کر ہندوؤں میں تناسخ، عیسائیوں میں کفارہ اور یہودیوں میں نجات خاص، سائنس دانوں میں دہریت اور مسلمانوں میں ایک طرف اباحت اور دوسری طرف ذلت و نکبت آئی ہے۔ اگر یہ لوگ اس مسئلہ کو سمجھتے تو کبھی ٹھوکر نہ کھاتے۔ چنانچہ قرآن کریم مختلف اقوام کی گمراہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہےوَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ۔ (الانعام:92)انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کے مسئلہ کو اچھی طرح نہیں سمجھا اسی سے ٹھوکر کھاکر انہوں نے نئے نئے عقیدے پیدا کر لیے۔

تو تمام مذاہب کی حقیقت اور اصلیت سے پھر جانے کی یہی وجہ ہے کہ ان کے پیروؤں نے صفاتِ الٰہیہ کے ظہور کے مسئلہ کو یعنی تقدیر کو صحیح طور پر نہ سمجھا۔

پس یہ نہایت نازک مسئلہ ہے اور اس میں بہت غور و تحقیق اور بہت بڑی احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ انسان ایک طرف ایمان پر قائم ہو جائے اور دوسری طرف خدا کے غضب سے بھی بچا رہے ورنہ بغیر اس کی تحقیق اور اس کے جاننے کے اس کا ماننا ہی کیا ہوا؟ کیا کہیں خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر ہمالیہ پہاڑ کو مان لو کہ پہاڑ ہے یا راوی دریا کو مان لو کہ دریا ہے یا لاہور شہر کو مان لو کہ شہر ہے تو نجات پا جاؤ گے؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ ان چیزوں کا ماننا نجات کا باعث نہیں ہوسکتا کیونکہ نجات کا باعث وہی چیزیں ہوسکتی ہیں اور روحانیت کی ترقی انہی چیزوں سے ہوسکتی ہے جو روحانیت سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا ماننا یہی ہے کہ ان کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھا جائے اور اگر ان کی حقیقت کو نہ سمجھا جائے تو پھر ماننا کیسا؟

مسلمانوں نے مسئلہ تقدیر میں بیہودہ طور پر دخل دیا

پس اس مسئلہ کو ماننے کے لیے اس کے متعلق نہایت غور و فکر کی ضرورت ہے مگر ادھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس مسئلہ میں جن قوموں نے تنازع کیا ہے وہ ہلاک کی گئی ہیں اور میری امت میں سے بھی ایک قوم ہوگی جو اسی وجہ سے مسخ کی جائے گی۔(ترمذی۔ ابواب القدر باب ماجاء فی الرضاء بالقضاء)مگر باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ نے اس میں تنازع نہ کرنے کے متعلق تاکید فرمائی ہے اور باوجود اس کے کہ اسے ایمان کا جزو قرار دیا ہے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے نہایت بیہودہ طور پر اس میں دخل دیا ہے اور بجائے اس کے کہ اپنے عقیدے کی خدا تعالیٰ کے بیان یعنی قرآن کریم پر بِنا رکھتے انہوں نے اپنی عقل پر بِنا رکھی اور پھر قرآن کریم سے اس کی تائید چاہی۔ اور قرآن وہ ہے جو کہتا ہےکُلًّا نُّمِدُّ ھٰٓؤُلَٓاءِ وَ ھٰٓؤُلَٓاءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ (بنی اسرائیل:21)پھر وہ ہر مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو بیان کرتا ہے۔ اب اگر کوئی کسی مسئلہ کے ایک پہلو کو لے لے اور باقیوں کو چھوڑ دے تو وہ کہے گا تو یہی کہ میں نے قرآن سے لیا ہے لیکن دراصل اس نے قرآن سے نہیں لیا بلکہ قرآن کو آڑ بنا لیا ہے۔ اگر وہ قرآن سے لیتا تو اس کے سب پہلوؤں کو لیتا نہ کہ ایک پہلو کو لے لیتا اور باقیوں کو چھوڑ دیتا۔

ایک دفعہ میں ایک جگہ گیا۔ اس وقت میں چھوٹا بچہ تھا اور مدرسہ میں پڑھتا تھا۔ وہاں میں نے بورڈنگ میں دیکھا کہ ایک لڑکا ریوڑیاں کھا رہا تھا اور ایسی طرز پر کھا رہا تھا کہ اس کی حالت قابل ہنسی تھی۔ یعنی ریوڑیوں کو اس نے چھپایا ہوا تھا جیسے ڈرتا ہے کہ اور کوئی نہ دیکھ لے۔ مجھے ہنسی آگئی اور میں نے پوچھا یہ کیا کرتے ہو؟ کہنے لگا سنا ہے حضرت مسیح موعودؑکو ریوڑیاں پسند ہیں اس سنت کو پورا کرتا ہوں۔ میں نے کہا آپؑ تو کونین بھی کھاتے ہیں وہ بھی کھاؤ۔

ایک پہلو لے لینا اور دوسرا چھوڑ دینا

تو جہاں انسان اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہے وہاں ہمیشہ ایسی باتوں کو لے لیتا ہے جو اس کے حق میں مفید ہوں اور دوسری باتوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ مگر جو لوگ حق کے طالب ہوتے ہیں وہ سب پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہیں اور یہ پروا نہیں کرتے کہ اس طرح ہمارے خیال یا میلان کے خلاف کوئی اثر پڑے گا۔ اب اسی اختلاف کو دیکھ لو جو ہماری جماعت میں ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں شرعی نبی نہیں۔ ہاں ایسا نبی ہوں کہ رسول کریمﷺ کا خادم ہونے کی وجہ سے نبوت کا درجہ ملا اور امتی نبی ہوں۔ اب ایک دو آدمی اٹھے جو کہتے ہیں کہ اگر نبی کے لیے شریعت لانا ضروری ہے تو حضرت مسیح موعودؑ بھی کہتے ہیں کہ میں احکام شریعت لایا ہوں پس آپؑ شرعی نبی ہوئے۔ انہوں نے دوسرا پہلو چھوڑ دیا پھر کچھ اَور لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ حضرت صاحبؑ نے لکھا ہے کہ میں نبی نہیں ہوں پس آپؑ کسی قسم کے نبی نہیں۔ انہوں نے بھی دوسرا پہلو چھوڑ دیا۔ لیکن ہم دونوں پہلوؤں کو لیتے ہیں کہ حضرت صاحبؑ شریعت والے نبی نہیں ہیں لیکن امتی نبی ہیں۔ اگر اختلاف کرنے والے لوگ دونوں پہلوؤں کو لیتے تو ٹھوکر نہ کھاتے۔ ہم نے دونوں پہلوؤں کو لیا ہے کہ آپؑ نبی بھی ہیں اور امتی بھی۔ تو یہ عام قاعدہ ہے کہ جن لوگوں میں تقویٰ اور دیانت نہیں ہوتی اور نہ صاف طور پر انکار کرنے کی جرأت ہوتی ہے وہ یہ طریق اختیار کیا کرتے ہیں کہ ایک حصہ کو لے لیتے ہیں اور دوسرے کو چھوڑ دیتے ہیں اور ایک حصہ کو لے کر کہتے ہیں کہ ہم تو اس کو مانتے ہیں۔ حالانکہ وہ درحقیقت نہیں مانتے جیسا کہ بعض مسلمان کہلانے والے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم قرآن کے حکم لَا تَقْرَبُو الصَّلوٰۃَ (النساء:44) پر عمل کرتے ہیں۔ جب کہا جائے کہ اس کے اگلے حصہ کو کیوں چھوڑتے ہو تو کہتے ہیں سارے قرآن پر کون عمل کرسکتا ہے۔

تقدیر کے متعلق مسلمانوں کے غلط عقائد کی بنیاد

تو یہ ایک فتنہ کا طریق ہوتا ہے اور اس سے رسول کریمﷺ نے منع فرمایا ہے۔ لیکن افسوس مسلمانوں نے ممانعت کا کوئی خیال نہ کیا اور اس پر عمل کر کے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ ان میں سے بعض نے اپنے عقائد کی بنیاد یونانی فلسفہ پر رکھی۔ بعض نے ہندوستان کے فلسفیوں کے عقائد پر رکھی یعنی وحدت وجود پر، بعض نے دہریت پر۔ ہندوستان میں وحدت الوجود کا مسئلہ بہت پھیلا ہوا تھا۔ اس میں اور تقدیر میں کوئی فرق نہ سمجھا گیا اور اسی کو تقدیر قرار دے دیا گیا اور اس پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھ کر یہ سمجھ لیا گیا کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ خدا ہی کراتا ہے بندہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ گویا بندہ بندہ ہی نہیں بلکہ خدا ہے۔ ان کے مقابلہ میں دوسروں نے یہ کہا کہ جو کچھ انسان کرتا ہے اس میں خدا کا کوئی دخل نہیں ہے۔ سب کچھ بندہ کے اپنے ہی اختیار میں ہے۔ اس عقیدہ کی بنیاد فلسفہ یونان پر تھی۔ تو ان دونوں فلسفوں پر مسلمانوں نے تقدیر کے متعلق اپنے عقائد کی بنیاد رکھی اور پھر ان حقیقت اور اصلیت سے دور فلسفوں کو قرآن کریم کے ذریعہ مضبوط کرنا چاہا چنانچہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمارا چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، چوری کرنا، زنا کرنا، ڈاکہ مارنا، ٹھگی کرنا سب خدا کا ہی فعل ہے ہمارا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی قرآن سے ثابت ہے۔ اور جنہوں نے کہا کہ خدا پارلیمنٹری حکومت کے بادشاہ جتنا بھی ہمارے افعال میں اختیار نہیں رکھتا۔ ایسا بادشاہ تو پھر بھی احکام پر دستخط کرتا ہے لیکن خدا اتنا بھی نہیں کرتا بلکہ ایک ایسا وجود ہے جس کا دنیا کے کاروبار میں کوئی دخل نہیں ہے۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ قرآن سے ثابت ہے حالانکہ دونوں کی باتیں غلط ہیں۔

قرآن ان باتوں کو ردّ کرتا ہے

یہ کہنا کہ جو کچھ انسان کرتا ہے وہ انسان نہیں کرتا بلکہ خدا ہی کرتا ہے۔ اور یہ کہنا کہ جو کچھ کرتے ہیں ہم ہی کرتے ہیں خدا کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ دونوں ایسی تعلیمیں ہیں کہ جن کو عقل ایک منٹ کے لیے بھی تسلیم نہیں کرسکتی، اور کسی قرآن کریم کے پڑھنے والے کا یہ خیال کر لینا کہ ان میں سے کوئی ایک تعلیم قرآن کریم میں پائی جاتی ہے ایک بیہودہ اور لغو بات ہے۔ میں نے قرآن کریم کو الحمد سے لے کر والناس تک اس بات کو مدنظر رکھ کر پڑھا ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق وہ کیا کہتا ہے؟ لیکن میں یقینی طور پر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں اور اگر کوئی اَور پڑھے گا تو وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ الحمد کے الف سے لے کر والناس کے س تک ایک ایک لفظ ان دونوں باتوں کو رد کررہا ہے اور قرآن کریم ان کو جائز ہی کس طرح رکھ سکتا ہے کیونکہ یہ دونوں غلط ہونے کے علاوہ اخلاق کو قتل اور روحانیت کو تباہ کرنے والی ہیں۔ اسلام نے اس مسئلہ کے متعلق وہ تعلیم بیان کی ہے کہ اگر کوئی اسے سمجھ لے تو باخدا اور بڑے باخدا لوگوں میں سے بن سکتا ہے اور اس طرز پر بیان کی ہے کہ کوئی عقل اور کوئی علم اور کوئی فلسفہ اس پر اعتراض نہیں کرسکتا اور بہت مفید تعلیم ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ تقدیر یہ ہے کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ خدا ہی کراتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کو قتل کر دیں تو خدا ہی کرتا ہے ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اور دوسرے یہ جو کہتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں دخل دینے کی خدا کو کیا ضرورت ہے۔ مثلاً تھوکنا، پیشاب کرنا وغیرہ ان میں خدا کا کیا دخل ہے۔ اگر ان میں خدا کا دخل مانا جائے تو یہ ایک ہتک ہے۔ ان دونوں گروہوں نے قرآن کریم کی جن آیات پر اپنے خیالات کی بنیاد رکھی ہے ان میں سے بعض کے متعلق اس وقت میں بیان کرتا ہوں تاکہ پتہ لگ جائے کہ ان کی بنیاد کیسی بودی ہے۔

……………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button