متفرق مضامین

اقوام متحدہ حقوق انسانی کونسل کا بیالیسواں اجلاس

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

اقوام متحدہ کے تحت قائم حقوق انسانی کونسل کا بیالیسواں اجلاس 9؍ ستمبر بروز سوموار سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں شروع ہو گیا ہے جو کہ 27؍ ستمبر تک جاری رہے گا ۔ اقوام متحدہ کے اس ادارے کا نام UNCHR یعنی اقوام متحدہ کمیشن برائے انسانی حقوق تھا ۔ 15؍ مارچ 2006ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے قوانین میں تبدیلی کرکے اس کمیشن کو کونسل میں تبدیل کر کے اس کا نیا نام UNHRC رکھ دیا ۔ ہر تین سال کے بعد جنرل اسمبلی اس کے 47؍ممبران کا انتخاب کرتی ہے۔ قوانین کے مطابق ان ممبران کے چناؤ کے لیے ضروری ہے کہ ان میں سے 13؍افریقہ ، 13؍ ایشیا پیسفک ، 8؍لاطینی امریکہ، 7؍ ویسٹرن یورپ اور6؍ ایسٹرن یورپین ممالک سے چنے جائیں ۔ کونسل کا ایک صدر اور چار نائب صدور ہیں۔ اس طرح پانچوں براعظموں کو انتظامی امور میں نمائندگی دی گئی ہے ۔اس وقت اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کی سربراہ کا تعلق چلی سے ہے اور ان کا نام Mrs.Michelle Bachelet ہے۔ انہوں نے یکم ستمبر 2018ءکو کونسل کی سربراہی سنبھالی ۔ اس سے قبل اردن کے Mr. Zedi Rad Al Hussain اس کونسل کے سربراہ تھے۔ ایک ملک مسلسل 2 بار سے زیادہ اس کونسل کا ممبر منتخب نہیں ہو سکتا ۔ اس کونسل کے سال میں تین اجلاس منعقد ہوتے ہیں جن میں اقوام متحدہ کے 114؍ ممبر ممالک میں حقوق انسانی کی صورت حال کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔ امسال یہ اجلاس 25 فروری سے 22 مارچ، 24 جون سے 12 جولائی اور اب9 ستمبر سے 27 ستمبر تک ہو رہا ہے۔ ہر سال ستمبر میں ہونے والے اجلاس کی اہمیت اس لیے زیادہ تصور کی جاتی ہے کہ جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی ستمبر میں شروع ہوتا ہے ۔ UNHRC او ر اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کی سالانہ رپورٹس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی جاتی ہیں۔ ان میں سے جو تجاویز جنرل اسمبلی کے ایجنڈے پر آ جائیں ان پر پھر تفصیلی بحث ہوتی ہے ۔ یوں تو کونسل کا اجلاس دو ہفتے سے بھی زائد مدت جاری رہتا ہے لیکن عینی شاہدین یہ جانتے ہیں کہ پہلے تین روز اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔بیرونی وفود کی روانگی کے بعد باقی کارروائی جنیوا میں موجود مستقل مشنوں کے سربراہ مکمل کرتے ہیں ۔

اس بار بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر اجلاس کا اہم موضوع ہو گا ۔ سلامتی کونسل، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، اقوام متحدہ کے دیگر اداروں اور پوری دنیا کی این جی اوز کی طرف سے کشمیر کے حالات پر فکر مندی کے باوجود جنیوا میں جاری اجلاس میں کشمیر کا معاملہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں ۔ جس کو ایجنڈے میں شامل کروانے کے لیے گزشتہ دنوں وزیراعظم اور وزیر خارجہ عالمی راہنماؤں سے ٹیلیفونک رابطہ رکھے ہوے تھے ۔ کونسل اجلاس کے ایجنڈے میں اپنی تجویز شامل کروانے اور کونسل اجلاس میں قرارداد شامل کروانے کے لیے 47 ممبران میں سے 16 ممبران کی حمایت ضروری ہے جو عالمی پریس کے مطابق ابھی تک پاکستان کو حاصل نہیں۔ لیکن اس حمایت کو حاصل کرنے کے لے پاکستان سر توڑ کوشش کر رہا ہے ۔ وزیر خارجہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بنفس نفیس موجود ہیں ۔

ایک عالمی اخبار نے تو یہ پھبتی بھی کسی ہے کہ حقوق انسانی کونسل میں آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (O.I.C)کے 15 ممالک کی موجودگی کے باوجود نہ جانے پاکستان کو اپنی قرارداد شامل کروانے میں کیوں دقّت پیش آ رہی ہے ۔

ہماری ذاتی رائے میں کشمیر میں جاری بھارتی ظلم وستم رکوانے کے لیے ہر مسلمان شہری اور حکومت کو پاکستان کی کوششوں کا ساتھ دینا چاہیے ۔مشکل کی اس گھڑی میں اگر مسلمان حکومتیں اور ان کی رعایا نے خاموشی اختیار کیے رکھی تو ان کا یہ فعل اس حدیث کی نفی ہوگاکہ تمام مسلمان ایک ہی وجود کے اعضا ہیں۔ حقوق انسانی کونسل کے 42ویں اجلاس میں کشمیر کی موجودہ صورت حال پر اگر بات صرف تقریروں تک محدود رہی تو یہ پورے عالمِ اسلام خصوصاً پاکستان کے لیے شرمندگی کا باعث ہوگی ۔
بعض لوگوں کی رائے ہے کہ حقوق انسانی کے حوالے سے پاکستان کا اپنا ریکارڈ بھی اتنا قابل قدر نہیںاور یہ بات بھی عالمی مدد حاصل کرنے میں آڑے آ رہی ہے ۔ گزشتہ چند برسوں میں سینکڑوں ہندو خاندان بھارت نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ابھی کل ہی موجودہ حکومت کے طرف دار سابق ممبر پختونخواہ اسمبلی بلدیو کمار نے بھارت میں سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے۔ اس موقع پر ان کی طرف سے دیا جانے والا بیان حکومت کے لیے قابل غور ٹھہرنا چاہیے۔ پاکستان میں موجود ان کمزوریوں کے باوجود کشمیر کی موجودہ صورت حال کسی بھی پاکستانی اور کشمیریوں سے ہمدردی رکھنے والے کو پریشان کر دینے والی ہے ۔جس کے اطمینان بخش حل کے لیے اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کو اپنے 42ویں اجلاس میں سنجیدہ اقدام اٹھانے چاہئیں ۔

کونسل کے اجلاس کے دوران ملکی سطح اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن اپنے اجلاس،تعارفی نمائش ،نان پرافٹ ،نان کمرشل تقاریب منعقد کر سکتی ہیں ۔لیکن اس کے لیے ان کو انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے بر وقت اجازت لینا پڑتی ہے۔

اسی طرح حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی آرگنائزیشن این۔جی۔اوز بطور مبصر ہال کے اندر بیٹھ کر کارروائی سن سکتے ہیں۔انفرادی حیثیت میں آنے والوں کو گیلری میں بیٹھ کر اجلاس کی کارروائی سننے کے لیے اجازت درکار ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ کا یہ ادارہ ہر سال نوجوانوں کے درمیان حقوق انسانی کا کیس تیار کرنے اور مقدمہ لڑنے کا مقابلہ بھی کرواتا ہے ۔جن کی مختلف سطح پر عدالتوں میں سماعت ہوتی ہے۔ اس مقابلہ کو Nelson Mandela World moot court کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی تیاری میں یونیورسٹی آف Pretorea, اکیڈمی آف ہیومن رائٹس واشنگٹن۔کالج آف لاء امریکہ،نیشنل ہیومن رائٹس کونسل مدد کرتے ہیں ۔مختلف سطح پر یہ مقابلے ہوتے ہوئے سیمی فائنل اور فائنل مقابلوں کے لیے جنیوا میں اکٹھے ہوتے ہیں ۔ حقوق انسانی کا فائنل کیس جنیوا میں عالمی عدالت انصاف کا ایک جج سنتا ہے ۔ اس مقابلے میں نوجوان قانون کے طلبہ کی دلچسپی دیکھنے کے لائق ہے ۔یہ سلسلہ 2009ء سے جاری ہے ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button