الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجست

(محمود احمد ملک)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

درودشریف کے بارے میں جماعت احمدیہ پر ایک اعتراض کا جواب

ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ نومبر 2011ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کا ایک تحقیقی مضمون شامل اشاعت ہے جو درودشریف کے بارے میں جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے ایک الزام کے مدلّل جواب کے طور پر رقم کیا گیا ہے۔

کسی بھی روحانی فیض کو حاصل کرنے کے لیے آنحضرتﷺ پر درود پڑھنا نہایت ضروری ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حوالے سے متعدد بار زبانی اور تحریری طور پر واضح فرمایا ہے کہ آپؑ کو جو روحانی منصب عطا ہوا اُس کے پس منظر میں آنحضور ﷺ سے غیرمعمولی محبت ہی تھی۔ لیکن ایک معاند احمدیت متین خالد نے اپنے مضمون (مطبوعہ روزنامہ خبریں 7ستمبر 2011ء) میں انتہائی لغو حکایت یوں بیان کی ہے کہ 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں اٹارنی جنرل نے جب حوالوں کے ساتھ یہ اعتراض اٹھایاتھا کہ احمدی کلمہ طیّبہ میں محمد سے نعوذباللہ بانی سلسلہ احمدیہ مراد لیتے ہیں تو احمدی وفد بالکل لاجواب ہوگیا تھا۔ مضمون نگار نے اپنی بات کی تائید میں درج ذیل حوالے بھی پیش کیے ہیں:

1۔ ‘‘اے محمدی سلسلہ کے برگزیدہ مسیح تجھ پر خدا کا لاکھ لاکھ درود اور سلام ہو۔’’ (سیرت المہدی جلد سوم)

2۔ ‘‘اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحمّدٍ وَ علٰی عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْد۔’’ (الفضل قادیان 31جولائی 1937ء)

متین خالد نے اس کا ترجمہ یہ لکھا ہے: ‘‘اے اللہ! محمدﷺ اور اپنے بندے مسیح موعود (مرزا قادیانی) پر درود و سلام بھیج۔’’

گویا متین خالد نے اپنے لغو مفروضے اور بے سروپا الزام کی تردید خود ہی دونوں حوالے درج کرکے کردی۔ دونوں میں صاف ظاہر ہے کہ محمدؐ سے مراد آنحضرت ﷺ ہی ہیں اور مسیح موعود سے مراد حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ہیں۔

اب اسمبلی کی کارروائی کو بھی دیکھتے چلیں۔ 10؍اگست 1974ء کی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے دریافت کیا کہ کیا قادیان میں کوئی پریس ضیاء الاسلام نام کا تھا۔ حضورؓ کے اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے پوچھا کہ کیا اس میں کوئی رسالہ ‘‘درودشریف’’ نام کا شائع ہوا تھا؟ حضورؒ نے فرمایا: مَیں نے پڑھا نہیں مگر دیکھا ہے۔ پھر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں درود میں محمد کے بعد احمد آ جاتا ہے اور پھر آل محمد کے بعد آل احمد آجاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے ایک فوٹوکاپی بھی پیش کی اور اپنی طرف سے ایک روایت بھی پڑھ کر سنائی کہ یہ درود بانی سلسلہ احمدیہ کی موجودگی میں بھی پڑھا گیا تھا مگر انہوں نے کبھی نہیں روکا۔ حضورؒ نے فرمایا کہ یہ کتاب تو احمدی کی لکھی ہوئی ہے لیکن جو درود آپ سنارہے ہیں وہ جماعت میں رائج نہیں اور جس کے نام کی روایت آپ نے بیان کی ہے وہ بھی جماعت میں معروف نہیں کہ اس کی سند مانی جائے۔ پھر جب حضورؒ کے سامنے اصل حوالہ آیا تو آپؒ نے فرمایا کہ اس اشاعت میں یہ درود ہے ہی نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا یہ بات غلط ہے؟ فرمایا: بالکل غلط ہے۔ اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ کیا آپ کو ہدایت ہے کہ یہ درود پڑھیں تو اس پر آپ نے فرمایا کہ مَیں آج پہلی دفعہ یہ درود سُن رہا ہوں۔

وقفہ کے بعد جب کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو حضورؒ نے فرمایا کہ اس رسالہ کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ہیں جو ہمارے پاس ہیں لیکن جو فوٹو کاپی ہمیں دی گئی ہے اس کی عبارت کسی ایڈیشن میں موجود نہیں۔ صفحہ نمبر بھی غلط ہے اور عبارت بھی غلط ہے۔

یہ بہت بڑی خفّت تھی جو سوال کرنے والوں کو اٹھانی پڑرہی تھی کہ جعل سازی پکڑی گئی تھی۔ سپیکر نے اُن کی خفّت مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: “When I think the denial comes there is no need of explanation”۔ یعنی جب تردید ہوگئی ہے تو وضاحت کی ضرورت نہیں۔

دراصل رسالہ ‘‘درودشریف’’ کا مطالعہ ہی اس اعتراض کو باطل کردیتا ہے کیونکہ کتاب کے آغاز میں وہی مسنون درودشریف درج کیا گیا ہے جو نماز میں پڑھاجاتا ہے اور پھر اس کو پڑھنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔

جب اللہ وسایا نے اس کارروائی کا تحریف شدہ متن شائع کیا تو 10؍اگست کی کارروائی میں بھی وہ حصّہ غائب کردیا جس میں سوال کرنے والوں کو واضح خفّت اٹھانی پڑی تھی۔ اللہ وسایا نے اپنی کتاب ‘‘پارلیمنٹ میں قادیانی شکست’’ میں اس حوالے کو رسالہ ‘‘درودشریف’’ کی بجائے ‘‘الفضل’’ کا حوالہ بنادیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اللہ وسایا کی کتاب کا دیباچہ خود متین خالد نے تحریر کیا ہے جس میں اس (‘‘تحریف شدہ’’) دستاویزکی تعریف میں زمین و آسمان ایک کردیے ہیں۔

دراصل متین خالد کا اندازِ تحریر کچھ ایسا ہے کہ جس اعتراض کو رقم کرتے ہوئے وہ کوئی حوالہ پیش کرتا ہے تو وہی حوالہ متین خالد کے الزام کی تردید کررہا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کی تحریر کچھ بے ربط اور مبہم ہوتی ہے اس لیے یہ واضح نہیں ہوتا کہ اصل اعتراض کیا ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں جو دو اعتراض کیے جاتے ہیں اُن میں پہلا یہ ہے کہ احمدیوں نے مسنون درودشریف کے علاوہ اپنا علیحدہ درود بنارکھا ہے۔ اس اعتراض کا ردّ تو جماعت احمدیہ کا ایک سو سے زائد زبانوں میں موجود لٹریچر ہی کردیتا ہے۔

متین خالد کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ درود شریف کی طرز پر احمدی بانی سلسلہ احمدیہ پر درود پڑھتے ہیں۔
واضح ہو کہ احادیث میں اور سلف صالحین کی روایات میں ایسے کئی مختلف درود بیان ہوئے ہیں جن میں برکت کے لیے اس دعا (درودشریف) میں آنحضرتﷺ کے ساتھ اَور لوگوں کو بھی آپؐ کے طفیل شامل کیا گیا ہے۔

پھر درود کی ایسی کتب موجود ہیں جن میں مختلف کتب سے چالیس چالیس مختلف قسم کے درود جمع کیے گئے ہیں۔ مثلاً کتاب ‘‘فضیلت و شان درودوسلام’’ مؤلفہ محمد شریف مغل۔ اس کتاب میں احادیث میں بیان کردہ چالیس قسم کے مختلف درود جمع کیے گئے ہیں۔

سنن ابوداؤد کی حدیث میں آنحضورﷺ نے ایک درود میں ازواج مطہرات اور اپنی اولاد کو بھی شامل فرمایا۔ حضرت حسن بصریؒ نے ایک ایسے درود کو پڑھنے کی تاکید کی تھی جس میں آنحضورﷺ کے ساتھ آپؐ کے اصحاب، اولاد، ازواج، ذرّیت وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے۔ جہاں تک صَلِّ علیٰ کے الفاظ کے ساتھ کسی کا نام لینے کا تعلق ہے تو اس کی کئی مثالیں بھی احادیث میں موجود ہیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ جب بھی آنحضورﷺ کے پاس کوئی قوم صدقہ لے کر آتی تھی تو آپؐ انہی الفاظ میں اس کے لیے دعا کرتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت ابو اوفیٰ آپؐ کے پاس صدقہ لے کر آئے تو آپؐ نے فرمایا: اللّٰھُمَّ صَلِّ علٰی اٰلِ ابی اوفیٰ۔

الغرض اس مضمون میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب نے متین خالد کے اعتراضات کے مدلّل جوابات کئی پہلوؤں سے دے کر معترضین کو غیرمتین ٹھہرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

………٭………٭………٭………

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر سخت زبان استعمال کرنے کے بارے میں ایک اعتراض کا جواب

ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ دسمبر 2011ء میں مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کا ایک تحقیقی مضمون شامل اشاعت ہے جس میں متین خالد نامی شخص کے اُس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی تحریرات میں سخت زبانی سے کام لیا ہے جو ایک عام آدمی کو بھی زیب نہیں دیتا کجا یہ کہ ایک نبوت کا دعویدار ایسا کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ متین خالد نے قومی اسمبلی کی کارروائی کا بغور مطالعہ کیا ہوتا تو اس سوال کی نوبت ہی نہ آتی۔ 1974ء میں قومی اسمبلی میں جب یہی سوال کیا گیا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے یہ اصولی جواب دیا کہ قرآن کریم اور تاریخ انبیاء سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کو حسب ضرورت دوسروں کے لیے ایسے سخت الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں جو فی الحقیقت گالی نہیں ہوتے بلکہ حالات اور موقع کے مطابق اللہ تعالیٰ سے مخالفین کے اندرونے کا علم پاکر کوئی مامور من اللہ کہے تو یہ جائز ہے ورنہ نہیں۔

دراصل جب خدا کے فرستادوں کے معاندین اپنی اشد ترین ایذادہی اور زبان درازی سے باز نہیں آتے بلکہ انہیں منحوس، مجنون، جھوٹا، گمراہ،بے وقوف اور جادوگر کہتے ہیں (الاعراف:61 و 67۔ الشعراء:28 و 35) تو جواب میں ایسی ناشناس قوم کو قرآن کریم کے محاورے کے مطابق اندھی قوم یا بہرے گونگے اندھے کہنے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ (البقرہ:19۔ الاعراف:180 و 65)

انبیاء کی طرف سے روحانی بیماروں کے حق میں سخت الفاظ کا استعمال دراصل طبیب کے مریض پر اُس کی بیماری کی نوعیت ظاہر کرنے کی طرح ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی روحانی بیماری کے علاج پر توجہ کریں۔ اور یہی سچی ہمدردی اور محبت کا تقاضا ہے۔ بلکہ ایسا نہ کرنا قوم سے دشمنی اور اسے ہلاکت کے سپرد کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت داؤدؑ نے اپنے مخالفین کو کتّے کہا (زبور 59/6)۔ حضرت مسیح ناصریؑ نے بھی اپنے مخالفین کو زناکار، سانپ اور سانپ کے بچے کہا۔ (متی 4/6 ، 12/34، 23/34)۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو گمراہ کہنے والے مکّے کے مکذبین کو اُن کے اخلاقِ سیئہ کے موافق کتّے، گدھے، ذلیل، بندر، سؤر، بدترین جانور، جانوروں سے بھی گمراہ تر قرار دیا ہے۔اسی طرح مخالفت میں پیش پیش مفسد شریروں کے لیے زنیم یعنی حرام زادہ تک کے برمحل الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (المائدہ:61؛ البقرۃ:66، 160، 162؛ البینہ:7؛ الانبیاء:99؛ التوبہ:28؛ الانفال:23؛ القلم:11؛ الجمعۃ:6 اور الاعراف:177)

جب قرآن کریم میں کفّار کے بارہ میں مذکورہ آیات نازل ہوئیں تو ابوسفیان کی معیت میں سردارانِ قریش حضرت ابوطالب کے پاس آئے کہ اپنے بھتیجے کو ان گالیوں سے روکیں ورنہ اسے ہمارے سپرد کردیں۔ ابوطالب نے گھبراکر جب آنحضورﷺ کو یہ پیغام سنایا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ گالیاں نہیں بلکہ اظہارِ واقعہ ہے۔
پھر نبی کریم ﷺ نے اسی اسلوب پر بنوقریظہ (یہود قبیلہ) کے لیے ان کی نقالی اور دیگر بدعادات کے باعث اخوان القردۃ (بندروں کے بھائی) کے الفاظ استعمال کیے تو امّت محمدیہ کے آخری دَور کے بگڑ جانے والے علماء کو آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دیا۔

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ بھی مامور من اللہ کا ہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں:

‘‘مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی آئی تھی لیکن وہ ابتدائی طور سختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں۔ مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے جواب میں کسی قدر سختی مصلحت تھی۔ … اوّل یہ کہ مخالف لوگ اپنے الفاظ کا سختی میں جواب پاکر اپنی روش بدلیں اور آئندہ تہذیب سے گفتگو کریں۔ دوم یہ کہ مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں سے عام مسلمان جوش میں نہ آویں اور سخت الفاظ کا جواب بھی کسی قدر سخت پاکر اپنی پُرجوش طبیعتوں کو اس طرح سمجھالیں کہ اس طرف سے سخت الفاظ استعمال ہوئے تو اس طرف سے بھی کسی قدر سختی کے ساتھ ان کو جواب مل گیا۔’’

(کتاب البریہ، رحانی خزائن جلد 13 صفحہ 11)

نیز حضور علیہ السلام نے اپنے سخت کلام کے بارے میں فرمایا: ‘‘ہمارا یہ کلام شریر علماء سے متعلق ہے ، نیک علماء اس سے مستثنیٰ ہیں’’۔ بے شک یہ وہی شریر علماء تھے جن کو آنحضورﷺ پہلے آسمان کے نیچے بدترین مخلوق قرار دے چکے تھے۔

اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے اپنے تین بزرگوں مولوی رشید گنگوہی صاحب، پیر مہر علی شاہ صاحب اور سعداللہ لدھیانوی کے نام لے کر پوچھا کہ مرزا صاحب نے ان کے لیے دجّال، شیطان، ملعون، گمراہ، مفسد، مکّار عورت کا بیٹا وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اس کے جواب میں فرمایا تھاکہ اللہ تعالیٰ سے مخالفین کے اندرونے کا علم پاکر کوئی مامور من اللہ کہے تو یہ جائز ہے ورنہ نہیں۔
اسمبلی میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے آپؑ کو قبول نہ کرنے والوں کو ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایا کہا ہے۔ اس محاورے کا من پسند ترجمہ (عربی محاورہ کے خلاف)مخالفین یہ کرتے ہیں کہ کنجریوں یا بدکاروں کی اولاد۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اسمبلی میں واضح فرمایا تھا کہ ہر لغت کی کتاب میں بغیٰ کے معنی نافرمان اور سرکش کے ہیں۔ جیسے شیعوں کی کتاب ‘‘فروع کافی’’ میں لکھا ہے کہ جو ہم سے بغض رکھتا ہے وہ نطفۂ شیطان ہے۔ لیکن کوئی بھی اس کے معنی ناجائز اولاد نہیں کرتا۔ اسی طرح ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایاکے جو معنی ہماری لغت، ہمارے آئمہ اور ہمارا لٹریچر نہیں کرتا ، کسی اَور کا وہ معنی کرکے اعتراض کرنا درست نہیں۔

اس پراٹارنی جنرل تو لاجواب ہوگئے لیکن مولوی مفتی محمود صاحب نے پوچھا کہ مَیں نے تو صرف یہ پوچھا ہے کہ قرآن کریم میں بغایا کے لفظ سے کیا مراد ہے؟ (گویا یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اٹارنی جنرل کے سوال کے پیچھے کون تھا۔)حضورؒ نے جواباً فرمایا کہ قرآن کریم نے ابن بغایا کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا اور نہ ہی ابن بغایا کے عربی میں یہ معنی ہیں۔

لغت عربی میں بِغیٰ کے معنی بدکاری کے ہیں جبکہ بَغیٰ کے معنی سرکشی کے ہیں۔ حضرت امام محمد باقرؒ نے بھی بَغیٰ کے معنے سرکشی اور زیادتی اختیار کرنے والے کے کیے ہیں۔ (مستدرک)

ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایاکے غلط معنی کی تردید کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ ‘‘آئینہ کمالات اسلام’’ میں ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایا کے محاورے کے ساتھ ہی اس کے معنی واضح کردیے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے مُہر کردی ہے۔ اور اس فقرے کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ جو مجھے قبول نہیں کرے گا وہ شریر لوگوں میں سے ہوگا اور سوائے چوہڑے چماروں کے سارے قبول کرلیں گے۔ اس فقرے میں مُسْلِم یَقْبَلُنِیْ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ اکثر مسلمان آپ کو قبول کرلیں گے، گو شدید مخالفت کرنے والے اور بدفطرت لوگ آپؑ کا انکار کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔ پس ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایا کے وہ معنی ہرگز نہیں ہوسکتے جو مخالفین کرتے ہیں۔

قرآن کریم نے حد سے بڑھے ہوئے مکذّبوں کو شرّالدواب، کالانعام بل ھم اضل، قردۃ خاسئین، خنزیر اور زنیم قرار دیا۔ زنیم کے معنی لغت میں فاحش، لئیم یعنی کمینہ اور حرام زادے کے بھی ہیں جو دراصل ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایاکے محاورے کا ہی مترادف ہے۔

حضرت امام حسینؑ کی ایک صاحبزادی حضرت سکینہؓ نے اُن کی شہادت پر مرثیہ کہتے ہوئے ایک شعر میں قاتلین امام حسینؓ کو نسلِ بغایا قرار دیا۔ (الامام الحسینؑ)۔ دوسری صاحبزادی حضرت سیّدہ زینبؓ نے بھی قاتلین کے بارے میں اولادِ بغایا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (بحارالانوار)

حضرت امام جعفر صادقؒ اور حضرت امام باقرؒ نے انبیاء کو قتل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو اولادِ بغایا قرار دیا ہے۔ (العلل)

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے قومی اسمبلی میں حضرت امام جعفر صادقؒ کا یہ قول بھی پڑھ کر سنایا کہ ‘‘جو شخص ہمارے ساتھ محبت کرتا ہے وہ تو اچھے آدمی کا نطفہ ہے اور جو ہم سے عداوت رکھتا ہے وہ نطفۂ شیطان ہے۔’’ (فروع کافی)

حضرت امام باقرؒ فرماتے ہیں: ‘‘خدا کی قسم ہماری جماعت (گروہ) کے سوا باقی تمام لوگ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایا ہیں۔’’ (فروع کافی)

اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں: جو حضرت عائشہؓ پر زنا کی تہمت لگائے وہ حرام زادہ ہے۔

(کتاب الوصیت۔ مطبوعہ حیدرآباد)

مجلس احرار کا سرکاری آرگن اخبار مجاہد لاہور 4؍مارچ 1936ء فروع کافی کی مذکورہ بالا تحریر میں اولادِ بغایا کے لغوی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: ولدالبغایا، ابن الحرام، ولدالحرام اور ابن الحلال وغیرہ سب عربوں کا اور ساری دنیا کا محاورہ ہے۔ جو شخص نیکوکاری ترک کرکے بدکاری کی طرف جاتا ہے اس کو باوجودیکہ اس کا حسب و نسب درست ہو اپنے اعمال کی وجہ سے ابن الحرام اور ولدالحرام کہتے ہیں۔ اندریں حالات اپنے مخالفین کو امام علیہ السلام کا اولادالبغایا کہنا بجا اور درست ہے۔

قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل نے حضرت مسیح موعودؑ کی عربی کتاب ‘‘نجم الہدیٰ’’کے ایک شعر پر اعتراض کیا کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنی قوم کے خاص لوگوں کو جو آپؑ کی دعوت قبول نہیں کرتے اور کذّاب قرار دیتے ہیں، انہیں عیسائیوں کے ساتھ شمار کیا اور اُنہیں بیابانوں کے خنزیر اور اُن کی عورتوں کو کتّیوں سے بڑھ کر قرار دیا۔حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے واضح فرمایا کہ اس عربی شعر میں پادری اور اُن کی وہ عورتیں مراد ہیں جو مسلمانوں کے گھروں میں جاکر اُن کو مُرتد کرنے کی کوششیں کرتی تھیں۔ یہ لوگ نبی کریم ﷺ کے خلاف بدزبانی کرتے اور اسلام پر حملہ آور ہوتے تھے۔ رسالہ ‘‘نجم الہدیٰ’’ کے مخاطب مسلمان نہیں نصاریٰ تھے۔ خنزیر سے مراد اُس شعر میں دشمنانِ اسلام ہیں کیونکہ اگلے ہی شعر میں اسی حوالے سے حضورؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘انہوں نے گالیاں دیں اور ہم نہیں جانتے کہ کیوں دیں۔ کیا ہم اس محبت میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کریں یا اس سے کنارہ کریں۔’’

حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں لاکھوں عیسائی مرد اور عورتیں اسلام کو بُرابھلا کہنے اور گالیاں دینے میں مصروف تھے اور مذکورہ اشعار میں ایسے ہی لوگ مخاطب ہیں۔

………٭………٭………٭………

پرانا گولڑہ شریف جنکشن

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ مئی 2011ء میں مکرم محمد عثمان انعام صاحب کے قلم سے پاکستان کے ایک پرانے ریلوے سٹیشن کے بارے میں معلوماتی مضمون شامل ہے۔ اسلام آباد کے نواح میں واقع اس ریلوے سٹیشن کو عجائب گھر کا درجہ دیا گیا ہے۔

یہ عجائب گھر 2002ء میں یورپین یونین کے تعاون سے بنایا گیاتھا جس میں برصغیر میں ریل کی آمد اور اُس دَور میں استعمال ہونے والی مختلف چیزوں کو محفوظ کیا گیا ہے۔ یہاں پرانے انجن کے ماڈلز میں بھاپ سے چلنے والا وہ انجن بھی ہے جولاہور میں آنے والا پہلا انجن تھا اور ایگل انجن کہلاتا تھا۔ یہاں محافظوں کے زیراستعمال بندوقیں بھی موجود ہیں جو اب بھی کارآمد ہیں۔ پیغام رسانی کے لیے استعمال ہونے والے آلات بھی رکھے گئے ہیں۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے زیراستعمال سیلون کار میں موجود ہیٹر، پنکھوں اور برتنوں پر برٹش ایمپائر کا مونو گرام بنا ہوا ہے۔ اُس دَور کی گھڑیاں، مختلف آلات، ٹائم ٹیبل وغیرہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہاں پیتل کے وہ برتن بھی رکھے ہیں جن کے بارے میں لکھا ہے کہ اُس دَور میں اسٹیشنوں پر ایسے لوگ بھرتی کیے جاتے تھے جو مسافروں کو پانی پلاتے تھے اور گاڑی رُکنے پر آوازیں لگاتے: ہندو پانی، مسلمان پانی۔ کیونکہ دونوں قومیں ایک دوسرے کے برتنوں میں پانی نہیں پیتے تھے اس لیے دونوں کے علیحدہ برتن رکھے ہوتے تھے۔

میوزیم میں فوجی وردی میں ملبوس میجر رفیع کی تصویر کے ہمراہ ایک عجیب ہیئت کی چابی بھی یہاں رکھی گئی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جب بلوائی ریل گاڑیوں پر حملے کررہے تھے تو میجر رفیع نے بھارت سے آنے والی ایک ٹرین کے ڈبوں میں مسافروں کو سوار کروانے کے بعد اس چابی سے دروازے بند کردیے اور خود بندوق لے کر انجن پر بیٹھ گئے تاکہ یہ معلوم ہو کہ فوج کی ریل گاڑی ہے۔ یوں سینکڑوں مسلمانوں کو بحفاظت لاہور پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔

یہاں اردو اور ہندی عبارتوں کے علاوہ ایسے تصویری بورڈ بھی نظر آتے ہیں جن میں چائے بنانے کا طریق اور اس کے فوائد کا بیان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریز جب چائے برصغیر میں لائے تو یہاں بسنے والوں نے چائے کو حرام اور نقصان دہ قرار دے کر استعمال کرنے سے انکار کردیا تھا۔

………٭………٭………٭………

نیزہ پھینکنا (Javelin Throw)

ماہنامہ ‘‘تشحیذالاذہان’’ ربوہ مئی 2011ء میں نیزہ پھینکنے کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون عزیزم رحمان احمد کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

عالمی سطح کے مقابلہ جات میں مَردوں کے لئے نیزے کی لمبائی 2.7میٹر اور وزن 800گرام سے زیادہ ہونا چاہیے جبکہ خواتین کے لئے نیزے کی لمبائی 2.3میٹر اور وزن کم از کم 600گرام ہوتا ہے۔ نیزہ پھینکنے سے پہلے تیس میٹر لمبا راستہ دوڑ لگانے کے لئے بنایا جاتا ہے۔ قاعدہ کے مطابق کھلاڑی کی کمر نیزہ پھینکنے کے بعد اُس طرف نہیں ہونی چاہیے جدھر نیزہ پھینکا گیا ہے۔پہلے پہل نیزہ سیدھا نیچے گِر جایا کرتا تھا لیکن 1986ء میں نیزے کی ساخت میں کچھ تبدیلی کرنے کے بعد اب نیزے کی نوک زمین پر پہلے لگتی ہے۔

1996ء میں جمہوریہ چیک کے ایک کھلاڑی نے 98.48میٹر کے فاصلے پر نیزہ پھینک کر عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔

………٭………٭………٭………

ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ دسمبر 2011ء میں شامل اشاعت مکرم منور احمد کنڈے صاحب کا نعتیہ کلام ہدیۂ قارئین ہے:

باب اُلفت ہے کُھلا ، کِن کے لیے! انؐ کے لیے
دشت ہے گلشن بنا ، کِن کے لیے! انؐ کے لیے
شبنمی ماحول میں ہے نیم شب کو آسماں
چاند تاروں سے سجا ، کِن کے لیے! انؐ کے لیے
بُوئے گُل میں ہے ازل سے ہی محمدؐ کی مہک
رقص کرتی ہے صبا ، کِن کے لیے! انؐ کے لیے
ناز پہ انداز پہ قربان انؐ کے ہے جہاں
لمحہ لمحہ جاں فِدا ، کِن کے لیے! انؐ کے لیے
ہے نمودِ حُسنِ عالَم اُنؐ کی زُلفوں کے طفیل
جب برستی ہے گھٹا ، کِن کے لیے! انؐ کے لیے
وہ ہی رہتے ہیں خیالوں میں منورؔ دم بدم
آنکھ کے نُور و ضیا ، کِن کے لیے! انؐ کے لیے

ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ اکتوبر 2011ء میں مکرم عبدالسلام اسلام صاحب کی سانحہ لاہور کے حوالہ سے ایک نظم بعنوان ‘‘تنبیہ بحق ظالم’’ شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:

ہماری ماؤں بہنوں کے اُجاڑ کر سہاگ تُو
مُسرّتوں کے تال پر نہ گا خوشی کے راگ تُو
نگاہِ ‘ذُونْتِقَام’ ہے ہمیشہ تیری تاک میں
گرفت حق سے جائے گا بھلا کدھر کو بھاگ تُو!
کبھی نہ بچ سکے گا تُو خدا کے انتقام سے
نکل کے جائے گا کہاں تُو بَغْتَۃً کے دام سے!
سنبھل سنبھل خدا سے ڈر ، گرفتِ کِبریا سے ڈر
سہاگ جن کا لُٹ گیا تُو اُن کی بددعا سے ڈر
یہ نالۂ یتیم کیا یہ تیرِ بے خطا بھی ہے
تُو نالۂ رَسا سے ڈر تُو آہِ بے نوا سے ڈر
حساب نقد ہی سَدا خدا کے گھر کی ریت ہے
کہ جابروں کے سامنے ہی صابروں کی جیت ہے

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ مئی 2011ء میں مکرم اطہر حفیظ فراز صاحب کی ایک غزل شامل اشاعت ہے۔ اس میں سے انتخاب پیش ہے:

عجب طرح کے لوگ ہیں طبیعتیں بدل گئیں
عنایتوں کے دَور میں ضرورتیں بدل گئیں
خیال بھی اسی طرح ، غزل بھی ہے اسی طرح
فصاحتیں بدل گئیں ، بلاغتیں بدل گئیں
کبھی جو دل کے درد تھے تو اب جہاں کے روگ ہیں
تڑپ اسی طرح سے ہے ، قیامتیں بدل گئیں
بلا کا حبس تھا یہاں ، بلا کا اب قرار ہے
عجیب سی ہوا چلی کہ سب رُتیں بدل گئیں
ابھی تو یاں پڑاؤ تھا ، تھیں منزلیں قریب تر
اے رہنما بتا کہ کیوں مسافتیں بدل گئیں
چکور کی تڑپ یہ ہے کہ چاند اس کے پاس ہو
یہ دَور اب نیا سا ہے حکایتیں بدل گئیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button