کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ و السلام

’’ بعض آدمی دیکھے گئے ہیں کہ جب کوئی ابتلاءآ جائے تو گھبرا اُٹھتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے شکوہ کرنے لگتے ہیں۔ اُن کی طبیعت میں ایک افسردگی پائی جاتی ہے کیونکہ وہ صلح جو کُلّی طور پر خدا تعالیٰ سے ہونی چاہئے اُن کو حاصل نہیں ہوتی۔ خداتعالیٰ سے انسان کی اُسی وقت تک صُلح رہ سکتی ہے کہ جب تک اُس کی مانتا رہے۔ یہ بھی یاد رکھو کہ خداتعالیٰ کا معاملہ ایک دوست کا معاملہ ہے، کبھی ایک دوست دُوسرے کی مان لیتا ہے اور دُوسرے وقت اُس کو اس دوست کی ماننی پڑتی ہے اور یہ تسلیم خوشی اور انشراح صدر سے ہونی چاہیے نہ کہ مجبوراً۔

اللہ تعالیٰ ایک جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔

وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ (البقرہ:156)

یعنی ہم آزماتے رہیں گے کبھی ڈرا کر، کبھی بھوک سے ،کبھی مالوں اور ثمرات وغیرہ کا نقصان کر کے ۔ یہاں ثمرات میں اولاد بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ بڑی محنت سے کوئی فصل تیار کی اور یکایک اُسے آگ لگ گئی اور وہ تباہ ہو گئی۔ یاد یگر اُمور کے لیے محنت اور مشقّت کی مگر نتیجہ میںناکام رہ گیا۔ غرض مختلف قسم کے ابتلاء اور عوارض انسان پر آتے ہیں اور یہ خداتعالیٰ کی آزمائش ہے۔ ایسی صورت میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور اس کی تقدیر کے لیے سر تسلیم خم کرتے ہیں وہ بڑی شرح صدر سے کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔کسی قسم کا شکوہ اور شکایت یہ لوگ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جن کے حصہ میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کو مشکلات میں راہ دکھادیتا ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی کریم ورحیم اور بامروّت ہے۔ جب کوئی شخص اس کی رضا کو مقدّم کر لیتا ہے اوراُس کی مرضی پر راضی ہو جاتا ہے تو وہ اُس کو اُس کا بدلہ دیے بغیر نہیں چھوڑتا‘‘۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ255۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

’’خداتعالیٰ کے مامور پر ایمان لانے کے ساتھ ابتلاءضروری ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ العنکبوت:3)

کیا لوگوں نےسمجھاکہ چھوڑے جائیں گے یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لائے اور آزمائے نہ جائیں گے۔ گویا ایمان کی شرط ہے آزمایا جانا۔ صحابہ کرام کیسے آزمائے گئے۔ ان کی قوم نے طرح طرح کے عذاب دیے۔ ان کے اموال پر بھی ابتلاء آئے، جانوں پر بھی، خویش واقارب پر بھی۔ اگر ایمان لانے کے بعد آسائش کی زندگی آجاوے تو اندیشہ کرنا چاہئے کہ میرا ایمان صحیح نہیں۔ کیونکہ یہ سنت اللہ کے خلاف ہے کہ مومن پر ابتلاء نہ آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ جب اپنی رسالت پر ایمان لائے تو اسی وقت سے مصائب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ عزیزوں سے جُدا ہوئے۔ میل ملاپ بند کیا گیا۔ ملک سے نکالے گئے۔ دشمنوں نے زہر تک دے دیا۔ تلواروں کے سامنے زخم کھائے۔ اخیر عمر تک یہی حال رہا۔ پس جب ہمارے مقتداء وپیشوا کے ساتھ ایسا ہوا تو پھر اس پر ایمان لانے والے کون ہیںجو بچے رہیں۔ ایسے ابتلاء جب آویں تو مردانہ طریق سے ان کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ابتلاء اسی واسطے آتے ہیں کہ صادق جُدا ہو جائے اور کاذب جُدا۔ خدا رحیم ہے مگر وہ غنی اور بے نیاز بھی ہے۔ جب انسان اپنے ایمان کو استقامت کے ساتھ مدد نہ دے تو خداتعالیٰ کی مدد بھی منقطع ہو جاتی ہے۔ بعض آدمی صرف اتنی سی بات سے دہریہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا لڑکا مر گیا یا بیوی مر گئی یا رزق کی تنگی ہو گئی۔ حالانکہ یہ ایک ابتلاء تھا جس میں پورا نکلتے تو انہیں اس سے بڑھ کر دیا جاتا ‘‘۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ444-445۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button