صحت

صحت…چند عمومی ضروری باتیں

(ڈاکٹر امۃ السلام سمیع۔ یوکے)

انسان اگر اپنی بلوغت کی عمر میں جسمانی، ماحولیاتی اور روحانی تبدیلیوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی طویل عمری کے لیے استعمال کرے تو اس کو صحت کہتے ہیں۔ صحت کی تعریف مکمل لفظوں میں جسمانی اور ذہنی بیماری کا نہ ہونا جس میں چوٹ اور درد کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ صحت کی تعریف کو جب درجوں میں تقسیم کیا گیا تو ایک تعریف یوں بھی کی گئی کہ انسان عمر کے کسی بھی حصہ میں اپنی بیماری کے علاج کے ساتھ صحت اور بیماری کے ٹھیک ہونے کے اصول بھی پورے کرے تو اس کو صحت مند کہیں گے۔ عمر کے ساتھ صحت کے معیار بدلتے رہتے ہیں۔ مگر ہر عمر میں جسم کی تبدیلیوں کے ساتھ بیماری کا نہ ہونا یا بیماری کا علاج کے ساتھ کنٹرول ہونا ضروری ہے۔ صحت کا مطلب ہر دن کی خوشحالی اور مثبت رویوں کے ساتھ جینا ہے۔ جہاں انسان کی جسمانی طاقت اور معاشرتی رویے اس کو ثابت کریں۔ ہمارے رویے ہماری اچھی صحت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اور ہمیں اپنی زندگی کا مقصد پورا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اچھی صحت حاصل کرنے کے لیے اور پھر اس کو قائم رکھنے کے لیے آپ کو عمر کے ہر حصہ میں مستقل کام کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر ورزش، ماحول، غذا، تعلیم، خاندانی حالات، پریشانیاں، مالی حالات آپ کا مرد یا عورت ہونا سب اثر انداز ہوتے ہیں۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صحت کا تعلق صرف جسم سے ہی نہیں جسم اور روح اور جذبات سے بھی ہوتا ہے۔ سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ مکمل صحت مند انسان جسم روح اور جذبات سے مل کر بنتا ہے۔ کسی ایک حصہ کی خرابی دوسرے پر اثر کرتی ہے۔ اور آپ کو فعال زندگی سے دور لے جاتی ہے۔

آج کل کی بڑھتی ہوئی عمروں کی آبادی اور لمبی قائم رہنے والی بیماریوں کا انسانی جسم پر تسلط انسان کو معذوری کی طرف بہت تیزی سے لے جا رہا ہے۔ اور انسان کو اس کے مقصد پیدائش سے دور کر رہا ہے۔ اگر ہم صحت چاہتے ہیں تو صحت مندانہ زندگی کو اپنانا ہوگا اس کو سمجھنا ہوگا تاکہ ہم صحت والی فعال لمبی عمر پاسکیں اور مقصد پیدائش کو پورا کرسکیں۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بیماری اور علامات دو مختلف چیزیں ہیں۔ علامات جیسے بخار کا چڑھنا، چکر آنا، کمزوری محسوس ہونا، سر درد وغیرہ اور بیماری جیسے ذیابیطس، بلڈپریشر، دل کا دورہ، السر، موٹاپا یا ذہنی بیماریاں ہیں علامات کی مدد سے بیماری تشخیص کی جاتی ہے اور علاج ہوتا ہے تاکہ مریض کو پیچیدگیوں سے بچایا جائے اور بیماری کو ٹھیک کیا جائے۔

عالمی ادارۂ صحت (WHO)نے پوری دنیا میں بیماریوں کا جائزہ لیا تو پتہ لگا کہ ذیابیطس کی بیماری سے سولہ لاکھ لوگ 2015ء میں موت کا شکار ہوئے جبکہ 2000ء میں یہ اموات دس لاکھ کے قریب تھیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے یہ ثابت کیا کہ دنیا میں زیادہ اموات بلڈپریشر اور ذیابیطس کی پیچیدگیوں جیسے فالج، دل کا دورہ، انفیکشن جس میں پھیپھڑوں کا انفیکشن اور شریان پھٹنے یا برین ہیمرج سے ہوئیں۔ اس میں پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ بیماریاں خاص کر ترقی یافتہ دنیا میں تمام تر سہولتوں اور آسانیوں کے باوجود بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان ممالک میں بڑے پیمانے پر ریسرچ ہو رہی ہے کہ یہ بیماریاں کیوں پیدا ہوتیں ہیں۔ اور ان کو کس طرح کنٹرول کیا جائے اور ان کا کیا مستقل علاج ہے۔ اسی ریسرچ کے نتیجہ میں وقت کے ساتھ ساتھ راہنما اصول جن کو گائیڈ لائنز(guidelines) بھی کہتے ہیں آتی رہتی ہیں اور اس سارے سلسلے میں ہمیشہ یہ زیادہ زور دیا گیا کہ بیماری کے علاج سے بہتر ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اور ان بیماریوں کو ہونے ہی نہ دیا جائے۔

بیماریوں کے پیدا ہونے کا تعلق ہمارے جیز (Genes)یا خاندان سے بھی ہوتا ہے۔ اگر آپ کے خاندان میں کوئی بیماری ہے اور آپ اس کے شکار ہو جائیں تو کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی اس لیے اگر آپ کو علم ہے کہ آپ کے خاندان میں کوئی بیماری ہے تو اس کی معلومات حاصل کریں اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں اس سے آپ اپنے آپ کو ایک لمبے عرصے کے لیے اس بیماری سے بچالیں گے اور اگر کبھی اس بیماری کا شکار ہوں تو بھی اس کا حملہ نسبتاًکم درجے کا ہو گا اور جتنا اس بیماری کا حملہ کم سے کم ہو گا یا اگر اللہ تعالیٰ آپ کو اس بیماری سے محفوظ رکھے تو اس طرح آپ اپنی اگلی نسل میں متوقع بیماری کی شرح کو کم سے کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پرانے زمانے میں خالص گھی اور مکھن کھایا جاتا تھا، گائے اور بکرے کا گوشت وافر استعمال ہوتا تھا۔ مرغی اور مچھلی تو بہت عیش کے کھانے شمار ہوتے تھے۔ مگر بیماری کا تصور بہت کم تھا۔ بلکہ چند دہائیوں پہلے گھریلو علاج یا ٹوٹکے ہی صحت مند رکھا کرتے تھے۔ جب ہم یہ باتیں کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ جسمانی کام اس وقت زیادہ تھا۔ ہمارا ذہن سوچوں اور پلاننگ کے چکروں میں نہیں رہتا تھا۔ خدا تعالیٰ پر بھروسا کرنا، پیار محبت اور شیئر (share) کرنا روزمرہ کا اصول تھا۔ زیادہ سے زیادہ پیدل چلا جاتا تھا۔ سواری یا ‘ویگن ’کا تصور تو صرف لمبے سفر کے لیے تھا۔ کار تو اکثر کی سوچ سے باہر تھی۔ زراعت اور پولٹری میں کیمیائی کھادوں (Fertilisers) کا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا اور اب ہمارے اردگرد کا ماحول کس قدر بدل گیا ہے۔ نئی نئی ایجادات کا روزمرہ استعمال چاہے وہ ہمارا باورچی خانہ ہو یا دفتر کس قدر بڑھ گیا ہے۔ جسمانی مشقت کم ہوگئی ہے۔ ذہنی پریشانی اور ذمہ داری غیرمعمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔
تن آسانی کے لیے انسان ہر لمحہ کام کر رہا ہے اور جسمانی مشقت سے بچنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کر کے بیماریوں کو دعوت دے رہا ہے ۔ ریسرچ سائنسدانوں کا ایک گروپ ہمہ وقت ریسرچ کرتا ہے کہ ان عوامل کا پتہ کیا جائے کہ جوکسی بھی طرح کی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ مگر زیادہ تر بیماریوں کی تمام وجوہات کو ڈھونڈنے میں وہ ابھی تک ناکام ہی ہیں۔

آج کی دنیا میں والدین کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو صحت مند رکھیں۔ اپنے بچوں کو اور اپنے پر انحصار کرنے والوں کو صحت مند رکھیں۔ اس بات کا احساس کرتے ہوئے لجنہ کے اجتماع کے موقع پر ایک ریسرچ پروجیکٹ سوالنامے کی صورت میں پورے یوکے سے آئی ہوئی لجنات کو ان کی اجازت سے دیا گیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ وہ سوالنامہ بھر کر دیں۔ پھر ان سب سوالنامے کے سوالات کو اکٹھا کر کے ان کا تجزیہ کیا گیا جس کے نتائج بہت پریشان کن تھے۔ خواتین جنہوں نے اس سوالنامے کے جوابات دیے ان کی عمریں 44 سال سے کم تھیں۔ ان تمام خواتین میں پچاس فیصد سے زیادہ موٹاپے کا شکار تھیں۔ 60 فیصد سے زیادہ نے کبھی اپنے کھانے میں کیلوریز کی مقدار کو نہیں گنا تھا کہ ایک دن میں وہ کتنی کیلوریز لیتی ہیں۔ 25 فیصد سے زیادہ عورتیں تین یا تین سے زیادہ فزی ڈرنکس لیتی ہیں۔ ہر 10 میں سے ایک عورت ایک یا کوئی بھی فروٹ یا سبزی ہفتہ میں نہیں لیتی۔ 15 فیصد سے کم عورتیں روزانہ پانی کی مقررہ مقدار کے مطابق پانی پیتیں ہیں۔ آدھی سے زیادہ عورتیں جنہوں نے ریسرچ میں حصہ لیا ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک دن میں کتنا نمک لینا چاہیے۔ 50 فیصد سے زیادہ لجنہ 4 گھنٹے سے زیادہ اپنا وقت ٹیلی ویژن، ٹیلی فون اور دوسری بجلی کی نئی ایجادات کے سامنے گزارتی ہیں۔ 50فیصد سے زیادہ عورتیں عینک لگاتی ہیں۔ ایک اَور تکلیف دہ بات تھی کہ 45سے 65 فیصد عورتوں کو ایسی علامات لاحق تھیں جو ڈپریشن میں پیدا ہوتی ہیں تقریباً آدھی سے زیادہ عورتیں جنہوں نے سوالنامہ پُر کیا اپنی پریشانیوں پر قابو نہیں پا سکتیں تھیں اور گھبراتی رہتی تھیں۔ ایک اور فکر طلب بات یہ تھی کہ ہر 5 میں سے ایک عورت ذیابیطس یا بلڈپریشر کا شکار تھی۔ اس سروےکے نتائج انتہائی پریشان کن تھے۔ عورت اپنی ذات میں ایک ماں، بیٹی اور بہن ہے۔ اس پر اپنی صحت کا خیال رکھنے کے علاوہ پورے خاندان، پورے گھر کی صحت کا انحصار ہوتا ہے۔ اس میں گھر کے سربراہ کا عورت کی مدد کرنے میں فعال کردار ادا کرنا بنیادی حیثیت رکھتا ہے تاکہ باہمی تعاون سے پورے گھر والوں کی صحت کو برقرار رکھاجائے اور ہر قسم کے جسمانی اور روحانی نقصان سے بچا جائے۔ ہمیں صرف اپنی ہی نہیں بلکہ ہم پر انحصار کرنے والوں کی صحت کا خیال رکھنا ہے جن میں بچے اور بزرگ شامل ہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنا خیال خود نہیں رکھ سکتے اس لیے ہمہ وقت توجہ چاہتے ہیں۔اگر آپ کو اس بارے میں بنیادی معلومات نہ ہوں تو آپ صحت مند رہنے کے لیے اور صحت مند رکھنے کے لیے کام نہیں کرسکتے۔ اگر والدین ایسا سمجھتے ہیں کہ بچوں کو سکول چھوڑ آنا، کار میں جا کر شاپنگ کرلینا کہ مارکیٹ میں ہم چل کر تھک گئے ہیں یہ ہماری ورزش ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ اکثر ہم ہوٹلوں کے یا بازار کے فاسٹ فوڈ کھانا پسند کرتے ہیں۔ رشتہ داروں اور ملنے والوں کے جا گھر کر زیادہ کیلوریز اور گھی والے کھانے کبھی کبھار اپنی بھوک سے بھی بڑھ کر کھا لیتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زبان کے مزے کو اپنی صحت پر فوقیت دیتے ہیں تو کسی بھی طرح ہمارا شمار صحت مند لوگوں میں نہیں ہوتا بلکہ ہم اپنے جسم میں بیماری کے لیے راستہ ہموار کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنی صحت کے لیے ہم سب کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی، اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لینا ہوگا۔ اپنی صحت اور بیماری کے بارے میں معلومات بڑھانی ہوگی تاکہ ہم خود ہی نہیں بلکہ ہم پر انحصار کرنے والے بھی صحت مند زندگی گزار سکیں اور اپنی پیدائش کا مقصد پورا کرسکیں۔

اس ضمن میں ادارہ الفضل انٹرنیشنل نے ہیلتھ سیکشن شروع کیا ہے۔ اس کے ذریعے قارئین کو صحت اور بیماریوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں گی تاکہ آپ ان سے فائدہ اٹھا کر اپنے اور اپنے پیاروں کی صحت کا خیال رکھ سکیں۔ اگر اس بارے میں آپ کوئی سوال پوچھنا چاہیں تو بتوسط الفضل انٹرنیشنل آپ اپنے سوالات بھی ہمیں بھجوا سکتے ہیں۔ مگر ان سوالوں میں آپ کو کسی دواکے استعمال کے لیے مشورہ نہیں دیا جاسکے گا۔ ایسے مشورے اپنے فیملی ڈاکٹر سے کرنا ہی مناسب ہوتا ہے۔

خدا تعالیٰ ہم سب کو صحت مند رہنے اور صحت مند رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button