متفرق مضامین

عید الاضحی اور قربانی کے مسائل

ہر مذہب و قوم میں مذہبی اور تمدنی تہوار منانے کے طریق جُدا جُدا ہیں ۔ اسلام نے بھی اس فطرتی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا، لیکن اس کی اصلاح کردی ۔ اسلام میں خوشیاں منانے کے طریق دوسرے مذاہب سے کئی پہلوؤں سے مختلف بھی ہیں ۔ ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ اسلام کے تہوار یعنی عیدین وغیرہ کی حکمت دیگر ایسی تقریبات سے مختلف ہے ۔مثلاً عید الفطر رمضان کی مشقت کے بعد آتی ہے اور عیدالاضحیہ کا پس منظر قربانیوں سے منسلک ہے ۔چنانچہ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو دن کھیل کود کے لیے منایا کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا:ان دو دنوں کی کیا حقیقت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں بھی ان دنوں کھیل کودکیا کرتے تھے۔ آپﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے دو دن عطا فرمائے ہیں جو ان سے بہتر ہیں۔ ایک عید الاضحی دوسرا عید الفطر۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب صلوۃ العیدین)

اللہ تعالیٰ قران کریم میں عید الاضحی جو کہ دراصل قربانی سے بھری ہوئی تاریخ کا دوسرا نام ہے ۔اس اصل قربانی کی غرض وغائیت بیان کرتا ہوئے فرماتا ہے:

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ

ترجمہ:ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچىں گے اور نہ ان کے خون لىکن تمہارا تقوىٰ اس تک پہنچے گا۔(الحج:38)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ ا لسلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

‘‘خدا تعالیٰ نے شریعتِ اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لیے نمونے قائم کیے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو ۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لیے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ

یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اُس کو پہنچتی ہے ۔ یعنی اُس سے اتنا ڈرو کہ گویا اُس کی راہ میں مرہی جاؤاور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو ۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے ۔’’

(روحانی خزائن جلد نمبر23صفحہ نمبر99)

ہمارے پیارے آقاحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ ا لعزیز عید الاضحیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

‘‘آج ہم عید الاضحی منارہے ہیں جو قربانی کی عید بھی کہلاتی ہے۔اس عید پر جن کو توفیق ہے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں،پھر حج کرنے والوں کی طرف سے ہزاروں لاکھوں جانور ذبح ہورہے ہوتے ہیں، تو آج کروڑوں جانور ذبح ہورہے ہوں گے دنیامیں آج یا کل ۔لیکن کیا یہ قربانی اور عیدکی خوشیاں جو ہیں جو ہم عید پر مناتے ہیں یہی اس عید کا مقصد ہیں۔ یہ بکرے اور بھیڑیں ذبح کرنا اور خود بھی باربی کیو سے لطف اُٹھانا گوشت سے تکّے بناکراور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بھی اپنے ساتھ اس میں شامل کرنا کیا یہی اس قربانی کا مقصد ہے؟کیا یہ کوئی ایساکام ہے جس پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہو اورمسلمانوں سے کہہ رہا ہے اس بات پر کہ آج میں تم پر بہت خو ش ہوں کہ تم بکرے اور بھیڑیں اور گائیاں اور بعض لوگ اُونٹ بھی ذبح کرتے ہیں کہ جو جانور ذبح کررہے ہو؟……قربانی کی عید کے پیچھے صرف اتنی سی بات نہیں ہے کہ بکرا ذبح کرلو اور عید کی نماز کے بعد سب سے پہلا یہی کام کرو کہ بکرا ذبح کرنا ہے اور اس کے بعد اس کا گوشت کھانا ہے۔۔۔پس ہمیں یہ دیکھناچاہیئے کہ ہرسال جو عید آتی ہے اس سے ہم اپنے روحانی معیار کس طرح بلند کرسکتے ہیں،اپنی قربانیوں کے معیار کس طرح بلند کر سکتے ہیں۔ورنہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے اِن بکرے ، دنبے ،گائے وغیرہ ذبح کرنے سے کوئی غرض نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے انسان کوپیدا کیا ہے ،اللہ تعالیٰ تو وہ مقصد پورا کرنے والے انسان دیکھنا چاہتا ہے۔ورنہ یہ گوشت وغیرہ جو ہیں یہ تو صرف اگر صرف ذبح کرنے کی نیت سے ہی کیے جارہے ہیں تو یہ تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے نہیں ہوسکتے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے…… لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُھَا یادرکھو کہ ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہرگزاللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے۔پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم ہر سال جب عید الاضحی مناتے ہیں تو وہ روح تلاش کریں جو ان قربانیوں کے پیچھے ہونی چاہیے اور ہے اور وہ روح کیا ہے ،اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دے دیا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ لیکن تمہارے دل کا تقویٰ جو ہے وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے ……پس یہ ظاہری نمونے اس روح کو قائم کرنے کے لیے ہیں ،ورنہ ہمارا جانور قربان کرنا یہ نیکی نہیں ہے،نہ گوشت کھانا نیکی ہے ،نہ ہی یہ گوشت اور خون اللہ تعالیٰ تک پہنچتے ہیں۔

(خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ20دسمبر2007)

اسی طرح حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

‘‘خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ عید مناؤ اس لیے کہ یہ قربانی کی عید تمہیں قربانی کے اسلوب سکھاتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے کی طرف توجہ دلاتی ہے، ان حکموں پر غور کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے جو تقویٰ کے معیار بلند کرتے ہیں ،اُن ماں،بیٹا اور باپ کی قربانیوں کی طرف توجہ دلاتی ہے ،جنہوں نے اپنے جذبات کو قربان کیا،جو صرف چھری پھروانے اور پھیرنے کے عارضی نمونہ دکھانے والے نہیں تھے، بلکہ مسلسل لمبا عرصہ قربانیاں دینے والے تھے، جنہوں نے دنیاکو امن اور سلامتی کے اسلوب سکھانے کے لئے، نہ صرف اپنے جذبات کو قربان کیا،اپنے آرام کو قربان کیا،اپنے وطن کو قربان کیا بلکہ ان دعاؤں میں مسلسل لگے رہے کہ خدا تعالیٰ آئندہ آنے والی نسلوں میں بھی ایسا انتظام کردے (کہ وہ) دنیا کے لیے امن اور سلامتی دینے والے بن جائیں ، تقویٰ کی وہ راہیں دکھانے والے ہوں (اور وہ) اللہ تعالی ٰ کی رضا کو ہر چیز پرمقدم کرتے ہوئے تقویٰ کا اعلیٰ معیار قائم کر دیں ، جن کے نمونے دنیا کے لیے ہمیشہ کے لیے رہنمابن جائیں۔ پس حضرت ابراہیم ؑ اور آپؑ کی بیوی اور بیٹے کی قربانی کی یاد میں جو ہم عید قربان مناتے ہیں اور مناسکِ حج ادا کرتے ہیں یہ ظاہری قربانیاں اور اظہار نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑے مقصد کی طرف توجہ دلانے والی ہیں ،ہماری قربانیاں جوبکروں، بھیڑوں اور گائیوں کی ہم کرتے ہیں، یہ صرف ہماری بڑائی کے اظہار یا لوگوں پر اپنی نیکیاں ظاہر کرنے کے لیے نہیں کہ فلاں شخص نے بڑا خوبصورت اورمہنگا دنبہ قربان کیا یا فلاں نے بڑی خوبصورت اور مہنگی گائے قربان کی۔ اگر تقویٰ سے عاری یہ قربانیاں ہیں اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خواہش اور دعا کے بغیر یہ قربانیاں ہیں ،تو اللہ تعالیٰ کےہاں یہ ردّ کرنے کے قابل ہیں ،اِسی طرح ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں یہ، جس طرح نمازیں ہلاکت کا باعث بنتی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نہیں پڑھی جاتیں، بلکہ صرف دکھاوے کی ہوتی ہیں……پس ہر عبادت اور قربانی تقویٰ کی روح کو چاہتی ہے ، اللہ تعالیٰ کی رضا کو چاہتی ہے اس کے بغیر یہ سب عبادتیں اور قربانیاں منہ پر ماری جاتی ہیں……ہم جو آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے ماننے والے ہیں، ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اُس روح کی تلاش کریں جو اِن قربانیوں کی روح ہے …اللہ کرے کہ یہ حقیقی ادراک مسلمانوں میں پیدا ہو کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑکی قربانی، خانہ کعبہ کی تعمیر اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد ،اپنی قربانی کے معیار کو بلند کر تے ہوئے ،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا قیام اور سلامتی اور امن کو دنیا میں قائم کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حقیقی رنگ میں اس قربانی کا ادراک عطا فرمائے اور …ہم قربانی کی روح کو سمجھتے ہوئے اپنےحق اداکرنے والے بنیں ۔دنیا کو امن اور سکون اور سلامتی دینے والے بنیں۔

(خطبہ عید الاضحیہ بیان فرمودہ 06اکتوبر2014ء)

مسائل عید الاضحی

عیدا لاضحیہ کی تکبیرات کب سے کب تک ؟

احادیث میں لکھا ہے کہ حضورﷺؑ(9) نو ذوالحجہ کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن یعنی (13)تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک تمام فرض نمازوں کے بعد تکبیرات پڑھتے تھے۔چنانچہ حضرت علیؓ اور حضرت عمار ؓ سے روایت ہے کہ

اَنَّ النَّبِیَّ ﷺکَانَ یُکَبِّرُ مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃَ صَلٰوۃَ الْغَدَاۃِ وَ یَقْطَعُہَا صَلٰوۃَ الْعَصْرِ آخِرَ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ: ترجمہ :حضرت علی ؓ اور حضرت عمار ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نوذوالحجہ کی نماز فجر سے تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔

(المستدرک للحاکم کتاب العیدین باب تکبیرات التشریق)

نماز عید کس وقت تک ادا کی جاسکتی ہے؟

نماز عید کا وقت سورج کے نیزہ برابر بلند ہونے سے لیکر زوال سے قبل تک رہتاہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ سے روایت ہے :

أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ کَتَبَ إِلَی عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَہُوَ بِنَجْرَانَ عَجِّلِ الْأَضْحَی، وَأَخِّرِ الْفِطْرَ، وَذَکَّرِ النَّاسَ۔ ترجمہ:رسول کریم ؐنے حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکھا جو کہ نجران میں تھے عید الاضحی جلدی پڑھا کرو ،اور عید الفطرقدرے تأخیر سے ادا کیا کرواور لوگوں کو وعظ ونصیحت کیا کرو’’

(السنن الکبری للبہقی کِتَابُ صَلَاۃِ الْعِیدَیْنِ بَابُ الْغُدُوِّ إِلَی الْعِیدَیْنِ)

‘‘اتفق الفقہاء علی أن وقت صلاۃ العید ھو مابعد طلوع الشمس قدر رمح أو رمحین ،أی بعد حوالی نصف ساعۃ من الطلوع الی قبیل الزوال أی قبل دخول وقت الظہر’’ فقہاء کا اتفاق ہے کہ نماز عید کا وقت سورج کے ایک یا دو نیزے بلند ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔یعنی طلوع کے تقریباً نصف گھنٹے کے بعد اور یہ زوال سے کچھ پہلے تک یعنی ظہر کا وقت شروع ہونے سے پہلے تک رہتا ہے

(الفقہ الاسلامی وأدلتہ تألیف الدکتور وھبۃ الزحیلی ۔جلد نمبر 2صفحہ نمبر 366صلاۃ العیدین ۔وقتھا)

عید الاضحی کی صبح نماز عید سے قبل کچھ نہ کھانا بھی سنت ہے

عبداللہ اپنے والدبُرَیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ عید الفطر کے دن عید کے لیے کچھ کھائے بغیر نہ جاتے تھے اور عید الاضحی کے دن جب تک کہ نماز عید نہ پڑھ لیتے کچھ نہ کھاتے۔

(ترمذی کتاب العیدین ۔ باب فی الاکل یوم الفطر قبل الخروج)

عید گاہ میں مختلف راستوں سے آنا اور جانا

محمد بن عبداللہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ عید کے لیے پیدل جایا کرتے تھے اور جس راستے سے تشریف لے جاتے اس سے مختلف راستے سے واپس لوٹتے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیہا)

نماز عید سے پہلے اور بعد میں کوئی نفل نہیں پڑھے جاتے

حضرت سعید بن جُبِیْر ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید کے دن نکلے اور دو رکعتیں ادا فرمائیں ۔ اور ان سے پہلے یا بعد کوئی نماز نہ پڑھی۔ پھر عورتوں کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں صدقہ کرنے کی نصیحت فرمائی۔ تو عورتیں اپنے کانوں اور گلے کے زیور صدقہ میں دینے لگیں۔

(بخاری ـ کتاب اللباس ـ باب القلائد و السخاب للنساء یعنی قلادۃ من طیب وسک)

پہلی رکعت میں سات زائد تکبیرات اور دوسری رکعت میں پانچ زائد تکبیرات

کثیر بن عبداللہ اپنے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ اور اپنے دادا کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دونوں عیدوں کے موقعوں پر قراءت سے قبل پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہیں۔

(ترمذی کتاب العیدین ۔ باب فی التکبیر فی العیدین)

تکبیرات کے بعد ہاتھ کھلے چھوڑے جائیں

نماز عید کی ادائیگی کے دوران تکبیروں کے بعد ہاتھ کانوں کی لو تک لے جا کر کھلے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ فقہ احمدیہ میں لکھا ہے:۔ “امام اور مقتدی دونوں تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور کھلے چھوڑ دیں۔”

(فقہ احمدیہ عبادات صفحہ179)

تکبیر تحریمہ کے بعد اور 7تکبیرات سے قبل درمیانی وقفہ میں کیا پڑھا جاتا ہے ؟

اس بابت فقہ احمدیہ میں لکھا ہے :۔‘‘نماز عید کی پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور تعوذ سے پہلے امام سات تکبیریں بلند آواز سے کہے اور مقتدی آہستہ آواز سے یہ تکبیرات کہیں۔ امام اور مقتدی دونوں تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور کھلے چھوڑ دیں ۔’’

(فقہ احمدیہ حصہ عبادات صفحہ 179)

عید کی نماز میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ پڑھنا

عَنِ النُّعْمَانِ ابْنِ بَشِیْرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یَقْرَأُ فِی الْعِیْدَیْنِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی، وَھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ۔:نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نمازوں میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرماتے۔

(سنن ابن ماجہ ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا باب ماجاء فی القرائۃ فی صلاۃ العیدین )

اگر کوئی نماز عید کی دوسری رکعت میں شامل ہو تو؟

فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں مقتدی امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رکعت مکمل کرے گا اور تکبیرات بھی کہے گا اور اس کےلیے بطور دلیل آنحضرت ؐ کا یہ ارشاد پیش کیا جاتا ہے: مَا اَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا وَ مَا فَاتَکُمْ فَاَتِمُّوْا۔نماز کا جو حصہ تم امام کے ساتھ پالو وہ ادا کر لو اور جو حصہ رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لو۔

(بخاری کتاب الاذان باب لایسعی الی الصلاۃ)

عید کے دن حضورﷺ کا خوبصورت لباس

حضرت جعفر اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہر عید پر یمنی منقش چادر زیب تن فرمایا کرتے تھے۔

(کِتَابُ الْاُمّ (لامام شافعی)کتاب صلوٰۃ العیدین باب الزینۃ للعید)

عیدگاہ میں خواتین کا تشریف لے جانا

حضرت اُمِّ عَطِیَّہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺکنواری لڑکیوںاور جوان لڑکیوں پردہ نشین خواتین اور حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ کے لیے جانے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے البتہ حائضہ خواتین نماز پڑھنے والی جگہ پر نہیں جاتی تھیں مگر دعا میں شامل ہوتی تھیں۔ ایک عورت نے عرض کی۔ اگر کسی خاتون کے پاس (پردہ کے لیے)چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چاہیے کہ اس کی بہن اس کو عاریتاً چادر دے۔

(ترمذی کتاب العیدین ۔ باب فی خروج النساء فی العیدین)

عید کے خطبہ کے بعد آنحضرت ﷺ کا خواتین میں تشریف لے جانا اور خواتین کا صدقات پیش کرنا

حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے ایک بار نماز (عید)پڑھائی ۔ آپ کھڑے ہوئے اور نماز سے آغاز کیا اور پھر لوگوں سے خطاب کیا جب آپ فارغ ہو گئے تو آپ منبر سے اترے اور عورتوں میں تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی آپ اس وقت حضرت بلال کے بازو کا سہارا لیے ہوئے تھے اور حضرت بلال نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا جس میں عورتیں صدقات ڈالتی جارہی تھیں۔

( بخاری کتاب العیدین باب موعظۃ الامام النساء یوم العید)

عید کے دن پاکیزہ نغمات گانا

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے۔ اس وقت انصار کی دو لڑکیاں میرے ہاں جنگ بعاث کے متعلق شعر گا رہی تھیں۔ (اور یہ دونوں پیشہ ور گانے والی نہیں تھیں)۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا : کیا خدا کے رسولؐ کے گھر میں شیطانی بانسریوں کے ساتھ (گانے گائے جارہے ہیں)۔ یہ واقعہ عید کے روز کا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا : اے ابو بکرؓ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے۔ اور یہ ہماری عید ہے۔

(بخاری ، کتاب العیدین، باب سنۃ العیدین لاھل الاسلام)

حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ رسول پاک ﷺ میرے پاس تشریف لائے اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث کے واقعات پر مشتمل نغمے گا رہی تھیں۔ آپ منہ دوسری طرف کر کے لیٹ گئے تھوڑی دیر میں حضرت ابوبکر آئے اور انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ نبی ﷺ کے پاس شیطانی آلات بجائے جا رہے ہیں اس پر حضوؐر حضرت ابوبکر ؓکی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ان کو کچھ نہ کہو جب حضور کی توجہ ہٹی تو میں نے اشارہ کیا تو وہ دونوں چلی گئیں۔

(بخاری کتاب العیدین ۔ باب الحراب والدرق یوم العید)

عید کے دن مناسب کھیلوں کاانتظام اور ان کو دیکھنا

حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ عید کا دن تھااوراسی روز کچھ حبشی نیزوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے میرے پوچھنے پر یا از خود مجھے فرمایا کہ کیا تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کی۔ ہاں۔ اس پر آپ نے مجھے اپنی اوٹ میں کھڑا کر لیا میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپ انہیں کہتے تھے کہ اے بنی اَرفَدَہ اپنا کھیل جاری رکھو۔ یہاں تک کہ جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا بس؟ میں نے عرض کی کہ ہاں۔ اس پر آپ ؐ نے فرمایا تو جاؤ۔

(بخاری کتاب العیدین ۔ باب الحراب والدرق یوم العید)

قربانی کے مسائل

قربانی کا فلسفہ اور حکمت

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ آیت لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَاوَلَادِمَآ ؤُھَا کیحقیقی فلاسفی اور حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

‘‘قربانیوں میں یہ حکمت نہیں کہ اُن کا گوشت یا اُن کا خون اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ ان میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے۔ بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ نعوذ با للہ ہندوؤں کے دیوتاؤں کی طرح خون کا پیاسا اور گوشت کا بھوکا ہے کہ وہ جانوروں کی قربانی کرنے کا حکم دیتا ہے اور اُن کی جان کی قربانی کو شوق سے قبول فرماتا ہے اور قربانی کرنے والوں کو بہشت کی بشارت دیتا ہے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دیا ہے کہ قربانیوں میں یہ حکمت نہیں ہے کہ ان کا گوشت یا اُن کا خون خداتعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے انسانی قلب میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے۔پس وہ لوگ جو بکرے یا اونٹ یا گائے کی قربانی کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پالیاوہ غلطی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ یہ کوئی چیز نہیں کہ خود ہی جانور ذبح کیا اور خود ہی کھا لیا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کو کیا۔ یہ تو تصویری زبان میں ایک حقیقت کا اظہار ہے جس کے اندر بڑی گہری حکمت پوشیدہ ہے جیسے مصور ہمیشہ تصویریں بناتے ہیں مگر ان کی غرض صرف تصویر بنانا نہیں ہوتی بلکہ ان کے ذریعہ قوم کے سامنے بعض اہم مضامین رکھنے ہوتے ہیں…۔

اسی طرح یہ ظاہری قربانی بھی ایک تصویری زبان ہے جس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ جانور ذبح کرنے والا اپنے نفس کی قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہے پس جو شخص قربانی کرتا ہے وہ گویا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ میں خداتعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کر دوں گا۔ اس کے بعد دوسرا قدم یہ ہوتا ہے کہ انسان جس امر کا تصویری زبان میں اقرار کرے عملاً بھی اسے پورا کرکے دکھاوے کیونکہ محض نقل جس کے ساتھ حقیقت نہ ہو کسی عزت کا موجب نہیں ہو سکتی۔ ’’

(تفسیر کبیر۔ جلدششم، صفحہ57)

قربانی صرف صاحبِ استطاعت پر واجب ہے

ایک شخص کا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی ، مگر اُن لوگوں نے مجھے احمدی ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کردیاہے۔کیا میں وہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دے دوں تو میری قربانی ہوجائے گی؟ فرمایا:

‘‘قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے۔ مسکین فنڈ میں روپے دینے سے نہیں ہوسکتی۔ اگر وہ رقم کافی ہے تو ایک بکراقربانی کرو۔ اگر کم ہے اور زیادہ کی تم کو توفیق نہیں تو تم پر قربانی کا دینا فرض نہیں۔’’

(بدر 14فروری 1907ء صفحہ8)

غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر قربانی کرنا

ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا ہم غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر یعنی تھوڑے تھوڑے روپے ڈال کر کوئی جانور مثلًا گائے ذبح کریں تو جائز ہے؟ فرمایا:

‘‘ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ہے کہ تم غیروں کے ساتھ شامل ہوتے ہو۔اگر تم پر قربانی فرض ہے تو بکرا ذبح کرسکتے ہواوراگر اتنی بھی توفیق نہیں تو تم پر قربانی فرض ہی نہیں۔ وہ غیر جو تم کو اپنے سے نکالتے ہیں اور کافر قرار دیتے ہیں وہ تو پسند نہیں کرتے کہ تمہارے ساتھ شامل ہوں تو تمہیں کیا ضرورت ہے کہ اُن کے ساتھ شامل ہو۔ خدا پر توکل کرو۔’’

(بدر14فروری1907ء صفحہ8)

بکرے کی عمر کتنی ہو ؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا ایک سال کا بکرا بھی قربانی کے لیے جائز ہے ؟

فرمایا: مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ۔ناقل)سے پوچھ لو۔ اہلحدیث و حنفاء کا اس میں اختلاف ہے۔

نوٹ ایڈیٹر صاحب بدر: مولوی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ دو سال سے کم کا بکراقربانی کے لیے اہلحدیث کے نزدیک جائز نہیں۔

(بدرمورخہ23جنوری 1908ء صفحہ2)

کیا ناقص جانور بھی قربانی کے لیے ذبح کیا جاسکتا ہے؟

ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ اگر جانور مطابق علامات مذکورہ درحدیث نہ ملے تو کیا ناقص کو ذبح کرسکتے ہیں؟

فرمایا: مجبوری کے وقت تو جائز ہے مگر آج کل ایسی مجبوری کیا ہے ۔ انسان تلاش کرسکتا ہے اوردن کافی ہوتے ہیں خواہ مخواہ حجت کرنا یا تساہل کرنا جائز نہیں ۔

(بدر23جنوری 1908ء صفحہ2)

کیا غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے؟

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے سوال ہوا کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز ہے یا نہیں؟حضور علیہ السلام نے فرمایا:

‘‘ صدقہ کے واسطے مسلم یا غیر مسلم کی قید ضروری نہیں۔’’

(فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام )

عیدالاضحٰی کاروزہ

عیدالاضحیہ کے دن قربانی کرکے اُس کا گوشت کھانے تک جوروزہ رکھا جاتا ہے اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا:

‘‘مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھے لکھا ہے کہ جو روزہ اس عید کے موقع پر رکھاجاتا ہے وہ سنت نہیں، اس کا اعلان کر دیا جائے مگر رسول کریمﷺ کا یہ طریق ثابت ہے کہ آپ صحت کی حالت میں قربانی کرکے کھاتے تھے تاہم یہ کوئی ایسا روزہ نہیں کہ کوئی نہ رکھے تو گنہگار ہوجائے یہ کوئی فرض نہیں بلکہ نفلی روزہ ہے اورمستحب ہے جو رکھ سکتا ہو رکھے مگر جو بیمار، بوڑھا یا دوسرا بھی نہ رکھ سکے وہ مکلّف نہیں اورنہ رکھنے سے گنہگار نہیں ہوگا مگر یہ بالکل بے حقیقت بھی نہیں جیسا کہ مولوی بقاپوری صاحب نے لکھا ہے مَیں نے صحت کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے پھر مسلمانوں میں یہ کثرت سے رائج ہے اور یہ یونہی نہیں بنالیا گیا بلکہ مستحب نفل ہے جس پر رسول کریم ﷺ کا تعامل رہا اور جس پر عمل کرنے والا ثواب پاتا ہے مگر جونہ کرسکے اسے گناہ نہیں۔’’

(روزنامہ الفضل 17 جنوری 1941ء صفحہ4)

کیا قربانی کے گوشت کے تین حصےکرنا ضروری ہیں؟

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سوال ہوا کہ ایک شخص نے قربانی کا گوشت گھرمیں رکھ کر اس کی بڑیاں بنا لیں ہیں کیا یہ جائز ہے؟فرمایا :‘‘منع تو نہیں ۔حدیثوں میں اس کا ذکر آتا ہے مگر بہتر یہی ہے کہ مسکینوں کو دیا جائے’’

(الفضل 19 دسمبر 1915ء نمبر 71جلد3)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ

‘‘جہاں تک قربانی کے گوشت کا تعلق ہے ۔یاد رکھیں کہ اگر تیسرا حصہ اس کا اپنے لیے رکھ لیں اور باقی دوحصوں کو غربا اور مسکینوں اور دوسرے رشتہ داروں وغیرہ پر تقسیم کردیں تو یہ عین سنت کے مطابق ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں اور ایسے گوشت کوسنبھالا بھی جاسکتاہو کچھ عرصہ کے لیے قربانی کے گوشت کو تو یہ منع نہیں ہے ۔لیکن بعض حدیثوں سے صحابہ کو یہ شبہ پڑا کہ گویا تین دن کے اندر یہ گوشت تقسیم کردینا ضروری ہے اور باقی نہیں رکھا جاسکتا اس لیے آنحضرت ؐ کو اس کی وضاحت کرنی پڑی ۔یہ تفصیلی حدیث اس مضمون سے تعلق رکھتی ہے ۔عبد اللہ بن واقد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضور ؐ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زائد کھانے سے منع فرمایا ۔یہ روایت ہے جس کی بنا پر صحابہ کو غلط فہمی ہوئی ۔عبد اللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات حضرت عمر ہ رضی اللہ عنھا سے کہی تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہاسے سنا کہ حضور ؐ کے زمانے میں عید الاضحی کے موقع پر بادیہ نشینوں میں سے گیت گانے والے آئے ۔یہ گیت گانے والے کون ہیں جو مانگنے کے لیے نکلتے ہیں اور ساتھ گیت گاتے پھرتے ہیں ۔آج تک یہی رواج ہے بہت سے فقراء کا کہ وہ گیت گاتے چلتے ہیں تاکہ ان کی آواز سن کر اہل خانہ متوجہ ہوں۔پس وہ بھی اس طرح گلیوں میں پھر رہے تھے اور گیت گارہے تھے۔ اس پر آنحضور ؐنے فرمایا تین دن تک کے استعمال کے لیے گوشت جمع کر رکھو باقی انہیں خیرات کردو۔تو یہ ایک خاص موقع کا حکم تھا۔

اس کے بعد کی عید کی دفعہ یہ ہوا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ! لوگ اپنی قربانی کی کھالوں سے مشکیں بناتے ہیں اور ان میں چربی ڈالتے ہیں۔مطلب کیا تھا؟مطلب یہ تھا کہ چربی کو وہ ممنوع نہیں سمجھتے کہ چربی بعد میں بھی رکھی جاسکتی ہے کیونکہ آپ ؐنے گوشت فرمایا تھا اس لیے صحابہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ گوشت کو تین دن سے زیادہ رکھنا منع ہے اور تین دن کے اند رہی استعمال کرلیا جائے ،جتنا ہوسکتا ہے۔ اس لیے وہ قربانی کی کھالوں کی مشقیں بناتے ہیں اور ان میں چربی بھر لیتے ہیں جتنی چربی بھی میسر ہو۔حضور ؐ نے فرمایا تو اب کیا ہوا ہے ان کو؟کیوں یہ ایسا کرتے ہیں؟انہوں نے کہا آپ ؐ نے ہی تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا۔اب آپ ؐ پوچھ رہے ہیں کیوں ایسا کرتے ہیں؟حضور ؐ نے فرمایا میں نے تو تمہیں ان باہر سے آنے والوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت آگئے تھے۔یعنی ایک ہلّہ بولا تھا ان فقیروں نے تو ان کی خاطر یہ خیال تھا کہ قربانیاں تھوڑی نہ ہوجائیں اور ان کی اشتہا ،وہ جس وجہ سے وہ پھر رہے ہیں وہ پوری نہ ہوسکے اس لیے میں نے منع کیا تھا۔اب گوشت کھاؤاور جمع کرو اور خیرات کرو۔ (صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب بیان ماکان من النھی عن أکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث )

پس اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے جس حد تک آپ اپنے حصہ کے لیے قربانی کا گوشت جمع کرنا چاہیں اس کی مناہی نہیں ہے لیکن اگر ایسے غریب علاقوں میں آپ ہوں جہاں قربانی کے ساتھ اردگرد عام بھوک ہو اور لوگ کثرت کے ساتھ بھوک سے نڈھال ہوکر فاقہ کشی کررہے ہوں، موت کے قریب پہنچتے ہیں بعض جگہ ایسے علاقے بھی ہیں ،اور بعض دفعہ صبر کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں لیکن بھوک ان کوعملاً موت کے کنارے تک پہنچا دیتی ہے ۔ایسی جگہ پر اگر کوئی احمدی قربانی کرتاہے تو یہ ہوہی نہیں سکتا کہ وہ ان کا خیال نہ کرے اور تین دن سے زائد اپنے لیے گوشت جمع کرلے ۔تین دن بھی اس کا دل نہیں چاہے گا ،وہ چاہے گا کہ ایک دولقمے کھائے اور سب قربان کردے مگر سنت یہی ہے اس لیے تین دن اسے ضرور اپنی قربانی کا گوشت کچھ نہ کچھ اپنے استعمال میں لانا چاہیے اور باقی جس حد تک بھی ہوسکے ایسے غریب علاقوں میں خدا کے بندوں کی خاطر خدا کی خاطر کی ہوئی قربانی کا گوشت پیش کردیں ‘’

(خطبہ عید الأضحیہ 28مارچ 1999ء۔از خطبات طاہر عیدین صفحہ 649-651)

قربانی کے گوشت کے بارہ میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مزید فرماتے ہیں :

‘‘آنحضور ؐ کے زمانے میں عید الاضحی کے موقع پر بادیہ نشینوں میں سے کچھ گیت گانے والے آئے،یہ محتاج لوگ تھے۔حضور اکرم ؐنے فرمایا تین دن تک کھانے کے لیے گوشت جمع کرلواور باقی انہیں خیرات کردو تاکہ وہ بھوکے نہ رہیں۔اس کے بعد آئندہ سال صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ ! لوگ اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیں بناتے ہیں اور ان میں چربی ڈالتے ہیں اس پر حضور ؐنے فرمایا پھر کیا ہوا؟انہوں نے کہا کہ آپ نے ہی تو ہمیں تین دن کے بعد قربانی کے گوشت سے منع فرمایا ہے ۔حضور ؐ نے فرمایا میں نے تو تمہیں ان باہر سے آنے والوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت آگئے تھے ۔جاؤ اور گوشت کھاؤاور جمع کرو اور اس سے صدقہ اور خیرات بھی کرو(مسلم کتاب الاضاحی باب بیان ماکان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث )اس لیے اب آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں ،ضروری نہیں ہے تین ۔یہی تین دن کی حکمت رسول اللہ ؐنے بیان فرما دی ، آج کل تو لوگ آتے بھی نہیں باہر سے آنے والے۔یہاں تو ملک بھی امیر ہے اور یہاں تو قربانی کے بعد تقسیم کرنے کے لیے بھی آدمی ڈھونڈنے پڑتے ہیں ۔ اس لیے آپ بڑے شوق سے رکھ لیا کریں قربانی کا گوشت۔لیکن زیادہ دیر فرج میں رکھنا بھی ٹھیک نہیں ۔وہ کنجوسی ہے۔جس حد تک ممکن ہواس کو تقسیم کردیا کریں ۔’’

(خطبہ عید الأضحیہ 12فروری 2003ءاز خطبات عیدین 709،710)

کیا بکرے کا خصی ہونا یا غیر خصی ہونا ضروری ہے؟

قربانی میں خَصّیِ اور غیر خَصّیِ دونوں قسم کا جانور ذبح کیا جا سکتا ہے ۔ چنانچہ بعض مواقع پر حضورﷺ نے خصی دنبے قربان کیے اور بعض مواقع پر غیر خصی کی قربانی کی ۔چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ؐ نے دو خصی دنبوں کی قربانی کی تھی ۔

(ابو داؤد کتاب الضحایا باب ما یستحب من الضحایا )

حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے غیر خصی دنبہ کی قربانی کی تھی ۔

(ترمذی کتاب الاضاحی باب ماجاء ما یستحب من الاضاحی )

قربانی کے جانور کے لیے کونسی شرائط ہیں؟

آنحضرت ؐنے فرمایا ہے :‘‘لَا تَذْبَحُوا اِلَّا مُسِنَّۃً اِلَّا اَنْ یَّعْسُرَ عَلَیْکُم فَتَذْبَحُوا جَذعَۃً مِنَ الضَّانِ ’’ عید الاضحیہ کے موقع پر ایسا جانور ذبح کرو جو مُسِنَّۃً ہو ۔لیکن اگر تمہیں ایسا جانور ملنا مشکل ہو تو ایسا دنبہ ذبح کر لو جو جَذَعَۃً ہو۔

(مسلم کتاب الاضاحی باب سن الاضحیہ )

اونٹوں میں مُسِنَّۃٌ اسے کہتے ہیں جو پورے پانچ سال کی عمر کا ہواورچھٹے سال میں داخل ہوچکا ہو۔گائے اور بیل میں مُسِنَّۃٌ اسے کہتے ہیں جو پورے دوسال کی عمر کا ہوتیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔بکرے اور دنبہ میں مُسِنَّۃٌ وہ ہے جو اپنی عمر کا پورا ایک سال گزار کر دوسرے سال میں داخل ہوچکا ہو۔لہذا ان جانوروں میں قربانی کے لیے جانور کا مُسِنَّۃٌ ہونا ضروری ہے۔

دنبہ کے جَذَعَۃٌ کی نسبت علماء میں اختلاف ہے ۔ بعض کے نزدیک ایک سال ، بعض کے نزدیک چھ ماہ اور بعض کے نزدیک سات ماہ کا بچہ جَذَعَۃٌ کہلاتا ہے ۔

قربانی میں خَصّیِ اور غیر خَصّیِ دونوں قسم کا جانور ذبح کیا جا سکتا ہے ۔

جوجانور قربانی کےلیے خدا کے حضور پیش کیے جائیں وہ بے عیب ہونے چاہیئں ۔ عیب دار جانور کی قربانی کو حضور ؐ نے ناجائز فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

‘‘اَ رْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِی الْاَضَاحِی اَلْعَوْرَاءُ بَیِّنٌ عَوَرُھَا وَالْمَرِیْضَۃُ بَیِّنٌ مَرَضُہَاوَالْعَرْجَاءُ بَیِّنٌ ظَلْعُہَا وَالْکَسِیْرُ الَّتِی لَا تَنْقَی’’چار قسم کے جانور قربانی کیے جانے کے لائق نہیں ہیں۔ایک تو وہ جانور جس کا کانا پن واضح طور پرنظر آتا ہو۔وہ بیمار جانور جس کی بیماری واضح طور پر نظر آتی ہو،وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح طور پر نظر آتا ہواور وہ کمزور اور دبلا جانورجس کی ہڈیوں میں مغز تک باقی نہ ہو۔

(ابوداؤد کتاب الضحایا باب مایکرہ من الضحایا)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘قربانیاں دو جو بیمار نہ ہوں، دبلی نہ ہوں، بے آنکھ کی نہ ہوں، کان چری نہ ہوں،عیب دار نہ ہوں، لنگڑی نہ ہوں۔اس میں اشارہ ہے کہ جب تک کامل طور پر قویٰ قربان نہ کرو گے ساری نیکیاں تمہاری ذات پر جلوہ گر نہ ہوں گی۔ اصل منشا قربانی کا یہ ہے پھر جس کو مناسب سمجھتا ہودے ۔’’

(الحکم جلد 7 نمبر 11۔24مارچ1903ء صفحہ 3تا5۔خطبات نور 143)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ ‘‘بکری بھیڑ اہل حدیث کے نزدیک 2 برس کی جائز ہے فقہاء کے نزدیک ایک برس کی۔ آپ کا فیصلہ؟

اس کے جواب میں آپ ؓ نے فرمایا:‘‘ میں آپ بکری اور دنبہ کی نسبت یہ تحقیق رکھتا ہوں کہ بکری دو برس سے کم کی نہ ہو اور دنبہ ایک برس سے کم نہ ہو۔ آپ تعجب کریں گے ہمارے ملک میں بھیڑ کا نام عرب میں نہیں اور نہ شریعت میں اس کا نام ملا ہے۔ عربی میں ضان اس کو کہتے ہیں جو چکی والا ہو۔ پس عرب میں مَیں نے تحقیقات کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس بھیڑ کو ہم نہیں جانتے اور زیادہ سے زیادہ اس کو ایک قسم کی غنم کہتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے مولوی ضان کا ترجمہ وہ دنبی کرتے ہیں یا بھیڑ۔ پس ہمارے ملک کی بھیڑ بکری میں داخل کرکے دو برس میعاد مقرر کرتا ہوں۔ اور دنبی کو ایک برس میں اور یہی شریعت سے ثابت ہے۔ ’’

(الحکم نمبر5 جلد9، 10 فروری 1905ء صفحہ11)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔‘‘اب وہ جس مینڈھے کا ذکر تھا وہ ایک سال کا تھا اس پر رسول اللہ ؐنے فرمادیا تھا کہ اس کی تمہیں اجازت ہے مگر آئندہ سے یہ دوسروں کو اجازت نہیں ہوگی۔پس اب قانون یہی ہے کہ جانور کم سے کم دو برس کا ہونا چاہیے۔’’

(خطبہ عید الاضحیہ 23فروری 2002ء۔خطبات طاہر عیدین۔صفحہ نمبر 701-700)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘قربانی کے لیے نبی کریم کو وہ نر بکرے پسند تھے، جن کے منہ اور پاؤں میں سیاہی ہو- وَاِلاَّ خصی کا ذبح بھی شرعاً جائز ہے- جس کا پیدائشی سینگ نہ ہو وہ بھی جائز ہے۔ہاں جس کا سینگ آدھے سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو یا کان چیرا ہوا ہو وہ ممنوع ہے۔ علماء کا اختلاف ہے کہ دو برس سے کم کا بکرا اور ایک برس سے کم کا دنبہ جائز ہے یا نہیں؟ اہل حدیث تو اسے جائز نہیں رکھتے مگر فقہا کہتے ہیں کہ دو برس سے کم ایک برس کا بکرا بھی جائز ہے اور دنبہ چھ ماہ کا بھی۔

مومن اس اختلاف سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، ضروری بات تو یہ ہے کہ انسان ان سب باتوں میں تقویٰ کو مدنظر رکھے اور قربانی کی حقیقت سمجھے، دو چار روپے کا جانور ذبح کر دینا قربانی نہیں۔ قربانی تو یہ ہے کہ خود اپنے نفس کی اونٹنی کو خدا کی فرمانبرداری کے نیچے ذبح کر دے۔

(بدر جلد 7نمبر 3۔جنوری 1908ء صفحہ 8تا 10۔خطبات نور صفحہ 278-279)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 5 اگست 1922ء کو قادیان میں خطبہ عید الاضحیہ میں فرمایا:
“قربانی کے جانور کے لیے یہ شرط ہے کہ بکرے وغیرہ دو سال کے ہوں۔دنبہ اس سے چھوٹا بھی قربانی میں دیا جا سکتا ہے۔ قربانی کے جانور میں نقص نہیں ہونا چاہئے۔لنگڑا نہ ہو ،بیمار نہ ہو، سینگ ٹوٹا نہ ہویعنی سینگ بالکل ہی نہ ٹوٹ گیا ہو۔اگر خول اوپر سے ٹوٹ گیا ہو اور اس کا مغز سلامت ہو تو وہ ہو سکتا ہے۔کان کٹا نہ ہو لیکن اگر کان زیادہ کٹا ہوا نہ ہو تو جائز ہے۔’’

(خطبات محمود جلد 2 صفحہ 73)

مسائل متعلقہ ذی الحجہ بحکم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ:

1۔ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی فجر کی نماز کے بعد سے لیکر تیرہویں تاریخ کی عصر تک بعد سلام نماز فرض کے حسب ذیل تکبیرات کہیں اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد۔سہ دفعہ ۔یہ تکبیرات بآواز بلند ہوں تو نہایت انسب ہے۔

2۔ دسویں تاریخ کو سورج کے بلند ہونے کے بعد دورکعت نماز صلوٰۃ العید جماعت کے ساتھ ادا کرے۔

3۔ بعد نماز عید قربانی کرنی چاہیے۔قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور بارہویں تک اتفاقاً ختم ہوتا ہے لیکن بعض کے نزدیک تیرھویں تاریخ کے عصر تک ہے۔

4۔ قربانی ا ونٹ ، گائے ، دنبہ ، بکرے سے ہو سکتی ہے۔ بھیڑ بھینس کو بھی حنفی علماء نے جائز رکھا ہے ۔ اونٹ پانچ سال کا ، گائے تین سال کی ، بکری دنبہ دو سال کا بشرطیکہ یہ قربانی کے حیوانات لنگڑے، اندھے ، یک چشم ، نہایت دبلے ، کان کٹے اور بیمار نہ ہوں ۔ سینگ ٹوٹابھی مناسب نہیں ۔ ہاں نر خصی اور آنڈل قربانی میں یکساں ہیں ۔

5۔ گائے اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ہوسکتی ہے

6۔ قربانی سنت مؤکدہ ہے۔جس شخص میں قربانی دینے کی طاقت ہو وہ ضرور کرے۔

7۔ قربانی کا گوشت خواہ خود استعمال کرے چاہے صدقہ کرے اور اس کی کھال اگر گھر میں رکھے تو ایسی چیز تیار کرائے جس کو عام استعمال کر سکیں۔احمدیوں کو صدر انجمن احمدیہ قادیان میں کھال یا اس کی قیمت صدقات میں ارسال کرنا چاہیے۔

8۔ اگر دو سالہ مینڈھا یا بکرا نہ ملے تو ایک سالہ بھی ہو سکتا ہے اور دنبہ سال سے کم کا بھی ہو تب بھی جائز ہے۔

9۔ اور جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ کریں ان کو چاہیے کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر قربانی کرنے تک حجامت نہ کرائیں۔اس امر کی طرف ہماری جماعت کو خاص توجہ کرنی چاہیے کیونکہ عام لوگوںمیں اس سنت پر عمل کرنا مفقود ہو گیا ہے۔

(الفضل قادیان22 ستمبر 1917ء )

قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت دعا پڑھنا؟

قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت دعائیں پڑھنا مسنون ہے ۔اس بابت متفرق احادیث ہیں۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ

‘‘آنحضرت ؐ جب اپنی قربانی ذبح کرتے تواللہ کانام لیتے اور تکبیر کہتے ۔ ’’

(بخاری کتاب الاضاحی باب التکبیر عند الذبح)

‘‘آنحضرت ؐ جب اپنی قربانی ذبح کرتے تو بِاسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَر کہتے ۔ ’’

(مسلم کتاب الصید والذبائح باب استحباب التضحیہ ..والتسمیۃ والتکبیر)

‘‘آنحضرت ؐ اپنی قربانی ذبح کر تے وقت یہ دعا پڑھتے بِاسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّل مِنْ مُحَمَّدٍ اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ! محمد کی طرف سے یہ قربانی قبول فرما۔ ’’

(مسلم کتاب الصید والذبائح باب استحباب التضحیہ …والتسمیۃ والتکبیر)

کیا قربانی کرنا فرض ہے؟یا سنت ہے؟

آنحضرت ﷺ ہر سال عید الاضحیہ کے موقعہ پر قربانی کیا کرتے تھے اور صحابہ کو بھی اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔

1۔ ‘‘ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ کیا عیدا لاضحیہ کے موقع پر قربانی کرنی ضروری ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول پاک ﷺ اور مسلمانوں نے قربانی کی ۔ اس نے اپنا سوال پھر دہرایا کہ کیا قربانی واجب ہے؟ آپؓ نے جواب دیا کیا تم سمجھتے نہیں کہ رسول پاک ﷺ اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے’’

(ترمذی کتاب الاضاحی باب الدلیل علی ان الاضحیۃ سنۃ )

2۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں :آنحضرت ﷺ مدینہ کے دس سالہ قیام میں قربانیاں کیا کرتے تھے۔

(ترمذی کتاب الاضاحی باب الدلیل علی ان الاضحیۃ سنۃ)

3۔ حضرت رسول پاک ؐ نے فرمایا :جو شخص توفیق کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری(عید کی)نماز کی جگہ کے قریب نہ آئے۔

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب الاضاحی واجبۃ ھی ام لا)

4۔ حضرت رسول پاک ؐ نے فرمایا :اے لوگو!ہر گھر کو ہر سال قربانی کرنی چاہیئے۔

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب الاضاحی واجبۃ ھی ام لا)

5۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں:‘‘آنحضرتؐ نے مجھے کچھ بکریاں دیں کہ میں ان کو صحابہ ؓ میں تقسیم کردوں تاکہ وہ قربانیاں کر سکیں۔ ایک سالہ بکری بچ گئی تو آپؐ نے مجھے فرمایا کہ اسے اپنی طرف سے قربان کر دو۔’’

(بخاری کتاب الاضاحی باب فی اضحیۃ النبی ؐ بکبشین اقرنین)

6۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں:‘‘آنحضرت ؐ جب قربانی کرنا چاہتے تو آپؐ دو ایسے مینڈھے خریدتے تھے جو موٹے، سینگوں والے اور خصی ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک آپؐ اپنی امت کی طرف سے ذبح کرتے تھے اور دوسرا اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے۔’’

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب اضاحی رسول اللہ ؐ)

پس مذکورہ بالا احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہر وہ شخص جو قربانی کا جانور پال کر یا خرید کر قربانی کر سکتا ہے اسے ضرور قربانی کرنی چاہیے۔جیسا کہ آنحضرت ﷺمدنی زندگی میں ہر سال قربانی کیا کرتے تھے حالانکہ مدنی زندگی کے ابتدائی سال انتہائی تنگی کے تھے ۔

ایک قربانی خاندان کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے۔نیز خاندان کی تعریف کے بارے میںحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

‘‘عید کے احکام یہ ہیں کہ ہر ایک خاندان کی طرف سے بکری کی قربانی ہو سکتی ہے اگر کسی میں وسعت ہو تو ہر شخص بھی کر سکتا ہے ورنہ ایک خاندان کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے۔ یہاں خاندان سے تمام دور و نزدیک کے رشتہ دار مراد نہیں بلکہ خاندان کے معنے ایک شخص کے بیوی بچے ہیں اگر کسی شخص کے لڑکے الگ الگ ہیں اور اپنا علیحدہ کماتے ہیں تو ان پر علیحدہ قربانی فرض ہے۔ اگر بیویاں آسودہ ہوں اور اپنے خاوند سے علیحدہ ان کے ذرائع آمد ہوں تو وہ علیحدہ قربانی کر سکتی ہیں ورنہ ایک قربانی کافی ہے۔

بکرے کی قربانی ایک آدمی کے لیے ہے اور گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات آدمی شامل ہوسکتے ہیں۔ ائمہ کا خیال ہے ایک گھر کے لیے ایک حصہ کافی ہے اگر گھر کے سارے آدمی سات حصہ ڈال لیں تو وہ بھی ہو سکتا ہے ورنہ ایک گھر کی طرف سے ایک حصہ بھی کافی ہے۔

(الفضل 17؍اگست1922 ء جلد 10،صفحہ13۔خطبہ عیدالاضحی)

قربانی اورصدقہ میں فرق

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

‘‘ابراہیمی سنت کے ماتحت مسلمانوں کوبھی قربانی کاحکم ہے اور اس پر مسلمان ہمیشہ سے عمل کرتے چلے آئے ہیں مگر چونکہ اس رؤیاکے دونوں پہلو ہیں منذر بھی اورمبشر بھی۔ اسی وجہ سے اس قربانی اور صدقہ میں فرق ہے۔صدقہ کاگوشت انسان کوخودکھانا جائز نہیں۔مگراس قربانی کاگوشت انسان خود بھی استعمال کرسکتا ہے اوراپنے دوستوں اورغرباء ومساکین میں بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے۔’’

(الفضل 20؍ستمبر1919ء۔خطبات عیدین صفحہ72)

کیا دوسروں کی طرف سے قربانی ہوسکتی ہے؟

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

‘‘کئی لوگ غریب ہوتے ہیں اس لیے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ کوئی شخص قربانی سے محروم نہ رہ جائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ غرباء امت کی طرف سے ایک قربانی کردیا کرتے تھے۔ اس طریق کے مطابق میرا قاعدہ یہ ہے کہ اپنی جماعت کے غرباء کی طرف سے ایک قربانی کردیا کرتا ہوں۔ (الفضل 17؍ اگست 1922ء )

قربانی کے جانور کی خصوصیات کا خلاصہ،نیز تکبیرات کا درست طریق: از حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ

‘‘قربانی کے جانور کے لیے یہ شرط ہے کہ بکرے وغیرہ دو سال کے ہوں۔ دنبہ اس سے چھوٹا بھی قربانی میں دیا جا سکتا ہے ۔ قربانی کے جانور میں نقص نہیں ہونا چاہئے۔ لنگڑا نہ ہو۔ بیمار نہ ہو۔ سینگ ٹوٹا ہوا نہ ہو یعنی سینگ بالکل ہی نہ ٹوٹ گیا ہو۔ اگر خول اوپر سے اتر گیا ہو اور اس کا مغز سلامت ہو تو وہ ہو سکتا ہے کان کٹا نہ ہو لیکن اگر کان زیادہ کٹا ہوا نہ ہو تو جائز ہے۔

قربانی آج اور کل اور پرسوں کے دن ہو سکتی ہے لیکن سفرہو یا کوئی اور مشکل ہو تو حضرت صاحب کا بھی اور بعض بزرگوں کا بھی خیال ہے کہ اس سارے مہینہ میں قربانی ہوسکتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ ان دنوں میں تیسرے دن تک تکبیرتحمید کیا کرتے تھے اور اس کے مختلف کلمات ہیں اصل غرض تکبیر وتحمید ہے خواہ کسی طرح ہو اور اس کے متعلق دستور تھا کہ جب مسلمانوں کی جماعتیں ایک دوسری سے ملتی تھیں تو تکبیر کہتی تھیں۔ مسلمان جب ایک دوسرے کو دیکھتے تو تکبیر کہتے۔ اٹھتے بیٹھتے تکبیر کہتے۔ کام میں لگتے تو تکبیر کہتے لیکن ہمارے ملک میں یہ رائج ہے کہ محض نماز کے بعد کہتے ہیں اس خاص صورت میں کوئی ثابت نہیں اور یہ غلط طریق رائج ہوگیا۔ باقی یہ کہ تکبیر کس طرح ہو یہ بات انسان کی اپنی حالت پر منحصر ہے جس کا دل زور سے تکبیر کہنے کو چاہے وہ زور سے کہے جس کا آہستہ وہ آہستہ مگر آواز نکلنی چاہئے۔’’

(الفضل17؍اگست1922ء، الفضل11؍ستمبر1951ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button