حضرت مصلح موعود ؓ

تقدیر الٰہی (قسط نمبر 1)

اس خطاب کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(سیّدنا حضرت میرزا بشیر الدّین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جلسہ سالانہ 1919ء کے موقعے پر مسئلہ قضاء و قدر کے عنوان پر ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا۔ یہ خطاب بعد میں ‘تقدیرِ الٰہی’ کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس خطاب کو قارئینِ الفضل کے استفادے کے لیے قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

تقدیرِ الٰہی

(خطاب جلسہ سالانہ 29،28دسمبر 1919ء)

تشہّد و تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضورؓ نے سورۃ الطلّاق آیت 3 اور 4 اور سورۃ النحل آیت 36 اور 37 کی تلاوت کی اور فرمایا:

مسئلہ قضاء و قدر کی اہمیت

مَیں نے کل بیان کیا تھا کہ مَیں ایک اہم مسئلہ کے متعلق آپ لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ مسئلہ ایمانیات کے متعلق ہے۔ پہلے جلسوں میں مَیں نے اپنی تقریروں میں اعمال کے متعلق زیادہ تر بیان کیا ہے مگر اس دفعہ ارادہ ہے کہ ایمانی امور کے متعلق کچھ بیان کروں۔ اس ارادہ کے ماتحت اس دفعہ میں نے اس مسئلہ کو چنا ہے جو میرے نزدیک اہم امورِ ایمانیہ میں سے ہے اور نہایت مشکل مسئلہ ہے حتیٰ کہ لوگوں کے اعمال پر اس کا خطرناک اثر پڑا ہے۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ وہ قضاء و قدر کا مسئلہ ہے جس کو عام طور پر تقدیر یا قسمت یا مقدّر کہتے ہیں۔ اور اس کے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں۔ مسئلہ تقدیر ایمانیات میں سے ہے اور بہت مشکل مسئلہ ہے۔ بہت لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ اس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ہیں اور کئی قومیں اسی کو نہ جاننے کی وجہ سے تباہ ہو گئی ہیں۔ کئی مذاہب اسی کے نہ معلوم ہونے کی وجہ سے برباد ہو گئے ہیں۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ اسی مسئلہ کے نہ سمجھنے کی وجہ سے مذاہب میں ایسی تعلیمیں جو انسان کے اخلاق اور اعمال کو تباہ و برباد کرنے والی ہیں آ گئی ہیں۔ اور یورپ کے لوگ مسلمانوں پر عموماً اس مسئلہ کی وجہ سے ہنسا کرتے ہیں۔ لیکن وہ بلا وجہ نہیں ہنستے بلکہ ان کا ہنسنا جائز ہوتا ہے کیونکہ مسلمان ان کو خود اپنے اوپر ہنسی کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ مثلاً اگر کبھی مسلمانوں کی لڑائی کا ذکر آ جائے تو یوروپین مصنف لکھیں گے کہ فلاں موقع پر بڑے زور شور سے گولیاں چلتی رہیں لیکن مسلمان پیچھے نہ ہٹے بلکہ آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔ آگے یہ نہیں لکھیں گے کہ یہ ان کی بہادری اور شجاعت کا ثبوت تھا بلکہ لکھیں گے کہ اس لیے کہ انہیں اپنی قسمت پر یقین تھا کہ اگر مرنا ہے تو مر جائیں گے اگر نہیں مرنا تو نہیں مریں گے۔ اگر مسلمان اس وجہ سے دشمن کے مقابلہ میں قائم رہا کرتے تو بھی کوئی حرج نہ تھا لیکن اگر گولیاں زیادہ دیر چلیں تو پھر وہ کھڑے نہیں رہیں گے بلکہ بھاگ جائیں گے۔

مسئلہ تقدیر کے متعلق رسول کریمﷺ کا ارشاد

غرض تقدیر پر ایمان لانا ایک اہم مسئلہ ہے اور رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک خدا کی قدر پر ایمان نہ لائے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ ‘‘لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰی یُؤْمِنُ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ’’ (ترمذی ابواب القدر باب ما جاء فی الایمان بالقدر خیرہ وشرہ) یعنی کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا جب تک قدر پر ایمان نہ لاوے اچھی قدر پر بھی اور بری قدر پر بھی۔

پھر فرماتے ہیں ‘‘مَنْ لَمْ یُؤْمِنُ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ فَاَنَا بَرِیءٌ مِنْہُ’’ (کنزل العمال جلد 1 الفصل السادس فی الایمان بالقدر روایت نمبر 485)

جو شخص اچھی اور بری قدر پر ایمان نہیں لاتا میں اس سے بیزار ہوں۔ گویا اس مسئلہ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ پس قدر کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہےاور جب کوئی ایمان حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلے اور چاہے کہ ایمان لانے والوں میں جگہ پائے تو اس کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اس پر ایمان لائے اور یقین رکھے۔ لیکن اگر کوئی دعویٰ تو کرتا ہے کہ وہ مسلمان ہے لیکن قدر کو نہیں مانتا تو رسولِ کریمﷺ کی تعلیم کے ماتحت وہ مسلمان نہیں کہلا سکتا کیونکہ مسلم آپؐ ہی کے خدام اور متبعین کا نام ہے اور اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں آپؐ ہی سے فیصلہ چاہا جائے گا۔ پس وہ شخص مسلم نہیں جو قدر پر ایمان نہیں لاتا کیونکہ آپؐ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اس وقت تک مسلم نہیں ہو سکتا جب تک قدر پر ایمان نہیں لاتا۔

مسئلہ تقدیر ایمانیات میں داخل ہے

ممکن ہے بعض لوگوں کے دل میں خیال ہو اور ہو سکتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے جس طرح بعض اَور باتوں کو ضروری دیکھ کر محض زور دینے کے لیے ایمان میں شامل کیا ہے اسی طرح قدر کا مسئلہ ہو۔ مثلاً آپؐ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی غیر قوم کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے (مثلاً سید نہیں ہے اور اپنے آپ کو سید کہتا ہے) مومن نہیں ہے (ابو داؤد۔ ابواب النوم باب فی الرجل ینتمی الی غیر موالیہ) یا آپؐ نے فرمایا ہے کہ مسلمان کا قتل کرنا کفر ہے۔(مسند احمد بن حنبل جلد1 صفحہ 176) اسی طرح اَور کئی باتوں کے متعلق آپؐ نے فرمایا ہے کہ جو ایسا نہیں کرتا یا ایسا کرتا ہے وہ مومن نہیں ہے۔ مثلاً جس طرح آپؐ نے یہ فرمایا ہے کہ جو پٹھان ہے اور اپنے آپ کو سید کہتا ہے یا مغل ہے اور سید بنتا ہے یا کسی بڑے آدمی کی نسل نہیں ہے مگر اس کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے وہ مومن نہیں ہے۔ اسی طرح مسئلہ قضاء و قدر کے متعلق فرما دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ضرور مان لیا جائے۔ پس اس کو نہ ماننا گناہ ہے اور بڑا گناہ ہے مگر ایمان اور اسلام سے خارج کر دینے والا نہیں ہے۔


اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ جتنے ایمانی مسئلے ہیں اور جن پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا قرآن کریم میں موجود ہیں اور ان کا انحصار حدیثوں پر نہیں ہے کیونکہ حدیثوں کا علم ظنی ہے، یقینی نہیں ہے۔

پس اس بات کو معلوم کرنے کے لیے کہ کون سا مسئلہ حقیقتاً ایمانیات میں شامل ہے ہمیں قرآنِ کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ جس مسئلہ کے متعلق قرآن کریم میں معلوم ہو جائے کہ اس کا نہ ماننا کفر ہے وہ ایمانیات میں شامل ہے اور جس کے متعلق قرآن کریم کی شہادت نہ ملے اس کے متعلق یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کےمتعلق جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ صرف تاکید اور زور دینے کے لیے ہیں۔ اب اسی قاعدہ کے ماتحت جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ اس میں ایمان بالقدر کے متعلق کیا بیان ہوا ہے توگو ہمیں ایمان بالقدر کے الفاظ تو اس میں نظر نہیں آتے مگر یہ پتہ ضرور چلتا ہے کہ اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا سب سے پہلا حکم بتایا گیا ہے۔ اور مسئلہ قدر خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا ایک حصہ ہے۔ قدر کیا ہے؟ قدر خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کا نام ہے۔ مثلاً جو شخص یہ مانتا ہے کہ خدا ہے اس کے لیے یہ بھی ماننا ضروری ہے کہ خدا کچھ کرتا بھی ہے نہ کہ ایک بے حس و حرکت ہستی ہے۔ تو جو صفات خدا تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں انہی کے ماننے کا نام قدر کا ماننا ہے۔ اس لیے ایمان باللہ میں ہی قدر پر ایمان لانا بھی آ گیا۔

پس رسولِ کریمﷺ کا ایمان بالقدر پر زور دینا کبیرہ گناہوں پر زور دینے کے مشابہ نہیں ہے بلکہ اس کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے وہ حقیقی طور پر بھی ہے۔

خدا تعالیٰ کے ماننے کے لیے تقدیر کا ماننا ضروری ہے

قرآنِ کریم میں گو اس مسئلہ کو علیحدہ علیحدہ طور پر نہیں بیان کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ پر ہی ایمان لانے میں اس کو شامل کیا گیا ہے۔ مگر رسول کریمﷺ نے اس کو علیحدہ کرکے بیان کر دیا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کو اسی وقت حقیقی طور پر مانا جاتا ہے جبکہ اس کی صفات کو بھی مانا جائے۔ ورنہ یوں خدا کا مان لینا کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ یوں تو بہت سے دہریے بھی مانتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے کہ ہم خدا کو نہیں مانتے۔ ہم خدا کو تو مانتے ہیں ہاں یہ نہیں مانتے کہ وہ فرشتے نازل کرتا ہے، نبی بھیجتا ہے، اس کی طرف سے پیغام آتے اور کتابیں دی جاتی ہیں۔ لیکن ہم یہ مانتے ہیں کہ اس کائنات کو چلانے والی ایک بڑی طاقت ہے جسے ہم قوت محرّکہ کہتے ہیں۔

تو دہریے بھی بظاہر خدا کے ماننے کا انکار نہیں کرتے۔ مگر وہ کیسا خدا مانتے ہیں؟ ایسا کہ جس سے ان کو کوئی کام نہ پڑے۔ ان کا خدا کا ماننا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی نے کسی کو کہا تھا۔ جو ہمارا مال سو تمہارا مال اور اس کا یہ قطعاً خیال نہ تھا کہ میرا مال یہ لے بھی لے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتےہیں کہ ہم مانتے ہیں ایک ہستی ہے، ایک طاقت ہے، ایک روح ہے مگر ایسا خدا جو ہمیں حکم دے کہ اس طرح کرو اور اس طرح نہ کرو اس کے ہم قائل نہیں ہیں۔ اس قسم کے دہریوں کے عقیدے موجود ہیں۔ اگر اسی طرح کا خدا کے متعلق کسی کا ایمان ہو تو یہ تو دہریوں کا بھی ہوتا ہے اور یہ کافی نہیں ہوتا۔ پس خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ایک ذات ہے بلکہ یہ بھی ہیں کہ اس کی صفات کو بھی مانا جائے۔ پھر یہی نہیں کہ خدا کی صفات مان لے بلکہ یہ بھی ہے کہ ان کا ظہور مانے اور یہی قدر ہے۔ گویا خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اول ذات اللہ پر ایمان لائے۔ دوسرے صفات اللہ پر ایمان لائے۔ تیسرے صفات کے ظہور پر ایمان لائے۔ اس تیسری شق کا رسولِ کریمﷺ نے قدر نام رکھ کر علیحدہ بیان کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی جن صفات کے ظہور کا تعلق بندوں سے ہے اس کا نام قدر ہے۔

قضاء و قدر کے متعلق فکر اور تنازع

ادھر ایمان بالقدر ایسی ضروری چیز ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی مومن ہی نہیں ہو سکتا جب تک قدر پر ایمان نہ لائے۔ اور یہ محض زور دینے کے لیے نہیں فرمایا بلکہ قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ صفاتِ الٰہیہ پر ایمان لانا جزوِ ایمان ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ایک نہایت سخت بات بھی لگی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ رسولِ کریمﷺ فرماتے ہیں کہ ایمان بالقدر ایسی مشکل چیز ہے کہ اس کے متعلق فکر اور تنازع کرنا انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔ چنانچہ ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ

خَرجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ نَحْنُ نَتَنَازَعُ فِی الْقَدْرِ۔ فَغَضَبَ حَتّٰی اِحْمَرَّ وَجْھَہٗ حَتّٰی کَاَنَّمَا فُقِئَ فِیْ وَجْنَتَیْہِ الرُّمَّانُ فَقَالَ اَبِھٰذَا اُمِرْتُمْ اَمْ بِھٰذَا اُرْسِلْتُ اِلَیْکُمْ۔ اِنَّمَا ھَلَکَ مَن کَانَ قَبْلَکُمْ حِیْنَ تَنَازَعُوْا فِیْ ھٰذَا الْاَمْرِ عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ اَلَّا تَنَازَعُوْا فِیْہِ۔ (ترمذی ابواب القدر بابُ ما جاء فی التشدید فی الخوض فی القدر)

ہم لوگ قضاء و قدر کے مسئلہ کے متعلق بیٹھے ہوئے جھگڑ رہے تھے کہ رسولِ کریمﷺ باہر تشریف لائے ہماری باتوں کو سن کر آپؐ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپؐ کے منہ پر انار کے دانے توڑے گئے ہیں اور آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا؟ کیا خدا نے مجھے اسی غرض سے بھیجا تھا؟ تم سے پہلی قومیں صرف قضاء و قدر کے مسئلہ پر جھگڑا کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں۔ مَیں تمہیں تاکید کرتا ہوں ، مَیں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ اس امر میں جھگڑنا اور بحث کرنا چھوڑ دو۔

اسی طرح حدیث میں ہے کہ

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس کوئی شخص آیا اور کہا کہ آپ کو فلاں شخص سلام کہتا تھا۔ آپ نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے اسلام میں کچھ بدعات نکالی ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو میری طرف سے اس کو سلام کا جواب نہ دینا کیونکہ میں نے رسولِ کریمﷺ سے سنا ہے کہ آپؐ کی امّت میں سے بعض پر عذاب آئے گا اور یہ قدر پر بحث کرنے والے لوگ ہوں گے۔

(ترمذی ابواب القدر بابُ ما جاء فی الرضاء بالقضاء)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قدر کا مسئلہ ایک مشکل مسئلہ ہے جس پر بحث کرنے پر سلب ایمان کا خطرہ ہے بلکہ رسول کریمﷺ نے پیشگوئی کی ہے کہ اس امت میں سے ایک جماعت پر اسی سبب سے عذاب آوے گا۔ مگر ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس مسئلہ پر ایمان لانے کی بھی بڑی سختی سے تاکید کی گئی ہے اور اس کے نہ ماننے والے کو کافر قرار دیا گیا ہے اور کسی مسئلہ پر ایمان اسے سمجھے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ میں نے کس بات کو ماننا ہے وہ مانے گا کیا؟ اور ایسی بات کے منوانے سے جس کو انسان سمجھے نہیں فائدہ ہی کیا ہو سکتا ہے؟

……………………………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button