یادِ رفتگاں

مکرم مجیب الرحمٰن صاحب (ایڈووکیٹ) کی یاد میں

(حافظ مظفر احمد)

معروف خادم سلسلہ مشہور قانون دان مکرم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ 30؍ جولائی 2019ء کو اپنے مولیٰ کو پیارے ہوگئے۔اناللّٰہ و انا الیہ راجعون
آپ ایک بلند پایہ مصنف،بہترین مقرر اور کامیاب وکیل تھے ۔حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی وفات پر فرمایا کہ

‘‘اللہ تعالیٰ کے فضل سےجماعتی خدمات بھی ان کی بہت ہیں………دینی علم بھی ان کا بہت تھا۔دنیاوی علم بھی بہت تھا………بے شمار ان کی خدمات ہیں۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے وقف کی روح سے جو جماعتی کام ان کے سپرد کیے جاتے تھے وہ کرنے کی کوشش کی اور خوب اس کا حق ادا کیا۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 9 اگست 2019ء)

برادرم مکرم مجیب صاحب نے خلافت ثالثہ سے خلافت خامسہ کے تین ادوار میں خلفاء سلسلہ سے اخلاص و وفا کا تعلق نباہتے ہوئےان کے منظور نظر ہونے کی سعادت پائی۔

موصوف کو خلافت ثالثہ کے زمانے سے ملکی عدالتوں میں جماعتی مقدمات کی وکالت کاموقع ملا۔علاوہ ازیں قومی و بین الاقوامی سطح پر آپ مختلف رنگ میں جماعت کی ترجمانی کا حق اداکرنے کی توفیق پاتے رہے۔فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ
خلافت رابعہ کے آغاز میں ایک اہم اور خاص خدمت شریعت کورٹ میں ‘امتناع قادیانیت آرڈیننس’کےخلاف رِٹ اور اس کی پیروی تھی،جس میں یہ عاجزبھی دیگر دو وکلاءمکرم مبشر لطیف صاحب ایڈووکیٹ لاہور اور مکرم مرزا نصیر احمد صاحب برلاس ایڈووکیٹ لاہورکےساتھ بطور درخواست گزارشامل تھا۔مئی 1984ء میں آرڈیننس کے خلاف رِٹ شریعت کورٹ اسلام آباد میں داخل کی گئی۔ اس کیس کی تیاری کےلیے ماہ مئی و جون میں خاکسارربوہ سے اور مکرم مجیب الرحمان صاحب راولپنڈی سے بیت الفضل اسلام آباد آکرقیام کرتے رہے۔اس دوران قریب سے آپ کے اوصاف حمیدہ جاننے کا موقع ملا۔ اکثررات دیر تک کام کرنے کے بعد بسا اوقات ایک ہی کمرے میں آرام اور اکٹھے کھانااور ایک ساتھ نمازیں باجماعت ادا کرنے کا موقع ملا۔اپنے مقدمہ میں استغراق کی طرح نمازوں میں بھی مکرم مجیب صاحب کی محویت کا عجب عالم تھا۔بارہا نماز میں رقّت اور آنکھیں اشکبار دیکھیں اورانہیں نہایت نفیس الطبع، مخلص و مہربان، ہمدرددوست، مہمان نواز، فراخ دل، روشن دماغ، نہایت ذہین، نکتہ رس، علم کے پیاسے، قدردان اور بہترین مقرر کے ساتھ عمدہ سامع پایا۔

15 جولائی 1984ء کولاہور ہائیکورٹ میں اس کیس کی سماعت شروع ہوکر12؍ اگست تک جاری رہی۔اس دوران مکرم مجیب صاحب کی معاونت کےلیےمکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب اور خاکسار کے علاوہ علمائے سلسلہ کی ایک ٹیم مکرم مولانا محمد صدیق صاحب لائبریرین، مکرم ملک مبارک احمد صاحب استاذ عربی جامعہ،مکرم مولاناجلال الدین قمر صاحب استاذ عربی،مکرم مولانامبشراحمد کاہلوں صاحب اورمکرم نصیر احمد قمر صاحب استاذ جامعہ پر مشتمل ان کے ساتھ دارالذکر میں مقیم رہ کردن رات ایک کرکے ضروری مواد اور حوالے نہایت محنت سے مہیا کرتی رہی۔دریں اثناءبوجوہ کچھ عرصہ ان کے ساتھ مکرم چوہدری حمیدنصر اللہ صاحب مرحوم امیر لاہور کی کوٹھی چھاؤنی میں منتقل ہوکروہاں بھی معاونت کا یہ سلسلہ جاری رکھنے کا موقع ملا۔

لاہورہائیکورٹ میں چیف جسٹس آفتاب صاحب کی سربراہی میں پانچ رکنی شریعت بنچ کے سامنے مکرم مجیب صاحب نے نہایت احسن رنگ میں یہ مقدمہ پیش کیا ۔مورخہ15؍جولائی کوآپ نےبحث کا آغاز کرتے ہوئے بتایاکہ امتناع قادیانیت آرڈیننس نہ صرف دستورپاکستان اوربنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہےبلکہ شریعت اسلامی کے بھی منافی ہے اوردستور کے آرٹیکل 203-D کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت کے خلاف قوانین نہیں بن سکتے، اگر بن جائیں تو شرعی عدالت انہیں کالعدم قرار دے گی۔شرعی عدالت کا یہ مقدمہ مکرم مجیب صاحب کےلیےایک بڑی معرکہ آراکٹھن ذمہ داری تھی۔ان کی پہلی بڑی مشکل یہ تھی کہ انہوں نےایک ایسی عدالت میں اپنی دائر کردہ درخواست پر بحث کرنی تھی جس کے تمام ارکان بریلوی یا دیوبندی وغیرہ تھے اور جن کے مسلک کے مطابق احمدی گمراہ اور کافر تھے اور اس پر مستزاد وہ 1974ء کی اسمبلی کی آئینی ترمیم کے مطابق احمدیوں کوغیرمسلم شمارکرتے تھے۔دوسری مشکل یہ تھی کہ مکرم مجیب صاحب کو شرعی عدالت میں اپنے موقف کے لیے قرآن وسنت سے جوثبوت پیش کرنےتھے وہ ان ججزکے مسلک اور ان کے علماءکی تعبیر کے مطابق کبھی بھی ہمارے مفید مطلب نہیں ہوسکتے تھے مگر ان ناموافق حالات کے باوجود یہ فرض انہوں نے نبھایااورخوب نبھایا۔اور یہ محض امام وقت کی دعاؤں کا صدقہ تھا کہ موصوف نے کمال حکمت،فصاحت اورجرأت کے ساتھ اپنا مؤقف عدالت میں پیش کرکے حاضرین عدالت وسامعین اورامامِ وقت سے بھی دادِ تحسین حاصل کی۔

جسٹس آفتاب حسین کے ساتھ دیگرججوں میں جسٹس فخر عالم،جسٹس عبد القدوس قاسمی اورجسٹس غلام علی ،جسٹس چوہدری محمد صدیق شامل تھے۔دوران سماعت مقدمہ طریق کار یہ رہا کہ صبح نو بجے برادرم مکرم مجیب صاحب کے ساتھ ہمیں دارالذکر سے ایک حفاظتی حصار میں ہائیکورٹ لے جایا جاتا۔ جہاں عدالت لگنے پر مکرم مجیب صاحب ڈائس پرآکر اپنامدعا پیش کرتے، ان کے دائیں طرف خاکسار کوبطور معاون ایک میز اور کرسی مہیا تھی۔ جس پر اس روز کی بحث کے جملہ حوالہ جات اور ان کی نقول ہوتیں۔میرے ساتھ ہی مکرم مولانا چوہدری محمد صدیق صاحب لائبریرین مع اپنی کتب برائے حوالہ جات ٹرے میں سجائے تشریف فرما ہوتے۔مکرم مجیب صاحب دلیل پیش کرتے ہوئے جب تفسیرقرآن و حدیث و بزرگان سلف سے کوئی حوالہ پیش کرتے،معاً خاکسار اس کی ایک نقل ان کی خدمت میں اور چھ نقول عدالت کے ریڈر کے سامنے رکھ دیتا،وہ ایک کاپی پاس رکھ کرپانچ نقول ججز کوپیش کردیتے۔اس عمدہ طریق کار اورحسن انتظام کو دیکھ کرحاضرین کے ساتھ اراکین عدالت بھی خاصے متاثر تھے جس کا اظہار بھی دوران سماعت وہ گاہے بگاہے کرتے رہے۔

اراکین عدالت تک اپنا موقف کماحقہٗ پہنچانے کے لیے مکرم مجیب صاحب نے اپنی بحث کا آغازاصول تفسیر قرآن بیان کرنےسے کیا۔جو بظاہراس وقت ایک غیرمتعلق بحث نظر آتی ہوگی،مگر اس میں بڑی گہری حکمت یہ تھی کہ مخالف عقیدہ ججز کے سامنے عقائد کی بحث کےآغاز میں ہی یہ اصولی امرطے کردیا جائے کہ قرآن کی کسی آیت کی کونسی تفسیرقابل قبول ہوگی۔جس کی روشنی میں ہمارے دلائل کی حجت قائم ہوسکے۔چنانچہ مکرم مجیب صاحب نے بتایا کہ اہل سنت کے بنیادی اصول تفسیر i۔لغت عربی ii۔قرآن کی تفسیرخود قرآن سے iii۔تفسیر رسولؐ iv۔تفسیر صحابہؓ اورv۔تفسیر بتقاضۂ کلام ہیں۔اور پھر آپ نے ان بیان کردہ اصول کی روشنی میں کے مطابق آرڈیننس کے خلاف پیش کردہ قرآنی آیات سے ٹھوس دلائل دیے۔

  1. آرڈیننس کا پہلا نکتہ بحث یہ تھا کہ احمدی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کرسکتے۔ اس بارہ میں مکرم مجیب صاحب نے قرآن کی اصولی تعلیم‘‘لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ’’(البقرة:257)کہ دین میں کوئی جبر نہیں اور ایسی دیگر آیات اور ان کے تفسیری حوالےپیش کرکے بتایا کہ اسلام میں ٍمذہبی آزادی کے اصولوں کی روح کیا ہے؟پھررسول اللہ ﷺ کا نمونہ بیان کیا کہ میثاق مدینہ کی بدعہدی کےنتیجہ میں جب یہود کو وہاں سے نکالا گیا تو انصار مدینہ کے جو بچے یہود کے زیر پرورش رہنے کی وجہ سے یہودی مذہب اختیار کرچکے تھے،انصارمدینہ نےان کو روکنا چاہا تو رسول کریم ﷺنے اس آیت کی روشنی میں منع فرمادیااور ان بچوں کویہودی مذہب پر رہنے کی مکمل آزادی دی۔

اسی طرح مکرم مجیب صاحب نےسورة الحجرات کی آیت

‘‘قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلٰكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا’’(الحجرات 15) پیش کرکے تفاسیر سے ثابت کیا کہ فتح مکہ پر مال غنیمت کے خواہش مند نومسلموں کے بارے میں خدا تعالیٰ نے خود یہ گواہی دی کہ ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔مگر پھر بھی ان نومسلموں کو ‘‘اسلمنا’’ کہہ کر اقرار اسلام اور اظہار اطاعت کا حق عطا فرمایا۔اسی طرح یہ ارشاد قرآنی بھی پیش کیا کہ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقٰى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا(النساء 95)یعنی جو تمہیں السلام علیکم کہے اسے غیر مومن نہ کہو گویانہ صرف اسلامی شعار کا استعمال منع نہیں بلکہ اس کا احترام واجب ہے۔آپ نےمزید بتایا کہ مدینہ میں مسلمانوں کی پہلی مردم شماری کے موقع پر رسول اللہﷺ نے یہ اصول مقرر فرمایا کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہے اس کا نام بطور مسلمان لکھ لیاجائے۔اس معیار کے مطابق مسلمانوں کی مدینہ میں تعداد تین ہزار ہوئی۔جس پر مسلمانوں نے بہت مسرت کا اظہار کیا تھا۔(بخاری)

پس آزادیٔ مذہب کا بنیادی تقاضا ضمیر کے مطابق اپنے عقیدہ کا اظہار ہے اور کسی کو اسلام کے اظہار سے روکنا خلاف شریعت ہے۔

2.دوسرا نکتہ بحث احمدیوں کی اذان کی ممانعت تھا جس کےلیے یہ قرآنی آیت پیش کی گئی کہ ‘‘وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللّٰهِ’’(حم السجدة:34)کہ اللہ کی طرف بلانے والےسےبہتر کون ہوسکتا ہے۔تفاسیر میں اس آیت سےاذان دینے والا مرادلیاگیا ہے جو اللہ کی طرف بلاکر ایسابہترین عمل کرتاہے،جس پر اجراور انعام ملنا چاہیے نہ کہ آرڈیننس کے مطابق تین سال سزا۔رسول کریم ﷺنے توفرمایاکہ جس بستی سے اذان کی آواز آئے، اس پر حملہ نہیں کرنا۔(بخاری کتاب الجہاد)خودرسول اللہﷺ نےفتح مکہ کے موقع پر حضرت بلالؓ کے اذان کی نقل اتارنے والے مشرک لڑکے ابو محذورہ کوبلواکرخود اپنے سامنے اس سےاذان کہلوائی۔گویارسول اللہﷺ کے نزدیک غیرمسلم کا اذان کہنا جائزتھا۔ اس دوران آپ نے عدالت کے سامنے بآواز بلند کلمات اذان دہراکرپوچھا کہ اس میں کونسی بات قابل سزاہے؟ خدا کی توحید کا اعلان یا رسول اللہﷺ کی رسالت کا۔بہرحال اذان جیسے نیک فعل پر تین سال قیدکی سزا خلاف شریعت ہے جو کالعدم ہونی چاہیے۔

3.آرڈیننس کاتیسرا نکتہ بحث احمدیوں کی تبلیغ پر پابندی کا تھا۔ اس بارہ میں آپ نے قرآن سےیہ دلیل پیش کی کہ اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ کے برحق ہونے کے دعویٰ پران سے دلیل کا مطالبہ کرتے ہوئےفرمایاہے کہ اے نبی! تو ان سے کہہ کہ‘‘هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ’’(البقرة:112)

کہ اگرتم سچے ہوتودلیل لاؤ۔پس قرآن ہر مذہب کودلیل پیش کرنےکا بنیادی حق دیتاہے اوراس پر پابندی لگانا خلاف شرع ہے۔قرآنی اصول یہ ہے کہ‘‘لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيٰ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ’’(الأَنْفال:43)کہ جو ہلاک ہو وہ دلیل سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل سے زندہ رہے۔یہی وہ عادلانہ اصول ہے جس پر ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ جاری رہ سکتی ہے۔ورنہ باقی مذاہب جو تعداد میں مسلمانوں سے زیادہ ہیں۔مثلاً ہندوستان کے ہندو مسلمانوں پر تبلیغ کی پابندی لگاسکتے ہیں۔اس لیے اس قانون کو ختم کرنا چاہیے۔

4.چوتھا نکتہ بحث احمدیوںپراسلامی اصلاحات کے استعمال پر پابندی کی بابت تھا۔یعنی حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کےساتھیوں کےلیے ‘‘صحابی’’ کا لفظ اور ان کے لیے ‘‘رضی اللّٰہ عنھم’’کی دعا اور اپنی عبادت گاہ کےلیے وہ ‘‘ مسجد ’’ کےالفاظ استعما ل نہ کریں۔

مکرم مجیب صاحب نے عدالت کے سامنےثابت کیا کہ لغت اور شرع ہردولحاظ سےیہ دستور زباں بندی جائزنہیں۔لغت میں مسجد سے مراد مسجد کی جگہ یا عبادت گاہ ہے۔اورقرآن میں عیسائیوں کی عبادت گاہ کےلیے بھی مسجد کا لفظ آیا ہے۔چنانچہ اصحاب کہف نے اپنی عبادتگاہ کو مسجدکہا :‘‘لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا’’(الكهف 22) پس احمدیوں کو‘‘مساجد’’ سے روکنا جائزنہیں کیونکہ مساجد سےروکنے والے کو قرآن کریم میں سب سے بڑا ظالم قرار دے کراس فعل کی سخت سزا بیان کی گئی ہے۔(البقرة 115)اسی طرح ‘‘اصحاب’’کالفظ صرف رسول اللہﷺ کے صحابہ کے لیے خاص نہیں بلکہ عام محاورہ میں بھی صاحب ساتھی کے لیے استعمال ہوسکتا ہے جیسے قرآن میں اصحاب الفیل ،اصحاب الرس،اصحاب النار وغیرہ۔پھر‘‘رضی اللّٰہ عنھم’’بھی ایک دعا ہے جوصرف صحابہ کےلیے نہیں بلکہ سورة التوبہ آیت100میں صحابہ کی احسن رنگ میں پیروی کرنے والوں کے لیے بھی یہ دعا جائزقرار دی گئی ہے۔فرمایا:

وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ(التوبة: 100)اس موقع پر ایک جج صاحب نےکہا کہ اگر آپ کا موقف درست ہے توامت محمدیہ میں غیر صحابہ کےلیے‘‘رضی اللہ عنھم’’استعمال کرنےکا ثبوت پیش کریں۔ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب چودہ سو سالہ اسلامی لٹریچر کی ایسی مثالیں مع ثبوت وحوالہ اسی وقت پیش کر دی گئیں۔جن میں صحابہ کے علاوہ نیک لوگوں کے لیے ‘‘رضی اللہ عنھم’’کی دعاکا استعمال کیا گیا تھا تو وہ جج صاحب کھسیانے ہوکربلکہ جھلّا کر کہہ بیٹھے کہ دراصل آپ توغیر مسلم ہیں اس لیے غیر مسلم کے حق میں ‘‘رضی اللّٰہ عنھ’’کی دعاثابت کرکے دکھائیں،تب بات بنے۔اس پر مکرم مجیب صاحب نے فرمایا کہ جناب والا! ہم کلمہ گو صرف آئین پاکستان کے مطابق ڈکلیئرڈ ناٹ مسلم (Declared Not Muslim)ہیں۔بالکل اسی طرح جیسےنواسۂ رسولؐ مظلوم امام حسینؓ کوحکومت یزید کے قاضی شریح نے کافر قراردےدیاتھا۔اگر اُس دور کےڈکلیئرڈ ناٹ مسلم(Declared Not Muslim)حضرت امام حسینؓ کےلیے ‘‘رضی اللّٰہ عنھم’’جائزتھا اورہےتوآج کیوں نہیں؟ اس پر موصوف خاموش بلکہ گُنگ ہوکر رہ گئے ۔

بحث کے آخر میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی رہنمائی کےمطابق عدالت کے سامنےدرج ذیل چھ سوالات پیش کیے گئے کہ ان کے اصولی جواب کی روشنی میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کا فیصلہ کیاجائے۔

1۔ کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق اور اجازت دیتا ہے کہ وہ خدا کی وحدانیت کا اقرار اوراعلان کرے؟

2۔ کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق اور اجازت دیتا ہے یا نہیں کہ وہ محمد رسول اللہﷺ کو اپنے دعویٰ میں سچا تسلیم کرے؟

3۔ کیا اسلام کسی غیر مسلم کو یہ حق دیتا ہے یا نہیں کہ وہ قرآن حکیم کو ایک اعلیٰ نظام حیات سمجھ کر اسے واجب الاطاعت تسلیم کرے اور اس پر عمل کرے؟

4۔ اگر کوئی غیر مسلم قرآن کے احکام پر عمل کرنا چاہے تو کیا اسے اس کی اجازت ہے یا نہیں؟

5۔ اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو اس حق کی نفی قرآن کریم اور سنت میں کہاں ہے؟

6۔ ایسے شخص کے لیے اسلام کیا لائحہ عمل تجویز کرتا ہے جو گو عرفاً مسلمان نہ ہو اور اسے قانونی حق نہ بھی ہو مگر دل و دماغ سے خدا کی وحدانیت ،محمد رسول اللہﷺ کی حقانیت اور قرآن کی صداقت پر دل سے یقین رکھتا ہو؟
ظاہر ہے کہ شرعی عدالت کے بظاہرصاحبِ علم و فہم منصفین کرام تودرکنار،ایک عام سادہ عقل کا آدمی بھی ان سوالات کا جواب نفی میں نہیں دےسکتا۔

اورشرعی عدالت کے تفصیلی فیصلہ میں بھی ان سوالات کا جواب اثبات میں دیاگیا۔مگر احمدیوں کے حق میں یہ اصول تسلیم نہ کرکےشرعی عدالت نےنہ صرف عدل و انصاف بلکہ قرآن و سنت سے بھی انحراف کا ارتکاب کیا۔ اگرچہ مختصر فیصلہ میں کچھ بنیادی مذہبی حقوق تسلیم کیے گئے لیکن وہ بھی بعد میں سپریم کورٹ میں اپیل کے دوران کالعدم قرار دےدیے گئے۔انّاللّٰہ و انا الیہ راجعون
لاہور ہائیکورٹ میں شرعی عدالت کےلیےمخصوص کمرہ حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا جس میں دونوں اطراف کے چند وکلاء اور محدود افراد کے علاوہ وکیل مخالف کے معاون مولوی حضرات اوربڑےبڑے جبہ پوش علماء حضرات بھی ایک طمطراق سے آتے اور بعض دفعہ لطیفے بھی ہوجاتے۔ایک روز شاہی مسجد کے لحیم وشحیم خطیب علامہ آزاد صاحب تشریف لائے۔غیر از جماعت وکلاء نے بھی عدالت میں خاکسار ایسے دبلے پتلے معاون کو حوالے مہیا کرتے دیکھا تو وقفہ چائے کے دوران ہائی کورٹ بار میں ایک غیراز جماعت وکیل نے ہمارے احمدی وکیل مرزا نصیر برلاس صاحب کو مخاطب کرکےعدالت میں ہونے والی مؤثر بحث سے توجہ ہٹانے کی خاطر یہ پُرمزاح تبصرہ کیا کہ ‘‘تمہارا مولوی’’ ہمارے علماءکے مقابل پر کیا چیز ہے؟ وہ تو ان کی گردن کے برابر بھی نہیں۔شرکائےمجلس اس سے خوب محظوظ ہوئے۔

الغرض مکرم مجیب صاحب کی مدلل بحث کاچرچا ان دنوں ہائی کورٹ بار میں اور اس کے باہر ہرطرف تھا۔جس کے آگےعدالت بھی بے بس ہوتی نظر آتی تھی۔اس کا اثر زائل کرنے کے لیےبحث کے چوتھے دن ہی مکرم مجیب صاحب کی جاری بحث درمیان میں روک کرعدالت کویہ تدبیرکرنی پڑی کہ چند معروف علماء کوبغرض مشاورت عدالت میں طلب کیاتاکہ ہمارے دلائل کا ردّ کروایاجائے۔ان آٹھ مشیران عدالت میں قابل ذکرقاضی مجیب الرحمان آف پشاور(سربراہ شیعہ علوم اسلامیہ پشاور یونیورسٹی)،پروفیسرمحمود احمد غازی اسلام آباد یونیورسٹی (رکن اسلامی نظریاتی کونسل) اور علامہ ڈاکٹرطاہر القادری شامل تھے۔مگر یہ تدبیر بھی الٹی ہوگئی اوریہ سکالرز بھی مکرم مجیب صاحب کے پیش کردہ دلائل قرآن و حدیث کاتوکوئی معقول جواب نہ دے سکے۔البتہ ان کا بھانڈا چوراہے میں یوں پھوٹا کہ انہوں نےاپنی تائید کےلیےقرون وسطیٰ کے ظالم مسلمان بادشاہوں کے زمانہ کے محض فقہی فتاویٰ کاسہارا لیا جو قرآن و سنت اوربنیادی حقوق انسانی کے خلاف تھے اور یوں وہ الٹاجگ ہنسائی کا موجب ہوئے۔انہوں نے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ احمدی تو کلمہ گو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں، یہ موقف اپنایا کہ چونکہ1974ء کی اسمبلی میں احمدی غیر مسلم قرار دیےجاچکے ہیں،اس لیے ان سے ذمیوں جیسا سلوک کرنا چاہیے۔انہیں کوئی بنیادی مذہبی حق حاصل نہیں بلکہ اب انہیں مسلمان حکومت کی غیر مسلم ماتحت اورذلیل رعایا کے طور پر زندگی بسر کرنی ہوگی۔اس کے لیے جب انہوں نے مسلسل فقہاء کی کتابوں سے حوالے دینے شروع کیے تو چیف جسٹس صاحب کوبھی بعض مواقع پرکہناپڑا کہ احمدی وکیل(غیرمسلم ہوکر) قرآن و سنت کے حوالہ سے بات کرتے ہیں۔آپ صرف فقہاء کے حوالے دیتے ہیں؟اور اصل حوالہ یا اس کی نقل بھی ان کی طرح پیش نہیں کرتے۔ اس کے باوجود پروفیسر محمودغازی اور علامہ طاہر القادری اپنے اس موقف پر ڈٹے رہےکہ قادیانیوں سے ذمیوں جیسا سلوک کرنے کے لیے فقہاء کے اصول اپنانے چاہئیں۔یہ مسلمانوں جیسا لباس نہیں پہن سکتے صرف ایک خاص پیلے رنگ کا لباس اور زنّار استعمال کر سکتے ہیں،پگڑی استعمال نہیں کرسکتے۔اپنے لیےبلند عمارت تک تعمیر نہیں کرسکتے۔مسلمانوں والے نام نہیں رکھ سکتے۔گھوڑے پر سوار نہیں ہوسکتے۔ سڑک یا راستے کےایک طرف کنارے پر چل سکتے ہیں،درمیان میں نہیں و علیٰ ھذا القیاس۔جبکہ بعض علماء نے قتل مرتد کی بحث چھیڑ کر احمدیوں کو واجب القتل قرار دینا چاہا۔

مشیران عدالت کی یہ تیزوتند تقاریرتین دن میں مکمل ہوئیں۔تیسرے روزجب ساحرانِ وقت بزعم خویش اپنی پٹاریاں کھول چکے اور عدالت کاوقت ختم ہونے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔دن بھرکی بحث میں علماء نے اسلامی حکومت میں غیرمسلموں اور ذمیوں کا بدصورت نقشہ پیش کرکے فضا خاصی مکدرکی تھی۔بامذاق سنجیدہ سامعین بھی یہ ظالمانہ باتیں سن کر افسردہ اورملول سےتھے۔مکرم مجیب صاحب بھی طبعاًدل گرفتہ سے تھے۔اچانک چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ مجیب صاحب! آج تو آپ تیار نہیں ہوں گے،کل سے آپ بحث شروع کریں۔مکرم مجیب صاحب نے کمال حاضر جوابی سے عرض کیا کہ اب بھی چند منٹ ہلکی سی گفتگو کرنے کو تیار ہوں اور یوں انہیں ان دھواں دھارمخالفانہ تقاریر کے آخر میں ایک نہایت عمدہ موقع اپنا موقف پیش کرنے کا میسر آگیا۔علماء کی پر تشدد تقریروں سے ہال پر ایک سناٹا تھا اور مولوی حضرات اپنے حامیوں کے ساتھ بغلیں بجارہے تھے کہ آخرآج تومیدان مارلیا۔مگر مجیب صاحب نے اپنی چودہ منٹ کی تقریرمیں وہ عصائے موسیٰ چلایا جو ساحروں کی پھینکی ہوئی سب رسیوں کو نگل گیا اور جاء الحق و زھق الباطلکا منظرسامنے آگیا۔

آپ نے عدالت کا پُر گھٹن ماحول سازگار کرنے کے لیے آغازایک لطیفہ سے کیاکہ کسی گاؤں کے چوہدری صاحب نے کسی جگہ تعزیت کے لیے جانا تھا اس نے ایک ملازم میراثی ساتھ لیا اور اسے ہدایت کی کہ چوہدری صاحب کے احترام کی خاطر وہ ان کے برابر نہیں بیٹھے گا۔پہلی جگہ گئے تو لوگ چارپائیوں پرتھے۔ملازم نے کوئی پیڑھا تلاش کرلیا۔آگے گئے لوگ پیڑھوں پر تھے۔ملازم نے چھوٹی پیڑھی ڈھونڈنکالی،آگے گئے تو لوگ چٹائی پر تھے۔میراثی پریشان حال کبھی اِدھر بھاگے کبھی اُدھر۔پوچھنے پر بولا کہ میں کسّی تلاش کررہا ہوں تاکہ گڑھا کھود کرچوہدری صاحب سےنیچے بیٹھ سکوں۔اس لطیفہ سے عدالت کا پُرگھٹن ماحول خاصاسازگار اور خوشگوار ہوکرایک نرم گوشہ پیداہوگیا۔

پھرآپ عدالت سے مخاطب ہوئے :جناب والا! علماء کی ان پُر تشدد تقاریر کے دوران گزشتہ تین روز میں بھی کسّی ہی تلاش کرتا رہا تاکہ اس جدید روشنی کے زمانہ میں اپنے لیے کوئی گڑھا کھود کر جگہ بناسکوں۔پچھلےدودن کی بحث کے دوران رحمة للعالمینﷺ کی امت سے منسوب ہونیوالوں کی طرف سے تلوار اور خون بہانے کا ہی ذکر ہوتا رہا۔دور حاضر میں رہ کرکلمہ گو احمدیوں کو ذمّی کہہ کر ان کے بارہ میں ایسی دقیانوسی رائے رکھنےوالوں سے میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے کب احمدیوں کوفتح کرکے ذمّی بنایا تھا۔احمدیوں نے تومسلم لیگ کی حمایت کی اور اسےووٹ دے کر یہ ملک بنایا تھا۔ وہ پاکستان کے لیے قربانیاں دے کراپنے وطن اور گھر بارچھوڑ کرہجرت کرکے یہاں آئے تھے اور بہت جذباتی ہوکر کہا کہ

؂ ہمارا خون بھی شامل تھا، تزئینِ گلستاں میں

ہم نے توسوچا تھا کہ ہم ایک آزاد ملک کے باسی ہوں گے۔اسی لیے بانیٔ پاکستان قائداعظم نے ہمیں ذمّی نہیں بلکہ معاہد قرار دے کر 11 ستمبر1947ء کو یہ اعلان کیا تھا کہ

‘‘آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔’’

حیرت ہے کہ آج بانیٔ پاکستان کےاس معاہدے کے برخلاف ہم کلمہ گوؤں کو ذمّی قرار دےکر تاریک صدیوں کا ذمی کا وہ فلسفہ پیش کیاجارہا ہے جو قرآنی تعلیم اورسنت رحمةللعالمینﷺ کے سراسر منافی ہے۔

مکرم مجیب صاحب نے یہ مختصر مگر جامع تقریر ایسے جوش وجرأت سے جذباتی انداز میں کی کہ کمرۂ عدالت پر ایک سکوت طاری ہو گیا۔مشیران عدالت جس مقصد کے لیے بلائے گئے تھے ان کا سب اثربھی زائل ہوتانظرآیااورسو سنار کی ایک لوہار کی والا معاملہ ہوا۔

عدالت میں بارہا مکرم مجیب الرحمٰن صاحب کی مدلل بحث اورپُرحکمت حاضر جوابی کےنتیجہ میں جج صاحبا ن اور مشیرانِ عدالت اوروکیل ِمخالف پر ایک سکتہ طاری رہا۔اس نوعیت کا ایک ایمان افروز نظارہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب مولوی اللہ وسایا صاحب نے اپنےوکیل ریاض الحسن گیلانی کو سلسلہ کے بزرگ پیر سراج الحق صاحب نعمانی کی کتاب‘‘تذکرة المہدی’’کے اس صفحہ کی نقل عدالت میں پیش کرنے کوکہا۔جس میں پیر صاحب نے ایک غیر ازجماعت عالم کی ایک فحش گالی درج کی ہوئی تھی۔ وکیل مخالف نے اس ڈرامہ کے ساتھ یہ حوالہ پیش کیاکہ جناب والا!ان کی کتابوں میں تو ایسے فحش الفاظ ہیں کہ شرم کے مارےمیں پڑھ بھی نہیں سکتا۔یہ کتابیں توفحش ایکٹ کی وجہ سے بھی بندش کے قابل ہیں۔اس پر مکرم مجیب صاحب نے بھی کیا ہی خوب جواب دیاکہ جناب والا !یہ الفاظ توواقعی میں بھی نہیں پڑھنا چاہتاتاکہ ہمارے فاضل وکیل شرمندہ نہ ہوں کہ ان کے علماء نے حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کو کیسی کیسی فحش گالیاں دی ہیں۔ہمارےپیرنعمانی صاحب کو اللہ جزا دے جنہوں نے مخالفین کی ایک گالی بطورنمونہ ہمیشہ کےلیے محفوظ کردی۔ورنہ آج ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ سوسال سےان کے علماء ہمارے خلاف کیسی زبان استعمال کرتےآئے ہیں اورجناب والا! اسی پر بس نہیں آج تک ربوہ میں ریلوے اسٹیشن کے سرکاری امام یہی زبان ہمارے خلاف استعمال کررہے ہیں۔

اتفاق سےاس مسجد کے خطیب اللہ وسایاموقع پرموجود تھے۔مثل مشہور ہے: چور کی داڑھی میں تنکا،خطیب موصوف ریلوے مسجد کاذکر سنتے ہی وہ فوراً کھڑے ہوکر کہنے لگے:جناب والا! ربوہ ریلوے اسٹیشن کی مسجد میں کوئی سرکاری امام نہیں ہے۔نامعلوم جج صاحب تک یہ آواز پہنچی یا نہیں مگر انہوں نے اس اچانک مداخلت پرسخت ناگواری سےکہا کہ اسےعدالت سے باہر نکال دیں۔پتہ نہیں کہ اجازت کے بغیر یہاں بات نہیں کرسکتے۔عین اس وقت مکرم مجیب صاحب نے کمال حاضر جوابی سے مولوی اللہ وسایا کی طرف مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا کہ سرکاری امام نہ سہی ۔ یہ توپتہ چل گیا کہ وہاں امام مسجدہے کون؟اس طرح مولوی موصوف جنہوں نے فاضل وکیل کو اکساتے ہوئے حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے خلاف عدالت میں حوالہ پیش کروانے کی سعی کی تھی وہ خود عدالت میں رسوا ہوکرحضرت بانیٔ جماعت کے اس الہام کے مورد بنے کہ جو تیری اہانت کا ارادہ بھی کرے میں اسے ذلیل کروں گا۔

ایک موقع پرفاضل مخالف وکیل نے اپنے اسی معاون مذکور کے مشورہ پر حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ پرالزام لگایا کہ انہوں نے ہمارے مسلمان علماء کی کتب سے علمی باتیں نقل کی ہیں اوربطورمثال کشتی نوح کا وہ حوالہ پیش کیا جس میں نمازوں کے اوقات کی حکمت بیان ہوئی ہےکہ ‘‘پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے’’ اورکہا کہ مرزاصاحب نے یہ عبارت مولوی اشرف علی تھانوی کی کتاب ‘‘احکام اسلام عقل کی نظر میں’’ صفحہ 49سے چرائی ہے۔

مکرم مجیب صاحب نے کمال حکمت اور تحمل سے اس کاایسا جواب دیا کہ مخالف لاجواب اور سخت شرمسار ہوئے۔آپ نےدونوں کتابوں کے ٹائٹل پرطبع شدہ سن اشاعت عدالت کودکھا کربتایا کہ حضرت مرزا صاحبؑ کی کتاب کشتی نوح جس پر چوری کا الزام ہے وہ پہلی دفعہ1902ء میں اور احکام اسلام جس سے عبارت لینے کا اعتراض ہے،پہلی مرتبہ 1916ء میں شائع ہوئی ۔ معزز عدالت خود فیصلہ کرلے کہ کس نے کس کی عبارت نقل کی۔اس کے باوجود ہم ان کے معززعلماء پر چوری یا سرقہ کا الزام نہیں لگائیں گے۔بلکہ ہمارے نزدیک تھانوی صاحب وسیع الظرف اور عالی حوصلہ عالم تھے۔انہیں مرزا صاحب کی کشتی نوح کی ایک بات اچھی لگی تو اسے انہوں نے اپنی کتاب میں درج کرلیا جس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔علمی دنیا میں اسے استفادہ کہتے ہیں اوراہل علم علمی باتوں کا استفادہ کرتے رہتے ہیں ۔اگر مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے بھی استفادہ کرلیا تو اس پرکیا اعتراض ہوسکتا ہے !اس وضاحت پر مخالف شرم سے پانی پانی ہوکررہ گئے جبکہ اراکین عدالت بھی اس شائستہ اندازمیں وضاحت سےخوب محظوظ ہوئے۔
الغرض برادرم مکرم مجیب صاحب نےشرعی عدالت میں جماعتی موقف پیش کرنے کا حق ادا کردیا۔جیساکہ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ میں بجاطور پرفرمایا:

‘‘1984ء میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کے خلاف شرعی عدالت میں مقدمہ داخل ہوا، اس کی پیروی کی ان کو توفیق ملی اور وہاں بھی انہوں نے خوب اس کا حق ادا کیا اس پیروی کا۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 9 اگست 2019ء)

میں سوچتا ہوں کہ آج امام وقت کی عطافرمودہ اس سند پرہمارے پیارے محسن دوست اور بزرگ بھائی جناب مجیب الرحمان صاحب کی روح کتنی خوش ہوگی۔الحمدللہ

مجھے خوب یاد ہے کہ مجیب صاحب جماعتی موقف کا حق ادا کرنے کے حوالہ سے بہت حساس واقع ہوئےتھے۔وہ اکثر ہر بحث کے بعد پوچھا کرتے کہ کوئی بات جماعتی موقف سے ہٹ کر یا کوئی بیان تشنہ تو نہیں رہ گیا۔اورہمیشہ تسلی دلانے پر مطمئن ہوتے۔اور کبھی کسی نکتہ کی طرف توجہ دلانے پر آئندہ وہ پہلو مزید کھول کر واضح فرمادیتے۔کارروائی شرعی عدالت کے دوران حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی خدمت میں دیگررپورٹس کے علاوہ مکرم مجیب صاحب اور خاکسار کی طرف سے بھی گاہے بگاہےبغرض دعارپورٹ پیش کی جاتی رہی ۔حضور انور ؒنے مکرم مجیب صاحب کو ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:

‘‘آپ جس دانشمندی اور سوجھ بوجھ سے کیس Fightکررہے ہیں اس پر ہمیشہ میرے دل کی گہرائیوں سے آپ اور آپ کے رفقاء کار کے لیے دعائیں نکلتی ہیں……آپ ایک تاریخ ساز خدمت بجالارہے ہیں۔انشاء اللہ نسلیں اس پر فخر کریں گی۔’’ (مکتوب حضور انور 1985ء)

خلاصۂ کلام یہ کہ شریعت کورٹ میں مکرم مجیب الرحمان صاحب ایڈووکیٹ خلیفۂ وقت کے سلطان نصیر ثابت ہوئے اور ان کی دعاؤں کےطفیل اللہ تعالیٰ نےاس مقدمہ میں انہیں دلیل کےساتھ فتح عطا فرمائی۔اور چیف جسٹس آفتاب صاحب نے مورخہ 12اگست 1984ءکوبرادرم مکرم مجیب صاحب،خاکساراور دیگر درخواست دہندگان کو طلب کرکے اپنا مختصر فیصلہ سنانے سے قبل یہ اظہار کیا کہ مجیب صاحب! آپ نے اپنا مقدمہ ایسی تیاری اور محنت سے پیش کیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔اور ہم آپ کو بعض جائز حق دے رہے ہیں لیکن ساری پابندیاں ہم ختم نہیں کرسکتے۔پھر انہوں نے اپنا یہ مختصرفیصلہ سنایا کہ
‘‘مذکورہ آرڈیننس آئین اور قرآن و سنت کے احکام کے مطابق سائلان اور قادیانیوں کو اپنے مذہب کے اظہار اور اس پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا۔وہ اس بارے میں آزاد ہیں کہ وہ قادیانیت یا احمدیت کو اپنا مذہب ظاہر کریں اور مرزا غلام احمد قادیانی پر نبی،مسیح موعود اور مہدی موعود کے طور پر اپنے ایمان کا اظہار کریں۔وہ اس بات میں آزاد ہیں کہ وہ اپنی عبادات،من جملہ دیگر اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذہب کے مطابق ادا کریں۔’’

(PLD 1984 FSC 136,12 August 1984،امتناع قادیانیت آرڈیننس1984ء وفاقی شرعی عدالت میں از مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ ص192)

الحمدللہ کہ شرعی عدالت کایہ مختصرفیصلہ ایک عرصہ تک 298C کے جماعتی مقدمات میں مفید ثابت ہوتا رہا تاآنکہ سپریم کورٹ میں اپیل پراکثریتی فیصلہ اس کے خلاف آیا۔مذکورہ مختصر فیصلہ پرمولوی حضرات اور جنرل ضیاءصاحب کی ناگواری طبعی تھی۔چنانچہ ان کی مداخلت کے نتیجہ میں تفصیلی فیصلہ آنے تک ایک اور بے انصافی یہ ہوئی کہ جسٹس آفتاب حسین صاحب کو بطور چیف جسٹس شریعت کورٹ فارغ کردیاگیااور تفصیلی فیصلہ پران سے دستخط نہیں کروائے گئے اورفیصلہ میں مولوی حضرات کی مدد سےجماعت کے خلاف بہت کچھ غیر متعلق مخالفانہ مواد بھی شامل کردیا گیا(جس کا جواب بعد میں مکرم مجیب صاحب کے ساتھ مل کر ایک رسالہ ضمیمہ موجبات اپیل کی صورت میں الگ دیا جاچکا ہے)۔بہرحال شرعی عدالت کے تفصیلی فیصلہ میں یہ سقم تاریخ کا ایک سیاہ ورق ہے کہ وہ مقدمہ جو پانچ ججوں نے سنا اس کے فیصلہ پر دستخط صرف چار ججوں کےثبت ہیں جوتکنیکی لحاظ سے بھی درست نہیں۔سپریم کورٹ میں اس کے خلاف اپیل پر اکثریتی فیصلہ ہمارےخلاف ہوا جبکہ ایک معتبر جج جسٹس شفیع الرحمان صاحب نے فیصلہ سے اپنا اختلافی نوٹ شامل کرکے انصاف کا جھنڈا بلندرکھا۔

الحمدللہ کہ مکرم مجیب الرحمان صاحب ایڈووکیٹ نے نہایت محنت و اخلاص،کمال توجہ و انہماک، حکمت ودوراندیشی اورذہانت و حاضر جوابی سے یہ مقدمہ پیش کیا اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں و توجہ کے طفیل قدم قدم پر ہم نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے عجب نظارے مشاہدہ کیے۔اب پیچھےمڑ کر ان ایام گزشتہ پر نظر ڈالتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح دن رات ایک کرکےان کو خدمت کے مواقع اللہ تعالیٰ کی توفیق سے عطا ہوتے رہے۔فالحمدللہ علی ذالک
اللہ تعالیٰ مکرم مجیب الرحمان صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور اعلیٰ علیین میں ان کے درجات بلند فرماتارہے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. مکرم حافظ صاحب نے ایک تاریخ ساز وجود کا ذکر خیر بہت عمدہ رنگ میں بیان فرمایا ہے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مکرم مجیب الرحمان صاحب کو کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے اور جماعت کو کثرت سے اس طرح کے خدام احمدیت عطا فرماتا چلا جائے۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button