کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ و السلام

‘‘اے دانشمندو!تم اس سے تعجب مت کرو کہ خدا تعالیٰ نے اس ضرورت کے وقت میں اور اس گہری تاریکی کے دنوں میں ایک آسمانی روشنی نازل کی اور ایک بندہ کو مصلحت عام کے لیے خاص کر کے بغرض اعلائے کلمۂ اسلام و اشاعتِ نورِ حضرتِ خیر الانام اور تائید مسلمانوںکے لیے اورنیز اُن کی اندرونی حالت کے صاف کرنے کے ا رادہ سے دنیا میں بھیجا ۔تعجب تو اس با ت میں ہوتاکہ وہ خداجو حامی ٔ دین اسلام ہے جس نے وعدہ کیاتھا کہ مَیں ہمیشہ تعلیم قرآنی کا نگہبان رہوںگا اور اسے سرد اور بے رونق اور بے نور ہونے نہیں دوں گا وہ اس تاریکی کو دیکھ کر اور ان اندرونی اور بیرونی فساد وں پر نظر ڈال کر چُپ رہتااوراپنے اُس وعدہ کو یاد نہ کرتا جس کو اپنے کلام میں موکّد طور پر بیا ن کر چکا تھا ۔ پھر مَیںکہتاہوں کہ اگرتعجب کی جگہ تھی تو یہ تھی کہ اس پاک رسول کی یہ صاف اور کھلی کھلی پیشگوئی خطا جاتی جس میں فرمایا گیاتھا کہ ہرایک صدی کے سر پر خداتعالیٰ ایک ایسے بندہ کو پیدا کرتا رہے گا کہ جو اس کے دین کی تجدید کرے گا ۔

سو یہ تعجب کا مقام نہیں بلکہ ہزار در ہزار شکرکا مقام اور ایمان اور یقین کے بڑھانے کاوقت ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے وعدہ کو پور ا کردیا اوراپنے رسول کی پیشگوئی میں ایک منٹ کا بھی فرق پڑنے نہیں دیا ۔او رنہ صرف اس پیشگوئی کو پورا کرکے دکھلایا بلکہ آئندہ کے لیے بھی ہزاروں پیشگوئیوں اور خوارق کا دروازہ کھول دیا ۔ اگر تم ایماندار ہو تو شکر کرو اور شکرکے سجدات بجا لائو کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباءگزر گئے اور بے شمار روحیں اُس کے شوق میں ہی سفر کر گئیں وہ وقت تم نے پالیا۔ اب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اوراس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ مَیں اس کوباربار بیان کرو ں گا اور اس کے اظہار سے مَیںرُک نہیں سکتاکہ مَیں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لیے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طورپر دلوں میں قائم کردیاجائے ۔ مَیں اُس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اللہ مرد خدا کے بھیجا گیا تھا جس کی روح ہیروڈیس کے عہدحکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی ۔سو جب دوسرا کلیم اللہ جو حقیقت میں سب سے پہلا اور سیّدالانبیاء ہے دوسرے فرعونوں کی سرکوبی کے لیے آیا جس کے حق میں ہے

اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ سُوْلًا(المزمل:16)۔

سو اس کو بھی جو اپنی کارروائیوں میں کلیم اوّل کا مثیل مگررتبہ میں اس سے بزرگ ترتھا ایک مثیل المسیح کا وعدہ دیا گیا اور وہ مثیل المسیح قوت اور طبع اور خاصیّت مسیح ابن مریم کی پا کر اُسی زمانہ کی مانند اور اسی مدت کے قریب قریب جو کلیم اوّل کے زمانہ سے مسیح ابن مریم کے زمانہ تک تھی یعنی چودھویں صدی میں آسمان سے اُترا اور وہ اُترنا روحانی طور پر تھا جیسا کہ مکمل لوگوں کا صعُود کے بعد خلق اللہ کی اصلاح کے لیے نزول ہوتاہے اور سب باتوں میں اُسی زمانہ کے ہم شکل زمانہ میں اترا جو مسیح ابن مریم کے اُترنے کا زمانہ تھا تا سمجھنے والوں کے لیے نشان ہو۔ پس ہرایک کو چاہیے کہ اس سے انکار کر نے میں جلدی نہ کرے تاخداتعالیٰ سے لڑنے والا نہ ٹھہرے ۔ دنیا کے لوگ جو تاریک خیال اور اپنے پُرانے تصورات پر جمے ہوئے ہیں وہ اس کو قبول نہیں کریں گے مگر عنقریب وہ زمانہ آنے والاہے جو اُن کی غلطی اُن پر ظاہرکر دے گا ۔

دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہیں کیا۔ لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ یہ انسان کی بات نہیں خداتعالیٰ کا الہام اور ربّ جلیل کاکلام ہے ۔ اور مَیں یقین رکھتاہوں کہ اُن حملوں کے دن نزدیک ہیں ۔ مگر یہ حملے تیغ و تبر سے نہیں ہوںگے اور تلواروں اور بندوقوں کی حاجت نہیں پڑے گی۔ بلکہ روحانی اسلحہ کے ساتھ خداتعالیٰ کی مدد اُترے گی اور یہودیوں سے سخت لڑائی ہوگی ۔ وہ کون ہیں ؟ اِس زمانہ کے ظاہر پرست لوگ جنہوں نے بالاتفاق یہودیوں کے قدم پر قدم رکھاہے ۔ اُن سب کو آسمانی سیف اللہ دو ٹکڑے کرے گی اوریہودیّت کی خصلت مٹادی جائے گی اور ہر ا یک حق پوش ، دجّال، دنیا پرست، یک چشم جو دین کی آنکھ نہیں رکھتاحُجّت قاطعہ کی تلوار سے قتل کیا جائے گا اور سچائی کی فتح ہوگی اوراسلام کے لیے پھر اُس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جوپہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیساکہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں ۔ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہوجائیں اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لیے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلّتیںقبول نہ کرلیں ۔ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے ۔وہ کیاہے؟ ہمارا اِسی راہ میں مرنا ۔ یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی ،مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے اور یہی وہ چیزہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ اِسی اسلام کا زندہ کرنا خداتعالیٰ اب چاہتاہے اور ضرورتھا کہ وہ اس مہم عظیم کے رَوبراہ کرنے کے لیے ایک عظیم الشان کارخانہ جوہرایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سواُس حکیم وقدیر نے اس عاجز کو اصلاحِ خلائق کے لیے بھیج کرایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لیے کئی شاخوں پر امر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کردیا چنانچہ منجملہ ان شاخوں کے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اس عاجزکے سپرد کیا گیا۔ اوروہ معارف ودقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صرف خداتعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں اور انسانی تکلّف سے نہیں بلکہ روح القدس کی تعلیم سے مشکلات حل کر دیے گئے ۔

دوسری شاخ اس کارخانہ کی ا شتہارات جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو بحکم الٰہی اتمام حجت کے غرض سے جاری ہے اور اب تک بیس ہزار سے کچھ زیادہ اشتہارات اسلامی حجتوں کو غیر قوموں پر پورا کرنے کے لیے شائع ہوچکے ہیں اورآئندہ ضرورت کے وقتوں میں ہمیشہ ہوتے رہیں گے’’۔

( فتح اسلام ۔ روحانی خزائن جلد سوم صفحہ 6تا 13)

…………………………………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button