خلاصہ خطبہ جمعہ

بدری صحابی حضرت عبادہ بن صامت انصاریؓ کی سیرتِ مبارکہ سے مزید واقعات اور روایات کا تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍ستمبر2019ءبمقام مسجد مبارک ، اسلام آباد ، ٹلفورڈ سرے،یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 06؍ستمبر 2019ء کو مسجد مبارک اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکےمیں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاجو مسلم ٹیلیوژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ اس خطبے کے متعدد زبانوں میں تراجم بھی براہِ راست نشر کیے گئے۔ جمعے کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ بنصرہ العزیز نے گذشتہ خطبہ جمعہ کے تسلسل میں حضرت عبادہ بن صامتؓ کا ذکرجاری رکھتے ہوئے آپؓ کی سیرتِ مبارکہ سے مزید واقعات و روایات بیان فرمائیں۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جب عبداللہ بن أبی کےکہنے پر اس کے حلیف قبیلہ بنو قینقاع نے مسلمانوں سے جنگ کی تو عبادہؓ بھی عبدللہ بن أبی کی طرح ان کے حلیف تھے۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطر ان کے حلیف ہونے سے بری ہوگئے۔ اس پر سورۃ المائدہ کی آیت 52 نازل ہوئی جس میں یہود و نصاریٰ کی دوستی سے مومنوں کومنع فرمایا گیاہے۔ اِس آیتِ کریمہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضورِ انورنے فرمایا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کبھی بھی کسی عیسائی یا یہودی کو فائدہ پہنچانے والی بات نہیں کرنی۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو یہود ی یاعیسائی تمہارے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں اُن سے دوستیاں نہ کرو۔ سورۃ الممتحنۃ آیت 9 میں ارشاد ہے کہ اللہ تمہیں اُن سے نیکی اور عدل سے نہیں روکتا۔

حضورِانور نے امتِ مسلمہ کی موجودہ حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی آیت میں واضح فرمایا ہے کہ کمزوری،خوف اور بزدلی کی وجہ سے غیرمسلموں سے تعلقات نہیں رکھنے۔ تمہارا اللہ پر توکل ہونا چاہیے۔ لیکن آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان حکومتیں بدقسمتی سے ان ہی غیرلوگوں کی گودوں میں گر رہی ہیں اور ان سے خوف زدہ بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مسلمان حکومتوں کو عقل دے۔

حضورِ انور نے‘ سیرت خاتم النبیینؐ ’کی روشنی میں بنو قینقاع سے لڑائی اور اُن کی جِلاوطنی کی تفاصیل پیش فرمائیں۔ جنگِ بدر کے بعد مدینے کے یہود کی مخفی آتشِ حسد بھڑک اٹھی اور انہوں نے برملا کہنا شروع کردیا کہ قریش کے لشکر کو شکست دینا کون سی بڑی بات تھی۔ ہمارے ساتھ مقابلہ ہوتو ہم بتادیں گے کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک موقعے پر انہوں نے آنحضرتﷺ کے سامنے اسی قسم کے الفاظ کہے۔

نحضرتﷺ نے یہود کی ہر طرح کی دل جوئی کی کوشش کی۔ ایک مرتبہ کسی یہودی نے ایک صحابی کے سامنے حضرت موسیٰ کی تمام انبیاء پر فضیلت بیان کی۔صحابی کوغصّہ آگیا، انہوں نے یہودی کے ساتھ کچھ سختی کی اور آنحضرتﷺ کو افضل الرسل بیان کیا۔ جب آپؐ کو اس واقعے کا علم ہواتو آنحضورﷺ نے اس صحابی کو تنبیہ فرمائی،اور حضرت موسیٰ کی ایک جزوی فضیلت بیان کرکے یہودی کی دل داری فرمادی۔ مگر نرمی اور شفقت کے اس سلوک کے باوجود یہود کی طرف سے آخرجنگ کا باعث پیدا ہوگیا۔ مدینے کے یہود میں بنو قینقاع سب سے زیادہ طاقت ور اور بہادر تھے۔سو ان ہی کی طرف سے سب سے پہلے آنحضرتﷺ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو توڑا گیا۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک مسلمان عورت کسی یہودی کی دکان پر خریداری کے لیے گئی۔اس دکان دار اور اس کے ساتھیوں نے نہایت اوباشانہ طریق پر اس مسلمان خاتون کو چھیڑا۔ یہاں تک کہ اُس عورت کی لاعلمی کے عالم میں اس کے تہ بند کے نچلے کونے کو کسی کانٹے یا ہُک وغیرہ سے ٹانک دیا۔ جب وہ عورت اٹھی تو بے لباس ہوگئی۔یہودی دکان دار اور اس کے ساتھیوں نے اس موقعےپر قہقہہ لگایا اور ہنسنے لگے۔ مسلمان خاتون نے شرم کے مارے چیخ ماری اور مدد چاہی۔ ایک مسلمان مدد کےلیے لپکااور لڑائی شروع ہوگئی جس میں یہودی دکان دار مارا گیا۔ اس بات پر اُس مسلمان پر چاروں طرف سے تلواریں برس پڑیں اور وہ غیور مسلمان وہیں پر ڈھیر ہوگیا۔ اس واقعے کے نتیجے میں مسلمان اور یہود آمنے سامنے ہوگئے اور بلوے کی صورت پیدا ہوگئی۔

ایسی صورتِ حال میں آنحضرتﷺ نے بنو قینقاع کےرؤسا کو جمع کیا اور اُن کو سمجھایا کہ یہ طریق اچھا نہیں۔ لیکن ان رؤسا نے شرمندہ ہونے کے بجائے نہایت متکبرانہ جواب دیا اور جنگ کی دھمکی دہرائی۔ ناچار آپؐ صحابہ کی ایک جمعیت کو لےکر بنو قینقاع کے قلعوں کی طرف روانہ ہوئے۔ جنگ کا اعلان ہوا اور اُس دور کے دستور کے مطابق بنو قینقاع اپنے قلعوں میں بند ہوکر بیٹھ گئے۔ آنحضرتﷺ نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کیا اور یہ محاصرہ پندرہ دن برابر جاری رہا۔ جب بنو قینقاع کا سارا زور اور غرور ٹوٹ گیا تو انہوں نے اس شرط پر قلعوں کے دروازے کھول دیے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہوجائیں گے مگر ان کی جانوں اور اہل و عیال پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ موسوی شریعت کے مطابق یہ سب لوگ واجب القتل تھےلیکن آنحضرتﷺ کی رحیم و کریم طبیعت نے اس زمانے کے حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک نرم فیصلہ فرمایا کہ یہ لوگ مدینے سے چلے جائیں۔ چنانچہ بنوقینقاع بڑے اطمینان کے ساتھ شام کی طرف چلےگئے۔ آنحضرتﷺ نے اِن کی روانگی اور نگرانی کی ذمہ داری عبادہ بن صامتؓ کے سپرد فرمائی۔
حضرت عبادہ سے ایک روایت یہ ملتی ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے کسی آدمی کو میرے سپرد کیا کہ اس کو قرآن پڑھاؤں اور دینی تعلیم سکھاؤں۔ وہ شخص جاتےہوئے آپؓ کو ایک قیمتی کمان تحفۃًدے گیا۔ کہتے ہیں مَیں نے رسول اللہﷺ سے اُس کمان کی نسبت دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ تمہارے کندھوں کے درمیان ایک انگارہ ہے جو تم نےلٹکایا ہواہے۔ حضورِ انور نےفرمایا کہ اس روایت میں ان لوگوں کے لیے بھی رہ نمائی ہے جو انفرادی طور پر قرآن کریم پڑھانے کو ذریعہ آمد بنالیتے ہیں۔

ایک مرتبہ رسول اللہﷺ حضرت عبادہ بن صامتؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور دریافت فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہوکہ میری امت کے شہید کون لوگ ہیں۔ عبادہؓ نے عرض کی کہ جو بہادری اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے والا ہو وہ شہید ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایاکہ اس طرح تو میری امت کے شہید بہت تھوڑے رہ جائیں گے اور پھر آپؐ نے اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے، طاعون سے مرنے والے، غرق آب ہونے والے، پیٹ کی بیماری سے مرنے والےکو شہید قرار دیا نیز فرمایا کہ نفاس کی حالت میں مرنے والی عورت بھی شہید ہے۔

حضرت عثمانؓ کے زمانۂ خلافت میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ کا حضرت امیر معاویہؓ سے کچھ اختلاف ہو گیا۔ جس پر حضرت عثمانؓ نے عبادہؓ کو شام کے علاقے سے واپس بلوالیا۔ حضورِ انور نے گذشتہ خطبے کے حوالے سے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہونے والے اسی قسم کے اختلاف کا اشارۃً ذکر کرنے کے بعد فرمایاکہ حضرت عبادہؓ کا ایک مقام تھا وہ بعض باتوں کی تشریح کرسکتے تھے کیوں کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سےبراہِ راست یہ باتیں سنی ہوئی تھیں۔ لیکن ہر ایک کا یہ کام نہیں کہ اس طرح اختلاف کرتا پھرے۔بنیادی چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز نہیں کرنا۔ یہی ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور پھر اطاعت کے دائرے کے اندر رہنا چاہیے۔

حضرت عبادہؓ نے اپنے بیٹے ولید کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! اللہ سے ڈر اور جان لے کہ تُو ہرگز اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کرسکتا جب تک کہ تُو اللہ پر اور خیر و شر کی تقدیر پر ایمان نہ لائے۔

حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺحضرت عبادہؓ کی بیوی حضرت امِّ حرام بنت ملحان کے گھرتشریف لایا کرتے۔ ایک مرتبہ آپؐ اُن کے گھر آئے،انہوں نے آپؐ کو کھانا کھلایا۔ رسول اللہﷺ سو گئے اور کچھ دیربعد مسکراتے ہوئے بیدارہوئے ۔ حضرت امِّ حرام کے دریافت کرنے پر فرمایا کہ میری امت میں سے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ کی راہ میں جنگ کےلیے نکلے ہوئے ہیں۔ وہ سمندر میں سوار ہیں گویا تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ ہیں۔ حضرت امِّ حرام نے درخواست کی کہ حضورﷺ دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی اُن میں سے کرے۔ دوسری بار پھر آپؐ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے اور حضرت امِّ حرام کے استفسار پر پہلی دفعہ والی بات ہی دہرائی۔ امِّ حرام نے دوبارہ دعا کی درخواست کی تو رسولِ خداﷺ نے فرمایا تُو تو اُن میں سے ہوچکی ہے۔ چنانچہ آپؓ بعد کے زمانے میں سمندری سفر میں شامل ہوئیں اور جب سمندر سے باہر آئیں تو اپنی سواری سے گر کر فوت ہوئیں۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت امِّ حرام سے آپؐ کا ایک محرم رشتہ تھا اس لیے آپؐ اُن کے گھر جایا کرتے تھے۔

جنادہ بن ابو امیہ حضرت عبادہؓ سے اُن کی بیماری میں ملے تو آپؓ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے اس بات پر بیعت لی کہ ہم خوشی اور غم اور تنگ دستی اور خوش حالی کی صورت میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ اسی طرح صُنَابِحیّ سے روایت ہے کہ عبادہؓ نے انہیں بتایا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں اس پر آگ حرام ہے،یعنی وہ مسلمان ہے۔

حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرمائے جنہوں نے ہمیں بعض ایسی باتیں پہنچائیں جو روحانی علم کے علاوہ عملی زندگی گذارنے کےلیے بھی ضروری تھیں۔

آخر میں حضورِ انور نے تین مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ پہلے مرحوم سیریا کے سعید سوقیا صاحب تھے۔ آپ کی وفات 18؍اپریل کو ہوئی تھی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

دوسرا جنازہ تیونس کے مکرم الطیب العبیدی صاحب کا تھا۔ آپ 26جون کو 70برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

تیسرا جنازہ محترمہ امۃ الشکور بیگم صاحبہ کا تھا۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں۔ 3ستمبر کو 79سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حضورِ انور نے تمام مرحومین کے لیے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کاسلوک فرمائے اور ان کے بچوں اور اگلی نسل کو بھی خلافت اور جماعت سے ہمیشہ وفا کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button