متفرق مضامین

مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب جان الیگزینڈر ڈوئی۔ گمنامی سے عروج تک (قسط دوم آخر)

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

ڈوئی کی تحریک وسیع ہوتی ہے

1900ء کے سال کے واقعات بھی بنیادی طور پر اسی طرز پر نظر آتے ہیں، جس طرز پر 1899ء کا سال گزرا تھا۔ صرف فرق یہ ہے کہ اب ڈوئی اور اس کا چرچ جو کہ Zion کہلاتا تھا پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آتا ہے۔ اب اس کی مہم پہلے سے زیادہ وسیع پیمانے پر چلائی جا رہی تھی اور زیادہ لوگ اس سے منسلک ہو رہے تھے لیکن اس کے ساتھ اس کی مخالفت بھی زیادہ وسیع ہو رہی تھی۔ اپنی تبلیغی مہم چلاتے ہوئے ڈوئی کے چرچ سے وابستہ افراد کو جو کہ Zionists کہلاتے تھے گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاریاں شکاگو، Mansfieldاور انڈیانا میں ہوئیں اور کبھی کبھی یہ خبر بھی اخبارات میں شائع ہوتی کہ کسی خاوند نے ڈوئی پر ہرجانہ کا دعویٰ کر دیا ہے  کہ اس کے اثر کی وجہ سے اس کی بیوی گمراہ ہوئی ہے اور اس نے اسے چھوڑ دیا ہے اور بعض اوقات  ڈوئی کسی شخصیت کے متعلق توہین آمیز تبصرہ کر دیتا اور اس کی طرف سے ہرجانہ کا مقدمہ قائم کر دیا جاتا اور ایسا بھی ہوتا کہ ڈوئی کے اثر کی وجہ سے طبی علاج  سے انکار کرایا جاتا اور مریض کا انتقال ہوجاتا تو اس پر جلوس نکل آتا۔

(Akron Daily Democrat, 1st October 1900, p1, El Paso Daily Herald 18th August 1900, The Salt Lake Herald 10th February 1900, The Evening Star Feb. 9th 1900, The Honolulu Republic, 27th December 1900)

ڈوئی اور اس کے ساتھی Zionistsکے نظریات جو بھی تھے، اس بحث سے قطع نظر بسااوقات اس کے خلاف  کافی شدید رد عمل دکھایا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے پیروکار  Mansfield ایک گھر میں اپنی تقریب منعقد کر رہے تھے کہ ایک مشتعل ہجوم نے اس گھر کا محاصرہ کر لیا اور اس گھر پر پتھراؤ کیا اور محصور افراد کے خلاف نعرے بازی شروع کی اور انہیں گالیاں دیں۔ اس مجمع سے یہ آوازیں بھی بلند ہوتیں کہ انہیں پھانسی دو۔ پولیس نے مجمع کو منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوگئے۔ مجمع نے اس چرچ کے دو نمایاں افراد کو پکڑکر ان کے کپڑے اتار کر ان پر نیلا پینٹ کر دیا۔ پھر ان افراد کو جیل میں پناہ دی گئی۔

(Stark County Democrat, August 3 1900)

اس قسم کے حملوں کی وجہ سے ڈوئی اور اس کے رفقاء کار نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے ایک فوجی کمپنی بنائیں گے۔ پہلے 200افراد پر مشتمل Zion Guard موجود تھی۔ پھر گورنر  Tanner کی منظوری سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس میں وسعت پیدا کی جائے۔

(Mower County Transcript, 7th February, 1900p 1)

اس کے ساتھ ہی اس چرچ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مغربی دنیا کے علاوہ مشرقی دنیا میں بھی اپنی سرگرمیاں شروع کرے۔ چنانچہ چین کے لیے ایک Overseerمقرر کیا گیا۔

(Barre Evening Telegram 9 November, 1900)

اس دلچسپ بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس مرحلہ تک ابھی خود ڈوئی کا رسالت کا کوئی دعویٰ سامنے نہیں آیا تھا لیکن اس کے چرچ کے سرکردہ افراد نے اس بات کا اعلان شروع کر دیا تھا کہ ڈوئی اس زمانے میں یوحنا (حضرت یحییٰ   )کا بروز ہے اور ایلیا (حضرت الیاس ) کے رنگ میں آیا ہے۔ اور یہ دعاوی اخبارات  میں شائع ہونا شروع ہوگئے تھے اور چرچ کے سرکردہ افراد اس بات کا ذکر کر رہے تھے یہ سب کچھ حضرت عیسیٰ  کی آمد ثانی کی تیاری کے لیے ہو رہا ہے اور اس بات کا بھی اعلان کیا جا رہا تھا کہ اس چرچ کا نام Christian Catholic Church in Zion ہے اور لفظ Zion سے مراد خدا کے وہ چنیدہ لوگ ہیں جو کہ مسیح کی آمد ثانی کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔ ابھی تو یہ چرچ  Zion (صیہون) کا حصہ ہے لیکن پھر تمام Zion اس چرچ میں ضم ہو جائے گا۔

(Semi Weekly Interior Journal, 25 May 1900 P1, The Scranton Tribune, 10th May 1900)

1900ء کے آخر میں ڈوئی اور اس کی تحریک کے حوالے سے دو اہم واقعات ہوئے جن کا اثراس تحریک کے مستقبل پر کافی زیادہ نظر آتا ہے۔ اس سال کے آخر میں میں ڈوئی نے انگلستان اور یورپ کا دورہ کیا اور اسی سال کے دوران ڈوئی نے اپنا شہر آباد کرنے کے لئے شکاگو کے قریب زمین خریدنے کا کام شروع کیا۔ پہلے اس کے دورہ یورپ کا مختصر ذکر کرتے ہیں۔

انگلستان اور یورپ کا دورہ

ڈوئی کا یہ دورہ اگست 1900ء میں شروع ہوا۔ شکاگو میں ڈوئی کے ہزاروں پیروکاروں نے اسے الوداع کیا۔ وہ اپنے وفد سمیت شکاگو سے نیویارک پہنچا اور وہاں سے یورپ کے لیے روانہ ہوا۔ اس وقت یہ اعلان کیا جا رہا تھا کہ ڈوئی نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اگلی صدی کے آغاز پر یروشلم میں داخل ہوگا، اس لیے ڈوئی یورپ سے یروشلم کے لئے روانہ ہو گا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ ڈوئی یروشلم میں سوچ بچار اور عبادت میں اپنا وقت گزارے گا۔ یہ بات قابل  ذکر ہے کہ اس وقت اکثر اخبارات کی پالیسی ڈوئی کے ساتھ ہمدردانہ نہیں تھی لیکن اس موقع پر اخبارات یہ ذکر ضرور کر رہے تھے کہ ڈوئی بڑی شان و شوکت کے ساتھ یورپ کے دورہ پر روانہ ہو رہا ہے اور اس بات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ ڈوئی بہر حال ایک غیر معمولی آدمی ہے جو کہ اتنی مخالفت کے باوجود تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ چنانچہ ایک اخبار THE EVENING TIMESنے لکھا:

 He has been reviled, mobbed and imprisoned more times than he himself can count, yet through opposition which would have speedily ended the career of an ordinary man, this remarkable person prospered and his pocketbook bulged with fatness.

(The Evening times Washington, 11th August 1900 p2)

ترجمہ: ”اس شخص کو حقارت کا نشانہ بنایا گیا، اس پر بلوائیوں نے حملے کئے اور اسے اتنی مرتبہ حراست میں لیا گیا کہ اسے خود بھی یاد نہیں ہو گا۔ اس مخالفت کے سامنے ایک عام آدمی کا مستقبل ختم ہوجاتا لیکن یہ غیر معمولی شخص ترقی کرتا گیا اور اب اس کی جیبیں بھری ہوئی ہیں۔

(The Evening times Washington, 10th August 1900, El Paso Daily Herald 11th August 1900)

ڈوئی نے اپنے سفر کا آغاز لندن میں اپنی سرگرمیوں سے کیا۔ سب سے پہلے اس نے سینٹ مارٹن ہال میں اپنی تقریر سے کیا لیکن اسے مخالفانہ ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں پر چار سو کے قریب مشتعل میڈیکل کے طلباء اس کے منتظر تھے۔ انہوں نے اس تقریب کو خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لندن میں ڈوئی کی مسلسل مخالفت جس طبقہ نے سب سے زیادہ کی وہ میڈیکل کے طلباء تھے۔ انہوں نے اس کی تقریروں کے مواقع پر ہنگامے شروع کر دیئے۔ وہ ڈوئی کی تقاریر کے مواقع پر ہال  میں داخل ہو جاتے۔ آوازیں کستے ، سٹیج پر کرسیاں پھینکتے ۔ڈوئی ایسے مواقع پر ان پر اپنے غصہ کا اظہار کرتا۔پولیس طلب کی جاتی۔ پولیس مظاہرین کو  گرفتار بھی کرتی لیکن پھر بھی یہ مخالفت جاری رہتی۔ جج نے ان طلباء کو جرمانے کیے یہ تنبیہ کی کہ وہ حیران ہیں کہ پڑھے لکھے لوگ اس قسم کے ہنگامے کر رہے ہیں۔ لیکن میڈیکل کے طلباء نے اپنی مہم جاری رکھی۔ کئی مواقع پر ڈوئی کو ہال سے تقریر ادھوری چھوڑ کررخصت ہونا پڑا۔ ڈوئی نے میڈیکل کے طلباء کے علاوہ فری میسن تنظیم اور پریس کو بھی اپنے خلاف مہم چلانے کا ذمہ دار قرار دیا۔ لیکن اس کے باوجود کچھ نہ کچھ لوگ ڈوئی کے چرچ کے رکن بنتے رہے۔ نومبر میں ڈوئی نے  لنڈن سے نکل کر لیڈز اور مانچسٹر میں تقاریر کی کوشش کی تو بھی میڈیکل کے طلباء ان تقریبات پر حملہ کر دیا۔

(The big Stone Gap post 11th October, The Abeville Press and Banner 24 Oct 1900, The Saint Paul Globe 19 October 1900, Indianapolis journal 14 October 1900،, Rock Argus Island Nov 22 1900, The Salt Lake Herald 24 th Nov. 1900)

انگلستان سے ڈوئی پیرس اور پھر سوئٹزرلینڈ کے لئے روانہ ہوا اور پھر وہاں سے واپس لندن آگیا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ امریکہ سے نکلتے ہوئے اصل پروگرام یہ تھا کہ ڈوئی نئے سال کے آغاز میں یروشلم میں داخل ہو گااور مقدس مقامات پر کچھ عرصہ عبادت اور سوچ بچار میں گزارے گا۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ کس وجہ سے یہ پروگرام ختم ہو گیا اور 3 جنوری 1901ء کو ڈوئی لندن سے واپس امریکہ کے لئے روانہ ہو گیا اور یروشلم کا رخ نہیں کیا۔

(El Passo Daily Herald 26 th Nov. 1900, Marshall County Independent 26 th December 1900, The Eveining Bulletin 4 January 1901)

صیہون کا منصوبہ

1900ء کے سال میں ہی ڈوئی کے قائم کئے جانے والے شہر صیہون (ZION) کا منصوبہ سامنے آ گیا تھا۔ یہ ایک ایسے شہر کا منصوبہ تھا جس میں ڈوئی کے پیروکاروں نے آباد ہونا تھا ۔اس نے ایک ایسا شہر بننا تھا جس میں ڈوئی کے اصولوں کی حکومت ہونی تھی۔ شکاگو کے نزدیک  اس شہر  کے لیے زمین مسلسل کوششوں سے مختلف اوقات میں خریدی گئی تھی اور خریدنے کے ساتھ ہی اس پر پانی ڈھونڈنے کا ابتدائی کام شروع ہو گیا تھا۔یہ زمین سو  دو سو ڈالر ایکڑ کے حساب  سے قیمت ادا کر کے مختلف مالکان سے خریدی جا رہی تھی۔1900ء کے آغاز میں ہی یہ خبریں گردش کرنے لگی تھیں کہ اس مجوزہ شہر کے لیے چھ ہزار ایکڑ زمین خرید لی گئی تھی اور پھر اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ فروری میں ڈوئی کے پیروکار ایک ہزار کے وفد کی صورت میں اس مجوزہ شہر کی جگہ کو دیکھنے کے لیے آئے۔جولائی 1900ء میں اس شہر کے سنگ  بنیاد کی تقریب منعقد ہوئی  اور ڈوئی نے گرجا کی  جگہ پر کدال چلا کر اس  شہر کی تعمیر کا افتتاح کیا۔اس شہر کی اقتصادی ترقی کا منصوبہ آغاز سے ہی بنا لیا گیا تھا اور شروع میں کم از کم دو صنعتوں کو شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ان میں سے ایک Laceکے کپڑے کی صنعت تھی۔ امریکہ میں اب تک اس قسم کا کپڑا نہیں بنتا۔ اس کے لیے مشینری انگلستان سے در آمد کی گئی اور اس کو شروع کرنے کے لیے وہیں سے کام کرنے والے بھی بلوائے گئے تھے۔

(WORTHINGTON ADVANCE, FEBRUARY 2. 1900., Little Fall Herald 1900 January 1900, Phillipsburg Herald March 1, 1900,         The Argus July 16th 1900 p4, The Cape Girradeu Herald November 17 1900)

1901ء میں بھی صیہون (Zion) شہر کے لیے مزید زمین کی خرید کا کام جاری رہا ۔یہ منصوبہ وسیع سے وسیع تر ہو رہا تھا۔اب یہ کام اتنے بڑے پیمانے پر کیا  جا رہا تھا کہ ایک ڈوئی نے ایک ایسی بڑی کمپنی کو خریدنے کے لیے بیس لاکھ ڈالر کی رقم کی پیشکش کی جس کی اس علاقہ میں بہت بڑی اراضی تھی۔ اس کے علاوہ اس علاقہ کے فارم خرید کر بھی اس مجوزہ شہر میں شامل کئے جا رہے تھے۔اس شہر  کا اپنا بینک بھی قائم کر دیا گیا تھا  اور اس کو حکومت کی طرف سے شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جا رہا تھا اور  سٹیٹ اسمبلی کی طرف سے ایک کمیٹی اس پر تحقیقات کے لیے قائم کی گئی تھی۔اس پر ردعمل دکھاتے ہوئے ڈوئی نے اعلان کیا کہ وہ سٹیٹ کی اسمبلی کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ بینک کے کھاتے دیکھیں۔ لیکن اس کے ساتھ اس شہر کی تعمیر پورے زور و شور سے جاری تھی۔ 25 مارچ 1901ء کو ڈوئی شکاگو سے اپنے شہر میں اپنی نئی تعمیر کی گئی رہائش گاہ میں منتقل ہو گیا۔

(The Rock Island Argus 3rd September 1901 p1,     The Rock Island Argus, 19th February 1901 p1, The Rock Island Argus 25th Feb.1901 p1, The Indianapollis Journal 20 th February 1901 p1)

اصل منصوبہ کیا تھا؟

ڈوئی کا منصوبہ دنیا کے مختلف مقامات  پر ایسے  شہر آباد کرنے کا تھا  اور اس کے علاوہ یہ منصوبہ بھی تھا کہ سب سے بڑا Zionشہر یروشلم کے مقام پر آباد کیا جائے۔ تاکہ وہاں حضرت عیسیٰ   کی آمد ثانی کی تیاری کی جائے ۔ اس وقت یہ شہر ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے تحت تھا۔ ڈوئی نے جون 1902ء میں یہ اعلان کیا تھا:

ZION WILL BUY UP JERUSALEM FOR THE KING. If we can establish three, four, five, six, seven or more Zion cities, and can get a million dollars a year, we can buy out the Turk, we can buy out the Mohammedan, we can buy out the Jew, we can buy out the infidel, and we can get possession of the sacred site of Jerusalem, and build it up in  preparation for the Coming of Christ our King to His holy hill of Zion.

(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, published by Christ for the Nations INC. Dallas, Texas. 1980 p130-132)

ترجمہ: صیہون یروشلم کو اپنے بادشاہ کے لیے خرید لے گا۔ اگر ہم تین، چار ، پانچ ، چھ ، سات یا زیادہ صیہون شہر آباد کر لیں اور ہر سال دس لاکھ ڈالر  کا انتظام کر لیں تو ہم ترکوں کو خرید سکتے ہیں، ہم مسلمانوں کو خرید سکتے ہیں ، ہم یہودیوں کو خرید سکتے ہیں، ہم بے دینوں کو خرید سکتے ہیں۔ ہم یروشلم کی مقدس زمین کا قبضہ حاصل کر سکتے ہیں اور وہاں پر اپنے بادشاہ یسوع کی صیہون پر اس کی مقدس پہاڑی پر آمد کے لیے اس شہر کو تعمیر کریں گے۔

ان سب ترقیات کے ساتھ خود شکاگو اور اس کے مضافات میں بھی ڈوئی کی مخالفت بھی عروج پر تھی۔ بسااوقات ایسا ڈوئی کے پیروکار جب یہاں پر اپنی میٹنگ کرتے، یا اپنے نظریات کا پر چار کرتے  تو ان پر انڈوں اور پانی سے حملے کیے جاتے اور بسااوقات بڑے بڑے ہجوم ان کے خلاف اکٹھے ہو جاتے اور طب کے پیشے سے منسلک لوگوں کے ساتھ تصادم حسب  سابق جاری تھا۔

(The Independent 12 July 1901, Akron Daily Democrat 22 August 1901, The Kalispell 11 July 1901)

دعاوی کا اعلان

ڈوئی کی کہانی میں ایک بہت اہم موڑ 2 جون 1901ء کو آیا۔ جب اچانک ایک آڈیٹوریم میں پانچ ہزار کے مجمع میں ڈوئی نے یہ اعلان کیا:

"I am Elijah,the Prophet, who appeared first as Elijah himself, second as John the Baptist, and who now comes in me, the restorer of all things. Elijah was a prophet, John was a preacher, but I combine in myself the attributes of prophet, priest and ruler over men۔Gaze on me then: I say it fearlessly. Make the most of it, you wretches in ecclesiastical garb. I am He that is; the living physical and spiritual embodiment of Elijah, and my coming to earth a third time has been prophesied by Malachi, by Peter, and three thousand years go by Moses. All who believe me to be in very truth all of this; stand up.”

(The Watchman and Southron, June 5 1901)

ترجمہ: میں ایلیا (الیاس )نبی ہوں جو کہ پہلی مرتبہ خود ایلیا کی صورت میں آیا ، دوسری مرتبہ بتسمہ دینے والے یوحنا (یحییٰ) کی صورت میں ظاہر ہوا، اور اب میری صورت میں ظاہر ہو رہا ہے ۔میں تمام  چیزوں کو بحال کرنے کے لیے آیا ہوں۔ ایلیا ایک نبی تھا، یوحنا ایک مبلغ تھا۔لیکن مجھ میں ایک رسول کی خصوصیات بھی ہیں، ایک منادی کی خصوصیات بھی ہیں اور میں انسانوں پر حکمران بھی ہوں۔ میں بغیر کسی خوف کے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جو کہ ایلیا کا جسمانی بروز بھی ہوں اور روحانی بروز بھی ہوں اور زمین پر میرے تیسری مرتبہ آنے کی پیشگوئی ملاکی نبی نے بھی کی تھی، پطرس نے بھی کی تھی اور تین ہزار سال قبل موسیٰ نے بھی کی تھی۔ جو مجھ پر ایمان لاتے ہیں کھڑے ہو جائیں”۔

اسی وقت تین ہزار سے زاید موجود افراد نے کھڑے ہو کر ڈوئی پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔اس کے بعد ڈوئی نے اعلان کیا کہ وہ ایک مذہبی تسلط کا منادی ہے جس میں کسی سے مشورہ نہیں لیا جائے گا۔ یہ خدا کی حکومت اور خدا کے لیے حکومت ہو گی۔ اب جمہوریت ناکام ہو چکی ہے۔

(The Republican 9 june 1901)

اس طرح اب ڈوئی نے اللہ کے رسول ہونے کا دعویٰ کر دیا تھا۔ اس کی گستاخی صرف یہاں تک محدود نہیں تھی کہ اس نے رسالت کا دعویٰ کیا تھا بلکہ اس نے اس حضرت موسیٰ  کی اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا بھی دعویٰ کیا تھا جو کہ آنحضرت ۖ کے بارے میں تھی۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے اسے مباہلہ کا چیلنج دیا تھا۔ وہ اب برملا اس بات کا اظہار کر رہا تھا کہ  اس کے ذریعہ سے دنیا میں مذہبی سلطنت قائم کی جائے گی۔

ڈوئی کی مالی ترقی

ڈوئی کے دعوے کے بعد اس کی مخالفت سامنے آنا تو ایک قدرتی بات تھی لیکن اب اخبارات یہ بھی تذکرہ کر رہے تھے کہ ڈوئی مالی اعتبار سے ایک  بہت طاقتور حیثیت رکھتا ہے اور یہ خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ اب ڈوئی کے پاس جمع اثاثوں کی مالیت دو کروڑ تیس لاکھ ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت ڈالر کی قیمت اب  کے ڈالر کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ سونے کی جو مقدار اب 1200اور1500ڈالر میں آتی ہے اس وقت 19ڈالر میں آ جاتی تھی اور یہ اس وقت کے لحاظ سے بہت زیادہ رقم تھی اور ہر سال لاکھوں ڈالر اس کے پاس آ رہے تھے۔ امریکہ اور یورپ میں بہت سے مقامات پر اس کے چرچ کی شاخیں قائم ہو چکی تھیں۔

(Mount Vernon Signal 31st Oct. 1902, Blue Grass Blade 26 th January 1902)

حضرت اقدس مسیح موعود نے 1902ء میں پہلی مرتبہ ڈوئی کو چیلنج دیا اور اس وقت تک اس کے مذکورہ دعاوی سامنے آ چکے تھے۔ اس وقت ڈوئی کی، اس کی تحریک کی، اس کے آباد کردہ شہر کی پوزیشن کیا تھی۔  اس کے بارے میں اس وقت کے ایک اخبار نے یہ تجزیہ شائع کیا تھا:

Less than a year ago John Alexander Dowie who calls himself   Elijah The Restorer and who is the founder and prophet of  the Catholic Church in Zion,  prophesied  ere another  twelve months should pass he would built a city for his  people . The prophecy ha s come true, and today Zion stands on the shores of lake Michigan. Marvelous is not too strong word to apply to Zion City. Seven months  it was a scattered settlement of 100 souls. Its residents today number  6000, and over a thousand homes have been erected.

(Essex County Journal 22 Augusy 1902 )

ترجمہ: ایک سال سے بھی کم عرصہ ہوا ہے کہ جان الیگزینڈر ڈوئی نے، جو سب کچھ بحال کرنے والی ایلیا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور صیہون کے کیتھولک چرچ کا نبی ہے، یہ دعویٰ کیا تھا کہ بارہ ماہ نہیں گزریں گے کہ وہ اپنے پیروکاروں کے لئے  ایک شہر آباد کر ے گا۔ یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے۔ اب صیہون کا شہر میشیگن کی جھیل کے کنارے آباد ہوچکا ہے۔ اس کے لیے شاندار کا لفظ کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ سات ماہ پہلے اس جگہ پرصرف  ایک سو  نفوس پراگندہ طور پر آباد تھے ، اب یہاں چھ ہزار لوگ آباد ہو چکے ہیں اور ایک ہزار سے زائد مکان تعمیر ہو چکے ہیے”۔

پھر یہ اخبار لکھتا ہے:

Zion City on Lake Michigans shore, will be Dowies capital until his followers outgrow it. Ultimately he hopes to build a worlds capital near Jerusalem. There if his dream of religious conquest comes true, he or his successor will rule the Catholic Church in Zion for all the world.

ترجمہ: مشی گن جھیل کے کنارے پر آباد صیہون اس وقت تک ڈوئی کا مرکز ہو گا جب تک کہ اس کے پیروکار اس میں نہ سما سکیں۔ اسے امید ہے کہ وہ بالآخر دنیا کا دارالحکومت یروشلم میں تعمیر کرے گا۔ اگر مذہبی فتح کا اس کا خواب پورا ہوتا ہے تو وہ یا اس کا جانشین دنیا بھر میں صیہون کے کیتھولک چرچ  پر حکومت کرے گا۔

اس طرح ڈوئی کی زندگی کی کہانی اس مرحلہ تک پہنچی جب اس نے رسالت کا دعویٰ کیا اور حضرت مسیح موعود نے اسے چیلنج دیا۔ جیسا کہ یہ حقائق ظاہر کرتے جس وقت حضرت مسیح موعود  نے ڈوئی کو چیلنج دیا، اس وقت ڈوئی گمنامی سے نکل کر شہرت اور دولت میں اپنی ترقی کے عروج پر پہنچ رہا تھا۔ جب اس نے رسالت کا اعلان کیا تو اسی لمحہ تین ہزار افراد نے کھڑے ہو کر اس کی تائید کی تھی ۔جبکہ جماعت  احمدیہ کے پہلے جلسہ میں بمشکل ستر احباب شامل ہوئے تھے۔ اس دور میں حضرت مسیح موعود کے پیروکاروں کے پاس اتنے مالی وسائل بھی نہیں تھے کہ ایک مینارة المسیح کو تعمیر کر سکتے جبکہ ڈوئی کے پیروکار اس وقت ایک جدید شہر بمعہ صنعتوں کے تعمیر کر رہے تھے۔ جب یہ روحانی مقابلہ شروع ہوا اس وقت صرف یہی نہیں تھا کہ ڈوئی حضرت مسیح موعود سے عمر میں بہت چھوٹا تھا، بلکہ اس وقت مالی وسائل، شہرت اور دنیاوی طاقت کے لحاظ سے یہ صورتحال تھی کہ کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ کسی دنیاوی اندازے کے بھروسے پر یہ چیلنج دیا گیا تھا۔

(الفضل ربوہ 4 ستمبر 2015ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button