از افاضاتِ خلفائے احمدیت

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط 34)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

انکسار

ممکن ہے اس حدیث کے یہاںنقل کر نے پر بعض لو گوں کو تعجب ہوا ہو کہ اس حدیث کے اس جگہ نقل کر نے سے کیا مطلب ہے اور اس سے آنحضرت ﷺ کے انکسار کا کیا پتہ چلتا ہےلیکن جیسا کہ میں ان شاء اللہ،ابھی بتاؤں گا۔یہ حدیث آپؐ کی منکسرانہ طبیعت پر تیز رو شنی ڈالتی ہے جس سے معلوم ہو تا ہے کہ انکسار سے آپؐ کا دل معمور تھا اورکسی زمانہ میں بھی آپؐ سے یہ خلق نیک جدا نہیں ہوا۔انکسار کے سا تھ کا م کر نا دلا لت کرتا ہے کہ یہ صفت کس شان کے سا تھ آپؐ کے اندر تھی ورنہ بعض لوگ صرف سستی کی وجہ سے انکسار کر تے ہیں۔

اس حدیث سے ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے سامنے جو فرشتہ آیا اس نے آپؐ سے کہا کہ پڑھ اور آپؐ نے اس کے جواب میںکہاکہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آپؐ کا اس انکار سے کیا مطلب تھاآیا یہ کہ آپؐ تحریر پڑھنا نہیں جانتے یا یہ کہ عربی زبان کا دہرانا بھی نہیں جانتے۔کیونکہ قراءت کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں میں استعمال ہو تا ہے۔ایک معنے ا س کے کسی تحریر کو پڑھنے کے ہیں اور دوسرے معنی کسی مقررہ عبارت کو اپنی زبان سے دہرا نے کے ہیںچنانچہ جب کو ئی شخص کسی کتاب کو پڑھے تو اس کی نسبت بھی کہیں گے کہ یَقْرَأُالْکِتَابَ اور جب وہ کسی عبارت کو دہرا ئے گا تو اسےبھی کہیں گے کہ یَقْرَأُ وہ پڑھتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کو حفظ پڑھنا بھی قراءت کہلاتا ہے۔پس اب سوال یہ ہے کہ آیا رسول اللہ ﷺ نے جو یہ فر ما یا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا تو اس سے کیا مراد ہے۔آیا یہ کہ آپؐ تحریر نہیں پڑھ سکتے یا یہ کہ آپؐ کسی عبارت کو جو عربی زبان میںہو دہرا بھی نہیں سکتے۔اگر یہ ثا بت ہو کہ آپؐ کا مطلب یہ تھا کہ آپؐ تحریر نہیں پڑھ سکتے تب تو با ت صاف ہے کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آپؐ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن یہ مطلب رسول کریم ﷺ کا نہیں ہو سکتا کیونکہ صحیح احادیث سے ہرگز ثا بت نہیں ہو تا کہ آپؐ کے سامنے اس فرشتہ نے کو ئی تحریر رکھی تھی اور کہا تھا کہ اسے پڑھوتا آپؐ جواب دیتے کہ میں پڑھنا نہیں جا نتا بلکہ جو کچھ صحیح اور مرفوع احادیث سے ثا بت ہو تا ہے وہ یہی ہے کہ ایک فرشتہ آپؐ کے سامنے آیا اور اس نے آکر آپؐ سے کہا کہ آپؐ پڑھیں اور کو ئی تحریرآپؐ کے سامنے پیش نہیں کی۔چنانچہ بخاری کی جو حدیث اوپر نقل کی گئی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس فر شتہ نے آپ ؐ کے سامنے کوئی تحریرنہیں رکھی بلکہ صرف ہو شیار کر نے کے لیے کہا ہے کہ پڑ ھ! جیساکہ جب کسی شخص سے کو ئی الفاظ کہلوانے ہوں تو کہلوانے والا عام طور پر کہہ دیا کر تا ہے کہ کہو۔پس اس فرشتہ نے بھی یہی آپؐ سے کہا تھا کہ دہراؤ یعنی جو لفظ میںکہتا ہوں ان کو دہرا تے جاؤ۔چنانچہ تیسری دفعہ فرشتہ نےمنہ سے ہی الفاظ کہے نہ کہ کو ئی تحریر رکھی ۔اگر پڑھوانا مدنظر ہو تا اور اس فرشتہ کا آپؐ کو گھونٹنا اس لیے ہوتا کہ آپؐ کو تحریر پڑھنا آجا ئے تو ایسا ہو نا چاہیے تھا کہ وہ آخری دفعہ آپؐ کے سامنے تحریررکھ دیتا اور آپؐ گو پہلے پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن معجزانہ طور پر پڑھنے لگ جا تے لیکن آخری دفعہ فر شتہ کا منہ سے الفاظ کہہ کر آپؐ کو دہرانے کے لیے کہنا صاف ثابت کرتا ہے کہ اس وقت آپؐ کے سامنے کو ئی تحریر نہ رکھی گئی تھی بلکہ صرف زبانی آپؐ سے ایک عبارت دہرانے کو کہا گیا تھا اور یہ استدلال جو ہم نے کیا ہے اس کے خلاف عبید بن عمیر کی روایت نہیں پیش کی جا سکتی جس میں لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرما یا کہ میرے سامنے جبریل ؑ نے ایک تحریر رکھی تھی جو دیبا ج پر لکھی ہو ئی تھی۔کیونکہ ایک تو یہ حدیث اس پا ئے کی نہیں جس پا ئے کی حدیث بخاری کی ہے پھر یہ مرسل حدیث ہے اس لیے اس روایت کے مقابلہ میں جو اوپر نقل کی گئی ہے،نہیں رکھی جاسکتی۔سوم خود عبید بن عمیر کی اپنی روایت میں اس کے خلاف ہے کیونکہ وہ بیان کر تے ہیں کہ جب جبریل ؑنے آپؐ سے کہا کہ پڑھیں ۔تو آپؐ نے فر ما یا کہ میںکیا پڑھوں؟اور یہ فقرہ کہ میں کیا پڑھوں صاف ثا بت کرتا ہے کہ آپ ؐکے سامنے کوئی تحریر نہ تھی اگر تحریرہو تی تو آپؐ ، کیا پڑھوں ،کا جملہ کیونکر استعمال فرما سکتے تھے۔ غرض حق یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ سے اس فرشتہ نے کو ئی تحریر پڑھنے کو نہیں کہا بلکہ یہی کہا کہ آپؐ کہیں(یعنی جو کچھ میں کہوں)اس کے جواب میں آپؐ نے فر مایا کہ میں تو قراءت نہیں جا نتا لیکن اب ایک اَور سوال پیدا ہو تا ہے اور وہ یہ کہ جبکہ آپؐ سے صرف عربی کے بعض فقرات دہرا نے کو کہا گیا تھا تو آپؐ نے کیوں فرمایا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا حالانکہ یہ کام آپؐ آسانی سے کر سکتے تھے آپؐ کی مادری زبان عربی تھی اور آپؐ اس زبان میں کلام کیا کرتے تھے۔پھر آپؐ نے یہ کیوں فر ما یا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا اور نہ آپؐ عربی کے کلمات کے دہرانے سے عاجز تھے کہ کہا جا ئے کہ آپؐ نے اس بات سے بھی انکار کیا بلکہ اصل بات یہی ہے کہ آپؐ نے فر شتہ کو دیکھتے ہی خوب سمجھ لیا تھا کہ یہ کس غرض کے لیے آیا ہے کیونکہ قبل از وقت آپؐ کو رؤ یائے صالحہ کے ذریعہ اس کام کے لیے تیار کر دیا گیا تھا۔اور پھر ایک علیحدہ جگہ میں یک لخت ایک شخص کا نمودار ہو نا صاف ظاہر کر تا تھا کہ یہ کو ئی انسان نہیں بلکہ فر شتہ ہے پس آپؐ کے دل میںیہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ یہ کو ئی فرشتہ ہے اور مجھے کوئی کا م سپرد کر نے آیا ہے اور آپؐ نے خدا تعالیٰ کی عظمت کی طرف نگا ہ کرکے اپنی جبین نیاز خدا تعالیٰ کے آگے جھکا دی اور عرض کیا کہ جو کچھ مجھے پڑھا یا جا نے لگا ہے میں تو ا س لائق نہیں اور یہ جو کچھ آپؐ نے فر ما یا بالکل درست اور بجا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے حضورمیں یہی کلمہ کہنا بجا تھا اور آپؐ نے اس کےفرشتہ کو یہی جواب دیا کہ اس بادشاہ کی خدمت کے میں کہاں لا ئق تھا۔شاید کوئی شخص کہے کہ یہ تو جھوٹ تھا آپؐ تولا ئق تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض نا دانی کے با عث ہے جو لوگ جس قدر خدا تعالیٰ کے قریب ہو تے ہیں اسی قدر اس سے خائف ہوتے ہیں اور اس کے جلال سے ڈرتے ہیں۔

بے شک رسول کریم ﷺ سب سے زیا دہ اس کام کے لا ئق تھے۔لیکن ان کا دل سب انسانوں سے زیا دہ خدا تعالیٰ کے خوف سے پُر تھا۔ پس انہوں نے خدا تعالیٰ کے جلال کو دیکھتے ہوئے عذر کیا کہ میں تو اس کام کے لا ئق نہیں ۔اگر آپؐ اپنے آپ کو سب سے لائق سمجھتے ہو ئے ایسا کہتے تب بے شک آپؐ پر الزام آسکتا تھا بعد کے واقعات نے ثا بت کر دیا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے جبروت اور جلال پر نظر کر تے ہو ئے واقعہ میں اپنے آپ کو اس کی امانت کے اٹھا نے کے قابل خیال نہ کر تے تھے اور یہ بات آپؐ کے درجہ کی بلندی پر دلالت کر تی ہے کہ آپؐ باوجود عظیم الشان طاقتوں کے مالک ہو نے کے خدا تعالیٰ کے جلال پر ایسے فدا تھےکہ آپؐ نے اپنے نفس کی خوبیوں کو کبھی دیکھا ہی نہیں اور اُسی کے جلال کے مطالعہ میں لگے رہے۔کیا اس سے بڑھ کر بھی انکسار کی کو ئی اَور مثال دنیا میں موجود ہے؟موسیٰؑ کی ایک مثال قرآن کریم سے معلوم ہو تی ہے لیکن آپؐ کے مقابلہ میں وہ بھی کچھ نہیں کیونکہ گو حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھا اور نبوت کے بو جھ اٹھا نے سے انکار کیا لیکن اپنے بھا ئی کی طرف اشارہ کیا۔پس انہوں نے اپنی دانست میں ایک آدمی کو اس قابل خیال کیا کہ وہ اس بوجھ کو اٹھا لے گا لیکن آنحضرتﷺ نے اپنی نسبت عجیب پیرا یہ میں عذر کیا اور کسی کو پیش نہیں کیا جو آپؐ کے عظیم قرب پر دلالت کر تا ہے اور ثا بت ہو تا ہے کہ آپ حضرت موسیٰ ؑسے شان میں افضل تھے کہ آپؐ نے اس امانت کے اٹھا نے کے لیے کسی انسان پر نظر نہیں کی بلکہ صرف اپنی کمزوری کا اقرار کرکے خدا تعالیٰ کے انتخاب پر صاد کیا۔غرض آپؐ کا نبوت کے ملنے سے بھی پہلے یہ انکسار کا نمونہ دکھا نا ثابت کر تا ہے کہ آپؐ کی طبیعت میں ہی انکسار داخل تھا۔اور نادان ہے وہ جو خیال کر ے کہ آپؐ نے نبوّت کے سا تھ اس رنگ کو اختیار کیا۔

اس جگہ ایک اَور با ت بھی یا درکھنی چاہیے کہ انکسار جیسا کہ عام طور پر لوگوں کا خیال ہے اس کا نام نہیں کہ کو ئی آدمی اپنے آپ کولا ئق سمجھتے ہو ئے کہے کہ میں تویہ کام نہیں کر سکتا ۔ یہ تو جھوٹ ہے اور جھوٹ کبھی اچھی صفت نہیں ہو سکتی،انکسار درحقیقت ایثار کی ایک قسم ہے جو ایک تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ انکسار نام پا تی ہے او ر منکسرالمزاج نہ اس شخص کو کہیں گے جو نالائق ہو کر اپنی نا لائقی کا اقرار کرے اور نہ اسے کہیں گے جو اپنے آپ کو لا ئق سمجھ کر اپنے نالائق ہو نے کا اعلان کرے بلکہ منکسر المزاج وہ شخص ہے جو لا ئق اور صاحب فضیلت ہو کر دوسروں کی خوبیوں پر لیاقت اور فضیلت کے مطالعہ میں ایسا مشغول ہو کہ اپنی لیا قت اور فضیلت اس کی نظروں سے پو شیدہ ہو جا ئے اور ہر موقع پر دوسروں کی لیاقت اور فضیلت ا س کے سامنے آجا ئے اور یہ صفت اس لیے اچھی ہوتی ہے کہ خد اتعالیٰ کے حضور میں تو یہ ادب کا صحیح طریق ہے اور بندوں میں اس کے ذریعہ سے فساد مٹ جاتے ہیں کیونکہ تمام فساد تکبر یا عدم انکسار سے پیدا ہوتے ہیں۔ تکبر جب لوگوں میں پھیل جا ئے تب تو بہت ہی فساد ہو گا کیونکہ ہر ایک شخص کہے گا مَیں دوسروں سے بڑا ہو جاؤں لیکن اگر تکبر نہ ہو اور انکسار بھی نہ ہو تب بھی فساد ہو جا ئے گا کیونکہ اکثر جھگڑے اسی وقت ہو تے ہیں جبکہ طر فین میں ہر ایک شخص اپنے حق پر اڑا رہے اگر ایک ان میں سے اپنے حق کو ترک کر دے تو پھر سب جھگڑے بند ہو جا ئیں ۔پس انکسار دنیا کے امن و امان کے بڑھانے میں ایک زبردست آلہ ہے اور ایثار کے سا تھ مل کر فساد کو بیخ وبُن سے اکھیڑ دیتا ہے ورنہ جھوٹ بولنا انکسار نہیں کہلا تا جیسا کہ ان دنوں عام طور پر سمجھا جا تا ہے اورنہ انکسار اس کو کہتے ہیں کہ کو ئی شخص سستی اور غفلت کی وجہ سے کام سے جی چرائے۔ بعض لو گ جنہیں کام کی عادت نہیں ہو تی سستی سے ان کا پا لا پڑا ہوا ہو تا ہے وہ انکسار کے پردہ میں اپنا پیچھا چھڑا نا چاہتے ہیں لیکن اس کا نام انکسار نہیں وہ غفلت اور سستی ہے۔ منکسرالمزاج وہی شخص ہے کہ وہ کام کی اہلیت رکھتے ہو ئے پھر خدا تعالیٰ کے جلال پر نظر کرتے ہوئے اپنی کمزوری کا مقرّہو لیکن جب اس کے کام سپرد ہو تو پوری ہمت سے اس کا م کو کرے جیساکہ رسول کریم ﷺ نے کیا کہ باوجود اس انکسار کے جب آپؐ کے سپرد اصلاح عالم کا کام کر دیا گیا تو وہی شخص جو‘‘میں پڑھنا نہیں جانتا’’کہہ کر اپنی کمزوری کا اقرار کر رہا تھا۔ رات اور دن اس تن دہی سے اس کام کے بجا لا نے میںلگ گیا کہ دنیا دنگ ہو گئی اور کو ئی انسان اس قدر کام کرنے والا نظر نہیں آتا جس قدر کہ آنحضرت ﷺ نے کیا ۔پس آپؐ کا انکسار سچا انکسارتھا۔کیونکہ باوجودلیا قت رکھنے کے آپؐ نے خدا کے جلال کا ایسا مطالعہ کیا کہ اپنی لیاقت کو بھلا دیا اور اللہ تعالیٰ کے نور کو اس طرح دیکھا کہ معلوم کر لیا کہ میری رو شنی در حقیقت اس نور کا سا یہ ہے۔

غرض آپؐ کے اس جواب سے کہ ‘‘میں پڑھنا نہیں جانتا’’صاف ثا بت ہو تا ہے کہ آپؐ ہمیشہ سے انکسار میںکمال رکھتے تھے اور گو فر شتہ کا آپؐ کو با ر بار چمٹا لینا ایک یہ معنی بھی رکھتا ہے کہ اس ذریعہ سے آپؐ کو اپنے کمالات پر واقف کیا جانا تھا لیکن میرے نزدیک تو اس کا ایک یہ بھی مطلب تھاکہ جب فرشتہ نے آپؐ کو اس بات کی خبر دی کہ دنیا کو خدا کا کلام سنانے پر آپؐ مامور کیے گئے ہیںتو اس نے دیکھا کہ بجا ئے اس کے کہ یہ شخص خوشی سے اچھل پڑے اور خود اس پیغام کو لے کر چل پڑے اور لو گوں کو فخر یہ سنا ئے کہ خدا تعالیٰ نے یہ کام میرے سپرد کیا ہے۔اس نے تو وہ رنگ انکسار اختیار کیا ہے جو کسی انسان نے اس سے پہلے اختیار نہ کیا تھا تو اس کا دل محبت کے جو ش سے بھر گیا اور بے اختیار ہو کر ا س نے آپؐ کو اپنے ساتھ چمٹا لیا جو اَو رمحبت کی لہر کا ایک ظہور تھا جو اس کے دل میں پیداہو گئی تھی اور جب آپؐ کو گلے لگا کر اس نے چھوڑا اور پھر وہی پیغام دیا اور پھر وہی جواب سنا تو محبت کی آگ نے ایک اَور شعلہ مارا اور پھر اس نے آپؐ کو گلے لگا لیا اور اسی طرح تیسری دفعہ کیااور تیسری دفعہ کے بعد آپؐ کے سامنے وحیٔ الٰہی کے الفاظ پڑھے کہ اب تو آپؐ جو کچھ بھی کہیں یہ خدا کی امانت آپؐ کے سپرد ہو گئی ہے اور آپؐ نے بلا چون و چراا سے قبول کیا۔لیکن آپؐ کے انکسار کو دیکھو کہ اب بھی تسلی نہیں ہو ئی اس قدر اصرار سے حکم ملتا ہے لیکن بھا گے بھا گے حضرت خدیجہ ؓکے پاس جاتے ہیں اور فر ما تے ہیں کہ مجھے اپنی جان پر ڈر آتا ہے۔اے نبیوں کے سردار ! اے انسانی کمالات کے جامع!اے بنی نوع انسان کے لیے ایک ہی رہ نما! تجھ پر میری جان قربان ہو۔تو اب بھی اپنے کمالات سے آنکھیں بند کر تا ہے اور یہی خیال کر تا ہے کہ میں اس قابل کہاں جو اس وَحْدَہٗ لَا شَریْککے پیغام کا اٹھا نے والا بنوں۔ فرشتہ تا کید پر تا کید کر تا ہے اور پیغام الٰہی آپؐ تک پہنچاتا ہے لیکن باوجود اس کے آپؐ ابھی تک اپنے حُسن سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور بار بار یہی فر ما تے ہیں کہ میں اس قابل کہاں حتّٰی کہ گھر آکر اپنی غم گسار حضرت خدیجہ ؓ سے فرماتے ہیں کہ میں اپنی جان پر خائف ہوں۔

چو نکہ یہ فقرہ بھی اپنے اندر ایک حکمت رکھتا ہے اس لیے اس کے سمجھانے کے لیے بھی تشریح کی ضرورت ہے۔الہام انسان کو دو طرح ہو تے ہیں کبھی ترقی کے لیے کبھی حجت کے لیے۔یعنی کبھی تو خدا تعالیٰ انسان کو اس کے درجہ کے بلند کر نے کے لیے مخاطب فر ما تا ہے اور کبھی اس پر حجت قائم کر نے کے لیے چنانچہ بہت سے لو گ جو خدا تعالیٰ کے حضور میں خاص قرب نہیں رکھتے ان کو بھی الہام ہو جا تے ہیں اور و ہ نادانی سے اس پرا ِترا جا تے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے آزمائش اور ان پر حجت ہو تے ہیں۔اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ بجا ئے ان الہامات سے فائدہ اٹھا نے کے وہ فخرو تکبر میں پڑ جا تےہیں اور آخر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ بھی چونکہ تواضع کے عالی مقام پر پہنچے تھے۔جب آپؐ کو الہام ہوا تو آپؐ گھبرا ئے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ کلام مجھ پر بطور آزمائش اورحجت نازل ہوا ہو اور یہ اپنا خوف حضرت خدیجہؓ کے آگے بیان فر ما یا جس پر انہوں نے آپؐ کو تسلی دلا ئی اور بتایا کہ جو اخلاق آپؐ کے ہیں اور جس مقام پر آپؐ ہیں کیا ایسے لوگوں کو بھی خدا تعالیٰ ضائع کر تا ہے اور اپنا یقین ظاہر کر نے کے لیے انہوں نے قسم کھائی کہ تیرے جیسے کاموں والا انسان کبھی ضا ئع نہیں ہو سکتا۔حجت اور آزمائش کے لیے تو ان کے الہام ہو سکتے ہیں جن کے اعمال میں کمزوری ہو یا متکبر ہوں۔جو شخص آپؐ جیسا غریبوں کا خبر گیر اور اخلاق حسنہ کا ظا ہر کر نے والا ہے کیا ان کو اللہ تعالیٰ تباہ کر سکتا ہے غرض حضرت خدیجہؓ کا جواب ظا ہر کر رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ میں اپنی جان پر ڈرتا ہوں۔اس کایہی مطلب تھا کہ مجھے خوف ہے کہ میری آزمائش نہ ہو جس پر انہوں نے تسلی دی کہ آپؐ آزمائش کے مقام سے با لا ہیں۔آپؐ پر یہ الہامات خدا تعالیٰ کے انعامات کے طور پر نازل ہو ئے ہیں چنانچہ آئندہ کی وحی نے آپؐ پر روز روشن کی طرح کھول دیا کہ آپؐ خدا تعالیٰ کے مقبول تھے اور آپؐ نے اپنے طریق عمل سے بتا دیا کہ آپؐ کا کہنا کہ ‘‘میں کہاںاس الہام کا سنانے والا ہو سکتا ہوں’’ صرف تواضع کے طور پر تھا نہ کہ بو جہ سستی اور ڈر کے کیونکہ جس جرأت اور زور سے آپؐ نے کام کیا اس کی نظیر کسی نبی میں بھی نہیں تھی۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button