رپورٹ دورہ حضور انور

حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورۂ جرمنی 2019ء (03؍ تا 04؍ جولائی)

(رپورٹ مرتّبہ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن)

03؍جولائی2019ء بروز بدھ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح 4بج کر 15منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی ۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے ۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی ۔ حضور انور نے دفتری ڈاک ، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔

پروگرام کے مطابق 11بجے حضور انور اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

آج صبح کے اس سیشن میں 35فیملیز کے 121 افراد اور 38خواتین نے انفرادی طورپر اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی ۔ ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی مختلف 23جماعتوں اور علاقوں سے آئی تھیں۔

اس کے علاوہ پاکستان، چاڈ، کانگو، مالی ، غانا، تنزانیہ، قطر، بورکینا فاسو، گیمبیا ، سینیگال، ماریشس، پرتگال ، انڈونیشیااور سعودی عرب سے آنے والےاحباب اور فیملیز نے بھی شرف ملاقات پایا۔ جرمنی کی مختلف جماعتوں سے آنے والے احباب اور فیملیز میں سے بعض بڑے لمبے سفر طے کر کے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کے لیے پہنچے تھے۔

Bielefeldسے آنے والے 260کلومیٹر ، Aachenسے آنے والے 265کلومیٹر اور Munchenسے آنے والے 400کلو میٹر، جبکہ ہمبرگ سے آنے والے 500کلومیٹر اور برلن سے آنے والے احباب اور فیملیز 530کلو میٹر کا لمبا سفر طے کر کے ملاقات کے لیے حاضر ہوئی تھیں۔

ملاقات کرنے والے ان سبھی احباب اور افراد نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے از راہ ِ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں ۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام دوپہر 1بج کر 40منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لیے اپنی جائے رہائش پر تشریف لے گئے ۔

دو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

پچھلے پہر بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے ۔
پروگرام کے مطابق 6بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے ہال میں تشریف لائے جہاں دوران سال مختلف ذرائع سے پاکستان سے جرمنی پہنچنے والے احباب اور نوجوانوں کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا پروگرام تھا ۔ ان نوجوانوں کی مجموعی تعداد 200 سے زائد تھی اور یہ جرمنی کی مختلف جماعتوں سے ملاقات کے لیے پہنچے تھے ۔ آج یہ سب اپنی زندگی میں پہلی بار اپنے پیارے آقا کے دیدار سے فیض یاب ہورہے تھے ۔ یہ سبھی وہ لوگ تھے جو اپنے ہی ملک میں ، اپنے ہی ہم وطنوں کے ظلم سے ستائے ہوئے تھے اور اپنے گھربار اور عزیزواقارب کو چھوڑ کر اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے ہجرت کرکے اس ملک میں آ بسے تھے ۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےباری باری ہر ایک کو شرف مصافحہ عطا فرمایا اور بعض سے پوچھا کہ کہاں سے ، کس جماعت سے آئے ہیں۔

بعضوں سے ان کے اسائیلم کیسز کے حوالہ سےبھی دریافت فرمایا ۔ یہ نوجوان بھی اپنے پیارے آقا سے مصافحہ کرتے ہوئے حضور انور سے بات کرنے کی سعادت پاتے ۔

یہ سب لوگ آج کتنے ہی خوش نصیب تھے کہ انہوں نے اپنے پیارے آقا کے قرب میں چند ساعتیں گزاریں ان کے دل تسکین سے بھر گئے اور زندگی کے دھارے بدل گئے اور کبھی نہ ختم ہونے والی دعائوں کے خزانے لے کر یہاں سے رخصت ہوئے ۔

ملاقات کی سعادت پانے والے یہ نوجوان جب مسجد کے ہال سے باہر آتے تو ان کے دلوں کی عجیب کیفیت ہوتی تھی ۔ اکثر کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی تھیں ۔

ربوہ سے آنے والے ایک نوجوان نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج میں بہت خوش ہوں ۔ میری زندگی کی ایک ہی خواہش تھی کہ میری پیارے آقا سے ملاقات ہو اور میں حضور انورکے ہاتھ کو بوسہ دوں ۔ آج خدا تعالیٰ نے یہ خواہش پوری کر دی ۔ میں اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہو گا۔

چونڈہ سے آنےوالے ایک نوجوان کہنے لگے کہ میں نے حضور انور کے ہاتھ کو چھوا ، میرا مصافحہ ہوا ۔ آج میری دلی مراد پوری ہوگئی۔ میں آج کتنا خوش قسمت انسان ہوں ۔

سیالکوٹ سے آنے والے ایک نوجوان نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج پیارے آقا سے ملاقات میری زندگی کے سب سے اہم لمحات تھے ۔ میں اسے زندگی بھر بھول نہ پاؤں گا۔ پس اگر کوئی زندگی ہے تو یہی زندگی ہے ۔

اوکاڑہ سے آنے والے ایک نوجوان دوست کہنے لگے کہ میں کتنا خوش قسمت انسان ہوں کہ میں نے حضور انور سے سلام کیا ، حضور انور نے میرا ہاتھ پکڑا، مجھے نئی زندگی مل گئی۔ میرے اندر ایک روحانی کیفیت پیدا ہوئی ۔ میں پہلے سے بدل چکا ہوں۔ میں بیان نہیں کر سکتا۔

کنڈیارو سندھ سے آنے والے ایک صاحب نے بیان کیا کہ میرا دل اس وقت جذبات سے بھرا ہوا ہے ۔ میں بولنے کی سکت نہیں پاتا ۔ میں کچھ بیان نہیں کر سکتا ۔ بس اتنا کہتا ہوں کہ مجھے آج ایک نئی زندگی ملی ہے۔

سیالکوٹ سے آنے والے ایک نوجوان نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ میرا دل سکون سے بھر گیا ہے ۔ مجھے نئی زندگی ملی ہے ۔ میں اپنے اندر روحانیت محسوس کر تاہوں ۔ آج کی ملاقات میری زندگی کا ایک معجزہ ہے ، پاکستان میں رہتے تھے کبھی تصور بھی نہیں تھا کہ حضور انور سے اس طرح ملاقات ہو گی ۔ یہ ملاقات میری زندگی کا ایک خوشگوار ترین لمحہ ہے ۔

ربوہ سے آنےوالے ایک نوجوان کہنے لگے کہ اس وقت بہت زیادہ دل دھڑک رہا ہے ، ہاتھ کانپ رہے ہیں، ایک کپکپی طاری ہے ۔ میں کچھ بیان نہیں کر سکتا کہ میری کیا کیفیت ہے ۔ بس اتنا کہتا ہوں کہ میں نے اپنی مراد پالی اور میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ۔

سیالکوٹ سے آنے والے ایک دوست کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص فضل فرمایا ہے کہ میری حضور انور سے ملاقات ہو گئی ہے ۔ میں کتنا خوش قسمت انسان ہوں کہ میں نے حضور کو اپنے انتہائی قریب سے دیکھ لیا ہے اور میرا دل سکون سے بھر گیا ہے ۔ حضور نے میرا ہاتھ پکڑے رکھا ۔

ربوہ سے آنے والے ایک صاحب نے عرض کیاکہ آج میری حضور انور سے پہلی ملاقات تھی ۔ میرا دل جذبات سے بھرا ہوا ہے ۔ الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے ۔ میں نے حضور کے چہرہ پر اتنا نور دیکھا ہے کہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔

رحیم یار خان سے آنے والے ایک نوجوان نے اپنے جذبات کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ میرے والدین نہیں ہیں ۔ آج میری زندگی کو بہت سکون ملا ہے ۔ مجھے آج پتہ چلا ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے ۔ ان چند لمحات نے میری زندگی بدل دی ہے ۔

ربوہ سے آنے والے ایک دوست نے عرض کیا کہ آج میری حضور انور سے پہلی ملاقات تھی ۔ ربوہ میںتو ہم حضور انور کو ٹی وی پر دیکھتے تھے، اور دل میں شدید خواہش تھی کہ کبھی ہماری بھی حضور انور سے ملاقات ہو ۔ آج اللہ نے اپنے فضل سے یہ خواہش پوری کر دی اور حضور انور کو اپنے سامنے دیکھا ہے۔ حضور انور سے مصافحہ کیا ہے اور بات کی ہے ۔

راولپنڈی سے آنے والے ایک نوجوان نے بیان کیا۔ ملاقات کے بعد میرے دل کی ایک روحانی کیفیت ہے جو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ۔ ہم حضور انور کو ایم ٹی اے پر دیکھا کرتے تھے ۔ آج میری زندگی کی اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی کہ میں نے حضور انور کو انتہائی قریب سے دیکھا ۔ حضور انور کے ہاتھوں کو چھؤا اور بوسہ دیا اور باتیں کیں ۔ آج میرا جرمنی آنے کا مقصد پورا ہوگیا ہے۔ خدا تعالیٰ حضور کو لمبی زندگی عطا فرمائے ۔ ہمارا خلافت کے ساتھ ہمیشہ وفا کا تعلق قائم رہے اور ہماری اولادیں بھی ہمیشہ خلافت کے ساتھ وابستہ رہیںاور وفا کا تعلق قائم رکھیں۔

ربوہ سے تعلق رکھنےوالے ایک نوجوان کہنے لگے کہ میرا دل ابھی تک دھڑک رہا ہے اور جسم کانپ رہا ہے ۔ بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میرے دل کو بہت سکون ملا ہے ۔ مجھے اپنی زندگی میں سب کچھ مل گیا ہے ۔
ربوہ سے آنے والے ایک صاحب نے اپنے تأثرات کا اظہار کر تے ہوئے کہا۔میری بہت خوش قسمتی ہے میں اظہار نہیں کر سکتا ۔ میں بھی ایم ٹی اے پر حضور انور کو دیکھا کرتا تھا اوران پیاسی روحوں میں شامل تھا جو آج بھی حضور انور سے ملاقات کی منتظر ہیں۔ آج خدا تعالیٰ نے مجھے یہ سعادت عطا فرمادی کہ حضور انور کو اپنے قریب سے دیکھا اور حضور انور کے ہاتھوں کو چھؤا اور برکتیں حاصل کیں۔ بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے نور ہی نور دیکھا ہے ۔

کھاریاں سے آنے والے ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضور انور کے چہرہ پر ایک ایسا نور ہے کہ مجھ سے کچھ بولا نہ گیا۔ میں سوچ کر آیا تھا کہ یہ یہ بات کروں گا لیکن کچھ بول نہ سکا اور میرا جسم کانپنے لگ گیا اور میں بات نہ کر سکا۔

گجرات سے آنے والے ایک نوجوان کہنے لگے کہ میں نے حضور انور سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن مجھ سے بولا نہیں گیا ۔ میرا دل دھڑک رہا تھا ۔ حضور انور نے خود ہی مجھ سے بات کی اور میرے کیس کے بارہ میں پو چھا ۔ اس وقت بھی میرے جسم پر کپکپی طاری ہے ۔

ربوہ سے آنے والے ایک نوجوان کہنے لگے کہ میرا دل دھڑک رہا ہے ، میرا جسم کانپ رہا ہے ۔ حضور انور کے چہرہ پر اتنا نور تھا کہ میں دیکھ نہیں سکا ۔ مجھ سے بولا نہیں جا رہا ۔ موصوف کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔

کھاریاں سے آنے والے ایک نوجوان کہنے لگے کہ آج حضور انور سے ملاقات کے بعد اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں ۔ حضور کو اللہ تعالیٰ لمبی زندگی عطا فرمائے اور خلافت کا سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے۔

سانگلہ ہل سے آنےوالے ایک نوجوان نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ آج میں اپنی خوشی کی حالت الفاظ میں بیان کرنے کی سکت نہیں پاتا ۔ جیسے کسی انسان کو اس کی انتہائی قیمتی گمی ہوئی چیز مل جائے تو اس کی جو حالت ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ آج میری حالت ہے ۔ ہم اپنے آقا کے دیدار کو ترسے ہوئے تھے آج وہ دیدار ہو گیا ۔ ایسے لگ رہا ہے کہ آج مجھے ایک بہت بڑی نعمت مل گئی ہے ۔ اس ملاقات کو میں زندگی بھر یاد رکھوں گا ۔

شیخوپورہ سے آنے والے ایک دوست نے بیان کیا کہ خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج ملاقات کا موقع عطا ہوا۔ میں بہت خوش قسمت ہوں ۔ مجھے یہ ملاقات زندگی بھر یاد رہے گی اور ہمیشہ میری زندگی کا حصہ رہے گی ۔

ربوہ سے آنے والے ایک نوجوان نےاپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا یہاں ہال سے باہر جانے کو دل نہیں کر رہا ۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک کونے میں کھڑا ہو کر حضور کو دیکھتا رہوں ۔ میرا دل دھڑک رہا ہے ، ہاتھ کانپ رہے ہیں ۔ ان پر ایک کپکپی طاری تھی اور آنکھوں میں آنسو تھے ۔

ربوہ سے آنے والے ایک نوجوان نے عرض کیا کہ اس وقت میر ادل اند رسے رو رہا ہے ۔ میرے والدین فوت ہو چکے ہیں ۔ آج میں نے ان دونوں کے لیے دعا کی درخواست کی ہے۔ مجھےآج بہت سکون ملا ہے ۔ آج کا دن میری زندگی کا ایک اہم دن ہے ۔

گوجرانوالہ سے آنے والے ایک نوجوان نے بیان کیا کہ میری زندگی کی ساری خواہشات آج ہی پوری ہو گئی ہیں۔ اب میری زندگی کی کوئی خواہش نہیں رہی ۔ زندگی میں ایسا موقعہ پتہ نہیں کب دوبارہ ملتا ہے ۔ میں بہت خوش قسمت انسان ہوں۔ خدا کے خلیفہ کے ہاتھوں کو چھؤا ہے ۔

ربوہ سے آنے والے ایک نوجوان کہنے لگے کہ میں دعا کیا کرتا تھا کہ کبھی میری زندگی میں میری حضور انور سے ملاقات ہو ۔ مجھے بھی آقا کے دیدار کی گھڑی نصیب ہو ۔ آج میں بہت خوش نصیب انسان ہوں کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے اور آج مجھے حضور انور کے دیدار کی گھڑی نصیب ہو گئی ہے ۔ میں نے اپنا ہاتھ حضور انور کے ہاتھوں میں دیا اور حضور انور سے دعا کے لیے بھی کہا۔

اکثر نوجوانوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمیں آج اس قدر دلی سکون ، اطمینان اورخوشی ہے کہ ہمارے پاس بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں ۔ ہم نے آج وہ کچھ دیکھا ہے اور وہ پایا ہے جس کے بارہ میں پہلے کبھی سوچا بھی نہ تھا ۔

آج ملاقات کرنے والے سبھی احباب اور نوجوانوں نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی پائی ۔ ملاقات کا یہ پروگرام 6بج کر 32منٹ تک جاری رہا ۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے جہاں پروگرام کے مطابق فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں ۔

آج شام کے اس سیشن میں 29فیملیز کے 118افراد اور اس کے علاوہ 40احباب نے انفرادی طور پر ملاقات کی سعادت حاصل کی ۔ ملاقات کرنے والی فیملیز جرمنی کی مختلف 70جماعتوں سے آئی تھیں۔ ان میں سے بعض تو بڑے لمبے سفر طے کر کے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لیے پہنچی تھیں۔

کاسل ، KOLN،ڈورٹمنڈ سے آنے والے قریباً 230کلو میٹر ، REUTLINGENسے آنے والے 250کلو میٹر اور بوخالٹ کے علاقہ سے آنے والی فیملیز 300کلومیٹر کا سفر طے کر کے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کے لیے پہنچی تھیں۔

اس کے علاوہ آج ملاقات کرنے والوں میں پاکستان، غانا، بورکینا فاسو، سوئٹزرلینڈ، تنزانیہ، سعودی عرب ، بینن، سینیگال، لائبیریا، آسٹریلیا، کانگو، مالی ، نائیجر ، سیرالیون ، گیمبیا ، یونان اور فن لینڈ سےآنے والے احباب اور فیملیز نے بھی اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا ۔

ملاقات کرنے والے ان سبھی احباب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی ۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبا اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام شام ساڑھے آٹھ بجے تک جاری رہا بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے ۔

بعد ازاں پروگرام کے مطابق 9بج کر 25منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لائے اور تقریب آمین کا آغاز ہوا ۔

درج ذیل 38خوش نصیب بچوں اوربچیوں سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی ۔

عزیزان فوزان اختر، طلال احمد، حسیب ملک، شایان احمد کاہلوں، جاذب احمد، نایاب احمد طاہر، شعیب احمد خان، نورالدین چغتائی ، آیان احمد، حسیب احمد، رانا مسرور احمد محمود، فارس احمد، فاران احمد مصطفیٰ، تحریم عطاء، فہیم احمد، توحید احمد، کرشن احمد، درمان احمد مبارک، لقمان محمود، شایان حفیظ، نوید احمد نثار، مصور احمد۔

عزیزات علیشہ ملک، خوباں قمر، علینہ روپ رفیع، انوش عتیق کائنہ امتیاز، ماریہ طارق، ارج للی مبارک، لبینہ سوسن احمد، ہانیہ افزاء شہروز، ہبۃ الشافی مبارک، عافیہ عاصم، صبیہ انجم پال، حوریہ کائنات کاشف، عروسہ احمد، فریدہ تنویر، عزیزہ عابدہ بلال ۔

تقریب آمین کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب وعشاء جمع کر کے پڑھائیں ۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

04؍ جولائی 2019ء بروز جمعرات

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چار بج کر پندرہ منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

دو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصّہ میں تشریف لے گئے۔
آج پروگرام کے مطابق جلسہ گاہ Karlsruhe کے لیے روانگی تھی۔ پانچ بج کر 45 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور دعا کروائی اور یہاں سے Karlsruhe کے لیے روانگی ہوئی۔

بیت السبوح فرینکفرٹ سے Karlsruhe کا فاصلہ 160 کلو میٹر ہے۔یہ جگہ جہاں جلسہ کا انعقاد ہوتا ہے K-Messe کہلاتی ہے۔ اس کا کُل رقبہ ایک لاکھ پچاس ہزار مربع میٹر ہے اور اس کا Covered حصّہ 70 ہزار مربع میٹر ہے۔ اس میں چار بڑے ہال ہیں اور یہ چاروں ہال ایئرکنڈیشنز ہیں۔ ہر ہال کا رقبہ 1250مربع میٹر ہے اور ہر ہال میں کرسیوں پر بارہ ہزار افراد بیٹھ سکتے ہیں اور ہر ہال میں اٹھارہ ہزار سے زائد لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔

ان چاروں ہالوں سے ملحق مجموعی طور پر 128 بیوت الخلا ہیں اور بہت سے چھوٹے ہال اور کمرے بھی ہیں۔ یہاں دس ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ موجود ہے۔

قریباً ایک گھنٹہ 55 منٹ کے سفر کے بعد سات بجکر چالیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جلسہ گاہ تشریف آوری ہوئی۔ جونہی حضور انور گاڑی سے باہر تشریف لائے تو افسر جلسہ سالانہ محمد الیاس مجوکہ صاحب اور افسر جلسہ گاہ حافظ مظفر عمران صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔
بعد ازاں حضور انور کچھ دیر کےلیے اپنے رہائشی حصّہ میں تشریف لے گئے۔

قریباً آٹھ بجے جلسہ سالانہ کے انتظامات کا معائنہ شروع ہوا۔ نائب افسران جلسہ سالانہ جن کی تعداد 14 ہے ایک قطار میں کھڑے تھے۔ حضور انور نے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنا ہاتھ بلند کر کے سب کو السلام علیکم کہا اور فرمایا اچھا یہ نائب افسران ہیں۔

جماعت ہمبرگ (Hamburg) سے سات خدام اور چار اطفال 680 کلومیٹر کا سفر پانچ ایام میں سائیکلوں پر طے کر کے جلسہ گاہ پہنچے تھے۔ یہ سب ایک طرف کھڑے تھے۔ حضور انوراز راہ شفقت ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہوں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم 680 کلو میٹر کا سفر طے کر کے آج ہی پہنچے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ماشاء اللہ، 680 کلومیٹر کا سفر طے کیا ہے۔

بعد ازاں سب سے پہلے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شعبہ رجسٹریشن اور کارڈ سکیننگ سسٹم کا معائنہ فرمایا۔

مردانہ جلسہ گاہ کے ساتھ ایک کُھلےایریا میں ایک بڑی مارکی لگائی گئی ہے۔ جن لوگوں کو ہال میں جگہ نہ مل سکے وہ اس مارکی میں بیٹھیں گے اور یہاں باقاعدہ صفوں کے لیے لائنیں لگا کر نماز کا انتظام کیا گیا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مارکی کے بارہ میں دریافت فرمایا۔

اس کے بعد حضور انور نے اُس سٹور کا معائنہ فرمایا جہاں کھانے پہنے اور استعمال کی مختلف اشیا سٹور کی گئی ہیں۔ یہاں سے ضرورت کے مطابق ساتھ ساتھ یہ اشیا مختلف شعبوں کو مہیّا کی جاتی ہیں۔

اس سٹور کے بالمقابل ایک دوسرے حصّہ میں مختلف ممالک سے آنے والے غیر ملکی مہمانوں کے لیے کھانا کھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ حضور انور نے اس حصّہ کو بھی دیکھا اور انتظام کے بارہ میں دریافت فرمایا۔
اس کے بعد حضور انور نے لنگر خانہ کا معائنہ فرمایا۔ سب سے پہلے حضور انور نے گوشت کی کٹائی کا جائزہ لیا اور منتظمین سے اس بارہ میں گفتگو فرمائی۔ اس گوشت کو ایک معین ٹمپریچر پر محفوظ کرنے کے لیے ایک کنٹینر نما فریزر حاصل کیا گیا ہے جس میں ٹنوں کے حساب سے گوشت رکھا جا سکتا ہے۔
بعد ازاں حضور انور نے لنگر خانہ کا معائنہ فرمایا اور کھانا پکانے کے انتظامات کا جائزہ لیا اور کھانے کا معیار دیکھا۔

مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کے لیے ان کی ضرورت اور مزاج کے مطابق علیحدہ کھانا تیار کیا گیا تھا۔ حضور انور نے اس کا بھی جائزہ لیا۔ جلسہ سالانہ پر آنے والے ہزاروں مہمانوں کے لیے آج آلو گوشت اور دال کا سالن تیار کیا گیا تھا اور ساتھ وہ نان بھی رکھے گئے تھے جو مہمانوں کو دیئے جانے تھے۔
حضور انور نے از راہ شفقت آلو گوشت اور دال سے چند لقمے تناول فرمائے اور اس بات کا جائزہ لیا کہ دونوں سالن صحیح پکے ہوئے ہیں یا ان میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ حضور انور نے کھانے کے معیار کے بارہ میں منتظمین سے گفتگو فرمائی۔

لنگر خانہ کے کارکنان نے ایک بڑے سائز کا کیک تیار کیا ہوا تھا۔ حضور انور نے از راہ شفقت اپنے ان خدام کے لیے کیک کے مختلف حصّے کیے اور ایک ٹکڑا تناول فرمایا۔

لنگر خانہ کے باہر ‘‘دیگ واشنگ مشین’’ لگائی گئی تھی۔ یہ مشین گزشتہ گیارہ بارہ سالوں سے لگائی جا رہی ہے اور ہر سال اس میں مزید بہتری لائی جا رہی ہے۔ یہ مشین احمدی انجینئرز نے مل کر خود تیار کی ہے۔ آغاز میں یہ صورت تھی کہ مشین پر دیگ رکھنے کے بعد ایک بٹن دبانا پڑتا تھا۔ لیکن گزشتہ ایک دو سالوں میں اس میں بہتری لائی گئی ہے۔ اب یہ بٹن نہیں دبانا پڑتا بلکہ جونہی دیگ صفائی کے لیے رکھی جاتی ہے خود بخود فنکشن شروع ہو جاتا ہے اور دیگ دھلنے کا پراسز مکمل ہونے کے بعد خود بخود باہر آ جاتی ہے۔
اس مشین کے حوالہ سے حضور انور نے امیر صاحب سے گفتگو فرمائی۔ بعد ازاں لنگر خانہ کے کارکنان نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کی سعادت پائی۔

لنگر خانہ کے قریب ہی کھانا کھانے کے لیے دو بڑی وسیع مارکیز لگائی گئی تھیں۔ قریب ہی چائے کا سٹال بھی تھا۔ حضور انور نے ان انتظامات کو دیکھا اور اس حوالہ سے افسر صاحب جلسہ سالانہ سے بعض امور پر استفسار فرمایا۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پرائیویٹ خیمہ جات کے ایریا میں تشریف لے آئے۔ اور خیمہ جات کے درمیانی راستہ سے گزرے۔ راستہ کے دونوں اطراف جرمنی کی مختلف جماعتوں اور علاقوں سے آنے والی فیملیاں اپنے اپنے خیموں کے پاس کھڑی تھیں۔ یہ سبھی لوگ اپنے ہاتھ بلند کر کے حضور انور کی خدمت میں سلام عرض کرتے۔ حضور از راہ شفقت اپنا ہاتھ بلند کر کے ان کے سلام کا جواب دیتے اور بعض سے حضور انور نے ان کے خیموں کے حوالہ سے گفتگو بھی فرمائی۔ مختلف اطراف سے احباب مسلسل نعرے بلند کر رہے تھے۔

حضور انور نے از راہ شفقت ایک خیمہ کے قریب جا کر اس کا معائنہ فرمایا اور اس خیمہ میں ٹھہرنے والی فیملی سے گفتگو فرمائی اور یہ بھی دریافت فرمایا کہ کتنے لوگ اس خیمہ میں قیام کر سکتے ہیں اور اس خیمہ میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی راستہ ہے یا اور بھی راستے ہیں۔ خیمہ کے اندر باقاعدہ ایک بیڈ کا بھی انتظام کیا ہوا تھا۔ اس بارہ میں فیملی نے بتایا کہ ہمارے ایک ممبر تکلیف کی وجہ سے زمین پر نہیں لیٹ سکتے اس لیے ان کے لیے ہم نے ایک بیڈ کا انتظام کیا ہے۔

پرائیویٹ خیمہ جات کے احاطہ کے ایک طرف ایک حصّہ پرائیویٹ Caravan کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ ان خیمہ جات اور Caravan کے ارد گرد فینس لگائی گئی ہے اور گیٹ بھی بنائے گئے ہیں اور اس احاطہ میں رجسٹریشن، کارڈ کی چیکنگ اور سکیننگ کے بعد ہی داخل ہوا جا سکتا ہے۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ جلسہ گاہ کے انتظامات کے معائنہ کے لیے تشریف لے گئے۔ لجنہ کے لیے کھانا کھانے کا انتظام اور ان کے بازار کا انتظام بیرونی کُھلے ایریا میں مارکیز لگا کر کیا گیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں موجود ہالز میں ان کے جلسہ گاہ کے لیے وسیع جگہ مہیّا ہو گئی ہے۔ حضور انور نے لجنہ کے انتظامات کا معائنہ فرمایا اور ان کے جملہ انتظامات کا جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا۔

لجنہ کے جلسہ گاہ میں ناظمہ اعلیٰ کے تحت دس نائب ناظمہ اعلیٰ، 58 ناظمات، 72 منتظمات، 386 نائب ناظمات، گیارہ انچارج اور 4698 معاونات خدمت سر انجام دے رہی ہیں۔

لجنہ جلسہ گاہ کے انتظامات کے معائنہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے MTA سٹوڈیو کا معائنہ فرمایا اور MTA3 العربیہ کی ٹیم سے از راہ شفقت گفتگو فرمائی۔

اس کے بعد حضور انور MTA کی مارکی میں تشریف لے گئے جہاں MTA کے مختلف شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں۔ یہاں MTA کے تحت مختلف پراجیکٹس بنائے جا رہے ہیں، گرافکس اور ایڈیٹنگ کے شعبہ جات بھی اسی جگہ کام کر رہے ہیں۔

بعد ازاں حضور انور نے کتب کے سٹور اور سٹال کا معائنہ فرمایا۔ یہاں مختلف میزوں اور سٹینڈز پر بڑی ترتیب کے ساتھ کتب رکھی گئی تھیں تاکہ کتب حاصل کرنے والے احباب بآسانی اپنی مطلوبہ کتب حاصل کر سکیں۔

نیشنل سیکرٹری اشاعت نے عرض کیا کہ نئی کتب میں براہین احمدیہ چاروں حصّوں کا جرمن ترجمہ شائع ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کتاب Essence of Islam کا بھی جرمن ترجمہ شائع ہوا ہے۔ حضور انور نے یہ کتب دیکھیں۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اُس حصّہ میں تشریف لے آئے جہاں مختلف شعبہ جات کے دفاتر قائم کیے گئے ہیں۔ ان شعبہ جات میں شعبہ وقف نو، رشتہ ناطہ، شعبہ IAAAE، شعبہ ہیومینٹی فرسٹ، خدام Cafe، شعبہ تعلیم، جامعہ احمدیہ، الفضل انٹرنیشنل، شعبہ تعلیم القرآن، شعبہ امور عامہ، شعبہ وصیت اور شعبہ جائداد کے دفاتر قائم کیے گئے ہیں۔

حضور انور نے انتظامیہ سے ان سب دفاتر کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ حضور انور از راہ شفقت ‘‘الفضل انٹرنیشنل’’ اور ‘‘جامعہ احمدیہ’’ کے سٹال پر تشریف لے گئے۔ خدام کے سٹال کا بھی معائنہ فرمایا۔

بعد ازاں حضور انور ‘‘ہیومینٹی فرسٹ جرمنی’’ کے سٹال پر تشریف لے گئے اور ہیونٹی فرسٹ کا Appلاؤنچ کیا اور اس کے مختلف فنکشنز کے بارہ میں انچارج صاحب شعبہ ڈاکٹر اطہر زبیر صاحب سے دریافت فرمایا۔ انچارج صاحب نے بتایا کہ اس میں ہیونٹی فرسٹ، خدمت انسانیت اور رفاہ عامہ کے کاموں کے بارہ میں حضور انور کے ارشادات اور خطابات ڈالے جائیں گے۔ خدمت انسانیت کے حوالہ سے جو جو کام ہو رہے ہیں وہ ظاہر کیے جائیں گے جو لوگ ان خدمت کے کاموں کے لیے فنڈ دینا چاہتے ہیں ان کے لیے اس پروگرام میں پوری معلومات مہیّا ہو ں گی۔ پوری دنیا میں ہیومنٹی فرسٹ کے تحت ہونے والے پروگراموں کی رپورٹ بھی اس میں آیا کرے گی۔

ملک ساؤ ٹومے (Sao Tome) میں حکومت نے ہیومینٹی فرسٹ کو ہسپتال کے آغاز کے لیے جو عمارت مہیّا کی ہے اس کی تصاویر بھی یہاں آویزاں کی گئی تھیں۔ اس عمارت کا ماڈل بنا کر بھی یہاں رکھا گیا تھا۔ حضور انور نے یہ تصاویر اور اس عمارت کا ماڈل دیکھا۔

چیئرمین صاحب ہیومینٹی فرسٹ جرمنی نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک سال قبل حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ دو لاکھ پچاس ہزار یورو میں ہسپتال بنا دیں۔ حضور انور نے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ کر دے گا۔

اب خدا تعالیٰ کا فضل ایسا ہوا ہے کہ ساؤ ٹومے کی حکومت نے ہمیں پانچ ملین ڈالر کا ہسپتال دیا ہے جو گزشتہ آٹھ سال سے بند پڑا تھا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ہے کہ یہ تو کمال ہو گیا ہے پھر تو اب آپ دو لاکھ یورو میں کام شروع کر دیں گے۔

ہیومینٹی فرسٹ نے ایک کٹ تیار کی ہےجو ایک جیکٹ، پن کا سیٹ، نوٹ بک، پن ہولڈر، ویٹ پیپر، واسکٹ، وال کلاک، Sunگلاسز ، کیپ اور ایک جناح کیپ پر مشتمل ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت باقاعدہ رقم ادا کر کے یہ کٹ خریدی اور ساتھ ہی انچارج صاحب کو ہدایت فرمائی کہ ملک Sao Tome سے جو نمائندہ آئے ہوئے ہیں ان کو تحفہ میں دے دیں۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اُس حصّہ میں تشریف لے گئے جہاں سے MTA کی براہ راست نشریات کے انتظامات کیے گئے تھے۔ تین وین موجود تھیں جن میں MTA کے اپ لنک کے لیے تمام آلات اور مشینری نصب تھی۔ ایک وین کے ذریعہ MTA کے Live پروگرام جلسہ گاہ سے براہ راست اپ لنک ہوں گے۔ دوسری وین سے MTA1 اور تیسری وین سے MTA3 کے پروگراموں کی نشریات ہوں گی۔ ان انتظامات کا حضور انور نے جائزہ لیا اور مختلف امور کے حوالہ سے منتظمین سے گفتگو فرمائی۔
جلسہ گاہ کے مین ہال سے باہر ایک مارکی لگا کر اور مختلف کیبن بنا کر جلسہ سالانہ کے تمام پروگراموں اور تقاریر کا مختلف زبانوں میں Live ترجمہ کا انتظام کیا گیا ہے۔ یہاں ٹرانسلیشن کے بیس کیبن لگائے گئے ہیں درج ذیل 13 زبانوں میں جلسہ سالانہ کے تمام پروگراموں کا ترجمہ ہو گا۔

عربی، البانین، بنگلہ، بوزنین، بلغارین انگریزی، فرنچ، جرمن، انڈونیشین، رشین، سپینش، ترکش اور اردو۔ اس کے علاوہ جلسہ مستورات کے خصوصی سیشن کے لیے سات زبانوں میں ترجمہ کا انتظام کیا گیا ہے۔ مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے والے مترجمین اپنی مارکی سے باہر کھڑے تھے۔

…………………………………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button