حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط 30)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

طہارۃ النفس۔صبر

صبر عربی زبان میں روکنے کو کہتے ہیں اور استعمال میں یہ لفظ تین معنوں میں آتا ہے۔کسی شخص کا اپنے آپ کو اچھی با توں پر قائم رکھنا۔بُری با توں سے اپنے آپ کو روکنا اور مصیبت اور دکھ کے وقت جزع وفزع سے پر ہیز کر نا اور تکلیف کے ایسے اظہارسے جس میں گھبرا ہٹ اور نا امیدی پا ئی جا ئے اجتناب کرنا۔اُردو زبان میں یا دوسری زبانوں میں یہ لفظ ایسا وسیع نہیں ہے بلکہ اسے ایک خاص محدود معنوں میں استعمال کر تے ہیں اور صرف تیسرے اور آخری معنوں کے لیے اس لفظ کو مخصوص کر دیا گیا ہے یعنی مصیبت اور رنج میں اپنے نفس کو جزع و فزع اور نا امیدی اور کرب کے اظہار سے روک دینے کے معنوں میں۔چونکہ اُردو میں اس کا استعمال انہیں معنوں میں ہے اس لیے ہم نے بھی اس لفظ کو اسی معنی میں استعمال کیا ہے اور اس ہیڈنگ کے نیچے ہماری غرض آنحضرت ﷺ کی ایسی صفت پر رو شنی ڈالنا ہے جس معنی میں کہ یہ لفظ اُردو میں استعمال ہو تا ہے اس میں تو کو ئی شک نہیں کہ یہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی صفت ہے اور دنیا کی تمام اقوام فطرتاً اس صفت کی خوبی کی قائل ہیں گو بدقسمتی سے ہندوستان اس کے خلاف نظر آتاہے کہ مردوں پر سالہا سال تک ماتم کیا جاتا ہے اور ایسی بے صبری کی حرکات کی جا تی ہیں اور کرب کی علامات ظاہر کی جا تی ہیں کہ دیکھنے والوں کو بھی تعجب آتاہے۔غرضیکہ فطرتاً کل اقوام عالم نے صبر کو نہایت اعلیٰ صفت تسلیم کیا ہے اور ہرقوم میں صا بر نہایت قابل قدر خیال کیا جا تا ہے چونکہ آنحضرت ﷺ کی نسبت ہمارا دعویٰ ہے کہ آپؐ تمام صفاتِ حسنہ کا مجموعہ تھے۔اور آپؐ سے بڑھ کر دنیاکا کوئی انسان نیک اخلاق کا اعلیٰ اور قابل تقلید نمونہ نہیں تھا اس لیےذیل میں ہم صبرکےمتعلق آپؐ کی ز ندگی کا ایک واقعہ بتاتے ہیں جس سے معلوم ہو جا ئے گا کہ آپؐ اس صفت سے کہاں تک متصف تھے۔بچپن میں اوّل والدہ اور پھر دادا کے فو ت ہو جا نے سے (والد پیدائش سے بھی پہلے فوت ہو چکے تھے)جوصدمات آپؐ کو پہنچے تھے۔ان میں آپؐ نے جس صبر کا اظہار کیا اور پھر دعویٰ نبوت کے بعد جو تکالیف کفار سے آپؐ کو پہنچیں اس کو جس صبرو استقلال سے آپؐ نے برداشت کیا اور یکے بعد دیگرے انہی مصائب کے زمانہ میں آپؐ کے نہایت مہربان چچا اور وفاداری میں بے نظیر بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور اپنے پیارے متبعین کی مکہ سے ہجرت کر جا نے پر جس صبر کا نمونہ آپؐ نے دکھا یا تھا وہ ایک ایسا وسیع مضمون ہے کہ قلت گنجائش ہم کو ہر گز اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم ان مضامین کو یہاں شروع کریں اس لیے ہم صرف ایک چھوٹے سے واقعہ کے بیان کرنے پر جو بخاری شریف میں مذکور ہے کفایت کرتے ہیں۔

جیسا کہ سیرت النبیﷺ کے ابتدا سے مطالعہ کر نے والے اصحاب نے دیکھا ہو گا میں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ اس سیرت میں صرف واقعات سے آنحضرتﷺ کے اخلاق کی بر تری دکھا ئی ہے۔اور آپؐ کی تعلیم کو کبھی بھی پیش نہیں کیا تا کہ کو ئی شخص یہ نہ کہہ دے کہ ممکن ہے آپؐ لو گوں کو تو یہ کہتے ہوں اور خود نہ کرتے ہوں۔نعوذباللّٰہ من ذلک۔پس اس جگہ بھی میںآپؐ کی اس تعلیم کو پیش نہیں کر تا جو آپؐ نے صبر کی نسبت اپنے اتباع کو دی ہے اور جس میں کرب و گھبرا ہٹ اور نا امیدی کے اظہار سے منع کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قضا پررضاکا حکم دیا ہے بلکہ صرف آپؐ کا عمل پیش کر تا ہوں۔

عَنْ اُسَا مَۃَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ اَرْسَلَتِ ابْنَۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیْہِ اِنَّ ابْنًالَھَا قُبِضَ فَاْتِنَا فَاَرْسَلَ یُقْرِئُ السَّلَامَ وَیَقُوْلُ اِنَّ لِلّٰہِ مَااَخَذَوَلَہٗ مَااَعْطٰی وَکُلُّ شَیٍ عِنْدَہُ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْوَلْتَحْتَسِبْ فَاَرْسَلَتْ اِلَیْہِ تُقْسِمُ عَلَیْہِ، لَیَاْتِیَنَّھَا فَقَا مَ وَمَعَہٗ سَعْدُ بُنُ عُبَادَۃَ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَاُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالٌ فَرُ فِعَ اِلیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصَّبِیُّ وَنَفْسُہٗ تَنَقَعْقَعُ کَآنَّھَاشَنٌّ فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ فَقَالَ سَعْدٌ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَاھٰذَا قَالَ ھٰذِہٖ رَحْمَۃٌ جَعَلَھَا اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ وَاِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحَمَاءَ۔

(بخاری کتاب الجنا ئزباب قول النّبی یعذّب المیّت ببعض بکاء اھلہٖ علیہ)

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ کی ایک بیٹی نے آپؐ کو کہلا بھیجا کہ میرا ایک بچہ فوت ہو گیا ہے آپؐ تشریف لا ئیں۔(فوت ہو گیا سے یہ مراد تھا کہ نزع کی حالت میں ہے کیونکہ وہ اس وقت دم توڑرہا تھا)پس آپؐ نے جواب اس طرح کہلا بھیجا کہ پہلے میری طرف سے السلام علیکم کہنا اور پھر کہنا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ لے لے وہ بھی اسی کا ہے اور جو دیوے وہ بھی اسی کا ہے اور ہر چیز کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک مقررہ مدت ہے پس چاہیے کہ تم صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید وارر ہو۔اس پر آپؓ نے (حضرت کی صاحبزادی نے) پھر کہلا بھیجا کہ آپؐ کو خدا کی قسم آپؐ ضرور میرے پا س تشریف لا ئیں پس آپؐ کھڑے ہو گئے اور آپؐ کے سا تھ سعد بن عبادہؓ اور معاذبن جبلؓ اور ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ اور کچھ اَور لوگ تھے جب آپؐ وہاں پہنچے تو آپؐ کے پاس وہ بچہ پیش کیا گیا اور اس کی جان سخت اضطراب میں تھی اور اس طرح ہلتا تھا جیسے مشک۔اس کی تکلیف کو دیکھ کر آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑے جس پر سعد بن عبادہؓ نے کہا یا رسولؐ اللہ یہ کیا؟آپؐ نے جواب دیا کہ یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کیا ہےاور سوائے اس کے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رحیم بندوں پر ہی رحم کر تا ہے۔

یہ واقعہ اپنے اندر جو ہدایتیں رکھتا ہے وہ تو اس کے پڑھتے ہی ظاہر ہو گئی ہو ں گی پھر بھی مزید تشریح کے لیے میں بتا دیتا ہوں کہ اس واقعہ نے آپؐ کی صفتِ صبر کے دو پہلوؤں پر ایسی رو شنی ڈالی ہے کہ جس کے بعد آپؐ کے اسوہ حسنہ ہو نے میں کو ئی شک و شبہ رہ ہی نہیں سکتا۔اوّل تو آپؐ کا خلاص باللہ اس واقعہ سے ظاہر ہو تا ہے کیونکہ جس وقت آپؐ کو اطلاع دی گئی کہ آپؐ کا نواسہ نزع کی حال میں ہے اور اس کی حالت ایسی بگڑگئی ہے کہ اب اس کی موت یقینی ہو گئی ہے تو آپؐ نے کیا پُر حکمت جواب دیا ہے کہ جو خدا تعالیٰ لے لے وہ بھی اس کا مال ہے اور جو دے دے وہ بھی اس کا مال ہے۔رضا بالقضا کا یہ نمونہ کیسا پاک ،کیسا اعلیٰ ،کیسا لطیف ہے کہ جس قدر اس پر غور کیا جائے اس قدر کمال ظاہر ہو تا ہے پھر اپنی صاحبزادی کو نصیحت کرنا کہ صبر کرواور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں پر انتہا ئی درجہ کے یقین اور امید پر دلالت کر تا ہے مگر صرف یہی بات نہیں بلکہ اس واقعہ سے ایک اَور بات بھی ظاہر ہو تی ہے اور وہ یہ کہ آپؐ کا صبر اس وجہ سے نہ تھا کہ آپؐ کا دل نَعُوْذُ بِاللّٰہِ سخت تھا بلکہ صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں پر امید اور اس کی مالکیت پر ایمان تھا کیونکہ جیسا بیان ہو چکا ہے جب آپؐ اپنی صاحبزادی کے گھر پرتشریف لے گئےتو آپؐ کی گود میں تڑپتا ہوا بچہ رکھ دیا گیا اور آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جا ری ہو گئے۔سعد بن عبادہ ؓنے غلطی سے اعتراض کیا کہ یا رسولؐ اللہ ! یہ صبر کیسا ہے کہ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔آپؐ نے کیالطیف جواب دیا کہ رحم اَور چیز ہے اور صبر اَور شے ہے۔رحم چاہتا ہے کہ اس بچہ کو تکلیف میں دیکھ کر ہمارا دل بھی دکھے اور دل کے درد کا اظہار آنکھوں کے آنسوؤں سے ہو تا ہے۔اور صبریہ ہے کہ ہم اس بات پر راضی ہو جا ئیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو اسے قبول کریں اور اس پر کرب و اضطرار کا اظہار نہ کریں۔اور اللہ تعالیٰ کا رحم جذب کرنے کے لیے تو رحم کی سخت ضرورت ہے پہلے انسان اللہ تعالیٰ کے بندوں کے دکھو ں میں رحم اور شفقت کی عادت ڈالے تو پھر اس بات کا امید وار ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کی تکالیف میں اس پر رحم کرے۔غرضیکہ ایک طرف اپنے نواسہ کی وفات کا حال سن کر جو آپؐ کے بڑھا پے کی عمر کا ثمرہ تھا اور خصوصاً جب کہ آپؐ کے کو ئی نرینہ اولاد موجود نہ تھی،صبر کر نا اور اپنی لڑکی کو صبر کی تلقین کر نا اور دوسری طرف اس بچہ کو دکھ میں دیکھ کر آپ کے آنسوؤں کا جاری ہو جا نا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی ہر ایک قضا پر صابر تھے اور یہ کہ آپؐ کا صبر سخت دلی(نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ)کا موجب نہ تھا بلکہ آپؐ کا دل رحم و شفقت سے پُرتھا۔

طہارۃ النفس۔ استقلال

قابل اور نا قابل انسان کی پر کھ میں استقلال بہت مدد دیتا ہے کیونکہ استقلال سے انسان کے بہت سے پو شیدہ در پوشیدہ اخلاق اور قوتوں کا پتہ لگ جا تا ہے اور مستقل اور غیرمستقل انسان میں زمین و آسمان کا فرق ہو تا ہے۔ایک ایسا شخص جو بیسیوں نیک اخلاق کا جامع ہو۔لیکن اس کے اندر استقلال نہ ہو اس کے اخلاقِ حسنہ نہ تو اس کے نفس کی خوبی کو ثابت کر سکتے ہیں اور نہ ہی لو گوں کو ان سے کو ئی معتدبہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔کیونکہ اگر اس میں استقلال نہیں اور وہ اپنے کاموں میں دوام اختیار نہیں کر تا تو اوّل تو یہی خیال ہو سکتا ہے کہ اس کے نیک اخلاق ممکن ہے کہ بناوٹ کا نتیجہ ہوں۔اور دوسرے ایک نیک کام کو شروع کرکے جب وہ درمیان میں ہی چھوڑدے گا تو اس کا کوئی خاص فائدہ بنی نوع انسان کو نہ پہنچے گا۔بلکہ خود اس شخص کا وہ وقت جو اُس نے اس ادھورے کام پر خرچ کیا تھا ضائع سمجھا جا ئے گا۔پس استقلال ایک طرف تو اپنے صاحب کے کاموں کی سنجیدگی اور حقیقت پر رو شنی ڈالتا ہے اور دوسری طرف اس ایک صفت کی وجہ سے انسان کے دوسرے اخلاقِ حسنہ اور قوائے مفیدہ کے ظہور اور نفع میں بھی خاص ترقی ہو تی ہے اس لیے اس مختصر سیرت میں میں آنحضرت ﷺ کے استقلال پر بھی کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔

یوں تو اگر غور کیا جا ئے تو جو کچھ میں اب تک لکھ چکا ہوں اس کا ہر ایک باب بلکہ ہر ایک ہیڈ نگ آنحضرت ﷺ کے استقلال کا شاہد ہے اور کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔ مگر سیرت کی تکمیل چاہتی ہے کہ اس کے لیے الگ ہیڈنگ بھی ضرور قائم کیا جا وے۔

آنحضرت ﷺ کی زندگی پراگر ہم اجماعی نظر ڈالیں تو ہمیںرسول کریم ﷺ استقلال کی ایک مجسم تصویرنظر آتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ استقلال کو بھی اس نمونۂ استقلال پر فکر ہے۔جو رسول کریم ﷺ نے دکھا یا تھا۔

اس حالت کو دیکھو جس میں آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔اور پھر اس استقلال کو دیکھو جس سے اس کام کو نباہتے ہیں۔آپؐ کی حالت نہ تو ایسی امیرا نہ تھی کہ دنیا کی بالکل احتیاج ہی نہ تھی۔اور گو یا آپؐ دنیا کی فکروں سے ایسے آزاد تھے کہ اس کی طرف تو جہ کی ضرورت ہی نہ تھی او رنہ ہی آپؐ ایسے فقیر اورمحتاج تھےکہ آرام و آسائش کی زندگی کبھی بسر ہی نہ کی تھی اس لیے دنیا کا چھوڑ ناآپؐ پر کچھ شاق نہ تھا مگر پھر بھی اس اوسط حالت کے باوجود جس میں آپؐ تھے اور جوعام طور پر بنی نوع انسان کو دنیا میں مشغول رکھتی ہے اور باوجود بیوی بچوں کی موجودگی اور ان کی فکر کے جب آپؐ غار حراء میں جا کر عبادت الٰہی میں مشغول ہو ئے تو آپؐ کے پا ئے ثبات کو مشرکین کی ہنسی اور ٹھٹھے نے ذرا بھی متزلزل نہ کیا۔اور آخر اس وقت اس غار کو چھوڑا جب آسمان سے حکم آیا کہ بس اب خلوت کا زمانہ ختم ہوااور کام کا زمانہ آگیا جا اور ہماری مخلوق کو راہ راست پر لا۔ یٰٓاَ یُّھَاالْمُدَّ ثِّرُ۔قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ۔وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ۔وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ(المدثر:6-2)اس حکم کا نازل ہو نا تھا کہ وہ شخص جو باوجود ہزاروں احتیاجوں اور سینکڑوں شغلوں کے اپنے بیوی بچوں کو خدا کے سپرد کرکے وحدہٗ لا شریک خدا کی پرستش میں مشغول تھا۔اور دنیا و ما فیہا سے بے تعلق تھا شہر سے دور راہ سے علیحدہ ایک پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر پھر دوسری طرف چند گز نیچے اتر کر ایک پتھر کے نیچے بیٹھ کر،تا دنیا اس کی عبادت میں مخل نہ ہو۔عبادت الٰہی کیا کر تا تھا۔اور انسانوں سے ایسا متنفر تھا گویا وہ سانپ ہیں یا اژدہا۔دنیا کے سامنے آتا ہے اوریاتو وہ دنیا سے بھا گتا تھا یا اب دنیا اس سےبھاگ رہی ہے۔اور اس کے نزدیک کوئی نہیں جا تا مگر وہ ہے کہ ہر ایک گھر میں گھستا ہے ہر ایک شخص کو پکڑ کر کھڑا ہو جا تا ہے ۔ کعبہ کے میدان میں کھڑا رہتا ہے تا کہ کو ئی شخص طواف کرنے کے لیے گھر سے نکلے تو اس سے ہی کچھ بات کر سکوں۔قافلے آتے ہیں تو لوگ تو اس لیے دوڑے جاتے ہیں کہ جا کر کچھ غلہ خرید لا ئیں یا جو اسباب تجارت وہ لا ئے ہیں اسے اپنی ضرورت کے مطا بق خرید لیں۔لیکن یہ شخص کسی تجا رت کی غرض سے نہیں بلکہ ایک حق اور صداقت کی خبر دینے کے لیے ان سے بھی آگے آگے دوڑا جاتا ہے۔اور اس کا پیغام کیا ہے جو ہر ایک انسان کو پہنچا نا چاہتا ہے وہ پیغام لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ ہے جس سے عرب ایسی وحشت کھا تے تھے کہ اگر کان میں یہ آوازپڑ جا تی تو کان میں انگلیاں دے لیتے تھے اور جس کے منہ سے یہ الفاظ سنتےاس پر دیوانہ وار لپک پڑتے اور چاہتے کہ اسے ایسی سزادیں کہ جس سے بڑھ کر اَور سزا نا ممکن ہو۔مگر با وجود عربوں کی اس مخالفت کے وہ تنہائی پسند انسان،غار حراء میں دن گزارنے والا انسان ،جب موقعے پاتا یہ پیغام ان کو سناتا۔اور کسی مجلس یا کسی جماعت کا خوف یارعب اسے اس پیغام کے پہنچانے میں روک نہ ہو سکتا۔یہ کام اس نے ایک دن نہیںدو دن نہیں مہینہ نہیں دو مہینہ نہیں اپنی وفات کے دن تک کیا اور باوجود سب دنیا کی مخالفت کے اپنے کام سے باز نہ آیا۔نہ عرب کے مشرک اس کو باز رکھ سکےنہ شام کے مسیحی اس کے جوش کو کم کر سکے نہ ایران کے مجوسی اس کو سست کرسکے اور نہ مدینہ اور خیبر کے یہود اس کی راہ میں رو ک بن سکے۔ہر ایک دشمنی ،ہر ایک عداوت،ہر ایک مخالفت،ہر ایک تکلیف کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور ایک منٹ کے لیے بھی اس نے اپنی آواز نیچی نہ کی۔حتیّٰ کہ وفات کے وقت بھی یہی نصیحت کرتا گیا کہ دیکھنا خدا تعالیٰ کا شریک کسی کو نہ بنانا اور وہ وحدہٗ لاشریک ہے کوئی چیز اس کے برابر نہیں حتیّٰ کہ سب انسانوں سے افضل محمدﷺ بھی اس کا ایک بندہ اور رسول ہے۔اس کی قبر کو بھی دوسری قوموں کے دستور کے مطابق مسجد نہ بنالینا۔

کیا اس استقلال کا نمونہ دنیا میں کسی اَور انسان نے بھی دکھا یا ہے؟کیا ایسےمخالفانہ حالات کے مقابلہ پر ایسا فولادی عزم کسی نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے؟نہیں اور ہر گز نہیں۔لوگ ذرا ذرا سا کام کرکے تھک جا تے ہیں اور تھوڑی سی تکلیف دیکھ کر گھبرا جا تے ہیں بلکہ بغیر تکلیف کے بھی کسی کا م پر اس قدر عرصہ تک متواتر تو جہ نہیں کر سکتے جس کا نمونہ آنحضرت ﷺ نے دکھا یا اور جس نمونہ کو دیکھ کر نہ صرف یہ معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ نے جس کام کو اپنے ذمہ لیا تھا اس کی خوبی اور بہتری پر دل سے یقین رکھتے تھے۔کیونکہ اس قدر لمبے عرصہ تک باوجود اس قدر تکالیف کےکوئی انسان ایک ایسے امرپرجسےوہ جھوٹاخیال کرتاہوقائم نہیں رہ سکتا۔ بلکہ یہ بھی کھل جا تا ہے کہ وہ کو ن سی طاقت تھی جس سے کام لے کر آپؐ نے ایسی جماعت پیدا کر دی تھی۔جس نے باوجود قلت تعدادکے سب دنیا کوفتح کر لیا تھا وہ آپؐ کا استقلال اور آپؐ کا عمل ہی تھا۔جس نے ان مٹھی بھر آدمیوں کو جو آپؐ کی صحبت میں رہنے والے تھے کل دنیا کی اصلاح کے کام کے اختیار کر نے کی جرأت دلا ئی اور صرف جرأت ہی نہیں دلا ئی بلکہ آخر دم تک ایسا آمادہ کیے رکھا کہ انہوں نے دنیا کی اصلاح کاکام کر کے بھی دکھا دیا۔مگر افسوس!کہ اب مسلمانوں میں وہ روح کام نہیں کر تی۔

(باقی آئندہ )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button