از افاضاتِ خلفائے احمدیت

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط 33)

طہارۃ النّفس ۔انکسار

تکبر کے متعلق دو مثالیں بیان کرنے کے بعد میں یہ بیان کر نا چاہتا ہوں کہ نہ صرف یہ کہ آپؐ کے اندر تکبر نہ تھا بلکہ اس کے علاوہ آپ ؐ کی طبیعت میں حد درجہ کا انکسار(*انکسارکالفظ اُردو محاورہ کی وجہ سے رکھا گیا ہے ورنہ عربی زبان میں انکساران معنوں میں استعمال نہیں ہوتابلکہ اس کی بجائے تواضع کا لفظ استعمال کیا جاتاہے۔)بھی تھا اورآپ ؐ ہمیشہ دوسرے کی تعظیم کر نے کے لیے تیار رہتے تھےاور اپنا رویہ ایسا رکھتے تھے جس سے دوسرے لو گوں کا ادب ظاہر ہو اور یہ وہ بات ہے کہ جس سے عام طور پر لوگ خالی ہو تے ہیں۔خصوصًاامراء تو اس سے بالکل خالی ہی نظر آتے ہیں۔ایسے تو شاید بہت سے امراء مل جائیں جو ایک حد تک تکبر سے بچے ہو ئے ہوں لیکن ایسے امراء جو تکبر سے محفوظ ہونے کے علاوہ منکسر المزاج بھی ہوں شاذ ونادر ہی ملتے ہیں اور میرا یہ کہنا کہ شاذونادرمنکسرالمزاج امرا ءمل سکتےہیں اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ ایسے امراء بھی ہیں جو اپنے انکسار میں رسول اللہﷺ کا نمونہ ہیں۔کیونکہ رسول کریم ﷺ کا نمونہ تو انبیاء میں بھی نہیں مل سکتا چہ جائیکہ عام امراء میں مل جا ئے۔میرا یہ ایمان ہے کہ آپ اپنی تمام عادات اور تمام حرکات میں بے نظیر تھے اور اخلاق کے تمام پہلوؤں میں کل انبیاءؑ اور صلحاء پر فضیلت رکھتے تھے۔پس میں اگر کسی جگہ دوسرے امراء سے آپؐ کا مقابلہ کر تا ہوں تو صرف یہ دکھانے کے لیے کہ بادشاہوں اور امراء میں بھی نیک نمونے تو موجو دہیں لیکن جس طرح ہر رنگ اور ہر پہلو میں آپؐ کامل تھے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی اور دوسرے یہ بتا نے کے لیے کہ آپ ؐکو صرف نیک بختوں میں اور صلحاء میں شامل کر نا درست نہیں ہو سکتا بلکہ کسی ایک خلق میں بھی بہتر سے بہتر نمونہ جو مل سکتا ہے اس سے بھی آپؐ کا نمونہ بڑھ کر تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپؐ کو ئی نیک بخت بادشاہ نہ تھے بلکہ نبی تھے اور نبیوں کے بھی سردار تھے اور میں ان لو گوں کی کو شش کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں جو آپؐ کی لا ئف میں یہ کو شش کر تے ہیں کہ آپ ؐکے افعال کو چند اور بادشاہوں سے مشابہ کرکے دکھاتے ہیں اور اس طرح گو یا آپؐ پر سے وہ اعتراض مٹا نا چاہتے ہیں جو آپؐ کے دشمنوں کی طرف سے کیے جا تے ہیں اس کو شش کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک اچھے بادشاہ تھے۔لیکن ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ آپ ؐایک نبی تھے اور نبیوں کے سردار تھے۔پس جب تک آپ ؐ کے اخلاق کو دوسرے انسانوں کے اخلاق سے بہتر اور اعلیٰ نہ ثابت کیا جائے ہمارا دعویٰ با طل ہو جا تا ہے اور صرف بعض شریف با دشاہوں سے آپ ؐ کی مماثلث ثابت کر دینے سے وہ مطلب ہر گز پورا نہیں ہو تا جس کے پورا کرنے کے لیے ہم قلم اٹھا تے ہیں۔ پس میرا آپ ؐ کے مقابلہ میں دیگر امراء کی امثلہ پیش کر نا یا ان کی زندگی کی طرف متوجہ کر نا صرف اس غرض کے لیے ہو تا ہے کہ تا بتاؤںکہ اچھے سے اچھے نمونہ کو بھی آپؐ کے سامنے لاؤ کبھی وہ آپ ؐ کے آگے چمک نہیں سکتا بلکہ آپؐ کے سامنے یوں معلوم ہو تا ہےجیسے نصف النہار کے سورج کے مقابلہ میں شبِ چراغ۔

خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی۔میں اس وقت یہ بیان کر رہا تھا کہ گو بعض امراء تکبر سے خالی تو مل سکتے ہیں لیکن منکسر المزاج امراء بہت ہی کم اور شاذونا در ہی ملیں تو ملیں لیکن رسول کریم ﷺ ایک بادشاہ ہو کر جس منکسر المزاجی سے رہتے تھے وہ انسان کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔عرب کی سی قوم کا بادشاہ لا کھوں انسانوں کی جان کا مالک بڑوں اور چھوٹوں کے سامنے اس انکسار سے کام لیتا ہوا نظر آتا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جا تی ہے۔ دنیا کے بادشاہوں اور امراء کی زندگی کو دیکھو اور ان کےحالات پڑھو تو معلوم ہو تا ہے کہ کسی اپنے سے ادنیٰ آدمی کو سلام کہنا تو درکنار،اس کے سلام کا جو اب دنیا بھی پر اُن پردوبھر ہو تا ہے۔اول تو بہت سے ہوں گے جو معمولی آدمی کے سلام پر سر تک بھی نہ ہلائیں گے تو بعض ایسے ملیں گے جو صرف سر ہلاد ینا کافی سمجھیں گے۔ان سے بھی کم وہ ہوں گے جو سلام کا جواب دے دیں گے اور جو ابتداء میں سلام کریں وہ تو بہت ہی کم ملیں گے کیونکہ جن کی طبیعت میں تکبر نہ ہو وہ اس بات کو پسند نہ کریں گے کہ کو ئی غریب آدمی ان کو سلام کہے تو وہ اس کے سلام کا جواب نہ دیں لیکن ابتداء ًایک غریب آدمی کو سلام کہنا وہ اپنی شان کے خلاف سمجھیں گے۔لیکن رسول کریم ﷺ کی زندگی کے حالات پڑھ کر دیکھو کہ آپ ؐ ہمیشہ سلام کہنے میں سبقت کر تے تھے اور کبھی اس بات کے منتظر نہ رہتے تھے کہ کوئی غریب آدمی آپ کو خود بڑھ کر سلام کرےبلکہ آپؐ کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ آپ ؐ ہی پہلے سلام کہیں۔اس کے متعلق میں اس جگہ ایک ایسے شخص کی گواہی پیش کر تا ہوں جس کو آپؐ کی مدینہ کی زندگی میں برابر دس سال آپؐ کے سا تھ رہنے کا اتفاق ہوا ہے۔میری مراد حضرت انسؓ سے ہے جن کورسول کریم ﷺنے مدینہ تشریف لا نے پر ملازم رکھا تھا اور جو آپ ؐ کی وفات تک برابر آپؐ کی خدمت میں رہے ۔ان کی نسبت امام بخاری ؒ روایت کر تے ہیں:

عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ :اَنَّہٗ مَرَّ عَلٰی صِبْیَانٍ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ،وَقَالَ:کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہٗ

(بخاری کتاب الاستئذان باب التسلیم علی الصبیان)

یعنی حضرت انس ؓ ایک دفعہ ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں لڑکے کھیل رہے تھے تو آپ ؓنے ان کو سلام کہا اور پھر فر ما یا کہ آنحضرت ﷺ اسی طرح کیا کرتے تھے یعنی آپؐ بھی جب لڑکوں کے پاس سے گزرتے تھے۔تو ان کو سلام کہا کر تے تھے ان واقعات پر سرسری نظر ڈالنے والے انسان کی نظر میں شاید ایک معمولی سی بات ہو لیکن جو شخص کہ ہر ایک بات پر غور کر نے کا عادی ہووہ اس شہادت سے رسول کریم ﷺ کی منکسر انہ طبیعت کے کمال کو معلوم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں۔امراء کے لیے اپنے سے چھوٹے آدمی کو پہلے سلام کہنا ایک نہایت سخت مجاہدہ ہے او رممکن ہے کہ کبھی کبھار کو ئی امیر ایسا کر بھی دے لیکن ہمیشہ اس پر قائم رہنا ایک ایسی بات ہے جس کا ثبوت کسی دنیاوی بادشاہ کی زندگی سے نہیں مل سکتا۔پھر بچوں کو سلام میں ابتداکر نا تو ایک ایسی بات ہے جس کی بادشاہ تو الگ رہے امراء سے بھی امید کر نا بالکل محال ہے اور امراء کو بھی جا نے دو۔ کتنے بالغ وجو ان انسان ہیں جوباوجود دنیاوی لحاظ سے معمولی حیثیت رکھنے کے بچوں کو سلام میں ابتداء کر نے کے عادی ہیں اور جب گلیوں میں بچوں کو کھڑا پا تے ہیں تو آگے بڑھ کر ان کو سلام کہتے تھے۔شاید ایسا آدمی جو اس پر تعہدسے قائم ہو اورہمیشہ اس پرعمل کرتاہو ایک بھی نہ ملےگالیکن رسول کریمؐ کی نسبت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جیسےواقف کارصحابی جو ہروقت آپ کے ساتھ رہتے تھے فرماتے ہیں کہ آپؐ جب بچوں کے پاس سے گزرتے تھے تو اُن کو سلام کہتے تھے۔اس شہادت میں آپ نے کئی باتوں پر روشنی ڈالی ہے اول یہ کہ آنحضرت ﷺ انکسار کے اس اعلیٰ درجہ پر قدم زن تھے کہ بچوں کو سلام کہنے سے بھی آپؐ کو عار نہ تھا۔دوم یہ کہ آپؐ ان کو سلام کہنے میں ابتداء کر تے تھے۔سوم یہ کہ ایک یادو دفعہ کی بات نہیں آپؐ ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔اب اس شہادت سے ہر ایک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص بچوں کے ساتھ اس انکسار کے سا تھ پیش آتاتھا،وہ جوانوں کے سا تھ کس انکسار کے سا تھ معاملہ کر تا ہو گا اور اس کا نفس خودی اور تکبر سے کس حد تک پاک ہو گا۔

میں اس امر کی اوربہت سی مثالیں پیش کر تا لیکن چونکہ میں نے اس کتاب میں صرف ان مثالوں سے آپ ؐکی سیرت پر روشنی ڈالنے کا ارادہ کیا ہے جوبخاری میں پا ئی جا تی ہیں اس لیے اس وقت اسی مثال پر اکتفا کر تا ہوں۔

شروع سے ہی آپؐ کی طبیعت ایسی تھی۔آپ ؐ کی منکسرانہ طبیعت کے متعلق جو مثال میں نے د ی ہےشاید اس کے متعلق کوئی شخص کہے کہ گو امراء اس منکسر انہ طبیعت کےنہیں ہوتے لیکن چونکہ علاوہ بادشاہت کے آپؐ کو نبوت کا بھی دعویٰ تھا اور نبوت کے لیے ضروری ہے کہ انسان ہر قسم کے لوگوں سے تعلق رکھے اس لیے ممکن ہے کہ نعوذ باللہ آپؐ تکلف سے ایسا کر تے ہوں۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک یہ اعتراض درست ہے لیکن رسول کریم ﷺ پرنہیں پڑ سکتا اور اس کی یہ وجہ ہے کہ تکلف کی بات ہمیشہ عارضی ہو تی ہے تکلف سے انسان جو کام کر تا ہے اس پر سے کسی نہ کسی وقت پردہ اٹھ جا تا ہے لیکن جیسا کہ پہلی مثال سے ثا بت ہے۔آنحضرت ﷺ ہمیشہ ایک ہی بات پر قائم رہے اور ایک شخص،جو دس سال رات دن برابر آپ ؐ کے سا تھ رہا،گواہی دیتا ہے کہ ہمیشہ منکسر انہ معاملہ کر تے تھے تو اب اس میں شک کی کو ئی گنجائش نہیں رہ جاتی لیکن اس مثال کے علاوہ ایک اَور مثال بھی بخاری سے معلوم ہو تی ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ ؐ کی منکسرا نہ طبیعت ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا نتیجہ تھی جن پر آپؐ قائم تھے نہ کہ بناوٹ کا جیسا کہ آپؐ کے دشمن کہتے ہیں اور وہ ایک ایسے وقت کی بات ہے جبکہ آپ ؐ نے ابھی دعویٰ بھی نہ کیا تھا۔پس اس وقت بھی آپؐ کا انتہا درجہ کا منکسر المزاج ہو نا ثابت کر تا ہے کہ آپ ؐ کے تمام کام اس دلی پاکیزگی کا نتیجہ تھے جس نے آپؐ کو کسی زمانہ میں بھی نہیں چھوڑا۔

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِءَ بِهٖ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ،……الآخر

(بخاری باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ)

حضرت عائشہ ؓ فر ما تی ہیں کہ شروع شروع میں رسول کریم ﷺ کو سچی خوابیں آنی شروع ہوئی تھیں۔آپؐ جو خواب دیکھتے وہ اپنے وقت پر اس طرح ظاہر اً پو ری ہو تی جیسے پَوپھوٹتی ہے۔اس کے بعد آپؐ کے دل میں علیحد گی کی محبت ڈالی گئی پس آپ ؐ غار حراء میں جاکر علیحدہ بیٹھا کرتے تھے اور کچھ را تیں رہ کر وہاں عبادت کیا کر تے تھے(ایک خد ا کی۔ کیونکہ نبوت سے پہلے بھی آپ ؐنے کبھی شرک نہیں کیا)اور پھر گھر کی طرف واپس تشریف لاتے تھے اور پھر اس کام کے لیے کھانا وغیرہ لے جا تے یہاںتک کہ آپؐ کے پاس حق آگیا(یعنی وحی نا زل ہو ئی) اور آپ ؐ اس وقت غار حرا ء میں ہی تھے آپؐ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ پڑھ ! آپ نے جواباً فر ما یا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔آپؐ فرماتے تھے کہ اس پر فرشتہ نے مجھے پکڑ لیا اور اپنے سا تھ چمٹا لیا اور اس قدربھینچا کہ طا قت بر داشت نہ رہی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ ! میں نے کہا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا اس پر اس نے پھرمجھے پکڑا اور اپنے ساتھ چمٹا کر زور سے بھینچا حتّٰی کہ طا قت برداشت نہ رہی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ!

یہ آیات لے کر(یعنی یاد کرکے)رسول کریم ﷺ واپس تشریف لے آئے اور آپؐ کا دل دھڑک رہا تھاوہاں سے آکرآپؐ سیدھے حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لے گئے اورفرمایاکہ مجھے کپڑا اوڑھاؤ! اس پر آپؐ کے اوپر کپڑا ڈال دیا گیا اور آپؐ لیٹے رہے یہاں تک کہ خوف جا تا رہا۔پھر حضرت خدیجہ ؓ کو تمام قصہ سنایا اور فر ما یا کہ میں تو اپنی جان پر ڈرتا ہوں(یعنی مجھے خوف ہےکہ مجھ سے کیا معاملہ ہو نے لگا ہے)اس پر حضرت خدیجہ ؓ نے فر ما یا کہ ہر گز نہیں۔خدا تجھے کبھی ذلیل نہیں کرے گا کیونکہ تو رشتہ داروں کے سا تھ نیک سلوک کر تا اور کمزوروں کا بو جھ اٹھا تا ہے اور تمام وہ نیک اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں ان پر عامل ہے اور مہمان کی اچھی طرح سے خاطر کر تا ہے اور سچی مصیبتوں میں لو گوں کی مدد کر تاہے یہ کہہ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺکو ساتھ لیا اور ورقہ بن نو فل بن اسد بن عبدالعزیٰ جو حضرت خدیجہؓ کے چچا کے بیٹے یعنی چچا زاد بھا ئی تھے،ان کے پاس پہنچیں جو جاہلیت کے زمانہ میں مسیحی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرا نی میں انجیل کے بعض حصص،جن کی اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق دیتا ،لکھا کرتے تھے(یعنی اپنی جوانی میں)اور اس وقت وہ بوجہ بڑھاپے کے اندھے ہو چکے تھے۔حضرت خدیجہ ؓنے ان سے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ! اپنے بھا ئی کے بیٹےکی بات سن۔ورقہ نے آنحضرتﷺ سے پو چھا کہ اے میرے بھا ئی کے بیٹے ! کیا بات ہے۔آپؐ نے جو کچھ گزرا تھا آپ کے سامنے دہرا یا ۔اس پر ورقہ نے کہا کہ یہ وہی فر شتہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر نازل فر ما یا تھا۔اے کا ش ۔میں اس وقت جوان ہو تا۔اے کا ش میں اس وقت زندہ ہو تا جب تیری قوم تجھے نکال دے گی اس پر رسول کریم ﷺ نے فر ما یا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟انہوں نے کہا کہ ہاں! کو ئی شخص اس تعلیم کے سا تھ نہیں آیا جس کے سا تھ تُو آیا ہے مگر لو گوں نے اس سے دشمنی کی ہے اور اگر مجھے تیرا زمانہ ملا (یعنی جس وقت تیری تعلیم کا اعلان ہو گا اور لوگ مخالفت کریں گے ورنہ نبی تو آپ ؐ اسی دن سے ہوگئے تھے اور وحی قرآن نازل ہو نی شروع ہو گئی تھی)تو میں تیری بڑی مدد کروں گا۔پھر کچھ ہی دونوں کے بعد ورقہ فوت ہو گئے اور وحی ایک عرصہ کے لیے بند ہو گئی۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button