متفرق مضامین

مسجد مبارک اسلام آباد میں اسمائے الٰہیہ کی کیلی گرافی

‘‘جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر اس کی راہ میں مسجد بناتا ہے تو اللہ اس کے لیےجنت میں بھی ویسی ہی جگہ بنا دیتا ہے۔’’

(بخاری کتاب الصلوۃ باب من بنی مسجدا صفحہ78 حدیث 450 ایڈیشن 1999ء ریاض)

17؍مئی 2019ء بروز جمعۃ المبارک حضرت امیر المومنین مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سجدۂ شکر اور پھر نمازِ جمعہ کے ساتھ اسلام آباد ٹلفورڈ، برطانیہ میں جماعت احمدیہ کے نئے مرکز میں قائم کی جانے والی خلیفۃ المسیح کی مسجد ‘مبارک’ کا افتتاح فرمایا۔ اس مسجد میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے صفاتی نام انتہائی خوبصورت انداز میں لکھے گئے ہیں۔ آئیے اس پروجیکٹ کے انچارج محترم سیّد عامر سفیر صاحب مدیرِ اعلیٰ ریویو آف ریلیجنز اور اس خوبصورت تحریر کے خطّاط محترم رضوان بیگ صاحب سے اس بارے میں کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں۔

مختصر پس منظر

محترم سید عامر سفیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن خاکسار رضوان بیگ صاحب سے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ٹلفورڈ اسلام آباد میں ہجرت کے متعلق گفتگو کر رہا تھا۔ رضوان بیگ صاحب مسجد کی تصاویر دیکھ چکے تھے اور ان کی نظر میں وہ انتہائی دلکش اور خوبصور ت تھی۔ ان کے اند ر ایک خاص جذبہ تھا کہ کسی رنگ میں اس مسجد کے لیے اپنی خدمات کو پیش کر سکیں۔ ان کی اس خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ ہم حضور انور سے ہی اس سلسلے میں رہنمائی حاصل کریں۔ جب ہم نے حضورِ انور سے ملاقات کی تو حضورِ انور کے ذہن میں بھی مسجد کی تزئین کے حوالہ سے خدا تعالیٰ کے اسماء کو کسی طریقے سے مسجد کا حصہ بنائے جانے کی خواہش تھی۔ لیکن ابھی تک پہلے سے پیش کیے گئے ڈیزائن حضورِ اقدس کو پسند نہیں آئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب رضوان بیگ صاحب نے حضورِ انور کی خدمت میں مسجد کے اندرون کو سجانے کی خواہش کا اظہار کیا تو حضور نہایت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ابھی جا کر جائزہ لو اور اچھے طریقے سے مسجد کو اندر سے دیکھ کر مجھے واپس آکر رپورٹ دو۔ پھر حضور میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ملاقات کے فوراً بعد انہیں لے کر مسجد جاؤ۔ ملاقات کے دوران ہی حضور نے دو دفعہ تاکیداً مجھے یہی فرمایا کہ ملاقات کے اختتام پر فوراً رضوان بیگ صاحب کو لے کر جاؤں اور ادریس صاحب اور فاتح صاحب سے ملاقات کروں جو مسجد کی تعمیر کے کام کی نگرانی کر رہے تھے۔

محترم رضوان بیگ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نے حضور سے ملاقات کی تو حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ آپ مسجد میں کچھ ایسا دیکھنے کے خواہش مند ہیں جو آرٹ اور خوبصورتی کے لحاظ سے مسجد کی دلکشی میں اضافہ کرنے والا ہو۔ پھر ہم مسجد میں گئے اور اس کو اس وقت دیکھا جب وہ بالکل خالی تھی اور ابھی تعمیر کے مراحل میں تھی۔ مسجد میں کل 64؍کھڑکیاں تھیں ۔ میں نے سوچا کہ اندرونی طور پر اس کو سجانے کی بہت صورتیں ہو سکتی تھیں اور گو ہم کسی بھی قسم کا ڈیزائن اس کے لیے تجویز کر سکتے تھے لیکن سب سے پہلا سوال ہمارے لیے یہ تھاکہ مسجد کے اندازِ تعمیر کو مدنظر رکھتے ہوئے انجینئرز وہ ڈیزائن بنا بھی سکیں گے یا نہیں۔

ایک اَور چیلنج جو ہمیں درپیش تھا وہ محدود وقت تھا یعنی ڈیزائن کو تجویز کرتے ہوئے ہمیں اس چیز کو مدنظر رکھنا کہ کیا یہ مقررہ وقت میں مکمل بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ مجوزہ ڈیزائن کی تیاری سے مسجد کے افتتاح میں تاخیر ہو جائے۔

چنانچہ اگلے ہفتے ہم پھر حضور انور کی خدمت میں حاضر تھے اور اس بار ہم اپنے ساتھ جیومیٹریکل ڈیزائن کے کچھ نمونے پیش کرنے کے لیےساتھ لے کر گئے جو تکرار پر مبنی اصولوں کے مطابق تیار کیے گئے تھے۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہو گا کہ آخر جیومیٹری سے متعلق فن کو ہی ہم مسجد کے لیے کیوں بروئے کا ر لائے؟ اس لیے کیونکہ ایک لحاظ سے اس کا تعلق ذکر سے ہے۔ ذکر کے معنی خدا تعالیٰ کو بار بار یاد کرنے کے ہیںاور جیومیٹری میں بھی ایک ڈیزائن کو بار بار دوہرایا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم نے حضورِ انور کی خدمت میں اس تجویز کو پیش کیا۔ حضور بڑے غور کے ساتھ اس ڈیزائن کی باریکیوں کو دیکھنے لگے۔
شروع میں یہ تجویز تھی کہ کھڑکیوں کو اس ڈیزائن سے ڈھانپ دیا جائے لیکن اس کے لیے شیشہ یا صاف شفاف ایکریلک نما سطح استعمال کی جائے تاکہ ڈیزائن روشنی کی راہ میں حائل نہ ہو۔ اس ڈیزائن کا مقصد یہ تھا کہ جب دن کے وقت سورج کی روشنی اس سے گزرے تو وہ جیومیٹریکل ڈیزائن جو ان کھڑکیوں پر بنایا جائے، اس کا عکس زمین پر نظر آئے جس سے اس کی موجودگی کا احساس ہر وقت ہوتا رہے۔ اس پر حضورِانور نے تفصیلاً فرمایا کہ گو یہ ڈیزائن بہت عمد ہ ہے لیکن حضور یہ نہیں چاہتے کہ ان کھڑکیوں سے باہر کا جو سبزہ نظر آتا ہے اس میں رکاوٹ حائل ہو۔ لیکن عمومی طور پر حضور نے اس ڈیزائن کو پسند فرمایا۔

ننانوے صفات باری تعالیٰ

ہماری تیسری ملاقات میں ہم نے حضور انور کی خدمت میں یہ تکنیکی مسئلہ پیش کیا کہ عین ممکن ہے کہ انجینئرز اس ڈیزائن کو نصب ہی نہ کر سکیں۔ حضور انور نے اس بات سے اتفاق فرمایا اور پھر اپنا Ipad نکال کر ہمیں ایک ویڈیو دکھائی جس میں ان 64؍کھڑکیوں کو دکھایا اور یہ کہ روشنی کہاں سے داخل ہو رہی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیوں نہ ہم کوئی متبادل طریق تلاش کریں اور حضور اس پر بھی متفق ہوئے کہ ہم یہاں اللہ تعالیٰ کی 64؍صفات لگا سکتے ہیں۔ میں نے عاجزانہ درخواست حضور انور کی خدمت میں کی کہ مسجد کے طرز ِتعمیر کو دیکھتے ہوئے ہم باقی صفات کسی اَور جگہ بھی با آسانی نصب کر سکتے ہیں۔ حضور انور نے خدا تعالیٰ کی ننانوے صفات کو بھی اسی طرح مسجد میں نصب کرنے کے متعلق تجویز ازراہ شفقت منظور فرمائی۔

محترم عامر سفیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت رضوان بیگ صاحب انتہائی جذباتی حالت میں تھے اور رو رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پچھلے 8؍ سال سے روزانہ ان ننانوے صفات ِ الٰہیہ کو لکھنے کی مشق کر رہے تھے ۔ آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ انعام کیا ہے کہ میں اُس کے نام خوبصورت انداز میں حضور انور کی مسجد میں نمایاں کر کے دکھا سکوں۔

محترم رضوان بیگ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضورِ انور نے استفسار فرمایا کہ اتنے بڑے پراجیکٹ کو کس کی مدد سے مکمل کرو گے تو خاکسار نے جواب دیا کہ کیونکہ میں نے ریویو آف ریلیجنز کے ساتھ کئی سال کام کیا ہے اس لیے ان کی معاونت کے بغیر یہ مشکل ہو گا، ان کی ٹیم کی مہارت اس کام میں ممد ثابت ہوگی اور بروقت اور معیار کے مطابق یہ پراجیکٹ مکمل کیا جاسکےگا۔ اس لیے میری حضور انور سے عاجزانہ درخواست ہے کہ محترم عامر سفیر صاحب اور اُن کی ٹیم اس کام میں خاکسار کی معاونت کریں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےمسکراتے ہوئے اس کی اجازت مرحمت فرما دی۔

رنگ کا انتخاب

محترم عامر سفیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم نے سنا تھاکہ حضورانورنے تجویز فرمایا تھا کہ مسجد کا قالین سبز رنگ کا ہوگا۔ بہت سے احباب نے تجویز کیا تھا کہ کیونکہ مسجد کا اپنا رنگ بھی بھورا ہے اس لیے خطاطی بھی اسی رنگ کی ہونی چاہیے۔ اس پر مَیں نے پھر حضورِ انور سے رہنمائی حاصل کی۔ لیکن حضرت صاحب نے فرمایا کہ سبز رنگ استعمال کیا جائے۔ رضوان بیگ صاحب سے مشورہ کرنے کے بعد ہم نے کئی طرز کے ڈیزائن کھڑکیوں پر لگانے کے لیے آزمائے جن میں بعض گول تھے، تکون اور ہیرے کی شکل کے بھی تھے۔ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں ان کے نمونے بھجوائے تو حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ ہم گول ڈیزائن استعمال کریں۔ بعد میں جب رضوان بیگ صاحب نے اس کی آخری شکل تشکیل دے کر لگانے کے لیے کچھ نمونے بنوا ئے اور ہم نے حضور کی خدمت میں پیش کیے تو سبز رنگ حضور انور کو اتنا پسند نہیں آیا جتنا کہ حضور کو امید تھی۔ سو ہم پھر حضور انور کی خدمت میں خطاطی کے مختلف رنگ کے نمونے لے کر حاضر ہوئے۔ جیسے ہی ہم حضور سے ملاقات کے لیے دروازے میں داخل ہوئے حضور انور نے فرمایا کالا رنگ کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔ پھر حضور مسکرائے اور فرمایا عامر نے بھورا رنگ کہا تھا لیکن یہ بہتر ہے۔ میں نے یہ بات اس لیے عرض کی ہے کہ بہت سے لوگوں نے مجھے کہا کہ میں نے بھورا رنگ کیوں نہیں تجویز کیا کیونکہ وہ مسجد سے مطابقت رکھتا تھا اور زیادہ مناسب لگنا تھا۔ لیکن جیسا کہ حضور انور نے ارشاد فرمایا ہے کہ ڈیزائن کو مد نظر رکھتے ہوئے کالا رنگ زیادہ مناسب تھا ۔ خود رضوان بیگ صاحب بھی کالے رنگ کے حق میں تھے کیونکہ اس سے مسجد کی خوبصورتی نمایا ں ہو رہی تھی۔ بعض دفعہ ذہن میں ایک چیز اچھی لگتی ہے لیکن جب ہم نے عملی طور پر اس کے نمونے بنائے تو رنگوں نے مختلف تاثر پیش کیا اور اسی وجہ سے بالآخر حضور انور نے اسی کو پسند فرمایا۔
محترم رضوان بیگ صاحب اس موقع کو یاد کرتے ہوئے بیا ن کرتے ہیں کہ جب ہم حضور انور کو نمونے دکھا رہے تھے تو حضور نے اسی وقت فرمایا کہ کالے اور سفید سب سے بہترین ہیں اور ان 64 صفات کے لیے جو شکل تجویز فرمائی وہ گول پسند فرمائی۔

کیونکہ مسجد کی اندرونی آرائش کے ہر مرحلے پر حضور انور ہماری رہنمائی اور مدد فرما رہے تھے تو ہم نے عرض کی کہ حضور ہم یہ ننانوے صفات تو لگا رہے ہیں لیکن ‘اللہ’کا نام کہاں لگایا جائے۔ جب میں نے حضورِ انور سے عرض کی کہ محراب پر لگایا جائے تو حضور نے بہت ہی خوبصورت انداز میں فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اللہ کا نام ایک خاص نام ہے جو تمام ادیان میں سے کسی اَور میں نہیں پایا جاتا۔ پس حضور نے ازراہِ شفقت میری تجویز کو منظور فرمالیا۔ گو حضور نے کچھ لمحے اس پر رک کر سوچا بھی اور اس دوران میں نے سمجھا کہ شاید میں نے کچھ زیادہ کہہ دیا ہے تو اس پر میں نے کہا حضور اگر یہ اچھا نہ لگا تو اسے فوراً اتار دیں گے۔ لیکن حضور نے فرمایا جس طرح مناسب لگے ویسا کرو۔ حضور مسکرا رہے تھے اور اپنے اس فیصلے پر مطمئن نظر آرہے تھے۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہے، کیونکہ دنیا میں موجود مسجدوں میں کام کر کے میرا ایک وسیع تجربہ بھی ہے، میرے خیال میں یہ دنیا کی پہلی مسجد ہے جس کے محراب پر اللہ تعالیٰ کا نام اس طرح آویزاں کیا گیا ہے۔

محترم عامر سفیر صاحب کہتے ہیں کہ اس سارے عمل کی بہت سی اہم تفصیلات ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ گزشتہ دس سال سے کام کر نے کی توفیق پا رہا ہوں، اس کے باوجود اس عمل کے دوران حضور کی شخصیت کے کئی نئے پہلوسامنے آئے۔ عام طور پر میں اور رضوان بیگ صاحب حضور انور سے باقاعدگی سے دفتری ملاقاتیں کر کے اہم امور پر گفتگو کرتے ہیں۔ باقی اوقات میں ہم دونوں مسجد مبارک کے باہر کھڑے ہوجاتے ہیں اور نمازوں کے بعد حضور انور سے ہدایات لے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بعض اوقات خاکسار کو عمومی دفتری ملاقات کے اوقات سے ہٹ کر بھی حضور انور سے ملاقات اور مختلف امور پر ہدایات لینے کا موقع ملا ہے۔ مختصراً یہ کہ اس پراجیکٹ کے متعلق کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ دن میں کئی مرتبہ حضور انور سے ملاقات ہوتی رہی۔ جیسے کہ آپ سوچ سکتے ہیں کہ معاملہ چونکہ خلیفۂ وقت کی مسجد سے متعلق تھا ، اس لیے یہ کس قدر اہمیت کا حامل تھا اور اس سلسلہ میں حضور کو اتنی قریب سے دیکھنا خدا کا فضل تھا۔

سب سے متاثر کن چیز حضورِ انور کی تحقیق کو مشاہدہ کرنا تھی۔ عمومی طور پر یہ ہوتا ہے ، اور ہم اس کے عادی بھی ہیں، کہ کسی بھی معاملہ کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حتمی رہنمائی کے لیے پیش کرنے سے پہلے اس کے ہر زاویے پر تحقیق کر لیتے ہیں۔ لیکن اس معاملہ میں سب کچھ اس کے برعکس تھا۔ یہاں ہم نے ہر ایک مرحلہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مل کر سوچ بچار کی۔ ہمیں اس کا عادی ہونے میں کچھ وقت لگا۔ یہانتک کہ خاکسار کو بھی جو کہ کئی سالوں سے حضور انورکے ساتھ کام کرنے کی توفیق پا رہا ہے اسے سمجھنے میں وقت لگا۔ مثال کے طور پر خطاطی کے ان ٹکڑوں کے رنگ کا معاملہ لیں۔ ابتدا میں حضور نے فرمایا کہ اسے سبز رکھیں۔ اب ظاہر ہے کہ خلافت کا خادم ہونے کے ناطے خاکسار کا خیال تھا کہ یہ حتمی فیصلہ ہے اور اس پر مزید گفتگو کیے بغیر سبز رنگ میں اسے تیار کیا جائے لیکن جب ہم اگلی مرتبہ حضور انور کے پاس گئے اور نمونے پیش کیے تو آپ کو تیار شدہ نمونوں میں سیاہ رنگ زیادہ پسند آیا اور فرمایا کہ سیاہ خوبصورت معلوم ہوتا ہے، اس میں تیار کریں۔ یہی معاملہ ہر دوسرے مرحلہ میں ہوا۔ اور مجھے یہ احساس ہوا کہ اس کے ذریعہ ہمیں حضور انور کے سوچنے کی صلاحیت کو براہ راست دیکھنے کا موقع ملا۔ حضور انور ہمارے سامنے سوچتے، اس کی متفرق ممکنہ صورتوں کا اظہار فرماتے، اس پرآراء لیتے اور ہمیں دوسروں سے مشورہ لینے کاارشاد فرماتے۔ حضور ایک سوچ سے شروع کرتے، اس کا عملی آغاز فرماتے، اس کے متعلق دعا کرتے اور پھر ایک حتمی فیصلہ فرماتے تھے۔ اس سارے وقت میں، اس کے ابتدائی خیال سے لے کر آخری صورت تک حضور بعض اوقات تبدیلیاں فرماتے جیسا کہ اوپر ایک مثال پیش کی گئی ہے۔ ایک اَور مثال پیش کر دیتا ہوں۔ ابتدا میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ خطاطی کے ان نمونوں کو مسجد میں لگا دیں۔ تو ہم نے چار نمونے لگا دیے۔ اگلے دن جب حضور اسلام آباد منتقل ہو گئے تو میں وہاں باقی نمونے لگانے کے لیے موجود تھا اور وکالت مال اور تعمیل و تنفیذ کے دفتر کے ساتھ کسی دفتر کے باہر موجود تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ حضور کسی دفتر میں ہی ہیں اور اچانک جب آپ باہر نکلے تو مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ یہاں ہیں؟ تو میں نے عرض کی کہ جی حضور میں خطاطی کے ٹکڑے لگانے کے لیے آیا تھا۔ پھر حضور ایک اَور دفتر میں تشریف لے گئے اور جب باہر آئے تو مجھے بلایا اور فرمانے لگے کہ میں ان ٹکڑوں کے زاویے کے بارہ میں سوچ رہا تھا اور میں نے اس کا ذکر ادریس صاحب سے بھی کیا تھا کہ ہم اس زاویے پر بھی ان ٹکڑوں کو لگا کر دیکھیں (حضور نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے سمجھایا کہ آپ کی کیا مراد ہے)تاکہ یہ کھڑکیوں کے ساتھ مزید مطابقت اختیار کر لے۔ حضور نے یہ اس انداز میں فرمایا تھا گویا اس پر میری رائے لینا چاہ رہے ہوں۔ میں نے عرض کی کہ جیسا حضور فرما رہے ہیں، ہمیں بھی وہ زیادہ خوبصورت محسوس ہوا تھا۔ اس کے بعد ادریس صاحب کی ٹیم نے چار نمونوں کو تین مختلف زاویوں سے لگا دیا اور ایک دن جب حضور نماز کے لیے تشریف لائے تو نماز کے بعد حضور نے اوپر دیکھا، اس کا معائنہ فرمایا اور اور حتمی زاویے کا انتخاب فرمایا جس کے بعد باقی نام اسی مناسبت سے لگائے گئے۔ مختصراً یہ کہ اگرچہ حضور ا نور نئے دفاتر کا معائنہ فرما رہے تھے اور ایک دفتر سے دوسرے دفتر تشریف لے جاتے تھے، سوچنے کا مرحلہ جاری رہا اور حضور ان ٹکڑوں سے متعلق ممکنہ صورتوں کے بارے میں سوچتے رہے اور رہنمائی عطا فرمائی۔

‘‘لاراد لفضلہ’’سے متعلق حضورِ انور کا ارشاد تھا کہ اسے ‘‘لاالہ الااللہ’’جو کہ درمیان میں ہو گا، کی کسی ایک طرف لکھ دیا جائے ۔ ابتدا میں ‘‘لاراد لفضلہ’’سیاہ رنگ میں لکھا گیا تھا اور چونکہ وقت بہت کم تھا، ہم نے اسے حضور انور کی ہدایت لیے بغیر نصب کر دیا۔ تاہم ہم نےسوچا کہ جب ہر معاملے میں حضور انور کی رہنمائی شامل ہے تو اس بارے میں بھی حضور کی رہنمائی لے لی جائے لہٰذا میں حضور انور سے حضور کے دفتر میں ملا اور اس سلسلہ میں کچھ تحقیق پیش کی۔ اس سلسلے میں یہ بات تو واضح ہے کہ حضور کو ان معاملات کا علم پہلے سے ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہدایت لینے کے لیے حضور انور کی خدمت میں ایک باقاعدہ طَور پر ان معاملات کو پیش کیا جاتا ہے۔ حضور نے اس ضمن میں حضرت مسیح موعود ؑکا ایک رؤیا پڑھا جو تذکرہ میں درج ہے۔ اس رؤیا میں حضرت مسیح موعود ؑنے دیکھا کہ ‘‘لاراد لفضلہ’’سبز سیاہی میں، خط ِریحانی میں مسجد مبارک قادیان کے دروازے کے اوپر لکھا ہے۔ بعد میں حضور انور نے یہ بھی فرمایا کہ مسجد مبارک قادیان اور مسجد فضل لندن میں یہ سبز رنگ میں ہی لکھا ہوا ہے لہٰذا یہاں بھی اسے سبز میں ہی لکھا جائے۔ میں نے حضور انور سے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رضوان بیگ صاحب نے اسے پہلے ہی خط ِریحانی میں لکھا ہے البتہ رنگ بھی فورا تبدیل کر دیا جائے گا اور اس طرح اس کی وہ شکل سامنے آئی جو ابھی مسجد مبارک میں ہے۔

محراب میں نصب ‘‘اللہ’’ سے متعلق میں نے اور رضوان بیگ صاحب نے جب ہم اسلام آباد میں تھے سوچا کہ حضورِ انور سے اس ضمن میں رہنمائی لی جائے کیوں کہ یہ ایک ایسی چیز تھی جو جماعت احمدیہ کی مساجد کے لیے بالکل نئی تھی اور پہلے ہی بہت سے لوگ اس بارے میں باتیں کر رہے تھے اس لیے ضروری تھا کہ حضور سے ہدایت لی جائے۔ یہ ہدایت لینا دفتر میں ممکن نہیں تھا کیونکہ حضور اسے دیکھ نہیں سکتے تھے اس لیے واحد صورت یہی تھی کہ مسجد میں ہی حضور سے رہنمائی لی جائے۔ لہٰذا میں نے حضور انور کوجب آپ مسجد میں داخل ہوئے، نہایت غور سے دیکھنا شروع کیا کہ آیا حضور محراب کو دیکھتے ہیں یا نہیں۔ میرے خیال میں، جو غلط بھی ہو سکتا ہے، حضور نماز کے لیے تشریف لائے اور نیچے ہی دیکھتے رہے کیونکہ آپ کا چہرہ مبارک نیچے تھا تو خیال تھا کہ آپ نے اسے نہیں دیکھا۔ نماز کے بعد جب حضور روانہ ہونے لگے تو میں نے ادب کے ساتھ حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم حضور سے محراب میں نصب ‘‘اللہ ’’ سے متعلق رہنمائی لینا چاہتے ہیں۔ حضور چند لمحوں کے لیے وہاں رکے، کچھ سوچا اور پھر مسجد کے درمیان کی طرف چلنا شروع کیا جہاں سب پیچھے بیٹھے تھے اور سب اشتیاق سے حضور انور کو دیکھنے لگ گئے۔ یہ ایسا شاندار نظارہ تھا کہ خلیفۂ وقت مسجد کے درمیان میں کھڑے ہوئے مسجد کے اندرونی ڈیزائن کا مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ پھر حضورنے فرمایا کہ یہ اچھا لگ رہا ہے اور پھر رضوان بیگ صاحب کو فرمایا کہ اگر آپ اس سے مطمئن ہیں تو بس ٹھیک ہے۔ پھر حضور اندرونی ڈیزائن کے متعلق بعض دوسرے امور سے متعلق استفسار فرمانے لگے۔

حضور انور نے اسلام آباد منتقل ہونے سے قبل ہمیں فرمایا تھا کہ وہ جلد ہی وہاں آجائیں گے۔ حضور نے رضوان صاحب سے پہلے استفسار فرمایا کہ اپنی خطاطی مکمل کرنے میں کتنا وقت لگاؤ گے (ہر ایک حصہ پر بیگ صاحب کو ہاتھ سے لکھتے ہوئے 4سے 5گھنٹے لگ رہے تھے اور پھر وہ اس کو ویکٹر ڈیزائن میں تبدیل کر کے ان کو 3-D شکل دیتے تھے۔ جب رضوان صاحب نے کہا کہ تقریباً دو سے تین ہفتے لگیں گے تو حضور نے میری طرف رخ کر کے فرمایا کہ اب یہ تمہارے سپرد ہے کہ تم اس اس تاریخ تک ان کی تکمیل کو یقینی بناؤ۔ اس وقت تک ہمیں کوئی علم نہیں تھا کہ افتتاح ہونا ہے اور ہونا بھی ہے تو کب ہونا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ مَیں اسلام آباد منتقل بھی ہوگیا تو تب بھی کرین کو مسجد کے پیچھے کھڑا کر کے اپنا کام مسجد میں جاری رکھنا۔ ہم نے اپنے خیال کے مطابق اندازہ لگا لیا کہ حضور نے یہ وقت افتتاحی تقریب کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا ہے۔ اس لیے دباؤ بہت زیادہ تھا۔ اس کے بعد ہمارے علم میں آیا کہ اس کا تو باقاعدہ طور پر مکمل افتتاح ہوگا۔ لیکن کسی کے بھی علم میں نہیں تھا کہ کس تاریخ کو ہوگا یہاں تک کہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب بھی اس سے نا واقف تھے۔ ہم میں سے بہت سے جو اس پراجیکٹ میں شامل تھے بس اندازہ لگاتے رہے کہ تقریب کب ہوگی لیکن کسی کو حتمی علم نہیں تھا۔ مسجد کے اندر ساؤنڈ سسٹم تیار تھا، ایم ٹی اے کی ٹیم تیار تھی، نیز سب کچھ تیار تھا۔ بس جو رہ گیا تھا وہ اللہ تعالیٰ کے نام تھے جو اندر لگنے تھے۔ جب بھی میں مسجد میں آتا حضور فرماتے آج کتنے حصے اس سامان کے لائے ہو۔ افتتاحی تقریب کے قریب حضور انور نے فرمایا کہ اب مجھے جلدی کرنی چاہیے کیونکہ حضور انور اب افتتاح کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ابھی تک علم نہیں تھا کہ کب افتتاح ہوگا۔میری رائے میں حضور غالباً مسجد کی اندرونی تزئین و آرائش کا انتظار فرما رہے تھے۔

اس مسجد میں ہونے والے پہلے نکاح کے وقت حضور انور نے فرمایا یہ مت خیال کریں کہ اس سے اس مسجد کا افتتاح ہو گیا ہے بلکہ اس کا افتتاح خطبہ جمعہ کے ساتھ ہوگا۔(پھر حضور نے چھت کی طرف دیکھا) اور فرمایا کہ جب یہ سب مکمل ہو جائے گا۔ رات دن 24گھنٹے ٹیم حضور کی خواہش کی تکمیل میں کام کرتی رہی۔تین سے چار ہفتوں کے لیے ہمارا آفس ایک چھوٹی سی فیکٹری بن گیا۔ ہمارے ٹیم ممبران موسیٰ ستّار، مصور دین اور باسل رضا بٹ نے انتھک محنت کے ساتھ کام کیا ، نہ پروا کرتے ہوئے کہ دن ہے یا رات۔وہ ہر ایک حرف کو گوند کی مدد سے چپکاتے رہے۔ جب بھی وہ پانچ یا دس نام مکمل کرتے تو وہ میری گاڑی میں ڈال دیے جاتے اور میں اسلام آباد کے لیے روانہ ہو جاتا۔ جہاں ادریس صاحب اور شوکت عزیز صاحب ان ناموں کی تختیوں کو لگانے میں ہماری ٹیم کی مدد کرتے۔

ایک موقع پر میں ٹیم ممبران کی ویڈیو بنا کر حضور انور کی خدمت میں لے گیا حضور نے Ipad اپنے ہاتھ میں لیا اور ویڈیو دیکھنی شروع کر دی ۔ حضور نے استفسار فرمایا کہ کیا انہوں نے ہر ایک ٹکڑا خود لگایا ہے؟ میں نے کہا جی حضور۔ حضور اختتام تک مکمل ویڈیو دیکھتے رہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ حضور بڑے غور سے ویڈیو دیکھتے رہے اور آپ کی آنکھوں سے ان کے لیے محبت چھلک رہی تھی ۔

مجھے یاد ہے کہ افتتاح کا وقت قریب تھا لیکن کسی کو پھر بھی علم نہیں تھا کہ کب افتتاح ہو گا۔ منیر عودے صاحب کی میرے سے پہلے ملاقات تھی اور آپ نے ذکر کیا کہ حضور نے اشارۃً ذکر فرمایا ہے کہ افتتاح کب ہوگا۔ پھر میں جب ملاقات کے لیے اندر گیا تو حضور نے فرمایا کہ اگلے جمعے مَیں مسجد کا افتتاح کروں گا تب تک سب کچھ مکمل کر لو۔

سو بالآخر پہلی دفعہ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اس مسجد کا باقاعدہ افتتاح کب ہوگا۔ میں یہ سب کچھ اس لیے بیان کر رہا ہوں کیونکہ حضور انور نے جس اپنائیت کا اظہار اس کی اندرونی تزئین و آرائش اور خطاطی کے سلسلہ میں فرمایا تھا اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ خود حضور بھی اس کے مکمل ہونے کے منتظر تھے تا افتتاحی خطبہ جمعہ میں اس کا ذکر فرما ئیں۔

مسجد کے افتتاح کی یادگاری تختی کے بارے میں یہ بتاتا چلوں کہ ایک دن میں نے حضور سے راہنمائی چاہی اور یہ عاجزانہ تجویز پیش کی کہ ہمیں نمونے کے طور پر کچھ بنا لینا چاہیے جس پر حضور نے ازراہ شفقت منظور ی عنایت فرمائی۔ میں مبارک احمد ظفر صاحب چیئر مین اسلام آباد ڈویلپمنٹ کمیٹی کے ساتھ بیٹھ گیا اور ان کی مدد سے ہم نے وہ تحریر لکھی جو اس تختی پر لگائی جانی تھی۔ میں اسے حضور انور کی خدمت میں لے کر گیا اور حضورِ انور نے ازراہ شفقت اس کی منظور ی عنایت فرمائی۔ حضور نے استفسار فرمایا کہ یہ کس چیز پر چھاپا جائے گا آیا ماربل، دھات یا کسی اَور شے پر۔ خاکسار نے جواب دیا کہ اس کے متعلق مزید تحقیق کر کے حضور انور کو اس سے آگاہ کروں گا۔ بالآخر رضوان بیگ صاحب کی انتھک محنت و مدد سے ہم نے تختی کی آخری شکل تشکیل دے دی۔ یہ بہت ہی مشکل امر تھا کیونکہ افتتاح میں بمشکل ایک ہفتہ یا شاید اس سے بھی کم رہ گیا تھا اور کوئی بھی کمپنی اتنے کم وقت میں یہ کام کرنے کو تیار نہ تھی۔(تحریر کو اس طرح پیتل پر ڈھالنا ایک نہایت مشکل عمل ہے)۔ ہمیں عین وقت پر تختی موصول ہوئی۔ میں حضور انور کے پاس لے گیا اور حضور نے ازراہ شفقت ہاتھ میں تھام کر اسے بغور دیکھا۔ بالکل اگلی نماز پر میں مسجد سے کچھ وقفے پر کھڑا تھا اور حضور انور نے نمازِ جنازہ پڑھایا تھا اور نماز میں ابھی کچھ منٹ باقی تھے۔
حضور انور نے کچھ دیر باہر انتظار فرمایا۔ حضور کچھ احباب سے گفتگو فرما رہے تھے کہ اچانک آپ میری طرف مڑے اور فرمایا عامر ادھر آؤ۔ آپ نے فرمایا بتاؤ یہ تختی کدھر رکھنا چاہتے ہو۔ میں نے درخواست کی کہ حضور اگر یہ ہم نے وہاں لگا دی جہاں سے حضور داخل ہوتے ہیں تو لوگوں کے لیے اسے دیکھنا مشکل ہو گا کیونکہ عام طور پر وہاں تک ان کی رسائی نہیں ہے۔ شاید اسے کسی دوسرےداخلی راستے کی طرف نصب کیا جانا چاہیے لیکن جیسے حضور مناسب فرمائیں۔ میں انتہائی حیران ہوا جب حضور نے اچانک مسجد کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا اور مردوں کے دروازے کے پاس سے گزر کر عورتوں کے دروازے کی طرف آئے۔ حضور نے اس سے قبل یہ امکان پیش کیا تھا کہ شاید تختی مستورات کی سائیڈ پر لگائی جائے۔ پھر جب حضور چل رہے تھے تو حضور نے اس کا اظہار دوبارہ فرمایا جس پر میں نے عرض کیا کہ یہ بہترین خیال ہے کیونکہ لوگ، مردو زَن، جب بھی مسجد کی طرف آتے ہیں تو دونوں کی نظر اس داخلی راستے پر پڑتی ہے۔ حضور دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے رہے اور پھر استفسار فرمایا کہ کہاں تختی لگائی جائے۔ میں نے پھر دیوار کی طرف عاجزی سے اشارہ کیا ۔ اس پر حضور مطمئن نظر آئے اور پھر مسجد اپنے معمول کے راستے سے داخل ہوگئے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آج یہ تختی نصب کی گئی ہے اور جہاں حضور انور نے اس کا افتتاح فرمایا۔

محترم رضوان بیگ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مسجد مبارک کی تختی کے متعلق حضورِ انور نے پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ اسے سفید رنگ میں لکھ کر لگایا جائے لیکن حضور کی ہمیشہ یہ خواہش تھی کہ یہ 3-D طرز پر ہو اور سفید رنگ کی روشنی اس کے پیچھے سے نمودار ہو رہی ہو۔ لیکن پھر حضور نے فرمایا کہ اسی طرح رکھو اور دیکھتے ہیں کیسا لگتا ہے۔ اس کے بعد حضور نے اسی کو بہت پسند فرمایا۔ حضور انور افتتاحی ریسپشن کے موقع پر باہر سے آئے ہوئے مہمانان سے ملاقات فرما کر واپس اپنی رہائش گاہ کی طرف لوٹ رہے تھے تو مجھے دیکھ کر فرمایا کیا لوگوں نے آپ کے کام کو دیکھا ہے اور پسند کیا ہے؟ میں نے جواب میں کہا کہ حضور آپ کی پسندیدگی کے ساتھ سب کی پسندیدگی اس میں شامل ہو گئی ہے۔

محترم عامر سفیر صاحب نے ذکر کیا کہ جو سائن باہر لگایا گیا ہے وہ شروع میں ہمارے اصل کام میں شامل نہیں تھا۔ کوئی اَور سائن تھا لیکن ایک دن جب میری حضور سے ملاقات ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ اب باہر لگانے کے لیے جو سائن ہے وہ بھی بنا لو۔ کلمہ طیبہ سب سے اوپر ہو گا جو کافی بڑا ہوگا اور اس کے اطراف میں ‘مسجد مبار ک’ اردو اور انگریزی زبان میں لکھا ہو گا۔ حضور انور نے پھر بعض کلمہ طیبہ کے سائن بورڈز کی طرف اشارہ فرمایا جو آپ کے دفتر میں موجود تھے اور ان کا موازنہ 2-D اور 3-D طرز سے کیا۔ میں نے ملاقات کے فوراً بعد رضوان بیگ صاحب کو حضور انور کی ہدایات سے اطلاع دی۔ رضوان صاحب نے پہلے ہی کلمہ طیبہ اور اطراف کے سائن تیار کر رکھے تھے اور حضور ان کو ملاحظہ فرما چکے تھے اور آپ کو اس کی خطاطی بھی پسند آئی تھی۔ اب افتتاح کا وقت قریب آرہا تھا اور حضور نے مجھے فرمایا کہ وقت اب کم ہے تو وقتی طور پر افتتاحی تقریب کے لیے کوئی سادہ سا سائن لگا دو۔ سو شروع میں سائن لگا دیے گئے جو 2-D تھے اور جن کی پشت ایکریلک سے بنی ہوئی تھی تاکہ افتتاح کے لیے کم از کم وہ وہاں لگے ہوئے ہوں۔

جب حضور انور نے ازراہ شفقت خطبہ جمعہ میں بعض لوگوں کا ذکر فرمایا تو میں نے اپنی طرف سے اور رضوان بیگ صاحب کی طرف سے حضور انور کی خدمت میں شکرانے کے طور پر خط تحریر کیااور دعا اور رہنمائی کی درخواست کی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ 3-Dسائن کا معاملہ کہا ں تک پہنچا ہے؟
رضوان بیگ صاحب پھر فوراً کام پر لگ گئے اور ہم نے یوکے کی مختلف کمپنیز کے متعلق تحقیق کی اور پھر کئی میٹنگز کرنے کے بعد ہمیں بالآخر ایک کمپنی ایسی مل گئی جو ہمار ا کام کرسکے اور جن کو اس سے قبل بھی دیگر مساجد کے لیے اسی سے ملتے جلتے سائن بنانے کا تجربہ تھا ۔ اس پر رضوان بیگ صاحب نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ ہم تینوں کے بجائے پہلے ایک سائن بنوائیں اور وہ لگائیں اور پھر اگر حضرت صاحب پسند فرمائیں تو ہم باقی بھی بنوا لیں ورنہ بدل دیں گے۔ حضور انور کی ہدایت تھی کہ ہم نے صرف ایک ہی سیٹ ان 3-D سائنز کا لگانا ہے اور یہ وہیں لگیں گے جہاں تختی نصب کی گئی تھی۔
ایک موقع پر ہم نے حضور انور کو سائن کے لیے استعمال کیے جانے والی دھات اور اس کا رنگ دکھانا چاہا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جب سورج کی روشنی اس پر پڑتی تھی تو مختلف زاویوں سےدیوار کے ساتھ مختلف رنگ ظاہر ہوتے تھے۔ چنانچہ ایک دن نماز کے بعد مسجد کے باہر رضوان صاحب ہاتھ میں دھات سے بنے وہ 3-Dحروف لیے کھڑے ہوگئے۔ جب حضور انور باہر تشریف لائے تو آپ نے خود وہ اپنے ہاتھ میں لے لیے اور دیوار کی طرف چل دیے۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے دیوار پر ان کا ایک حصہ رکھا اور بغور دیکھا کہ کیسا لگ رہا ہے اور رضوان صاحب سے اس کے متعلق بھی گفتگو فرمائی۔ پھر حضور انور نے رنگ کا انتخاب کرنے کے بعد اس کی اجازت مرحمت فرما دی۔ حضور نے مزید فرمایا کہ ہمیں پہلے سے موجود وہاں لائٹ ہٹانی پڑے گی اور وہاں دوسری لگانی پڑے گی جو اطراف پر موجود سائنز پر روشنی ڈال سکے۔ جبکہ کلمے والے سائن کے پیچھے سے روشنی نمودار ہونی چاہیے نہ کہ اس کے سامنے سے اس پر روشنی ڈالی جائے۔

بس پھر ہم نے ان سائن کا ایک سیٹ تیار کیا اور وہ خواتین کے دروازے کی طرف لگا دیا گیا۔ حضور انور ایک دن اپنی رہائش گاہ سے نیچے تشریف لائے تو رضوان صاحب اور میں وہاں کھڑے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے گھر سے ان نئے سائنز کو دیکھا ہے اور وہ بہت اچھے لگ رہے تھے۔ حضور انور اپنے ان تأثرات پر بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ آپ نے پھر برہان الدین صاحب کو ان کے اطراف پر لگنے والی لائٹوں کے متعلق تفصیل سے ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ اگر آپ کو بیلجیم بھی جانا پڑے تو وہاں جا کر سب سے مناسب ترین لائٹس اس مسجد کے لیے لے کر آئیں۔ حضور نے فرمایا کہ اس قسم کی لائٹس یہاں یو کے سے نہیں ملتیں بلکہ یورپ سے زیادہ بہتر مل جاتی ہیں۔

ان سائنز کو لگانا ایک نہایت ہی دلچسپ تجربہ تھا کیونکہ وہ دروازہ جہاں سے حضور انور نماز کے لیے اپنی رہائش گاہ سے نکلتے اور واپس تشریف لے جاتے ہیں اس کے عین سامنے یہ سائن ہیں۔ اس وجہ سے حضور انور نمازِ ظہر اورعصر و مغرب سے قبل ،پہلے ہم سے مل کر اس بار ے میں گفتگو فرماتے، سائنزکی تکمیل کے مراحل کو دیکھتے اور پھر نماز پر تشریف لے جاتے۔

بالآخر سائنز نصب کر دیے گئے اور مغرب کی نماز کے وقت ہم حضور انور کو وہ روشنی دکھانا چاہتے تھے جو کلمے کے پیچھے کی طرف سے نمودار ہوتی تھی۔ حضور نے اسے بھی بہت پسند فرمایا۔
میں نے حضور سے باقی دو داخلی راستوں کے متعلق رہنمائی لی کہ کیا ادھر بھی اسی طرح سائن لگا دیےجائیں توحضور نے فرمایا ابھی نہیں، ابھی انتظار کیا جائے۔

جب باہر کے مہمانوں کو بلوا کر افتتاح کیا گیا اور حضور امیر صاحب سے گفتگو فرما کر گھر تشریف لا رہے تھے تو آپ نے رضوان بیگ صاحب کو دیکھا اور آپ کے کام کو سراہا۔ پھر حضور نے امیر صاحب سے دریافت فرمایا کہ آپ کا نئے سائن کے متعلق کیا خیال ہے۔ امیر صاحب نے عرض کی کہ بہت خوبصورت ہیں۔ پھر حضور میری طرف مڑے اور مجھے بلایا اور فرمایا اب باقی دو داخلی راستوں میں بھی 3-Dسائنز لگا لو۔

اس کے ایک ہفتے بعد میں اور رضوان بیگ صاحب حضورِ انور کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو خاکسار ہمارے ساتھ کام کرنے والے ممبران موسی ستّار صاحب اور مصور دین صاحب کو بھی ساتھ لے گیا اور انہیں حضورِ انور کے دفتر کے باہر انتظار کرنے کا کہا۔ باسل بٹ صاحب (فارغ التحصیل جامعہ کینیڈا)اس وقت تک اپنی ڈیوٹی پر کینیڈا واپس پہنچ چکے تھے۔ ملاقات کے آخر میں میں نے حضورِ انور سے ان کی موجودگی کا ذکر کیا اور عاجزانہ طور پر عرض کیا اگر حضور پسند فرمائیں تو وہ اندر آ جائیں اور حضورِ انور کے ساتھ ایک فوٹو بنا لی جائے۔ اس موقع پر رضوان بیگ صاحب کا بیٹا شازین بیگ بھی ساتھ تھا۔ حضورِ انور نے ازراہِ شفقت انہیں اندر بلوانے کی اجازت عطا فرمائی۔ جب یہ اندر آئے تو حضورِ انور نے انہیں صرف فوٹو لینے کی بجائے بیٹھنے کا بھی ارشاد فرمایا۔یہ دونوں حضورِ انور کی اس شفقت پر بہت خوش تھے، لیکن ذہنی طَور پر اس کے لیے تیار نہ ہونے کے باعث کچھ متذبذب نظر آتے تھے۔ حضورِ انور نے ان سے حال احوال دریافت فرمایا اور انہوں نے حضورِ انور سے دعا کی درخواست کی۔ اس طرح حضورِ انور نے ان سے خاص شفقت کا سلوک فرماتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔

بعد میں حضور ِانور دورے اور جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کی غرض سے تشریف لے گئے۔ جب حضور جرمنی سے واپس تشریف لانے کے لیے نکلنے لگے اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے تو آپ نے مجھے بلایا اور استفسار فرمایا عامر کیا جلسہ تک مسجد مبارک کے لیے یہ 3-Dسائن لگا دیے جائیں گے؟ میں نے جواب دیا جی حضور لگا دیےجائیں گے۔ پھر حضور انور امیر صاحب جرمنی کی طرف مڑے اور فرمایا کیا آپ نے رات کے وقت کلمہ کے سائن کو دیکھا ہے اور یہ دیکھا ہے کہ کس طرح یہ روشن ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ کیا آپ نے افتتاح پر اسے دیکھا تھا۔ امیر صاحب نے عرض کیا کہ میں موجود تھا لیکن میں نے نہیں دیکھا تھا۔ حضور نے فرمایا اگلی بار آپ نے خاص طور پر اسے رات کو دیکھنا ہے۔ اس پر ایک نئے مربی صاحب نے جو جرمنی سے حال ہی میں فارغ التحصیل ہو ئے ہیں ، آگے بڑھ کر ایک ویڈیو دکھائی جس میں رات کو کلمہ کا منظرمحفوظ کیا گیا تھا۔ حضور نے ان کے ہاتھ سے فون لیا اور امیر صاحب جرمنی کو دکھایا۔ اس دوران حضورِ انور کی آنکھوں میں خوشی کے آثار واضح تھے۔

خلاصۃً یہ کہ مسجد مبارک میں کی گئی خطاطی یا کیلی گرافی بالکل اسلامی کیلی گرافی کی طرز پر کی گئی ہے۔ بعض اوقات توحضور نے سپین میں موجود الحمراء کی طرف بھی اسے منسوب کیا ہے۔ لیکن بہر حال اس خطاطی میں احمدیت کی چھاپ ہے کیونکہ خلیفۃ المسیح براہ راست اس میں شامل تھے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کی کسی احمدیہ مسجد میں اس قسم کی خطاطی کی گئی ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ حضور انور کے ایک قریبی عزیز نے اپنا تجزیہ بیان کیا کہ حضور انور کا اس میں براہ راست شامل ہونا دنیا بھر میں مسجدیں بنانے والوں کے لیے ایک سبق ہے۔ حضور انور روزانہ بے شمار امور کو دیکھتے ہیں اور بے حد مصروف ہیں۔ لیکن باوجود اس کے اس مسجد کی تعمیر و ڈیزائن کے معاملات کو دیکھنے کے لیے حضور ہر وقت تیار رہتے تھے۔ حضور نے خود سامان، ڈیزائن اور رنگ کا انتخاب فرمایا اور بذات خود اس کی تکمیل کے مراحل دیکھنے کے لیے تشریف لاتے رہے اور ساتھ ساتھ رہنمائی فرماتے۔ اس مسجد کو مزین کرنے اور تعمیر میں ذاتی دلچسپی لے کر حضور نے خود اپنا ذاتی نمونہ پیش کیا۔ بے شک یہ خلافت کی بہت بڑی برکات میں سے ہے۔

آخر میں میں رضوان بیگ صاحب کی خاص کوششوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کے ساتھ ریویو آف ریلیجینز کو کئی سال سے بہت سے پراجیکٹس کرنے کی توفیق مل رہی ہے ۔ آپ بہت ہی مخلص ، پر خلوص اور جوش و جذبہ اور پیشہ ورانہ طور پر کام کرنے والے شخص ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنا ہمارے لیے باعث مسرّت ہے۔

آخر میں مَیں یہ بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ حضور انور نے ہمیں لوگوں کے بعض خیالات سے بھی آگاہ فرمایا۔ بعض کا خیال تھا کہ یہ خطاطی یا کیلی گرافی کچھ زیادہ ہی تھی۔ ایک دفعہ حضرت صاحب نے بھی مجھ سے استفسار فرمایا تھا کہ کیا یہ مجھے بہت زیادہ بھری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ میں نے جواب دیا حضور یہ بہت خوبصورت ہے۔ حضور نے فرمایا میں نے یہ نہیں پوچھاکہ یہ خوبصورت ہے یا نہیں میں نے یہ پوچھا ہے کہ کیا یہ بہت زیادہ ہے۔میں نے کہا حضور میرے خیال میں یہ زیادہ نہیں ہے۔ بعد میں حضور نے ذکر بھی فرمایا کہ بعض لوگوں کو ایسا لگا ہے کہ یہ بہت زیادہ ہے لیکن مجھے ایسا نہیں لگا۔ میر اخیال ہے ابھی چھت پر اَور کافی خالی جگہ باقی ہے۔

حضور انور نے رضوان بیگ صاحب اور مجھے یہ بھی فرمایا کہ ان صفات کا مسجد میں نمایاں کرنے سے میرا اصل مقصد یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہو ں وہ خدا تعالیٰ کی صفات پر غور و تدبرکریں اور ان کی سمجھ حاصل کرتے ہوئے خدا کی محبت میں بڑھنے والے ہوں۔

ایک بات کا ذکر کرتا چلوں کہ حضورِ انور نے ایک مرتبہ مجھے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحقیق کے مطابق خدا تعالیٰ کے صفاتی نام ننانوے سے بھی زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ‘رفیق’ کو بھی اللہ تعالیٰ کی صفت قرار دیا ہے۔ اس لیے سرِ دست جو نام مسجد میں لگائے گئے ہیں وہ ایک لحاظ سے مکمل ہیں ہیں لیکن حضورِ انور نے اشارۃً یہ فرما دیا کہ عین ممکن ہے کہ آئندہ اللہ تعالیٰ کے مزید صفاتی نام بھی مسجد میں لگائے جا سکتے ہیں۔

یقینًا اللہ تعالیٰ کی صفات بے شمار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضورِ انور کے منشائے مبارک کے مطابق ان صفات کا مظہر بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button