تعارف کتاب

’’برکات الدعا‘‘

(منصورہ باجوہ۔ جرمنی)

تعارف کتاب: برکات الدعا (روحانی خزائن ۔جلد ششم)

مصنف : سلطان القلم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی،
مسیح موعود ومہدی معہود علیہ الصلوٰۃو السلام

سن اشاعت : بار اول :اپریل 1893ء

تعداد صفحات: 23صفحات ۔زیر نظر ایڈیشن

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کو سلطان القلم کے آسمانی خطاب سے نوازا ہے حقیقت یہ ہے کہ آپ کے مبارک قلم سے ایسے عظیم الشان روحانی خزائن جاری ہوئے ہیں ۔جن کے ذریعہ لاکھوں کروڑوں مُردے زندگی کی طرف لوٹ آئے ۔ آپؑ فرماتے ہیں: ‘‘میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا۔اگر خدا تعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو۔بارہا لکھتے لکھتے دیکھا ہے ایک خدا کی روح ہے جو تیررہی ہے قلم تھک جایا کرتی ہے ۔مگر اندر جوش نہیں تھکتا طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔’’

(ملفوظات جلد2صفحہ483۔ایڈیشن 2003ء)

آپ ؑ کی دلی خواہش تھی کہ وہ آبِ حیات جو آپ کے مبارک قلم سے آپ کی کتابوں کی شکل میں دنیا کی روحانی اور علمی پیاس بجھانے کے لیے نکلا ہے ۔اس سے سارا عالم فیضیاب ہو۔یہی وہ روحانی خزائن ہیں جن کی بدولت خدا جیسے قیمتی خزانے پر اطلاع ملتی ہے۔ اور اس کا عرفان نصیب ہوتا ہے ۔ہر قسم کی علمی اور اخلاقی، روحانی اور جسمانی شفا اور ترقی کا زینہ آپ کی ہی تحریرات ہیں ۔آپ علیہ السلام کی تحریرات سے ایک جہان روحانی اور جسمانی احیا کی نوید سے مستفیض ہورہاہے ۔اور صدیوں کے مردے ایک بار پھر زندہ ہو رہے ہیں ۔

اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور بنی نوع انسان کی زندہ خدا کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔دنیا ئے مذاہب پر نظر ڈالنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے ۔جس کا نتیجہ وہ اپنے مالک حقیقی کو صفات سے معطل گمان کرتے ہیں ۔اور مختلف توہمات میں گرفتار ہیں ۔اور گمراہی شرک و بدیوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔اور آئندہ نسلوں کو بھی دہریت کی اندھیری کھائیوں میں دھکیل رہے ہیں۔ خداتعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے اسلام جیسے فطری مذہب کے ذریعہ اپنے وجود کا پتہ دیا۔اور نبی کریم ﷺ نے اس عظیم ہستی سے ہم کلام ہو کر دنیا کو دہریت سے نکال کر زندہ خدا کے آستانہ پر ڈال دیا۔

اس زمانہ میں پھر لوگ معبود حقیقی سے دور جا رہے ہیں غیرمذاہب کا تو کیا ذکر کیا جائے ۔اسلام کے ٹھیکیدار خداتعالیٰ کو اس کی ازلی صفات میں معطل قرار دے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک عالم دین سر سید احمد خان کے عقیدہ کہ دعا صرف عبادت ہی ہے اور اس کے نتیجہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اس کی اصلاح کی غرض سے اور دعا کی حقیقت سے واقف کرانے کے لیے مامور زمانہ سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے کتاب برکات الدعا تصنیف فرمائی اور مسلمانوں میں پنپ رہے اس دہریانہ عقیدہ کی اصلا ح فرمائی نیز خدا تعالیٰ کی ہستی کے دلائل ارشاد خداوندی۔ ادعو نی استجب لکم۔کی روشنی میں اپنی عملی زندگی سے پیش کئے ۔اور سر سید احمد خان کے فرسودہ عقائد کی مدلل رنگ میں تردید فرمائی۔ آپ ؑ نے دعا کی اہمیت افادیت و ماہیت بیان کر کے خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت پیش کئے کہ وہ خدا جوبظاہر نا ممکن نظر آنے والے حالات میں بھی اپنے بندوں کی ایسی غیبی مدد فرماتا ہے کہ دنیا دعا کے اثر کو دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتی ہے ۔انبیائے اکرام کی زندگیاں اس قسم کے قبولیت دعا کے واقعات سے معجزانہ رنگ رکھتی ہیں ۔اور سب سے بڑھ کر ایسے معجزات ہمارے پیارے آقا و مطاع نبی کریم ﷺ کی زندگی میں دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کس طرح آپ ؐ نے تن تنہا عرب کے بیابانوں میں علَم توحید کو بلند کیا اور خدا تعالیٰ نے دعا کے اس کارگر ہتھیار کے ذریعہ آپ کو فتح عظیم عطا فرمائی ۔ آپ کے غلام صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑکی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات نمایاں طور پر سامنے آتی ہے ۔کہ آپ کا اوڑھنا بچھونا دعا ہی تھااور آپؑ کا سارا انحصار محض اپنے رب کریم کی ذات پر تھا۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:‘‘نادان یہ خیال کرتا ہے کہ دعا ایک لغو اور بیہودہ امر ہے مگر اسے معلوم نہیں کہ صرف ایک دعا ہی ہے جس سے خداوندذوالجلال ڈھونڈنے والوں پر تجلی کرتا ہے۔اور انا القادر کا الہام ان کے دلوں پر ڈالتا ہے ہر ایک یقین کا بھوکا اور پیاسا یاد رکھے کہ اس کی زندگی میں روحانی روشنی کے طالب کے لیے صرف دعا ہی ایک ذریعہ ہے جو خداتعالیٰ کہ ہستی پر یقین بخشتا اور تمام شکوک و شبہات کو دور کر دیتا ہے۔’’

(‘‘ایام الصلح ’’ روحانی خزائن جلد 14صفحہ239)

سید نا حضرت مسیح موعود ؑنےمعرکہ آرا کتاب ‘‘برکات الدعا’’ اپریل 1893ء میں بمطابق رمضان المبارک 1310ھ تالیف فرمائی جو سر سید احمد خاں کے رسالہ ‘‘الدعا والاستجابہ’’ کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ آپؑ نے سرسید احمد خان کے دلائل کا معقولی اور منقولی رنگ میں رد کیا ۔اور خارجی وحی اور دعا کی قبولیت کے متعلق اپنے تجربات بیان کئے ۔ نیز اپنی کتاب میں سر سید احمد خان کے رسالہ ‘‘تحریر فی اصول التفسیر کا جواب’’ تحریر کر کے تفسیر کے سات معیار بیان فرمائے جن سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سر سید احمد خاں کی تحریر تفسیر کے معیار پر پوری کس حد تک اُترتی ہے۔

کتاب برکات الدعا کے شروع میں ‘‘نمونہ دعائے مستجاب’’ میں اخبار ہند میرٹھ اور ہماری پیشگوئی لیکھرام پشاوری پر اعتراض پر آپؑ نے بڑے ہی صاف صاف اور کھلے الفاظ میں جواب بیان فرمایا ہے۔ اور رسالہ کے آخر میں آپؑ نے پنڈت لیکھرام کے متعلق قبولیت دعا کا بھی ذکر کیا ہے ۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ سید صاحب دعا کی نسبت یہ عقیدہ ظاہر کرتے ہیں کہ استجابت دعا یعنی قبولیت دعا کے یہ معنی نہیں کہ جو کچھ مانگا جائے وہ دیا بھی جائے ۔ ہزاروں دعائیں نہایت عاجزی اور اضطراری سے کی جاتی ہے ۔مگر سوال پورا نہیں ہوتا ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ادعو نی استجب لکم۔(سورۃ المومن11)کہ مجھے پکارو میں تمہاری سنو ںگا۔ یعنی اگر مقدر میں وہ چیز ہےاور دعا بھی کی گئی ہے تو وہ چیز مل جاتی ہے ۔ اور یہ کہ جو مقدر نہیں ہے وہ نہیں ہونے کا تو دعا کا کیا فائدہ ہے ۔یعنی جب کہ مقدر بہرحال مل کررہے گا ۔خواہ دعا کرو یا نہ کرو۔ آپؑ نے فرمایا کہ اس تمام تحریر سےیہ پتہ چلتا ہے کہ سرسید صاحب کا یہی عقیدہ ہے کہ ‘‘دعا صرف عبادت کے لیے موضوع ہے اور اس کوکسی دنیوی مطلب کے حصول کا ذریعہ قرار دینا طمع خام ہے ۔’’ (صفحہ 7)

آپ ؑ نے نہایت خوبصورت اور مدلل الفاظ میں سر سید احمد خان کے نظریات ،عقیدہ کو رد کیا ۔اور استجابت دعا کی حقیقت کو کھول کر بیان کیا۔ آپؑ نے فرمایا:‘‘استجابت کا مسئلہ درحقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے۔اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیا ں ہوتی ہیں اور دھوکے لگتے ہیں ۔پس یہی سبب سید کی غلط فہمی کا ہے ۔’’

آپ علیہ السلام نے دعا کی ماہیت کے بارے میں بتایا کہ ‘‘دعا کی ماہیت یہ ہے کے سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق مجاذبہ ہے’’۔ یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس کے نزدیک ہو جاتا ہے۔اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے ۔سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے ۔اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیر تا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے۔پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے ۔وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ تب اللہ جل شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔اور اس دعا کا اثر ان مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لیے ضروری ہیں۔

(صفحہ 10)

مثلاً اگر بارش کے لیے دعا ہے تو دعا کی قبولیت کے لیے وہ اسباب دعا کے اثر سے پیدا ہوتے ہیں۔اور اگر قحط کے لیے دعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے ۔جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء ظہور میں آئے ہیں اور جو اولیاء عجائبات اور کرامت دکھلاتے رہے ہیں ۔وہ سب دعا ہی کی بدولت ہوا۔دعاؤں کے اثر سے ہی خدا تعالیٰ کی طاقت خلاف عادت معجزے دکھاتی ہے ۔

(ماخوذ ازصفحہ 10)


کائنات کے اس وسیع سمندر میں زندہ رہنے اور اپنی حفاظت کے لیے انسان ہمیشہ ایک بالا اور برتر ہستی کا محتاج ہے۔ غرض ہر ایک لمحہ انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگے رہنا چاہیے ۔یہی وہ نمونہ ہے جو ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد ﷺ نے ہمارے لیے قائم فرمایا اور جس کی ہمیں تعلیم دی۔ آپؐ ہر ایک لمحہ اور ہر ایک پل اپنے خدا کی یاد کو دل سے نہ نکلنے دیتے۔ یہی وہ عظیم الشان گُر ہے جو پھر عظیم ترقیات کا باعث بنا اور جس نے عرب کے بیابانی ملک میں ایک معجزہ کر دکھایا ۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں: ‘‘وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرہ گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے۔ اور پشتوںکے بگڑے ہوئے الہٰی رنگ پکڑگئے۔ اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا جانتے ہو وہ کیا تھاوہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں۔ جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں ۔اللّٰھمّ صلّ وسلّم وبارک علیہ والہ ٖ۔’’

یہ شبہ کہ بعض دعائیں خطا جاتی ہیں ۔ اس امر میں حضور نے فرمایا کہ اگر یہ شبہ ہو کہ بعض دعائیں خطا جاتی ہیں اور ان کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تو میں کہتا ہوں کہ یہی حال دواؤں کا بھی ہے کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے؟ یا ان کاخطا جانا غیرممکن ہے؟ مگر کیا باوجود اس بات کے کوئی ان کی تاثیر سے انکار کر سکتا ہے؟ یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں۔مثلاً اگر ایک بیمارکی تقدیر نیک ہو تو اسباب تقدیر علاج پورے طور میسر آجاتے ہیں۔ اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ اُن سے نفع اُٹھانے کے لیے مستعد ہوتا ہے تب دوا نشانہ کی طرح جاکر اثر کرتی ہے۔ یہی قاعدہ دعا کا بھی ہے یعنی دعا کے لیے بھی تمام اسباب و شرائط قبولیت اسی جگہ جمع ہوتے ہیں۔جہاں ارادہ الہٰی اس کے قبول کرنے کا ہے خدا تعالیٰ نے اپنے نظام جسمانی اور روحانی کو ایک ہی سلسلہ مؤثرات اور متاثرات میں باندھ رکھا ہے۔ پس سید صاحب کی سخت غلطی ہے کہ وہ نظام جسمانی کا تو اقرار کرتے ہیں مگر نظام روحانی سے منکر ہو بیٹھے ہیں۔

(صفحہ 11 ،12)

پھر آپ علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ سید صاحب کا یہ قول کہ گویا قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے حالانکہ تمام دعائیں قبول نہیں ہوتیں ۔آپ نے ان کی اس غلط فہمی کو آیت ‘‘ادعو نی استجب لکم’’اور دیگر قرآنی مثالیں دے کر بڑے پر شوکت الفاظ میں بیان فرمایا۔ فرمایا کہ‘‘جب تک اللہ تعالیٰ توفیق نہ دے دعا کی تمام شرائط کو انسان پورا کر ہی نہیں سکتا۔پس یہ بھی دعا ہی کا محتاج ہے ۔کہ اللہ سے دعا کرتا رہے کہ ہماری جتنی دعاؤں کی قبولیت کی شرائط ہیں ہمیں وہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔’’

آپ ؑ نے فرمایاکہ ‘‘دعا کرنے میں صرف تضرع کافی نہیں بلکہ تقویٰ طہارت اور راست گوئی اور کامل یقین اور کامل محبت اور کامل توجہ اور یہ کہ جو شخص اپنے لیے دعا کرتا ہے یا جس کے لیے دعا کی گئی ہے اس کی دنیااور آخرت کے لیے اس بات کا حاصل ہونا خلاف مصلحت الٰہی بھی نہ ہو……’’۔

مثلاً اگر کسی ماں کا پیارا بچہ بہت الحاح اور رونے سے یہ چاہے کہ وہ آگ کا ٹکڑایا سانپ کا بچہ اس کے ہاتھ میں پکڑادے یا ایک زہر جو بظاہر خوبصورت معلوم ہوتی ہے ،اس کو کھلادےتو یہ سوال اس بچہ کا ہر گز اس کی ماں پورا نہ کرے گی اور اگر پورا کردیوے اور اتفاقاًبچہ کی جان بچ جاوے لیکن کوئی عضو اس کا بیکار ہو جاوے تو بلوغ کے بعد وہ بچہ اپنی اس احمق والدہ کا سخت شاکی ہوگا اور بجز اس کے اور بھی کئی شرائط ہیںکہ جب تک وہ تمام جمع نہ ہوں اس وقت تک دعا کو دعا نہیں کہہ سکتے اور جب تک کسی دعا میں پوری روحانیت داخل نہ ہو اور جس کے لیے دعا کی گئی ہے اورجو دعا کرتا ہے ان میں استعداد قریبہ پیدا نہ ہو تب تک توقع اثر دعا امید موہوم ہے اور جب ارادہ الہٰی قبولیت دعا کے متعلق نہیں ہوتا تب تک یہ تمام شرائط جمع نہیں ہوتیںاور ہمتیں پوری توجہ سے قاصر رہتی ہیں۔

(صفحہ 14,13)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button