الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

منکرینِ خلافت کا انجام

رسالہ ‘‘مشکوٰۃ’’ قادیان مئی 2011ء میں مکرم سیّد کلیم الدین صاحب مربی سلسلہ کی ایک تقریر بعنوان ‘‘منکرینِ خلافت کا انجام’’ شامل اشاعت ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے بزرگانِ جماعت نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی درخواست کی تو آپؓ نے فرمایا کہ اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سُن لو کہ بیعت بِک جانے کا نام ہے۔ اب تمہاری طبیعتوں کے رُخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی۔ اگر یہ تمہیں منظور ہو تو مَیں طوعًا و کرھاً اس بوجھ کو صرف اللہ کے لیے اُٹھاتا ہوں۔

حاضرین نے بہ یک زبان بآوازبلند اطاعت کا عہد کیا تو آپؓ نے قریباً بارہ سو جملہ حاضرین سے بیعتِ خلافت لی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ابھی پندرہ دن بھی نہ گزرے تھے کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کی موجودگی میں مجھ سے سوال کیا کہ آپ کا خلیفہ کے اختیارات کے متعلق کیا خیال ہے۔ مَیں نے کہا اختیارات کے فیصلہ کا وہ وقت تھا جبکہ ابھی بیعت نہ ہوئی تھی جبکہ حضرت خلیفہ اوّل نے صاف صاف کہہ دیا کہ بیعت کے بعد تم کو پوری پوری اطاعت کرنی ہوگی۔ اور اس تقریر کو سُن کر ہم نے بیعت کی تو اب آقا کے اختیارات مقرر کرنے کا حق غلاموں کو کب حاصل ہے؟ اس پر وہ بات کا رُخ بدل گئے لیکن مجھ پر اُن کا عندیہ ظاہر ہوگیا کہ اِن لوگوں کے دلوں میں حضرت خلیفہ اوّلؓ کا کوئی ادب اور احترام نہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح خلافت کے اس طریق کو مٹادیں۔

خلافتِ اولیٰ کا پہلا سال ختم نہ ہوا تھا کہ ایک گروہ منظم طور پر خلافت کی قدرومنزلت کو کم کرنے اور نفاق پیدا کرنے کی سازش میں لگ گیا۔ تب حضرت خلیفہ اوّلؓ نے کئی تقاریر اور خطبات میں یہی پیغام دیا کہ اب مَیں تمہارا خلیفہ ہوں اور تمام قوم کا میری خلافت پر اجماع ہوگیا ہے۔ اب جو اجماع کے خلاف کرنے والا ہے وہ خدا کا مخالف ہے۔

نیز فرمایا کہ مَیں نے تمہیں قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا نہیں بلکہ خداتعالیٰ کا کام ہے۔ خلافتِ آدم پر فرشتوں نے اعتراض کرکے کیا پھل پایا؟ آخر اُنہیں آدم کے لیے سجدہ کرنا پڑا۔ پس اگر مجھ پر کوئی اعتراض کرنے والا فرشتہ بھی ہو تو مَیں اُسے کہوں گا کہ آدم کی خلافت کے سامنے سربسجود ہوجاؤ ورنہ یاد رکھو کہ ابلیس کو آدم کی مخالفت نے کیا پھل دیا۔

جب منکرینِ خلافت نے اعتراض کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وصیت کی رُو سے جانشین انجمن ہے نہ کہ فردِ واحد۔ تب حضورؓ نے فرمایا کہ مجھے نہ کسی انسان نے نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ مَیں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے اور نہ اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رِدا کو مجھ سے چھین لے۔

حضورؓ نے مزید فرمایا کہ حضورعلیہ السلام کی تصنیف میں معرفت کا یہ نکتہ ہے کہ جس کو خلیفہ بنانا تھا اُس کا معاملہ تو خدا کے سپرد کردیا اور چودہ اشخاص (معتمدینِ انجمن)کو فرمایا کہ تم بحیثیت مجموعی خلیفۃالمسیح ہو، تمہارا فیصلہ قطعی فیصلہ ہے اور گورنمنٹ کے نزدیک بھی وہی قطعی ہے۔ پھر اُن چودہ کو باندھ کر ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرادی۔ پھر نہ صرف چودہ کا بلکہ تمام قوم کا میری خلافت پر اجماع ہوگیا۔ اب جو اجماع کے خلاف کرنے والا ہے وہ خدا کا مخالف ہے۔ تم معاہدہ کا حق پورا کرو پھر دیکھو کس قدر ترقی کرتے ہو اور کیسے کامیاب ہوتے ہو! ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تمہارے نہیں بلکہ اگلے خلیفہ کے اختیارات کی نسبت بحث کرتے ہیں۔ مگر تمہیں کب معلوم کہ وہ ابوبکر اور مرزا صاحب سے بھی بڑھ کر آئے۔

ایک بار فرمایا کہ ایک نکتے کے اظہار سے مَیں باوجود کوشش کے رُک نہیں سکتا کہ خواجہ سلیمانؒ کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا، اُن کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے۔ اٹھہتّر برس تک انہوں نے خلافت کی۔ بائیس برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے۔ یہ بات یاد رکھو مَیں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لیے کہی ہے۔

حضورؓ کے مذکورہ بالا ارشاد میں ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی لیکن منکرینِ خلافت نے آنکھیں بند کرلیں۔ 4؍مارچ 1914ء کو حضورؓ نے وصیت لکھ کر مولوی محمد علی صاحب سے تین بار پڑھواکر سنی جس میں یہ بھی درج تھا کہ ‘‘میرا جانشین متّقی ہو، ہردلعزیز ہو، عالمِ باعمل،…’’۔ گویا جانشین خلیفہ کے حوالہ سے وصیت تھی۔ لیکن جونہی حضورؓ کی وفات ہوئی منکرینِ خلافت نے فوراً جماعت میں ایک رسالہ تقسیم کرنا شروع کردیا جو پہلے سے طبع کروالیا گیا تھا اور انکارِ خلافت سے متعلق پراپیگنڈے پر مشتمل تھا۔ غلامانِ خلافت کی طرف سے اس کا جواب دیا گیا کہ جس طرح حضرت خلیفہ اوّلؓ جماعت کے مطاع تھے اسی طرح آئندہ خلیفہ بھی مطاع ہوگا۔ اُس وقت حضرت مرزا بشیرالدین صاحبؓ نے منکرینِ خلافت سے کہا کہ اس وقت سوال کسی کی ذات کا نہیں، اگر آپ لوگ خلافت کے اصول کو تسلیم کرلیں تو ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر عہد کرتے ہیں کہ مومنوں کی کثرتِ رائے سے جو بھی خلیفہ منتخب ہوگا ہم اُس کی خلافت کو قبول کریں گے۔ لیکن منکرینِ خلافت نے ہر قسم کے سمجھوتے کو ردّ کردیا۔

14؍مارچ 1914ء کو قریباً دو ہزار احمدی مسجد نُور میں بعد نماز عصر انتخاب خلافت کے لیے جمع ہوئے تو پہلے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی وصیت پڑھ کر سنائی۔ پھر مولانا محمد احسن صاحب امروہیؓ نے تقریر کی اور حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کو مقامِ خلافت کا اہل قرار دیا۔ اس پر ہر طرف سے تائید کی آوازیں بلند ہوئیں تو مولوی محمد علی صاحب نے کچھ کہنا چاہا لیکن لوگوں نے اُنہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ جب آپ خلافت کے ہی منکر ہیں تو ہم کس طرح آپ کی بات سنیں۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے کچھ تأمل کیا لیکن لوگوں کا اصرار دیکھ کر بیعت لینے کے لیے ہاتھ بڑھادیا۔

اگرچہ جمہور نے خلافتِ ثانیہ کی بیعت کرلی لیکن منکرینِ خلافت نے جو جماعت کے اہم عہدوں پر قابض تھے، ابلاغ و اشاعت کے ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے سارے ہندوستان میں نظام خلافت کی تردید میں ایک خطرناک پراپیگنڈہ مہم شروع کردی کہ خلافت کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ بھی لکھا کہ حاضرین میں سے نصف کے قریب لوگوں نے بیعت نہیں کی۔

جب یہ لوگ اپنی اس کوشش میں ناکام ہوگئے تو پھر حضرت خلیفہ اوّلؓ کے بیٹے مولوی عبدالحئی صاحب کے پاس پہنچے اور کہا کہ اگر آپ خلیفہ بن جاتے تو ہم آپ کی اطاعت کرتے۔ انہوں نے کہا: یا تو آپ کو آپ کے نفس دھوکا دے رہے ہیں یا آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ اگر مَیں خلیفہ بنتا تب بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے۔ اطاعت کرنا آسان کام نہیں۔ مَیں اب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہرگز نہ مانو۔ اس پر اُن میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں پھر دیکھیں کہ ہم آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں یا نہیں؟ مولوی صاحب نے کہا کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو مَیں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جاؤ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی بیعت کرلو۔ یہ بات سن کر وہ بغلیں جھانکتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ تو نہیں ہوسکتا۔

جب قادیان میں چار پانچ اشخاص کے علاوہ باقی سب بیعت کرچکے تو منکرینِ خلافت نے لاہور کو اپنا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا اور مولوی محمد علی صاحب یہ بہانہ بناکر کہ گرمی کے سبب پہاڑ پر ترجمۂ قرآن کا کام کرنے کے لیے جا رہا ہوں اور اس کے لیے حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں ہی مَیں نے انجمن سے رخصت لے رکھی تھی۔ پھر چند ماہ رخصت کے بہانے مولوی صاحب قادیان سے گئے اور اپنے ہمراہ تین ہزار روپے کا سامان (کتب اور ٹائپ رائٹر وغیرہ) بھی لے گئے جو بعد میںو اپس کرنے سے انکار کردیا۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے اپنے شاگرد خواجہ کمال الدین صاحب کو ایک خط میں یاد دلایا کہ حضرت مسیح موعودؓ کا رؤیا ہے کہ مَیں اور مولوی نورالدین صاحب مسجد میں ہیں کہ خواجہ کمال الدین دیوانوں کی طرح مجھ پر بار بار حملہ کرنے کے لیے دوڑتا ہے اور سر سے ننگا ہے۔ تب مَیں نے حکم دیا کہ اس کو مسجد سے نکال دیا جائے۔

حضرت مولوی راجیکی صاحبؓ نے خواجہ صاحب کو مزید لکھا کہ آپ نے مجھے غالباً 1910ء میں فرمایا تھا کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک ریل گاڑی اپنی لائن پر بڑی خوبی کے ساتھ جا رہی ہے اور اس کے مقابل ایک اَور گاڑی کو مَیں نے ایک واہن (باہی ہوئی زمین) میں ڈال کر چلانا چاہا ہے۔ اس نظارہ کے بعد آنکھ کھل گئی۔ یہ رؤیا بھی آپ کے لیے بہت بڑی حجّت ہے۔ آپ کا واہن میں گاڑی کو چلانے کے لیے ڈالنا جس ناکامی اور نامرادی کی خبر دیتا ہے وہ واقعات کی تصدیق سے ظاہر ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے نظامِ خلافت سے وابستہ احمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے اشتہار بعنوان ‘‘کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے؟’’ (مطبوعہ 1914ء) میں فرمایا تھا:

‘‘تم جو اپنے آپ کو اتحاد کی رسّی میں جکڑ چکے ہو خوش ہوجاؤ کہ انجام تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ تم خدا کی ایک برگزیدہ قوم ہوگے اور اس کے فضل کی بارشیں انشاء اللہ تعالیٰ تم پر اس زور سے برسیں گی کہ تم حیران ہو جاؤگے۔’’

پس آج خداتعالیٰ کی فعلی شہادت حضرت مصلح موعودؓ کی ایک سو سال پہلے کی جانے والی پیشگوئی کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

………٭………٭………٭………

تیزابیت اور الکلیت کے ہمہ گیر مظاہر

ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ فروری 2011ء میں ایک آیتِ قرآنی میں پوشیدہ سائنسی حقیقت کے حوالہ سے شائع ہونے والے ایک علمی مضمون میں مکرم محمود احمد اشرف صاحب نے تیزابیت اور الکلیت کی خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے۔

تیزاب کو انگریزی میں ایسڈ (Acid) کہتے ہیں جو لاطینی میں کھٹے کے معانی دیتا ہے۔ کائنات میں (خصوصاً زندہ اجسام میں) جو کیمیائی طور پر توڑپھوڑ کا عمل جاری ہے اُس کا ایک باعث تیزابیت بھی ہے مثلاً معدہ میں غذا کو سادہ تر اجزاء میں توڑنے کے لیے بھی ایک تیزاب استعمال ہوتا ہے تاکہ وہ ہضم ہوجائے۔ چونکہ اس ضروری عمل کے مضر اثرات بھی ہوسکتے ہیں مثلاً اگر معدہ میں تیزاب زیادہ مقدار میں ہو تو معدہ کی دیواروں کو زخمی کرکے السر کردے گا۔ چنانچہ تیزاب کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کا بھی اللہ تعالیٰ نے انتظام کررکھا ہے۔

تیزاب کی طرح بعض دیگر کیمیائی مرکبات بھی کاٹنے، جلانے اور توڑنے کا کام کرتے ہیں لیکن اپنی مخصوص صفات کی وجہ سے الکلائی (alkali) کہلاتے ہیں مثلاً صابن وغیرہ۔ دونوں کیمیائی مادوں کی ایک صفت ایک دوسرے کے اثر کو زائل کرنا بھی ہے۔ چنانچہ شہد کی مکھی کاٹتی ہے تو جِلد میں ایک تیزاب داخل کرتی ہے جس کی جلن کو صابن سے کم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بِھڑ کاٹے تو وہ جسم میں الکلائی داخل کرتی ہے اور اس کی جلن کو زائل کرنے کے لیے کوئی تیزاب مثلاً سرکہ وغیرہ لگایا جاسکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ تیزابیت اور الکلائیت، دونوں مادوں کا لازمی جزو ہائیڈروجن ہے جو کائنات کا سب سے چھوٹا عنصر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں تیزابیت اور الکلائیت کا توازن برقرار رکھنے کا خاص انتظام کیا ہے کیونکہ اس کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے۔ تیزابیت اور الکلائیت کی پیمائش کے لیے پی ایچ سکیل بنائی گئی ہے جو 1 سے 14 تک ہوتی ہے۔ پی ایچ کا مطلب ہے Power of Hydrogen۔ چنانچہ جس محلول کا پی ایچ 7 ہوگا وہ نیوٹرل ہوگا جبکہ اس سے کم تیزابیت اور 7 سے زیادہ الکلائیت کی نشاندہی کرے گا۔ چنانچہ نمبر جتنا کم ہوگا تیزاب اُتنا ہی طاقتور ہوگا اور الکلائی کا نمبر جتنا بڑا ہوگا وہ اُتنی ہی طاقتور ہوگی۔ چنانچہ لیموں کا تیزاب طاقتور ہے جس کی پی ایچ 2.5 ہے۔ سرکہ کی 2.9، مالٹے کے جوس کی 3.2 اور چائے کی 5.2 ہے۔ جبکہ شہد کی 4.5سے 3.2 تک ہوتی ہے جو کئی قسم کے بیکٹیریا کی افزائش کو روک دیتی ہے۔ اور دودھ کی پی ایچ 6.8 ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ سورۃ النحل آیت 67 میں فرماتا ہے کہ ‘‘تمہارے لیے چارپایوں میں یقیناً نصیحت حاصل کرنے کا ذریعہ (موجود) ہے۔ جو کچھ اُن کے پیٹوں میں ہوتا ہے اس میں سے یعنی گوبر اور خون کے درمیان سے ہم تمہیں پینے کے لیے صاف دودھ مہیا کردیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار (اور) گلے سے آسانی سے اُترنے والا ہوتا ہے’’۔ یہاں لذّت کا ذکر نہیں ہے بلکہ گلے سے باآسانی اُترسکنے کی خصوصیت (سَائِغًا) کا ذکر ہے۔ دراصل اس میں دودھ کی پی ایچ کے نیوٹرل کے قریب ترین ہونا مراد ہے۔ کیونکہ دیگر مشروبات میں تیزابیت کے نتیجہ میں منہ اور گلے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بلکہ دانتوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ بعض لوگوں کا گلا کھٹی اشیاء کھانے سے فوری خراب ہوجاتا ہے جس کی وجہ وہ تیزابیت ہے جو گلے کی جھلی (Epithilium) کو توڑ دیتی ہے۔ اس جھلّی کو دفاعی لائن بھی کہا جاتا ہے جس کے ٹوٹنے پر جراثیم کی اندرونی اعضاء تک رسائی ہوجاتی ہے۔

ان تمام شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تیزاب منہ اور حلق اور غذا کی ساری نالی کے لیے نقصان کا باعث ہے جبکہ تمام مشروبات میں سے صرف دودھ ہی ہے جو تیزابیت اور الکلائیت کے اعتبار سے قریباً نیوٹرل ہے۔ شاید اس لیے بھی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ دودھ گلے کے لیے خوشگوار ہے۔

………٭………٭………٭………

ہفت روزہ ‘‘بدر’’ قادیان 6؍اکتوبر 2011ء میں مکرم چودھری محمد علی مضطرؔ صاحب کا کلام شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں :

مشتعل ہے مزاج کانٹوں کا

کیجیے کچھ علاج کانٹوں کا

گُل بھی کچھ مسکرا رہے ہیں بہت

کچھ ہے برہم مزاج کانٹوں کا

اپنی سچائی کی گواہی دی

پہن کر اس نے تاج کانٹوں کا

اُس گُلِ منتخب کے کِھلتے ہی

بڑھ گیا احتجاج کانٹوں کا

’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘

ہے مرض لاعلاج کانٹوں کا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button