از افاضاتِ خلفائے احمدیت

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط 35)

طہا رۃ النّفس۔ سخت کلامی سے پر ہیز

کسی کو گا لی دینے یا برا کہنے سے اس انسان کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن پھر بھی انسان با لطبع اپنے دشمن کےخلاف سخت الفاظ استعمال کر تا ہے اور ابتدائے عالم سے یہ مرض بنی نوع انسان میں چلی آئی ہے۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ گا لی دینا ایک لغو کام ہے۔سخت کلامی کر نا ایک فضول حرکت ہے مگر اس کے لغو اور فضول ہو نے کے باوجود گا لی دینے والے گالیاں دیتے ہیں اور سخت کلامی کرنے والے سخت کلامی کر تے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ انسان کو جب غصہ یا جوش آئے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کا اظہار کرے اور بہت دفعہ جب اس کے غصہ کی کو ئی انتہا ء نہیں رہتی اور جوش سے اس کی عقل ماری جا تی ہے تو وہ عام الفاظ میںاپنے غصہ کا اظہارنہیں کرسکتااور جب دیکھتا ہے کہ الفاظ میں میرے غصہ کا اظہارنہیں ہوسکتا تو پھر ایسے الفاظ بو لتا ہےکہ جو گو اس غصہ کے اظہار کر نے والے نہ ہوںلیکن ان سے یہ ثابت ہو کہ اس شخص کو سخت طیش ہے چنانچہ اس لئے سخت طیش میں تمام برا ئیوں کو انسان اپنے دشمن یا دکھ دینے والے کی طرف منسوب کر تا ہے حالا نکہ وہ سب برائیاں اس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتیں لیکن اصل منشا گا لی سے کمال طیش کا اظہا ر ہو تا ہے گو یا گا لی دینا بھی ایک قسم کامجاز ہو تا ہے جس کے ذریعہ انتہاءغضب کا اظہار کیا جاتا ہے۔جو لوگ نہایت غصیلے ہوتے ہیں اور ذرا ذرا سی با ت پر ان کا نفس جو ش میں آجاتا ہے وہ گالیاں بھی زیا دہ دیتے ہیں اور جو لوگ جس قدر اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں اسی قدر گالیوں سے بچتے ہیں کیونکہ ان کو اس قدرغصہ نہیں آتا کہ جس کو وہ عام الفاظ میں ادا نہ کر سکیں اور اگر آئے بھی تب بھی وہ اپنے نفس کو جھوٹ سے محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ گالیاں درحقیقت ایک کمزوری ہے اور سخت طیش کے وقت انسان سے اس کا ظہور ہو تا ہے اور اس کا کو ئی فا ئدہ بھی نہیں ہو تا۔صرف گالی دینے والے کے لیے ان خیالات کا اس سے پتہ چلتا ہے جو وہ اس کے متعلق رکھتا ہے جسے گالی دیتا ہے۔غرض گا لی دینے سے کو ئی فا ئدہ حاصل نہیں ہو تا ہاں ایک پر غضب طبیعت کے جوش کا اظہار اس سے ہو جا تا ہے مگر پھر بھی اکثر لو گ غضب میں گالیاں دیتے ہیں چنانچہ بعض لوگ جو عام طور پر نرم طبیعت رکھتے ہیں جب ان کو بھی غصہ آ جا ئے تو اپنے مخالف کے حق میں گا لی دے دیتے ہیں اور جب کسی شخص سے سخت تکلیف پہنچے تب تو بڑے بڑے صابروں کے منہ سے بھی گا لی نکل جا تی ہے چنانچہ مسیح ناصر یؑ جیسا صابر انسان جس کی زندگی اس کے صبر اور اس کی استقامت پر دلالت کر تی ہے اور جس نے اپنے دشمنوں سے بڑی بڑی سخت مصیبتیں بر داشت کرکے بھی ان کے حق میں کو ئی سخت کلمہ نہیں کہا۔اسے بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک موقعہ پر جب اس کے دشمنوں کی شرارت حد کو پہنچ گئی اور حملہ پر حملہ انہوں نے اس پر کیا تو آخر تنگ آکر ایک دن اسے بھی اپنے دشمنوں کے حق میں کہناپڑا کہ سانپوں کے بچےمجھ سے معجزہ طلب کر تے ہیں اور کون نہیںجانتا کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح ؑ کے مخالف تھے وہ انسانوں کے بچے تھے لیکن ان کی شرارتوںنے حضرت مسیح ؑ کو اس قدر دق کیا کہ آخر تنگ آکر ان الفاظ میں انہیں اپنے غصہ کا اظہار کر نا پڑا۔اسی طرح ایک دفعہ اپنے حواریوں سے جو ایک دفعہ ان کو سخت تکلیف پہنچی تو اپنے ایک حواری کو انہوں نے شیطان کے لفظ سے یا د کیا حالانکہ وہ وہی حواری تھا جسے انہوں نے خود اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا تھا۔غرض حضرت مسیح ؑ کی مثا ل سے یہ با ت صاف ہو جا تی ہے کہ کبھی بڑے سے بڑا صابر انسان بھی دشمن کی شرارت سے تنگ آکر ایسی گا لی دے بیٹھتا ہے۔لیکن ہمارے آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے وہ شا ن عطا فر ما ئی تھی کہ آپ ؐ کی زبان پر کبھی گا لی نہیں آئی حالانکہ جو مخالفت آپ ؐکی ہو ئی اورجو تکلیف آپؐ کے دشمنوں نے آپؐ کو دی وہ اس حد کی تھی کہ اس کے مقابلہ میں کسی انسان کی تکلیف نہیں پیش کی جا سکتی لیکن باوجود اس کے کہ آپ ؐ کے مخالفوں نے ہر طرح سےآپ کو دق کیا اور تئیس سا ل متواتر بلا وجہ آپؐ کو دکھ دیتے رہے اور ان کے ہا تھ روکنے والا بھی کو ئی نہ تھا او رحضرت مسیح ؑ کے زمانہ کی طرح کو ئی حکومت نہ تھی جس کے قانون سے ڈر کر اہل مکہ رسول کریم ﷺ کو ستا نے میں کو ئی کمی کر تے اور وہ قوم بھی حضرت مسیح ؑکی قوم سے زیادہ سخت تھی لیکن باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے منہ پر کبھی گا لی نہیں آئی۔

ایک دو دن کی تکلیف ہو تو تب بھی کو ئی بات تھی۔سب کہہ سکتے تھے کہ آپ ؐ نے جبر کرکے اپنے آپؐ کورو کے رکھا۔ایک دو ماہ کی با ت ہوتی تب بھی کہہ سکتے تھے کہ تکلیف اٹھا کر خاموش رہے ایک دو سال کا معاملہ ہو تب بھی خیال ہو سکتا تھا کہ اپنے نفس کو مار کر اپنی زبان کو بند رکھا لیکن تئیس سا ل کا لمبا عرصہ جو تکالیف و مصائب سے پر تھا ایک ایسا عرصہ ہے کہ اس عرصہ میں کسی انسان کا ان تکالیف کو بر داشت کرتے ہوئے اور ان عداوتوں کو دیکھتے ہو ئے جو آنحضرت ﷺ کو دیکھنی اور بر داشت کر نی پڑیں ہر قسم کی سخت کلامی سے پر ہیز کر نا او رکبھی فحش گو ئی کی طرف مائل نہ ہونا دلالت کرتا ہے کہ وہ انسان کو ئی عجیب انسان تھا اور نہ صرف عام انسانوں سے برتر تھا بلکہ دوسرے نبیوں پر بھی فضیلت رکھتا تھا۔کیونکہ جہاں اس نے اپنے آپ پر قابو رکھا وہاں دوسرے نبی بھی نہ رکھ سکے۔مجھے اپنے اس بیان کے لئے کسی ایک واقعہ سے استدلال کر نے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس معاملہ میں ایک ایسے شخص کی شہا دت موجود ہے جو دس سال متواتر آپ ؐ کے ساتھ رہا اور یہ حضرت انسؓ ہیںوہ فر ما تے ہیں کہ

لَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا،وَ لَالَعَّانًا،وَلَا سَبَّابًا،کَانَ یَقُوْلُ عِنْدَ الْمَعْتَبَۃِ: مَالَہُ تَرِبَ جَبِیْنُہٗ(بخاری کتاب الادب باب ما ینھی من السباب واللعن)

یعنی رسول کریم ﷺ نہ تو گا لی دینے کے عا دی تھے،نہ فحش کلام کے عادی تھے،نہ لعنت کیا کر تے تھے،جب آپ ؐ کو ہم میں سے کسی پر غصہ آتا تو آپؐ صرف اس قدر فر ما دیا کر تے تھے کہ اسے کیا ہوا ہے اس کے ماتھے پر مٹی لگے۔یہ گواہی ایک ایسے شخص کی گواہی ہے جو کہ آپؐ کے سا تھ آپ ؐ کی عمر کے آخری حصہ میںجس میں سے پہلا حصہ آپ ؐ کی تکلیف کے زمانہ میں سے سب سے سخت زمانہ تھا رہا ہے اور پھر آپؐ کی عمر کا وہ حصہ ہے جبکہ ایام جوانی گزر کر بڑ ھا پا آگیا تھا اور پڑ ھاپے میںعام طور پر انسان کی طبیعت چڑچڑی ہو جا تی ہے لیکن باوجود اس کےوہ گواہی دیتا ہے کہ اس دس سال کے تجربہ سے اسے معلوم ہوا ہے کہ آپؐ نہ تو کبھی کسی کو گا لی دیتے نہ کبھی آپ ؐ کے منہ سے کو ئی فحش کلمہ نکلتا اور نہ کبھی کسی شخص پر لعنت کر تے ۔ہا ں حد سےحد غصہ میںا س قدر کہہ دیتے کہ تیرے ماتھے کو مٹی لگے او ریہ فقرہ گا لی کا فقرہ نہیں بلکہ یہ الفاظ عرب لو گ پیارسے بھی کہا کر تے ہیں اور گوعام طور پر ان کا استعمال مہمل جملوں کے طور پر ہو تا ہے لیکن کبھی یہ الفاظ محبت کے اظہا ر کے لیے بھی استعمال کئے جا تے اور ان سے یہ مفہوم لیا جا تا ہے کہ اس کی یہ شوخی دور ہو کیونکہ ما تھا تکبر کی علا مت ہے اور اس کو مٹی لگنے سے یہ مرا د ہے کہ اس کا یہ تکبر دور ہو۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button