صحت

ذہنی صحت(قسط نمبر 4)

(ڈاکٹر امۃ السلام سمیع۔ یوکے)

Anxiety کی اگلی سٹیج ڈپریشن یا مایوسی ہے۔ جس میں پریشانی، سٹریس، انگزائٹی، گھبراہٹ سب کی علامات موجود ہوتی ہیں۔ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ اس مرحلے پر محتاجی کی زندگی ہوتی ہے۔
Depression کہتے ہیں

D=Down

E=Ego

P=Pain

R=Rough

E=Emotional

S=Sad

S=Silent

I=Insecure

O=Obstructive Breathing

N=Nervous

یعنی ایسا شخص کم ہمت، افسردہ، غیر حقیقت پسندانہ خیالات کا حامل، جسمانی دردوں کا شکار، بے برتیب سوچیں رکھنے والا، اداس، خاموش اور اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال رکھنے والا ہوتا ہے۔ اپنے پیاروں کو ہی اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ اس میں جسمانی علامات جیسے سانس رکنا، دِل تیز دھڑکنا یا محسوس کرنا کہ دل کی حرکت بند ہو گئی ہے ان کے علاوہ ہوتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انسان صرف تنزل کی طرف مائل ہوتا ہے اور اپنی ذات اور گرد و پیش میں بسنے والے لوگوں کے لیے ایک لحاظ سے خطرہ بن جاتا ہے۔

جیسے کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ذہنی بیماریاں عورتوں اور مردوں ہر عمر کے کسی بھی حصہ میں اثر کر سکتی ہیں۔ اب ہم تھوڑی سی بات خواتین کے بارے میں کرتے ہیں۔

خواتین اور بچیوں میں پریشانی اور سٹریس کی ایک وجہ ہارمونز کی تبدیلی بھی ہوتی ہے۔ جیسے ماہواری کے شروع ہونے کے وقت، اس سے پہلے اور فورا ًبعد، حمل اور بچے کی پیدائش کے بعد، Menopause کے شروع ہونے اور پھر اس کے بعد کچھ عرصہ تک علامات کمی بیشی کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔ اس دوران اگر عورتوں اور بچیوں میں اکیلے پن کا احساس آ جائے تو ذہنی بیماریاں بہت تیزی سے ان پر اثر کر سکتی ہیں۔

ہمارا اعصابی نظام ہر لحاظ سے کامل اور بہترین ہے ۔اس کا سٹرکچر بنیادی طور پر ایک ہی ہے لیکن جسم کے ہر حصے میں یہ اس کے مزاج اور ضرورت، حالات، ماحول وغیرہ کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے۔ جسم میں ہارمونز اور انزائمز کا پیچیدہ قدرتی نظام ہمارے جسم کو کئی قسم کے نقصانات سے بچالیتا ہے۔ قدرت نے انسان کے جسم کے ہر کام کے لیے ایک ٹائم ٹیبل بنا رکھا ہے مثلاً یہ کہ بچیوں کو کب ماہواری شروع ہو گی یا خواتین کو کس عمر میں جا کر Menopause ہو گا، ماں کب تک اپنے نوزائدہ بچے کو دودھ پلا سکے گی وغیرہ۔لیکن بعض خواتین از خود ہربل یا ہومیوپیتھی دوائیں لے کر ان تبدیلیوں کے وقت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں اور دماغ کے اندر سیٹ باڈی کلاک یا قدرتی طور پر جسم کے اندر ترتیب دیے گئے نظام کوا ن ہار مونز سے بھری دوائیوں سے بدل دیتی ہیں یا بدلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کام کے لیے ان کا ذہن بالکل تیار نہیں ہوتا۔ چنانچہ ایسی دوائیں بنیادی طور پر جسم کے ذہنی اور جسمانی نظام پر شدّت سے اثر انداز ہوسکتی ہیں اور جسم کی اندرونی غیر ضروری تبدیلیاں مستقل بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔اگر آپ کو اپنے یا اپنی کسی قریبی عزیزہ کے بارے میں ایسی کوئی بھی فکر ہے تو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں ،خود سے اپنا معالج بننے سے بہت سے نقصانات ہونے کا اندیشہ ہے۔

اسی طرح حمل کے دوران اور بچے کی پیدائش کے بعد بعض دفعہ ماں میں ایک غیر ضروری، بہت زیادہ احساسِ ذمہ داری پیدا ہو جاتا ہے جسے Postnatal Depressionیعنی بچوں کی پیدائش کے بعد کا ڈپریشن یا مایوسی کا دورہ ہونا کہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے، اس کے احسان کو مدنظر رکھ کر اتنے اعلیٰ یعنی ‘ماں’ کے درجے پر فائز ہونے پر عورت کو پریشانی نہیں، خوشی ،سکون اور حو صلہ ہونا چاہیے اور اکثر اوقات ایسا ہی ہوتا ہے۔

ماں بننے کے بعد عورت کو بہت سپورٹ ، حوصلے اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے جو مہیا کرنا اس کے خاوند اور پھر افرادِ خانہ کا کام ہے تاکہ اس کو احساس ہو کہ وہ اکیلی نہیں ہے۔ سسرال چاہے عورت کا ہو یا مرد کا ایک حد تک اجنبیت کا احساس رکھتا ہے۔ چاہے شادی اپنے رشتہ داروں میں ہی ہو کیونکہ شادی اور بچے کی پیدائش اور ماں اور بچے کا تعلق بالکل نیا ہوتا ہے۔ مد اور عورت دونوں کے لیے سسرال کے ساتھ پیار، عزت اور احترام کا باہمی رشتہ زندگی کی ایک نعمت سے کم نہیں۔ اگر دونوں میں سے ایک بھی اس رشتے کی اہمیت کو بھلا کر اپنی الگ دنیا بساتا ہے تو لاشعوری طور پر اس کا لاشعور اسے غلطی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ نتیجۃً بعض اوقات کچھ عرصے بعد ذہنی اور جسمانی بیماری پریشانی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اگر اس پیارے رشتے کی حقیقت کو سمجھ کر قدم اٹھائے جائیں تو زندگی کے سارے مراحل بغیر کسی کمی بیشی یا رکاوٹ کے حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔

یہ بات سائنسی طورپر ثابت شدہ ہے کہ مردوں اور عورتوں میں سٹریس سہنے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔ مردوں کی 90-80 فیصد سے زیادہ تعداد پریشانی کو اپنے پر طاری نہیں کرتی اور ہر مشکل وقت کے حل ہو جانے پر یقین رکھتی ہے۔ اگر ان کو احساس ہو جائے کہ اس پریشانی کو حل کرنا ضروری ہے تو وہ اپنے ذہن میں فیصلہ کر لیتے ہیں جو بالعموم جذباتی نوعیت کا ہونے کی بجائے پریکٹیکل ہوتا ہے۔ اس فیصلے پر پھر حالات اثر انداز نہیں ہوتے۔ عام طور پر مردوں میں کوئی غلط فیصلہ لے لینے کے بعد احساس افسردگی بھی حد سے زیادہ نہیں ہوتا۔ مردوں میں ماضی کی غلطیوں کو بھلا کر آگے بڑھنے کی طاقت عورت سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ باتیں یا نتائج جو بیان کیے گئے ہیں ان کو ایک بہت بڑی ریسرچ کے بعد اخذ کیا گیا ہے۔ انسان کا کلچر،حالات،خطے کے اثرات وغیرہ اس کی عادات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

عورتوں کی زندگی میں جذبات کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ عورت تو جیسے جذبات اور احساسات کا مرقع ہے۔ اس میں اس قدر جذبات اس لیے پائے جاتے ہیں کیونکہ اس نے بہت سے رشتوں کو جنم دینا اور ان کو ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھنا ہوتا ہے۔ یہ تعلق پھر عورت کو‘کمزور’ بھی بنا دیتا ہے۔ ایک ماں،بیٹی، بہن، بیوی ہر وقت اپنے قریبی عزیزوں کی خاطر قربانی کے لیے تیار رہتی ہے۔ پھر وہ نیک نیّتی سے اس غلطی کا بھی شکار ہو سکتی ہے کہ پریشانیوں کا جو حل اس کی سوچ کے مطابق ہے وہی بہترہے چاہے حقیقت اس کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ میرے خیال میں مرد اور عورت کے بارے میں مذکورہ بالا تحقیق ایک حد تک ہی درست ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق عورتیں زیادہ تر کمزور فیصلے کرتی ہیں مگر تاریخِ اسلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کے ساتھ ساتھ ایسی خواتین بھی گزری ہیں جنہوں نے اپنے وقت کے بہت بڑے اور بے مثال فیصلے لیے۔

چاہے کوئی مرد ہو یا عورت فیصلہ حقیقت پسندانہ، وسائل اور حالات کے مطابق ، اپنے ماضی کے تجربات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر دعا اور خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس میں برکت ڈال دیتا ہے۔ فیصلہ غیر حقیقت پسندانہ نہیں ہونا چاہیے۔ دانستہ غلطیاں کرنا ناکامی اور پھر بالآخر ذہنی بیماریوں کی طرف لے جاتا ہے ۔

صحت مند زندگی بہت قیمتی چیز ہے۔ یہ قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے! اس کی قدر کریں۔اس کہاوت پر پورا یقین رکھیں کہ زندگی زندہ رہنے کے لیے ہے اور یہ صرف بہتری کی طرف جاتی ہے چاہے آپ نادانستہ کتنا ہی برا فیصلہ کر لیں۔

اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ فکر، پریشانی ،سٹریس، گھبراہٹ اور انگزائٹی کے دورے ، ڈپریشن اور شدید ذہنی بیماریاں سب ایک دوسرے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگر شروع میں ہی توجہ دی جائے تو ایک بیماری بڑھ کر دوسری میں تبدیل نہیں ہوتی ۔ علاج کے لیے اپنی فکر یا پریشانی کی وجہ جاننا بنیادی عمل ہے۔ اگر انسان کو خدانخواستہ کسی کام میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس کی وجہ جاننے کی کوشش کریں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنی ہمت سے بڑھ کر غیر حقیقی خواہشات کے پیچھے چل پڑےہیں؟ اپنی خواہشات کے معیار اپنی ہمت ، طاقت ، حالات اور کوشش کے مطابق قائم کریں۔ یاد رکھیں اگر آپ پریشانی دور نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنا رویہ تو بدل سکتے ہیں۔ اپنے ذہن اور جسم کو یقین دلا سکتے ہیں کہ آپ ایک اچھی تبدیلی لانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے وقت گزرنے کے ساتھ مثبت تبدیلی آجائے گی۔ یاد رکھیے ہر دکھ کا سب سے بڑا مرہم وقت ہے۔ آپ ایسے تعلق، ایسے حالات کو بدلیں جن سے آپ پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس بات کو ذہن نشین کریں کہ پریشانیاں آپ کو کنٹرول نہ کریں۔ یقین رکھیں کہ تکلیف یا پریشانی کو ٹھیک ہونے میں شاید کچھ وقت لگ جائے لیکن یہ اپنے وقت پر ٹھیک ہو جائے گی، بس اپنی استطاعت کے مطابق اس پریشانی یا تکلیف سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔ مثبت سوچ کے ساتھ کیے جانے والے مثبت کام اور سب سے بڑھ کر دعائیں خدا کے فضل کو کھینچ لاتی ہیں اور حالات بہتری کی طرف مائل ہونے لگتے ہیںاور پھر مثبت رویّہ آپ کو بیماریوں سے بچائے رکھتا ہے جبکہ منفی رویہ انسان کو نہ صرف مزید پریشان کر دیتا ہے بلکہ انسان کو ذہنی بیماریوں کی طرف دھکیل دیتا ہے جن کی بھول بھلیوں سے واپس آنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

اگر خدانخواستہ آپ کو مستقل یا لمبی پریشانی کا سامنا ہے اور اس تکلیف سے گزرنا آپ کو مشکل لگے یا اس کی وجہ سے آپ کو جسمانی تکلیفیں ہونے لگیں تو وقت ضائع نہ کیجیے، اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کیجیے۔ اپنی بیماری کی علامات کو نہ چھپائیے۔ بیماری کو تسلیم کر لینا اس کے علاج کو بہت آسان بنا دیتا ہے۔ ذہنی بیماری اگر دبائی جائے تو یہ زیادہ شدت سے ابھرکرآتی ہے۔ بیماری کے شروع میں ہی اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ اپنے گھر والوں سے مدد لیں۔ اگر بیماری کی علامات آپ کی روزمرّہ زندگی پر اثر کر رہی ہوں تو علاج سے غفلت نہ کریں۔

آپ کی زندگی میں panic attacksآپ کے اندرونی طور پر بیمار ہوتے ہوئے نارمل زندگی گزارنے کی کوشش کے دوران ہوتے ہیں جب آپ غیر محسوس طریقے سے اپنی پریشانی کا اثر زیادہ لے لیتے ہیں کیونکہ آپ معمول کی زندگی کے کام تو کر رہے ہوتے ہیں مگر لاشعوری طور پر آپ اپنی پریشانی کا حل سوچ رہے ہوتے ہیں ۔اور اگر آپ کا ذہن حل ڈھونڈنے میں ناکام ہو جائے تو اس کی ناکامی کا احساس خوف میں ڈھل جاتا ہے۔ پھر جیسا کہ پچھلی اقساط میں بیان کیا گیا اس بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں اور ابتدائی طور پر آپ کو پتہ بھی نہیں لگتا اور آپ کا سانس تیز چلنے لگتا ہے۔ یہ نارمل گہرا سانس نہیں ہوتا۔ جب سانس اتنا تیز چلتا ہے تو وہ دل کے کام پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ وہم ہونے لگتا ہے گویا دل کی بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگی ہیں۔ خوف کا عنصر بہت نمایاں ہو جاتا ہے اور جسم Fight or Flight‘لڑنے یا بھاگ جانے’ کے لائحہ عمل پر کام شروع کر دیتا ہے۔ ان علامات کی شدت مریض کو بے ہوش بھی کر سکتی ہے۔ بعض لوگوں کو جسم اکڑنے کی شکایت ہو سکتی ہے۔ چکرآ سکتے ہیں۔متلی کی شکایت، الٹی کا آنا، نروس ہونا اور کنفیوژن میں مبتلا ہونا بھی اس کی علامات میں شامل ہیں۔ ایسے مریض کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے ۔سمجھ داری اس بات میں ہے کہ آپ اس گھبراہٹ کی حالت یا hyperventilation کو پہچانیں۔ اوراگر آپ کو بلاوجہ تیز تیز سانس آنے کی علامات بار بار ظاہر ہوں تو اس کی ڈاکٹر سے تشخیص کروائیں۔

ایسی صورت میں اپنے آپ کو سنبھالیں اور حوصلہ دلائیں کہ آپ ٹھیک ہیں۔ پانی پی لیں۔ تھوڑی واک کر لیں ۔ جو کام کر رہے ہیں اس پر زیادہ توجہ دینے کی کوشش کریں۔ اگر گھر میں ہیں تو نہا لیں یا کام تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیں۔ یہ سوچ کر کچھ انتظار کر لیں کہ طبیعت کچھ خراب ہے۔ اپنی پریشانی کو پہچانیں اور سوچیں کہ مسئلہ کیا ہے ۔ فوراًکوئی مثبت یا اچھی بات سوچیں، زندگی کی کسی خوبصورت یاد ، کسی خوبصورت لمحے کو تصور کرنے کی کوشش کرنے لگیں، کوئی بھی مثبت کام کریں ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button