حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط 26)

علم ِغیب سے انکار

اب میں آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے ایک اَور پہلو پر رو شنی ڈالتا ہوں جس سے معلوم ہو جا ئے گا کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے کیسا مطہر پید اکیا ۔بادشاہوں کے دربا روں اور رؤساء کی مجالس میں بیٹھنے والے جانتے ہیں کہ ان مقامات میںبے جا تعریف اور جھوٹی مدح کا بازار کیسا گرم رہتا ہے اور کس طرح درباری اور ہم مجلس رؤساء کی تعریف اور مدح میں آسمان اور زمین کے قلا بے ملاتے ہیںاور وہ ان کو سن سن کر خوش اور شاداں ہو تے ہیں۔ ایشیائی شاعری کا تو دارو مدارہی عشقیہ غزلوں اور امراء کی مدح سرا ئی پر ہے۔شا عر اپنے قصیدہ میں جس امیر کی مدح کی طرف متوجہ ہو جا تا ہے دنیا کی ہر ایک خوبی اس کی طرف منسوب کر دیتا ہے اور واقعات اور حقیقت سے اسے کو ئی غرض نہیں ہو تی جس قدر ممکن ہو جھو ٹ بو لتا ہےاور تعریف کا کو ئی شعبہ اٹھا نہیںرکھتا۔ہر ایک رنگ سے اس کی بڑا ئی بیان کر تا ہے اور اس کا دل خوب جانتا ہے کہ میرے بیان میںسوواں حصہ بھی صداقت نہیں۔سننے والے بھی جا نتے ہیںکہ محض بکواس کر رہا ہے مگر وہ جب اس امیر یا بادشاہ کی مجلس یا دربارمیںاپنا قصیدہ پڑھ کر سناتا ہے تو ہر ایک شعر پر اپنی داد کا خواہاں ہو تا ہے اور سننے والے جو اس کی دروغ گو ئی سے اچھی طرح واقف ہو تے ہیں قصیدہ کے ایک ایک مصرع پر ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر داد دیتے اور تعریف کر تے ہیں کہ سبحان اللہ کیا خوب کہا اور خود وہ امیر جس کی شا ن میںوہ قصیدہ کہا جاتا ہے باوجود اس علم کے کہ مجھ میں و ہ باتیں ہر گز نہیں پا ئی جا تیں جو شاعر نے اپنے قصیدہ میں بیان کی ہیں۔ایک ایک شعر پر اسے انعام دیتا اور اپنی ذات پر نا ز و فخر کر تا ہے حالانکہ قصیدہ کہنے والا ، سننے والا اور جس کے حق میں کہا گیا ہے۔سب کے سب واقعات سے نا واقف نہیں ہو تے اور ہر ایک جا نتا ہے کہ قصیدہ میں جو مضا مین بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک شمّہ بھر بھی صداقت وراستی نہیں۔امرا ءکی قید کیا ہے عام طور پر ہر ایک انسان کایہی حال ہے (اِلَّا مَاشَاءَ اللّٰہ)کہ وہ اپنی تعریف سن کر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ میری مدح کی جا ئے اور جب کو ئی اس کی نسبت جھوٹی مدح سے بھی کا م لیتا ہے تو اس کے اندر یہ جرأت نہیں ہو تی کہ اس کا انکار کر سکے بلکہ سکوت کو ہی پسند کر لیتا ہے۔

مگر ہما رے آنحضرت ؐ فداہ ابی و امّی ایسے بر گزیدہ اور پا ک و مطہر انسا ن تھے کہ آپؐ ان کمزوریوں سے بالکل پاک تھے۔ اور اگر ایک طر ف ہر قسم کی خو بیوں کے جا مع اور نیکیوں کے خازن تھے تو دوسری طرف آپؐ یہ بھی کبھی پسند نہ فر ما تے تھےکہ کو ئی شخص آپؐ کی نسبت کو ئی ایسی بات بیان کرے جو درحقیقت آپؐ میں نہیں پا ئی جا تی۔

ربیع بنت معوذ ؓسے روایت ہے کہ دَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَدَاۃَ بُنِیَ عَلَیَّ فَجَلَسَ عَلٰی فِرَاشِی کَمَجْلِسَکَ مِنِّیْ وَجُوَیْرِیَاتٌ یَضْرِبْنَ بِالدَّفِّ، یَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ اَبَآ ئِھِنَّ یَوْمَ بَدْرٍ حَتّٰی قَالَتْ جَارِیَۃٌ:وَفِیْنَانَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِی غَدٍ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(لَاَتَقُوْلِیْ ھٰکَذَا، وَقُوْلِیْ مَاکُنْتِ تَقُوْلِیْن)۔(بخاری کتاب المغازی باب قصہ غزوہ بدر) یعنی جس دن میری شادی ہو ئی ہے اس دن آنحضرت ؐمیرے پا س تشریف لا ئے اور میرے فرش پر بیٹھ گئے اسی طرح جس طرح تو بیٹھا ہے(یہ با ت راوی کو کہی) اور کچھ لڑکیاں دف بجارہی تھیں اور بدر کی جنگ میں جو ان کے بزرگ مارے گئے تھے ان کی تعریفیں بیان کر رہی تھیں یہاں تک کہ ایک لڑکی نے یہ مصرع پڑھنا شروع کیا(اس مصرع کا ترجمہ یہ ہے) کہ ہم میں ایک رسولؐ ہے جو کل کی با ت جانتا ہے۔اس بات کو سن کر آنحضرت ؐ نے اسے ٹوکا اور فر ما یا کہ یہ مت کہو اور جو کچھ پہلے گار ہی تھی وہی گا تی جا۔

یہ وہ اخلاق ہیں جو انسان کو حیران کر دیتے ہیں اور وہ ششدر رہ جا تا ہے کہ ایک انسان ان تمام کمالات کا جا مع ہو سکتا ہے۔بے شک بہت سے لو گوں نے جن کی زبان تیز تھی یا قلم روا ں تھی تقریر و تحریر کے ذریعہ اعلیٰ اخلاق کے بہت سے نقشے کھینچے ہیں لیکن وہ انسان ایک ہی گزرا ہے جس نے صرف قول سے ہی نہیں بلکہ عمل سے اعلیٰ اخلاق کا نقشہ کھینچ دیا اور پھر ایسا نقشہ کہ اس کی یاد چشمِ بصیرت رکھنے والوں کو کبھی نہیں بھول سکتی۔

ایک طرف دنیا کو ہم اپنی تعریف و مدح کا ایسا شیدا دیکھتے ہیں کہ خلافِ واقعہ تعریفوں کے پل باندھ دیے جا تے ہیں اور جن کی مدح کی جاتی ہے بجائے نا پسند کر نے کے اس پر خوش ہوتے ہیں اور ایک طرف آنحضرت ؐکو دیکھتے ہیں کہ ذرا منہ سے ایسا کلام سنا کہ جو خلافِ واقعہ ہے تو باوجود اس کے کہ وہ اپنی ہی تعریف میں ہو تااس سے روک دیتے اور کبھی اسے سننا پسند نہ فرماتے (ببیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔)اہل دنیا کدھر کو جا رہے ہیں اور وہ ہمارا پیارا کدھر کو جا تا ہے ۔اس میںکچھ شک نہیں کہ ایسے بھی لوگ پائے جا تے ہیں کہ جو اپنی تعریف کو پسند نہیں کر تے اور بے جاتعریف کر نے والے کو رو ک دیتے ہیں اور بادشاہوں میں سےبھی ایسے آدمی گزرے ہیں مگر آپ ؐ کے فعل اور لوگوں کے فعل میں ایک بہت بڑا فرق ہے جو آپ ؐ کے عمل کو دوسروں کے اعمال پر امتیاز عطا کر تا ہے ۔انگلستان کے مؤرّخ اپنے ایک با دشاہ (کینئوٹ ) کے اس فعل کو کبھی اپنی یاد سے اترنے نہیں دیتے کہ اس نے اپنے بعض درباریوں کی بے جا خوشامد کو نا پسند کرکے انہیں ایسا سبق دیا جس سے وہ آئندہ کے لیے اس سے باز آجائیں۔یعنی جب بعض لو گوں نے اس سےکہا کہ سمندر بھی تیرے ماتحت ہے تو اس نے ان پر ثابت کر دیاکہ سمندر اس کا حکم نہیںمانتا۔مگر یادرکھنا چاہیے کہ وہ ایک دنیاوی بادشاہ تھا اور روحانی بادشاہت سے اس کا کو ئی تعلق نہ تھا نہ اسے رو حانی حکومت و تصرف کا ادعاء تھا۔پس اگر ایک ایسی بات کا اس نے انکار کر دیا جو اس کے اپنے را ہ سے علیحدہ تھی تو یہ کچھ بڑی بات نہ تھی۔ اسی طرح دیگر لو گ جو جھوٹی مدح سے متنفر ہوتے ہیں ان کے حالات میں بھی بہت کچھ فرق ہے۔ آنحضرتؐ ایک ایسی قوم میں تھے جو سر تسلیم جھکانے کے لیے صرف ایک ایسے شخص کے آگے تیار ہو سکتی تھی جو اپنی طاقت سے بڑھ کر طا قت رکھتا ہو کیونکہ اس کی رگ رگ میں حریت اور آزادی کا خون دوڑ رہا تھا پس اس کے سامنے اپنے آپ کو معمولی انسانوں کی طرح پیش کرنا بلکہ اگر ان میں سے کو ئی آپ کی ایسی تعریف بھی کرے جو وہ اپنے بڑوں کی نسبت کرنے کے عادی تھے تو اسے روک دینا یہ ایک ایسا فعل تھا جس سے ایک اوسط درجہ کاانسان گھبرا جا تا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر میراگزارہ کیونکر ہو گا۔دوم آپؐ کو دعویٰ تھا نبوت کا اور نبوت میں آئندہ خبریںدینا ایک ضروری امر ہے پس یہ تعریف خود آپؐ کے کام کی نسبت تھی گو مبالغہ سے اسے اور کا اور رنگ دے دیا گیا تھا۔پس آپؐ کا اس تعریف سے انکار کر نا دوسرے لو گوں سے بالکل ممتاز ہے اور آپؐ کے نیک نمونہ سے کسی اور انسان کا نمونہ خواہ وہ انبیاءمیں سے ہی کیوں نہ ہو قطعا ًنہیں مل سکتا۔

اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کس طرح حریت پیدا کر نی چاہتے تھے۔ اس قسم کے خیالات اگر پھیلا ئے جا تے اور آپ ؐ ان کے پھیلا ئے جا نے کی اجازت دے دیتے تو مسلمانوں میں شرک ضرور پھیل جا تا مگر ہمارا رسولؐ تو شرک کا نہایت خطر نا ک دشمن تھا وہ کب اس بات کو پسند فر ما سکتا تھا کہ ایسی با تیں مشہور کی جا ئیں جو واقعات کے خلاف ہیں اور جن سے دنیا میں شرک پھیلتا ہے پس اس نے جو نہی ایسے کلمات سنے کہ جن سے شرک کی بو آتی تھی فوراً ان سے روک دیا اور اس طرح بنی نوع انسان کو ذہنی غلامی سے بچا لیا اور حریت کے ایک ایسے ارفع اسٹیج پر کھڑا کر دیا جہاںغلامی کی زہریلی ہواؤں کا پہنچنا نا ممکن ہو جا تا ہے۔اے سوچنے والو !سوچو تو سہی کہ اگر آنحضرتؐ کو دنیا کی عزت اور رتبہ منظور تھا اور آپؐ کا سب کا م دنیاوی جاہ و جلال حاصل کر نے کے لیے تھا توآپؐ کے لیے کیا مناسب تھا۔ کیا یہ کہ لوگوں میں اپنی عزت و شان کے بڑھانے کے لیے باتیں مشہور کراتے یا کہ معتقدین کو ایسا کر نے سے روکتے ۔ کیا وہ لوگ جو اپنی خواہش اور آرزو کے ماتحت دنیامیں بڑا بننا چاہتے ہیں اسی طرح کیا کر تے ہیں۔کیا وہ بغیر امتیاز جھوٹ اور سچ کے اپنی شان دو با لا نہیں کر نی چاہتے۔پھر کیا وجہ ہے کہ ایک انسان کو بغیر اس کے اشارہ کے کچھ لوگ وہ شان دینا چاہتے ہیں جو اگر کسی انسان میں پا ئی جا ئے تو وہ مرجع خلائق بن جا ئے تو وہ انہیں روکتا ہے اور فوراً کہہ دیتا ہے کہ اور اور با تیں کرو مگر ایسا کلام منہ پر نہ لا ؤ جس سے اس وحدہٗ لاشریک ذات کی ہتک ہو تی ہو جو سب دنیا کا خالق و مالک ہے اور میری طرف وہ با تیں منسوب نہ کرو جو در حقیقت مجھ میں نہیں پا ئی جا تیں۔ہاں بتلاؤ تو سہی کہ اس کا کیا سبب ہے؟کیا یہ نہیں کہ وہ دنیا کی عزتوں کا محتاج نہ تھا بلکہ خدا کی رضا کا بھوکا تھا۔دنیا اس کی نظر میں ایک مُردار سے بھی کم حیثیت رکھتی تھی۔

آرام و آسائش کے اوقات میں اپنے ہوش و حواس پر قابو رکھنا کو ئی بات نہیں۔انسان کا امتحان اس وقت ہو تا ہے جب اس پر کو ئی مشکل پیش آئے اور پھر اس میں وہ اپنے حواس کو قائم رکھے اور بدحواس نہ ہو جا ئے۔آنحضرتؐ کو اپنی عمر میں ہر قسم کے واقعات پیش آئے اور بہادری اور جرأت میںآپؐ نے اپنے آپ کو بے نظیر ثابت کر دکھا یا ہے ۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے مختلف واقعات سے ثابت کر چکے ہیں ان مصائب و آسائش کے مختلف دوروں نے آپؐ کی عظمت اور جلال کو کو ئی نقصان نہیںپہنچایا بلکہ ہر حالت میںاپنی کو ئی نہ کوئی خوبی ظاہر کی ہے۔خواہ عسر کا زمانہ ہو یا یسر کا۔آپؐ بے عیب ثابت ہو ئے ہیں اور آپؐ کی شان ارفع سے ارفع تر ثابت ہو ئی ہے۔نہ تو مصائب کے ایام میں آپؐ سے کو ئی ایسی بات ظاہر ہو ئی جس سے آپؐ پر عیب گیری کا موقع ملے نہ خو شی کے دنوں میں آپؐ سے کو ئی ایسا فعل سرزد ہوا جس سے آپؐ پر اعتراض کر نے کی گنجائش پیدا ہو ہر رنگ اور شکل میں آپؐ دنیا کے لیےایک قابل قدر نمونہ ثابت ہو ئے ہیں۔جرأت و بہادری کی نسبت تو میں لکھ چکا ہوں اس جگہ یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ آنحضرت ؐکو اپنے حواس پر کیسا قابو تھا اور کس طرح خطرناک سے خطرناک مصائب میں آپؐ استقلال اور ٹھنڈے دل کے ساتھ غو ر کرنے کے عادی تھے اور آپؐ سے کبھی کو ئی ایسی حرکت نہ ہو تی تھی جس سے کسی قسم کی گھبراہٹ ظاہر ہو اور یہ بھی کہ کیوں کر ہر ایک مصیبت میں آپؐ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ ہی دکھا ئی دیتا تھا۔

یہ تو میں پہلے لکھ چکاہوں کہ آنحضرت ﷺ دوسرے بادشاہوںکی طرح اپنے ساتھ کو ئی پہرہ یا گارڈ نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسرے صحابہ ؓکی طرح آپؐ بھی اکیلے اپنے کا م میں مشغول رہتےتھے ۔ ایسے اوقات میں دشمن کو جس قدر دکھ پہنچا نے کے مواقع مل سکتے ہیں وہ ایک واقف کار انسان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہو سکتے۔جو انسان ایک ہی وقت میں اپنے ملک کے ہر طبقہ کے انسانوںاور ہر فرقہ کے پیروؤں سے خصوصاً اور با قی دنیا سے عموماً جنگ شروع کر چکا ہو اور ان کے عقائد اور خیالات کو مٹا کر ان کی جگہ اپنی لا ئی ہو ئی تعلیم کو پھیلانے میں کو شاں ہو۔ اس سے دیگر مذاہب اور مخالف امراء کے پیروؤں اور متبعین کو جو کچھ بھی عداوت ہو کم ہے اور وہ ہر ممکن سے ممکن ذرائع سے اسے تکالیف پہنچانے کی کو شش کریں گے اور خصوصاً انہیں معلوم ہو کہ جس شخص کو ایذاء پہنچا نا انہیں مقصود ہے وہ بغیر کسی نگرانی یا پہرہ کے گلیوں اور میدانوں میں تن تنہا چلتا پھرتا انہیں مل سکتا ہے۔
آپؐ کے مخالفین نے ان حالات سے فا ئدہ اٹھا نے کے لیے جو تدابیر کیں ان سے بحیثیت مجموعی مجھے غرض نہیں۔میں صرف بخاری کی روایات سے کچھ واقعات اس سیرت میں بیان کر رہا ہو ں جن سے آپؐ کے اخلاق پر روشنی پڑتی ہے اس لیےصرف ایک ایسا واقعہ جس سے معلوم ہوسکے گا کہ کس طرح آپؐ کی جان پر اچانک حملہ کیا گیا اور آپؐ نے اس وقت اپنے ہو ش و حواس کو کس طرح بجا رکھا۔اس جگہ بیان کر تا ہوں۔

عَنْ جَابِرِ بِنْ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا اَخْبَرَہُ اَنَّہٗ غَزَامَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَفَلَ مَعَہٗ، فَاَدْرَکَتْھُمُ الْقَائِلَۃُ فِیْ وَادٍ کَثِیْرِ الْعِضَاہِ،فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِی الْعِضَاہِ یَسْتَظِلُّوْنَ بِالشَّجَرِ، وَنَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمُرَۃٍ فَعَلَّقَ بِھَا سَیْفَہٗ، قَالَ جَابِرٌ فَنِمْنَا نَوْمَۃً ،ثُمَّ اِذَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُوْنَا فَجِئْنَاہُ فَاِذَا عِنْدَہٗ اَعْرَا بِیٌّ جَالِسٌ فَقَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ ھٰذَا اِخْتَرَطَ سَیْفِیْ وَاَنَا نَائِمٌ ،فَاسْتَیْقَظْتُ وَھُوَ فِیْ یَدِہٖ سَلْتًا فَقَالَ لِیْ مَنْ یَّمْنَعُکَ مِنِّیْ ،قُلْتُ اَللّٰہُ،فَھَا ھُوَ زَاجَالِسٌ ،ثُمَّ لَمْ یُعَاقِبْہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع)

جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سا تھ نجد کی جانب ایک غزوہ میں شریک ہو ئے اور جب آپؐ سفر سے لو ٹے۔تو وہ بھی حضورؐ کے ساتھ لوٹے راستہ میں لشکر ایک ایسی وادی میں جو کا نٹے دار درختوں سے پُر تھی دو پہر کے وقت گزرا۔پس رسول اللہ ﷺ وہاں اتر پڑے اور آپؐ کے سا تھی ادھر ادھر درختوں میں پھیل گئے اور درختوں کے سا ئے میں آرام کر نے لگے۔آنحضرت ﷺ بھی ایک کیکر کے درخت کے نیچے ٹھہر گئے اور اپنی تلوار اس در خت سے لٹکا دی۔جا بر ؓ فر ما تے ہیں کہ ہم تھوڑی دیر سو گئے پھر اچانک آنحضرتؐ کی آواز آئی کہ آپؐ ہمیں بلا تےہیں پس ہم آپؐ کے پاس آئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ آپؐ کے پا س ایک اعرا بی بیٹھا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا کہ اس شخص نے میری تلوار میان سے کھینچی اور میں سو رہا تھا پس میں جا گ پڑا اور اس کے ہا تھ میں ننگی تلوار تھی پس اس نے مجھے کہا کہ مجھ سے تجھے کو ن بچائے گا میں نے اسے جواب دیا کہ اللہ بچائے گا۔پس دیکھو یہ سامنے بیٹھا ہے پھر جا بر ؓ فر ما تے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے اسے کوئی سزانہ دی۔دوسری جگہوں سے اس واقعہ میں اس قدر اور زیادتی معلوم ہو تی ہے کہ اللہ کا نام سن کر اس شخص پر اس قدر ہیبت طاری ہو ئی کہ اس کے ہا تھ سے تلوار گر گئی اور آنحضرتؐ نے اٹھا لی اور اس سے فر ما یا کہ اب تجھے میرے ہا تھ سے کو ن بچائے گا تو اس نے جواب دیا کہ کو ئی نہیں۔پھر آپؐ نے اسے چھوڑ دیا اور صحابہ ؓکو بلا کر دکھا یا۔

اس حدیث سے کیسے واضح طور سے معلوم ہو تا ہے کہ آنحضرتؐ کو اپنے حواس پر ایسا قابو تھا کہ نہایت خطر ناک اوقات میں بھی آپؐ نہ گھبرا تے ۔کہنے کو تو شا ید یہ ایک چھو ٹی سی بات معلوم ہو تی ہے کہ اس اعرا بی نے آپؐ سے پو چھا کہ اب آپؐ کو کون بچا ئے گا اور آپؐ نے فر ما یاکہ اللہ لیکن عمل میں یہ بات مشکل ترین امور میں سے ہے۔

اول تو سو یا ہوا انسا ن پہلے ہی بہت سی غفلتوں کے نیچے ہوتا ہے اور بغیر کسی خوف و خطر کے بھی ایک سوئے ہو ئے آدمی کو جگا دیا جا ئے تو وہ گھبرا جا تا ہے اور کسی خطر ناک آواز یا نظارہ کو اگر ایک سو یا ہوا انسان سن کر یا دیکھ کر اٹھے تو اس کےحواس قائم رہنے نہایت مشکل ہوتے ہیں۔پس اگر جا گتے ہو ئے کو ئی دشمن حملہ کر تا تو وہ واقعہ ایسا صاف اور روشن نہ ہو تا جیسا کہ یہ ہے کیونکہ اس سے ایک طرف تو یہ ثابت ہو تا ہے کہ آپؐ کو کسی خطرہ کا گمان تک بھی نہ تھا جب اس شخص نے آپؐ پر حملہ کیااور آپؐ کسی ایسے فعل سے انتہا ئی درجہ کی لا علمی میں تھے اور دوسری طرف دشمن کو اس موقع سے فا ئدہ اٹھا کر ہر قسم کی تیاری اور ہوشیاری کا موقع حاصل تھا۔علا وہ ازیںایک آدمی جب بیٹھا یا کھڑا ہو تو وہ حملہ آور کا مقابلہ نہا یت آسانی سے کر سکتا ہے اور کم سےکم اسے اپنی جگہ بدلنے میں آسانی ہو تی ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے حملہ کو اگر طاقت اور قوت سے میں نہیں رو ک سکتا تو کم سے کم چستی اور چالاکی سے اس کے حملہ کو ضرور بچاسکتا ہوں اور اس کی ضرب سے ایک طرف ہو کر اپنی جا ن بچانے کا موقع حاصل ہو سکتا ہے لیکن آنحضرت ؐ اس وقت لیٹے ہو ئے تھے اور پھر سو ئے ہوئےجا گے تھے جس کی وجہ سے کوئی ظا ہری تدبیر دشمن کے حملہ کو روکنے کی نہ تھی اور پھر آپ ؐ غیر علا قہ میں تھے اور دشمن اپنی جگہ پر تھا جہاں اپنی حفا ظت کا اسے ہر طرح یقین تھا مگر با وجود ان حالات کے آپؐ نے ایک ذرہ بھر بھی تو گھبرا ہٹ ظاہر نہ کی۔

اس اعرا بی کا یہ کہنا بھی کہ اب تجھے کو ن بچا سکتا ہے صاف ظاہر کر تا ہے کہ اسے بھی کامل یقین تھا کہ اب کو ئی دنیا وی سامان ان کے بچاؤ کا نہیں مگر اسے کیا معلوم تھا کہ جس شخص پر میں حملہ کر نا چاہتا ہوں وہ معمولی انسانوںمیں سے نہیں بلکہ ان میں سے ہے جو خالق ارض و سما کے در بار کے مقرب اور اس کے ظلِّ عافیت کے نیچے آئے ہو ئے ہو تے ہیں۔

آنحضرت ﷺ نے اسےجس آرا م اور اطمینان قلب کے سا تھ جواب دیا ہےکہ مجھے اللہ بچائے گا وہ روز رو شن کی طرح اس با ت کوثا بت کر رہا ہے کہ آپؐ کے دل میں غیر اللہ کا خوف ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں آتا تھا اور آپؐ کا دل ایسا مضبوط اور قوی تھا کہ خطرناک سے خطر ناک اوقات میں بھی اس میں گھبرا ہٹ کا وجود نہ پا یا جا تا تھا اور اپنے حواس پر آپؐ کو اس قدر قدرت تھی کہ اور تو اور خود دشمن بھی جو آپؐ کے قتل کے ارادہ سے آیا تھا بد حواس ہو گیا اور اس کے ہا تھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی کیونکہ اس نے دیکھ لیا کہ میں ایک ایسی طاقت کا مقابلہ کر رہا ہوں جسے نقصان پہنچانے کی بجا ئے میں خود تباہ ہو جا ؤں گا۔

(باقی آئندہ )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button