خلاصہ خطبہ جمعہ

بدری صحابی حضرت نعمان بن عمرو اورحضرت خبیب بن اساف رضی اللہ عنہما کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ

محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ(ربوہ)، محترم محمد شمشیر خان صاحب(فجی) اور محترمہ فاطمہ محمد مصطفیٰ صاحبہ (کردستان۔حال ناروے) کی وفات پر مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جمعہ اور عصر کی ادائیگی کے بعد نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍ستمبر2019ء بمقام اجتماع گاہ مجلس انصاراللہ برطانیہ (کنٹری مارکیٹ، بورڈن ہمپشئر، برطانیہ)

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 13؍ستمبر 2019ء کو اجتماع گاہ مجلس انصاراللہ برطانیہ (کنٹری مارکیٹ بورڈن ہمپشئر)میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاجو مسلم ٹیلیوژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ اس خطبے کے متعدد زبانوں میں تراجم بھی براہِ راست نشر کیے گئے۔ جمعے کی اذان دینے کی سعادت محترم ضیاء الحق سیٹھی صاحب کے حصے میں آئی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بدری صحابہ کے بیان کا جو سلسلہ میں نے شروع کیا ہوا ہے آج بھی وہی بیان کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے انصار اللہ کو اجتماع کے حوالے سے یہ بھی بتادوں کہ وہ صحابہ انصار بھی تھے اورمہاجر بھی۔ انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو اپنےاندر پاک تبدیلیاں پیدا کیں۔ قربانی،تقویٰ، اور اخلاص و وفا کے اعلیٰ معیار قائم کیے۔ آپ میں سے اکثر جو یہاں موجودہیں وہ انصار بھی ہیں اور مہاجر بھی، اس لحاظ سے اپنے جائزے لیتے رہیں کہ ہمارے سامنے جو نمونے پیش کیے گئے تھے اُن پر ہم کس حد تک عمل کرنے والے ہیں۔

اس تمہید کے بعد حضورِ انور نے سب سے پہلے حضرت نعمان بن عمرو ؓ کاذکر فرمایا۔ آپؓ کا نام نعیمان بھی بیان کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بیعتِ عقبہ ثانیہ میں ستّر انصار کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ آپؓ نے غزوۂ بدر،احداور خندق سمیت تمام غزوات میں شرکت کی۔ ایک روایت کے مطابق رسول اللہﷺ نے آپؓ کی نسبت فرمایا کہ نعیمان کےلیے سوائے خیر کے کچھ نہ کہوکیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ آپؓ کی وفات حضرت امیر معاویہؓ کے دورِ حکومت میں 60؍ہجری میں ہوئی۔

حضرت نعمانؓ کی طبیعت میں مزاح تھا، آپ مذاق کیا کرتے تھے۔ اس ضمن میں حضورِ انور نے ایک واقعہ پیش فرمایا کہ جب حضرت ابو بکرؓ تجارت کی غرض سے ملکِ شام کے علاقے بصریٰ گئےتو حضرت نعمان اور سویبط بن حرملہ آپؓ کے ہم راہ تھے۔ یہ دونوں صحابہ آپس میں بےتکلّف تھے۔ حضرت نعمانؓ زادِ راہ پر متعین تھے۔ ایک موقعے پر حضرت ابوبکرؓ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ سویبط نے نعمان سے کہا کہ مجھے کھانا کھلاؤ۔ آپؓ نے جواب دیا کہ جب تک حضرت ابو بکرؓ نہیں آئیں گے، کھانا نہیں دوں گا۔ سویبط نے اس پرکہا کہ پھر مَیں ایسی بات کروں گاجس سے تمہیں غصّہ آئے۔ چنانچہ انہوں نے ایک قوم سے کہا کہ کیا تم میرا غلام خریدو گے؟ لیکن وہ ہے بہت بولنے والا۔ وہ یہی کہے گاکہ مَیں آزاد ہوں۔ اُس قوم سے دس اونٹنیوں کے عوض سودا ہوگیا۔ جب انہوں نے نعمان کے گلے میں رسّی ڈالی تاکہ غلام بناکے لے جائیں تو نعمانؓ نے کہا یہ شخص مذاق کر رہا ہے مَیں تو آزاد ہوں، لیکن وہ قوم نہ مانی۔ جب ابوبکرؓ واپس تشریف لائے تو لوگوں نے آپؓ کو سارا قصّہ سنایا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اُس قوم کو اُن کی اونٹنیاں واپس کیں اور نعمانؓ کو آزاد کرایا۔ جب یہ لوگ نبی کریمﷺ کے پاس واپس آئے اور آپؐ کو یہ سارا قصّہ سنایا تو آپؐ اور صحابہ بہت محظوظ ہوئے۔ تقریباً ایک سال تک اس لطیفے کا چرچا رہا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نعمانؓ کی باتوں سے محظوظ ہوا کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک روایت کے مطابق آپؐ کے پاس ایک بدو آیا جس نےاپنا اونٹ مسجدکےصحن میں بٹھادیا۔ صحابہ نے نعمانؓ سے کہا کہ اگر تم اس اونٹ کو ذبح کردو تو ہم اسے کھائیں۔ حضرت نعمانؓ نے اُن کی باتوں میں آکر اونٹ ذبح کردیا۔ جب بدو مسجد سے نکلا اور اپنے اونٹ کو اس حال میں دیکھا تو وہ چِلّایا۔ آنحضورﷺ باہر تشریف لائے، کسی نے بتایا کہ اسے نعمانؓ نے ذبح کیا ہے۔ آپؐ نعمان کی تلاش میں نکلے۔ جہاں آپؓ چھپے ہوئے تھے وہاں ایک شخص نے اِن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بلند آواز سے کہا کہ یارسول اللہﷺ مجھے نعمان کہیں نظر نہیں آرہا۔ آپؐ نے نعمان کو باہر نکالا اور دریافت فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ آپؓ نے عرض کی کہ جنہوں نے آپ کو میرے بارے میں خبر دی ہے انہوں نے ہی مجھے اکسایا تھا۔ اِن لوگوں نے مجھے کہا تھا کہ رسول اللہﷺ بعد میں اس کا تاوان دےدیں گے۔ حضورﷺ یہ سن کر مسکرائے اور نعمانؓ کے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھوا اور بدو کو اس کے اونٹ کی قیمت ادا کردی۔

مدینے میں جب کوئی پھیری والاآتا تو نعمانؓ اس سے چیز لےکر رسول اللہﷺ کو پیش کردیتے کہ یہ میری طرف سے تحفہ ہے۔ جب چیز کا مالک قیمت کا مطالبہ کرتا تو آپؓ اسے آنحضرتﷺ کے پاس لے آتے اور کہتے کہ اسے اس کے مال کی قیمت ادا کریں۔آپؐ دریافت فرماتے کہ یہ تو تحفہ نہیں تھا ؟تو نعمانؓ عرض کرتے کہ میرے پاس اس چیز کی ادائیگی کےلیے کوئی رقم نہیں تھی تاہم میرا شوق تھا کہ آپؐ یہ چیز استعمال فرمائیں۔ اس پر رسول اللہﷺ مسکراتے اور قیمت ادا فرمادیتے۔

دوسرا ذکر حضرت خبیب بن اساف ؓ کاتھا۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلے خزرج کی شاخ بنو جشم سے تھا۔ ہجرتِ مدینہ کے وقت گو آپؓ مسلمان نہ تھے تاہم پھر بھی انہیں مہاجرین کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ غزوہ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ مدینے میں سکونت کے باوجود آپؓ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا حتیٰ کہ رسول اللہﷺ غزوہ بدر کے لیے روانہ ہوگئے۔ تب راستے میں خبیبؓ نبی کریمﷺ سے جاملے اور اسلام قبول کیا۔ حضورِ انور نےصحیح مسلم اوراس کی شروحات، نیز مسند احمد بن حنبل میں مرقوم حضرت خبیبؓ کے اپنے بیان کی روشنی میں آپؓ کے قبولِ اسلام کی تفاصیل پیش فرمائیں۔

غزوۂ بدر میں خبیبؓ نے قریشِ مکّہ کے سردار امیّہ بن خلف کوقتل کیا تھا ۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ روایت کرتے ہیں کہ بدر کے روزشکست کے بعدمجھے امیّہ بن خلف ملا۔ وہ زمانۂ جاہلیت میں میرا دوست تھا۔ امیّہ کے ساتھ اس کا بیٹا علی بھی تھا۔ امیّہ نے مجھے دیکھ کر میرے جاہلیت کے نام عبد عمرو سے پکارا اور پرانی دوستی کا حوالہ دے کر مدد کا طلب گار ہوا۔ عبدالرحمٰن ؓنےمدد کی حامی بھری اور ان دونوں کو لے کر چل پڑے۔ راستے میں حضرت بلالؓ نے امیّہ کو دیکھ لیا۔ یہ شخص حضرت بلال کو اسلام سے پھیرنے کےلیے بڑا عذاب دیا کرتا تھا۔ حضرت بلالؓ نے زور سے آواز لگائی کہ اے اللہ کے انصار! یہ کافروں کا سردار امیّہ بن خلف ہےاگر یہ بچ گیا تو سمجھو کہ میں نہیں بچا۔ یہ سن کر انصاری دوڑےاور ان تینوں کو گھیر لیا۔ بلالؓ نے تلوار کے وار سے امیّہ کے بیٹے کو قتل کردیا اور پھر انصاری صحابہ نے تلواروں کے وار سے ان دونوں کو کاٹ ڈالا۔

ابنِ ہشام کے مطابق امیّہ کو حضرت معاذ بن عفرا ،خارجہ بن زید اوران ہی صحابی جن کا ذکر ہورہا ہے یعنی خبیب بن اساف نے مل کر قتل کیا تھا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض واقعات کی تفصیل کا اُس صحابی سے جس کا ذکر ہورہا ہو براہِ راست تعلق نہیں ہوتا لیکن مَیں اس لیے ذکر کردیتا ہوں تاکہ ہمیں تاریخ کا بھی کچھ کچھ علم ہوجائے۔

حضرت خبیبؓ کے پوتے خبیب بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ غزوہ بدر کے روز میرے دادا خبیبؓ کو ایسا زخم آیا کہ اُن کی پسلی ٹوٹ گئی۔ رسول اللہﷺ نے اس جگہ پر اپنا لعابِ مبارک لگایا اور اس کی معیّن جگہ پر رکھ دیا۔ جس کے نتیجے میں خبیبؓ چلنے لگے۔ ایک دوسری روایت میں حضرت خبیبؓ خود بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن ان کے کندھے پر بڑا گہرا زخم آیا جو پیٹ تک پہنچ گیا اور اس کےنتیجے میں آپؓ کا ہاتھ لٹک گیا۔ رسول اللہﷺ نے اس جگہ اپنا لعابِ مبارک لگایا اور اسے ساتھ جوڑ دیا جس کے نتیجے میں آپؓ کا زخم بالکل ٹھیک ہوگیا۔

ایک قول کے مطابق حضرت خبیبؓ کی وفات حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی جبکہ ایک دوسری روایت میں آپؓ کے حضرت عثمانؓ کے زمانۂ خلافت میں وفات پانے کا ذکر ہے۔

خطبہ جمعہ کے اختتام پر حضورِ انور نے تین مرحومین کا ذکرِ خیراور نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا ۔

اِن میں پہلا ذکر محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم سید محمد سرور صاحب ،ربوہ کا تھا۔ آپ 24؍اگست کو 74؍ برس کی عمر میں وفات پاگئیں تھیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔مرحومہ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم فتح محمد صاحب کے ذریعے ہوا تھا۔ جنہوں نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت قاضی محمد اکبر صاحب کےذریعے بیعت کی سعادت پائی تھی۔ حضرت قاضی محمد اکبر صاحب نے 1894ءمیں چاند اور سورج گرہن کا نشان دیکھ کر اپنے علاقے اور خاندان کے افراد کو امام مہدی کی آمد سے آگاہ کیا تھا۔

مرحومہ 8/1 حصّے کی موصیہ تھیں۔ آپ کے پانچ بیٹوں کو بطور واقفینِ زندگی خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ جن میں سے ایک مکرم محمد زکریا صاحب لائبیریا میں مبلغ ہیں۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ زکریا صاحب والدہ کی وفات پر جا بھی نہیں سکے اور انہوں نےبڑے اچھے صبر کا نمونہ دکھایااپنی ڈیوٹی باقاعدگی سے انجام دیتے رہے۔

دوسرا ذکر مکرم محمد شمشیر خان صاحب صدر جماعت ناندی فجی کا تھا۔ آپ 5؍ ستمبر کو وفات پاگئے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ جماعت فجی کے ابتدائی ممبران میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لمبا عرصہ جماعتی خدمت کی توفیق ملی۔

تیسرا جنازہ مکرمہ فاطمہ محمد مصطفیٰ صاحبہ کردستان حال ناروے کا تھا۔ ان کی وفات 13؍ جون کو ہوئی تھی۔ انا للہ انا الیہ راجعون۔ آپ کو 2014ء میں بیعت کی توفیق ملی تھی۔ حضورِ انور نے مرحومہ کے قبولِ احمدیت کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا۔ آخر میں حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button