رپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2019ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

قزاخستان،ہنگری،مالٹا ،آذربائیجان اور بوزنیاکے وفود کی حضور انور کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کروشیا اور سلووینیا کے وفود کی اجتماعی ملاقات

……………………………………………

08؍جولائی2019ءبروزسوموار

(حصہ سوم)

……………………………………………

اس کے بعد ملک قاذخستان سے آنے والے وفد نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات پایا۔

یہ وفد 18 ؍افراد پر مشتمل تھا جن میں 17؍ احمدی دوست تھے اور ایک غیر از جماعت دوست شامل تھے۔

٭ وفد کے ایک ممبر نے حضورانور کی خدمت میں عرض کیاکہ مجھے قاذخستان کے احبابِ جماعت نے حضورانور کی خدمت میں سلام پہنچانے کی درخواست کی تھی۔ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ‘ ‘وعلیکم السلام’’۔

موصوف نے عرض کیاکہ ہماری جماعت ترقی کررہی ہے۔ جماعتی رجسٹریشن میں مشکلات ہیں۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: ‘‘اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔’’

٭ صدرخدام الاحمدیہ قاذخستان نے بھی حضورانور کی خدمت میں دعاکی درخواست کی۔ حضورانور نے ان سے دریافت فرمایاکہ کیا آپ باقاعدہ اپنی رپورٹس بھجواتے ہیں؟

اس پر صدر خدام نے عرض کیاکہ تین ماہ میں ایک رپورٹ بھجواتاہوں۔

٭ ایک احمدی دوست نے عرض کیاکہ میں 2011ء سے احمدی ہوں۔ خدا تعالیٰ نے میری دعاقبول کی ہے اور مجھے جلسہ پر آنے کی توفیق ملی ہے۔ میری والدہ احمدی نہیں ہیں۔ جلسہ کی شمولیت سے میری والدہ پر گہر ااثر ہواہے۔ ہمارے لیے دعاکریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں حقیقی احمدی بنائے۔ جلسہ پر رضاکاروں نے جس طرح بڑی محنت اور صبر سے کام کیاہے اس کا ہم پر گہرااثر ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

٭ ایک احمدی دوست نے عرض کیاکہ میں سال 2006ء سے احمدی ہوں۔ ہمارے ملک کا ایک نیا صدر بناہے۔ نئے انتخابات ہوئے ہیں خداکرے کہ ہمارے سارے معاملات ٹھیک ہوجائیں اور ہماری رجسٹریشن کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی دور ہوجائیں۔

٭ ایک لجنہ ممبر نے عرض کیاکہ ان کے خاوند جری اللہ صاحب اس وقت جامعہ گھانا میں پانچویں سال میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اسی طرح ان کا چھوٹا بھائی جامعہ گھانا کے لیے چلاگیاہے اورپہلے سال میں ہے۔

٭ قزاخستان سے آنے والے ایک صاحب نے عرض کیاکہ جلسہ کے انتظامات بہت اعلیٰ تھے۔ میرا بیٹا بھی جامعہ گھانا میں تعلیم حاصل کررہاہے اور اس نے اولیٰ کلاس پاس کرلی ہے۔ اس کے لیے دعاکی درخواست ہے۔

٭ ایک خاتون نے دعاکی درخواست کرتے ہوئے کہا ایک بیٹا اورایک بیٹی اور سات پوتیاں اور نواسے، نواسیاں ہیں۔ دعاکریں کہ خدا میرے بیٹے کو بیٹا عطافرمائے۔ وہاں جماعت کی رجسٹریشن نہیں ہے اس کا دکھ ہوتاہے۔ خدا تعالیٰ اس راہ میں حائل روکیں اور مشکلات دور فرمادے۔

٭ ایک خاتون نے عرض کیاکہ ہم نے لجنہ آرگنائز کی ہے۔ میں سابق صدر لجنہ ہوں۔ میرے والدین گزشتہ سال جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔ ہمیں حضورانور کی طرف سے خطوط کے جوابات ملتے ہیں اور حضورانور کی دعائیں ہمارے حق میں قبول ہوتی ہیں۔

٭ ایک خاتون نے عرض کیاکہ ہم حضورانور کے بہت شکر گزارہیں۔ جلسےکے انتظامات بہت اعلیٰ تھے۔ میرے دو بیٹے ہیں ان کے لیے دعاکریں کہ میں ان کی صحیح تربیت کرسکوں اور وہ دونوں جماعت کے مبلغ بن سکیں۔

٭ ایک مہمان نے عرض کیاکہ میںاحمدی نہیں ہوں۔ جماعت سے میراتعارف ہورہاہے۔ میں نے جو یہاں دیکھاہے بالکل ایک الگ تھلگ دنیا ہے۔ ہر چیز بہت منظم ہے۔ لوگ بہت ملنسار اور محبت کرنے والے ہیں۔ اس کا مجھ پر گہرا اثر ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنے باقی تمام ممبران کو بھی ساتھ لاسکوں۔

٭ ایک خاتون نے عرض کیاکہ جلسہ کے انتظامات بہت اعلیٰ تھے۔ ہر چیز منظم تھی۔ ہمارے ملک کا پریذیڈ نٹ نیا آیاہے۔ اب حالات بدلے ہیں۔ حضوردعاکریں کہ ہماری آئندہ نسلوں کو وہاں کوئی خوف نہ ہو۔

٭ ایک خاتون نے عرض کیاکہ وہ جلسہ پر پہلے بھی آچکی ہیں۔ حضورانور کو خط لکھاتھا۔ حضورانور نے اس کا جو جواب عطافرمایا میں اس کی شکر گزارہوں۔ حضورانور کی دعاؤں سے ہماری مشکلات دورہوگئی ہیں۔

قزاخستان کے وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے یہ ملاقات ایک بج کر پندرہ منٹ تک جاری رہی۔ آخر پروفد کے ممبران نے حضورانور کے ساتھ تصاویر بنوانے کا شرف پایا۔ حضورانورنے ازراہِ شفقت ایک بچے کو اپنے ساتھ لگاکر پیارکیا اور اس بچے نے بھی تصویر بنوائی۔

وفد میں شامل خواتین نے حضورانور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضورہمارے سروں پر ہاتھ رکھ کر ہمیں دعادیں۔ حضورانور نے ازراہِ شفقت ان کی درخواست کو قبول فرماتے ہوئے انہیں دعاؤں سے نوازا۔

…………………………………………………………………

بعد ازاں پروگرام کے مطابق ملک ‘ہنگری’ (Hungary) سے آنے والے وفد نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔

ہنگری سے امسال 19؍افراد پر مشتمل وفد آیا تھا۔ جس میں8مہمان حضرات اور گیارہ احمدی احباب شامل ہوئے۔

سب سے پہلے وفد کے ممبران نے باری باری تعارف کروایا۔

٭ ساوا ونس صاحب ( Szava Vince) جن کا تعلق روما قوم سے ہے اور انہیں لوگ Gypsyبھی کہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی قوم کی فلاح اور بہبود کے لیے اور ان کی legal مدد کے لیے ایک تنظیم بنائی ہے۔ اس تنظیم کے 16 ہزار سے زائد ممبر ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ جلسے میں شامل ہوئے ہیں۔

انہوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کو اپنے کام کی وجہ سے مختلف لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ یہ مختلف تقریبات میں جاتے ہیں، ان کے پروگراموں میں جاتے ہیں۔ یہودیوں کے پروگراموں میں گئے ہیں، مسلمانوں کے پروگراموں میں بھی گئے ہیں اور عیسائیوں کے پاس بھی گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جو محبت اور انسانیت کا احترام ، مساوات اور بھائی چارا یہاں جلسہ کے موقع پر دیکھا ہے ایسا کبھی بھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اور نہ ہی کسی اور پروگرام میں دیکھا۔

انہوں نے جماعت کا شکریہ اداکیا کہ جماعت نے انہیں موقع دیا ہے کہ وہ یہاں پر آکر خود دیکھیں کہ ہم جو کہتے ہیں ‘‘محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ’’، اس کا عملی اظہار بھی یہاں ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تجربہ ان کے لیے ایک lifetimeکا تجربہ ہے جس کو بھلایا نہیں جا سکتا اور یہ جلسہ میں شمولیت کی وجہ سے ایک خاص جذباتی کیفیت میں ہیں۔

ملاقات کے بعد موصوف نے بتایاکہ محبت ، عزت اور امن جو ہم نے یہاں دیکھا ہے وہ پہلے کہیں بھی نہیں دیکھا۔ ہم پہلے بھی مسلمانوں کی سپورٹ کر رہے ہیں، خاص طور پر اپنے ملک میں جہاں مسلمان مہاجرین کے مسائل کی وجہ سے ان کے لیے ایک خاص نفرت ہے ۔ ہم مسلمانوں کے لیے پہلے بھی آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن اب تو ہم مزید زور اور شور سے آواز اٹھائیں گے کہ وہ مسلمان جن کی باتیں میڈیا کرتا ہے یہ بالکل غلط باتیں ہیں۔ جو وہ میڈیا وہاں دن رات دکھاتا رہتا ہے، وہ بالکل غلط ہے۔ جو پیار محبت باہمی امن اور احترام ہم نے یہاں دیکھا ہے وہ ہم نے اور کہیں نہیں دیکھا ۔

٭ موصوف کی اہلیہ Mrs Racz Gyullane کہنے لگیں: یہ بات ہمارے لیے بڑی عزت کا باعث ہے کہ ہم حضورانور سے ملاقات کررہے ہیں اور بے حد خوشی مجھے اور میرے خاوند کو ہوئی ہے کہ ہمیں جماعت کی طرف سے جلسے کی دعوت ملی اور میں اس کے لیے بھی شکر گزارہوں۔

٭ گابور تاماشاصاحب Gabor Tamasایک ریفارم چرچ کے پادری ہیں ان کے ماتحت ہنگری کا ایک گاؤں اوردیگر چار علاقے ہیں۔ یہ پچھلے چار پانچ سالوں سے جلسہ میں آرہے ہیں یہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

جلسہ میری زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے ۔ گوکہ میں مذہباً عیسائی ہوں لیکن یہاں جلسہ میں آکر میں اپنے آپ کو روحانی طور پرتوانا محسوس کرتاہوں اور اپنے ایمان میں مزید تقویت محسوس کرتا ہوں۔ آپ کے بھائی چارے ، امن اورمحبت کو دیکھ کر ایک خاص تقویت ملتی ہے ۔

میں مہاجرین کے کیمپوں میں جاکر رضاکارانہ طور پر کام کرتاہوں اور وہاں جماعت کا تعارف بھی کرواتاہوں۔

٭ وفا حسن شرمانی صاحبہ یمن میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے اپنے بیٹے اور والدہ کے ساتھ ہجرت کر کے Hungary آئیں۔ پچھلے سال بھی وہ جلسہ میں شامل ہوئیں اور اس سال بھی ان کو شامل ہونے کی توفیق ملی۔ یہ مسلمان ہیں اور پچھلی دفعہ جب یہ عورتوں کی طرف گئیں تو انہوں نے اپنے آپ کو وہاں زیادہ comfortableمحسوس کیا۔ اور اس سال انہوں نے کہا کہ عورتوں میں جا کر انہوں نےسارے پروگرام سنے ہیں۔ ان کے لیے یہ ایک خاص روحانیت سے بھرا ہوا اور ایک جذباتی ماحول تھا۔

٭ مایا کے مین صاحبہ(Maja Kemeny)اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں:

یہ میرے لیے یہاں پہلا موقع ہے۔ یہاں ہر ایک اتنا پیار کرنے والا اور مدد دینے والا تھا۔ جب کبھی بھی مجھے کوئی مسئلہ پیش آتا تو کوئی نہ کوئی فوری طور پر میری مدد کرتا۔ میرا یہاں کوئی بھی برا تجربہ نہیں ہوا۔ خلیفہ وقت کے ساتھ بہت ہی اچھا وقت تھا۔ مجھے یہ بات بہت ہی اچھی لگی کہ ہرایک خود خلیفہ وقت سے بات کر سکا۔ یہ میرا پہلا موقع تھا، امید ہے کہ یہ میرا آخری موقع نہ ہوگا۔ آپ لوگوں کا بہت شکریہ۔

ہنگری کے وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے یہ ملاقات ایک بج کر پچیس منٹ تک جاری رہی۔ آخر پروفد کے تمام ممبران نے حضورانور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

…………………………………………………………………

اس کے بعد پروگرام کے مطابق ملک مالٹا (Malta) سے آنے والے وفد نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ شرفِ ملاقات پایا۔

مالٹا سے 13؍افراد پر مشتمل وفد آیاتھا۔ وفد کے ممبران نے باری باری اپنا تعارف کروایا۔

٭ وفد کے ممبران نے عرض کیاکہ یہاں جلسہ پر بہت سے ممالک کے لوگ جمع تھے۔ ہم نے یہاں دیکھاہے کہ سب آپس میں متحد و یک جان تھے۔ ہم نے یہاں بہت کچھ سیکھاہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ یہاں آپ کو حقیقی اسلامی تعلیم دیکھنے کو ملی ہے۔

٭ مالٹا سے جلسہ میں شامل ہونے والی تین خواتین مہمان مستورات کی مارکی میں بھی گئیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ‘‘وہاں ہمارا بہت خیال رکھا گیا ۔ ہمیں متعدد بار پوچھا جاتا رہا کہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ ہمارے کھانے اور ہماری تمام ضروریات کا بہت احسن طور پر خیال رکھا گیا۔ مجموعی طور پر تقاریر کے تراجم کا معیار اور آواز کی کوالٹی بہت اچھی تھی ۔ ہم نے تمام باتوں کو گہری دلچسپی سے سنا۔ تمام معلومات میں عملی ہدایات اور راہنمائی کی گئی۔ خواتین کی مارکی میں ایک فیملی کا سا ماحول تھا۔ ایسے تھا کہ جیسے ہم ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح شاید صدیوں سے جانتے ہیں مگر ہماری تو پہلی بار ملاقات ہو رہی تھی۔ ’’

مالٹا سے آنے والی ان تینوں خواتین مہمانوں نے ذکر کیا کہ ‘‘ خواتین کی مارکی میں زیادہ آسانی تھی اور ہمیں دونوں طرف کے ماحول کو تجربہ کرنے کا موقع ملا اور ہمیں اسلامی تعلیمات کہ جس میں مرد و خواتین کے لیے علیحدہ انتظام کیا جاتا ہے اس کی صحیح اور گہری حکمت اور فلاسفی کو سمجھنے کا موقع ملا اور ہم اپنے تجربہ کی بناپر یہ کہہ سکتی ہیں کہ اسلامی تعلیمات بہت گہری اور حکمت سے پُر ہیں اور خواتین علیحدہ جگہ پر زیادہ آسانی اوراطمینان محسوس کرتی ہیں اور انہیں اپنے انتظامات سنبھالنے اور اپنی قابلیتوں کے جو ہر دکھانے کا وسیع موقع ملتا ہے۔’’

٭ مالٹا سے جلسہ میں شرکت کرنے والی ایک مہمان خاتون جن کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ وہ اپنے تاثرات کا اس طرح اظہار کرتی ہیں کہ حضور انور کے مستورات سے خطاب سے متاثر ہوئی ہوں جس میں حضور نے مرد و خواتین کے حقوق اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ گھروں میں مسائل پیش آتے رہتے ہیں اور اس سلسلہ میں حضور انور کی یہ راہنمائی ہمیشہ کے لیے بہت ہی مفید ثابت ہوگی۔انہوں نے بیان کیا کہ اسلام میں شادی سے قبل پاکیزگی اور عفت کی تعلیم بہت ہی پرحکمت اور جامع ہے اور حضور نے روحانی و جسمانی پاکیزگی اور تقویٰ اور طہارت کی طرف بھی راہنمائی فرمائی ہے۔انہوں نے بیان کیا کہ اگر وہ دوبارہ جلسہ میں شامل ہوئیں تو سارا وقت مستورات کی مارکی میں گزاریں گی کیونکہ وہاں جو ماحول میسر آیا وہ بہت ہی دینی اورروحانی تھا۔’’

٭ مالٹا سے ایک مہمان خاتون جو کہ پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں انہوں نے اپنے جذبات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:

جلسہ کے انتظامات ، مہمان نوازی اور افراد جماعت احمدیہ کے نہایت مثبت اور محبت بھرےسلوک اور مہمان نوازی سے متاثر ہوئی ہوں۔ 10 شرائط بیعت بہت ہی جامع اور حکمت اور دانائی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔

انہوں نے بیان کیا کہ اتنی بڑی تعداد میں ایک جگہ پر لوگ جمع تھے مگر اس کے باوجود صفائی کا بہت اعلیٰ معیار برقرار رکھا گیا۔

٭ مالٹا سے ایک اور مہمان خاتون نے بیان کیا کہ مستورات کی مارکی میں انہیں زیادہ لطف آیا اور اپنائیت کا احساس بہت بڑھ گیاہے۔

٭ مالٹا سے جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے والے ایک عیسائی دوست جو کہ پہلے بطور پادری کے بھی بعض ممالک میں کا م کر رہے ہیں اور بعد میں انہوں نے بوجوہ ان ذمہ داریوں سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اس طرح اظہار کیا کہ

‘‘میں نے آج تک کبھی ایسا منظم اور اعلیٰ پائے کا اجتماع نہیں دیکھا جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوں اور ہر طرف محبت اور بھائی چارے کا اظہار ہو۔ ’’

٭ مالٹا کے ایک مسلمان دوست جو کہ ایک مقامی کونسل کے کونسلر ہیں ، انہوں نے اپنے جذبات کا اس طرح اظہار کیا ہے کہ:

‘‘جماعت احمدیہ مذہبی آزادی پر یقین رکھتی ہے اور عملاً ایک ماحول پیدا کرتی ہے کہ اپنی identity کو قائم رکھتے ہوئے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں ۔ کہنے لگے اگر ایک لفظ میں بیان کروں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ ‘ Ahmadiyyat is perfect’۔احمدیت تعداد میں تو چھوٹی جماعت ہے مگر اپنی موجودگی اور اپنی کوششوں کی وجہ سے یہ ترازو میں بہت بھاری ہے۔ کہنے لگے احمدیت کو بین الاسلام مخالفت کا سامنا ہے جو مجھے پریشان کرتا ہے۔ احمدیت نہایت عمدہ رنگ میں انسانیت کی خدمت کر رہی ہے اور بہت زور سے integration پر کام کر رہی ہے۔انہوں نے بیان کیا کہ احمدیت اسلام کے خلاف پیدا کردہ منفی اور نفرت آمیز رویوں کے خلاف ایک بہت ہی متاثر کن انقلابی تحریک ہے۔ احمدیت آج اسلام کے دفاع میں سر فہرست دکھائی دیتی ہے۔

اس پر حضورانور نے فرمایا:مذہب دل کا معاملہ ہے۔ قرآن کریم کہتاہے کہ لاَ اِکراہَ فِی الدّین۔ بحیثیت انسان ہم سب کو اکٹھا ہونا چاہیے۔

موصوف نے عرض کیاکہ ہم مالٹا میں احمدی مبلغ کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ ہمیں اس بات سے بہت خوشی ہے۔ جماعت احمدیہ مالٹا وہاں کے مقامی مالٹیزلوگوں کے ساتھ مل کر بہت اچھا کام کررہی ہے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ احمدیہ جماعت کا یہ کیریکٹر دنیا میں ہر جگہ نظرآتاہے۔ اب یہاں جو مہمانوں کے ساتھ پروگرام تھا اس میں پانچ سو کے قریب جرمن مہمان جمع تھے۔ احمدی احباب کے ان لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں تو یہ اس پروگرا م میں آئے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں تو اس وجہ سے بھی آئے تھے۔

٭ مالٹا سے جلسہ میں شامل ہونے والے ایک عیسائی دوست نے بیان کیا کہ

جلسہ کے جملہ انتظامات ، مہمان نوازی ، بھائی چارہ اور جماعت احمدیہ کے سربراہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کی شخصیت سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔

حضور انور سے ملاقات کے بعد انہوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ

حضور سے ملاقات میں ایک روحانی ماحول تھا۔ حضور کے وجود میں ایک روحانی قوت کا احساس ہوا جو دل کو آپ کی طرف مائل کرتی ہے۔ آپ کا تمام مہمانوں کے ساتھ ان کے level کے مطابق بڑی محبت سے گفتگو فرمانا بہت ہی متاثر کُن تھا۔

٭ مالٹا سے ایک اور شامل ہونے والے دوست نے اپنے جذبات کا اس طرح اظہار کیا ہے کہ

حضور انور کے ساتھ مل کر ایک خاص قسم کی قوت کا احساس ہوا۔ امن کی طاقت آپ کے وجود سے نمایاں تھی۔حضور انور سے مصافحہ کرنے میں ایک گہرےاور روحانی لمس کا احساس نمایاں تھا۔

٭ مالٹا سے شامل ہونے والی ایک عیسائی مہمان نے اپنے تاثرات کا اس طرح اظہار کیا کہ

ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔حضور انور سے ملاقات اس سارے دورے کا سب سے اہم حصہ تھا۔ ہم اس بات پر حضور انور کے مشکور ہیں۔ حضور بے شک بہت عظیم انسان ہیں ۔

کہنے لگیں کہ خواہش تھی کہ زیادہ وقت دستیاب ہوتا ، تاکہ حضور سے زیادہ باتیں کرنے کا موقع ملتا۔
مالٹا کے وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ ملاقات ایک بجکر40منٹ تک جاری رہی۔ ملاقات کے آخر پر وفد کے ممبران نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

……………………………………………………………………

بعدازاں ملک آذربائیجان سے آنے والے وفد نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔

٭ آذربائیجان سے آنے والے ایک نومبائع احمدی نوجوان نے عرض کیاکہ ہم نے یہاں آکر بہت زیادہ روحانی ماحول پایاہے۔ یہ کس طرح ہوکہ ہمارے واپس جانے کے بعد بھی ہمارا یہ ماحول قائم رہے۔

اس پر حضورانور نے فرمایاکہ اپنی پانچ نمازوں کی حفاظت کریں، سورۃ فاتحہ یاد کریں اور پھر اس کا ترجمہ یاد کریں۔ اِیاک نعبد و ایا ک نستعین دہراتے رہیں۔ خدا تعالیٰ کی عبادت پر پوری توجہ دیں۔اسی طرح اھدناالصراط المستقیم پر زور دیں اور استغفار کرتے رہیں۔

حضورانور نے فرمایا: انسان کا کام کوشش کرناہے اور دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ سے مدد چاہنا ہے۔ ہر کام کرتے ہوئے یہ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہاہے۔

حضورانور نے فرمایا کہ خدا یاد رہے گا تو پھر سارے کام صحیح ہوں گے۔

٭ آذربائیجان سے آغا صف اصغروو صاحب جلسہ میں شریک ہوئے تھے۔انہیں جلسہ کے دوران حضورِ انور کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ یہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں روحانیت کی اتنی بلند یوں کو دیکھوں گا جو خلیفۃ المسیح کی ذات میں ہیں۔ مربی محمودصاحب نے مجھے جماعت کے بارہ میں اور اس کے عقیدوں کے بارہ میں معلومات دینی شروع کیں۔مجھے یہ سب بناوٹی اور جھوٹ لگا۔ میں نے ان باتوں کو سنتے ہی انکار کر دیالیکن معلوم نہیں تھا سچ کی یہ قوت مجھے جلد اپنی طرف کھینچ لے گی۔یقینی طور پر جماعت کی سچائی اور اس کے پیش کردہ دلائل بہت پختہ ہیں۔

ویڈیو ز میں دیکھے جانے والے نظارے یہاں آکر حقیقت میں دیکھنے کا موقع ملا۔ حضور کو قریب سے دیکھنے کی خاطر میں جمعہ میں پہلی صف میں جا کر بیٹھا تھا۔ حضور کو تشریف لاتا دیکھ کربہت ہی لذت محسوس کی۔یہ روحانی لذت اس وقت اور بڑھ گئی جب حضور کی زبان مبارک سے قرآنِ کریم کی تلاوت سنی۔ ایسے لگا کہ یہ آواز اور اس کا روحانی اثر صرف حضور سے ہی خاص ہے۔

جلسہ میں بہت سے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا لیکن ہر ایک سے مل کر ایک ہی جیسا خوشگوار احساس ہوتا تھا جو یقینی طور پردلیل ہے کہ یہ ایک جماعت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مجھے حضور کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت بخشی۔پہلی دفعہ جب مجھے یہ اطلاع دی گئی تو مجھے یقین نہ آیا ۔میں نے چار پانچ بار پوچھا کہ کیا واقعی میں حضور کے دستِ مبارک پر ہاتھ رکھ کر بیعت کروں گا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور ساتھ ہی پریشان ہو گیا کہ میں تو اس قابل نہیں۔پھر میں نے درود شریف اور استغفار کا ورد شروع کیا۔بیعت کا موقع آنے تک میں نہ کھا سکا اور نہ ہی کچھ اور کرسکا۔الحمدللہ بیعت کا موقع بھی آگیا۔حضور اپنے پر نور چہرے کے ساتھ تشریف لائے تو میری آنکھیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے قوت بخش روحانی موقع سےنوازا کہ میں بیعت کے بعد سجدہ میں گر گیا اور اس ذات کا شکر ادا کیا جس نے اپنے اس ناچیز گناہ گار بندے کو اپنے اتنے مقدس بندے کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق عطا فرمائی۔ جلسہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ حضورانور کے ساتھ ہمیں ایک ملاقات کا موقع مل جائے گا۔میں سارا دن کئی سوال سوچتا رہا۔ذہن میں یہ بھی آتا رہا کہ بیعت کے وقت جو چہرہ دیکھا تھا اس کو اتنی جلدی دوبارہ دیکھوں گا۔جب ملاقات کا موقع آیا تو میں اپنے ذہن میں سوچے ہوئےکئی سوالوں کو بھول گیا اور صرف سب سے زیادہ فکر مند کرنے والا سوال یاد رہا کہ آیا جلسہ کے بعد اپنے ملک جانے کے بعد کیا روحانیت کا یہ معیار قائم رہے گا؟یااس کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں۔الحمدللہ حضور نے میری یہ مشکل حل فرما دی۔آپ کے جواب نے مجھے تسلی عطا فرما دی کہ نماز، سورہ فاتحہ، اھدنا الصراط المستقیم۔صراط الذین انعمت علیھم اور استغفار اس کا حل ہے۔میں یہاں سے عہد کر کے جا رہاہوں کہ اگلے جلسہ تک اس نصیحت پر عمل پیرا رہوں گا اور اگلے جلسہ پر آکر حضور کو بتاؤں گا ۔

٭ ایک دوست طالع ابراہیمی صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے بتایا:

سب سے پہلے میں شکریہ اداکرناچاہتاہوں کہ مجھے اس جلسہ سالانہ میں دعوت دی گئی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں احمدیہ مسلم جماعت کے اس جلسہ میں شریک ہوا۔ احمدیہ مسلم جماعت کا محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں ایک ایسا ماٹو ہے جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثرکیا۔ یہ ایک ایسا زبردست لفظ ہے جس میں جماعت کا مکمل تعارف موجود ہے۔ فرینکفرٹ آنے پر ایئرپورٹ سے جماعتی خدام نے ہمیں ریسیو کیاوہاں سے لےکر تاوقت آخر وہ ہمارے ساتھ رہے۔ انہوں نے ہماری بے انتہا مدد کی۔ وہ بہت مددگار اور دوستانہ تعلق سے بھرپورتھے۔

میرے خیال میں جلسہ کا ایونٹ بہت ہی اہم ہے۔ لوگوں کو جماعت کے بارہ میں معلومات دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملنے جلنے کے مواقع پیداہوتے ہیں۔ جلسہ میں شامل ہونے والے خوش اخلاق تھے۔ اتنے بڑے جلسہ کو آرگنائز کرنا اور اتنے اچھے طریقہ سے پایہ تکمیل تک پہنچانا میرے لیے اس بات کی دلیل تھا کہ اس کوواقعی خدا کی مدد حاصل ہے اور یہ ایک مقدس ایونٹ ہے۔

میں نے خلیفۃ المسیح کو دیکھا، ان کوسنا۔ ان کے خیالات اور نصائح انتہائی اہمیت کی حامل تھیں۔ میرے لیے یہ اعزاز تھا کہ میں خلیفہ کی باتوں کو سن سکا اور انہیں دیکھ سکا۔

میری زندگی میں پہلی بار ایسا نظارہ ہواکہ ہزاروں لوگ صرف اسلامی تعلیم کے مقصد کی خاطر اور اللہ کے خلیفہ کی خاطر جمع ہوئے۔ وہاں پر ہر ملک سے لوگ آئے مگر ان کا آپس میں پیار ومحبت اور نیک سلوک ایک ایسی فضا پیداکررہاتھاجو کسی بھی دنیاوی ایونٹ میں ناممکن ہے۔ جلسہ نے مجھے روحانی دنیا سے روشناس کروایا اور اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کیا۔ اس سے قبل میرے ذہن میں اسلام کے بارہ میں بے انتہا خدشات تھے ۔ اگرچہ میں خود بھی مسلمان ہوں مگر جماعت احمدیہ کی تعلیمات نے میرے ذہن کو کلیئر کردیا اور مجھے واقعی میں اس بات پر فخر ہے کہ میں مسلمان ہوں جماعت کو چاہیےکہ اپنی تبلیغ کو مزید زورو شور سے دنیا میں کرے تاکہ میرے جیسے انجان لوگوں کو اسلام کی حقیقت کا پتہ چلے۔خلیفۃ المسیح کی ایک آواز پر اٹھنا بیٹھنا اور اشارہ پر خاموش ہوجانا ایک ایسی مثال سامنے لے کر آیا جو کہ شاید میں ہزاروں دنیاوی جلسے اٹنڈ کرکے بھی نہ دیکھ سکوں۔ حضورانور سے ملاقات کے لیے میں نے ذہن میں کئی سوال سوچے تھے مگر جب ملاقات ہوئی تو ایک ایسا اثر تھا کہ میں بول ہی نہ سکا۔ خلیفہ کا رعب و شان واقعی دنیا سے الگ ہے۔

آذربائیجان کے وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے یہ ملاقات ایک بجکر باون منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر وفد کے ممبران نے حضورانور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

……………………………………………………………………

بعدازاں پروگرام کے مطابق ملک کروشیا اور سلووینیا سے آنے والے وفد کے ممبران نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔ کروشیا اور سلووینیا سے گیارہ افراد پر مشتمل وفد آیاتھا۔

٭ ملک سلووینیا سے آنے والی ایک خاتون نے عرض کیاکہ وہ ہیومن رائٹس کی فیلڈ میں کام کررہی ہیں۔ جلسہ کے انتہائی اعلیٰ انتظامات سے بہت متاثر ہیں۔ ہر کام منظم طریق پر جاری تھا۔

٭ کروشیا سے آنے والی ایک کروشین خاتون نے عرض کیاکہ وہ ایگریکلچر کی فیلڈ میں ہیں اور اس وقت ایکdairyپراجیکٹ پر کام کررہی ہیں۔ جلسہ میں پہلی مرتبہ آئی ہیں اور سارے انتظامات دیکھ کر بہت حیران ہیں کہ اتنی بڑی تعداد ہے اور سارے کام رضاکار کارکن کررہے ہیں۔ اس بات نے مجھے بہت حیران کیاہے۔

٭ کروشیا سے آنے والے ایک مہمان کا تعلق بوزنیا سے ہے اور وہ کروشیا میں مقیم ہیں اور فوٹو گرافر ہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہاں کا انتظام دیکھ کر میں بہت حیران ہواہوں۔ جلسہ کے تمام انتظامات بڑے اچھے طریق پر آرگنائز کیے گئے تھے۔ آپ لوگ چھوٹی عمر سے ہی اپنے بچوں کو تربیت دیتے ہیں تاکہ وہ بڑے ہوکر کام کرسکیں۔

٭ ملک کروشیا سے آنے والے ایک پادری وردان اوبو چینا صاحب بھی اس وفد میں شامل تھے۔ موصوف نے کہا:

یہ میرے لیے ایک بہت بڑا اعزاز اور خوشی کا باعث ہے کہ میں جلسہ سالانہ جرمنی 2019ءمیں شامل ہوسکا۔ بہترین انتظامات اور مختلف خوش مزاج لوگوں سے ملنے کے علاوہ میرا ذاتی ایمان یہ ہے کہ جماعت احمدیہ آج کی دنیا کے لیے ایک امن اور امید ہے جو ہمیں مصائب اور مشکلات سے نکال سکے۔
بحیثیت عیسائی پادری میرا پختہ ایما ن ہے کہ مسلمان اور عیسائی دونوں مذاہب میں یہی تعلیم مشترک ہے کہ خدا ایک رحمٰن اور رحیم خدا ہے جو کہ ہمارے لیے باہمی تعلقات اور بھائی چارہ والی زندگی بسر کرنے کی بہت اہم بنیادہے اور جس کے ساتھ ہماری نجات وابستہ ہے ۔ مجھے آج یہ باتیں جلسہ پر محسوس ہوئی ہیں اور انشاءاللہ میں اس جلسہ پر ضرور دوبارہ آؤں گا۔

کروشیا اور سلووینیا کے وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے یہ ملاقات دو بجکر پانچ منٹ تک جاری رہی ۔

………………………………………………………………………

بعدازاں دو بجکر پندرہ منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔

نمازوں کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 38 ؍ نکاحوں کا اعلان فرمایا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ نکاح کی مسنون آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:

‘‘اس وقت میں نکاحوں کے اعلان کروں گا۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ کل 38نکاح ہیں۔ مجھ سے نکاح پڑھوانے والے جس شوق سے درخواستیں کرتے ہیں، اُسی شوق سے اپنے نکاحوں اور شادیوں کو نبھایابھی کریں۔ بہت سارے مجھ سے نکاح پڑھوالیتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد پتہ لگتاہے کہ مسئلے پیداہوگئے ہیں۔ پس یہ بھی دعاکریں کہ جو آپس میں رشتے قائم کرتے ہیں ، وہ قائم رہنے والے رشتے ہوں۔برداشت کا مادہ پیدا ہو اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے۔ ’’

اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا؛

٭ عزیزہ نَوال ملک بنت مکرم محسن ملک صاحب (کِیل۔جرمنی) کا نکاح عزیزم ولید احمد (مربی سلسلہ جماعت احمدیہ جرمنی ) ابن رشید احمدصاحب کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ نا ئلہ محمود بنت مکرم شاہد محمود صاحب (ہمبرگ۔جرمنی) کا نکاح عزیزم عمر رشید ملک (مربی سلسلہ جرمنی ) ابن مکرم وحید احمد ملک صاحب کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ رافعہ چوہدری بنت مکرم گلزار کھوکھر صاحب (ہمبرگ۔جرمنی) کا نکاح عزیزم شمس الملک چوہدری (متعلم جامعہ احمدیہ جرمنی) ابن مکرم ظہیر الملک چوہدری صاحب کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ ثوبیہ اقبال ملک ( واقفہ نو )بنت مکرم ظفر اقبال ملک صاحب (ہمبرگ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم عطا ء الکریم اَنصر ( متعلم جامعہ احمدیہ جرمنی) ابن مکرم چوہدری سعید اَنصر صاحب کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ رضوانہ طاہر (وقفہ نو ) بنت مکرم طاہر محمود عابد صاحب مبلغ انچارج گنی کناکری کا نکاح عزیزم شرجیل خالد (متعلم جامعہ احمدیہ جرمنی) ابن مکرم حافظ فرید احمد خالد صاحب کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ زرتاب احمد بنت مکرم محمود احمد صاحب (آف فیصل آباد۔پاکستان) کا نکاح عزیزم حافظ عطاء الکافی (متعلم جامعہ احمدیہ ربوہ) ابن مکرم رشید احمد صاحب کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ اِشناء مِشعال بنت مکرم عباس احمد صاحب (ہناؤجرمنی) کا نکاح عزیزم جلید تبسّم ابن مکرم فرید تبسّم صاحب سابق مربی سلسلہ (فرید برگ۔جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ ہانیہ تہمینہ قیصر بنت مکرم جمال احمد قیصر صاحب (ہوئزن شٹم۔جرمنی) کا نکاح عزیزم عاقب محمود آصف ابن مکرم آصف محمود صاحب (اوفن باخ۔جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ حنّان ناصر بنت مکرم جاویداقبال صاحب (کولون۔جرمنی) کا نکاح عزیزم نعمان ناصر (وقفِ نو) ابن مکرم محمد صادق ناصر صاحب (اِیزرلون۔جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ خنساء نوید (واقفہ نو)بنت مکرم اقبال نوید صاحب (ماربُرگ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم رازق احمد طارق (وقفِ نو)ابن مکرم محمود احمد طارق صاحب (رِیڈشٹڈ۔جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ نیّرہ نسرین اَبرار احمد بنت مکرم اَبرار مبشر احمد صاحب (فِرید برگ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم عامر محمود (وقفِ نو) ابن مکرم شاہد محمود صاحب (ہمبرگ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ ھبۃُ الرحمٰن بنت مکرم عبد الرحمٰن صاحب (نوئے فاہرن۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم حسّان احمد خان ابن مکرم آصف خان صاحب (بِیٹک ہائم ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ اَنعم بیگ بنت مکرم طارق ظہیر بیگ صاحب مرحوم ( لِمبُرگ ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم نوید احمد ابن مکرم حامد سلطان احمد صاحب (زیلنگن شٹڈ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ دُردانہ اسلم بنت مکرم محمد اسلم صاحب (نارووال۔ پاکستان) کا نکاح عزیزم ایاز احمد ڈوگر (متعلم جامعہ احمدیہ غانا) ابن مکرم ریاض احمد ڈوگر صاحب مربی سلسلہ تنزانیہ کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ نادیہ چیمہ بنت مکرم ناصر محمود چیمہ صاحب مرحوم (۔ لیؤڈن شائڈ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم اَبرار احمد گوندل ابن مکرم مبشر احمد گوندل صاحب (میونخ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ نایاب ملک بنت مکرم محسن ملک صاحب (کِیل۔ جرمنی)کا نکاح عزیزم ملک رفاقت احمد ابن مکرم ملک سعادت احمد صاحب (بوننگ شٹیٹ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ لُبنیٰ مبشر احمد بنت مکرم ملک مبشر احمد صاحب (آؤگس بُرگ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم ملک منصور احمد ابن مکرم نادر حسین ملک صاحب( آف لندن۔ یوکے)کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ ازکیٰ احمد بنت مکرم ناصر احمد صاحب (ماکس ڈورف۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم اوصاف نوید اعظم ابن مکرم چوہدری منور احمد اعظم صاحب (ہاناؤ۔ جرمنی)کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ مَروہ احمد بنت مکرم باسط کریم صاحب (فرنکفرٹ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم صارِم احمد ابن مکرم طاہر احمد صاحب (فرنکفرٹ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ ہالہ عارف بنت مکرم محمد عارف صاحب (بادڈُرک ہائم۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم اَبرار احمد ابن مکرم غلام رسول صاحب (باددُرک ہائم۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ طیّبہ ملک بنت مکرم ملک اَبرار الحق صاحب (وائٹر شٹڈ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم حسّان احمد سلیمان ابن مکرم محمد اسحاق سلیمان صاحب (گرِیس ہائم ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ اِرم خان(واقفہ نو)بنت مکرم عامر حمید خان صاحب ( بادکروئس ناخ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم صائم احمد خان ابن مکرم عبد المجید خان صاحب ( اَیش بورن۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ باسمہ احمد بنت مکرم صدیق احمد ڈوگر صاحب(آخَن ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم ارسلان ارشد ابن مکرم ارشد محمود صاحب (کولون ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ طالحہ محمود ( واقفہ نَو) بنت مکرم طارق محمود صاحب مرحوم (لاہر۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم عبدالرحیم رشید ابن مکرم عبدالرشید صاحب (بُوخ ہولذ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ لبیبہ رفیق احمد (واقفہ نَو) بنت مکرم رانا رفیق احمد صاحب (لانگن۔جرمنی) کا نکاح عزیزم منیب احمد ابن مکرم نذیر احمد صاحب (بَرگش گلڈباخ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ تابندہ احمد بنت مکرم عزیز احمد صاحب (رِیڈشٹڈ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم عاطف اشرف ابن مکرم اشرف علی صاحب ( ریڈشٹڈ ۔ جرمنی ) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ حِرا لودھی خالد بنت مکرم محمود لودھی خالد صاحب (رُسَّلز ہائم۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم محمد ناصر اقبال ابن مکرم محمد اقبال صاحب (کوئٹن اَنہالٹ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ سیماب خالد فاروق بنت مکرم خالد محمود فاروق صاحب مرحوم (آف فیصل آباد۔ پاکستان) کا نکاح عزیزم اطہر مقصود ( متعلم جامعہ احمدیہ ربوہ) ابن مکرم محمد مقصود صاحب کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ تحریم احمد بنت مکرم ناصر احمد صاحب(اولڈن بُرگ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم عُزیر احمد طاہر ابن مکرم بشیر احمد طاہر صاحب (فیئرن ہائم۔جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ رِمشا احمد بنت مکرم شفیق احمد صاحب (اوبر ڈِنگ۔جرمنی) کا نکاح عزیزم محمد احسان یعقوب(واقفِ نَو) ابن مکرم محمد یعقوب صاحب (اوفن باخ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ حِنا احمد بنت مکرم جمیل احمد صاحب (وِیزبادن۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم منصور احمد باجوہ ابن مکرم مجید احمد باجوہ صاحب (ڈِیٹسن باخ۔جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ تہمینہ اسلم بنت مکرم محمد اسلم صاحب (وابرن۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم قاصد احمد طاہر (وقفِ نَو) ابن مکرم مبشر احمد طاہر صاحب ( ہائیڈل برگ۔جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ افشاں ظہیر بنت مکرم ظہیر احمد صاحب مرحوم (کوبلنز۔جرمنی) کا نکاح عزیزم وجاہت احمد خان (واقفِ نو) ابن مکرم بشارت احمد خان صاحب (کوبلنز،جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ سوسن احمد (واقفہ نَو ) بنت مکرم عزیز احمد طاہر صاحب (فرِید برگ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم محمد اَنصر خان ابن مکرم محمد احسن خان صاحب (ہانوور۔جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ رَملہ ریاض بنت مکرم منیر احمد ریاض صاحب (ہمبرگ۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم ایاز محمود (واقفِ نَو) ابن مکرم فیاض محمود صاحب (سوِیکاؤ۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ لیلیٰ دَالکی لِچ بنت مکرم قاسم دالکی لِچ صاحب (وِٹلِش۔ جرمنی) کا نکاح عزیزم اَنصر اسلم (واقفِ نو) ابن مکرم نوید عزیز اسلم صاحب (وِیس بادن۔ جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

٭ عزیزہ اِرسا نصیر بنت مکرم نصیر احمد زاہد صاحب (Crescent UK) کا نکاح عزیزم عدیل باسَم (مربی سلسلہ ہالینڈ) ابن مکرم شکیل اسلم صاحب کے ساتھ طے پایا ۔

٭ عزیزہ ثنا خلیل احمد (واقفہ نو) بنت مکرم خلیل الدین احمد صاحب (فلورس ہائم ۔جرمنی) کا نکاح عزیزم طاہر احمد (واقفِ نو) ابن مکرم بشارت احمد صاحب (پاڈربورن جرمنی)کے ساتھ طے پایا ۔

نکاحوں کے اعلان کے بعدحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعاکروائی۔بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ تشریف لے گئے۔

………………………………………………………………………

پروگرام کے مطابق پانچ بج کر چالیس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لائے جہاں ملک بوزنیا سے آنے والے وفد نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

بوزنیا سے امسال اللہ کے فضل سے ایک سپیشل بس اور بذریعہ ہوائی جہاز کل 74؍افراد پر مشتمل وفد جلسہ میں شامل ہواتھا۔

٭ ایک مہمان نے عرض کیاکہ بوزنیا اور کوسووو کے لوگوں پر بہت ظلم ہواہے۔ نسل کشی ہوئی ہے۔ گیارہ جولائی کو اس کی یاد مناتے ہیں اور مسلمان ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مسلمان اکٹھے ہوکر رہیں۔ توڑ پھوڑ اور حملے کرنے سے کچھ نہ ہوگا۔ ایک اچھا لیڈر مل جائے جو سب کو جمع کرے اور متحد کرے تو پھر آپ کامیاب ہوں گے۔

حضورانور نے فرمایا: یہ بتائیں کہ کیا آپ کو مستقبل میں کوئی لیڈر نظرآرہاہے ؟ اس پر احباب نے عرض کیاکہ ایک مفتی صاحب ہیں۔

اس پر حضورانور نے فرمایا: جو بھی ہے اللہ کرے اچھا کام کرے ، حکمت عملی سے کام کرنا پڑے گا۔
حضورانور نے فرمایا: جو اسائیلم سیکرز ان یورپین ممالک میں آرہے ہیں ایک زمانہ میں ان لوگوں نے اپنی لیبر کے لیے خود منگوائے تھے۔ اس لیے جو آنے والے محنتی لوگ ہیں، اب ان کا مستقبل تو یہاں ہے۔ وہ اپنے مذہب پر اپنی روایات پر قائم رہتے ہوئے یہاں integrate ہونے کی کوشش کریں۔

٭ بورِس لیوانشیش صاحب (Boris Livanchich) ایک کیتھولیک عیسائی ہیں اور مع فیملی جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔ موصوف نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ

‘‘میں جماعت ہائے احمدیہ عالمگیر کے لیے دل کی گہرائیوں سے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں ۔اور اپنی طرف سے نیز اپنی فیملی کی طرف سے اس عظیم الشان جلسہ میں شمولیت کی دعوت کے لیے شکر گزار ہوں ۔میری زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس قسم کے پروگرام میں شمولیت کی توفیق ملی۔اس جلسہ میں تمام تقاریر کو حتی الوسع غور سے سننے کی کوشش کی ہے اور خصوصاً خلیفۃ المسیح کے روح پرور الفاظ آپ کی پر کشش آواز اور آپ کی زیارت میرے دلی سکون و اطمینان اور چین کے باعث بنتے رہے ۔’’
موصوف نے عرض کیا کہ جلسہ کے تمام انتظامات ،رہائش ، شعبہ نقل و حمل وغیرہ پر رشک آتا ہے کہ کس طرح اس قدر احسن رنگ میں ایسا وسیع نظام چل رہا تھا۔اب ہم اطمینانِ قلب و محبت اور اس امید کے ساتھ بوسنیا واپس جا رہے ہیں کہ مستقبل میں بھی اس خوبصورت جلسہ میں شمولیت کی توفیق ملے گی۔

٭ ایک دوست نے عرض کیاکہ میں دوسری دفعہ جلسہ میں شامل ہواہوں۔ ہیومینٹی فرسٹ کے ساتھ مل کر بہت اچھے رنگ میں کام ہورہاہے۔

٭ ایک دوست نے سوال کیاکہ بلقان سٹیٹس میں مسلمانوں کا مستقبل کیاہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: محنت کریں اور میدانِ عمل میں محنت کرکے ،ترقی کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کریں ۔ مسلمانوں نے اس کو بھلادیاہے۔

محنت اور ایمانداری دو چیزیں پیداہوجائیں تو پھر ترقی ہی ترقی ہے۔ جس مسیح و مہدی کے آنے کی نبی کریم ﷺ نے خبر دی تھی اس کو مانیں تو پھر دیکھیں ترقی کریں گے۔ ہم تو سمجھاتے ہیں اور کوشش بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے پاس کوئی حکومت تو نہیں ہے۔ لیکن باقی مسلمانوں کی نسبت ہم آرگنائزڈ ہیں اور مسلسل ترقی کررہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔

٭ فاروق درمیچ صاحب (Faruk Durmic) ایک public prosecutor ہیں ۔موصوف نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:

یہ میرا پہلا جلسہ تھا ۔جلسہ کے تمام انتظامات ،شاملین ، کارکنان کے اخلاص نے مجھ پر بہت گہرا مثبت اثر چھوڑا ہے کہ دنیا بھر سےاس کثیر تعداد میں یہاں لوگ جمع ہوئے تھے مگر ایک بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ۔آپ کی جماعت معاشرہ کی روحانی ترقی خصوصاً تمام دنیا کے مسلمانوں کی دینی تربیت، علمی ،سائنسی و ثقافتی رہنمائی پر کام کر رہی ہے ۔میں آپ کی جماعت کو اس عظیم الشان جلسہ کے کامیاب انعقاد پر دل کی گہرائی سے مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔اور جماعت کی مزید ترقی کے لیے دعا گو ہوں ۔

٭ یاسمین سپاحیچ صاحب(Yasmin Spahich) ایک مقامی NGO کے بانی اور صدر ہیں اور بوسنیا میں جماعت کے ساتھ مل کر فلاحی کام کرتے ہیں۔موصوف نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا :
میرے لیے یہ امر باعث فخر و مسرت ہے کہ مجھے گزشتہ تین سالوں سے جلسوں میں شمولیت کی توفیق مل رہی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر سال خلیفۃ المسیح سے ملاقات کا شرف حاصل ہو رہا ہے ۔خلیفۃ المسیح کی زیارت و قربت ایک خاص روحانی تجربہ ہے اور پرسکون فضا ء میں گزارے ہوئے چند لمحات زندگی کی حسین یادیں ہیں ۔ آپ کا اسلام و بانی اسلامؐ سےعشق اور اسی عشق کا انتشار آپ کے محبت بکھیرنے والے الفاظ میں ہوتا ہے۔ نیز حضرت رسول اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے حوالہ سے حضورانور نے جو نصائح فرمائیں وہ دل میں اُتر رہی تھیں۔ یہی وہ کام ہے جو آنحضرت ﷺ کرتے تھے۔میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اگلا جلسہ اس سے بھی بہتر ہو اور یہ جلسہ امت محمدیہ ﷺ میں قوت اور اتحاد پیدا کرنے کا باعث ہو۔

٭ بوسنیا کے مقامی معلم نے حضورانور کی خدمت میں اپنے والد صاحب اور اہلیہ کی طرف سے سلام پہنچایا اور عرض کیاکہ میں جماعت کی کس طرح بہتر رنگ میں خدمت کرسکتاہوں؟

اس پر حضورانور نے فرمایا:احمدیت کا پیغام پھیلاؤ، دعاکرو، محنت سے کام کرو۔ آپ جو بھی حاصل کرسکتے ہیں دعا سے ہی کرسکتے ہیں۔ پانچوں نمازوں کے علاوہ نوافل و تہجد بھی اداکریں۔جماعتی لٹریچر وکتب کا مطالعہ کریں اور اپنے دینی علم میں اضافہ کریں۔

٭ یمینہ چاؤشیویچ صاحبہ (Emina Chaoshevich) طالبہ ہیں اور اپنی والدہ کے ساتھ جلسہ میں شامل ہوئی تھیں۔موصوفہ نے بیان کیا:

مستورات میں حضور انور کے خطاب کے بعد جب نعرے لگائے جا رہے تھے ، تو میں نے سوچاکہ اس قدر شور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد جب حضور انور ہال سے باہر تشریف لے جا رہے تھے تو میری نظر حضور کی شخصیت پر پڑی تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے،اور زبان پر یہ الفاظ تھے کہ ‘یہ آسمانی فرشتہ ہیں یہ زمینی انسان نہیں ہیں۔’

کہنے لگیں: ‘مجھے جلسہ میں شامل ہو کر یہ احساس ہو گیا ہے کہ جلسہ کے ماحول میں وہ قوت اور تاثیر ہے کہ روحانی طور پر مردہ انسان میں زندگی کی روح چلی آتی ہے ۔’

٭ آرمین موزکیش صاحب (Armin Muzkich) ایک شہرZenicaمیںپبلک ریلیشن آفیسر(Public Relation Officer) ہیں ۔انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

یہ جلسہ اور اس کے تمام انتظامات بذات خود ایک عظیم تجربہ ہے۔احباب جماعت جرمنی کی مہمان نوازی اور اسلام کی خدمت کے لیے دلی جذبے اور قربانیوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے ۔جلسہ کی تقاریر بہت عمدہ تھیں اور ان میں بیان کی گئی باتوں کا تعلق ہماری ذاتی زندگیوں سے تھا۔اسی طرح مہمانوں کے لیے رہائش ،ٹرانسپورٹ وغیرہ کا انتظام بہت ہی متاثر کن اور آرام دہ تھا۔ یہ ساری باتیں میں دل کی گہرائیوں سے اور دلی دعاؤں کے ساتھ لکھ رہا ہوں ۔

٭ عِلما کرے میش صاحبہ( Elma Krehmiche) نے اپنے تاثرات کا اس طرح اظہار کیا کہ

میں اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے اس عظیم جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی گئی ۔مہمان نوازی و جلسہ سے متعلق تمام انتظامات نے مجھے حیرت انگیز طور پر متاثر کیا ہے اور خصوصا ً میرا یہ Week Endایسے لوگوں کے درمیان گزرا ہے کہ جن کے چہرہ پر ہمیشہ مسکراہٹ تھی۔اور یہ ماحول ایسا تھا جہاں ہر ایک یہ محسوس کررہا تھا کہ گویا وہ اپنے گھر میں ہی مقیم ہے۔

٭ ایک نوجوان جس کی گزشتہ سال شادی ہوئی ہے اُس نے بتایاکہ میری احمدی لڑکی سے شادی ہوئی ہے۔ میری اہلیہ نے بیعت کی تھی۔ میں حضورانور کے لیے دعاکرتاہوں کہ خدا تعالیٰ حضور کو صحت و سلامتی والی لمبی عمردے اور حضورکا سایہ ہم پر سلامت رکھے۔ موصوف نے اپنی اہلیہ کے لیے بھی دعاکی درخواست کی۔

٭ ایک نو احمدی نے عرض کیاکہ حضورانور نے ان کے قادیان جانے کی منظوری دی ہے۔ موصوف نے اپنے لیے دعاکی درخواست کی۔

٭ مقامی معلم صاحب کی والدہ نے عرض کیاکہ جلسہ میں ہم نے دیکھاکہ احمدی بچوں کی کس طرح تربیت ہوتی ہے۔ بچے کس طرح خدمت کررہے تھے۔ ہمارے لیے دعاکریں کہ ہم مائیں بھی اپنے بچوں کی ایسی ہی تربیت کرنے والی ہوں۔

٭ ایک غیر احمدی خاتون نے عرض کیا کہ ہمیں اس جلسہ میں شامل ہوکر روحانی شفا ملتی ہے۔ ہمارے اندر روحانیت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ ہماری تربیت ہوتی ہے ، ہمیں خداملتاہے۔ حضورخدا کے فرستادہ ہیں۔ آپ جس طرف قدم بڑھاتے ہیں اُسی طرف برکتیں ہوتی ہیں۔ خدا کے فرشتے آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ سب ہم نے دیکھ لیاہے۔

٭ امینہ موئی کیچ صاحبہ (Amina Muikich) بوسنیا سے امسال جلسہ میں شامل ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:

جہاں تک اس قسم کا جلسہ اور پرواگرام کا تعلق ہے میرے لیے یہ ایک نئی بات تھی کہ اس قدر وسیع انتظامات بہت ہی منظم اور پُر امن و پر سکون ماحول میں ہو رہے تھے۔جلسہ نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا ہے اور مجھے بہت ہی متاثر کیا ہے۔ آپ لوگوں کے درمیان گزرنے والے یہ چار ایام بہت ہی خوش گوار تھے ۔میں تہ دل سے آپ سب کی شکر گزار ہوں ۔

٭ وِیلیدہ کُرتا گِچ صاحبہ (Velida Kurtagich) بوسنیا سے جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئی تھیں۔ موصوفہ نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:

اگرچہ میں احمدی نہیں ہوں لیکن میں نے جلسہ کے ماحول سے بہت استفادہ کیا ہے۔میں امید کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دےگا۔میں آپ سے دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کی راہ کی طرف میری رہنمائی کرے اور میں ایک مثالی مسلمان بن سکوں۔

٭ ادیب صاحب بوسنیا کے وفد کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ موصوف نے اپنے تاثرات کا اس طرح اظہار کیا کہ

میری خوش قسمتی ہے کہ امسال مجھے جلسہ سالانہ میں شرکت کی توفیق ملی ۔میں برملا کہہ سکتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے ممبران کی مخلصانہ خدمت میرے لیے حیران کن تھی کہ اس قدر عظیم الشان انتظام کو انہوں نے کس قدر آسانی کے ساتھ سرانجام دیا ہے ۔اس قدر پر سکون ماحول نے میرے دل پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔جلسہ گاہ اور اردگرد کے ماحول میں صفائی کا بہت اچھا انتظام تھا ۔سیکیورٹی میں ڈیوٹی دینے والے افراد بہت ہی بشاشت اور محبت کے ساتھ اپنا کام کر رہے تھے۔ جلسہ کے ایام میں مجھے کہیں بھی کسی قسم کی بدمزگی یا بد امنی نظر نہیں آئی ۔آخر پر میرے حصہ میں یہ سعادت بھی آئی کہ مجھے امام جماعت احمدیہ کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا اور میری مسرت کی انتہا نہیں تھی جبکہ مجھے آپ سے مصافحہ کی توفیق ملی۔میرے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے ۔اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر عطا کرے اور جس مقصد کے لیے آپ اکٹھے ہوئے ہیں آپ کو اس میں کامیاب کرے۔

٭ مصطفیٰ صاحب کی پیدائش 1933ء کی ہے ۔موصوف حضور انور کی زیارت کے شوق میں بذریعہ بس سفر کر کے اس جلسہ میں شامل ہوئے تھے ۔ملاقات کے دوران موصوف نے عرض کیا تھا کہ
میں ایک ان پڑھ بوڑھا انسان ہوں ۔ مجھے بہت سارے دینی اجتماعات میں شمولیت کا موقع ملتا رہا ہے۔ مجھے حج کی بھی توفیق ملی۔ مگر جماعت کے جلسہ میں اور دیگر اجتماعات میں فرق یہ ہے کہ دیگر اجتماعات محض ایک بھیڑ ہے اور جماعت کے جلسہ میں روحانیت ہوتی ہے۔ ایسی روحانیت مجھے دنیا میں اور کہیں نہیں ملی۔ جماعت کا جلسہ امت کے اتحاد و آپسی محبت و بھائی چارہ کی زندہ تصویر ہے ۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے۔ عمر میں اضافہ کرے اور اپنی قوم کے لیے دعائیں بھی قبول فرمائے۔

٭ فائق صاحب ایک غیر از جماعت نو جوان ہیں اور وکالت کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔امسال جلسہ میں پہلی دفعہ اپنے بھائی کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔موصوف نے اپنے تاثرات کا اس طرح اظہار کیا کہ
آپ کے خلیفہ کوئی معمولی انسان نہیں ہیں ، ان کا چلنا اور ان کی گفتگو میں ایک خاص بات ہے ۔ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی فراست اور دور اندیشی ہم جیسے عام انسانوں سے کہیں بڑھ کر ہے ۔اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو باتیں ہمیں نظر نہیں آتیں اس کا علم ان کو دیا جاتا ہے ۔ان کے چہرہ میں ایک نور ہے جو بالکل عیاں ہے۔

٭ ایک بچہ کرسی پر تھا۔ حضورانور نے ازراہِ شفقت فرمایاکہ بہت لمبے ہو۔ بچہ نے عرض کیاکہ میں ایک اچھا احمدی بچہ بنناچاہتاہوں۔ میرے لیے دعاکریں۔

اس پر حضورانور نے فرمایا:اللہ تعالیٰ آپ کو اچھا احمدی بنائے۔ خدمت کرنے والے ہوں، احمدیت کا پیغام اپنی قوم میں پھیلانے والے ہوں۔

بچہ نے عرض کیاکہ میں حضورسے بہت محبت کرتاہوں۔

٭ بوسنیا کے وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ یہ ملاقات چھ بجکر پندرہ منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر وفد کے ممبر ان نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی اور شرفِ مصافحہ حاصل کیا۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button