متفرق مضامین

خلفائے احمدیت کے یورپی ممالک کے دورہ جات (ایک مختصر تعارف)

(سید احسان احمد۔ مربی سلسلہ الفضل انٹرنیشنل لندن)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث میں بیان ہےکہ جب کوئی مومن اپنے کسی بھائی کی زیارت اور ملاقات کے لیے محض خدا تعالیٰ کی خاطر گھر سے نکلتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی معیّت نصیب ہوتی ہے جو اسے بشارت دیتے ہیں کہ تیرا یہ سفر بہت مبارک ہے۔

جب یہ بشارت ایک عام مومن کے لیے ہے توحضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ جات جو مومنین کو شرف ملاقات و زیارت بخشنے اور ان کے درمیان بنفس نفیس موجودگی کا فیض عطا کرنے اور خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور سربلندی کے لیے اختیار فرماتے ہیں وہ سفر تو یقینًا خدا تعالیٰ کے حضور غیرمعمولی عظمت اور شان کے حامل اور مبارک ہوں گے۔

ہمارے پیارے امام حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آج کل یورپ کے بعض ممالک کا دورہ فرما رہے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آج ان شاء اللہ العزیز خطبہ جمعہ سے جماعت احمدیہ ہالینڈ کے جلسہ سالانہ کا افتتاح فرمانا ہے۔

دورہ جات کی اہمیت

حضرت خلیفۃ المسیح کا کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جانا اپنے اندر غیر معمولی برکات رکھتا ہے۔اس بات کو سمجھنےکے لیے ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرنا ہو گاکہ خلیفۂ وقت کا کیا مقام ہے اور اس کے وجود کے ساتھ کس قدر برکات وابستہ ہیں ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنی تحریرات میں متعدد مرتبہ مقربین الٰہی کی علامات کا تذکرہ فرمایا ہے نیز اس بات کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ یہ مقربین جس جگہ ہوں اسے خدا تعالیٰ خاص برکت بخشتا ہے۔

فی زمانہ حضرت خلیفۃ المسیح خدا تعالیٰ کا مقرب ترین انسان ہےاور جن علامات کا حضرت مسیح موعود ؑنے اپنی تحریرات میں ذکر فرمایا ہے ان کے اوّلین مصداق انہی کا با برکت وجود ہے۔چنانچہ ان ارشادات میں سے چند ایک ہدیۂ قارئین ہیں ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مقربین الٰہی کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

‘‘جیسا کہ وہ خود مبارک ہے ایسا ہی اس کے اقوال و افعال و حرکات اور سکنات اور خوراک اور پوشاک اور مکان اور زمان اور اس کے جمیع لوازم میں برکت رکھ دیتا ہے۔ تب ہریک چیز جو اس سے مَس کرتی ہے بغیر اس کے جو یہ دعا کرے برکت پاتی ہے۔ اس کے مکان میں برکت ہوتی ہے۔ اس کے دروازوں کے آستانے برکت سے بھرے ہوتے ہیں۔ اس کے گھر کے دروازوں پر برکت برستی ہے جو ہر دم اس کو مشاہدہ ہوتی ہے اور اس کی خوشبو اس کو آتی ہے۔ جب یہ سفر کرے تو خدا تعالیٰ مع اپنی تمام برکتوں کے اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب یہ گھر میں آوے تو ایک دریا نور کا ساتھ لاتا ہے۔ غرض یہ عجیب انسان ہوتا ہے جس کی کُنہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔’’

(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5۔ صفحہ 69)

اسی طرح آپ ؑ نے فرمایا:

‘‘ان کی تشریف آوری سے زمین کو برکت دی جاتی ہے۔ اور لوگوں کو ان کے غموں سے نجات دی جاتی ہے پس مبارک ہو ان لوگوں کو جو ان سے تعلق رکھتے ہیں۔’’

(اردو ترجمہ تذکرۃ الشھادتین مع علامات المقربین صفحہ90)

اسی طرح آپ ؑ نے فرمایا:

‘‘ایسا ہی اُن کے ہاتھوں میں اور پیروں میں اور تمام بدن میں ایک برکت دیجاتی ہے جس کی وجہ سے اُن کا پہنا ہوا کپڑا بھی متبرک ہو جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات کسی شخص کو چُھونا یا اُس کو ہاتھ لگانا۔ اُس کے امراض روحانی یا جسمانی کے ازالہ کا موجب ٹھہرتا ہے۔

اِسی طرح اُن کے رہنے کے مکانات میں بھی خدائے عزّوجلّ ایک برکت رکھ دیتا ہے وہ مکان بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے خدا کے فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں ۔

اِسی طرح اُن کے شہریا گاؤں میں بھی ایک برکت اور خصوصیت دی جاتی ہے۔ اِسی طرح اُس خاک کو بھی کچھ برکت دی جاتی ہے جس پراُن کا قدم پڑتا ہے۔’’

(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 19)

پس خلیفۂ وقت جو روئے زمین پر اس وقت خدا تعالیٰ کا سب سے محبوب انسان ہےاس کا ظاہری طور پر کسی جگہ تشریف لے جانا ملک یا علاقہ کے لیےغیر معمولی طور پر عظیم الشان روحانی اور مادی برکات کا موجب ہوگا۔

دورہ جات کے فوائد

خلفائے احمدیت کے دورہ جات خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت اور عظیم الشان برکات کے حامل ہوتے ہیں کہ ان کا مقصد خالصۃً اعلائے کلمۂ اسلام ہے۔

ان دورہ جات میں حضور انور جہاں مختلف ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ سے مخاطب ہوتے ہیں اور اس کے ذریعہ احباب جماعت کو اپنے پُر حکمت خطابات سے ان کی عملی اصلاح کے لیے روحانی مائدہ مہیا فرماتے ہیں وہاں افراد جماعت سے ذاتی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ ان ملاقاتوں میں احباب جماعت اپنے محبوب امام سے مل کر اپنی روحانی تسکین کے سامان کرتے ہیں اور اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے دعاؤں کے خزانے حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح خلفاء کے یہ دورہ جات مقامی جماعت کے لیے انتظامی امور میں رہنمائی اور ان کی کاوشوں میں تیزی لانے کابھی باعث بنتے ہیں۔

جہاں یہ دورہ جات افراد جماعت کو برکات حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں وہاں غیر از جماعت افراد کو بھی مختلف تقریبات کے ذریعہ حقیقی اسلام کا پیغام سننے کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مختلف اخبارات ، رسائل، ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلز کو انٹرویو ز اس ملک اور قوم کے ایک وسیع حلقہ احباب کو اسلام کی حقیقی تعلیم پہنچاتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دورہ جات کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘جہاں جس علاقہ میں دورہ ہو رہا ہو براہ راست معلومات سے وہاں کے حالات کی واقفیت سے مَیں نے دیکھا ہے کہ مبلغین کو اور جماعت کو بعض نئے طریقوں کو اپنانے کی طرف توجہ دلانے کا بھی موقع مل جاتا ہے۔ مشورے ہو جاتے ہیں۔ نئی حکمت عملی اختیار کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور پھر دورے سے جماعتوں میں خود بھی تیزی پیدا ہو جاتی ہے جس سے وہ جماعتیں اپنے تبلیغ کے اس اہم مقصد کو سمجھنے لگ جاتی ہیں اور کم از کم کچھ عرصہ ضرور پُرجوش رہتی ہیں۔ لیکن اگرعلاقے کی واقفیت ہی نہ ہو تو جیسی بھی رپورٹیں آ رہی ہوں بعض دفعہ اسی پر یقین کرنا پڑتا ہے…لیکن اس کا ایک فائدہ اور بھی ہو جاتا ہے کہ میڈیا کے ذریعہ سے آج کل دورے کی اتنی کوریج ہو جاتی ہے کہ غیروں کی بھی مخالفت میں یا موافقت میں جماعت کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس وجہ سے جماعت کے افراد اور نظام جماعت کو بھی کچھ نہ کچھ تیز ہونا پڑتا ہے گویا ان غیر لوگوں کی وجہ سے پھر سوئے ہوئے احمدیوں کو یا سُست جماعتوں کو جاگنا پڑتا ہے… پس احمدیوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے کام میں تیزی اور وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ12؍دسمبر 2008ء۔ الفضل انٹرنیشنل 02؍جنوری2009ءصفحہ08)

اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوروں کے حوالے سےفرمایا:

‘‘اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دوروں کے بڑے مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ اپنوں اور غیروں سے تعلق کے لحاظ سے بھی اور جماعتی انتظامی لحاظ سے بھی براہ راست مشاہدہ اور معلومات سے بہت سی چیزیں میرے علم میں آ جاتی ہیں۔

تین بڑے فائدے تو یہ ہیں کہ ان ملکوں کے پڑھے لکھے طبقے اور اثر و رسوخ والے لوگوں سے رابطہ ہو جاتا ہے، ملاقاتوں کی صورت میں بھی اور مساجد کے افتتاح یا ریسپشن وغیرہ میں۔ دوسرے میڈیا کے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کا تعارف اور حقیقی تعلیم لوگوں کے علم میں آ جاتی ہے۔ اور تیسری بڑی بات یہ ہے کہ افراد سے، افرادِ جماعت سے ذاتی رابطہ اور تعارف ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ان کے ایمان و اخلاص اور جو تعلق ہے مودّت و اخوت کا، محبت اور بھائی چارے کا اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ خلیفہ وقت اور افرادِ جماعت کے آپس میں براہ راست ملنے، دیکھنے، سننے سے غیر معمولی تبدیلی بھی پیدا ہوتی ہے اور جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ان حالات کے مطابق جو ان ملکوں میں ہوتے ہیں براہ راست خطبات میں ان سے باتیں بھی ہو جاتی ہیں۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍نومبر 2018ء۔ الفضل انٹرنیشنل 07؍دسمبر 2018ءصفحہ05)

یورپ کے دورہ جات کی ابتدا

جماعت احمدیہ کی تاریخ میں خلفاء کے مختلف ممالک کے دورہ جات کی ایک طویل داستان ہے۔ آج کل حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ یورپ کے ممالک کا دورہ فرما رہے ہیں ۔چنانچہ اس کی مناسبت سے ہم مضمون ہذا میں حضرت مصلح موعود ؓکے یورپ کے دو(2) دوروں کے حوالے سے بعض امورکا جائزہ لیں گےتاکہ قارئین کو معلوم ہو کہ خلفائے احمدیت کے یورپ میں دوروں کی ابتدا کس طرح ہوئی۔

سفر یورپ 1924ء

آج سے 95؍سال قبل سب سے پہلےخلفائے احمدیت میں سےیورپ کی سر زمین کو حضرت مصلح موعود ؓنے برکت بخشی۔ گو اس سفر کا سبب لندن میں منعقد ہونے والی ویمبلےکانفرنس میں شمولیت بنا اور یورپ میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد، مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد بھی رکھنے کا پروگرام بنا، تاہم اس سفر کی اصل غرض یہ تھی کہ حضورؓ یورپ جا کر خود حالات کا جائزہ لیں اور ان ممالک میں جماعت کے سامنے اشاعت اسلام کا ٹھوس لائحہ عمل رکھیں۔

چنا نچہ اس سفر کا مقصد بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ بیان فرماتے ہیں:

‘‘یہ سفر محض اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ اسلام کی تبلیغ کے لیے وہ رستے تلاش کیے جائیں ۔ جن سے اسلام دنیا میں آسانی سے پھیل جائے۔ اس وقت اسلام کے رستہ میں کوئی مذہب روک نہیں ۔ بلکہ یورپ کا تمدن روک ہے …ان کی کیونکر اصلاح کی جاسکتی ہے …یورپ میں تبلیغ اسلام کا سوال ایک یا دو دن میں حل ہونے والا سوال نہیں ۔ بلکہ صدیوں کا سوال ہے لیکن اگر ہم غلط رستہ پر چلیں گے۔ تو صدیاں کیا۔ ہزاروں سال میں بھی حل نہیں کرسکیں گے۔ اس وقت ہمارے سفر کی غرض یہ نہیں کہ یورپ کو مسلمان کر آئیں ۔ بلکہ یہ ہے کہ اس بات پر غور کریں کہ مغربی ممالک کس طرح اسلام کو قبول کرسکتے ہیں ۔ گویا ہمارا یہ سفر تشخیص مرض کے لیے ہے نسخہ کے لیے نہیں ۔ …خلیفہ کاکام مرض کی تشخیص کرنا اور علاج تجویز کرنا ہے۔ اس کے بعد دوسرے لوگ جو خلیفہ سے کم حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ نسخہ دیں گے۔ پس یہ سفر اس لیے نہیں کہ ہم جا کر اہل یورپ کو کلمہ پڑھا آئیں ۔ گو یہ بھی نہیں کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے تو بھی نہیں پڑھائیں گے ۔ مگر اس سفر کی غرض یہ نہیں ۔ اگر اس سفر میں بھی خدا تعالیٰ بعض روحوں کو ہدایت دے دے تو یہ اس کا احسان اور فضل ہو گا۔ مگر ہماری یہ غرض نہیں کہ چند لوگوں کو مسلمان بنا آئیں ۔ بلکہ یہ ہے کہ کون سا طریق ہے کہ جس سے ساری دنیا کو مسلمان بنائیں اتنی بڑی غرض بغیر قربانیوں کے حاصل نہیں ہو سکتی…

جس کام کے لیے ہم جارہے ہیں ۔ وہ کوئی معمولی کام نہیں۔ بلکہ عظیم الشان کام ہےاور جب تک اللہ کی نصرت نہ ہو کامیابی نہیں ہو سکتی۔…’’(خطبات محمود جلد 8صفحہ472-470)

حضرت خلیفۃ المسیح کا یہ پہلا دورۂ یورپ تھا۔ اس وقت کے جماعت کے مالی حالات کے لحاظ سے یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ چنانچہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘آج کل تو ہمارے تعارف بھی ہیں، تعلقات بھی ہیں اور احمدیوں پر دنیامیں مختلف جگہوں پر جو ظلم ہو رہا ہے، اُس کی وجہ سے بہت سی حقوقِ انسانی کی جو تنظیمیں ہیں، اُن کی بھی نظر ہے۔ پھر ان تعلقات کی وجہ سے پارلیمنٹ کے ممبران اور پڑھے لکھے طبقے سے ہمارا یہاں بھی اور دنیا میں بھی تعارف ہے۔ لیکن اُس زمانے میں یہ سب کچھ نہیں تھا…پھر جب ہم اُن حالات کو دیکھتے ہیں جو مالی لحاظ سے جماعت کے حالات تھے۔ اور اُس وقت آپ اپنے ساتھ گیارہ افراد کا وفد لے کے آئے تھے اور یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ خود تو حضرت مصلح موعودنے اپنا خرچ ذاتی طور پر کیا، باقیوں کے لیے قرض لینا پڑا تھا…دعا اور استخارے اور جماعت سے مشورے کے بعد یہ سفر ہوا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کے نظارے ہمیں ہر جگہ نظر آئے۔ یہ خلیفۃ المسیح کا پہلا دورۂ یورپ تھا اور اس کے ساتھ عرب ممالک بھی شامل تھے۔ شام، مصر، فلسطین وغیرہ عرب ممالک میں تو سوائے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے کسی بھی خلیفہ کا دورہ نہیں ہوا۔ ’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍فروری 2014ء۔ الفضل انٹرنیشنل 21؍مارچ 2014ءصفحہ 05)

اس دورہ کے لیے حضرت مصلح موعود ؓنے 16؍مئی 1924ءکونماز عصر کے بعد ایک مجلس شوریٰ بلائی جس میں احباب سےاس سفر پر جانےکے حوالے سے مشورہ مانگا۔اس کے علاوہ حضور ؓ اور 40؍افراد نے اس بارےمیں استخارہ کیا تاکہ مشیت الٰہی معلوم ہو۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ423،427)

اس سفر یورپ میں حضور ؓانگلستان کے علاوہ روم(اٹلی)، پیرس(فرانس) اور وینس(اٹلی) بھی تشریف لے گئے۔

یاد رہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس سفر کے لیے Thomas Cookنامی مشہور کمپنی کے زیر انتظام سفر اختیار فرمایا تھا جو حال ہی میں دیوالیہ ہو جانے کی وجہ سے بند ہو گئی ہے۔(مزید معلومات کے لیے دیکھیے:

http://www.alhakam.org/thomas-cook-the-travel-agent-of-a-muslim-caliph/)

دورۂ یورپ 1955ء

حضرت مصلح موعود ؓنےیورپ کا دوسر ا دورہ 1955ء میں فرمایا جس میں آپ نے سوئٹزرلینڈ، اٹلی، آسٹریا، جرمنی، ہالینڈ اور انگلستان کا دورہ رکھا۔گو یہ سفر حضورؓ کی خرابیٔ صحت کی وجہ سے علاج کے لیے تجویز کیا گیا تھا تا ہم حضور ؓنے اس سفر کے دوران تبلیغ اسلام کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ حضورؓ کے متعدد انٹرویوز ہوئے اور آپ ؓنے کئی خطابات بھی ارشاد فرمائے جن میں تبلیغی اور تربیتی دونوں پہلو ؤں پر روشنی ڈالی۔

مبلغین کی کانفرنس

انگلستان میں یورپ، امریکہ اور افریقہ کے مبلغین کی ایک کانفرنس22؍تا24؍جولائی 1955ءمنعقدہوئی۔اس میں تبلیغ اسلام کے کام کو مزید وسعت دینے کے لیے لائحہ عمل تجویز ہوا۔ ایک ایک ملک کی رپورٹ پیش کی گئی۔ جماعتوں کی مضبوطی ، ترقی اور ان ممالک میں اسلامی لٹریچر کی تیاری اور اشاعت اور نئی مساجد کی تعمیر کے متعلق حضور ؓنے رہنمائی سے نوازا۔ اسی طرح اس کانفرنس پر آنے والے مبلغین الگ الگ بھی حضور ؓ سے مل کر ہدایات حاصل کرتے رہے۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 16صفحہ 543)

کانفرنس سے ایک روز قبل حضرت مصلح موعود ؓ نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احباب جماعت کو کانفرنس کی کامیابی کے لیے خصوصی دعا کی تحریک کرتے ہوئے تحریر فرمایا:

‘‘پٹنی(لنڈن)21؍جولائی

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے بعد کل پہلی مرتبہ دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی تجاویز پر غور کرنے کے لیے لنڈن میں ایک نہایت اہم اور عظیم الشان کانفرنس شروع ہو رہی ہے۔ کانفرنس میں امریکہ، غرب الہند، افریقہ اور یورپ کے قریباً تمام اہم ممالک میں متعیّن مبلغین شامل ہوں گے۔

22؍جولائی سے چوہدری محمد ظفراللہ خان بھی اس کانفرنس میں شامل ہورہے ہیں۔ دوست کانفرنس کی نمایاں اور اس کے وسیع ترین کامیاب نتائج کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور درد دل سے دعا کریں۔ خلیفۃ المسیح’’

(روزنامہ الفضل ربوہ 24؍جولائی 1955ء)

الغرض خلافت ثانیہ میں دو مرتبہ خلیفۃ المسیح نے یورپ کے ممالک کا دورہ فرمایا اور خود حالات کا جائزہ لے کر یورپ کی جماعتوں کو ہدایات سے نوازا اور مستقبل میں تبلیغ اسلام کے کام کو زیادہ مؤثر انداز میں بجا لانے کے لیے عملی اقدامات فرمائے۔

حضرت مصلح موعود ؓ کے دورِ خلافت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق جماعت احمدیہ خلافت احمدیہ کی زیر قیادت دن بدن ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئی ۔ یورپ کےممالک میں بھی احمدیوں کی تعداد بڑھنی شروع ہوئی اور اسی طرح مساجد ، مشن ہاؤسز اور مبلغین کی تعداد میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔

خلافت احمدیہ کی لندن ہجرت سے قبل تک خلفائےحضرت مسیح موعودؑ بار ہا اس بر اعظم کے دورے فرما تے رہے اور براہ راست ان ممالک میں تبلیغ اسلام کی عظیم الشان مہم کی نگرانی کی اور ساتھ ساتھ آنے والے احمدیوں کی تربیت کے حوالے سے بھی رہنمائی فرمائی۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒاپنے 17؍سالہ دور خلافت میں7؍مرتبہ یورپ تشریف لائے۔اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنےلندن ہجرت سے قبل ایک مرتبہ یورپ کا دورہ فرمایا۔

1984ء میں خلافت احمدیہ کی لندن ہجرت کے بعد یہ براعظم ایک بالکل نئے دور میں داخل ہوا اور یہاں کی جماعتوں کو بار بار خلافت احمدیہ کا فیض پانے کا موقع ملتا رہا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس وقت یورپ کے ممالک کا 32واں دورہ فرما رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ دورہ بے شمار کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ اپنی تائید و نصر کے بے شمار نظّارے دکھانے والا بنے اور حضور انور نے جن عظیم الشان اور بلند و بالا مقاصد کے لیے یہ سفر اختیار فرمایا ہے اللہ تعالیٰ ان تمام مقاصد کو پورا فرمائے اور ہر آن آپ کا حامی و ناصر ہو۔

اللھم اید امامنا بروح القدس

و کن معہ حیث ما کان و انصرہ نصرا عزیزا

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button