متفرق مضامین

حضرت ہاجرہ ؑکون تھیں؟ حدیث ما کذب ابراھیم الا ثلاث پر ایک تحقیق (قسط دوم)

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

قبل از مسیح روایات

بائیبل کی قدیمی تشریحات میں قبل از مسیح زمانہ کے صحائف قمران میں موجود چند صحائف بھی شامل ہیں ۔ [حاشیہ:صحائف قمران میں شامل مختلف نسخے چوتھی صدی قبل مسیح سے لے کر 68ء تک کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض صحائف پر تو تاریخ درج ہے، علاوہ ازیں کاغذ کے سائنسی تجزیہ اوردیگر متعدد طریقوں سے ان صحائف کا زمانہ متعین کیا گیا ہے۔

[Martinez, The dead sea scrolls translated, page xlvi۔xlviii]

سفر پیدائش میں مذکور حضرت ہاجرہ والے قصہ کے متعلق 1QapGen کے کالم 20تا 21میں تشریح کی گئی ہے۔اس میں یہ اضافی امور بیان کیے گئے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ نے خواب دیکھا جس کی آپؑ نے یہ تعبیر کی کہ لوگ آپؑ کو قتل کرنے آئیں گے جبکہ سارہ کو زندہ چھوڑ دیں گے۔ تب آپؑ نے سارہ کو کہا کہ وہ آپؑ کو اپنا بھائی بتائے۔پانچ سال تو خیریت سے گزر گئے۔ پھر فرعون نے سارہ کی خوبصورتی کا سن کر اس کے ساتھ شادی کر لی۔ اس رات حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوطؑ نے بہت دعا کی چنانچہ بادشاہ اور اس کے خاندان کے سب مردوں پر ایک بد روح اتری جس کی وجہ سے وہ سارہ کو چھو نہ سکا۔ دو سال تک سارہ اس جابر بادشاہ کے پاس رہیں ۔ آخر بادشاہ کا مصاحب ہرکانوس ابراہیمؑ کے پاس آیا اور درخواست کی کہ آپ فرعون کے لیے دعا کریں کیونکہ اسے خواب میں یوں کہا گیا ہے۔ حضرت لوطؑ نے جواب دیا کہ جب تک سارہ بادشاہ کے قبضہ میں ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔ تب بادشاہ نے حقیقت معلوم کر کے حضرت ابراہیمؑ کو کہا کہ اپنی بیوی لو اور اس ملک سے نکل جاؤ۔ بادشاہ نے سارہ کو سونا، چاندی ،قیمتی کپڑے اور ہاجرہ بھی دی۔

(Wise, Abegg, Cook, Die Schriftrollen von Qumran, page 96۔98۔Machiela, The Genesis Apocryphon, 123۔128۔)

جوبلی کی کتاب ، جس کے نسخے بھی صحائف قمران میں شامل ہیں، میں اکثر جگہ ہاجرہ کا مقام بائیبل کے مقابل پر بڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔( D Rothstein, Text and Context: Domestic Harmony and the Dipiction of Hagar in Jubilees, Page 243۔) مثلاً جہاں سفر پیدائش میں لکھا ہے کہ حضرت ابراھیمؑ کو سارہ کا ہاجرہ اور اسماعیلؑ کو نکالنے کا مطالبہ اس لیے ناگوار گزرا کہ یوں ان کا بیٹا ان سے جدا ہو جاتا، گویا ہاجرہ کا کوئی کردار یا اہمیت نہیں، وہاں جوبلی کے مطابق آپؑ کو ناگوار گزرا کہ آپؑ کی خادمہ اور بیٹا جدا ہوں (جوبلی باب 17۔ آیت5۔)یعنی دونوں کی جدائی آپؑ پر شاق بتائی گئی ہے۔ ضمناً یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس جگہ ہاجرہ کو سارہ کی بجائے حضرت ابراہیم ؑکی خادمہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح جہاں سفر پیدائش کا کہنا ہے کہ فرشتے نے ہاجرہ کو بتایا کہ خدا نے اسماعیلؑ کی آواز سن لی ہے، وہاں جوبلی کا کہنا ہے کہ فرشتے نے ہاجرہ کو بتایا کہ خدا نے تیری آواز سن لی ہے۔(جوبلی باب 17۔ آیت 11۔) غالباً جوبلیوں کی کتاب کا مقصد حضرت ابراہیمؑ کے خاندان میں ہم آہنگی ظاہر کرنا ہے جس کی خاطر تورات کے قصہ میں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور ہاجرہ و سارہ کا تعلق مختلف انداز میں دکھایا گیا ہے۔

( Van Ruiten, Hagar in the Book of Jubilees, page 138)

قبل از اسلام یہودی روایات

جوزیفوس

حضرت ہاجرہ کے متعلق ایسی ہی قدیم روایات جوزیفوس کی کتب میں بھی موجود ہیں۔ پہلی صدی عیسوی کا یہ مصنف روم کے خلاف یہودی بغاوت کا ایک اہم کردار تھا۔ اس کے مطابق سارہ اور فرعون کا معاملہ مصر میں داخل ہوتے ساتھ ہی پیش آیا تھا نہ کہ کئی سال بعد۔ نیز جب فرعون نے سارہ کو واپس کیا تو بہت سا مال دیا، مگر وہ نوکروں بالخصوص ہاجرہ کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔( Josephus, Antiquties of the Jews سفر ۱، باب 8)اسی طرح جوزیفوس نے سارہ اور ہاجرہ کے درمیان پہلا اختلاف، جو اسحاقؑ کی پیدائش سے پہلے ہوا تھا، اس نے حذف کر دیا ہے اور دوسرے اختلاف کے متعلق کہا ہے کہ سارہ کو خطرہ محسوس ہوا کہ حضرت ابراہیمؑ کی وفات کے بعد اسماعیلؑ ، جو کہ ان کی مصری خادمہ ہاجرہ کے بیٹے تھے، بڑے ہونے کی بناء پر اسحاقؑ کو نقصان نہ پہنچائیں۔( Josephus, Antiquties of the Jews، سفر 1، باب 12۔)اس طرح گویا اس نے سارہ کے ہاجرہ کو گھر سے نکالنے کے مطالبہ کا جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔( Van der Lans, Hagar, Ismael, and Abraham´s Household, page 188۔)جوزیفوس کوشش کرتا ہے کہ ہر بات رومی قانون کے مطابق پیش کی جائے۔ اس لیے اس نے متعدد جگہ پر بائیبل کے بیانات کو حذف کیا ہے یا ان کو رومی قانون کے مطابق کرنے کے لیے نیا رنگ دیا ہے۔
(Van der Lans, Hagar, Ismael, and Abraham´s Household, page 199)

مدراش رباہ

حضرت ہاجرہ کے متعلق قبل از اسلام یہودی روایات میں تورات کی مشہور تفسیر “مدراش رباہ ’’بھی شامل ہے۔ یہ تفسیر چھٹی صدی عیسوی، یعنی آغاز اسلام سے قریباً ایک سو سال قبل تحریر کی گئی ہے۔( Freedman, Midrash Rabbah, صفحہ xxix۔ Poorthuis, Hagar´s wanderings: Between Jewism and Islam, page 224۔) اس میں حضرت ابراہیمؑ کے سفر مصر کے حالات بیان کرتے وقت حضرت ہاجرہ کا کوئی ذکر نہیں۔ البتہ بعد کے واقعات کے ضمن میں بتایا ہے کہ ہاجرہ فرعون کی بیٹی تھیں جنہیں اُس نے یہ خیال کرتے ہوئے سارہ کو دیا تھا کہ کسی دوسرے گھر میں مالکہ ہونے کی نسبت اس گھر میں خادمہ رہنا اس کے لیے بہتر ہے۔ اس جگہ ہاجرہ نام کی وجہ تسمیہ “یہ اجر ’’بتائی گئی ہے (ה-אגר) ۔

(Freedman, Midrash Rabbah, Ch45, Page 380)

یہ ایک اہم نکتہ ہے جس پر آگے مزید بحث ہو گی۔ مدراش رباہ میں لفظ مضحک (کھیلنا یا مذاق کرنا )سے جو تورات کی کتاب پیدائش میں بیان ہوا ہے (پیدائش باب 21، آیت 9۔)حضرت اسماعیلؑ پر عورتوں پر حملہ اور حضرت اسحاق ؑپر تیر چلانے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

(,Freedman, Midrash Rabbah Ch 53، Page 470۔ Poorthuis, Hagar´s wanderings: Between Jewism and Islam, Page 226۔)

اسی طرح یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابراھیمؑ کی تیسری بیوی، قطورہ ، درحقیقت حضرت ہاجرہ ہی تھیں اور یہ ان کا دوسرا نام ہے۔( Wünsche, Midrasch Bereschit Rabba, زیر باب 61 )[حاشیہ: اس بارہ میں مدراش میں قطورہ کے نام سے بھی استنباط کیا گیا ہے اور پیدائش باب 25آیت 1 سے بھی۔چونکہ یہاں پیلگاشیم (لونڈیوں )جو جمع کا صیغہ ہے کی بجائے پیلگاشم لکھا ہے اس لیے ربی یہودا کے نزدیک مراد پلگیش ۔شم ہے یعنی ایک لونڈی جو وہاں بیٹھی تھی یعنی کنویں پر یعنی ہاجرہ دیکھیں: Bakhos, The Family of Abraham,صفحہ 111۔112] ان کہانیوں کا اصل مقصد بھی مدراش رباہ میں مذکور ہے:
“جب ہمارا باپ اسحاق پیدا ہوا تو سب نے خوشی کی۔ اس پر اسماعیل نے انہیں کہا کہ تم بیوقوف ہو۔ میں پہلوٹھی کا بیٹا ہوں۔ اس لیے وراثت میں مجھے دوہرا حصہ ملے گا۔ یہ بات سارہ کے اس قول سے ظاہر ہوتی ہے کہ “اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ وارث نہ ہو گا”(پیدائش 21باب، آیت 10)۔ میرا بیٹا:خواہ وہ اسحاق نہ ہوتا۔ اسحاق: خواہ اسحاق میرا بیٹا نہ ہوتا۔ پس میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ تو ہرگز نہیں”

( Freedman, Midrash Rabbah,باب 53,صفحہ 470)

یعنی اصل مسئلہ وراثت کا ہے۔ اس ضمن میں پھر دیگر جواز بھی ڈھونڈے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے باوجود ایک موقع پر بنواسماعیل نے بنو اسحاق کے دشمنوں کی مدد کی اور شدید پیاس کے وقت ان کو پانی نہیں دیا اور ان کی ہلاکت چاہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت اسماعیلؑ کو ماں سمیت گھر سے نکالا گیا اور پانی ختم ہونے پر وہ قریب المرگ ہو گئے تو معجزانہ طور پر پانی کا کنواں ظاہر ہوا (پیدائش باب 21آیت 18)۔ اس وقت:
“فرشتوں نے کہا اے مالک ارض و سماء کیا تو اس کے لیے کنواں نکالے گا جو کہ ایک دن تیرے بچوں کو پیاسا مارے گا؟ [حاشیہ: اس واقعہ کے متعلق ربیوں کا خیال ہے کہ یسعیاہ باب 21، آیت 13 میں “عرب کے متعلق بار نبوت” کے تحت یہ جو کہا گیا ہے کہ “پیاسے سے ملنے کے لیے پانی لا ؤ، اے تیما کی سرزمین کے باشندو!روٹی لے کر بھگوڑوں سے ملو”یہ عربوں کو حکم دیا گیا تھا کہ یہود کی مدد کی جائے اور انہیں پانی اور روٹی مہیا کی جائے۔ لیکن انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہود کو پانی اور روٹی نہیں دی ۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے طالمود یروشلمی میں بتایا گیا ہے کہ نبوکدنضر کے حملہ کے وقت 80 ہزار مذہبی طالب علم حملہ آور افواج سے بھاگ کر اسماعیلیوں کے پاس گئے ۔ جب انہوں نے کہا کہ ہمیں پانی اور روٹی دو تو اسماعیلیوں نے نمکین چیزیں اور ایسے مشکیزے لا کر دیے جن میں ہوا بھری ہوئی تھی۔ اس سے گویا ان کی پیاس مزید بڑھ گئی۔ ربی یوحنان اس پر سوال کرتے ہیں کہ کیا چچا زادوں کو یہ سلوک کرنا چاہئے تھا؟ طالمود یروشلمی ، سفر تاعنیت۔4: 5 بمطابق 4، 69ب۔] خدا وند نے کہا وہ اس وقت کیا ہے؟ فرشتوں نے جواب دیا : راست باز۔ خدا وند نے کہا کہ میں انسان کے ساتھ محض اس کی موجودہ حالت کے مطابق سلوک کرتا ہوں”

( Freedman, Midrash Rabbah,باب 53، صفحہ 473)

اس رقابت، جس کی جڑیں بہرحال سارہ اور ہاجرہ کی باہمی چپقلش میں پیوستہ ہیں، بہت سے قصص گھڑے گئے ہیں۔ یہودی روایات میں بہت دور کی کوڑیاں لا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسماعیلی اول تو وارث نہیں ہیں۔ دوسرے وہ اسرائیلیوں سے بہرحال کمتر درجہ رکھتے ہیں۔(Bakhos, Ishmael on the Border. Rabbanic portrayals of the first Arab۔) پس ہاجرہ کو سارہ کی لونڈی بیان کرنا اسی بیانیے کا حصہ ہے۔

ترجومیم

حضرت ہاجرہ کے متعلق یہودی روایات کا ایک حصہ ایسا ہے جو لکھا تو ابتدائی اسلامی زمانہ میں گیا ہے تاہم قدیم مواد پر مبنی ہے۔ اس میں تورات کے تشریحی تراجم ، “ترجومیم”، شامل ہیں۔ تورات کے آرامی زبان میں تفسیری ترجمہ ،ترجوم فلسطینی ، جسے ترجوم یروشلمی بھی کہا جاتا ہے، میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ہاجرہ فرعون کی بیٹی تھیں جنہیں فرعون نے سارہ کو بطور خادمہ دیا ۔ نیز بتایا گیا ہے کہ یہ فرعون اُسی نمرود کا بیٹا تھا جس نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا تھا۔ پس حضرت ہاجرہ نمرود کی پوتی تھیں۔ مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سارہ نے ہاجرہ کو آزاد کر کے حضرت ابراہیمؑ کو دیا تھا ۔(Martinez، Hagar in Targum Pseudo-Jonathan۔صفحہ 264۔266۔ Etheridge، The Targums …، باب 16، صفحہ 205۔)اس عجیب خیال کی بنیاد غالباً یہ ہے کہ اس طریق پر سارہ کے ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ غیر مناسب سلوک کا جواز فراہم کیا جائے۔( Martinez، Hagar in Targum Pseudo-Jonathan۔صفحہ 274۔) ترجوم فلسطینی میں ہاجرہ کو مغربی آرامی زبان میں (אמתא) “امتا” اور ترجوم نیوفیتی ، میں (אמתה) “امتہ” کہا گیا ہے۔( Martinez، Hagar in Targum Pseudo-Jonathan۔صفحہ 267۔) ان دونوں ترجومیم میں بھی ہاجرہ کا دوسرا نام قطورہ بتایا گیا ہے۔( Martinez، Hagar in Targum Pseudo-Jonathan۔صفحہ 268۔ نیز دیکھیں سفر پیدائش باب 25)

ترجوم فلسطینی کے مطابق سارہ کی طرف سے حضرت اسماعیلؑ کی مخالفت کی وجہ نعوذ باللہ بت پرستی تھی، نیز کہا گیا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کو پیاس لگنے کی وجہ یہ تھی کہ ہاجرہ ہدایت سے بھٹک گئی تھیں اور بیر سبع کا کنواں انہیں اسی وقت نظر آیا جب انہوں نے بت پرستی سے توبہ کی۔(Etheridge، The Targums …، باب 21، صفحہ 221۔222۔ Martinez، Hagar in Targum Pseudo-Jonathan۔صفحہ 271۔)حضرت ابراہیمؑ کے سفر مصر میں سارہ پر فرعون کے قبضہ کا ذکر تو ہے مگر ہاجرہ دینے کا کوئی ذکر نہیں۔( Etheridge، The Targums …، باب 12، صفحہ 194۔) اس کی بجائے بعد کے واقعات کے ضمن میں بتایا گیا ہے کہ فرعون نے مصر والے واقعہ کے بعد ہاجرہ دی تھیں ۔( Etheridge، The Targums …، باب 16، صفحہ 204۔)ایک قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس ترجوم کے مطابق جب ہاجرہ کو گھر سے نکالا گیا تو حضرت ابراہیمؑ نے پانی کا مٹکا ان کی کمر کے ساتھ باندھ دیا تاکہ وہ ان کی غلامی کا نشان ہو۔( Etheridge، The Targums …،باب 21،صفحہ 222۔)یہ ایک اہم بات ہے ۔

ترجوم اونکیلوس میں سفر پیدائش کے باب 12میں حضرت ابراہیمؑ کے مصر جانے اور سارہ کے فرعون کے قبضہ سے نجات پانے کا جو واقعہ لکھا ہے اس میں حضرت ہاجرہ کا کوئی ذکر نہیں۔( Etheridge، The Targums of Onkelos and Jonathan ben Uzziel، صفحہ 58۔) باب 16 میں ہاجرہ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ آپ سارہ کی خادمہ تھیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ فرعون کی طرف سے سارہ یا حضرت ابراہیمؑ کو ہاجرہ بطور لونڈی یا خادمہ دینے کا کوئی واقعہ مصنف کو معلوم نہیں تھا اسی لیے باب 16 میں ان کا تعارف کروانا ضروری سمجھا گیا۔

ربی الیعزر کی تفسیر

اس دور کی آخری اہم روایات ربی الیعزر کی تفسیر میں ہیں۔ یہ تفسیر 750ء کے قریب اپنی موجودہ شکل میں لکھی گئی ہے ، یعنی اسلام کی آمد کے قریباً سو سال بعد، تاہم اس میں پہلی صدی عیسوی کی روایات بھی پائی جاتی ہیں۔(Friedlander, Pirke de Rabbi Eliezer,صفحہ LIX۔Pinker، The Expulsion of Hagar and Ishmael،صفحہ 17) بالخصوص اس تفسیر کی حضرت ہاجرہ کے متعلق روایات کے بارہ میں بعض علماء کا خیال ہے کہ وہ قبل از اسلام زمانہ کی ہیں۔( Poorthuis، Hagar´s wanderings: Between Jewism and Islam۔) بنیادی طور پر یہ روایات بائیبل کی تفاسیر پر مشتمل ہیں اور ان کا مآخذ اسلامی روایات نہیں۔( Aviva Schussmann بحوالہ Bakhos، صفحہ 114۔) اس تفسیر میں حضرت اسماعیلؑ اور بنو اسماعیل میں فرق کیا گیا ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کے متعلق روایات بائیبل کی تشریح اور یہودی روایات پر مبنی ہیں۔ جبکہ بنی اسماعیل کے متعلق امور اسلام کی آمد پر یہود کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔( Bakhos، Ishmael on the Border، صفحہ 131۔)ایک تفصیلی تجزیہ میں شوسمین صاحبہ نے ثابت کیا ہے کہ گو ربی الیعزر کی تفسیر اسلامی دور میں لکھی گئی ہے لیکن اول تو یہ تفسیر ان اسلامی کتب سے پہلے لکھی گئی ہے جن میں یہ قصص بیان ہوئے ہیں۔ دوسرے عربوں نے ان اسرائیلیات میں تبدیلی کرتے ہوئے حضرت اسماعیلؑ کو مثبت رنگ میں پیش کیا ہے لیکن بعض منفی پہلو پھر بھی باقی رہ گئے ہیں۔( Lowin، Abraham in Islamic and Jewish Exegesis، صفحہ 230۔) چنانچہ وہ یہ نتیجہ نکالتی ہیں کہ یہ قصہ اصل میں عبرانی ہے۔

(دیکھیں Bakhos ، Abraham visits Ismael: a Revisit، صفحہ 567: she concludes that the story is an original Hebrew composition۔)
حضرت ہاجرہ کے متعلق اس تفسیر میں یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ آپ کی والدہ فرعون کی لونڈی تھی۔( Friedlander، Pirke de Rabbi Eliezer، باب 26، صفحہ 190۔) غالباً حضرت ہاجرہ کے شہزادی ہونے کی بات ان علماء کو مناسب معلوم نہیں ہوئی اس لیے ان کی والدہ کو بھی لونڈی بنا دیا گیا ۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سارہ کے مطالبہ پر حضرت ابراھیمؑ نے حضرت ہاجرہ کو گھر سے نکالتے وقت طلاق بھی دی تھی اور اس کے نشان کے طور پر آپ کا نقاب اتار کر کمر سے باندھ دیا جو کہ زمین پر گھسٹتا گیا۔( Friedlander، Pirke de Rabbi Eliezer، باب 30، صفحہ216۔)یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے ۔ اسی طرح ایک طویل قصہ بیان کیا گیا ہے جس کے مطابق حضرت ابراہیمؑ دو مرتبہ حضرت اسماعیلؑ کو ملنے گئے۔ دونوں مرتبہ سارہ سے وعدہ کر کے گئے کہ اپنی سواری سے نیچے نہ اتریں گے۔ پہلی دفعہ حضرت اسماعیلؑ کی بیوی نے آپؑ کی خاطر تواضع نہیں کی اس لیے آپؑ نے دروازے کی چوکھٹ تبدیل کرنے کا پیغام چھوڑا۔ اس پر حضرت اسماعیلؑ نے اُس بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کی۔ اگلے سفر پر آپؑ نے چوکھٹ قائم رکھنے کا حکم دیا۔(Friedlander، Pirke de Rabbi Eliezer، باب 30، صفحہ 217۔219۔) سارہ کی وفات کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے حضرت ہاجرہ سے دوبارہ شادی کر لی تھی۔ قطورہ آپ ہی کا نام ہے۔

(Friedlander، Pirke de Rabbi Eliezer، باب 30، صفحہ 219۔) حضرت ہاجرہ پر نعوذ باللہ شرک کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔(Friedlander، Pirke de Rabbi Eliezer، باب 30، صفحہ 217۔ Poorthuis، Hagar´s wanderings: Between Jewism and Islam، صفحہ 227۔228۔)

یہودی روایات کا تجزیہ

تورات کے بیان کردہ قصص پر یہودی نکتہ نظر سے متعدد سوالات اٹھتے تھے ۔مثلاً اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت سارہ کو معجزانہ طور پر اولاد دینی ہی تھی تو ان کی بجائے حضرت ہاجرہ کے ہاں پہلے اولاد کیوں ہوئی، چھوٹی ہونے کے باوجود سارہ کی اولاد کو ہاجرہ کی اولاد پر فوقیت کیوں حاصل ہے ، پہلی مرتبہ جب سارہ نے ہاجرہ کے ساتھ سختی کی تو کیا یہ اخلاقی طور پر مناسب فعل تھا، سارہ نے حضرت ہاجرہ اور اسماعیلؑ کو گھر سے نکلوایا تو کیا یہ زیادتی نہیں تھی، حضرت ابراہیمؑ کا ماں بیٹے کو ایک مشکیزہ پانی کے ساتھ صحرا میں اکیلا چھوڑ دینا کیا سنگدلی نہیں تھی۔ بائیبل کے بیان پر اس طرح کے کم و بیش 18سوالات اٹھتے ہیں۔( Pinker، The Expulsion of Hagar and Ishmael، صفحہ 2۔3۔) بلکہ سخت اعتراضات ہوتے ہیں۔( Reiss ، The actions of Abraham: a life of ethical contradictions ۔) ربیوں نے ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے اور ان کے موافق ہی یہودی تفاسیر میں متعدد قصص تراشے گئے ہیں ۔

بائیبل میں ایک قصہ تین مرتبہ

بائیبل میں حضرت ابراہیمؑ کے مصر جانے کے متعلق جو لغو قصہ بیان کیا گیا ہے اس کے غلط ہونے پر یہ بات ہی کافی ہے کہ یہ قصہ کتاب پیدائش میں تین مرتبہ بیان کیا گیا ہے۔ باب 12 میں تو یہ ذکر ہے کہ مصر کے بادشاہ نے سارہ پر قبضہ کیا تھا اور سارہ کو بہن بتایا گیا تھا جبکہ باب 20کے مطابق دوسری مرتبہ جیرار کے بادشاہ ابی ملک نے سارہ پر قبضہ کر لیا کیونکہ یہاں بھی ابراہیمؑ نے ان کو اپنی بہن قرار دیا تھا۔ تیسری مرتبہ باب 26میں جیرار کے بادشاہ ابی ملک نے ربقہ پر قبضہ کر لیا تھا جس کو حضرت اسحاقؑ نے اپنی بہن بتایا تھا۔(سفر پیدائش باب 26۔) یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک ہی واقعہ یکے بعد دیگرے تین مرتبہ پیش آیا ہو اور ایک ہی بات ، یعنی بیوی کو بہن بتانا، کرنے سے لوگ تین مرتبہ دھوکا کھا گئے ہوں۔ پھر ایک ہی بادشاہ ، ابی ملک، کے ساتھ دو مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا ہو پہلے باپ کے متعلق پھر بیٹے کے متعلق اور پھر بھی وہ دھوکا کھا گیا ہو۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ مخصوص مقاصد کی خاطر گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ انبیاء کی عفت و حق گوئی اور عظمت پر ان قصص سے جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں وہ الگ ہیں۔

ہاجرہ کیسے آئیں

پہلا حل طلب سوال یہ ہے کہ حضرت ہاجرہ ، جو کہ بائیبل کے بیان کے مطابق ایک مصری خاتون تھیں، سارہ کی لونڈی یا خادمہ کیسے بنیں؟ بائیبل اس بارہ میں خاموش ہے۔ سفر پیدائش باب 12 میں، جہاں حضرت ابراہیمؑ کے مصر جانے والا قصہ بیان ہوا ہے، یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ بادشاہ نے ہاجرہ بطور خادمہ سارہ کو دیں۔ اسی لیے جب باب 16 میں ہاجرہ کا ذکر آیا ہے تو ان کا تعارف کروانے کی ضرورت محسوس کی گئی اور انہیں سارہ کی لونڈی یا خادمہ بتایا گیا ہے۔ لیکن اس جگہ بھی یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ ہاجرہ کیونکر سارہ کی خادمہ بنیں۔ یہی وہ خلا ہے جسے پُر کرنے کے لیے تورات کے مفسرین نے متعدد قصے تراشے ہیں۔ چنانچہ یہ خیال پیش کیا گیا کہ جب فرعون نے حضرت ابراہیمؑ کو سارہ واپس کیں تو ہاجرہ ساتھ دیں۔ بائیبل میں صرف اتنا ذکر ہے کہ ہاجرہ مصری خاتون تھیں ۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے یہ قصہ بائیبل کےسفر پیدائش میں تین مرتبہ بیان ہوا ہے اور ہرگز قابل قبول نہیں۔ بعد کی حاشیہ آرائی محض سارہ کے مقام کو بلند ظاہر کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ اسی لیے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ترقی پائی جاتی ہے۔ جہاں سفر پیدائش خاموش ہے وہاں قبل از مسیح روایات میں ہاجرہ کے فرعون کی طرف سے دیے جانے کا ذکر ہے۔ مدراش رباہ میں مزید تفصیل بتاتے ہوئے انہیں کو فرعون کی بیٹی بتایا گیا تھا تو ترجومیم میں نمرود کی پوتی ہونے کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ ربی الیعزر نے ہاجرہ کی ماں کے بھی لونڈی ہونے کا خیال پیش کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کو بہن قرار دینے اور ہاجرہ کے لونڈی ہونے کا قصہ بعد کی ایجاد ہے ۔

لونڈی یا خادمہ؟

ایک اہم سوال یہ تھا کہ حضرت ہاجرہ کی حیثیت کیا تھی؟ اس ضمن میں سفر پیدائش کے مختلف حصوں میں مختلف آراء پیش کی گئی ہیں۔ یاہویسٹ (J) کا کہنا ہے کہ حضرت ہاجرہ سارہ کی خادمہ تھیں ۔(پیدائش باب 16 ،آیت 1۔)ان کی یہ حیثیت آخر تک برقرار رہی اسی لیے سارہ اور ہاجرہ میں اختلاف پر حضرت ابراہیمؑ نے سارہ کو کہا کہ یہ تیری خادمہ (ִשְׁפָחֵתךְ) ہے، تو جو سلوک چاہے اس کے ساتھ روا رکھ۔(پیدائش باب 16، آیت 6۔) کاہن (P)کا کہنا ہے کہ آپ سارہ کی خادمہ تھیں جو کہ حضرت ابراہیمؑ کو بطور بیوی (אָשּׁה) دی گئیں۔( پیدائش باب 16، آیت 3۔) یعنی اس کے نزدیک ہاجرہ کا درجہ سارہ کی خادمہ کے علاوہ حضرت ابراہیمؑ کی بیوی کا بھی ہو گیا۔ ان دونوں کے مقابل پر ایلوہسٹ (E) حضرت ہاجرہ کو لونڈی (אָמה) بیان کرتا ہے ۔(پیدائش باب 21، آیت 10۔) گویا حضرت ہاجرہ کی تین مختلف حیثیتیں بیان ہوئی ہیں ( Yoo، Hagar the Egyptian: Wife, Handmaid and Concubine ، صفحہ232۔ 235) اور بائیبل کے ان تینوں مصنفین نے الگ الگ تصاویر پیش کی ہیں۔

(Nobel, A place for Hager´s Son، صفحہ 149۔150۔)

عبرانی زبان میں خادمہ ، نوکرانی، لونڈی وغیرہ کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں ایک لفظ “عبودہ’’ (עבדה)ہے جس سے مراد ملکیت میں موجود عورت ہے یعنی لونڈی۔(سفر پیدائش باب 26، آیت 14۔)بائیبل میں یہ لفظ حضرت ہاجرہ کے لیے کہیں استعمال نہیں ہوا۔( Drey، The Role of Hager in Gen 16، صفحہ 183۔) بائیبل میں استعمال شدہ دو دیگر اصطلاحات “امہ” (אָמה) اور “شپہح”(ִשְׁפָחֵה)ہیں۔ ان دونوں میں فرق پر کافی بحث ہوئی ہے ۔بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں جبکہ دیگر کے خیال میں ان میں فرق ہے جس پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ کے نزدیک ایک اصطلاح قانونی معاملات میں استعمال ہوتی ہے اور دوسری عام بول چال میں۔ بعض کے نزدیک شپہحزیادہ تحقیر کا لفظ ہے۔ بعض کے خیال میں شپہح مخصوص لفظ ہے جس سے مراد غیر شادی شدہ خادمہ ہے جبکہ امہ عمومی لفظ ہے جس میں ہر طرح کی لونڈی شامل ہے۔ اسی طرح یہ خیال بھی پیش کیا گیا ہے کہ عورت کی لونڈی شپہح جبکہ مرد کی لونڈی امہ کہلاتی ہے وغیرہ۔( Bridge، Female Slave vs Female Slave ، صفحہ 1۔صفحہ 7۔) ان کثیر التعداد اختلافات سے ظاہر ہے کہ کوئی بھی بات واضح اور ثابت شدہ نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ حقیقت ہے کہ بائیبل کا لکھنے والا نہ تو کوئی ایک شخص تھا نہ ہی لکھنے والوں نے ہر لفظ کے متعلق پورا خیال رکھا ہے کہ کون سا لفظ کس جگہ استعمال کرنا ہے۔ چنانچہ ایک ہی لفظ کبھی ایک معنی میں اور کبھی دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ وقت کے ساتھ الفاظ کے معنی میں فرق بھی پڑ جاتا ہے۔ جدید تحقیق کی رو سے یہ دونوں اصطلاحات ہم معنی ہیں، گو ان کے استعمال میں کچھ فرق ہو۔( Bridge، Female Slave vs Female Slave ، صفحہ 8۔صفحہ 21۔ Yoo، Hagar the Egyptian: Wife, Handmaid and Concubine ، صفحہ 227۔229۔)

بہرکیف شپہح کے لفظ کے بائیبل میں استعمال سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حضرت ہاجرہ کو غلام یا لونڈی سمجھنا غلط ہے کیونکہ بائیبل ہی میں ، خصوصاً حضرت یعقوبؑ کے قصص میں، اس لفظ کے استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاندان میں شپہح کا ایک خصوصی مرتبہ تھا چنانچہ حضرت ہاجرہ کو سارہ کی لونڈی کی بجائے خادمہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔( Drey، The Role of Hager in Gen 16، صفحہ 185۔186۔)

مشرق وسطیٰ کے قوانین اور بائیبل

مشرق وسطیٰ میں رائج قدیم قوانین کے ساتھ موازنہ سے ظاہر ہوتا ہے کس طرح بائیبل کے قصص کو ان قوانین کے عین مطابق بیان کیا گیا ہے۔ اُر۔نامو کے قوانین میں یہ درج ہے کہ اگر لونڈی اپنی مالکہ کے برابر ہونے کی کوشش کرے تو اسے سزا دی جائے۔ یہ اس علاقہ کا صدیوں پر پھیلا رواج تھا۔ چنانچہ تین صدیوں بعد آنے والے حمورابی کے قوانین میں بھی اس بات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے موافق بائیبل میں حضرت ہاجرہ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ آپ نے لونڈی ہونے کے باوجود سارہ کو حقیر جانا۔(سفر پیدائش باب 16، آیت4۔)مگر کوئی تفصیل بیان نہیں ہوئی کہ ایسا کس طرح کیا گیا۔ اس الزام سے پھر سارہ کے ہاجرہ کے ساتھ سلوک کا جواز نکالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

لپت۔اشتار کے قوانین کے مطابق دوسری بیوی کے بچوں کا وراثت میں برابر کا حصہ ہوتا ہے جبکہ لونڈی کے بچوں کا وراثت میں حصہ نہیں ہوتا۔ وراثت یہود کے لیے ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ ان کا یہ اصرار ہے کہ وہی خدا تعالیٰ کی منتخب شدہ قوم اور تمام برکات کے واحد وارث ہیں۔ اسی لیے بائیبل میں حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوبؑ، افرائیم وغیرہ متعدد لوگوں کے متعلق استثنائی قصے بیان کر کے حق وراثت کا اصل حقدار کی بجائے کسی اور کو منتقل ہونا دکھایا گیا ہے۔ اسی طریق پر حضرت اسماعیلؑ کے وارث نہ ہونے کو ثابت کرنے کے لیے اُس زمانہ کے رائج قوانین کے موافق ایسے قصص بیان کیے گئے ہیں جن سے اس دعویٰ کو ایک بنیاد فراہم ہو۔ چنانچہ سفر پیدائش میں کہا گیا ہے کہ : اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اسحاق کے ساتھ وارث نہ ہو گا۔(سفر پیدائش باب 21، آیت 10۔)درحقیقت حضرت ہاجرہ کو لونڈی بیان کرنے اور ان پر مختلف الزامات لگانے کا بنیادی مقصد یہی نظر آتا ہے کہ بنو اسماعیل کو وراثت سے محروم دکھایا جائے۔

قدیم قوانین کی روشنی میں بائیبل کے مطابق بنو اسماعیل لونڈی کے بچے ہونے کی بنا پر حضرت ابراہیمؑ کی وراثت میں شامل نہیں تھے۔ لیکن حمورابی کے قانون کے مطابق لونڈی کے بچے بھی باپ کی وفات کے بعد اس صورت میں وارث ہوتے ہیں مگر اس کی شرط یہ ہے کہ باپ ان بچوں کو اپنائے اور اپنی زندگی میں بیوی کے بچوں کے برابر رکھے۔ شاید اسی کے پیش نظر یہودی تفاسیر میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت ہاجرہ کو طلاق بھی دی گئی تھی۔

پس بنی اسرائیل کو حضرت ابراہیمؑ کے بلا شرکت غیرے وارث ظاہر کرنے کے لیے یہ قصص یا تو مکمل طور پر گھڑے گئے ہیں یا پھر ان پر ملمع سازی کی گئی ہے ۔ وقت کے ساتھ ان میں مذکورہ الزامات اور وضاحتوں میں ترقی بھی اسی طریق کار کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

سامری روایت

سامری روایات میں ان کی مخصوص تورات، جو کہ بعض اہم جگہوں پر یہودی تورات سے مختلف ہے، کے علاوہ اساطیر کے نام سے تورات کی ایک تفسیر بھی شامل ہے۔ یہ تفسیر قریباً 250 تا 200 ق م کی تصنیف شدہ ہے۔[حاشیہ: Gaster، The Asatir،صفحہ 160۔ اس بارہ میں جدید محققین نے کلام کیا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ دسویں صدی کی تصنیف ہے۔ اس کی بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس میں عربی الفاظ اور محاورے استعمال ہوئے ہیں۔ JA Montgomery، Samaritian Documents۔ Heller اور Gaster کے درمیان اس بارہ میں دلچسب تبادلہ خیال ہوا جو کہ 1933ء میں چھپ چکا ہے۔ Heller und Gaster، Samaritisches۔ لیکن یہ دلیل خود گاسٹر نے اس بنا پر رد کر دی تھی کہ ایسے الفاظ اور محاوروں کی موجودگی سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سامریوں نے پرانے ناموں یا محاوروں کی جگہ بطور تشریح نئے نام استعمال کیے جو وقت کے ساتھ ساتھ اصل کی جگہ درج کر دئے گئے۔ وگرنہ اساطیر میں بیان کردہ روایات قبل از عیسیٰ ؑ زمانہ ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔] اس تفسیر میں مصر جانے والے قصہ میں حضرت ہاجرہ کا ذکر ہی نہیں نہ ہی حضرت ہاجرہ کے گھر سے نکالے جانے کا کوئی ذکر ہے۔( Gaster، The Asatir،باب 6، صفحہ 250۔258) اس سے بھی اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ حضرت ہاجرہ کے متعلق قصص خود تراشیدہ ہیں۔

مسیحی روایات

مسیحی روایات کی بنیاد بائیبل کے عہد نامہ قدیم پر ہی ہے جسے اجمالی طور پر عہد نامہ جدید میں پولوس رسول کے خط بنام گلیتیوں میں درست تسلیم کیا گیا ہے۔ چنانچہ پولوس لکھتے ہیں کہ

‘‘صحیفوں میں لکھا ہے کہ ابراہیم کے دو بیٹے تھے ایک بیٹے کی ماں لونڈی تھی اور دوسرے کی ماں آزاد عورت تھی۔ ابراہیم کا بیٹا جو لونڈی سے تھا عام انسانی طریقہ پر پیدا ہوا تھا اور جو آزاد عورت سے پیدا ہوا تھا اس کی پیدا ئش اس وعدہ کے سبب تھی جو خدا نے ابراہیم سے کیا تھا’’

(گلیتیوں کے نام خط، باب 4آیت 21۔23۔)

اس مقام پر پولوس اس تشبیہ سے شریعت موسوی کے خلاف دلائل دے رہے ہیں ۔ تاہم اس سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے عہدنامہ قدیم کی روایات کو درست تسلیم کیا ہے۔ اسی بنا پر پھر مسیحی علماء نے حضرت ہاجرہ کے متعلق یہودی روایات کو دوہرایا ہے۔(مثلاً سعید بن بطریق نے۔ JP Monferrer-Sala، ´Cast out Hagar and Ismael Her Son From Me´۔) تاہم بعض مسیحی علماء نے یہودی تفاسیر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ محض اسماعیلؑ کے مضحکہ کرنے کی بناء پر ان ماں بیٹے کو گھر سے نکالنا مناسب وجہ نہیں ہو سکتا۔( Pinker, The Expulsion of Hagar and Ishmael، صفحہ5۔)تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ مسیحی علماء یہود کو ہاجرہ اور خود کو سارہ قرار دیتے ہیں!مثلاً ٹرٹولیان،(ANF، جلد 3، Tertullian، Adversus Marcionem، سفر 5، باب 4۔ نیز Bakhos، The Family of Abraham، صفحہ 117۔118۔)کلیمنٹ اسکندری، اوریجن،جسٹین شہید،ڈیڈیموس اسکندری وغیرہ نے یہود کو معنوی لحاظ سے ہاجرہ کی نسل قرار دیا ہے۔( Bakhos, The Family of Abraham، صفحہ 119۔)

آوگسٹایٔن(متوفی 430ء)نے سارہ کو بہن کہنے کی یہ توجیہ پیش کی ہے کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کے خاندان سے تھیں اس لیے بہن کہنا جھوٹ نہیں تھا۔ اس کی مثال حضرت لوطؑ ہیں جنہیں سفر پیدائش باب 14 میں بھائی کہا گیا ہے حالانکہ وہ بھتیجے تھے۔( Bakhos، The Family of Abraham، صفحہ 129۔)آغاز اسلام کے بعد مسیحی مصنفین نے مسلمانوں کے لیے ہاجری کا لفظ استعمال کرتے ہوئے بائیبل کی ان پیشگوئیوں کی تصدیق پر زور دیا جن میں حضرت اسماعیلؑ سے ایک بڑی قوم کے پیدا ہونے، سب کا ہاتھ ان کے خلاف اور ان کا ہاتھ سب کے خلاف ہونے کا ذکر ہے۔(پیدائش باب 16، آیت 11۔12۔)تاہم اسلام دشمنی میں انہوں نے حضرت اسماعیلؑ کے لیے بہت گندی زبان بھی استعمال کی ہے ۔

(پیدائش باب 16 اور 17۔Daniel، Islam and the West، صفحہ 100۔)

پروٹسٹنٹ فرقہ کے بانی لوتھر نے ہاجرہ پر تنقید بھی کی ہے اور تعریف بھی۔ ان کے خیال میں ہاجرہ کو جب اپنی حیثیت سے زیادہ رتبہ ملا تو انہوں نے غلط رویہ اپنا لیا۔ تاہم فرشتے کے کہنے پر ہاجرہ کا خدائی حکم مانتے ہوئے واپس غلامی کی زندگی کی طرف لوٹ جانا ایک اعلیٰ درجہ کی نیکی تھی۔

( Heard, On the road to paran، صفحہ 281)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button