دلبرا! مجھ کو قسم ہے تری یکتائی کی آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے
اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
…قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللّٰهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ۔يَهْدِي بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِاِذْنِهٖ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (المائدہ:16تا17)
…یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آچکا ہے اور ایک روشن کتاب بھی۔ اللہ اس کے ذریعہ انہیں جو اس کی رضا کی پیروی کریں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے اور اپنے اِذن سے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لاتا ہے اور انہیں صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے نور سے ممسوح ‘نور مجسم محمد رسول اللہﷺ ’اس دنیا میں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دینے کے لیے بھیجے گئے اس فیض کے چشمہ سے سیرابی آپؐ سے عشق اور آپؐ کی اطاعت اورآپؐ کے رنگ میں رنگین ہوجانے کی نسبت سے ہے ۔ یہ سعادت سب سے بڑھ کر آپؐ کے عاشقِ صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مہدیٔ معہود اور مسیحِ موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے حصے میں آئی ۔ حتٰی کہ آسمان سے سند پائی فرماتے ہیں:
‘‘ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا ۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ فرشتے آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان پر لیے آتے ہیں اور ایک نے ان سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تونے محمد کی طرف بھیجی تھیں ﷺ’’
(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ576)
آسمان پر ایک محیی کی تلاش میں فرشتے بھی آپؑ کے سامنے آکر ٹھہر گئے اور درودو سلام کا نور دیکھ کر پہچان گئے‘‘ھذا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہ۔ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرطِ اعظم اس عہدہ کی محبتِ رسول ہے ۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے’’
(براہین احمدیہ حصہ چہارم ۔روحانی خزائن جلد 1صفحہ 598)
دگر استاد را نامے نہ دانم
کہ خواندم در دبستانِ محمد
(روحانی سفر میں کسی استاد کا نام معلوم نہیں میں نے تو محمد ﷺ کے دبستان سے تعلیم پائی ہے۔)
آپؑ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ رسولِ پاک ﷺ کے اسوۂ حسنہ کا عکس تھا ۔ وہی ادائیں وہی طور طریق وہی عمل اور ردعمل اس اصل کے ہو بہو ظل کی سیرت سے چند نمونے پیش خدمت ہیں :
دعا سے بارش
سن 10ہجری میں حجاز کے شمال میں آباد قبیلہ بنو خزاعہ کے ایک ذیلی قبیلہ بنو سلامان کا وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا دیگر گزارشات کے ساتھ انہوں نے اپنے علاقے میں بارش کی کمی کے لیے دعا کی درخواست کی۔ آپؐ نے وہاں کے لیے بارش کی دعا کی
اللّٰھُمَّ اَسْقِھِم الغَیْثُ فِی دَارِھِمْ
اے اللہ! ان کے ہاں بارش برسادے۔
یہ دعا سن کر ان میں سے ایک شخص نے عرض کیا:
‘‘یا رسول اللہﷺ!ہاتھ اُٹھا کر بھی دعا کریں۔’’
اس کی درخواست پر آپؐ نے تبسم فرمایا اور ہاتھ اٹھا کر بھی دعا کی۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہاں اسی روز بارش ہوئی تھی۔
( ابن سعد ذکر وفادات العرب)
حضرت مفتی محمد صادقؓ بیان فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک دفعہ نماز استسقاء ہوئی تھی جس میں حضرت صاحبؑ بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمد احسن مرحوم امام ہوئے تھے لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے ۔ مگر چونکہ حضرت صاحب میں کمال ضبط تھا اس لیے آپؑ کو میں نے روتے نہیں دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آکر بارش ہوگئی تھی بلکہ شاید اسی دن بارش ہوگئی تھی۔
(سیرۃ المہدی جلد 2صفحہ 105)
حضرت مرزا نذیر حسین صاحبؓ بیان کرتے ہیں:
ایک دفعہ جبکہ گرمی کا موسم تھا اور گرمی بہت تھی ۔بارش نہ ہوتی تھی لوگوں نے صلوٰۃ استسقاء کے لیے حضور ؑسے کہا۔ حضورؑ نے مان لیا…حضورؑ نے صلوٰۃ استسقاء باہرمیدان میں پڑھائی۔ غالباََ کافی دیر لگی۔بالآخر حضرت اماں جانؓ کے پاس حضورؑ کا رقعہ آیا کہ بچوں کو لے کر فوراََ شہر چلے جائیں امید ہے سخت بارش ہوگی چنانچہ ابھی ہم شہر پہنچے ہی تھے کہ سخت بارش شروع ہوگئی اور ہمارے کپڑے بھی بھیگ گئے۔
(ماہنامہ انصار اللہ اپریل 1974ءصفحہ 38)
قرآن پاک سننے کا شوق
قرآن پاک میں ارشادِ الٰہی ہے
وَاِذَا قُرِئَ القُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْالَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ(الاعراف:205)
یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
ہر رخ سے خدا کے رحم کو جذب کرنے کے لیے آپؐ قرآن پاک کثرت سے پڑھتے تھے اور سن کر بھی لطف حاصل کرتے تھے۔کلامِ الٰہی سن کر رسولِ کریم ﷺ پر رقت طاری ہوجاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک روز مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مجھے کچھ قرآن پڑھ کر سناؤ۔میں نے عرض کی کیا میں آپؐ کو قرآن پڑھ کر سناؤں؟حالانکہ آپؐ پر قرآن کریم نازل کیا گیا ہے۔
آنحضور ؐ نے میرا جواب سن کر فرمایا :
میں یہ پسند کرتا ہوں اپنے علاوہ کسی اَور سے بھی قرآن کریم سنوں تو حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ میں آیت
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا (سورۃ النساء :42)
(پس کیا حال ہوگا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے ۔ اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے۔) پر پہنچا تو آنحضور ؐنے فرمایا ٹھہر جاؤ ۔ حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔
(بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقریء للقاریء حسبک )
آپؐ کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے ایک شخص کو تلاوت کرتے سنا جو سورۃ مزمل کی اس آیت کی تلاوت کررہا تھا۔ اِنَّ لَدَیْنَا اَنْکَالًاوَّ جَحِیْمًا(یعنی ہمارے پاس بیڑیاں اور جہنم ہے )تو نبی کریم ﷺ بے ہوش ہوکر گر پڑے۔
(کنز العمال جلد 7 صفحہ 206)
قرآن پاک پڑھنے سے حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا عشق اَن گنت روایات سے ظاہر ہے یہ پاک کلام سن کر لطف لینے کی روایات دیکھیے:
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحبؓ سے روایت ہے:
ایک روز مغرب کے بعد حضور ؑشَہ نشین پر مسجد مبارک میں احباب کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپؑ کو دَوران سر کا دورہ شروع ہوااور آپؑ شہ نشین سے نیچے اتر کر فرش پر لیٹ گئے اوربعض لوگ آپؑ کو دبانے لگ گئے مگر حضورؑ نے ان سب کو ہٹا دیا۔ جب اکثر لوگ رخصت ہو گئے تو آپؑ نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓسیالکوٹی سے فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں۔ مولوی صاحب دیر تک نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف سناتے رہے یہاں تک کہ آپؑ کو افاقہ ہوگیا۔
( سیرۃ المہدی جلد اوّل روایت نمبر 462صفحہ 439)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:
میں نے حضرت مسیح موعود کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپؑ خدام کے ساتھ سیر کے لیے جارہے تھے اور ان دنوں میں حاجی حبیب الرحمٰن صاحب حاجی پورہ والوں کے داماد قادیان آئے ہوئے تھے۔ کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں حضرت صاحب وہیں راستے کے ایک طرف بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں۔چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنایا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپؑ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا تھا مگر میں نے آپؑ کو روتے نہیں پایا تھا حالانکہ آپؑ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت صدمہ تھا۔
(سیرۃ المہدی جلد اوّل روایت نمبر436صفحہ393)
تبلیغ اسلام کے لیے سفر اور تکالیف اٹھانا
تبلیغ اسلام کے لیے سفر اختیار کرنا نبیوں کی سنت ہے۔ آنحضرت ﷺ کوشعب ابی طالب کی محصوری سے آزادی ملی تو اہل طائف کو دعوت اسلام کی ٹھانی۔ طائف مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلے پر ہے۔ شوال 10نبوی کو آپؐ حضرت زید بن حارثہ ؓکے ہمراہ طائف تشریف لے گئے وہاں دس دن قیام فرمایا اور وہاں کے سرداروں اور عام لوگوں کو اسلام کا پیغام دیا ۔ اہل طائف نے نہ صرف اس پیغام پر کان نہ دھرا بلکہ مذاق اڑایا ۔ حتیٰ کہ وہاں کے رئیس عبدیا لیل نے کہا
‘‘اگر آپ سچے ہیں تو مجھے آپؐ سے گفتگو کی مجال نہیں اور اگر آپ جھوٹے ہیں تو گفتگو لا حاصل ہے’’
آپؐ واپس جانے لگے تو اس بد بخت نے آوارہ قسم کے آدمی پیچھے لگا دیے جنہوں نے آپؐ کو برا بھلا کہا گالیاں دیں اور پتھر برسائے تین میل تک آپؐ کا پیچھا کیا ۔ آپؐ لہو لہان ہوگئے۔ تین میل کا سفر اسی طرح کرنے کے بعد آپؐ نے عتبہ بن ربیعہ کے باغ میں پناہ لی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی ‘‘اے میرے ربّ! مَیں اپنے ضعفِ قوت اور قلت تدبیر اور لوگوں کے مقابلہ میں اپنی بے بسی کی شکایت تیرے ہی پاس کرتا ہوں۔ اے میرے خدا! تُو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اور کمزوروں اور بے کسوں کا تو ہی نگہبان و محافظ ہے اور تُو ہی میرا پروردگار ہے…مَیں تیرے ہی منہ کی روشنی میں پناہ کا خواستگار ہوتا ہوں کیونکہ تُو ہی ہے جو ظلمتوں کو دُور کرتا ہے اور انسان کو دنیا و آخرت کے حسنات کا وارث بناتا ہے۔’’
عتبہ اور شیبہ نے آپؐ کو اس حال میں دیکھا تو اپنے نوکرعداس کو کچھ انگور آپؐ کو پیش کرنے کے لیے بھیجا۔ آپؐ نے عداس کو اسلام کا پیغام دیاجس پر اُس نے اخلاص ظاہر کیا۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 204تا205)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تبلیغ اسلام کی غرض سے کئی شہروں کےدَورے فرمائے جن میں سے دہلی اور لدھیانہ میں آپؑ سے وہی سلوک ہوا جو ہمارے سید و مولا آنحضرت ﷺ سےسفر طائف میں ہوا تھا۔
دہلی کا سفر اور مولوی نذیر حسین سے مباحثہ
دہلی اس زمانہ میں تمام ہندوستان کا علمی مرکز سمجھا جاتا تھا۔ آپ 28؍ستمبر 1891ء کی صبح کو وہاں پہنچے۔ وہاںکے لوگوں میں پہلے سے ہی آپ کے خلاف جوش پھیلایا جاتا تھا آپؑ کے وہاں پہنچتے ہی وہاں کے علماء میں ایک جوش پیداہوا اور انہوں نے آپؑ کو مباحثہ کے چیلنج دینے شروع کیے اور مولوی نذیر حسین جو تمام ہندوستان کے علماءحدیث کےاُستاد تھے، اُن سے مباحثہ قرار پایا۔ مسجد جامع مقامِ مباحثہ قرار پائی لیکن مباحثہ کی یہ سب قرار داد مخالفین نے خود ہی کر لی۔ کوئی اطلاع آپؑ کو نہ دی گئی۔ عین وقت پر حکیم عبدالمجید خان صاحب دہلوی اپنی گاڑی لے کر آگئے اور کہا کہ مسجد میں مباحثہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ ایسے فساد کے موقعہ پر ہم نہیں جا سکتے جب تک پہلے سرکاری انتظام نہ ہو، پھرمباحثہ کے لیے ہم سے مشورہ ہونا چاہیے تھا اور شرائطِ مباحثہ طَےکرنی تھیں۔ آپؑ کے نہ جانے پر اور شور ہوا۔ آخر آپؑ نے اعلان کیا کہ مولوی نذیر حسین دہلوی جامع مسجد میں قَسم کھا لیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام قرآن کی رُو سے زندہ ہیں اور اب تک فوت نہیں ہوئے اور اس قَسم کے بعد ایک سال تک کسی آسمانی عذاب میں مبتلا نہ ہوں تو مَیں جھوٹاہوں اور مَیں اپنی کتب کو جلا دوں گا اور اس کے لیے تاریخ بھی مقرر کر دی۔ مولوی نذیر حسین صاحب کے شاگرد اِس سے سخت گھبرائے اور بہت روکیں ڈالنی شروع کر دیں لیکن لوگ مصر ہوئے کہ اس میں کیا حرج ہے کہ مرزا صاحب کادعویٰ سن کر قَسم کھا جائیں کہ یہ جھوٹا ہے اور لوگ اُس وقت کثرت سے جامع مسجد میں اکٹھے ہوگئے۔ حضرت صاحبؑ کو لوگوں نے بہت روکا کہ آپؑ نہ جائیں سخت بلوہ ہو جائے گا لیکن آپؑ وہاں گئے اور ساتھ آپؑ کے بارہ دوست تھے۔
(حضرت مسیحؑ کے بھی بارہ ہی حواری تھے۔ اِس موقعہ پر آپ کے ساتھ یہ تعداد بھی ایک نشان تھی)جامع مسجد دہلی کی وسیع عمارت اندر اور باہر آدمیوں سے پُر تھی بلکہ سیڑھیوں پر بھی لوگ کھڑے تھے۔ ہزاروں آدمیوں کےمجمع میں سے گزر کر جب کہ سب لوگ دیوانہ وار خون آلود نگاہوں سے آپؑ کی طرف دیکھ رہے تھے آپؑ اس مختصرجماعت کے ساتھ محرابِ مسجد میں جا کر بیٹھ گئے۔
مجمع کے انتظام کے لیے سپرنٹنڈنٹ پولیس مع دیگر افسران پولیس اور قریباً سَو کانسٹیبلوں کے آئے ہوئے تھے۔ لوگوں میںسے بہتوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے اور ادنیٰ سے اشارے پر پتھراؤ کرنے کو تیار تھے اور مسیح ثانی بھی پہلےمسیح کی طرح فقیہیوں اور فریسیوں کا شکار ہو رہا تھا۔ لوگ اِس دوسرے مسیح کو سُولی پر لٹکانے کی بجائے پتھروں سےمارنے پر تُلے ہوئے تھے اور گفتگوئے مباحثہ میں تو انہیں ناکامی ہوئی۔ مسیح کی وفات پر بحث کرنا لوگوں نے قبول نہ کیا۔قَسم بھی نہ کسی نے کھائی نہ مولوی نذیر حسین کو کھانے دی۔ خواجہ محمد یوسف صاحب پلیڈر علی گڑھ نے حضرت سےآپؑ کے عقائد لکھائے اور سنانے چاہے لیکن چونکہ مولویوں نے لوگوں کو یہ سنا رکھا تھا کہ یہ شخص نہ قرآن کو مانے نہ حدیث کو نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ انہیں یہ فریب کُھل جانے کا اندیشہ ہوا، اِس لیے لوگوں کو اُکسادیا۔ پھرکیا تھا ایک شور برپا ہوگیا اور محمد یوسف کو وہ کاغذ سنانے سے لوگوں نے باز رکھا۔
افسر پولیس نے جب دیکھا کہ حالت خطرناک ہے تو پولیس کو مجمع منتشر کرنے کا حکم دیا اور اعلان کیا کہ کوئی مباحثہ نہ ہوگا۔ لوگ تتربتر ہوگئے۔ پولیس آپؑ کو حلقہ میں لے کر مسجد سے باہر گئی۔ دروازہ پر گاڑیوں کے انتظار میں کچھ دیرٹھہرنا پڑا۔ لوگ وہاں جمع ہوگئے اور اشتعال میں آکر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اِس پر افسران پولیس نے گاڑی میں سوار کراکر آپؑ کو روانہ کیا اور خود مجمع کے منتشر کرنے میں لگ گئے۔
(ماخوز ازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ از حضرت مرزابشیرالدین محمود احمدخلیفۃالمسیح الثانیؓ صفحہ27)
اس کے بعداکتوبر 1905ء کو آپؑ دہلی تشریف لے گئے اور وہاں قریباً پندرہ دن رہے۔ اُس وقت دہلی گوپندرہ سال پہلے کی دہلی نہ تھی جس نے دیوانہ وار شور مچایا تھا لیکن پھر بھی آپؑ کے جانے پر خوب شور ہوتا رہا۔ اس پندرہ دن کے عرصہ میں آپؑ نے دہلی میں کوئی پبلک لیکچر نہ دیا لیکن گھر پر قریباً روزانہ لیکچر ہوتے رہے جن میں جگہ کی تنگی کے سبب دو اڑھائی سَوسے زیادہ آدمی ایک وقت میں شامل نہیں ہو سکتے تھے۔ ایک دو دن لوگوں نے شور بھی کیا اور ایک دن حملہ کر کے گھرپر چڑھ جانے کا بھی ارادہ کیا لیکن پھر بھی پہلے سفر کی نسبت بہت فرق تھا۔
اِس سفر سے واپسی پر لدھیانہ کی جماعت نے دو دن کے لیے آپؑ کو لدھیانہ میں ٹھہرایا اور آپؑ کا ایک پبلک لیکچر نہایت خیروخوبی سے ہوا۔ وہاں امرتسر کی جماعت کا ایک وفدپہنچا کہ آپؑ ایک دو روز امرتسر بھی ضرور قیام فرمائیں جسےحضرتؑ نے منظور فرمایا اور لدھیانہ سے واپسی پر امرتسر میں اُتر گئے۔ وہاں بھی آپؑ کے ایک عام لیکچر کی تجویز ہوئی۔
امرتسرسلسلہ احمدیہ کے مخالفین سے پُر ہے اور مولویوں کا وہاں بہت زورہے۔ اُن کے اُکسانے سے عوام الناس بہت شورکرتے رہے۔ جس دن آپؑ کالیکچر تھا اُس روز مخالفین نے فیصلہ کر لیا کہ جس طرح ہو لیکچر نہ ہونے دیں۔ چنانچہ آپؑ لیکچر ہال میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ دروازہ پر مولوی بڑے بڑے جبے پہنے ہوئے لمبے لمبے ہاتھ مار کر آپؑ کے خلاف وعظ کر رہے تھے اور بہت سے لوگوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے۔ آپؑ لیکچر گاہ میں اندر تشریف لے گئے اور لیکچر شروع کیا۔ لیکن مولوی صاحبان کو اعتراض کا کوئی موقعہ نہ ملا جس پر لوگوں کو بھڑکائیں۔ پندرہ منٹ آپؑ کی تقریر ہو چکی تھی کہ ایک شخص نے آپؑ کے آگے چائے کی پیالی پیش کی کیونکہ آپؑ کے حلق میں تکلیف تھی اور ایسے وقت میں اگر تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کوئی سیال چیز استعمال کی جائے تو آرام رہتا ہے۔ آپؑ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رہنے دولیکن اُس نے آپؑ کی تکلیف کے خیال سے پیش کر ہی دی۔ اس پر آپؑ نے بھی اُس میں سے ایک گھونٹ پی لیا۔ لیکن وہ مہینہ روزوں کا تھا۔ مولویوں نے شور مچادیا کہ یہ شخص مسلمان نہیں کیونکہ رمضان شریف میں روزہ نہیں رکھتا۔ آپؑ نے جواب میں فرمایا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیمار یا مسافر روزہ نہ رکھے بلکہ جب شفا ہو یا سفر سے واپس آئے تب روزہ رکھے اور مَیں تو بیمار بھی ہوں اور مسافر بھی۔ لیکن جوش میں بھرے ہوئے لوگ کب رُکتے ہیں۔ شور بڑھتا گیا اور باوجود پولیس کی کوشش کے فرونہ ہو سکا۔ آخر مصلحتاً آپؑ بیٹھ گئے اور ایک شخص کو نظم پڑھنے کے لیےکھڑا کر دیا گیا۔ اُس کے نظم پڑھنے پر لوگ خاموش ہوگئے۔ تب پھر آپؑ کھڑے ہوئے تو پھر مولویوں نے شور مچادیا اور جب آپؑ نے لیکچر جاری رکھا تو فساد پر آمادہ ہوگئے اور سٹیج پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے۔
پولیس نے روکنے کی کوشش کی لیکن ہزاروں آدمیوں کی رَو اُن سے روکے نہ رُکتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سمندر کی ایک لہر ہے جو آگے ہی بڑھتی چلی آتی ہے۔ جب پولیس سے اُن کا سنبھالنامشکل ہوگیا تب آپؑ نے لیکچر چھوڑ دیا لیکن پھربھی لوگوں کا جوش ٹھنڈا نہ ہوا اور انہوں نے سٹیج پر چڑھ کر حملہ آور ہونے کی کوشش جاری رکھی۔ اس پر پولیس انسپکٹر نے آپؑ سے عرض کی کہ آپؑ اندر کے کمرہ میں تشریف لے چلیں اور فوراً سپاہی دوڑائے کہ بند گاڑی لے آئیں۔
پولیس لوگوں کو اِس کمرہ میں آنے سے روکتی رہی اور دوسرے دروازہ کے سامنے گاڑی لاکر کھڑی کر دی گئی، آپؑ اُس میں سوارہونے کے لیے تشریف لے چلے۔ آپؑ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ آپؑ گاڑی میں سوار ہو کر چلے ہیں۔ اِس پر جو لوگ لیکچر ہال سے باہر کھڑے تھے وہ حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے اور ایک شخص نے بڑے زور سے ایک بہت موٹا اور مضبوط سونٹا آپؑ کو مارا۔ ایک مخلص مرید پاس کھڑا تھا وہ جھٹ آپؑ کو بچانے کے لیے آپؑ کے اور حملہ کرنے والے کے درمیان میں آگیا۔ چونکہ گاڑی کا دروازہ کُھلا تھا سونٹااُس پر رُک گیا اور اُس شخص کے بہت کم چوٹ آئی ورنہ ممکن تھا کہ اُس شخص کا خون ہو جاتا۔ آپؑ کے گاڑی میں بیٹھنے پر گاڑی چلی لیکن لوگوں نے پتھروں کا مینہ برساناشروع کر دیا۔ گاڑی کی کھڑکیاں بند تھیں۔ اُن پر پتھر گرتے تھے تو وہ کُھل جاتی تھی۔ ہم انہیں پکڑ کرسنبھالتے تھے لیکن پتھروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے ہاتھوں سے چُھوٹ چُھوٹ کر وہ گِر جاتی تھیں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی کے چوٹ نہیں آئی صرف ایک پتھر کھڑکی میں سے گذرتا ہوا میرے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر لگا۔ چونکہ پولیس گاڑی کے چاروں طرف کھڑی تھی بہت سے پتھر اُسے لگے جس پر پولیس نے لوگوں کو وہاں سے ہٹایا اور گاڑی کے آگے پیچھے بلکہ اُس کی چھت پر بھی پولیس مَین بیٹھ گئے اور دوڑاکر گاڑی کو گھر تک پہنچایا۔ لوگوں میں اِس قدر جوش تھا کہ باوجود پولیس کی موجودگی کے وہ دُورتک گاڑی کے پیچھے بھاگے۔ دوسرے دن آپؑ قادیان واپس تشریف لے آئے۔
(ماخوز ازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ از حضرت مرزابشیرالدین محمود احمدخلیفۃالمسیح الثانیؓ صفحہ55تا57)
حرفِ آخر کے طور پر حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی ایک نصیحت درج ہے فرماتے ہیں:
‘‘تمام آدم زادوں کے لیے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ﷺ ۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ’’
(کشتی نوح ۔روحانی خزائن جلد 19صفحہ 13تا14)
جان و دلم فدائے جمالِ محمد ﷺ است
خاکم نثارِ کوچہِ آلِ محمدﷺ است
(میری جان اور میرا دل سب میرے محبوب محمدﷺ کے جمال پر قربان۔ میری خاک بھی آپؐ کی آل کے کوچہ پر قربان)
٭…٭ …٭