خلاصہ خطبہ جمعہ

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابہ کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشیں تذکرہ

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍اگست 2019ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن (سرے)، یوکے

تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج میں صحابہ کا ذکر کروں گا۔ جو پہلا ذکر ہے وہ حضرت قتادہ بن نعمان انصاری کا ہے۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلے خزرج کے خاندان بنو ظفر سے تھا۔ آپؓ حضرت ابو سعید خدریؓ کے اخیافی بھائی اور آنحضورﷺ کے مقرر کردہ تیر اندازوں میں سے تھے۔ حضرت قتادہؓ کو غزوہ ٔبدراور احد سمیت دیگر تمام غزوات میں شمولیت کی توفیق ملی۔ احد کے روز رسولِ خداﷺ کی طرف چلائے جانے والے تیروں میں سے ایک تیر آپؓ کی آنکھ پر لگا جس سے آنکھ کا ڈیلا باہر آگیا۔ قتادہؓ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپؐ نے اپنا لعابِ دہن اُس آنکھ پر لگایا تو وہ دونوں آنکھوں میں سے حسین تر ہوگئی۔ آپؓ 65 سال کی عمر میں 23 ہجری میں فوت ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے مدینے میں اِن کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔

ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی ایک کمان جس کا نام کتوم تھا ،احد کے روز حضرت قتادہؓ کے ہاتھ سے کثرتِ استعمال سے ٹوٹی تھی۔

حضورِ انور نے حضرت قتادہ سے مروی ایک طویل روایت پیش فرمائی جس میں انصار سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان بنو ابیرق کا ذکر تھا۔ اس خاندان کا ایک فرد بشیر بظاہر مسلمان تھا لیکن اشعار کے ذریعےرسول اللہﷺ کے صحابہ کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس خاندان نے ایک مرتبہ حضرت قتادہ کے چچا رفاعہ بن زید کے گودام میں نقب لگا کر غلّہ اور ہتھیار چرا لیے۔ حضرت قتادہؓ اپنےچچا کے کہنے پر یہ شکایت لےکر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایاکہ میں اس بارے میں مشورے کےبعد کوئی فیصلہ کروں گا۔ جب یہ خبر بنو ابیرق نے سنی تو وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ قتادہ اور ان کے چچا ہم پر بغیر کسی ثبوت اور گواہ کے چوری کا الزام لگارہے ہیں۔ اس پر آپؐ نے قتادہؓ سے فرمایا کہ تم لوگ ایک مسلمان گھرانے پر بغیر کسی ثبوت کے الزام لگا رہے ہو۔ قتادہؓ کہتے ہیں کہ میں واپس آگیا اور بہت دل گرفتہ ہوا کہ کاش مَیں تھوڑے سے مال سے محروم ہونا گوارا کرلیتا لیکن رسول اللہﷺ سے بات نہ کرتا۔ قتادہؓ نے اپنے چچا کو ساری روئیداد سنائی تو انہوں نے کہا کہ اللہ ہی ہمارا مددگار ہے ہماری اس بات چیت کے تھوڑے عرصے بعد قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں۔

حضورِ انور نے آیاتِ قرآنیہ اور ان کے تراجم پیش کرنےکے بعد فرمایا کہ آیات کے اَور بھی بڑے مطالب ہیں۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے حقیقت آشکار فرمادی۔ بنو ابیرق نے بھی یہی سمجھا کہ یہ آیات ہمارے بارے میں ہی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے چوری تسلیم کرلی اور چوری شدہ مال آنحضورﷺ کے پاس لےآئے۔ قتادہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ سارا مال میرے بوڑھے چچا رفاعہ کو واپس ملا تو انہوں نے اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔

حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ قتادہؓ نے ایک مرتبہ سورہ اخلاص پر ساری رات گذاری، یعنی ساری رات سورہ اخلاص پڑھتے رہے۔ جب رسول اللہﷺ کے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپﷺ نے فرمایا کہ سورۃ اخلاص نصف یا تہائی قرآن کے برابر ہے۔

حضورِ انور نے ابو سلمہ سے مروی حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت پیش فرمائی جس میں آپؐ کے اس ارشاد کا ذکر ہے کہ جمعے کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اس وقت نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ سے خیر کا سوال کرے تو اللہ اسے ضرور عطا فرمادیتا ہے۔ حضورِ انور نے مسند احمد بن حنبل کے حوالے سے اس روایت کی بعض تفاصیل پیش فرمائیں۔ اس کے ساتھ حضورِ انور نے حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اقتباس بھی پیش فرمایا۔ جس میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے جمعے اور رمضان کے درمیان یہ مشابہت بیان فرمائی ہے کہ جمعے کادن قبولیتِ دعا کا دن ہے اور رمضان بھی قبولیتِ دعاکا مہینہ ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص نماز کےلیے مسجد میں آجائے اور خاموشی سے ذکرِ الٰہی میں لگا رہے، امام کا انتظار کرے اور بعد میں اطمینان کے ساتھ خطبہ سنے اور نماز باجماعت میں شامل ہوتو اس کے لیے خاص طور پر خداتعالیٰ کی برکات نازل ہوتی ہیں۔ پھر ایک گھڑی جمعے کے دن ایسی بھی آتی ہے کہ جس میں انسان جو دعابھی کرے قبول ہوجاتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ دعائیں وہی قبول ہوتی ہیں جو سنت اللہ اور قانونِ الہٰی کے مطابق ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان مسلسل اس عرصے میں بغیر توجہ ہٹائے دعا میں لگا رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جمعے کی برکات کوحاصل کرنے کےلیے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔

دوسرے جن صحابی کا حضورِ انورنے ذکر فرمایا وہ عبداللہ بن مظعونؓ تھے۔ آپؓ کا تعلق قریش کے قبیلے بنو جمح سے تھا۔ آپؓ عثمان، قدامہ اور سائب بن مظعون کے بھائی تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپؓ نے رسول اللہﷺ کےدارِ ارقم میں جانےسے پیشتر ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ آپ تمام بھائی حبشہ ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے۔ حضورِ انور نے ہجرتِ حبشہ اور وہاں کی مضبوط، عادل عیسائی حکومت کے متعلق بعض تفاصیل بیان فرمائیں۔ مہاجرینِ حبشہ کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ یہ افواہ اڑتی ہوئی اُن تک پہنچی کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں۔ مکّہ میں بالکل امن ہوگیا ہے۔ یہ مسلمانوں کو حبشہ سے واپس لانے کےلیےایک سازش تھی۔ مسلمان اس افواہ کو درست خبر سمجھ کر واپس آگئے۔ حضرت عبداللہ بن مظعون پہلی ہجرت میں واپس آگئے تھے ،دوبارہ واپس گئے یہ نہیں پتا۔

جب آپؓ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو حضورﷺ نے سہل بن عبیداللہ انصاری کے ساتھ آپؓ کی مؤاخات قائم فرمائی۔ آپؓ غزوہ بدر،احد اور خندق سمیت دیگر غزوات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔ عبداللہ بن مظعونؓ حضرت عثمان کے دورِ خلافت 30 ہجری میں بعمر 60 برس فوت ہوئے۔

آخر میں حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button