متفرق مضامین

یہ سب دعا کے معجزے ہیں ۔۔۔

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

وہ دعا ہی تھی جس نے ہمارے جدامجد آدم ؑ اور ان کی بیوی پر خداتعالیٰ کی ناراضگی کو رحم میں بدلا۔ خدا نے خود انہیں دعائیہ کلمات سکھائے پھر ان کی غلطی سے درگزر فرمایا اور ان کی اولاد کو تمام جہان میں پھیلا دیا۔

وہ دعا ہی تھی جس نے نوح ؑکے دشمنوں کو غرقاب کیا اور اس کے کمزور ساتھیوں کو الہام کے ذریعہ اور خدا کی انکھوں کے سامنے بننے والی کشتی کے طفیل پانی میں اچھالتے ہوئے جودی پہاڑ پر پہنچا دیا۔

وہ دعا ہی تھی جس نے ابراہیم ؑکو رشد عطا کی۔ ان کے ساتھ مناظرہ کرنے والوں کومبہوت کیا۔ ان کے لیے آگ کو گلزار بنایا۔ انہیں بڑھاپے میں اولاد عطا کی۔ان کی تین نسلوں کو نبوت دی اسماعیلؑ ۔ اسحاق ؑ ۔یعقوبؑ اور یوسفؑ کو برگزیدہ کیا ابراہیمؑ کی دعاؤں نے مکہ کی وادی غیرذی زرع کو دارالامن اور خانہ کعبہ کو ہمیشہ کے لیے بیت معمور بنا دیا۔ ان کی دعاؤں نے محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت میں اہم کردار ادا کیا۔ امت محمدیہ قیامت تک رسول کریم ﷺ پر درود بھیجتی رہے گی اور ان کی دعاؤں میں ابراہیم ؑاور ان کی آل بھی شامل ہے۔

وہ دعا ہی تھی جس نے یوسفؑ کو کنویں کی تہ سے نکالا۔ انہیں علم و حکمت سے نوازا۔ علم تعبیر الرویا سکھایا۔ پاکیزگی عطا کی۔ انہیں بادشاہ کا مقرب بنایا۔ خزانوں کا مالک بنایا۔ ان کے باپ یعقوبؑ کی دعاؤں نے بچھڑے بیٹے سے ملایا جس نے والدین کو تختوں پر بٹھایا۔

وہ موسیٰؑ کی ماں کی دعا ہی تھی جس نے موسیٰ ؑکو شیرخوارگی میں قتل اور ڈوبنے سے بچایا۔ اپنی ماں کے پاس واپس پہنچایا۔ شہزادوں کی طرح پروان چڑھایا۔ اپنی قوم کا ہمدرد بنایا۔ قتل کے الزام سے بچایا۔ جلاوطنی میں اہل و عیال اور خدا کی تجلی سے نوازا۔ ان کے بھائی ہارونؑ کو بھی نبوت سے سرفراز کیا۔ فرعون کو پیغام حق پہنچایا۔ مگر وہ ہٹ دھرمی کے باعث عذابوں کا شکار ہوا موسی ؑکی دعاؤں سے خدا انہیں وقتی طور پر ٹلا تا رہا ۔ بالآخر فرعون غرق دریائے نیل ہوا اور خدا نے بنی اسرائیل کو خزانوں اور نعمتوں کا وارث کیا۔

وہ دعا ہی تھی جس نے داؤد ؑاور سلیمان ؑکو بادشاہ بنایا۔ انہیں روحانی پرندوں کی زبان سکھائی۔ جنوں کو مسخر کیا۔ خصوصی ہوائیں چلائیں۔ تانبے کی کانیں نکالیں۔عظیم الشان سلطنت عطاکی۔

وہ دعا ہی تھی جس نے یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے زندہ سلامت نکال لیا۔ اور اس کی قوم کو خدا کے غضب سے بچا کر نئی زندگی عطا کی۔

وہ دعا ہی تھی جس نے ایوبؑ کو بیماریوں سے نجات دی اور انہیں نئے رشتے اور اہل و عیال عطا کیے۔

وہ دعا ہی تھی جس نے قوم لوط ؑ قوم صالح ؑاور قوم شعیبؑ کو اپنے نبیوں کے مقابلہ میں ناکام و نامراد کیا۔ انہیں زلزلوں اور طوفانوں سے تباہ و برباد کر دیا اور ان نبیوں کا نام قیامت تک زندہ جاوید کر دیا۔

وہ دعا ہی تھی جس نے زکریاؑ کو سخت بڑھاپے میں اور بانجھ بیوی سے یحییٰ ؑعطا کیا۔
وہ دعا ہی تھی جس کے نتیجہ میں خدا نے عمران کی ایک عورت کے پیٹ میں موجود بچے کو اپنی غلامی میں قبول فرمایا۔جس کا نام مریم رکھا اس نے اپنی عفت کی ایسی حفاظت کی کہ خدا نے اسے بیٹے عیسیٰ ؑسے نوازا جسے جسمانی اور روحانی علاج کے لیے ضرب المثل بنا دیا گیا۔

وہ مریم کی دعا ہی تھی جس کی وجہ سے خدا نے مسیح ؑکو اول سے آخر تک اپنی نظر میں رکھا مسیح ؑکو صلیب سے زندہ اتار لیا۔ انہیں صحت اور تندرستی عطا کی اور بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو رسول اللہﷺ کی بشارت دینے کے لیے کشمیر ہجرت کی توفیق دی اور ایک سو بیس سال کی عمر تک خدا کا پیغام کامیابی سے پہنچاتے رہے۔

وہ دعا ہی تھی جس نے حواریان مسیح ؑپر مائدہ نازل کر دیا۔ انہیں صبر و استقامت عطا کی۔ وہ اصحاب کہف بن کر صدیوں قربانیوں کی نئی داستانیں رقم کرتے رہے۔

وہ دعا ہی تھی جو غار حرا سے بلند ہوئی اور محمدرسول اللہﷺ پر قرآن جیسی نعمت اتاری جس نے سارے اندھیروں کو اجالوں سے بدل دیا بے زر، بے ز ور امیوں کو تمام قوموں کا سردار بنا دیا۔

وہ دعا ہی تھی جس کے ذریعہ عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا برپا ہوا،ا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اورگونگوں کی زبانوں پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور ایک ایسا انقلاب عظیم پیدا ہواکہ نہ اس سے پہلے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ۔

وہ دعا ہی تھی جس نے بدر کے 313 نہتوں کو لشکر جرار پر فتح دے کر اس دن کو یوم الفرقان بنا دیا جس نے احد اور حنین میں اکھڑے پاؤں جما دیے جس نے احزاب پر زلزلہ طاری کر دیا جس نے کثیر دشمن اور ابو جہل جیسے طاقتور مخالفین کو ملیا میٹ کر دیا۔ ان کو گڑہوں میں ڈال کر بے نام و نشان کر دیا ابو لہب پر کتا مسلط کر دیا دعا شیر بن کر اس کے دو بیٹوں کو ھڑپ کر گئی جس نے کسریٰ کو ریزہ ریزہ کر دیا اور یمن اور شام اورمدائن اور ایران کے محلات مسلمانوں کے لیے کھول دیے۔

وہ دعا ہی تھی جس نے علی ؓ کا آشوب چشم لمحہ بھر میں ٹھیک کر دیا جس نے عبد اللہ بن عتیک ؓ کی ٹوٹی پنڈلی کو جوڑ دیا جس نے جابر بن عبداللہ ؓکے گھر چند آدمیوں کے کھانے سے سینکڑوں کو سیر کر دیا جس نے حدیبیہ کے خشک کنویں کو زندہ کر دیا جس نے پیالے کے پانی میں چشمہ بہا دیا جس نے شدید گرم موسم اور قحط سالی کو ابر رواں سے سیراب کر دیا اور جس نے گھنگھور گھٹاؤں کو چشم زدن میں ساکت کر دیا۔

وہ دعاہی تھی جس نے ابو بکر ؓکو سلطان نصیر بنایا جس نے عمر ؓکے دل میں اور ابو ھریرہ ؓکے گھر میں اور دوس قبیلہ میں اسلام داخل کیا جس نے عثمان ؓکو اشاعت قرآن کی سعادت دی جس نے عمر ؓکو محدث بنایا اور علی ؓکو ھارونؑ کی مشابہت دی جس نے ابن عباسؓ کو فہم قرآن عطا کیاجس نے خادم رسول انس بن مالک ؓکو لمبی عمر اور اولاد سے نوازا ان کا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیتا تھا۔

وہ دعاہی تھی جس نے زید بن حارثہ ؓ۔جعفر طیارؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ کو جنت کا پروانہ دیا جس نے ایک عشرہ مبشرہ نہیں سینکڑوں عشرہ مبشرہ بنا دیے جس نے بلال حبشی ؓکو سیدنا ۔ابو عبیدہؓ کو امین الامت اور خالد بن ولیدؓ کو سیف اللہ بنا دیا جس نے مکہ کی حرمت لوٹائی اور حرم کو دنیا جہان کے پھلوں اور میووں سے بھر دیا ۔جس نے یثرب یعنی وبا زدہ علاقے کو مدینہ سے بدلا اور اسے حرم نبویﷺ کا مرتبہ عطا کیا جس نے مسجد نبویؐ کو مرجع خلائق بنا دیا رسول اللہﷺکی دعاؤں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ لاکھوں اہل اللہ، مجددین، اقطاب، اولیاء اللہ ہر زمانہ اور ہر قوم میں پیدا ہوئے۔

آپ ﷺکی قوت قدسیہ اور دعاؤں سے ہی وہ غلام صادق مسیح موعود بھی آیا جو کل عالم کو در محمدؐ پر جھکانے کے لیے کوشاں ہے۔اس نے بیت الذکر اور بیت الفکر کے علاوہ بیت الدعا بھی بنایا اور اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ دعاؤں کے لیے وقف کر دیاجس کے پھل آج سارا عالم احمدیت کھا رہا ہے۔

وہ دعا ہی تھی جس نے سلطان القلم سے 85؍کتب تحریر کرائیں وہ اسلامی اصول کی فلاسفی لکھوائی جس کی سطر سطر پر دعا کی گئی۔جس نے ایک رات میں مسیح موعود کو سنوارا ۔اسے عربی کے ہزاروں مادے سکھائے اسے علم قرآن دیا اعجازالمسیح جیسی سورت فاتحہ کی تفسیر سکھائی اعجاز احمدی جیسا قصیدہ عطا کیا۔

وہ دعا ہی تھی جس نے مصلح موعود ؓکی روح کو آسمان سے منگوایا اسے علم قرآن عطا کیا۔ اس سے کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہوا اور قوموں نے اس سے برکت پائی۔

وہ دعا ہی تھی جس نے نورالدین ؓکو صدیق ثانی بنایا جس نے مولوی عبدالکریم ؓکو مسلمانوں کا لیڈر ۔مفتی محمد صادق ؓکو جوان صالح ۔اور غلام رسول راجیکی ؓکو کراماتی بنایا جس نے میر اسحاق ؓکو نئی زندگی دی اور میر اسماعیل ؓکواسسٹنٹ سرجن بنایا۔جس نے باؤلے کتے کے کاٹے عبدالکریم ؓ کو موت کے منہ سے کھینچ لیااور عبدالرحیم ؓ کے حق میں شفاعت قبول کی اسی دعا نے جلال الدین شمس ؓابوالعطاجالندھری اور عبدالرحمان خادم کو خالد احمدیت بنادیاجس نے ربوہ کی بے آب و گیاہ سرزمین سے پانی نکالا اوراسے گل وگلزار بنایا۔

وہ دعا ہی تھی جس نے 75؍ افراد سے شروع ہونے والے جلسہ کو عالمگیر بنا دیا۔ جس نے دو نان لاکھوں لوگوں کے لنگروں میں بدل دیے جس نے معمولی چھپروں کو عالی شان عمارتوں کی شکل دی جس نے 2,2آنے چندہ دینے والوں کے گھر بھر دیے۔ جس نے ڈسکہ کے ظفراللہ خان اور جھنگ کے ڈاکٹر عبدالسلام کو عالمی شہرت بخشی۔ جس نے ربوہ کی بے آب و گیاہ بنجر زمین کو مرجع عالم بنادیا۔دعا نے انی معین کا جلوہ بھی دکھایا اورا نی مھین کا جلوہ بھی دکھایا۔

وہ دعا ہی تھی جس نے لیکھرام، ڈوئی اور سینکڑوں معاندین کو نہایت ذلت کے ساتھ قصہ پارینہ بنا دیا۔ کسی کو دار پر چڑھایا تو کسی کے ہوا میں ٹکڑے اڑا دیے جس نے اہانت کا ارادہ کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کر دیا۔ جس نے 1934ء، 1953ء، 1974ء، 1984ء کے لرزہ خیز طوفانوں سے جماعت احمدیہ کو عزت کے ساتھ گزارا اور کشتی احمدیت کی رفتار پہلے سے تیز تر کردی۔

وہ دعا ہی تھی جس نے کئی زمینوں کو خدا کی نظر سے گرایا۔ جس نے تاج و تخت اچھال دیے۔ جس نے ظلم کرنے والوں کے ہاتھوں میں کشکول پکڑا دیے اور مارنے والے زندگی کی بھیک مانگنے لگے۔مباہلہ کرنے والے مارے گئے اور چیلنج کرنے والے ذلیل ہو گئے۔
وہ دعا ہی تھی جس نے ایک کو ہزار بنا دیا پھر ہزاروں سے ضرب دے دی۔ جس کے گھر کے گرد لاکھوں گھر بنا دیے۔ جس کی قبر کے پاس دفن ہونے کے لیے لوگ زندگی بھر تمنا کرتے رہیں اور عمر بھر کی کمائی تج دیتے ہیں۔ جس کے کپڑوں سے بادشاہ برکت ڈھونڈتے ہیں۔

وہ دعا ہی تھی جس نے خلیفہ اولؓ کو فتنوں پر تسلط بخشا۔خلیفہ ثانی کو عالمگیر تبلیغ اسلام کی مہم میں کامیاب کیا ذیلی تنظیمیں بنوائیں خلیفہ ثالث کو قومی اسمبلی پاکستان میں دشمنوں کو مسکت جواب دینے کی توفیق دی خلیفہ رابع کے ذریعہ عالمی بیعت کی بنیاد ڈالی جس نے خلیفہ خامس کے ذریعہ احمدیت کو 213 ملکوں میں پہنچا دیا دعا ہی نے پہلے ربوہ پھر بیت الفضل لندن اور اب اسلام آباد کو مرکز احمدیت بنانے کی توفیق دی۔
خدا نے نور الدین ؓکو دعاؤں کا ایسا ذوق دیا کہ اس نے خانہ کعبہ کو دیکھ کر پہلی دعا یہ مانگی کہ میں جو بھی دعا کروں اسے قبول کرنا خدا نے اس کی سن لی اور ساری زندگی اس کی دعا قبول کرتا رہا ۔خدا محمود ؓکی دعاؤں کو سن کر دوڑا چلا آیا اور دشمنوں کے پاؤں تلے سے زمین نکال دی ۔دنیا جب ناصر کو مٹانے پر تلی ہوئی تھی خدا نے اسے الہام کیا وسع مکانک ۔انا کفیناک المستہزئین۔جب ساری حکومتی مشینری اور ایجنسیاں حضرتِ طاہرؒ کو پکڑنے کے لیے سرگرم تھیں خدا نے اسے حفاظت کے ساتھ ہجرت کی بشارت دی جماعت کی دوسری صدی کے آغاز پر اسے ‘السلام علیکم’ کا تحفہ دیا اور آج مسرور کی دعائیں دنیائے احمدیت بلکہ کل عالم کے لیے امن کا تعویذ ہیںحضرت مصلح موعود ؓنے اخبار الفضل جاری کرتے ہوئے دعا کی تھی کہ اے اللہ! اس کا فیض لاکھوں نہیں کروڑوں تک وسیع کر آج الفضل کا فیض واقعی کروڑوں تک وسیع ہو گیا ہے۔

وہ دعا ہی تھی جس نے گنتی کے مخلصوں کے اموال و نفوس میں برکت ڈالی۔ مسیح موعود کے متبعین ملکوں ملکوں پھیل گئے۔ وہ خطہ خطہ قدم جماتے رہے۔ وہ قریہ قریہ آباد ہوئے۔ وہ چپہ چپہ پھرتے رہے۔ وہ نگر نگر طلوع ہوئے وہ شہر شہر ظاہر ہوئے۔ دنیا کے کونے کونے میں بس گئے۔ شاخ شاخ بسیرا کیا۔ ڈال ڈال بہار دکھائی۔ مگر پھر ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو گئے ۔ ایک امام کے گرد جمع ہیں ایک قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ایک شجر کے سائے میں ہیں۔

وہ دعا ہی ہے جس نے جماعت احمدیہ کو قدرت ثانی اور خلافت کی نعمت سے نوازا ہے۔ وہ امام دیا ہے جس سے خدا ہم کلام ہوتا ہے۔ جس کو خدا اپنی رضامندی کی راہیں دکھاتا ہے جس کی دعاؤں سے مردے زندہ ہو جاتے ہیں اور بیمار صحت مند، ناکام طالب علم کامیابی کا منہ دیکھتے ہیں اور بے اولاد صاحب اولاد ہو جاتے ہیں۔ جس کا ہر آنسو خدا سے نئی بشارتیں لے کر آتا ہے۔ جس کے منصوبوں کو خدا تمکنت دیتا ہے اور دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں حق و صداقت کی آواز گونجتی ہے۔

یہ دعا ہی ہے جس نے جماعت احمدیہ کے دل میں توحید کے قیام کا بے پناہ جوش پید اکیا ہے ۔ یہ ساری دنیا میں خدا کی وحدانیت کا علم بلند کرتے ہیں ۔ یہ جگہ جگہ خدا کے گھر بناتے ہیں۔ تمام زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم چھاپنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ یہ قرآن کریم کی نمائشیں لگاتے ہیں اور امن کا پیغام عام کرتے ہیں ۔ دیوانہ وار خدا کی طرف بلانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ اشاعت کے ذرائع میڈیا، اخبارات و رسائل استعمال کرتے ہیں اور زمین کے کناروں تک اللہ اور رسولﷺ کا پیغام پہنچاتے ہیں ۔

یہ دعا ہی ہے جس نے مسیح موعود کی تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچا دیا جس نے اس کی آواز اور تصویر کو ایم ٹی اے کے ذریعہ شش جہت میں پھیلا دیاجس کے خلیفہ کو دنیا کی تمام قومیں ایک وقت میں اپنی اپنی زبان میں سنتی ہیں جو جماعت ریڈیوکے خواب دیکھتی تھی خدا نے دعاؤں سے اسے ٹی وی بھی دے دیا اور ریڈیو بھی دے دیا۔

یہ دعا ہی ہے جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ خدمت خلق کے لیے سر گرم عمل ہےhumanity firstبھوکوں، پیاسوں ، بے مکانوں کے لیے ایثار کے نئے نمونے قائم کرتی ہے۔ ہر قدرتی آفت میں اپنے وسائل سے بڑھ کر کام کرتی ہے۔ یہ یتیموں کی پناہ گاہ ہے۔ بیوائوں کا آسرا ہے۔ کمزوروں کی ڈھال ہے اور دشمنوں سمیت سب کی خیر خواہ ہے۔
انسان اور اس کے معبود کے درمیان سب سے بڑا رشتہ دعا کا ہے۔ اس رشتے کو قائم رکھنے والے سلامت رہتے ہیں۔ عاجزی سے خدا کے حضور جھکنے والے رفعتیں پاتے ہیں۔ گرنے والے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اپنے پر موت وارد کرنے والے زندگی پاتے ہیں۔ دعا کائنات کی جان ہے۔ زندگی کی مراد ہے۔ نبوت کا ماحصل ہے۔ روح کی پکار ہے۔ دل کی دھڑکن ہے۔ یہ کتاب قیّمہ ہے۔ یہ قرآن کا خلاصہ ہے۔ یہ عبادت کا مغز ہے۔ یہ ہر بلندی کا پہلا زینہ اور ہر سچائی کا آغاز ہے۔ یہ تقویٰ کا دوسرا نام ہے اسی سے زندگی کا بھرم ہے۔ یہ نوحہ خوشیوں کی برسات ہے۔ یہ آنسو آخرت کے موتی ہیں۔ یہ غم مسرتوں کا سرچشمہ ہے۔دعا وسیلہ ہے دعا حوصلہ ہے دعا محبت ہے دعا راز ہے دعا ہمدردی ہے دعا طاقت ہے دعا کائنات ہے دعا بخشش ہے۔ دعا ہی سب کچھ ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعاؤں سے مدد پا کردعا کی حقیقت پریوں روشنی ڈالی ہے:

دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے دعاایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے وہ فنا کرنے والی چیز ہے وہ گداز کرنے والی آگ ہے وہ رحمت کو کھینچنے والی مقناطیسی کشش ہے وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے وہ ایک تند سَیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر اس سے تریاق ہو جاتا ہے

مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے مبارک وہ اندھے جو دعاؤںمیںسست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے مبارک وہ جوقبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے مبارک تم جبکہ دعا کرنے میں ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لیے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لیے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا ۔

(ماخوذ از لیکچر سیالکوٹ۔روحانی خزائن جلد 20 صفحہ222-223)

دعا کی معنویت کو اجاگر کرنے اور ایمانوں میں جلا بخشنے کے لیے یہ چند سطریں تحریر کی گئی ہیں۔ ان میں آیات بھی ہیں اور احادیث بھی۔ تاریخ بھی ہے اور سیرت بھی ۔اسباق بھی ہیں اور عبرت بھی۔ ارشادات بھی ہیں اور نصائح بھی۔ آداب بھی ہیں اور تقاضے بھی۔ واقعات بھی ہیں اور معجزات بھی۔ انہونیاں بھی ہیں اور ممکنات بھی۔ رحمتوں اور نصرتوں کی کہانیاں بھی اور سچے حالات بھی۔ عفو و مغفرت اور نور کی برسات بھی۔مناجات بھی اور دعائیں بھی ۔کاش ہمارے دل نرم ہو جائیں!

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button