الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم مولوی منیر احمد خان صاحب

ہفت روزہ ‘‘بدر’’ 24؍نومبر 2011ء میں مکرم طاہر احمد طارق صاحب (زونل امیرو مبلغ انچارج جنیدزون) کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جو محترم مولوی منیر احمد خان صاحب زونل امیر و مبلغ انچارج کرنال ہریانہ کے ذکرخیر پر مبنی ہے۔ آپ 31؍اکتوبر 2011ء کی صبح وفات پاگئے۔

محترم مولوی منیر احمد خان صاحب 29؍مئی 1965ء کو مکرم جمعہ خان صاحب مرحوم سابق صدر جماعت پنکال (اڑیسہ) کے ہاں پیدا ہوئے۔ B.A. کرنے کے بعد 1988ء میں جامعہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوئے اور 1996ء میں کامیابی کے بعد ہریانہ کے ضلع جنید کی جماعت لونؔ میں تقرری ہوئی۔ وہاں کے نومبائعین کی آپ نے ایسی تربیت کی کہ چار نوجوانوں نے زندگی وقف کرکے جامعۃالمبشرین اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا۔ 1997ء میں لونؔ میں ایم ٹی اے کا ڈِش انٹینا لگایا گیا تو غیراحمدیوں نے ہندوؤں کو اُکسایا کہ یہ دہشت گرد ہیں اور پاکستان کے پروگرام دکھاتے ہیں۔ اس پر آپ کو تھانے لے گئے۔ لیکن وہاں کے کئی معززین ہندو بھی تھانے چلے گئے اور کہا کہ اگر یہ دہشت گرد ہیں تو پھر ہم سب بھی دہشت گرد ہیں، ہمیں بھی تھانے میں رکھو۔

مرحوم کے دَور اور نگرانی میں لونؔ میں احمدیہ مسجد اور مرکز کی تعمیر ہوئی۔ 2001ء میں آپ کی تقرری ضلع یمنانگر میں بطور سرکل انچارج ہوئی۔ آپ کی کوشش سے ضلع بھر میں کئی نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور یمنا نگر میں خوبصورت مسجد اور مرکز کی تعمیر بھی ہوئی۔2003ء میں آپ کا تقرّر دہرہ دون میں ہوا۔ آپ کی کامیاب دعوت الی اللہ سے سینکڑوں افراد احمدیت میں داخل ہوئے اور کثرت سے زائرین قادیان لائے گئے۔ یہ علاقہ سہارنپور کے قریب ہے اور یہاں شدید مخالفت بھی ہوئی۔

2008ء میں خلافت جوبلی کے موقع پر مرحوم کو دہرہ دون میں پہلی پریس کانفرنس اور شاندار صوبائی کانفرنس (جلسہ پیشوایانِ مذاہب) منعقد کرنے کی توفیق ملی جس میں مختلف مذاہب کے لیڈران، پروفیسرز اور معززین شریک ہوئے۔ اخبارات میں اس کو بہت سراہا گیا۔ یہاں موصوف کو مسجد اور مرکز کے لئے زمین خریدنے کی توفیق بھی ملی۔

مرحوم کی کامیاب تبلیغی مساعی سے مخالفت اتنی شدّت اختیار کرگئی کہ 2008ء میں آپ کو اور ایک معلّم عبدالرحیم صاحب گوجر کو ملّاؤں نے حملہ کرکے قتل کرنے کی کوشش کی۔ دونوں شدید زخمی حالت میں پولیس کو ملے لیکن مُلّاؤں نے پولیس کے ساتھ مل کر اِن دونوں پر ہی خطرناک دفعات کا پرچہ کٹوادیا چنانچہ دونوں کوایک ہفتہ جیل میں بھی رہنا پڑا۔ جب یہ دونوں جیل میں گئے تو ان کے پاس کوئی رقم نہیں تھی اس لیے قواعد کے مطابق دونوں کو صفائی کے کام پر لگادیا گیا۔ لیکن جب نماز کا وقت آتا تو دونوں باجماعت نماز ادا کرتے اور کچھ غیرازجماعت بھی ساتھ شامل ہوجاتے۔ آخر اُن میں سے کسی نے جیل والوں کو کہا کہ یہ ہمارے امام ہیں اس لیے ان سے صفائی نہ کروائیں۔ جیل حکام نے یہ سہولت دینے کے بدلے دو سو روپے کا مطالبہ کیا۔ جب آپ کو بتایا گیا تو آپ نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی پیسہ ہی نہیں ہے۔ اس پر غیراحمدیوں نے دو سو روپے اپنی بیرک سے اکٹھے کئے اور جیل والوں کو دے دیے۔ اسی طرح ایک شخص جو جیل میں جانے سے پہلے کسی وقت آپ کے زیرتبلیغ رہا تھا، وہ بھی کسی مقدمہ میں جیل میں تھا۔ عام ضرورت کا سامان ٹوتھ برش وغیرہ اُس نے مہیا کردیا۔ آپ نے جیل میں بھی دعوت الی اللہ جاری رکھی۔ مَیں ملاقات پر گیا تو مجھ سے لٹریچر بھی منگوایا۔ ایک کٹر مُلّاں نے وہاں آپ کو کہا کہ تم اسی تبلیغ کی وجہ سے تو جیل میں پہنچے ہو اور اب بھی باز نہیں آتے۔

بوقت وفات آپ اُتراکھنڈ کے مبلغ انچارج تھے اور ساتھ ہی ہریانہ کے سرکل کرنال کے بھی انچارج تھے۔ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ اطاعت کا مادہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ قرآن کریم کی تلاوت باقاعدہ فیملی کے ساتھ مل کر کرتے، MTAبھی اکٹھے دیکھتے۔ اپنے بچوں کی حفظ کلاس بھی لگاتے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ کبھی مخالفت سے نہیں گھبرائے نہ کبھی غصّہ میں آتے۔ لیکن اگر کوئی حضرت مسیح موعودؑ کے بارے میں گندی زبان استعمال کرتا تو نہایت غیرت اور جوش سے مقابلہ کرتے۔

آپ بہت دعاگو تھے۔ خدا کے فضل سے سچے خواب دیکھتے۔ راقم الحروف کو اُن کے ساتھ کئی تبلیغی سفر کرنے کا موقع ملا۔ طبیعت میں نہایت سادگی اور عاجزی تھی۔ خوش دلی سے آنے والوں کا خیرمقدم کرتے اور ہر طرح مہمان نوازی کرتے۔ وفات کے دن بھی صبح تہجد اور نماز فجر ادا کی اور درس القرآن کے بعد معلّم صاحب کو کہا کہ ایک گھنٹہ آرام کرتے ہیں پھر تبلیغی سفر پر چلیں گے۔ لیکن کچھ دیر بعد چھاتی میں درد محسوس کی۔ ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے چیک کرنے کے بعد بتایا کہ نارمل ہیں صرف بلڈپریشر بڑھا ہوا ہے۔ ابھی ڈاکٹر کے پاس ہی تھے کہ اچانک حالت بگڑ گئی اور چند ہی منٹ میں وفات ہوگئی۔ جنازہ قادیان لے جایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ مرحوم نے بیوہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا یادگار چھوڑے ہیں۔

………٭………٭………٭………

مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ

ہفت روزہ ‘‘بدر’’ قادیان 4؍اگست 2011ء میں مکرم مولوی واحد احمد صدیقی صاحب (استاد جامعہ احمدیہ قادیان) دیوبند سے قادیان تک کی اپنی ہجرت پر روشنی ڈالتے ہیں۔

آپ رقمطراز ہیں کہ خاکسار 14؍جون 1967ء کو صوبہ بہار کے گاؤں الپورہ میں پیدا ہوا۔ گاؤں کے مدرسہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ لیکن اسی دوران اساتذہ کی بے جا سختی کی وجہ سے مَیں نے پڑھائی چھوڑ دی اور دو سال تک اپنی والدہ کی مارپیٹ برداشت کرتا رہا لیکن سکول کا رُخ نہ کیا۔ آخر مَیں نے جب ایک روز کہا کہ مَیں پڑھنا چاہتا ہوں لیکن گاؤں میں نہیں بلکہ کسی اَور جگہ جاکر پڑھوں گا تو سب نے مخالفت کی۔ اس پر مَیں گھر سے بھاگ کر اعظم گڑھ چلا آیا اور مدرسہ دارالسلام میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پہلے دو سالہ فارسی کا کورس مکمل کیا پھر دو سال میں عربی کا چار سالہ کورس مکمل کرلیا۔ اسی دوران مَیں نے ایک خواب میں ایک جم غفیر دیکھا۔ ان میں سے بعض نے مجھے بتایا کہ ہمارے راہنما حضور ہیں، ان کی بیعت کرلو۔

بعدازاں مَیں دارالعلوم دیوبند آگیا اور چار سالہ کورس مکمل کیا۔ یہیں مجھے احمدیت کے بارہ میں علم اس طرح ہوا کہ ہمارے ہاں ‘‘ردّ قادیانیت’’ کے موضوع پر ہرماہ جلسہ ہوا کرتا تھا جہاں عدم اجرائے نبوّت کی دلیلیں رٹائی جاتی تھیں۔ ایک دن ایک قادیانی لڑکا ابوالوفا بھی وہاں آگیا اور اُس نے جب اجرائے نبوّت پر دلائل دیے تو دوسرا گروہ ہکّابکّا رہ گیا۔ کرسیٔ صدارت پر میرے استاد مولوی عبدالرحیم بستوی بیٹھے تھے۔ وہ جلسہ کے اختتام پر کہنے لگے کہ اگرچہ ابوالوفا نے دلائل کے اعتبار سے تمہیں چُپ کرادیا ہے پھر بھی یہ مقامِ حیرت نہیںکیونکہ انجام کار حق کے مقابل باطل رُسوا ہوکر رہے گا جیسے ابلیس نے پہلے تو یہ کہا تھا کہ وہ آتشی ہے اور آدم خاکی۔ لیکن اس کا انجام بھی تمہارے سامنے ہے۔

جب مَیں نے یہ باتیں سنیں تو میری دلی خواہش تھی کہ کسی احمدی سے ملاقات ہو تو اُس سے معلومات حاصل کروں۔ جب مَیں نے آٹھ سالہ کورس چھ سال میں مکمل کرلیاتو چار سال تک سہارنپور میں درس و تدریس کا کام کیا پھر چھ سال سے مظفرپور میں مدرس تھا کہ کسی کام سے دیوبند آیا۔ یہاں ایک کتابچہ پڑھا تو ایسا محسوس ہوا کہ کسی فرشتے نے میری گردن پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا کہ قادیان کے لیے رختِ سفر باندھو۔ چنانچہ اگلی صبح مَیں قادیان کے لیے روانہ ہوگیا جبکہ مجھے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ قادیان پنجاب کے کس علاقے میں ہے۔ جالندھر پہنچ کر مَیں نے لوگوں سے قادیان کا ایڈریس معلوم کرنا چاہتا تو لاعلم لوگوں کے بتائے ہوئے مفروضوں پر تین دن مختلف سفر کرکے خوار ہوتا رہا اور آخر چوتھے دن ایک آدمی نے مجھے کسی سے پتہ کرکے صحیح راستہ بتایا تو مَیں بٹالہ سے ہوتے ہوئے ظہر کے بعد قادیان پہنچ گیا۔ لنگرخانہ میں کچھ کتب مجھے دی گئیں۔ وفات مسیحؑ پر حضرت مسیح موعودؑ کی تحریر کردہ دلیل میرے دل و دماغ پر اثرانداز ہوئی کہ جب فعل توفی کا فاعل خود اللہ تعالیٰ ہو تو موت کے سوا کوئی دوسرا معنی تصور نہیں ہوسکتا۔

حضرت مسیح موعودؑ کی ذات بابرکات کے متعلق یہ الہام کتنا پیارا ہے جو کہ ایک ایرانی صاحبِ دل مُلہم من اللہ کو حضور کی صحبت سے فیضیابی کے لیے ہوا تھا کہ ‘‘مقصود تو از قادیان حاصل می شود’’ یعنی تیرا مقصود تجھے قادیان میں حاصل ہوگا۔

………٭………٭………٭………

قوّتِ مدافعت

ہفت روزہ ‘‘بدر’’ قادیان 8؍ستمبر 2011ء میں مکرم ڈاکٹرعبد الماجد صاحب سہارنپوری کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں جسم کی قوّتِ مدافعت بڑھانے سے متعلق مفید مشورے دیے گئے ہیں۔

ہمہ وقت ہمارے جسم میں جراثیم اور زہریلے مادے داخل ہورہے ہیں تاہم خداتعالیٰ کی عطا کردہ قوّتِ مدافعت کی وجہ سے اکثر ہمارا جسم بیمار ہونے سے محفوظ رہتا ہے ۔ تاہم جب اس نظام کا مقابلہ کسی سخت جان زہر یا جراثیم سے ہوجائے یا جسم میں صحت کی کمزوری یا غذائیت کی کمی ہو تو پھر سائیڈ ایفیکٹ کو ہم محسوس کرسکتے ہیں مثلاً نزلہ زکام کے وائرس کے ساتھ جسم میں بخار کی علامت نظر آتی ہے۔ اگرچہ بخار اپنے آپ میں کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ یہ اشارہ ہے کہ مدافعتی نظام فعّال ہے اور جسم کا درجہ حرارت بڑھاکر جراثیم کی افزائش کو روکا جارہا ہے۔ بہتی ہوئی ناک سے جراثیم جسم سے باہر پھینکے جاتے ہیں۔ غدود کی سوج یہ بتاتی ہے کہ خون اکٹھا کرکے مدافعتی نظام کو طاقت دی جارہی ہے۔

قوّت مدافعت میں کمی کی وجوہات میں جسمانی کمزوری، ذہنی تناؤ، کھلے کیمیائی مادوں کے قریب رہنا، نیند کی کمی، سگریٹ نوشی، کیفین اور چینی کا زیادہ استعمال شامل ہیں۔

انفیکشن سے بچنے کے لیے اپنے اطراف کی صفائی کے علاوہ ہاتھوں کو خاص طور پر صاف رکھنا بہت ضروری ہے۔ صفائی کرنے والے زہریلے کیمیکلز سے بچنا اور برتنوں وغیرہ کے صابن کو اچھی طرح دھونا ضروری ہے۔ ذہنی تناؤ سے اُس ہارمون کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے جو قوّتِ مدافعت کو متأثر کرتا ہے۔ورزش خصوصاً سیر کرنے سے قوّت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نیند پوری کریں کیونکہ نیند کے دوران جسم اپنی مرمّت خود کرتا ہے۔

متوازن غذا لیں اور ہر طرح کے رنگوں کے پھلوں اور سبزیوں کا استعمال کریں۔ میووں اور بیجوں کا بھی استعمال کریں۔ جن کھانوں میں مختلف پروسیسنگ ایجنٹ ڈالے گئے ہوں، اُن سے پرہیز کریں، یہ کینسر کا باعث بنتے ہیں۔تلے اور بھُنے ہوئے کھانے بھی Free Radicalsپیدا کرتے ہیں جو کینسر کا سبب ہیں۔ چینی کا زیادہ استعمال جسم کے دفاعی نظام کو پندرہ گھنٹوں کے لیے مفلوج کردیتا ہے۔ نیز چائے، کافی اور تمباکوکے استعمال سے قوّت مدافعت پر غیرضروری دباؤ پڑتا ہے۔

………٭………٭………٭………

ماہنامہ ‘‘احمدیہ گزٹ’’ کینیڈا ستمبرواکتوبر 2012ء میں مکرم پروفیسر محمد اسلم صابر صاحب کا پاکستان میں مسلمانوں کے کردار کے حوالہ سے شائع شدہ کلام میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

خریدا خون سے اِک خطّۂ ارضی مسلماں نے

مگر کی خونِ مسلم ہی کی ارزانی مسلماں نے

بھلا معلوم ہے کیوں کر یہ جور و ظلم در آیا

ہے بے خوفی سے چھوڑی قدرِ انسانی مسلماں نے

کہیں مسمار مندر ہو رہا ہے اور کہیں گرجا

کہیں مسجد گرانے کی بھی ہے ٹھانی مسلماں نے

دلوں پہ حکمرانی کی تھی خوش خلقی سے مسلم نے

بھُلائے سارے آدابِ جہاں بانی مسلماں نے

خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ڈرو اُس سے

بہت کچھ اب تلک کرلی ہے من مانی مسلماں نے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button