از مرکز

کنٹری مارکیٹ ہمپشئر میں مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع 2019ء کا انعقاد، چھے ہزار سے زائد خدام و اطفال کی شمولیت

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اختتامی اجلاس میں بابرکت شمولیت، تقریب پرچم کشائی

دورِ حاضر میں خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریوں پر حضرت امیرالمومنین کا بصیرت افروز خطاب

(اجتماع گاہ مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ،کنٹری مارکیٹ، بورڈن، ہمپشئر۔نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کو امسال 06؍تا 08؍ستمبر 2019ء بروز جمعہ ، ہفتہ اور اتواراپنا سالانہ اجتماع بعنوان ‘‘ہستی باری تعالیٰ’’ (The existence of God) منعقد کرنے کی توفیق ملی۔ امسال متعدد دلچسپ نمائشیں اور معلوماتی سٹالز لگائے گئے جن میں اطفال الاحمدیہ کے میگزین ‘‘طاہر میگزین’’، وقفِ نَو مرکزیہ، الفضل انٹرنیشنل، ریویو آف ریلیجنز وغیرہ کی نمائشیں اور سٹالزبھی شامل تھے۔ 6؍ستمبر بروز جمعۃ المبارک تمام خدام اور اطفال کو تلقین کی گئی کہ وہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میںمسجد مبارک اسلام آباد میں جمعہ ادا کر کے اجتماع گاہ پہنچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک کثیر تعداد میں خدام و اطفال نے اپنے پیارے امام کی اقتدا میں نماز جمعہ اور نمازِ عصر ادا کیں اور اجتماع گاہ کو روانہ ہوئے۔

افتتاحی اجلاس

تقریباً پانچ بجے شام مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ کی صدارت میں افتتاحی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ عزیزم عبد السمیع عابد صاحب کو سورۃ الحشر کی آیات 23تا25کی تلاوت کرنے اور عزیزم عبدالباری صاحب کو ان آیات کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ بعد ازاں صدر مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ مکرم عبد القدوس عارف صاحب کی اقتدا میں تمام حاضرین نے خدام الاحمدیہ کا عہد دہرایا۔ اس کے بعد عزیزم دانش خرم صاحب نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے منظوم کلام ‘‘بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے’’ میں سے منتخب اشعار خوش الحانی کے ساتھ پڑھے۔

مکرم امیر صاحب یوکے نے اپنی افتتاحی تقریر مرکزی عنوان ‘‘ہستی باری تعالیٰ’’ (The existence of God)پر بزبان انگریزی کی۔

آپ نے جماعت احمدیہ برطانیہ کی تاریخ کے حوالے سے جلسوں اور اجتماعات کے انعقاد کے متعلق بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی برطانیہ تشریف آوری کے بعد بہت ترقی ہوئی ہے۔ اب خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماعات کے انتظامات اس زمانے میں ہونے والے جلسوں سے بھی زیادہ وسیع پیمانے پر ہو رہے ہیں۔
مکرم امیر صاحب نے بتایا کہ ہم احمدی مسلمانوں کو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے۔ بعض اوقات ہم دعا کرتے ہیں لیکن وہ فوراً قبول نہیں ہوتی۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا نہیں۔
مقرر موصوف نے ایک بزرگ کا واقعہ سنایا جو 20 سال تک دعائیں کرتے رہے۔ اور آخر کار 20سال بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ میں نے تمہاری تمام مرادیں پوری کر دی ہیںاور اس طرح ان کی بیس سال کی دعائیں قبول ہو گئیں۔

مقرر موصوف نے قرآن کریم ، احادیث نبویہ ﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے احمدیت کے اقتباسات سے ہستی باری تعالیٰ پر دلالت کرنے والے ارشادات پیش کیے نیز انبیاء علیھم السلام، نبی اکرمﷺ اور حضورؐ کے عاشقِ صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرتِ مبارکہ سے متعدد واقعات سنائے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایک کہانی نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی ہستی ہے۔

مقرر موصوف نے بتایا کہ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنا روحانی معیار بلند کریں اور اس معیار کو بلند کرنے کے لیے پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی لازمی ہے۔

آخر پر مکرم امیر صاحب نے دعا کروائی جس سے اجتماع کا افتتاحی اجلاس اختتام کو پہنچا۔

پروگرام کے مطابق اس کے بعد علمی و ورزشی مقابلہ جات شروع ہوئے۔ اس اجتماع کے دوران خدام و اطفال کے متعدّد انفرادی و اجتماعی علمی اور ورزشی مقابلہ جات کروائے گئے۔نمایاں کارکردگی دکھاتے ہوئے پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعامات سے نوازا گیا۔

دوسرے روز صدرمجلس خدام الاحمدیہ کے زیر صدارت خصوصی اجلاس

سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ یُوکے کے دوسرے روز مؤرخہ 7؍ستمبر2019ء بروزہفتہ کو حسب روایت صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے زیر صدارت ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا گیا ۔ اس اجلاس کا آغاز دوپہر سوا ایک بجے کے قریب تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم طلعت صیام صاحب نے کی۔ آپ نے آیت الکرسی کی تلاوت کی جس کے بعد اس کا انگریزی ترجمہ مکرم محمدعلی صاحب نے پیش کیا۔ محترم صدر صاحب خدام الاحمدیہ نے خدام کا عہد دہرایا۔ عہد کے بعد کلام محمودسے نظم

مَیں تیرا در چھوڑ کر جاؤں کہاں

چین دل آرام جاں پاؤں کہاں

میں سے چند اشعار مکرم طاہر خالد صاحب (مربی سلسلہ) نے خوش الحانی سے پڑھے۔

نظم کے بعد محترم صدر صاحب خدام الاحمدیہ نے اجتماع گاہ میں موجود خدام واطفال سے خطاب کیا۔

مقررموصوف کے خطاب کا عنوان اجتماع کا مرکزی Themeہستی باری تعالیٰ تھا۔

مقرر موصوف نے اپنی تقریر کا آغاز اس بات سے کیا کہ ہم سائنسی لحاظ سے بہت سی ایسی باتوں کو مانتے ہیں جن کا ہمیں پوری طرح علم نہیں ہوتا۔ اس کی وضاحت میں آپ نے مشہور سائنسدان Albert Einstein کی پیش کردہ Theory of relativity کی مثال دی کہ اس کی باریکیوں کو نہ جاننے کے با وجود ہم اس کومانتے ہیں۔ اس کےبا لمقابل جب 1لاکھ 24ہزار برگزیدہ لوگ خدا تعالیٰ کی ہستی کا اعلان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اس کے ثبوت بھی پیش فرماتے ہیں توپھر بھی لوگ اس کی ہستی کا انکار کرتے ہیں۔

مقرر موصوف نے عصر حاضر میں خدا تعالیٰ کو ماننے کی ضرورت کے حوالے سے بعض اعداد و شمار پیش کیے جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس معاشرہ میں مادی چیزوں کے وافر مقدار میں ہونے کے با وجود Depression, StressاورAnxietyجیسی بیماریوں کی کثرت پائی جاتی ہے اور نوجوانوں میں خود کشی کی تعداد بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مقرر موصو ف نے بتایا کہ یہ سب چیزیں خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں۔کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں بتایا ہے کہ دل خدا تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان پاتے ہیں۔

اس کے بعد مقرر موصوف نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی نوجوانی کی ابتدامیں خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ملنے کے لیے کی جانے والی متضرعانہ دعاؤں کا حضور کے ہی الفاظ میں پُر اثر طور پر بیان کیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نشان حضور ؒکو کشفی طور پر نصیب ہوا اس کا بھی حضور ؒ ہی کی زبانی بیان کیا۔

مقرر موصوف نے اس سوال کو اٹھایا کہ کیا محض اچھا انسان ہونا کافی نہیں ؟ اور کیا صرف اچھے اخلاق دکھانا انسان کے لیے کافی نہیں؟ ان سوالوں کے جواب میں آپ نے اسلامی فلسفہ اخلاق پر روشنی ڈالی اور ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی اخلاقی قدریں ہی با لآخر فلاح و بہبود کا باعث ہوتے ہیں۔
مقرر موصوف نے اس سوال کا بھی جواب دیا جو بعض دہریہ احباب کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ واقعی موجود ہے تو دنیا میں دکھ اور قدرتی آفات کیوں آتی ہیں؟ اس کے جواب میں آپ نے قانون قدر ت کی وضاحت کی کہ کس طرف قدرتی آفات خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے تحت آتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نیک بندے جب ان کی زد میں آنے والے ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان کو ان کے بد اثرات سے بچا بھی لیتا ہے۔ اس کی مثال میں آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورہ فجی 2006ء کے دوران Tsunamiسے محفوظ رہنے او ر حضورِ انور کی دعاؤں سے اس کا رخ بدلنے کا حضور ِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں ذکر کیا۔

مقرر موصوف نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں انگلستان میں مقیم بعض خدام کی مثالیں بیان کیں جنہوں نے اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور ان کے اس حوالے سے تجربات کو نہایت مؤثر رنگ میں سامعین کے سامنے بیان کیا۔ان مثالوں میں غیر متوقع طور پرغیر ملک میں گھر ملنا اور ڈاکٹروں کا جواب دینے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے دوبارہ زندگی ملنے کے ایمان افروز واقعات شامل تھے۔

مقرر موصوف نے اپنے خطاب کے اختتام پر حضرت مصلح موعود ؓ کے ایک ارشاد اور حضرت مسیح موعود ؑ کی کتاب کشتی نوح کا ایک اقتباس پیش کیا جس میں خدا تعالیٰ پر ایمان لانےاور اس ایمان میں بڑھنے اور ترقی کرنے کی تلقین کی کئی تھی۔

اس اجلاس کے اختتام کے بعد نماز ظہر و عصر ادا کی گئیں۔

……………………………………………………

اسی روز نماز مغرب اور عشاء کی ادائیگی کے بعدمکرم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب (سابق صدر خدام الاحمدیہ یوکے) کے ساتھ بھی مرکزی پنڈال میں اجلاس ہوا جس میں آپ نے دلچسپ واقعات سنائے اور آخر پر حاضرین کی طرف سے پیش کیے جانے والے مختلف سوالات کے جوابات دیے۔

08؍ستمبر2019ءبروزاتوار

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اجتماع گاہ میں ورود مسعود ،
پرچم کشائی ، تصاویر، نمازوں کی ادائیگی اور اختتامی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب

اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کا سالانہ اجتماع آج اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے رونق افروز ہونے سے آج اجتماع کو چار چاند لگ گئے۔ گزشتہ کئی سالوں سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اجتماع کو برکت بخش رہے ہیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اسلام آباد منتقلی کے بعد مجلس خدام الاحمدیہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا ہے۔

پرچم کشائی اور تصاویر

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےتین بجکر 15؍ منٹ پر لوائے خدام الاحمدیہ لہرایا اور دعا کروائی۔
بعد ازاں حضور انور کے ساتھ درج ذیل تصاویر ہوئیں۔

1۔ علمی مقابلہ جات میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے والے اطفال اور قرآن چیلنج میں پوزیشن حاصل کرنے والے اطفال کی اکٹھی ایک تصویر

2۔ نیشنل اطفال عاملہ ،اطفال کمیٹی اور بہترین ریجنل اطفال عاملہ کی اکٹھی ایک تصویر

3۔قرآن چیلنج خدام میں پوزیشن حاصل کرنے والوں کی ایک تصویر

4۔ علمی مقابلہ جات میں پوزیشن حاصل کرنے والے خدام کی ایک تصویر

5۔ ورزشی مقابلہ جات میں پوزیشن حاصل کرنے والے خدام کی ایک تصویر

6۔ نیشنل عاملہ اور ریجنل قائدین کی ایک تصویر

7۔8۔9۔نیشنل عاملہ اور لوکل قائدین کی تین تصاویر

10۔ نیشنل عاملہ، اعتماد، آفس، اجتماع maintanance، اجتماع سائٹ اور ضیافت ٹیم کی ایک تصویر
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزتین بجکر 28 منٹ پر مرکزی پنڈال میں رونق افروز ہوئے جس پر فضا نعروں سے گونج اُٹھی۔حضور انورنے نماز ظہر وعصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد بھی فضا نعروں سے گونج اٹھی۔حضور انور کے کرسیٔ صدارت پر تشریف فرما ہونے کے بعد حضور انور نے تمام حاضرین کو السلام علیکم و رحمۃ اللہ کا تحفہ عطا فرمایا ۔ اختتامی اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرم صادق ایوب صاحب نے سورۃ الحشرکی آیات23تا 25کی تلاوت کی ۔ان آیات کا انگریزی ترجمہ مکرم توقیر مرزا صاحب نے پڑھنے کی سعادت پائی۔ بعد ازاںتمام حاضرین نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں خدام الاحمدیہ کا عہد دہرایا۔اس کے بعد مکرم حفیظ احمد صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ وا لسلام کے منظوم کلام

’’کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا

بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا‘‘

میں سے چند منتخب اشعار ترنم کے ساتھ پڑھے۔ان شعار کا انگریزی ترجمہ مکرم اطہر احمد صاحب نے پڑھنے کی سعادت پائی۔

بعد ازاں مکرم صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔ آپ نے اجتماع کے پروگراموں کا مختصر ذکر کیا اوربتایا کہ امسال اجتماع کی کُل حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے 6192رہی۔رپورٹ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو سکرین پر اجتماع کی مختصر جھلکیاں دکھائی گئیں۔

تقسیم انعامات

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک سے درج ذیل ریجنز نے انعامات حاصل کرنے کی سعادت پائی۔جو خدام و اطفال انعامات وصول کرنے آئے انہیں حضور انور سے شرف مصافحہ بھی حاصل ہوا۔

٭…حاضری کے لحاظ سے اطفال کے چھوٹے ریجنز میں سے ناصر ریجن نے اوّل پوزیشن حاصل کی

٭…حاضری کے لحاظ سے اطفال کے بڑے ریجنز میں سےمقامی ریجن نےاوّل پوزیشن حاصل کی

٭… خدام میں حاضری کے لحاظ سے چھوٹے ریجنز میں سے ناصر ریجن نے اوّل پوزیشن حاصل کی

٭…خدام میں حاضری کے لحاظ سے بڑے ریجنز میں سے بیت الفتوح ریجن نے اوّل پوزیشن حاصل کی۔

٭…اطفال الاحمدیہ میں بہترین ریجن نارتھ ویسٹ ریجن رہی۔٭…خدام الاحمدیہ میں بہترین ریجن مسرور ریجن رہی۔

٭…علم انعامی اطفال الاحمدیہHuddersfield Southنے حاصل کیا۔ ٭…علم انعامی خدام الاحمدیہ Wimbledon Parkنے حاصل کیا۔

خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

بعد ازاں چار بجکر 16 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اختتامی خطاب (بزبانِ انگریزی)فرمایا۔

تشہد، تعوذ ، تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کا اجتماع اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے صرف کھیلوں میں اپنا وقت صرف کرنے کی بجائے اپنے اخلاقی اور روحانی معیار بہتر کرنے اور دینی علم کو بڑھانے کی بھی کوشش کی ہو گی۔ کھیلیں بھی ضروری ہیں کیونکہ یہ انسان کو صحت مند رکھتی ہیں۔ اور اگر کوئی انسان جسمانی طور پر طاقتور اور صحت مند ہے تو وہ بہتر طور پر عبادات بجا لا سکتا ہے ،حقو ق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی کر سکتا ہے۔ اجتماع کے دوران بھی اور سارا سال بھی آپ کا یہ مطمح نظر رہنا چاہیے کہ آپ اپنی روحانیت اور دینی علم کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ دنیاوی علم کے حصول کے لیے اکثر احمدی بہت زیادہ محنت کرتے ہیںلیکن اکثریت ایسی ہے جو دینی علم میں ترقی کے لیے اُتنی محنت اور کوشش نہیں کرتی جتنی کہ دنیاوی علوم کے حصول کے لیےکی جاتی ہے۔ ہم جلسوں اور اجتماعات کا انعقاد اس لیے کرتے ہیں کہ سب لوگ اکٹھے ہو کر اپنے اپنے اخلاقی اور روحانی معیار بہتر کر سکیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اجتماع میں شامل ہونے کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے خدا سے مضبوط تعلق قائم کرنے والے ہوں۔ آپ سب کو یہ معلوم ہو گا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ‘‘قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی۔’’ یہ خوبصورت الفاظ مجلس خدام الاحمدیہ کی پہچان بننے کے ساتھ ان کے تمام کاموں کی بنیاد اور مقصد بھی بن گئے۔ لیکن ان الفاظ کو دوہرانا، پوسٹرز پر اور بیجز پر پرنٹ کرنا کافی نہیں۔ آپ لوگوں کو اس کے پیچھے کارفرما فلسفے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ نعرہ جب مجلس خدام الاحمدیہ کو عطا فرمایا تو اس کا مقصد یہ باور کروانا تھا کہ نوجوانوں کے لیے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق قائم کرنا از حد ضروری ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ تمام خدام کو نماز کی ادائیگی محض فرض سمجھ کر نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ انہیں اس کے ایک ایک رکن کی ادائیگی میں ایک خاص لطف آنا چاہیے اور اس طرح کہ خدا تعالیٰ جو آپ کا خالق ہے اس کی حقیقی محبت آپ کے دلوں میں پیدا ہو جائے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے خدام سے یہ مطالبہ فرمایا کہ وہ اپنے دینی علم کو بڑھائیں۔ کیونکہ دین کا علم انہیں اللہ کے قریب لائے گا، انہیں اللہ کی ذات پر یقین پیدا کرے گا۔ مزید برآں جب ایک احمدی اپنے دینی علم کو بڑھائے گا، اپنی جماعت کی تعلیمات پر عمل کرے گا تو دنیا میں ایک رول ماڈل کی صورت میں ابھرے گا اور اس طرح اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے والا بھی ہو گا۔اس لیے ہر خادم کو اس نعرے، اس ماٹو کو صرف سننا نہیں چاہیے بلکہ اس کے مطالب اور فلسفے کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ ماٹو ہماری جماعت، ہمارے معاشرے اور ہماری قوم کی نجات اور ترقی کی ضمانت ہے۔اس ماٹو پر عمل کرنے سے آپ اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کرنے والے ہو جائیں گے۔ اس سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہماری جماعت اور ہماری قوم کی ترقی کا تعلق ہمارے نوجوانوں کی روحانی اور اخلاقی حالت سے ہے۔ اگر ہر خادم اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو اور اخلاقی برائیوں اور گناہوں سے بچنے والا ہو تو قوم کی ترقی روکی نہیں جا سکتی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم ایک ایسے دَور میں رہتے ہیں جس میں انسان نہ صرف مذہب سے دور ہو رہا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا بھی انکاری ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہراحمدی کو اپنی ذات سے دنیا کے سامنے زندہ خدا کا ثبوت پیش کرنا چاہیے۔ نوجوانوں کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کوئی اَور یہ کام کر لے گا بلکہ ہر احمدی نوجوان اسے اپنی ذاتی ذمہ داری سمجھے اور اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالے جو ہماری تخلیق کا مقصد ہے۔ اگر آپ اس کوشش میں کامیاب ہو جائیں تو نہ صرف آپ روحانی طور پر اللہ تعالیٰ کے انعامات سے سرفراز ہوں گے بلکہ اس دنیا میں بھی اللہ آپ کو ترقیات اور نعمتوں سے نوازے گا کیونکہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق دین کو دنیا پر مقدّم رکھا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ میں کافی عرصے سے نبی اکرمﷺ کے صحابہ کرام کی سیرت کو اپنے خطباتِ جمعہ میں بیان کر رہا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی عظمت کی گواہی تاریخ دیتی ہے۔ ان لوگوں نے دین کو صحیح معنوں میں دنیا پر مقدم رکھا اور اپنے اپنے عہد بیعت کو اپنی تمام تر استطاعت کے ساتھ پورا کرتے ہوئے دین کی خاطر ہر ممکنہ قربانی پیش کی۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں روحانی اوراخلاقی ترقی دی اور اسلام کی اشاعت کے لیے بہترین کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اسی طرح انہیں دنیا میں بھی اس قدر ترقی حاصل ہوئی کہ وہ لوگ جو دن رات اللہ کی عباد ت میں مشغول رہتے تھے اور نبی اکرمﷺ کی اطاعت میں سرشار تھے ان کے کاروباروں اور تجارتوں میں اس قدر برکت پڑی کہ وہ آج کے لحاظ سے کروڑ پتی ہو گئے۔ لیکن ایسی دولت انہیں دین سے غافل کرنے یا اخلاقی طور پر کمزوری پیدا کرنے کا باعث نہ بنی بلکہ ان لوگوں نے اسلام کے لیے مزید قربانیاں کرنے کی توفیق پائی۔ اس لیے آپ ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ آپ نے اپنے دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے اور اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہنا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہر خادم کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنی قوم، اپنے ملک کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مزید برآں وہ دنیا میں قیامِ امن کی کوشش کرنے والا ہو۔ آج کے دَور میں اکثر لوگ اپنے پیدا کرنے والے کو بھول رہے ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں کہ اگر وہ اپنی اخلاقی برائیوں سے باز نہیں آئیں گے تو انہیں کتنا بڑا نقصان ہو گا۔ اس لیے ہر خادم کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی قوم کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرے جس کی طرف یہ لوگ بڑی تیزی سے بڑھ رہےہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب آپ لوگ اپنی اخلاقی حالت میں ترقی کریں گے۔ آپ جس بات کی تبلیغ کریں آپ پہلے اس پر خود عمل کرنے والے ہوں۔ آپ خود نمازوں کی ادائیگی کرنے والے ہوں اور استغفار سے کام لیں۔ استغفار کرنے کا صرف یہ طریق نہیں کہ آپ اللہ سے اپنے گناہوں کی زبانی معافی مانگیں ۔ استغفار کا تعلق نہ صرف ماضی سے بلکہ مستقبل سے بھی ہے۔ اس لیے جب آپ اپنے ماضی کے گناہوں کی معافی مانگیں تو اس کے ساتھ یہ پختہ ارادہ کریں کہ ان گناہوں سے آئندہ بچ کر رہیں گے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض اوقات نوجوان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیسے پتا لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہ معاف کر دیے ہیں۔ یقیناً ہم بطور ایک عاجز انسان کے یہ یقینی طور پر تو نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے گناہ معاف کیے ہیں یا نہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے پتا چلتا ہے کہ اگر ایک انسان مخلص ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور آئندہ ان سے بچنے کا وعدہ کرتا ہے اور پھر بچنے کی توفیق بھی پاتا ہے تو ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے ماضی کے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں۔ کیونکہ جس بندے کے ماضی کے گناہ بخشے جاتے ہیں اس کا دل پاک ہو جاتا ہے اور اسے گناہوں سے نفرت ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس ایک شخص استغفار کرتا ہے اور جس گناہ کی معافی مانگتا ہے اسے دہراتا چلا جاتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں۔ ضروری ہے کہ انسان مخلص ہو کر استغفار کرے اور گناہوں سے بچنے کا وعدہ کرے۔ اگر ایسا ہو جائے تو آپ سمجھ سکتےہیں کہ اللہ نے آپ کو معاف کر دیا ہے اور آپ اس کی محبت اور رحمت کے حق دار ہو گئے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا آپ کو استغفار کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ سے انتہائی عاجزی کے ساتھ دعا ‘اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ’ کے ذریعے شیطان کے خلاف مدد بھی طلب کرنی چاہیے جو ہر وقت انسان کو گمراہ کرنے کے درپے رہتا ہے۔ چنانچہ ہر احمدی مرد وزن، بوڑھے، بچے کو جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہے اپنے دین کو ہر معاملے میں دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو نبھاتے ہوئے صراطِ مستقیم پر قائم رہنا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اپنے دین پر قائم رہنے سے ہی آپ گناہ سے بچ سکتے ہیں۔ ایک انسان اگر اپنے ایمان میں کمزوری دکھاتا ہے تو گویا وہ شیطان کو دعوت دیتا ہے کہ اسے گمراہی کی طرف لے جائے۔ آج کے دَور میں ہر طرف لا محدود چیزیں ہیں جو انسان کو اس کے ایمان اور دین سے دور لے جاتی ہیں۔ ایسے ٹیلیویژن پروگرامز اور فلمیں براڈکاسٹ کی جا رہی ہیں جو معاشرے کی اجتماعی اخلاقی حالت کو مزید خراب کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیاکے ذریعے بھی لوگوں کے اخلاق پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح بہت سی آن لائن گیمز ہیں جو 12؍ سے 15؍سال کی عمر کے بچے یا دیگر teenagers کھیلتے ہیں جو ان کے اخلاق کو خراب کرنے کا باعث ہو رہی ہیں۔ یہ تمام چیزیں ان کو اللہ سے دور لے جا رہی ہیں، اس کی عبادت سے لاپروا کر رہی ہیں اور ان کا خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور اس پریقین کمزور کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔

اسی طرح اگر ہمارے خدام یا اطفال ان برائیوں کا شکار ہو رہے ہیں تو انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ شیطان کے تباہ کن نرغے میں ا ٓرہےہیں، وہ شیطان جس نے دعوٰ ی کیا تھا کہ وہ لوگوں کو خدا سے دور کرے گا۔ اور پھر ایسے لوگوں کے بارے میں خدا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں سزا دے گا۔

یا درکھیں کہ اللہ نے ہر انسان کو عقل دی ہے اور اسے اچھے بُرے کا فرق سکھایا ہے، فیصلہ کرنے کی قوّت دی ہے۔ ایسے لوگ جو خدا تعالیٰ کے نبیوں کے منکر ہوتے ہیں وہ شیطان کے ساتھی ہوتے ہیںاور اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آج کے دور میں شیطان دنیا کو گمراہ کرنے اور ان کے ایمان کو کمزور کرنے کے لیے بہت زور سے حملے کر رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی سوشل میڈیا کا ذکر کیا ہے اس کے علاوہ پورنوگرافی، نشہ کرنا، آن لائن جوا کھیلنا، گیمنگ، غیر اخلاقی تعلقات، نائٹ کلبز اور بہت سی چیزیں ہیں جو انسان کو اس کے خدا سے دور کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے بعض نوجوان بھی ان غیر اخلاقی حرکات کا شکار ہوچکے ہیں۔ وہ ان دنیاوی دھندوں میں مگن ہو کر استغفار کرنا بھول جاتے ہیں۔ وہ بھول جاتےہیں کہ انہوں نے امامِ وقت کو ماناہے، انہوں نے مسیح موعودؑ کی بیعت کی ہے، نبی اکرمﷺ کو خاتم النبیین مانا ہے اور قرآنِ کریم کو خدا تعالیٰ کی آخری کتاب مانا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ مجھے بعض اوقات یہ جان کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ بعض احمدی فلموں اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں سے تو باخبر ہوتے ہیں لیکن ان کی توجہ نمازوں کی ادائیگی، تلاوت قرآن کریم اور دوسری نیکیوں کو بجا لانے کی طرف نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

اگرچہ جماعتِ احمدیہ خدمتِ خلق کے بہت سے کام کرتی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ہمارے اکثر ایسے کام جماعت کی ایک قلیل تعداد بجا لاتی ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو خدمتِ خلق کے لیے اپنے وقت اور مال کی قربانی میں سستیوں سے کام لیتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسی طرح ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ احمدیوں کی اکثریت نمازوں کی ادائیگی اس طرح کر رہی ہے جس طرح کرنے کا حق ہے۔ اسی طرح تلاوتِ قرآن کریم ہے۔ اسی طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت دین کو صحیح معنوں میں دنیا پر مقدّم کرنے کا حق ادا کر ہی ہے۔ ہم کس طرح لوگوں کی تربیت کر سکتے ہیں جب ہم خود ان احکامات پر عمل کرنے والے نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر عمل نہیں کریں گے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض لوگ کہتےہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں سیدھے راستے پر رکھنا ہو گا تو وہ خود ہی رکھ لے گا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ جہالت کی باتیں ہیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ اللہ نے انسان کو اختیار دیا ہے۔ اب چاہے تو وہ نیکی کا راستہ اختیار کرے اور چاہے دوسرا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جماعت کو ہمارے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ انسان کی بعض باتیں ذاتی ہوتی ہیں لیکن جب کوئی ذاتی برائیاں معاشرے پر منفی طور پر اثر انداز ہونے لگیں تو ان کی اصلاح ضروری ہوتی ہے۔ ایک احمدی نے یہ عہد کیا ہوتا ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کرے گا۔ اگر وہ اپنے اس عہد کو توڑتا ہے تو وہ اس کا جوابدہ ہے۔ ایسی صورت میں اس کی راہِ راست کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے نظام کو متحرک ہونا پڑتا ہے اس لیے ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر آپ اپنے مذہب اپنے دین میں کمزور ہیں یا کسی اخلاقی کمزوری میں مبتلا ہیں تو جماعت کے نظام کا یہ فرض ہے کہ وہ آپ کی رہنمائی کرے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کو ہمیشہ خدام اور اطفال کو نماز کی ادائیگی اور مسجد آنے کی اہمیت سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔ ورنہ بنیادی مذہبی فرائض کی ادائیگی سے پہلو تہی انہیں دین سے دور لے جانے کا باعث بن جائے گی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر ایک احمدی اپنے فرائض کو پورا نہیں کر رہا تو وہ صرف اپنے آپ کو نہیں بلکہ پوری جماعت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اگر ہم میں سے کمزور ایمان والے لوگ اخلاقی گراوٹوں کا شکار ہوتے رہیں گے تو ہم دنیا کی تربیت کیسے کر سکیں گے؟ اس طرح تو ہم خود شیطان کی سازشوں کا شکار بنتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ کے دیے ہوئے ماٹو اور مطمحِ نظر کو کھوکھلا ثابت کرنے والے ہو جائیں گے۔

ایسی صورت میں آپ اپنے معاشرے کو فائدہ پہنچانے کی بجائے اس کے مجموعی اخلاقی معیار کو گرانے کا باعث بن جائیں گے۔اور اپنی قوم اور اپنے ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے اس میں رکاوٹ پیدا کرنے والے ہو جائیں گے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اگرچہ انسان کے بعض معاملات ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن بعض امور میں جماعت کو، نظام کو دخل اندازی کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً ہر ایک کواپنا پیشہ چننے کا حق ہے۔ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ میں نے ذکر بھی کیا ہےکہ کس طرح صحابہ رسولﷺ کاروبار کیا کرتے تھے، اس لیے پیسہ کمانے میں برائی نہیں جب تک وہ قانونی حدود میں رہتے ہوئے اور اسلامی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے کمایا جائے۔ لیکن اسلام ایک مسلمان کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ الکوحل (Alcohol)کی پیداوار کرے، اسے رکھے یا اسے فروخت کرے۔ اسی طرح شادی بھی ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ قرآنی احکامات کو پیشِ نظر رکھے۔ اگر ایک احمدی لڑکا کسی احمدی لڑکی سے شادی کرنے کا خواہش مند ہے اور لڑکی کی رضامندی بھی ہے تو کسی کا حق نہیں کہ ان کو روکے۔ انسان کو شادی صرف جنسی تسکین کے لیے نہیںکرنی چاہیے بلکہ اسلام اس کے جو مقاصد بیان کرتا ہے ان کو پورا کرنے کے لیے کرنی چاہیے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آج انسان کی نجات صرف اللہ تعالیٰ کو پہچاننے اور اس کی طرف جھکنے میں ہے۔ گناہ سے کوئی انسان از خود نہیں بچ سکتا۔ انبیائے کرام جو دنیا کے پاک ترین وجود ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے، استغفار کرتے ہوئے گناہوں سے بچتے ہیں۔ مثلاً سورۂ یوسف میں حضرت یوسفؑ کا یہ قول درج ہے کہ وَ مَاۤ اُبَرِّیٴُ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵۴﴾ (یوسف:54) کہ اور میں اپنے نفس کو بَری قرار نہیں دیتا۔ یقیناً نفس تو بدی کا بہت حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا ربّ رحم کرے۔ یقیناً میرا ربّ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کا ایک برگزیدہ نبی بھی یہ فرماتا ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر برائی سے نہیں بچ سکتا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہر ایسا بندہ جو مسیح موعودؑ کی بیعت میں آتا ہے اس کو ان کے بیان فرمودہ احکامات پر غور کرنے اور عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں تو وہ بیعت کا حق ادا کرنے والا نہیں ہو گا۔ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ اس بیعت کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا معمولی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس عہدِ بیعت کا جواب دہ ٹھہرائے گا۔ اگر آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ احکامات پر عمل نہیں کرنا تو یا تو بیعت سے کنارہ کش ہو جائیں یا پھر بیعت کے تقاضوں کو پورا کریں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہر ایک کو استغفار کرتے رہنا چاہیے تا کہ دین و دنیا میں کامیاب ہو سکیں۔ آپ میں سے ہر ایک کو دعا کرنی چاہیے کہ آج کل کی برائیوں سے بچ سکیں اور آپ کے ذہن ایسے پاکیزہ ہو جائیں کہ تمام غیر اخلاقی سوچوں سے پاک ہو جائیں۔ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عہدِ بیعت پورا کرتے ہوئے دین کو حقیقی معنوں میں دنیا پر مقدم کرنے والا بنا دے۔

اللہ کرے کہ آپ ان خدام میں سے ہو جائیں جو سمجھتے ہیں کہ ان باتوں سے بے خبر لوگوں کو پاک کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ اللہ کرے آپ ان خدام میں سے ہو جائیں جو خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی وحدانیت پر کامل ایمان رکھتے ہیں۔ اور جو دنیا کو نبی اکرمﷺ کے عالی شان علَم کے نیچے لانے کے لیے ہر قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ وہ باتیں ہیں جو آپ میں پیدا کرنے کے لیے ہم جلسے اور اجتماع منعقد کرتے ہیں۔ یہ میری خواہش ہے کہ اطفال اور خدام ایسے ہو جائیں جو ایک سچے احمدی مسلمان کی پہچان بن جائیں۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو یہ سب وعدے کھوکھلے ہوں گے اور آپ میں منافقت کا ایک رنگ آ جائے گا۔ اور منافقت نہ صرف مذہب میں بلکہ غیر مذہبی حلقوں میں بھی انتہائی ناپسند کی جانے والی چیز ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں میں پاکیزگی پیدا کرے اور آپ اعلیٰ ترین اخلاقی اور روحانی معیار پر زندگی گزارنے والے ہوں، اور اپنی زندگی کے ہر مرحلے، ہر موڑ پر حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ خدام الاحمدیہ پر رحمتیں نازل فرماتاچلا جائے۔ آمین

اس کے بعد حضورِ انور نےدعا کروائی۔

حضورِ انور کے معرکہ آرا خطاب اور پھر دعا کے بعد اطفال و خدام نے مختلف گروپس کی صورت میں ترانے حضورِ انور کی موجودگی میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ پانچ بجکر 8؍منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تمام حاضرین کو ‘‘السلام علیکم و رحمۃ اللہ’’ کا تحفہ عطا فرما یا اور پھر اسلام آباد ٹلفورڈ کے لیے روانہ ہوگئے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button