از افاضاتِ خلفائے احمدیت

خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ان حالات کا انجام کیا ہو گا؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

آج کا ایک بڑا مسئلہ اقتصادی بد حالی ہے جسے قرض کے بحران(credit crunch) کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس سلسلہ میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اِس سلسلہ میں قرآن کریم نے سود سے منع کر کے ہماری راہنمائی فرما دی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جو عائلی، قومی اور عالمی امن کے لیے ایک خطرہ ہے۔ ہمیں متنبہ کیا گیا ہے کہ سود خور کو ایک دن شیطان پاگل کر دے گا۔ اِس میں مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ وہ ایسی صورت حال سے بچیں۔ فرمایا کہ سود کا لین دین ختم کر دو کیونکہ جو روپیہ تم سود کے ذریعہ حاصل کرتے ہو وہ درحقیقت تمہاری دولت میں کسی اضافہ کا موجب نہیں ہوتا اگرچہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں دولت بڑھ رہی ہے۔ ضرور ایک ایسا وقت آتا ہے جب اِس کے حقیقی اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے ہمیں سودی کاروبار کی اجازت نہیں دی ہے۔ اور اس سلسلہ میں یہ کہہ کر مزید انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو یہ بات خدا تعالیٰ سے جنگ کے مترادف ہو گی۔ یہ حقیقت ،حالیہ اقتصادی بحران سے بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔ شروع میں افراد جائیداد خریدنے کے لیے قرض لیتے تھے مگر اس کی ملکیت حاصل ہونے سے پہلے مقروض ہونے کی حالت میں مر جاتے تھے لیکن اب حکومتیں ہیں جو مقروض ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے پاگل پن کا شکار ہو چکی ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہو گئی ہیں۔ بعض بینک اور دیگر مالی ادارے بند ہو چکے ہیں یا انہیں مالی طور پر سہارا دیا گیا ہے۔ اور یہ صورت حال ہر ملک میں خواہ وہ امیر ہے یا غریب نظر آرہی ہے۔ آپ اِس بحران کے بارہ میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ لوگوں کا روپیہ جو بینکوں میں تھا وہ تباہ ہو گیا ہے۔ اب حکومتیں ہی ہیں جو دیکھیں گی کہ کس طرح اور کس حد تک انہیں تحفظ دینا ہے مگر فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں گھروں ،کاروباری لوگوں اور سرکاری عمائدین کا تمام ذہنی سکون تباہ و برباد ہو چکا ہے۔

کیا یہ صورت حال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور نہیں کرتی کہ دنیا اس منطقی نتیجہ کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے بارہ میں ہمیں پہلے ہی سے انتباہ کر دیا گیا تھا۔ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ان حالات کا انجام کیا ہو گا؟

اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتا چکا ہے کہ امن کی طرف آؤ اور اس کی ضمانت صرف اِسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب صاف ستھری تجارت ہو اور وسائل کو صحیح طریق پر انصاف کے ساتھ استعمال کیا جائے۔

(خطاب فرمودہ 22؍اکتوبر 2008ء بمقام برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس آف کامنز)

………………………………………………………

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پِیس سمپوزیم 2012ء کے خطاب میں فرمایا:

مَیں بار بار سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کو قیام امن کی کوشش کرنے کی طرف توجہ دلا چکا ہوں مگران تمام کوششوں کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ساری دنیا میں بے چینی اور خلفشار پھیلتا اور بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ آج کی دنیا میں تصادم، بے چینی اور بعض ممالک میں عوام آپس میں ہی لڑائی اور جنگ کر رہے ہیں اور بعض ممالک میں عوام حکومت سے بر سرِ پیکار ہیں یا اس کے برعکس حکام اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہیں۔ دہشت گرد عناصر اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے انتشار اور افرا تفری کی آگ بھڑکا رہے ہیں اور معصوم خواتین بچوں اور بوڑھوں کو اندھا دُھند قتل کر رہے ہیں۔ بعض ممالک میں سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کے حصول کے لیے باہم مل کر اپنے ملک کی بہبود کے لیے کام کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے لڑ رہی ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کچھ حکومتیں اور ممالک بعض دوسرے ممالک کے قدرتی ذخائر کو متواتر للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں، دنیا کی بڑی طاقتیں اپنی برتری اور تسلط کو قائم رکھنے کے لیے اپنی تمام کوششیں صرف کر رہی ہیں اور اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے کوئی بھی حربہ اور ہتھکنڈا استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔

اِس صورت حال میں ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو جماعت احمدیہ اور نہ ہی آپ میں سے اکثریت، جو عوام کے نمائندہ ہیں، یہ طاقت اور اختیار رکھتے ہیں کہ مثبت تبدیلی لانے کے لیے کوئی پالیسی بنا سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی حکومتی طاقت یا عہدہ نہیں ہے۔ در حقیقت میں تو یہاں تک کہوں گا کہ وہ سیاسی شخصیات جن سے ہمارے دوستانہ مراسم ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ہماری باتوں سے مکمل اتفاق کرتے ہیں وہ بھی جب با اقتدار حلقوں میں ہوتے ہیں تو آواز بلند کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے یا ان کی آوازیں دَبا دی جاتی ہیں اور انہیں اپنی رائے پیش کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ پارٹی پالیسی اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں یا شاید وہ اپنے سیاسی حلیفوں یا دیگر عالمی قوتوں کے دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اس کے باوجود ہم جو ہر سال اس امن کانفرنس میں شامل ہوتے ہیں۔ بلا شک و شبہ قیام امن کی خواہش رکھتے ہیں اور یقیناً ہم اپنی آراء اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ محبت ، ہمدردی اور بھائی چارہ کو تمام مذاہب اَقوام اور نسلوں اور تمام لوگوں میں قائم کرنا چاہیے۔ بد قسمتی سے ہم اس خواب کو حقیقت کا رُوپ دینے میں بے بس ہیں۔ ان نتائج کے حصول کے لیے جن کی ہم خواہش رکھتے ہیں نہ تو ہمارے پاس اختیارات ہیں اور نہ ہی ذرائع۔

(خطاب فرمودہ 24مارچ 2012ء بر موقع سالانہ امن کانفرنس ، طاہر ہال ، بیت الفتوح، لندن)

…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button