الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

شیخ عجم کے شاگرد

ماہنامہ ‘‘خالد’’ مارچ 2011ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید کے دو شاگردوں کا مختصر ذکر کیا گیا ہے جنہیں کابل میں جام شہادت پینا نصیب ہوا۔

حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحب ولد ظہیرالدین صاحب موضع دھوبیاں ضلع پشاور کے رہنے والے تھے۔ آپؓ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے ایماء اور ہدایت سے دو یا تین دفعہ قادیان آئے اور کئی کئی ماہ وہاں قیام کیا۔ جب وہ کابل گئے تو پہلے سیّدگاہ میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں حضرت اقدسؑ کی تصنیفات دیں جو وہ قادیان سے لے کر آئے تھے۔ پھر اپنے وطن چلے گئے جو قبیلہ منگل کے علاقہ میں ہے۔ اس پر امیر عبدالرحمٰن تک بعض شریر پنجابیوں نے خبر پہنچائی کہ یہ ایک پنجابی شخص کا مرید ہے جو اپنے تئیں مسیح موعود ظاہر کرتا ہے۔ تب امیر نے خوست کے حاکم کو حکم دیا کہ آپؓ کو گرفتار کرکے کابل بھجوایا جائے۔ حاکم نے حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو اس حکم کی اطلاع دی۔ جب مولوی عبدالرحمٰن صاحبؓ کو یہ معلوم ہوا تو وہ روپوش ہوگئے۔ اس پر امیر عبدالرحمٰن خان نے حکم دیا کہ ان کا تمام مال و اسباب ضبط کرکے ان کے اہل و عیال کو گرفتار کرکے کابل بھجوادیا جائے۔ اس پر آپؓ خود کابل جاکر امیر کے سامنے پیش ہوگئے۔ امیر نے پوچھا کہ تم افغانستان سے بلااجازت باہر کیوں گئے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مَیں سرکار کی خدمت کے لیے قادیان گیا تھا اور وہاں سے آپ کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں لایا ہوں۔ امیر نے کتابیں لے کر ان کو قیدخانہ بھجوادیا۔ جہاں بعد میں گلے میں کپڑا ڈال کر اور منہ پر تکیہ رکھ کر دَم بند کرکے شہید کردیا گیا۔

حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے ایک اَور شاگرد مولوی نعمت اللہ خان صاحب موضع خوجہ ضلع پنج شیر افغانستان کے رہنے والے تھے۔ والد کا نام امان اللہ خان تھا۔ 1924ء میں 34 سال کی عمر میں شہید کیےگئے۔آپ خلیفہ عبدالرحمٰن صاحب افغانی کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے اور پھر قادیان آکر مدرسہ احمدیہ میں دینی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ 1919ء میں آپ کو افغانستان بھجوایا گیا۔ اسی سال امیر حبیب اللہ خان کو قتل کردیا گیااور نیا امیر امان اللہ خان مقرر ہوا جس کے بارے میں اخباروں نے لکھا کہ وہ آزادی پسند نوجوان ہے۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو کابل جاکر احمدیوں کے حالات سے مطلع کرنے کی ہدایت کی۔ آپ کابل چلے گئے اور مخفی طور پر احمدی بھائیوں کو احمدیت کی تعلیم سے واقف کرتے رہے۔ اگرچہ افغان حکومت نے مذہبی آزادی کا اعلان کیا تھا مگر افغانستان کے بعض علاقوں سے یہ خبریں آرہی تھیں کہ احمدیوں پر ظلم ہورہا ہے اور اُن سے روپیہ لے کر اُنہیں چھوڑا جاتا ہے۔ اس پر حکومت سے رابطہ کیا گیا اور حکومت کی طرف سے احمدیوں کی حفاظت کی یقین دہانی کے بعد 1922ء میں نعمت اللہ خان صاحب کو دوبارہ افغانستان بھجوایا گیا۔

محترم مولوی نعمت اللہ خان صاحب درمیانہ قد کے خوبصورت، نہایت پاکیزہ،کم گو، پُرجوش نوجوان تھے۔ فارسی آپ کی زبان تھی، پشتو بھی بولتے تھے اور اردو بھی جانتے تھے۔ آپ اپنے ساتھ حضورؓ کی کتاب ‘‘دعوۃ الامیر’’ کا فارسی ترجمہ بھی لے گئے تاکہ وہاں تقسیم کرسکیں۔ لیکن 1923ء میں اطلاع ملی کہ کابل میں دو احمدیوں کو حکومت نے گرفتار کرلیا ہے۔ جولائی 1924ء میں نعمت اللہ خان صاحب کو حکومت نے بلایا اور بیان لیا کہ وہ احمدی ہیں؟ یہ بیان لے کر پہلے اُن کو رہا کردیا گیا لیکن پھر جلد ہی جیل میں ڈال دیا گیا۔ یکم اگست 1924ء کو آپ نے قیدخانہ سے فضل کریم صاحب بھیروی مقیم کابل کو ایک مفصل خط میں بتایا کہ ‘‘یہ کمترین بندہ داعی اسلام تیس روز سے ایسے قیدخانہ میں ہے جس کا دروازہ اور روشن دان بھی بند رہتے ہیں اور صرف ایک حصہ دروازہ کھلتا ہے۔ کسی سے بات کرنے کی ممانعت ہے۔ جب مَیں وضو وغیرہ کے لیے جاتا ہوں تو ساتھ پہرہ رہتا ہے۔ خادم کو قید میں آنے کے دن سے لے کر اس وقت تک چار کوٹھڑیوں میں تبدیل کیا جاچکا ہے لیکن جس قدر بھی زیادہ اندھیرا ہوتا ہے اسی قدر خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے روشنی اور اطمینان قلب دیا جاتا ہے۔’’

پھر آپ کو محکمہ شریعہ ابتدائیہ میں پیش کیا گیا جس نے 11؍اگست 1924ء کو آپ کے ارتداد اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا۔ 14؍اگست کو عدالت مرافعہ میں پیش ہوئے جس نے فیصلہ کیا کہ آپ کو ہجوم کے سامنے سنگسار کیا جائے۔ 31؍اگست کو آپ کو کابل کی گلیوں میں پھرایا گیا اور منادی کرنے کے بعد عصر کے وقت شیرپورچھاؤنی لایا گیا۔ جہاں آپ نے آخری خواہش کے مطابق نماز پڑھی اور اس کے بعد کہا کہ اب مَیں تیار ہوں، جو چاہو کرو۔ آپ کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا اور پہلا پتھر کابل کے ایک عالم نے پھینکا۔ اس کے بعد چاروں طرف سے پتھروں کی بارش شروع ہوگئی یہاں تک کہ آپ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے دب گئے اور شہید ہوگئے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اُس وقت لندن میں تھے۔ آپؓ نے قادیان میں ایک پیغام ارسال کیا جس میں فرمایا:
‘‘آؤ ہم اس لمحہ سے یہ مصمّم ارادہ کرلیں کہ ہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک ہم ان شہداء کی زمین کو فتح نہیں کرلیں گے۔ صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ، نعمت اللہ خان صاحب اور عبدالرحمٰن صاحبؓ کی روحیں آسمان سے ہمیں ہمارے فرائض یاد دلا رہی ہیں اور مَیں یقین کرتا ہوں کہ احمدیہ جماعت ان کو نہیں بھولے گی۔’’

………٭………٭………٭………

‘‘مولیٰ بس’’ کی کیفیت

ماہنامہ ‘‘خالد’’ جنوری 2011ء میں مکرم ارسلان احمد بٹ صاحب کا مُرسلہ حضرت مسیح موعودؑ کے ملفوظات کا ایک اقتباس شائع ہوا ہے جس میں حضورؑ ‘‘مولیٰ بس’’ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اپنے ایک چچا کو وفات کے بعد مَیں نےعالمِ رؤیا میں دیکھا اور اُن سے اُس عالم کے حالات پوچھے کہ کس طرح انسان فوت ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اُس وقت دو سفیدپوش فرشتے سامنے آکر کہتے ہیں مولیٰ بس، مولیٰ بس (حقیقت میں ایسی حالت میں یہی لفظ موزوں ہوتا ہے)۔ پھر وہ قریب آکر دونوں انگلیاں ناک کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ اے روح! جس راہ سے آئی تھی اسی راہ سے واپس نکل آ۔ طبعی امور سے ثابت ہوتا ہے کہ ناک کی راہ سے روح داخل ہوتی ہے اسی راہ سے معلوم ہوا نکلتی ہے۔ توریت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ نتھنوں کے ذریعے زندگی کی روح پھونکی گئی۔

………٭………٭………٭………

تھرونگرپارکر کا تعارف

ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ فروری 2011ء میں ایک معلوماتی مضمون شامل ہے جس میں مکرم محمد عاصم حلیم صاحب (معلّم وقف جدید) نے تھرونگرپارکر کا تعارف کروایا ہے۔

تھرونگرپارکر کا رقبہ ہزاروں میل ہے جس میں کھیتی باڑی کا انحصار بارشوں پر ہے۔ اگر موسم کے مطابق بارشیں ہوجائیں تو ہر طرف سبزہ قابل دید ہوتا ہے ورنہ قحط سالی ہوجاتی ہے اور مقامی لوگ جانوروں کو لے کر دیگر علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں اور محنت مزدوری کرکے گزارہ کرتے ہیں۔محکمہ تعلیم سندھ نے یہاں اسکولوں کی خوبصورت عمارتیں تو بنادی ہیں مگر تعلیم دینے اور تعلیم حاصل کرنے والے نظر نہیں آتے۔ والدین کو بھی اس کا شعور نہیں ہے۔

یہاں کا موسم عموماً معتدل رہتا ہے۔ ساحل سمندر کی ہوائیں اکثر چلتی ہیں۔ سردیوں میں جانور کھلے اور باہر ہی رہتے ہیں۔ چوری اور گُم ہونے کا احتمال کم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آجائے تو کھرا نکالنے کے یہ لوگ ماہر ہیں۔

یہاں کی خوراک عموماً باجرہ اور گندم ہے۔ دودھ، دہی بھی استعمال ہوتا ہے۔ چائے بکثرت پی جاتی ہے۔ تِل، دال مونگ بھی میسر ہوتے ہیں۔ بارشوں میں تربوز، خربوزہ اور خودرَو چبھڑ مَن بھاتا خوراک ہیں۔ایک جنگلی درخت جنڈ کی پھلیاں بطور سبزی خشک کرکے سارا سال استعمال کی جاتی ہیں ۔

علی الصبح چار پانچ بجے عورتیں چکّی پر آٹا پیسنے سے دن کا آغاز کرتی ہیں۔ جانوروں کا دودھ دوہنا، دودھ بلونا، دُور سے پانی لانا، چائے مہیا کرنا اور کھیتی باڑی میں مَردوں کا ہاتھ بٹانا بھی اُن کے فرائض میں شامل ہے۔ لباس مختصر ہونے کے باوجود عورتیں پردہ کی سخت پابند ہیں اور رواج کے مطابق بہو اپنے سسر سے اور ساس اپنے داماد سے پردہ کرتی ہے۔ رشتہ ناطہ اپنی برادری سے باہر کرتے ہیں بلکہ اپنی گوٹھ سے بھی دُور رشتہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بارات میں باراتی کم اور جہیز مختصر ہوتا ہے۔
اب لمبے سفر میں کافی آسانی پیدا ہوچکی ہے ورنہ پہلے کچے راستہ پر سفر بہت دشوار گزار ہوتا تھا۔ نوکوٹ سے نگرپارکر کا قریباً دو سو میل کا سفر بارہ گھنٹے میں طَے ہوتا تھا۔ لیکن مقامی سفر اب بھی پیدل یا اونٹ گھوڑوں پر کیا جاتا ہے۔ گھڑسواری کے یہ لوگ ماہر ہیں۔ سخت گرمی و سردی میں اکثر کھلے ٹرکوں پر بچوں اور عورتوں کو سفر کرنا پڑتا ہے۔ سفر میں پانی کا پاس ہونا ضروری ہے۔ رات کو پیدل سفر میں روشنی اور لاٹھی رکھنا بھی لازمی ہے کیونکہ سانپ، بچھو اور دیگر حشرات بکثرت پائے جاتے ہیں۔

بڑی ذات کے ہندو (ٹھاکر، بنیے اور براہمن وغیرہ) چھوٹی ذات کے لوگوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ہندو بھگت اکثر وشنو ہوتے ہیں یعنی کسی قسم کا گوشت نہیں کھاتے بلکہ انڈا، شہد اور سرخ پیاز سے بھی اجتناب کرتے ہیں اور مادہ سواری پر سفر کرنا گناہ تصوّر کرتے ہیں۔ چمڑے کی جوتی کی بجائے لکڑی کے کھڑاواں پہنتے ہیں۔ ایسے بھگتوں کو مرنے کے بعد جلانے کی بجائے قبر میں اکڑوں بٹھاکر دفناتے ہیں۔ یہاں ہندوؤں میں چوری کرنا اور بھیک مانگنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ محنت مزدوری یا قرضہ پر گزارہ کرلیتے ہیں۔

میلوں اور شادی بیاہ پر رات بھر گانا بجانا اور تاش بینی جاری رہتی ہے۔ ڈھولکی بجانے کے سب استاد ہیں۔ لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ جو گھر میں میسر ہو وہ بے تکلّف پیش کردیتے ہیں۔ مذہبی تعصب بالکل نہیں ہے۔ بلکہ مذہبی باتیں شوق سے سنتے ہیں۔ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے بلکہ محبت اور ہمدردی سے رہنا پسند کرتے ہیں۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ہندو مسلمان ایک دوسرے کی دعوتوں میں شریک ہوتے ہیں مگر کھانے کا انتظام الگ الگ ہوتا ہے۔

نگرشہر سے چند میل کے فاصلہ پر ایک قدیم اور یادگار مسجد ہے جو سنگ مرمر کے بڑے بڑے بلاکوں سے بنائی گئی ہے۔ قریب ہی سادہ پتھروں سے بنا ایک اونچا مندر بھی موجود ہے۔ ایک وسیع تالاب بھی پہاڑ کے دامن میں بنا ہوا ہے۔ ویسے سارے علاقہ میں کئی کچے اور پختہ تالاب ہیں جو موسمی بارشوں سے بھر جاتے ہیں اور علاقہ بھر کے جانور، انسان، چرند پرند یہی پانی پیتے ہیں بلکہ کپڑے دھونے اور نہانے کا بھی یہی تالاب واحد ذریعہ ہیں۔ نگرشہر کے قریب واقع جبل (پہاڑ) میں ہندوؤں کا ایک پرانا مندر ہے جہاں ہر سال ایک بہت بڑا میلہ لگتا ہے اور یہاں کے تالاب میں گنگایاترا کی طرح سب اشنان کرتے ہیں۔ یہاں ہر قوم اور ہندو ذات کی الگ الگ محفل لگتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے تھرونگرپارکر کے علاقہ کو احمدیت اپنے نُور سے منور کر رہی ہے اور یہاں کے لوگوں کی اخلاقی، طبّی، معاشرتی اور روحانی ترقی میں خدمت بجا لارہی ہے۔

………٭………٭………٭………

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ نومبرودسمبر 2012ء میںمکرم صادق باجوہ صاحب کی ایک نظم شائع ہوئی ہے جو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ورودِ امریکہ کے موقع پر کہی گئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

وفا کے دیپ جلائیں کہ پھر بڑھے ایماں
ہو طَے سلوک ، عطا تقویٰ ہو ، ملے عرفاں
بلند اوجِ مقدّر پہ پھر ستارے ہوئے
خوشانصیب زمیں آسماں ہمارے ہوئے
خوش آمدید مکین و مکاں بھی کہتے ہیں
وہ خوش نصیب مکاں ہیں جہاں وہ رہتے ہیں
زباں سے رُشد و ہدایت کے چشمے بہتے ہیں
نہ احمدی ہی فقط ، غیر بھی یہ کہتے ہیں
فدائے راہِ خلافت ہر آن بان کریں
ہے آرزو یہ ہماری نثار جان کریں
بسر ہو رات بھی تقویٰ سے صبح و شام کریں
ندائے پاک مسیحاؑ صلائے عام کریں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button