از افاضاتِ خلفائے احمدیت

تمام فریقوں کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں

اسلام کی سب سے بنیادی تعلیم یہ ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر امن پسند محفوظ ہو۔ یہ مسلمان کی وہ تعریف ہے جو بانیٔ اسلام حضرت محمدﷺ نے خود بیان فرمائی ہے۔ کیا اس بنیادی اور خوبصورت اصول کو سننے کے بعد بھی کوئی اعتراض اسلام پر اُٹھ سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ اسلام یہ سکھاتا ہے کہ اپنی زبان اور ہاتھ سے ناانصافی اور نفرت کا پرچار کرنے والے ہی قابلِ مؤاخذہ ہیں۔ چنانچہ مقامی سطح سے لے کر عالمی سطح تک اگر تمام فریق اس سنہری اُصول کی پابندی کرنے لگیں تو ہم دیکھیں گے کہ کبھی بھی مذہبی فساد پیدا نہ ہو گا اور کبھی بھی سیاسی مسائل پیدا نہ ہوں گے اور نہ ہی لالچ اور اقتدار کی ہوس کے باعث فساد پیدا ہو گا۔ اگر اسلام کے یہ سچے اصول ا پنا لیے جائیں تو ممالک میں عوام الناس ایک دوسرے کے حقوق اور جذبات کا خیال رکھیں گے، حکومتیں تمام شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں گی اور عالمی سطح پر ہر قوم سچی ہمدردی اور محبت کے جذبہ کے تحت ایک دوسرے سے مل کر کام کرے گی۔
دیر پا امن کے قیام کے لیے اسلام کا ایک کلیدی اصول یہ بھی ہے کہ کوئی فریق کسی بھی طور پر فخر اور تکبر کا اظہار ہر گز نہ کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عملی طور پر بڑے عمدہ انداز میں ایسا کر کے بھی دکھا دیا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ مشہور کلمات ادا کیے کہ کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ ہی یوروپین قوم دیگر قوموں سے اعلیٰ یا افضل ہے اور نہ ہی افریقن، ایشین یا دنیا کے کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ کسی دوسرے سے افضل ہیں۔ قومیتوں، رنگوں اور نسلوں کا اختلاف صرف اور صرف شناخت اور پہچان کے لیے ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ جدید دنیا میں ہم سب ایک دوسرے پر انحصار کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آج کی عالمی طاقتیں یورپ اور امریکہ وغیرہ بھی دوسروں سے بالکل کٹ کر گزارہ نہیں کر سکتیں۔ افریقن ممالک بھی کسی طور دیگر ممالک سے الگ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتے اور نہ یہ کسی قسم کی ترقی کی امید کر سکتے ہیں اور یہی حال ایشیائی ممالک یا دنیا کے کسی بھی حصہ سے تعلق رکھنے والوں کا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ اپنی معیشت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو لازمی طور پر عالمی تجارت میں حصہ لینا ہو گا۔ اِس بات کی واضح مثال کہ کس طرح دنیا باہم ایک دوسرے سے منسلک ہے، یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے یورپی معاشی بحران یا عالمی معاشی بحران نے دنیا کے کم و بیش ہر ملک کو بری طرح متأثر کیا ہے۔ مزید یہ کہ مختلف ممالک کا سائنس کے میدان میں ترقی کرنا یا دیگر شعبوں میں مہارت حاصل کرنا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ باہم تعاون کریں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔

ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا کے رہنے والے خواہ وہ افریقہ، یورپ، ایشیا یا کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھتے ہوں، ان سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلیٰ ذہنی استعدادیں عطا کی گئی ہیں۔ اگر تمام لوگ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کا رلائیں تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ تاہم اگر ترقی یافتہ قومیں دیگر کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کا استحصال کریں اور ان قوموں کے زرخیز ذہنوں کو ترقی کے مواقع فراہم نہ کریں تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ اضطراب پھیلے گا اور بے چینی عالمی امن اور سلامتی کو تباہ کر دے گی۔

…اسلام کی ایک اور خوبصورت تعلیم یہ ہے کہ معاشرہ میں امن کا قیام اس بات کا متقاضی ہے کہ اپنے غصہ پر ایمانداری اور انصاف کے اصولوں کی خاطر قابو پایا جائے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ حقیقی مسلمان ہمیشہ اس اصول پر کاربند رہے اور جنہوں نے اس اصول کی پابندی نہیں کی ان پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑی ناراضگی کا اظہا رفرمایا۔ اس کے باوجود بد قسمتی سے آج ایسی صورت حال نہیں ہے۔ ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ فوجیں اور سپاہی جو امن کے قیام کے لیے بھجوائے جاتے ہیں وہ ایسے کام کرتے ہیں جو ان کے مقاصد کے سراسر منافی ہوتے ہیں۔ مثلاً بعض ممالک میں باہر سے آئے ہوئے فوجیوں نے مخالفین کی لاشوں سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا۔ تو کیا اس طریق سے امن قائم ہو سکتا ہے؟

ایسے سلوک کا ردِّ عمل پھر متاثرہ ملک تک محدود نہیں رہتا بلکہ تمام دنیا میں اس کا اظہار ہوتا ہے اور ظاہری بات ہے کہ اگر مسلمانوں سے برا سلوک کیا گیا ہو تو مسلمان انتہا پسند اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دنیا کا امن برباد ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنا اسلامی تعلیم کے سراسر منافی ہے۔ اسلام تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ امن صرف اس صورت میں قائم ہو سکتا ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی اس طریق پر مدد کی جائے کہ جس میں کسی فریق کی طرف داری نہ ہو، کوئی مذموم مقصد نہ ہو اور ہر قسم کی دشمنی سے پاک ہو۔ امن تب قائم ہوتا ہے جب تمام فریقوں کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔

(خطاب فرمودہ 4؍دسمبر2012ء بمقام یورپین پارلیمنٹ برسلز)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button