صحت

ذہنی صحت(Mental Health) (قسط نمبر 5)

(ڈاکٹر امۃ السلام سمیع۔ یوکے)

(گزشتہ سے پیوستہ)اگر خدانخواستہ سارے خاندان کی سانجھی پریشانی ہو تو باہم مشورے سے، مل بیٹھ کر اس کا مثبت حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر حد سے زیادہ پریشان نہ ہوں۔ یاد رکھیں ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے۔ پریشانی میں خدائے قادر و مطلق پر پورا توکّل کر کے اپنے آپ کو تسلّی دلائیں کہ ‘یہ دن بھی گزر جائیں گے’۔دراصل جب آپ کے ذہن کو یہ پیغام ملتا ہے کہ سب ٹھیک ہو رہا ہے تو پریشانی کے ہارمونز کم بنتے ہیں اور آہستہ آہستہ آپ اس مشکل صورت حال سے نکل کر نارمل حالات میں آ جاتے ہیں۔ ایک اَور ضروری بات یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے جسم کی کام کرنے کی صلاحیت کا علم ہونا چاہیے ۔ ہر کام میانہ روی سے کریں۔
اگر آپ کو تیز سانس کی علامات ہونے لگیں تو آپ سانس کی ورزش بھی کر سکتے ہیں۔ انہیں دن میں کم از کم دو بار تو ضرور کریں۔ ان میں سے ایک ورزش کا طریقہ یہ ہے کہ

1۔ آپ 1سے لے کر 4تک گنتے ہوئے سانس اندر کھینچیں
2۔ پھر سانس کو اندر روکے ہوئے 1 سے 4 تک گنیں
3۔ پھر 1 سے 4 تک گنتے ہوئے سانس باہر نکالیں

اگر یہ عمل آپ پریشانی کی حالت میں کریں تو تقریباً پانچ منٹ تک کریں تاکہ پریشانی کی وجہ سے بڑھی ہوئی سانس اپنے معمول پر آ جائے ۔سانس کی اَور بھی بہت سی ورزشیں ہیں مگر اس طرح کی سادہ اور ہر جگہ آسانی کے ساتھ کرنے والی ورزشیں بہتر ہوتی ہیں۔ آہستہ آہستہ آپ گنتی کو بڑھا کر ایک سے 7تک بھی کر سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ آپ دماغ کو پرسکون رکھنے یعنی mindfulnessکی ورزش کریں ۔یعنی آپ جس وقت جو کام کر رہے ہیں اس وقت اسی میں رہیں، اسی کام کو پوری توجہ اور انہماک سے کریں۔ اگر آپ کام کچھ کر رہے ہیں اور سوچیں کسی اَور مسئلے پر مرکوز ہیں تو آپ ذہنی طور پر اسی مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں۔ ایسا کرنا آپ میں پریشانی، غصہ، انگزائٹی اور سٹریس کی علامات کو ابھارتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن پھر بھی کوشش کریں کہ آپ اپنے دکھوں یا مستقبل میں درپیش چیلنجز کے بارے میں کم سے کم منفی سوچ رکھیں۔ مثبت رویے اور خوشی اور پوری توانائی کے ساتھ اپنے حال میں رہنے کی کوشش کریں۔ اپنے ‘آج’ کو جیئیں اور خدا کی ذات پر یقین رکھتے ہوئے اچھے مستقبل کی امید کے ساتھ محنت سے اسے سنوارنے کی کوشش کریں۔

بعض لوگ خوشبو کےعلاج کو فائدہ مند پاتے ہیں ،تو ان کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آپ اپنی زندگی میں سٹریس کم کرنے کی کوشش کریں، دوسروں کے کاموں میں بلا وجہ دخل اندازی سے اجتناب کریں۔ جب تک کوئی مشورہ نہ مانگے، نہ دیں۔منفی جذبات کو آغاز میں ہی ٹھیک کریں، انہیں دبائیں نہیں بلکہ اپنے شعور اور لاشعور سے مل کر فیصلہ کریں کہ منفی جذبات رکھنا ٹھیک نہیں اور جو ٹھیک ہے اس کو قبول کریں۔ اگر آپ جلد پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو اپنی زندگی کے رہن سہن میں تبدیلی لائیں، روزانہ ورزش کریں۔ نیند پوری لیں، صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔متوازن غذا کھائیں۔
ہمارا کھانا ہماری ذہنی صحت پر کافی گہرے اثرات چھوڑسکتا ہےکیونکہ وہ دماغ اور اعصاب کو کام کرنے میں مدد کرتا ہے۔ تحقیقات کے مطابق ایسے ممالک میں جہاں کھانے میں اعتدال یا توازن نہیں رکھا جاتا ذہنی بیماریوں کی شرح زیادہ پائی گئی ہے۔خاص طور پر جہاںمچھلی کم کھائی جاتی ہے، کیونکہ اومیگا 3 (Omega -3) جو ذہنی صحت کے لیے بنیاد ہے، تیل والی والی مچھلی میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ فولک ایسڈ (Folic Acid)کی کمی، اومیگا 3(Omega-3)، فیٹی ایسڈز (Fatty Acids)کی کمی،سیلینیم کی کمی اور امینو ایسڈٹرپ ٹوفین(Tryptophan)کی کمی ذہنی بیماریوں کے پیدا ہونے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ جسم کے لازمی fats ،antioxidantsاور وٹا من کی کمی کو schizophrenia، جو کہ ایک شدت کی ذہنی بیماری ہے، کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے اور باقاعدہ اس کا علاج کیا جاتاہے۔ ذہنی مریض اعتدال کے ساتھ اور متوازن غذا نہیں کھاتے۔ اس لیے اس پر توجہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔

نشہ آور چیزیں انسان کے لیے ہر لحاظ سے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ چائے اور کافی کو بھی اعتدال میں استعمال کریں۔ ایک دن میں تین ٹی بیگز (6سے9گرام) سے زیادہ چائے نہیں لینی چاہیے،عام فہم انداز میں آپ سمجھیں کہ زیادہ سے زیادہ تین مناسب کپ سے زیادہ چائے آپ کی صحت کے لیے مضر ہے۔اسی طرح دن میں چائے کے دو چھوٹے چمچ سے زیادہ مقدارمیں کافی نہ لیں۔ آپ دن میں تین ٹی بیگ (6سے9گرام چائے )سے دس چائے کے کپ بھی بنا سکتے ہیں اور دو چمچ سے دو کی بجائے چار کافی کےمگ بھی بن سکتے ہیں مگر مقدار نہ بدلیں۔ کیفین(Caffeine) کی دوسری قسمیں بھی آج کل بڑی آسانی سے مل جاتی ہیں۔ ان کو بالکل استعمال نہ کریں کیونکہ کیفین کا زیادہ استعمال سٹریس ا ورانگزائٹی بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ بھوکے نہ رہیں۔ وقت پر اعتدال سے کھانا کھائیں۔

یاد رکھیں زندگی میں بہت سی چیزیں ہمارے اختیار میں نہیں۔ خاص طور پر دوسرے لوگوں کے رویے، ہماری خواہشات کا ہماری مرضی کے مطابق پورا ہوناوغیرہ۔ ان چیزوں کو اپنے مطابق ڈھالنے کی ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں۔ اس کوشش میں سب سے کارگر چیز خدا تعالیٰ کے حضور دعا ہے۔ پھر درست سمت کا تعیّن اور پوری لگن کے ساتھ محنت ہے۔ اپنے بڑوں کے تجربے اور مشوروں اور دعاؤں کو اپنا شامل سفر ضرور رکھیں۔ یاد رکھیں نادانستہ غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔اپنے آپ کو احساس جرم میں فنا نہ کر دیں، اپنے آپ سے پیار کریں۔کیونکہ حدیث شریف کے مطابق آپ کے نفس کا بھی آپ پر حق ہے۔ مثبت سوچوں اور مثبت کاموں/طرزِ عمل کو اپنائیں۔
اس ضمن میں مَیں ایک واقعہ بتانا چاہوں گی؛ میری والدہ ایک عرصہ تک اپنے حلقے کی نائب صدر ہیں۔ ایک عورت کافی عرصہ بعد اجلاس میں آئی، ان کے بارے میں سب کے علم میں تھاکہ وہ بیمار ہیں اس لیے آ نہیں پا رہیں۔ عورتوں نے ان سے حال احوال معلوم کیا۔ اجلاس کے بعد وہ خاتون میری امی جان کے پاس آئیں اور کہا کہ میری بیماری کی وجہ میری پریشانی ہے کہ میں بوڑھی ہو رہی ہوں، میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں، میں اپنی ان سوچوں کو سوچ سوچ کر بیمار ہو گئی ہوں کہ میرے چہرے پر جھریاں آرہی ہیں۔میں کیسے بڑھاپا سہ پاؤں گی؟ میں ایسی ہی رہنا چاہتی ہوں۔ اور یہ احساس مجھ میں اس قدر زیادہ پیدا ہو گیا ہے کہ میں اپنے روز مرّہ کے کام ٹھیک طرح سے نہیں کر سکتی، اپنا گھر اور اپنے بچوں کا خیال نہیں کرسکتی۔ میرے خاوند بہت اچھے ہیں،میری بیماری کی وجہ سے سب سنبھالتے ہیں،نوکری بھی کرتے ہیں، مجھے بھی سمجھاتے ہیں۔ مگر مجھے چہرے کی جھریاں ذہنی بیماری کی طرف لے جا رہی ہیں ۔

اس نے امی جان کو کہا آپ کے بھی ماشاءاللہ بچے ہیں، آپ کے چہرے پر ہمیشہ سکون اور پیاری سی مسکراہٹ رہتی ہے آپ کیسے سارا ٹھیک رکھتی ہیں۔ میری والدہ نے بہت پیار سے اس خاتون سے باتیں کیں کہ زندگی کے ہر دَور میں آپ کو وقت کے ساتھ جو چاہیے تھا وہ ملا ۔ پہلے آپ ایک چھوٹی معصوم بچی تھیں پھر سمجھدار لڑکی بنیں، تعلیم حاصل کی۔وقت پر شادی ہوگئی، اللہ نے بیٹے، بیٹیوں سے نوازا جو جو پڑھ بھی رہے ہیں، یعنی ہر کام وقت پر ہوا۔ شوہر بھی آپ کو بہت اچھا ملا۔ اور آپ اس بات کو سمجھتی بھی ہو۔ کیا آپ نے کبھی اس کا شکر بھی ادا کیا یا صرف یہ سمجھا کہ یہ تمہارا حق تھا؟ ان نعمتوں پر خدا تعالیٰ کا بہت شکر ادا کیا کرو۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھو تو آپ میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہو گا جو آپ کو طاقت دے گا کہ خدا تعالیٰ کے کس قدر احسانات ہیں اور آپ اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں پہلے سے بڑھ کر تیاری سے آگے بڑھو گی، اپنی آنکھوں میں اپنے عزت و وقار میں اضافہ ہو گا ،آپ کا ذہنی سکون بڑھے گااور عمر میں اضافہ باعثِ مسرّت ہو گا۔ اس بات کو انہوں نے سمجھا اور ان کی پریشانیاں کافی حد تک دور ہونے لگیں۔ اور آہستہ آہستہ وہ خوش رہنے لگیں۔

مطلب یہ ہے کہ کسی ایک مقام پر سکوت کا نام زندگی نہیں۔ چلتے پانی میں بھی اگر سکوت آجائے تو گند اکٹھا ہوناشروع ہو جاتا ہے اور تعفن پیدا ہوتا ہے جس سے بیماری آتی ہے۔ مثبت انداز میں چلتی زندگی باعثِ سکون ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ پر ہمیشہ توکّل رکھیں،اس کا پہلے سے بڑھ کر شکر کرنے کی عادت اپنائیں،نمازیں سنوار کر پڑھیں،قرآن شریف روزانہ سمجھ کر پڑھیں کہ اللہ کے ذکر سے دلوں میں اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کے ہر کام کو بامقصد انداز میں کریں۔ وقت کی قدر کریں۔ ٹیلی وژن ؍انٹرنیٹ پر بھی مثبت پروگرامز دیکھیں۔ منفی پروگرام دیکھنا اور پھر ان کے بارے میں سوچتے رہنا ذہنی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔

اگر گھر سے بلا وجہ باہر جانا ذہنی صحت کے لیے اچھی بات نہیں تو دوسری طرف بالکل باہر نہ نکلنا بھی صحت کی علامت نہیں۔روزانہ کچھ وقت سیر کہ لیے ضرورنکالیں۔ قدرتی نظاروں کو، اپنے ارد گرد کے قدرتی ماحول کو دلچسپی سے دیکھیں۔ قدرت کی صناعی،درخت، باغات، بادل، بارش جو بھی موسم ہو اس میں اچھا ئی ڈھونڈ کر اس سے حظ اٹھائیں، اسے انجوائے کریں۔

بعض لوگ اپنی مرضی کا موسم نہ ہونے پر بھی پریشان ہو جاتے ہیں۔ مثلاً بادل آنے پر اپنے آپ کو ڈپریس محسوس کرتے ہیں۔ اس کو S.A.D یا Seasonal Affective Disorderکہتے ہیں۔آپ اپنی پریشانی پر از خود قابو پا سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ آسان کام نہیں اور ان چیزوں کو بدلنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے مگر جتنا جلد آپ اپنی پریشانی سے ‘دوستی’کرنا سیکھ لیں گے اتنا ہی جلد آپ کی ذہنی صحت میں بہتری پیدا ہو جائے گی۔ اگر آپ کو اچھا لگے تو آپ باغبانی کریں، اچھی کتابیں پڑھیں، ٹی وی پر معلوماتی پروگرام دیکھیںلیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ ٹی وی دن میں ایک سے دو گھنٹہ دیکھ لینا بہت کافی ہوتا ہے۔ کوشش کریں کہ حتی الوسع کوئی منفی بات آپ کی سوچ میں شامل نہ ہو۔

بعض اوقات ڈاکٹرز یا ماہرینِ نفسیات علاج کی خاطر سکون دینے والا ہلکلا پھلکا میوزک بھی تجویز کرتے ہیں۔ اگرچہ علاج کے لیے میوزک سن لینے میں بھی حرج نہ ہو گا لیکن بہت سارے لوگوں کا یہ تجربہ ہے کہ کلام الٰہی یعنی قرآن کریم کی تلاوت کو ہلکی آواز میں سننے سے ایک عجیب سکون پیدا ہوتا ہے۔

اگر آپ نے کوئی پالتو جانور رکھا ہوا ہے تو اس کی دیکھ بھال اور صفائی میں اپنا وقت صرف کریں۔ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے اور ویسے بھی ایک بے زبان کی ضروریات کا خیال رکھنا بہت باعث ِسکون ہوتا ہے۔ مثبت انداز فکر رکھنے والے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ہنسنا بھی پریشانی کا اچھا علاج ہے۔ یہ آپ کے ذہن کو پیغام دیتا ہے کہ سب ٹھیک ہے مگر یہ بھی اعتدال میںہو اور خیال رکھیں کہ بات جس پر آپ خوش ہوں بے شک چھوٹی سی ہو لیکن اپنے اندر حقیقت اور سچائی رکھتی ہو۔ اپنی خوشی کو یہ سوچ کر کہ غم بھی تو آئیں گے لوگوں سے چھپائیں یا دبائیں نہیں۔ خوشی بانٹنے سے بڑھتی ہے اور غم بانٹنے سے کم ہوتا ہے۔

اپنے موبائل کا استعمال کم سے کم کریں۔ ہر وقت اپنے پیغامات یا ای میل نہ دیکھتے رہیں۔ ذہن کو سکون دیں۔ اپنی جاب،اپنے گھر کو پوری توجہ دیں، شکر کریں کہ آپ کے پاس کرنے کے لیے کام ہیں۔ ہر کام میں اچھائی ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔

اپنے پیاروں کی جدائی ،بیماری، وفات، معاشی تنگی، معاشرتی مسائل وغیرہ تکلیفیں زندگی کا حصہ ہیں۔ یہ تجربات ہی آپ کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں، آپ کو بہتر شخصیت بننے میں مدد دیتے ہیں ۔

سلائی ،کڑھائی پینٹنگ یا کوئی بھی creative artکریڈٹ یا مثبت نتیجہ لانے والا ہر کام کریں۔ اس طرح ذہن تکلیف دہ سوچوں یا پریشانیوں کی آماجگاہ نہیں بنے گا۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button