متفرق مضامین

پیرس میں چند روز: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے دورۂ یورپ 1924ء کے دوران

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

عروس البلاد پیرس

پیرس کے متعلق اکثر کتابوں میں (جو سفرناموں کی ہیں) عروس البلاد کا نام پڑھا تھا۔ مگر ابھی تک میں نہیں کہہ سکتا کہ کس حیثیت سے اس کے لیے یہ نام تجویز کیا جاوے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پیرس اپنے بازاروں کی آراستگی اور عمارتوں کی رفعت کی وجہ سے لنڈن سے ممتاز ہے۔ مگر میں کہوں گا کہ ہر شخص کا اپنا نقطہ خیال ہے۔ ابھی تک میں لنڈن کے مقابلہ میں پیرس کی کسی عظمت کا قائل نہیں۔ ممکن ہے آگے چل کر یہ رائے بدل جاوے۔ ہم نہ تو سیروسیاحت کے لیےآئے اور نہ ہم کو یہ موقع حاصل ہے کہ پیرس کے کوچہ و بازار یا سیرگاہوں کو دیکھ سکیں۔ اس لیے اس کے متعلق کچھ کہنا مشکل ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓکی مصروفیت اور صحت

حضرت خلیفۃ المسیح کی صحت کی وہی رفتار چلی جاتی ہے۔ یہاں پیرس میں پہلی اور دوسری رات کو بخار بھی رہا اور کھانسی کی شکایت تو بدستور ہے۔ یہاں تک کہ بات کرتے ہیں تو کئی دفعہ کھانسی اُٹھتی ہے۔ مگر باایں کام میں مصروف ہیں۔ 25؍اکتوبر 1924ء کو جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں۔ ہافاس ایجنسی کے نمائندہ سے گفتگو کی شام آپ کو معلوم ہوا کہ یہاں کے مسلمانوں کی ایک میٹنگ ہے۔ اس میں شمولیت کے لیے آپ فوراً ہی تیار ہوگئے اور خدام کو بھی شریک ہونے کا حکم دیا۔ لیکن جب ہم مقام مقررہ پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ آج میٹنگ نہیں ہوگی، لہٰذا واپس آگئے۔

26؍اکتوبر کی صبح کو آپ نے نظام عمل کے لیے ایک مجلس مشاورت کا حکم دیا۔ چنانچہ دوپہر تک اس مجلس کا اجلاس رہا۔ اور دوپہر کا کھانا کھا کر بعد نمازبوجہ اتوار برسلز جانے کا ارادہ تھا۔ مگر ایک کپتان صاحب کے آجانے کی وجہ سے وہاں کا جانا ملتوی کردیا۔ اور آپ نے اس سے ایک لمبا انٹرویو کیا اور کہیں جانا نہ ہوسکا۔

پیرس میں Grand Mosque کی ایک تصویر

27؍اکتوبر 1924ء

صبح کو سیکرٹری مسلم کمیونٹی نے بذریعہ ٹیلیفون خواہش ظاہر کی کہ حضرت مع اپنے سٹاف کے 29؍اکتوبر 1924ء کو اڑھائی بجے مسجد پیرس تشریف لاویں۔ جہاں پیرس کی مسلم کمیونٹی بھی موجود ہوگی۔ پریس کے نمائندے بھی ہوں گے۔ گویاایک ملاقاتی جلسہ ہوگا۔ آج چونکہ دفاتر کھل گئے ہیں۔ اس لیے تجویز ہوئی کہ تین مختلف جماعتیں تبلیغی کام کو شروع کریں۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک دو دن میں ایسی جگہیں جہاں زبان سے بھی ناواقف ہیں، نہ راستوں کا علم، نہ پوچھنے کا موقع اور لنڈن کی طرح پولیس مین یا دوسرے لوگ آسانی سے بتا سکیں (اس لیے کہ زبان کی ناواقفی بہت بڑی سدراہ ہے۔) تبلیغ کیا ہوگی مگر ہمارا کام کان میں آواز ڈال دینا ہے۔

(1)عرفانی اور صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اخبار نویسوں اور مصنفین سے ملیں۔

(2)حافظ صاحب، مصری صاحب اور چوہدری محمد شریف صاحب۔ مشرقی مصنفین اور مشرقی سفرا ءسے۔

(3)خان صاحب اور چوہدری ظفراللہ خان صاحب انگریزی اور مغربی سفرا ءسے۔

الجیرین مسلم لیڈر سے ملاقات

دوپہر تک یہ تقسیم عمل ہو کر ہر ایک پارٹی نے اپنا نظام عمل تجویز کیا۔ اسی اثناء میں الجیریا کے ایک ممتاز مسلمان سید محمد سماوی ممبر سپریم کونسل نے ٹیلیفون کے ذریعہ ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور اس کو 2بجے کا وقت دیا گیا۔ سید محمد سماوی بیمار ہو کر علاج اور تبدیل آب وہوا کے لیے یہاں آئے ہوئے تھے۔ ان کے ہمراہ ایک اور تعلیم یافتہ نوجوان صلاح سادی نام تھا، جو انگریزی بھی خوب جانتا تھا۔ سید محمد سماوی بھی ایک نوجوان اور باخبر مسلمان ہے۔ ابتدائی ملاقاتی امور کے بعد سید صاحب کے سوال پر حضرت نے بتایا کہ آپ نے مصر، شام، فلسطین، اٹلی اور انگلستان کو اس سفرمیں دیکھا ہے۔ اور ان ممالک کے صدر مقام میں رہ کر حالات کا مطالعہ کیا ہے۔ میری غرض اس سفر سے یہ تھی کہ اسلامی ممالک کو اس نقطہ خیال سے دیکھوں کہ وہاں مسلمانوں کی علمی اور عملی حالت کیسی ہے اور کس طرح پر ان میں اسلامی علمی روح پیدا ہو سکتی ہے اور مغربی ممالک میں جانے سے میرا مدعا تھا کہ ان ممالک کی مذہبی حالت کا معائنہ کرکے اشاعت اسلام کے لیے ایک سکیم تجویز کروں اور یہ کہ کس طرح پر مشرق اور مغرب میں امن بخش اتحاد ہو سکتا ہے اور اس تقریب کی محرک اول انگلستان کی مذہبی کانفرنس تھی۔ جس نے مجھ کو دعوت دی تھی کہ میں احمدیت پر وہاں تقریر کروں۔

الجیرین:۔ کیا جناب طریقہ احمدیت پر بیعت لیتے ہیں؟

حضرت:۔ ہاں! کیاآپ نے احمدیت کی بابت سنا ہے؟

الجیرین:۔ ہاں نام میں نے سنا ہے۔ مگر حقیقت سے واقف نہیں ہوں۔ کیا الجیریا میں بھی کوئی احمدی ہے؟

حضرت:۔ ہاں اس سفر میں مجھے ایک شخص کا خط ملا تھا جو مستاغنم میں رہتا ہے۔ اس نے بیعت کی ہے۔ وہ ایک ترک ہے۔ جو پہلے فوج میں عہدیدار تھا۔

الجیرین:۔ کیا آپ مختصر طور پر اپنے سلسلہ کے متعلق مجھے بتائیں گے؟

حضرت:۔ ہاں ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ لوگ پوچھیں اور سنیں۔ سلسلہ احمدیہ کے بانی ہمارے امام حضرت مسیح موعود نے جن کانام مرزا غلام احمد(علیہ السلام )تھا۔ مسیح موعود اور مہدی معہود کا دعویٰ خدا کی وحی سے کیا تھا۔ 34سال گزرے جب انہوں نے خدا سے وحی پا کر اس دعویٰ کا اعلان کیا اور کہاکہ وہ ان بشارات کے موافق آئے ہیں جو آنحضرت ﷺ نے آنے والے مسیح یا مہدی کے متعلق دی ہیں اور کہا کہ میرے آنے کی یہ غرض ہے کہ تا مسلمانوں کو حقیقی اسلام پر قائم کروں اور دنیا میں اسلام کو پھیلادوں اور جو اعتراضات اسلام پر کیے گئے ہیں، ان کا جواب دلائل و براہین اور آسمانی تائیدات سے دوں۔ چنانچہ وہ اپنی ساری زندگی میں یہی کام کرتے رہے اور آپ کےمخالفوں نے بھی باوجود مخالفت کے یہ تسلیم کیا کہ اسلام کی جو خدمت انہوں نے کی ہے، اس کی نظیر آج تک پائی نہیں جاتی۔ مخالفین اسلام کو دلائل و براہین کے ساتھ ساکت کیا اور تائیدی نشانات اور خوارق کے مقابلہ کے لیے بلایا۔ مگر کوئی سامنے نہ آسکا۔

وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسی طرح مامور ہو کر آئے تھے جس طرح خدا کے نبی آتے ہیں۔ اور خدا نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام نبی رکھا۔ مگر وہ کوئی نئی شریعت لے کر نہ آئے تھے۔ اس لیے کہ شریعت قرآن مجید پر ختم ہوگئی اور نبوت کے کمالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پورے ہوگئے۔ آپؐ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپؐ کا خادم اور آپؐ کی شریعت کا خادم اور تابع نہ ہو۔ خداتعالیٰ سے مکالمہ مخاطبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اور یہ نعمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور فنا فی الرسولؐ ہونے کے بغیر نہیں مل سکتی۔

مسیح ابن مریم نبی ناصری (علیہ السلام) جس کو نصاریٰ نے خدا اور خدا کا بیٹا بنایا۔ وہ دوسرے نبیوں کی طرح فوت ہوگیا ہے۔ قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ وہ دوبارہ دنیا میں نہ آئے گا۔ بلکہ آنے والا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے ایک آپؐ کا خادم ہوگا تاکہ دنیا پر کھل جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع انسان کو کہاں تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ نبیوں کے مقام کو پالیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعوؑد کے وجود سے ثابت ہوا۔

اس دعویٰ اور مقصد کو لے کر آپؑ مبعوث ہوئے تھے۔ اور اسّی کے قریب کتب آپؑ نے عربی،فارسی اور اردو میں لکھ کر تمام ممالک میں اس دعویٰ کا اعلان اور اتمام حجہ کی اور آپؑ کی وفات کے بعد جو 1908ء میں ہوئی۔ آپؑ کے متبعین نے آپؑ کی وصیت کے موافق ایک خلیفہ کا انتخاب کیا۔ جو آپؑ کے رشتہ داروں میں سے نہ تھا۔ مگر اپنے علم،تقویٰ اور اسلامی خدمت کے لحاظ سے ممتاز تھا۔ ان کو خلیفۃ المسیح والمہدی کہاگیا۔ ان کی وفات کے بعد جماعت نے مجھ کو 1914ء میں خلیفہ منتخب کیا۔ اور میں بانی سلسلہ کا بیٹا بھی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس کام کی بنیاد رکھی تھی۔ اور خدا کی وحی سے رکھی تھی۔ انہیں ہدایتوں پر ہم اس سلسلہ کو دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور اسلام کی اشاعت کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہیں۔ ہم دنیا میں مبشرین بھیج رہے ہیں۔ لنڈن، برلن، امریکہ، مغربی افریقہ، آسٹریلیا، ماریشس، مصر، بخارا وغیرہ ممالک میں ہمارے مبلغ کام کرتے ہیں۔ اور یہ جماعت اب ایک ملین کے قریب ہے۔ اور پچاس ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ افریقہ میں 15 ہزار نصاریٰ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔ امریکہ اور لنڈن میں ایک ہزار سے اوپر ہیں۔ اور ہم کو یہ یقین ہے کہ کل دنیا میں اسلام پھیل جائے گا۔ کیونکہ خدا نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے۔ جیسا کہ اس نے حضرت مسیح موعود سے وعدہ فرمایا۔

الجیرین:۔ خدا آپ کی اس خدمت کا اجردے۔ مستاغنم میں کون احمدی ہے؟

حضرت:۔ وہ ترک ہے اور دس ماہ سے وہاں گیا ہے۔

الجیرین:۔ میں نے فرنچ اخبارات میں سے کسی میں آپ کے سلسلہ کا ذکر کچھ عرصہ ہوا پڑھا تھا۔

حضرت:۔ ہمارے سلسلہ کے ایک مبشر ڈاکٹر صادق امریکہ سے آتے ہوئے یہاں ٹھہرے تھے۔ ان کا ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ غالباً وہ آپ نے پڑھا ہوگا۔

الجیرین:۔ آپ خلیفۃ المسیح ہیں؟

حضرت:۔ ہاںحضرت مسیح موعود کا خلیفہ، خلیفۃ المسیح والمہدی کہلاتا ہے۔ اور میں جیسا کہ بیان کر چکا ہوں۔ آپ کا دوسرا خلیفہ ہوں۔

الجیرین:۔ کوئی عربی کتاب ایسی ہے جس میں سلسلہ کےحالات ہوں؟

حضرت:۔ اس وقت جو ہمارے پاس کتاب ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود کا ایک خطبہ ہے۔ جو آپ نے فضیلت اسلام پر مختلف مذاہب کے ایک جلسہ میں دیا تھا۔ یہ جلسہ مختلف مذاہب کے لیڈروں نے اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کے لیے منعقد کیا تھا۔ خدا تعالیٰ نے قبل ازوقت حضرت مسیح موعود کو بشارت دی تھی کہ مضمون بالا رہے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور مخالف الرائے اخبارات نے بھی اس مضمون کی فوقیت کا اقرار شائع کیا۔ اس مضمون کا عربی ترجمہ میرے پاس ہے۔ چنانچہ وہ کتاب منگوا کرحضرت نے دی۔ الجیرین نے قیمت پوچھی۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ میری طرف سے ہدیہ ہے۔ ان کے رفیق نے انگریزی میں کتب طلب کیں اور دی گئیں۔

اس کے بعد انہوں نے پوچھا کہ آپ کب تک یہاں ٹھہریں گے۔ حضرت نے فرمایا کہ میں 30؍کو چلاجاؤں گا۔ پھر مختلف وقتی تذاکر میں زبان کا سوال آیا۔ حضرت نے فرمایا کہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ تمام مسلمانوں کی زبان عربی ہوجاوے۔ اور ہم اس کی کوشش کررہے ہیں۔ کیونکہ اتحاد اسلامی کے لیے عربی ہی ایک ذریعہ ہے۔

اس کے بعد اجازت لے کر ہر دو صاحب رخصت ہوئے اور کل 28؍اکتوبر 1924ء کو ساڑھے دس بجے کا وقت مقرر کرکے تشریف لے گئے۔ مگر 28؍اکتوبر کو بوجہ بیمار ہوجانے کے وہ تشریف نہ لاسکے۔

لی جرنل کے ایڈیٹر سے ملاقات

عرفانی حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ساتھ لی جرنل کے ایڈیٹر سے ملا اور اس نے حضرت سے انٹرویو کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ 28؍اکتوبر 1924ء کی دوپہر کو وہ لنچ پر دوگھنٹہ تک حضرت سے گفتگو کرتارہا۔

ہندوستان کی ڈاک

آج ہندوستان کی ڈاک آگئی اور اس کے پڑھنے میں بہت ہی وقت حضرت کا صرف ہوا۔

موت کا قہوہ

قدرتی طور پر اس نام سے حیرت ہوگی کہ موت کا قہوہ کیا ہوتا ہے۔ یہ اہل پیرس کی جوع التفریح کا ایک نمونہ ہے۔ باوجودیکہ یہاں کثرت سے تھیٹر، ناچ گھر، پورک ہال، سینما اور کیا کیا مشاغل وعشرت کے نظاروں کو خوفناک اور بھیانک مناظر میں تبدیل کرکے حظ زندگی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ یایہ کہو کہ بڑھتی ہوئی خوشی کو شادی مرگ سے بچانے کے لیے موت اور دوزخ کے خوفناک مناظر کو دکھانا شروع کیا ہے۔ کاش! یہ مناظر ان میں کوئی رقت قلب اور دنیا سے بے التفاتی اور مقاصد زندگی کی حقیقت پر غور کی روح پیدا کرسکتے ۔مگر نہیں یہ سب کچھ بھی ایک تفریح ہے۔ ایک دماغی عیاشی ہے۔ یہ موت کا قہوہ اس قسم کےمشاغل تفریح میں سے ایک ہے۔ اس قسم کے مقامات کو کابریٹ (Cabrets) کہتے ہیں۔ ان کی ایجاداولاً 1882ء میں ہوئی تھی۔ اور اب یہ بہت ترقی کرگئے ہیں اور ان میں سے (Cabret du neant) کباریٹ وڈنیانٹ یعنی موت کا قہوہ سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس مکان کے دروازہ پر سیاہ پردہ جو نشان ماتم ہے، پڑا ہوتا ہےاور اندرداخل ہوتے ہیں تو ایک تاریک و تار منظر ہے۔ کمرہ میں جو میز ہیں، وہ تابوتی شکل کے ہیں مدھم سی روشنی بھی ایک بھیانک منظر پیش کرتی ہے۔ ان میزوں پر بیٹھ کر کچھ شربت، شراب وغیرہ پیتے ہیں (ہرشخص پابند نہیں کہ ضرور پیے۔ یہ صرف کمانے کے لیے ایک ڈھنگ ہے۔) ایک شخص پادریوں کے سے لباس میں یہ کہتا ہوا گزرتا ہے کہ خدایا یہ سب لوگ جانے سے پہلے مر جائیں۔ جب یہ کمرہ پُرہوجاتا ہےتو اندر دوسرے کمرہ میں جو گیندنما ہوتا ہے، لے جاتے ہیں۔ گلی جو گزرگاہ ہے، وہ نہایت تنگ اور راستہ تاریک اور خوفناک معلوم ہوتا ہے۔ وہاں ایک تابوت پڑا ہوتا ہے۔ مقرر کہتا ہے کہ اگر تم مشت استخواں بننا چاہو تو تابوت میں داخل ہو۔ جس طرح ہمارے ملک میں مداری کھیل کے لیے ایک آدمی طلب کرتے ہی۔ تو اکثر لوگ ڈرتے ہیں کہ خدا جانے مداری کیا بنا دے گا۔ اسی طرح موت کے اس تلخ پیالہ سے بھی ہر شخص ڈرتا ہے اور بالآخر انہی کا ایک ا ٓدمی اندر جاتا ہے۔ اس کو کفن پہنا دیا جاتا ہے۔ اور پھر ایک روشنی اس پر ڈالی جاتی ہے۔ جس سے پہلے اس کے کپڑے گم ہونے شروع ہوتے ہیں۔ پھر وہ ایک ہڈیوں کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ دیکھنے والے یہی دیکھتے ہیں کہ اس کا کچھ باقی نہیں رہا۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد پھر تدریجاً وہ آدمی اپنے اصل لباس میں ملبوس نظر آتا ہے اور ہنستے ہوئے آجاتا ہے۔ غرض یہ موت کا قہوہ ہے۔ اس قسم کے مناظر ایک خاص حصہ میں دکھائے جاتے ہیں۔ رات کو حضرت صاحب اس کے دیکھنے کو تشریف لے گئے۔ اور دوسرے دن خدام کو کہا کہ وہ ایک عبرت گاہ ہے۔ موت کے بعد انسان کی کیا حالت ہوتی ہے۔ دیکھ آؤ۔ اس کے پاس ہی دوزخ کا قہوہ اور اسی قسم کے عجائبات ہیں۔ چنانچہ 28؍اکتوبر کی رات کو ہم نے بھی بھائی جی کے سوا (کیونکہ ان کی طبیعت ناساز تھی) ان مناظر کو دیکھا۔ ایک جگہ دوزخ کے عذابات کو بھی ملاحظہ کیا۔

گو عجیب بات یہ ہے۔پیرس کی عیاش دنیا ان عجائبات کو دیکھتی اور دکھاتی ہے۔ لیکن اس پر کچھ اثر نہیں۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ یہ اختراعات بھی تفریح کے لیے ہیں نہ حقیقت اور عبرت کے لیے اورا س کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ دوزخ اور اس کے عقوبات یا حیات مابعد الممات کو ایک فسانہ اور مشغلہ سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ ایک شخص جب دیکھتا ہے کہ یہ عقوبات جو ہم دیکھتے ہیں۔ باوجود آگ کے خطرناک شعلوں میں سانپوں کے منہ کھولنے کے لیے بے حقیقت ہیں۔ تو وہ بدقسمتی سے عذاب کے مسئلہ کو خیال سمجھ لیتا ہے۔ اس لیے میں اس کے دیکھنے کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ موت اور دوزخ کے عقیدہ کے خوف کو دور کرکے عیاشی میں دلیری پیدا کرنے کے لیے یہ اختراعات کی گئی ہیں۔

28؍اکتوبر 1924ء یوم سہ شنبہ

آج دوپہر کو ایک بجے کے بعد ایڈیٹر لی جرنل سے انٹرویو کا وقت مقرر تھا اور صبح کو ساڑھے نو سے ساڑھے دس تک الجیرین سے ملاقات ٹھہر چکی تھی۔مگر ساڑھے دس بجے انہوں نے ٹیلیفون پر بھی اطلاع دی کہ بوجہ ناسازی طبیعت حاضر نہیں ہوسکتا۔ حضرت صبح کو بعض خطوط کے متعلق جو مقامی طور پر لکھے جارہے تھے، ہدایات دیتے رہے۔ اور دوپہر کو ایڈیٹر لی جرنل سے دو گھنٹے سے زیادہ انٹرویو ہوا۔ سلسلہ کے متعلق اور بعض ضروری امور پر حضرت نے تفصیل سے فرمایا۔

عرفانی ایڈیٹر فگارد سے ملنے کے لیے چلا گیا۔ جو 1827ء میں جاری ہوا۔ بہت پرانا اور مشہور اخبار ہے۔ 60 سال سے روزانہ ہے۔ اور ایک ہفتہ وار اشاعت اس کی نیویارک سے ہوتی ہے۔ بیس ہزار اخبار ایک گھنٹہ میں اس کی مشین مکمل تیار کرتی ہے۔ رات کے اڑھائی بجے اخبار بالکل چھپ کر تیار ہوجاتا ہے۔ اور شام کو 5 بجے کام شروع ہوتاہے۔ اور اس قدر مشینیں اخبار کی تیاری میں لگ جاتی ہیں۔ 60آدمی اس کے ایڈیٹوریل سٹاف میں ہیں۔ عرفانی سے ملاقات کے دوران میں اس نے حضرت سے انٹرویو کے لیے ٹیلیفون کیا اور چونکہ حضرت اس وقت اپنے کمرہ میں نہ تھے۔ لہٰذا اس نے ایک تحریری چٹھی عرفانی کو دے کر خواہش کی کہ آج ہی اس کے لیے انٹرویو کا موقع دیا جاوے۔ چنانچہ سوا پانچ بجے اس سے انٹرویو ہوا۔ اور سلسلہ کے حالات اور حضرت کے سفر وغیرہ کے متعلق بہت سی باتیں اس نے دریافت کیں۔

29؍اکتوبر 1924ء چہار شنبہ

صبح کو ساڑھے گیارہ بجے حضرت لارڈ کریوبرٹش منسٹر پیرس سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ ہندوستان کی موجودہ حالت پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ حضرت نے ہندوستانیوں کے صحیح جذبات کا اظہار کیا۔ اور مفید مشورے دیے۔ جن کو لارڈ کریو نے معقول اور ضروری تسلیم کیا۔ حضرت صاحب کے حالات سفر میں اس نے دلچسپی کا اظہار کیا۔

مسجد پیرس میں پہلی دعا

اڑھائی بجے پیرس کی مسجد کے دیکھنے کے لیے آپ کو دعوت دی گئی تھی۔ چنانچہ آپ وقت مقررہ پر ظہر اور عصر کی نماز ادا کرکے تشریف لے گئے۔ تمام خدام ساتھ تھے۔ ہافاس ایجنسی کا نامہ نگار، فوٹوگرافر اور سینما والے موجود تھے۔ بعض آرٹسٹ جو ہاتھ سے تصویر بناتے ہیں، وہ بھی تھے۔ دروازہ پر ناظم نے بہت سے موقر مسلمانوں کے ساتھ آپ کا استقبال کیا ۔اور مسجد کے تمام حصوں کو دکھایا۔ مسجد ابھی تک زیرتعمیر ہے اور مراکش کے مسلمان کاریگر کام کررہے ہیں۔ فرانسیسی معمار وغیرہ بھی کام کرتے ہیں۔ مگر بہت بڑی مقدار صناعوں کی مغربی ہے۔ لکڑی کا کام بجلی کے ذریعہ مشینوں سے ہوتا ہے۔ اور پتھروں کے لگانے کا سٹاف الگ ہے۔ جو پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر لگانے میں مصروف ہیں۔ زمین سے کئی فیٹ تک چینی کا کام کیا گیا ہے۔ جیسے ملتان وغیرہ میں ہوتا ہے۔ مگر یہ پتھر کا کام ہے۔

مسجد بہت بڑی ہے اور اس کے ساتھ ایک ریسٹارنٹ ایک بہت بڑا حمام ہوگا اور یہ سب پبلک ہوں گے تاکہ ان کی آمدنی سے مسجد کے اخراجات چل سکیں۔ امام مسجد اور مؤذن کے لیے مکانات بھی مسجد کے ساتھ ہیں۔ غرض بہت بڑے پیمانہ پر یہ مسجد تیار ہورہی ہے۔ اور مراکشی طرز عمارت پر بنائی جارہی ہے۔ مئی 1925ء تک اس کے ختم ہوجانے کی توقع ہے۔ حضرت جس جس حصہ میں جاتے تھے۔ فوٹوگرافر اسی حصہ کے فوٹو لیتے تھے۔
مسجد کے محراب میں آپ نے کھڑے ہو کر جوتا اُتار کر اپنی جماعت کے ساتھ ایک لمبی دعا کی۔ اور آپ سب سے پہلے شخص ہیں، جس نے اس مسجد میں دعا کی۔ ہزاروں مسلمان بھی آئے۔ اور انہوں نے اس مسجد کا نظارہ اس طرح کیا ہے۔ جس طرح پیرس کے دوسرے عجائبات کو وہ دیکھتے ہیں۔ اس بات کا تمام حاضرین پر ایک اثر قدرتی طور پر تھا۔ حضرت نے کیا دعا کی۔ مختصر بتایا کہ میں نے تویہی دعا کی ہے کہ یا اللہ یہ مسجد ہم کو ملے اور ہم اس کو تیرے دین کی اشاعت کا ذریعہ بنانے کی توفیق پائیں۔

آپ کی دعا اور توجہ کا اثر ہے کہ یقیناً یہی دعا سب نے کی۔ مسجد کے محراب میں آپ کے کھڑے ہونے اور دعا کا فوٹو بھی فوٹوگرافروں نے لیا۔
مسجد کے باہر جب آپ نکلے تو اردگرد کے مکانات سے عورتوں مردوں اور بچوں کا ایک بڑا مجمع جمع ہوگیا۔ غرض آپ مسجد میں دعا کرکے واپس ہوئے۔

وزیراعظم فرانس کا خط

فرانس کے وزیراعظم موسیو پنکارنے ایک ضروری کام کے لیے پریذیڈنٹ فرانس کے پاس گئے ہوئے تھے۔ جو پیرس سے باہر تھا۔ اس کا خط آیا کہ وہ اس وجہ سے ملاقات نہ کر سکنے کے لیے متاسف ہے۔

صبح کو ساڑھے نو بجے کے قریب وہی الجیرین ممبر سپریم کونسل پھر ملاقات کو آئے اور اچھا اثر لے کر گئے۔ شام کو لی برٹی اخبار کے قائمقام کو ملاقات کا وقت دیا ہے۔ کل 30؍کی رات کو نو بجے شب کے یہاں سے وینس کو روانہ ہوں گے۔ چوہدری محمد شریف صاحب اور حافظ صاحب نے مصری، چینی، کیکیشنز میں جا کر پیغام حق پہنچایا۔

پیرس کے بعض عجائبات

پیرس کے عجائبات میں سے بعض دکانیں بھی ہیں۔ جن میں سے ایک گراں میگاسین دی لورہے۔ یعنی مخزن عظم دی لورا۔ یہ دکان 1855ء میں تین بھائیوں نے مل کر قائم کی تھی۔ پہلے سال پانچ سوفرانک نفع ہوا تھا۔ اور ایک مالک الگ ہوگیا۔ پھر اس کو ترقی ہونے لگی۔ آج کل اس دکان میں مختلف 89 صیغے ہیں۔ جن میں ہر قسم کی چیزیں ملتی ہیں۔ 6000 ملازم اس میں کام کرتے ہیں۔ 400 فرانک یعنی قریباً 5 پونڈ سے لے کر دس ہزار روپیہ ماہوار تک کے ملازم ہیں۔ دکان کی مختلف منزلوں میں جانے کے لیے 18 لفٹس ہیں۔ اور دو متحرک پلیٹ فارم ہیں۔ جن پر آدمی کھڑا ہوجاتا ہے اور وہ کل کے ذریعہ اوپر چلے جاتے ہیں۔ یا نیچے لے جاتے ہیں۔ روزانہ خریداروں کی تعداد بیس ہزار عام طور پر ہے۔ اور ہفتہ کے دودنوں میں 80 ہزار سے 90 ہزار کے درمیان ہوتی ہے۔ دو دکانیں پہلے سے موجود ہیں۔ اب تیسری چودہ منزل کی اَور بن رہی ہے۔ دکان کے ساتھ ایک رسٹارنٹ ریڈنگ روم اور خط وکتابت کا کمرہ ہے۔ ہرزبان کے ترجمان ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ جو لڑکیاں کام کرتی ہیں۔ یا جو مرد دکان میں کام کرتے ہیں۔ ان کے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لیے دکان کی طرف سے ایک نرسنگ ہوم کھول دیا گیا ہے جوطبی اصولوں پر گرم یا سرد رکھا جاتا ہے۔ 18 بچے تک وہاں رکھے جاتے ہیں۔ ایک دایہ 6 بچوں کی نگرانی کرتی ہے۔ غرض یہ دکان بجائے خود ایک عجائب خانہ ہے۔

(الفضل 18؍دسمبر 1924ء)

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button