حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط 27)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

ہمیشہ خیر اختیار کر تے

آنحضرت ﷺ کبھی ضد سے کام نہ لیتے تھے بلکہ جس بات میں خیر دیکھتے اس کو اختیار کر تے تھے اور قطعاً اس بات کی پروا نہ کر تے کہ اس سے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی تو نہیں ہو تی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ رجالِ سیاستِ دنیویہ نے اپنے اصولوں میں سے ایک یہ اصل بھی بنا رکھی ہے کہ با دشاہ یا حاکم جو حکم دے دے اور جو فیصلہ کر دے اس میں تغیر نہ کرے اور جس طرح کیا ہے اس پر قائم رہے تا کہ لو گوں کے دل میں یہ نہ خیال پیدا ہو کہ ہم نے ڈرا کر منوالیاہے یا کم سے کم دوسروں کے سامنے شرمندہ نہ ہو نا پڑے کہ ایک با ت کہہ کر پھر اس سے رجوع کر لیا ہے اور اس اصل پر رِجالِ سیاست ایسے پکے اور قائم رہتے ہیں کہ بعض اوقات جنگوں تک نوبت پہنچ جا تی ہے مگر وہ اپنی بات کی پچ کے لیے اور دبدبہ حکومت قائم رکھنے کے لیے ملک کو جنگ میں ڈال دیتے ہیں لیکن اس بات کو پسند نہیں کر تے کہ اپنے فیصلہ کو واپس لے لیں۔

جو لوگ تا ریخِ انگلستان سے واقف ہیں ا ن سے یہ امر پو شیدہ نہیں کہ ریا ستہا ئے متحدہ سےجنگ کی وجہ یہی ہو ئی کہ انگلستان کے رِجالِ سیا ست ایک فیصلہ دے کر اس کو واپس نہیںلینا چاہتے تھے گو وہ اس بات کو خوب سمجھ گئے تھے کہ ہم غلطی کر رہے ہیں جس کا نتیجہ ایک خو نر یزجنگ ہو ئی اور ایک سر سبزو شاداب ملک ہاتھ سے جا تا رہا۔

خود ہندوستان میں تقسیم بنگا لہ کا فیصلہ ایک کھلی نظیر موجود ہے کہ خود وزراء انگلستان قبول کرتے تھے کہ یہ فیصلہ درست نہیں ہوالیکن ڈرتے تھے کہ اسے تبدیل کر دیں گے تو ملک میں حکومت کی بے رُعبی ہو گی چنانچہ جب تک شہنشاہ ہند کی تا ج پوشی کا ایک نہایت غیر معمولی موقع پیش نہیں آیا اس حکم کو منسوخ نہیں کیا گیا۔

اور درحقیقت بظاہر دنیاوی نقطۂ خیال سے یہ بات ہے بھی درست کیونکہ جب رعایا کے دل میں یہ بیٹھ جا ئے کہ ہم جس طرح چاہیں کرا سکتے ہیں یا ان کو یہ خیال ہو جا ئے کہ ہما را حاکم تو بالکل غیر مستقل مزاج آدمی ہے اسے جس طرح چاہیں پھیردیں تو وہ بہت دلیر اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں سست ہو جا تی ہے اور اسی وجہ سے رِجالِ سیاست نے اس بات کو بہت پسند کیا ہے کہ حاکم اپنے فیصلہ کو بہت جلدی واپس نہ لے بلکہ حتّٰی الامکان اس پر قائم رہے۔

ہمارے آنحضرت ﷺ جس پاک فطرت کو لے کر پیدا ہو ئے اور جن کمالات کو آپؐ نے حاصل کیا تھا وہ چاہتے تھے کہ آپؐ ہمیشہ خیر اختیار کریں ایک دنیاوی بادشاہ یا حاکم اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ میں اپنے ایام حکومت میںحکومت کے رعب کو قائم رکھتا رہا ہوں اور ایک مضبوط ارادہ کے سا تھ نظام حکومت چلا تا رہا ہوں مگر میرے اس پیا ر ے کا یہ فخرنہ تھا کہ میں نے جو کچھ کہہ دیا اس پر پا بند رہا ہوں بلکہ اس کا فخریہ تھا کہ میں نے جب عمل کیا خیر پر کیا اور جب مجھے معلوم ہوا کہ میں فلاں رنگ میں کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں میں نے اس کے پہنچانے میں کو تا ہی نہیں کی پس اگر روحانیت کی دنیا میں کو ئی شخص قابل اتباع ہو سکتا ہے تو وہ آنحضرت ﷺ ہی ہو سکتے ہیں۔

حضرت ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

اِنَّا اَتَیْنَا النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفَرٌ مِنَ الْاَشْعَرِ یِّیْنَ فَاسْتَحْمَلْنَاہُ فَاَبٰی اَنْ یَّحْمِلَنَا، فَاسْتَحْمَلْنَاہُ فَحَلَفَ اَنْ لاَّ یَحْمِلَنَاثُمَّ لَمْ یَلْبَثِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ اُتِیَ بِنَھْبِ ابِلٍ فَاَمَرَلَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ فَلَمَّا قَبَضْنَا ھَا قُلْنَا :تَغَفَّلْنَا النَّبِیَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمِیْنَہٗ ، لَا نُفْلِحُ بَعْدَھَااَبَدًا،فَاَتَیْتُۃٗفَقُلْتُ:یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، اِنَّکَ حَلَفْتَ اَنْ لاَّتَحْمِلَنَاوَقَدْحَمَلْتَنَا؟قَالَ:اَجَلْ، وَلٰکِنَّ لَااَحْلِفُ عَلیٰ یَمِیْنٍ،فَاَرٰی غَیْرَ ھَا خَیْرًامِنْھَا اِلَّا اٰتَیْتُ الَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ مِنْھَا

(بخاری کتاب المغازی باب قدوم الا شعر یین واھل الیمن)

آپؓ نے فر ما یا کہ ہم چند آدمی جو اشعری قبیلہ کے تھے۔نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور ہم نے آپؐ سے سواری مانگی۔آپؐ نے فرمایا کہ سواری نہیں ہے میں نہیں دے سکتا۔ہم نے پھر عرض کیا کہ ہمیں سواری دی جاوے تو آپؐ نے قسم کھا لی کہ ہمیں سواری نہ دیں گے پھر کچھ زیا دہ دیر نہ لگی تھی کہ نبی کریم ﷺکے پاس کچھ اونٹ لا ئے گئے پس آپؐ نے حکم دیا کہ ہمیں پا نچ اونٹ دیے جاویں۔پس جب ہم نے وہ اونٹ لے لیے ہم نے آپس میں کہا کہ ہم نے تو آنحضرت ﷺ کو دھوکا دیا ہے اور آپؐ کوآپؐ کی قسم یا دنہیں دلا ئی ہم اس کے بعد کبھی مظفر و منصور نہ ہوں گے اس خوف سے میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہاکہ یا رسولؐ اللہ !آپؐ نے تو قسم کھائی تھی کہ آپؐ ہمیں سواری نہ دیں گے اور اب تو آپؐ نے ہمیں سواری دے دی ہے۔فر ما یا ہاں اسی طرح ہوا ہے ۔ میں کوئی قسم نہیں کھا تا لیکن جب اس کے سوا کو ئی اَور بات بہتر دیکھتا ہوں تووہ بات اختیار کرلیتا ہوں جو بہتر ہو۔

اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا مقصود کیا تھا آپؐ کے کام کسی دنیاو ی مصلحت یا ارادہ کے ماتحت نہ ہو تے تھے بلکہ آپؐ اپنے ہر کام میں یہ بات مد نظر رکھتےتھے کہ جو کچھ آپؐ کر تے ہیں وہ واقعہ میں نفع رساں بھی ہے یا نہیں اور اگر کبھی معلوم ہو جا ئے کہ آپؐ نے کو ئی ایسا کام کیا ہے یا اس کے کرنے کا ارادہ کیا ہے جو کسی انسان کےلیے مضر ہو گا یا اسے اس سے تکلیف ہو گی توآپؐ فوراً اپنے پہلے حکم کو واپس لے لیتے اور وہی بات کرتے جوبہترا ور نفع رساں ہو تی۔

ایک ظاہر بین انسان کہہ سکتا ہے کہ اس سے رعب ود اب میں فرق آتا ہے اور حکومت کو نقصان پہنچتا ہےمگر اس بات سے تو آپؐ کی خوبی اور نیکی کا پتہ چلتا ہے کہ خواہ کو ئی امر کیسا ہی خطرناک اور مُضر معلوم ہو تا ہو آپؐ بے دھڑک اسے اختیار کر لیتے تھے جبکہ آپؐ کو یقین ہوجاتا ہے کہ اس سے لوگوں کے حقوق کی نگہداشت ہو تی ہے۔اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص نشان تھا کہ باوجود اس بات کے آپؐ کو ایسا رعب وداب میسر تھا جو دنیا کے کسی بادشاہ کو میسر نہیں۔واقعہ میں ایک بادشاہ کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ لوگوں کو سکھ پہنچائے اور آپؐ نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ آپؐ دین و دنیا کے لیے ایک کامل نمونہ تھے اور آپؐ کی زندگی دنیاوی بادشاہوں کے لیے بھی نمونہ ہے کہ بادشاہوں کو اپنے ماتحتوں اور رعایا کے سا تھ کیسا سلوک کرنا چاہیے اور کس طرح ضد اور تعصب سے الگ ہو کر ہر ایک قر بانی اختیار کرکے لوگوں کو آرام پہنچانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ہمیں اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ ماتحتوں پر اسی وقت بادشاہ کے حکم بدل دینے کا برا اثر پڑتا ہے جب کہ ان کو یہ یقین ہو کہ بادشاہ ہمارا یقینی خیر خواہ نہیں بلکہ اس نے ڈر کر اپنے حکم میں تبدیلی کی ہے اور جب انہیں یقین ہو کہ اس کے احکام ایک غیر مستقل طبیعت کا نتیجہ ہیں لیکن اگر انہیں اس بات کا کامل یقین ہو جا ئے کہ کو ئی بادشاہ یا حاکم ان سےڈر کر یا بے استقلالی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے حکم بدلتا ہے کہ وہ ان کا خیرخواہ ہے او رکسی وقت بھی ان کی بھلا ئی سے غافل نہیں ہو تا تو بجائے اس کے کہ ان کے دلوں میںبے رُعبی پیدا ہو وہ اس سے اور بھی مرعوب ہو جا تے ہیں اور ان کے دل محبت سے بھر جا تے ہیں اور جو بادشاہ اپنی رعایا اور ماتحتوں کے دلوں میں اپنی خیرخواہی کا ایسایقین بٹھادے وہی سب سے زبردست بادشاہ ہے اور یہی خیال تھا جس نے کہ ابو موسیٰ ؓ اور ان کے سا تھیوں کو مجبور کیا کہ بجا ئے اس خیال کے کہ یہ سمجھیں کہ آنحضرت ﷺسے کسی قسم کی بے استقلالی ظاہر ہو ئی ہے انہوں نے جنگ کے لیےپید ل جانا منظور کیا مگر یہ نہ پسند کیا کہ آپؐ کو دوبا رہ قسم یاددلائے بغیر ان سواریوں کو استعمال کریں۔اور یہ اس عظیم الشان فتح کا نشان تھا جو آپؐ کو اپنے اصحابؓ کے دلوں پر حاصل تھی۔

تحمّل

انسان کے نیک خصال میںسے تحمل کی خصلت بھی اعلیٰ درجہ کی ہے کیونکہ تحمل سے بہت سے جھگڑوں فسادوں اور لڑائیوں کا قلع قمع ہو جا تا ہے۔بہت دفعہ انسان ایک بات سن کر بحث مباحثہ میںپڑ جا تا ہے اور بجا ئے فائدہ کرنے کے نقصان پہنچاتا ہے۔بعض لوگ تو اپنے خیال کے خلاف بات سنتے ہی کچھ ایسے دیوانہ ہو جا تے ہیں کہ حَدِّا عتدال سے بڑھ کر گالیوں پر اترآتے ہیں او رعظیم الشان فسادوں کے با نی ہو جا تے ہیں۔بعض لوگ اپنے منشا کے خلاف بات سن کر ایسی طول طویل بحثیں شروع کر دیتے ہیں کہ جن کا ختم ہو نا محالات سے ہو جا تا ہے لیکن حقیقی مصلح وہی ہے جو اکثر اوقات تحمل سے کام لیتا ہے اور احتیاط کے سا تھ سمجھاتا ہے۔

آج کل کے بادشاہ یا علماء یا گدی نشین اپنی حیثیت کا قیام ہی اسی میں دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص ان کے خلاف بات نہ کرے اور مرضی کے خلاف بات دیکھ کر فوراًناراض ہوجاتے ہیں اور تحمل سے کام نہیں لیتے۔ ممکن نہیں کہ ان لوگوں کے مزاج کے خلاف کوئی شخص بات کہہ دے اور پھر بغیر کچھ سخت وسست کلام سننے کے اس مجلس سے اٹھے مگر ہمارے آنحضرت ﷺ اس طرز کے نہ تھے۔اس موقع پر تحمل سے کام لیتے اور بجا ئے گالیاں دینے اور سختی کر نے کے ایسا نرمی کا طریق اختیار کر تے کہ دوسرا خود بخود شرمندہ ہو جا ئے۔

حضرت علیؓ اپنا ایک واقعہ بیان فر ما تے ہیںجس سے ثابت ہو تا ہے کہ ایک موقع پر جبکہ حضرت علی ؓنے آپؐ کو ایسا جواب دیا جس میںبحث اور مقابلہ کا طرز پا یا جا تا تھا تو بجائے اس کے کہ آپؐ ناراض ہو تے یا خفگی کا اظہار کر تے آپؐ نے ایک ایسی لطیف طرز اختیار کی کہ حضرت علی ؓغالباً اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس کی حلاوت سے مزا اٹھا تے رہے ہوں گے اور انہوں نے جو لطف اٹھا یا ہو گا وہ تو انہیں کا حق تھا۔اب بھی آنحضرتﷺ کے اس اظہار ناپسندیدگی کو معلوم کر کے ہر ایک باریک بین نظر محوِحیرت ہو جا تی ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتےہیں

اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَرَقَہٗ وَ فَاطِمَۃَ بِنْتَ النَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَیْلَۃً فَقَالَ: اَلَا تُصَلِّیَانِ فَقُلْتُ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ،اَنْفُسُنَا بِیَدِ اللّٰہِ،فَاِذَا شَآءَ اَنْ یَّبْعَثَنَا بَعَثَنَا،فَانْصَرَفَ حِیْنَ قُلْنَا ذَالِکَ وَلَمْ یَرْجِعْ الَیَّ شَیْئًا،ثُمَّ سَمِعْتُہٗ وَھُوَ مُوَلٍّ،یَضْرِبُ فَخِذَہٗ،وَھُوَ یَقُوْلُ:وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلاً (بخاری کتاب التہجد باب تحریض النبی ﷺ علی قیام اللیل)

یعنی نبی کریم ﷺ ایک رات میرے اور فاطمۃ الزہراؓ کے پاس تشریف لا ئےجو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور فر ما یا کہ کیا تم تہجد کی نماز نہیں پڑھا کر تے۔میں نے جواب دیا کہ یا رسولؐ اللہ !ہماری جا نیں تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں جب وہ اٹھا ناچاہے اٹھا دیتا ہے۔ آپؐ اس بات کو سن کر لوٹ گئے اور مجھے کچھ نہیںکہاپھر میں نے آپؐ سے سنا اور آپؐ پیٹھ پھیر کر کھڑے ہو ئے تھے اور آپؐ اپنی ران پر ہا تھ مار کر کہہ رہے ہیں کہ انسان تو اکثر با توں میں بحث کرنے لگ پڑتا ہے۔

اللہ اللہ !کس لطیف طرز سے حضرت علیؓ کو آپؐ نے سمجھایا کہ آپؓ کو یہ جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔ کوئی اَور ہو تا تو اول تو بحث شروع کر دیتا کہ میری پو زیشن اور رُتبہ کو دیکھو۔پھر اپنے جواب کو دیکھو کہ کیا تمہیں یہ حق پہنچتا تھا کہ اس طرح میری بات کو رّد کر دو ۔یہ نہیں تو کم سے کم بحث شروع کر دیتا کہ یہ تمہارا دعویٰ غلط ہے کہ ا نسان مجبور ہے اور اس کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیںوہ جس طرح چاہے کروا تا ہے چاہے نماز کی توفیق دے چاہے نہ دے اور کہتا کہ جبر کا مسئلہ قرآن شریف کے خلاف ہے لیکن آپؐ نے ان دونوں طریق میں سے کو ئی بھی اختیار نہ کیا اور نہ تو ان پر ناراض ہو ئے نہ بحث کرکے حضرت علیؓ کو ان کے قول کی غلطی پر آگاہ کیا بلکہ ایک طرف ہو کر ان کے اس جواب پر اس طرح اظہار حیرت کر دیا کہ انسان بھی عجیب ہے کہ ہر بات میں کو ئی نہ کو ئی پہلو اپنے موافق نکال ہی لیتا ہے اور بحث شروع کر دیتا ہے حقیقت میں آپؐ کا اتنا کہہ دینا ایسے ایسے منافع اندر رکھتا تھا کہ جس کا عُشر عَشِیر کسی اَور کی سوبحثوں سے نہیں پہنچ سکتا تھا۔

اس حدیث سے ہمیں بہت سی باتیں معلوم ہو تی ہیںجن سے آنحضرتؐ کے اخلاق کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور اسی جگہ ان کا ذکر کردینامناسب معلوم ہوتا ہے۔

اول تو یہ معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کو دینداری کا کس قدر خیال تھا کہ را ت کے وقت پھر کراپنے قریبیوں کا خیال رکھتے تھے۔بہت لوگ ہو تے ہیں جو خود تونیک ہو تے ہیں، لوگوں کو بھی نیکی کی تعلیم دیتے ہیں لیکن ان کےگھر کا حال خراب ہو تا ہے اور ان میں یہ ما دہ نہیں ہو تا کہ اپنے گھر کے لوگوں کی بھی اصلاح کریں اور انہی لو گوں کی نسبت مثل مشہور ہے کہ چراغ تلے اندھیرا۔یعنی جس طرح چراغ اپنے آس پا س تمام اشیاء کو رو شن کر دیتا ہے لیکن خود اس کے نیچے اندھیرا ہو تا ہے اسی طرح یہ لوگ دوسروں کو تو نصیحت کر تے پھرتے ہیں مگر اپنے گھر کی فکر نہیں کرتے کہ ہماری روشنی سے ہمارے اپنے گھر کے لو گ کیا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔مگر آنحضرتؐ کواس بات کا خیال معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عزیز بھی اس نور سے منور ہوں جس سے وہ دنیا کو روشن کر نا چاہتے تھے اور اس کا آپؐ تعہّدبھی کر تے تھے اور ان کے امتحان و تجربہ میں لگے رہتے تھے،اور تربیت اعزّاء ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہے جو اگر آپؐ میں نہ ہو تا تو آپؐ کے اخلاق میں ایک قیمتی چیز کی کمی رہ جا تی۔

دوسری بات یہ معلوم ہو تی ہے کہ آپؐ کو اس تعلیم پر کامل یقین تھا جو آپؐ دنیا کے سامنے پیش کر تے تھے اور ایک منٹ کے لیے بھی آپؐ اس پر شک نہیں کر تے تھے اور جیسا کہ لوگ اعتراض کر تے ہیں کہ نَعُوْذُبِاللّٰہ دنیا کو الّو بنانے کے لیے اور اپنی حکومت جمانے کے لیے آپؐ نے یہ سب کارخانہ بنا یا تھا ورنہ آپؐ کو کو ئی وحی نہ آتی تھی۔یہ با ت نہ تھی۔بلکہ آپؐ کو اپنے رسول اور خدا کے ما ٔمور ہو نے پر ایساثلجِ قلب عطا تھا کہ اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔کیونکہ ممکن ہے کہ لوگوں میں آپؐ بناوٹ سے کام لے کر اپنی سچائی کو ثابت کرتے ہوں لیکن یہ خیال نہیںکیا جاسکتا کہ رات کے وقت ایک شخص خاص طور پر اپنی بیٹی اور داماد کے پا س جا ئے اور ان سے دریافت کرے کہ کیا وہ اس عبادت کو بھی بجا لاتے ہیں جو اس نے فر ض نہیں کی بلکہ اس کا ادا کر نا مومنوں کے اپنے حالات پر چھوڑ دیا ہے اور جو آدھی رات کے وقت اٹھ کر ادا کی جا تی ہے۔اس وقت آپؐ کا جا نا اور اپنی بیٹی اور داماد کو ترغیب دینا کہ وہ تہجد بھی ادا کیا کریں اس کامل یقین پر دلالت کر تا ہے جو آپؐ کو اس تعلیم پر تھا جس پر آپؐ لو گوں کو چلا نا چاہتے تھے ورنہ ایک مفتر ی انسان جو جانتا ہو کہ ایک تعلیم پر چلناایک سا ہے اپنی اولاد کو ایسے پو شیدہ وقت میں اس تعلیم پر عمل کر نے کی نصیحت نہیں کرسکتا یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک آدمی کے دل میں یقین ہو کہ اس تعلیم پر چلے بغیر کمالات حاصل نہیں ہو سکتے۔

تیسری بات وہی ہے جس کے ثابت کر نے کے لیے میںنے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ آنحضرتؐ ہر ایک بات کے سمجھانے کے لیے تحمل سے کام لیا کر تے تھے اور بجا ئے لڑنے کے محبت اور پیارسے کسی کو اس کی غلطی پر آگا ہ فر ماتے تھے۔چنانچہ اس موقع پر جب حضرت علی ؓنے آپ کے سوال کو اس طرح رد کرنا چاہا کہ جب ہم سو جا ئیں تو ہماراکیا اختیار ہے کہ ہم جا گیں کیونکہ سو یا ہوا انسان اپنے آپ پر قابو نہیں رکھتا ۔جب وہ سو گیا تو اب اسے کیا خبر ہے کہ فلاں وقت آگیا ہے اب میں فلاں کام کرلوں اللہ تعالیٰ آنکھ کھول دے تو نماز ادا کر لیتے ہیں ورنہ مجبوری ہو تی ہے (کیونکہ اس وقت الارم کی گھڑیاں نہ تھیں)اس بات کو سن کر آنحضرتؐ کو حیرت ہو نی ہی تھی کیونکہ آپؐ کے دل میں جو ایمان تھا وہ کبھی آپؐ کو ایسا غافل نہ ہو نے دیتاتھا کہ تہجد کا وقت گزر جا ئے اور آپؐ کو خبر نہ ہو اس لیے آپؐ نے دوسری طرف منہ کرکے صرف یہ کہہ دیا کہ انسان بات مانتا نہیں جھگڑتا ہے۔یعنی تم کو آئندہ کے لیے کو شش کر نی چاہیے تھی کہ وقت ضائع نہ ہو نہ کہ اس طرح ٹالنا چاہیے تھا۔چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فر ما تے ہیں میںنے پھر کبھی تہجد میں ناغہ نہیں کیا۔

(باقی آئندہ )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button